روحان نے سرد آہ بھری اور واپس صوفے پر بیٹھ گیا۔
“کاش میں نے اس کی بات مان لی ہوتی۔۔۔۔۔۔ کاش میں پہلے ہی کوئی قدم اٹھا لیتا۔۔۔۔۔۔۔ کہا بھی تھا اس نے مجھ سے۔” وہ بے بسی سے سر جھٹکاتا ہوا بولا۔
نور اور کرن کو حیرانگی ہوئی کہ وہ اپنے آپ میں کیا بڑبڑا رہا ہے۔
“کس کی بات کر رہے ہو روحان” نور نے حیرت سے اسے مخاطب کیا۔
“آرین کی۔۔۔۔” اس نے بے توجہی سے کہا تو کرن کے آبرو پھیل گئے دل دھڑکنے لگا۔
“کیا کہا ہے آرین نے آپ سے” کرن نے سامنے خلاء میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
روحان ٹیک لگا کر بیٹھا اور آرین سے ملاقات کے بارے میں بتانے لگا۔
“جب ٹور سے لوٹنے کے بعد میں نے آفس جانا شروع کیا تو ایک دن وہ مجھ سے آکر ملا تھا۔۔۔۔۔
################ 3 ماہ قبل ###########
آرین تیزی سے چلتا ہوا روحان کے پیچھے آرہا تھا وہ اپنے مینیجر کے ہاتھ میں پکڑے فائل کی غلطیاں بتا رہا تھا اور اسے تصحیح کرنے کی ہدایت دے رہا تھا۔ مینیجر سر کو خم دے کر وہاں سے روانہ ہوا تو آرین نے فوراً سے روحان کو پکارا۔
“سر۔۔۔” وہ پکارتے ہوئے روحان کے سامنے آیا۔
روحان ٹھٹک کر رک گیا اور یس کہتا آرین کو دیکھنے لگا۔ آرین سمجھ گیا کہ روحان نے اسے پہچانا نہیں اس لیے اپنا تعارف بتایا۔
“سر۔۔۔۔ میرا نام آرین ہے۔۔۔۔۔ اور میں editing ڈیپارٹمنٹ سے ہوں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔” آرین نے تشویش ناک انداز میں کہا۔
روحان اپنے کیبن کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور آرین کو بھی اندر آنے کا اشارہ کیا۔
“ویسے مجھے editing کی اتنی سمجھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ پر تم کہو۔۔۔۔۔ کیا بات ہے۔” روحان نے کوٹ اتارتے ہوئے کہا اسے لگا آرین کو دفتری کام کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے۔
“سر مجھے کام کے سلسلے میں نہیں۔۔۔۔۔ ایک پرسنل بات کرنی ہے۔” آرین نے جھجکتے ہوئے کہا۔
“کیسی پرسنل بات” روحان پرسنل بات کا سن کر سنجیدہ ہوگیا اور کرسی کے پشت پر کوٹ ڈال کر آرین کے سامنے آیا۔
آرین نے غور سے اس کے تاثرات دیکھے
“آئی ایم سوری کرن۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں جب تمہیں اس بارے میں علم ہوگا۔۔۔۔۔ تم مجھ پر بہت ناراض ہوگی۔” اس دل میں سوچا اور پھر کنکارتا ہوا بولنا شروع کیا۔
“روحان۔۔۔۔ میں آپ کو ایک ہفتہ سے نوٹ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ آپ بہت خوش اخلاق ہو۔۔۔۔۔۔ سب سے بہت فرینڈلی رہتے ہو۔۔۔۔۔ میں صرف آپ سے ہی اچھائی کی امید کر سکتا ہوں۔۔۔” آرین نے ناپ تول کر مناسب الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا۔
“آرین۔۔۔۔۔ بات کیا ہے۔۔۔۔ صاف صاف کہو۔” روحان نے اس کی خوشامد سے متاثر ہوئے بغیر سپاٹ انداز میں کہا۔
“آپ اپنے بھائی کے روئیے سے تو واقف ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید آپ کے سامنے وہ ٹھیک سے رہتے ہو۔۔۔۔ لیکن اصل میں وہ ایسے نہیں ہے۔” آرین نے سر کو جنبش دیتے ہوئے بنا وقت ضائع کیے مدع پر آتے ہوئے کہا
رانا بھائی کے بارے میں سن کر روحان کے آبرو تن گئے لیکن ضبط کر کے آرین کی بات پوری ہونے تک سنتا رہا۔
“کرن رانا سر کے ساتھ خوش نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ اس کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہے۔۔۔۔۔وہ۔” آرین نے روحان کو طیش میں آتے دیکھا تو چپ ہوگیا
“کیا بکواس کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔ جانتے ہو نا۔۔۔۔۔ جس کا نام تم لے رہے ہو وہ رانا مبشر کی بیوی ہے۔۔۔۔۔ اور میری بھابھی ہے۔” روحان نے آرین کا گریبان پکڑ لیا اور بھاری آواز میں کہا۔ غصے میں روحان بھی رانا مبشر سے کم نہیں تھا۔
“میں بہت اچھے سے جانتا ہو وہ کون ہے۔۔۔۔۔ اور میں صرف آپ سے ہی کرن کی پریشانی بیان کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔ اور آپ کو سننا ہی پڑے گا۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ آج جس حال میں ہے صرف آپ کے اور آپ کی مسزز کی وجہ سے ہے۔” آرین نے پوری قوت سے اپنا گریباں چھڑایا اور اتنی ہی شدت سے جواب دیا۔
روحان دنگ رہ گیا اور کمر پر ہاتھ رکھے خود کو کمپوز کیا۔
“کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔۔۔ اور تم یہ سب کیسے جانتے ہو۔” روحان نے اب کی بار سنجیدہ لیکن دھیمے لہجے میں کہا۔
آرین نے اپنی شرٹ کی شکن درست کی اور نارمل ہوتے ہوئے ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے گویا ہوا۔
“مجھے کیسے پتا یہ ضروری نہیں ہے روحان۔۔۔۔۔۔ آپ اس میں کیا کردار نبھا سکتے ہے یہ ضروری ہے۔ ” اس نے التجائی انداز میں کہا اور ایک ایک کر کے اسے ساری کہانی بتا دی۔
روحان پھٹی نظروں سے اپنے بھائی اور ساس کی کرنی سن رہا تھا۔
“اunbelievable۔۔۔۔۔۔۔ یقین نہیں آرہا۔” روحان نے بے یقینی میں سر پکڑ لیا
“سچ کو برداشت کرنا بہت ہمت کی بات ہوتی ہے۔” آرین نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
“لیکن اب آپ کو کچھ کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن وہ آپ کی مسزز کے ساتھ بھی ایسا برتاو شروع کر دینگے۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ حالات ہمارے ہاتھ سے نکل جائے ہمیں کچھ کرنا چایئے روحان” آرین نے درپیش خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
روحان سے ضبط کرنا مشکل ہورہا تھا
” یہ میرا فیملی میٹر ہے۔۔۔۔۔۔ تمہیں اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ میرے گھر میں تھانک جھانک کرنے پر تمہیں گرفتار بھی کروا سکتا ہوں سمجھے تم۔۔۔۔۔۔۔ چپ چاپ اپنے جاب پر دھیان دو۔” اس نے آرین کو جھڑکتے ہوئے کہا اور گھسیٹ کر اپنے کیبن سے باہر دھکیلا اور دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا۔
آرین جھنجلا کر پیچے ہوا اور زور سے دیوار پر بوٹ مارا اس کی ساری محنت غارت چلی گئی۔
“میں بھی کس سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اافففففف” اس نے اضطراب سے لمبی سانس خارج کی اور بھاری ڈگ بھرتا روانہ ہوگیا۔
روحان پیشانی مسلتا ہوا آرین کے کہی باتوں میں مگن تھا۔ وہ اس بارے میں رانا بھائی سے بات کرنے ان کے کیبن کے لئے نکلا۔ جب وہ رانا مبشر کے کیبن میں داخل ہوا وہ وہاں موجود نہیں تھے پیر پٹختا وہ واپس جانے کے لئے مڑا کہ اس کی نظر ان کے کھلے لیپ ٹاپ پر پڑی۔ روحان کے دماغ میں ترقیب سوجی حالانکہ وہ رانا بھائی کے غیر موجودگی میں ان کا لیپ ٹاپ استعمال کرنے کے ارادے میں نہیں تھا وہ آہستہ چال میں ٹیبل کے قریب گیا اور رانا بھائی کی چیئر پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ کے جلتے اسکرین کو دیکھا وہاں دو سرخ نشان جل بوجھ رہے تھے اس کی دھڑکن بے ترتیب ہوگئی اس نے ایک نشان پر کلک دبایا تو آفس کی cctv کیمرے کی عکاسی کھلی۔ روحان جانتا تھا کہ آفس کے مین سیکیورٹی کا ایک کنکشن رانا بھائی کے لیپ ٹاپ میں بھی ہے اس لیے بنا کسی حیرانی کے اس نے وہ پیچ واپس کلوز کر دیا۔ دوسرا سرخ نشان دیکھ کر وہ کچھ حیران ہوا اسے کھولنے کے لیے روحان کو بہت سوچ سے کام لینا پڑا اسے یہ خوف بھی تھا کہ کہی رانا بھائی آ نہ جائے پر اسے دیکھنے کا تجسس بھی ہورہا تھا اس نے ہمت کر کے دھڑکتے دل کے ساتھ وہ نشان کلک کیا تو سامنے کھلتا منظر دیکھ کر وہ دنگ ہو کر رہ گیا۔ وہ اس کے گھر کے چپے کیمروں کی عکاسی تھی تین چار چھوٹی سکرین پر مشتمل اس پیچ پر روحان کے کمرے کے علاوہ سارے گھر کی ویڈیو چل رہی تھی۔ روحان کو پسینہ آنے لگا وہ اٹھ کھڑا ہوا اور تیزی سے پیچ کلوز کر کے وہاں سے باہر نکل گیا۔
اس دن گھر آکر بھی روحان اسی کشمکش میں مبتلا رہا۔
“آفس کی چیک ان تو سمجھ آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پر گھر کی چیک ان۔۔۔۔۔۔۔” وہ اپنے ٹیرس کے جھولے میں بیٹھا گہری سوچ میں تھا۔ نور دو مگ کافی کے بنا لائی اور ٹیبل پر ٹرے رکھ کر اس کے ساتھ کھسکتی ہوئی بیٹھی لیکن روحان غیر مروی نقطہ کو دیکھتا سوچ میں گم تھا۔
“روحان۔۔۔۔۔ کہاں کھوئے ہوئے ہو۔۔۔۔۔ آفس میں کوئی اور لڑکی مل گئی ہے گیا۔۔۔۔۔ ” نور نے شرارتی انداز میں اس کا کندھا جھنجوڑ کر متوجہ کیا۔
روحان اپنے خیالات جھٹکتے ہوئے سیدھا ہوا اور اپنے کافی کا مگ اٹھا لیا۔
“اب تک تو نہیں ملی۔۔۔۔۔ پر اب شاید ڈھونڈنی پڑے گی۔” اس نے نور کو چوٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔
نور منہ بناتے ہوئے اپنا بازو سہلاتے اس کے سایئڈ سے اٹھی۔
“ڈھونڈ کے دکھاو۔۔۔۔۔۔ ٹانگیں توڑ دوں گی تمہاری۔۔۔” نور نے دیسی بیوی کی طرح جلن کے سرخ گالوں سے کہا۔ روحان قہقہہ لگا کر ہنسا اور نور کا ہاتھ پکڑ کر واپس اسے اپنے ساتھ بیٹھایا۔
“ویسے نور۔۔۔۔۔۔۔ کیا کبھی کرن نے تم سے رانا بھائی کو لے کر کچھ کہا ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔ کہا ہو کہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔ یا کرن نے یہ شادی مجبوری میں کی ہے۔۔” روحان نے آرین کی باتوں کی تصدیق کرنا چاہی۔
“ہممممم ایسا تو کچھ نہیں کہا۔۔۔۔۔ کچھ behaviour میں تبدیلیاں آئی ہے اس کے لیکن رانا بھائی کے بارے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔۔۔ کیوں کیا کچھ ہوا ہے” نور نے سوچتے ہوئے کہا اور روحان سے سوال کیا۔
“نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ بس ویسی ہی خیال آیا تو سوچا پوچھ لوں۔۔” روحان نے بات بدل دی۔
کچھ دنوں تک روحان گھر میں رانا بھائی اور کرن کے حرکات پر نظر رکھے ہوئے تھا لیکن اس نے ایسی کوئی بات نوٹ نہیں کی جس سے معلوم ہوتا ہو کہ ان کی شادی شدہ زندگی ٹھیک نہیں چل رہی۔ روحان نے منہ بھسورتے ہوئے آرین کے جانب سے کی گئی brainwashing جھٹک دی۔
اور پھر اگلے روز اسے کرن کے امید ہونے کی خوشخبری ملی جس سے وہ آرین کی باتوں کو جھوٹ قرار دے کر بھول گیا۔
############## موجودہ دن ############
روحان نے لمبی سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
“کرن۔۔۔۔۔ تم نے ٹھیک نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں ایک دفعہ مجھ سے بات کر لینی چاہئے تھی۔۔۔۔۔۔ جب تم یہ جانتی تھی کہ میں رانا بھائی کی بات پتھر کی لکیر مانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ تو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ وہ میری خواہش کبھی خالی نہیں جانے دیتے۔۔۔۔۔۔ تم ہاں کرتی یا نا۔۔۔۔۔۔ دونوں صورتوں میں میری اور نور کی شادی ہونی ہی تھی۔۔۔۔۔ تم بتا دیتی تو شاید میں تمہارے لیے کچھ کر پاتا۔ ” روحان نے زخمی آواز میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
جہاں وہ اضطراب میں مبتلا تھا اور کرن پچھتاوے میں وہی نور اپنی ماما کے کرتوت سن کر بے حس و حرکت بیٹھی تھی۔
کرن اپنے رخسار کو صاف کرتی اٹھی اور ہتمی انداز بنایا۔
“لیکن اب میں فیصلہ کر چکی ہوں۔۔۔۔۔۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد۔۔۔۔۔۔ اب میرا ضمیر مجھے۔۔۔۔۔ اور رانا صاحب کی جاگیر بن کر رہنے کی اجازت نہیں دے رہا۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر ہونے تک تو ٹھیک تھا لیکن اب یہ تشدد میری بے قصور اولاد پر بھی پربا ہوا ہے۔” اس نے پختہ ارادہ بناتے ہوئے کہا۔
نور اور روحان نے ایک دوسرے کو تعجبی نظروں سے دیکھا۔
“مطلب۔” نور نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کھڑے ہو کر پوچھا۔
کرن ایڑی کے بل مڑی اور باری باری ان دونوں کو دیکھا۔
“مطلب میں خُلا لوں گی۔۔۔۔۔۔ رانا صاحب نے اس دفعہ مجھے توڑ کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔ اپنے اولاد کو کھونے کا زرا بھی غم نہیں ہوا انہیں۔۔۔۔۔۔۔ میرے کرداد کے لیے اتنی گری ہوئی سوچ ہے ان کی۔۔۔۔۔ ان کے اس روئیے نے میرے سوئے ہوئے سیلف رسپیکٹ (self respect ) کو للکارہ ہے۔۔۔۔ اب اور نہیں” کرن نے با اعتماد لہجے میں کہا۔
روحان اور نور کو شاک لگا وہ دم سادھے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ روحان نے افسوس میں آبرو سکھیر لیے۔
“کرن۔۔۔۔۔ جذباتیت میں لیا فیصلہ اکثر غلط ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہم جانتے ہیں تم صدمے میں ہو۔۔۔۔۔۔ لیکن اتنا بڑا قدم۔” نور آگے آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے سمجھایا۔
“جذبات میں تو میں اب تک تھی۔۔۔۔۔ اپنے رشتے کو نبھانے کی کوشش میں خود کو گنواتی رہی۔۔۔۔۔ ہوش تو ٹھوکر کھا کر آیا ہے نور۔” اس نے نور کا ہاتھ ہٹایا اور روحان کی جانب بڑھ گئی۔
“میں آپ کو فورس نہیں کرو گی۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے زیادہ رانا مبشر آپ کے سگے ہے۔۔۔۔۔۔ تب اگر میں نہیں بتا سکی پر اب تو ساری حقیقت آپ کے سامنے شیشے کی طرح صاف ہے۔” کرن نے ویران آنکھوں سے روحان کے آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ اس کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں تھا وہ بنا کسی خوف بنا کسی ڈر کے ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھی۔
“رانا مبشر کو پریشان اور تکلیف میں دیکھ کر سب سے زیادہ ٹھیس آپ کو ہوگی روحان۔۔۔۔۔۔۔ کاش ان میں آپ کے چھوتائی برابر بھی انسانیت ہوتی تو یقین کرے میں ساری زندگی سر جھکائے گزار دیتی۔۔۔۔۔۔ لیکن i am sorry اب مجھ سے اور برداشت نہیں ہوگا۔” کرن نے بھرائی آواز میں کہا۔
روحان کا جواب سننے وہ کچھ پل خاموش ہوگئی۔
روحان نے پہلے کرن کو دیکھا پھر اس کے پیچھے کھڑی نور کو اور بنا کچھ کہے لب مینچھے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ اسے دلاسہ دینے نور اس کے پیچے لپکی تو کرن نے کرب سے آنکھیں میچ لی اور لمبی آہ بھر کر اوپر جانے لگی۔ اسے یہ لڑائی اکیلے لڑنی تھی وہ نہیں جانتی تھی کیسے لیکن وہ فیصلہ کر چکی تھی اور اب اسے اپنے لیے قدم اٹھانا تھا اپنے حق میں آواز بلند کرنا تھا۔
*****************&&&&****************
وہ دورانیہ کرن نے صبر اور تحمل کر کے گزارہ۔ رانا مبشر سے تعلق ٹھیک رکھا اور قسمت کے پلٹنے کا انتظار کرتی رہی۔
############### 4 ماہ بعد ############
معمول کے بر عکس وہ آج دیر سے اٹھی اور اپنی مرضی کی شلوار قمیض پہن کر ٹہلتے ہوئے نیچے آئی اور ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔ رانا صاحب کے مشین کا دم توڑتے ہوئے اس نے انسانی انداز میں جیم اور ڈبل روٹی کھانی شروع کی۔ رانا مبشر تعجبی نظروں سے اسے غور سے دیکھ رہے تھے۔
روحان اور نور صبح صبح ہی کہی گئے ہوئے تھے بلکہ کرن نے ہی نور سے کہہ کر روحان کو گھر سے باہر لے جانے کا کہا تھا کیونکہ اب جو رانا صاحب کے ساتھ ہونے والا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ روحان کو وہ سب دیکھ کر ٹھیس پہنچے۔
کرن اپنی سیٹ سے اٹھی اور اپنے سامنے پڑے برتن اٹھا کچن میں رکھ آئی وہ رانا صاحب کے بنائے ہر قائدہ قانون کو توڑنے لگی تھی۔ اسی انداز سے وہ لاؤنج میں آئی اور ٹیبل پر ٹانگیں کھینچی بنا کر پھیلائی اور جھلاتے ہوئے ٹی وی لگایا۔
رانا صاحب کے آبرو تن گئے انہوں نے کرن کو آواز دی لیکن اس نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا اور ٹی وی میں گانے لگا کر آواز بلند کی رانا صاحب اس کے سر پر پہنچے اور ریمورٹ کنٹرول اس کے ہاتھ سے چھین کر ٹی وی بند کر دیا۔
“یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔ سارے طور طریقے بھول گئی ہو کیا۔” رانا صاحب نے ڈٹے آواز میں کہا۔
“سوری رانا صاحب۔۔۔۔۔ میں اب اور روبوٹ کی زندگی نہیں جی سکتی۔۔۔۔۔۔ اب میں ویسے ہی رہوں گی جیسا میرا دل چاہے گا۔” کرن نے با اعتماد لہجے میں سرد مہری سے کہا۔
رانا صاحب اس کی بات سے کھٹک محسوس ہوئی۔
“یہ کس لہجے میں بات کر رہی ہو تم مجھ سے۔” انہوں نے غراتے ہوئے کہا اور کرن کا بازو جکڑ لیا۔
کرن نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا اور رانا مبشر کو خود سے دور کیا۔
“بس بہت ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ مسٹر رانا مبشر۔۔۔۔۔۔ اب پانی سر سے گزر گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ جیسے بزدل مرد ہوتے ہے جو جبر دکھانے عورتوں کو دبا کر رکھتے ہے۔۔۔۔۔۔ اور آپ ہی جیسے مردوں کی وجہ سے عورتیں ضدی ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔ آپ کو آپ کے کئے کی سزا ملنے کا وقت آ چکا ہے۔۔۔۔۔۔ آج تک آپ نے دوسروں کے ساتھ جو کیا اب اس کا حساب دینے کا وقت آگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اب اپنے انجام سے نہیں بچ سکتے آپ” وہ چلاتے ہوئے اپنا غصہ اتار رہی تھی اور رانا مبشر کو کرن کی خود مختاری دیکھ کر حیرانگی ہورہی تھی۔
“اپنا منہ بند رکھو۔۔۔۔۔۔۔” وہ پھر سے آگے ہوئے اور کرن کا جبڑا دبوچ لیا۔
اسی لمحہ گیٹ سے کچھ پولیس اہلکار اسلحہ سمیت گھر میں گھس آئے اور سیکورٹی کے آدمیوں کو پرے دھکیلتے ہوئے لاؤنج میں بڑھ گئے۔
رانا صاحب نے کرن کو چھوڑا اور بے یقینی سے دیکھنے لگے وہ ہاتھ باندھ کر پر سکون کھڑی ہوگئی۔ رانا صاحب کوٹ کی شکن درست کرتے سپاٹ انداز میں آگے کو ہوئے۔
“مسٹر رانا مبشر۔۔۔۔۔ آپ کو مس کرن جمیل پر خُلا لینے کے باوجود تشدد کرنے انہیں زبردستی گھر میں رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے۔” پولیس اہلکار نے arrest warrant دکھاتے ہوئے پروفیشنل انداز میں کہا۔
رانا مبشر کی ہوائیاں اڑ گئی رنگ فک سے اڑ گیا پیروں تلے زمین نکل گئی۔
“لیکن۔۔۔۔ خلا کب ہوا۔۔۔۔۔۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے” رانا مبشر کرن کی جانب بڑھا وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ پولیس اہلکاروں نے تیزی سے رانا مبشر کو جکڑ لیا اور کرن کے آگے تحفظی بند کی شکل میں کھڑے ہوگئے۔
“مسٹر رانا مبشر۔۔۔۔۔۔ کیا یہ آپ کے سائن نہیں ہے۔۔۔۔۔” انسپیکٹر نے فائل آگے کر کے دکھائی جو کرن کا 3 صفحات پر مشتمل خلا نامہ تھا اور ہر صفحہ پر رانا مبشر کے دستخط موجود تھے۔ رانا مبشر پر گھڑوں پانی گر گیا تھا اس قلم کی لکھائی بھی وہ جانتے تھے اور دستخط کا انداز بھی۔ انہوں نے فائل سے نظریں اٹھا کر پولیس اہلکاروں کے پار کھڑی کرن کو دیکھا جو سنجیدہ انداز میں کھڑی تھی۔
“یہ سب فراڈ ہے۔۔۔۔۔۔۔ دھوکہ کیا ہے تم نے میرے ساتھ۔۔۔۔” وہ ایک مرتبہ پھر آپے سے باہر ہوگئے اور اہلکاروں کے ساتھ دھکم پیل کرتے کرن تک رسائی کی کوشش کرنے لگے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کرن کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ کرن نے اپنے خوف کو قابو رکھنے کے لئے مٹھیاں سختی سے مینچھ لی اور لمبی لمبی سانس لینے لگی۔
“یووو۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔۔۔۔۔۔ چھوڑو مجھے۔” رانا صاحب طیش میں کرن کو گالی دیتے نازیبا کلمات کہتے چلانے لگے پولیس اہلکاروں کے لیے رانا مبشر کو قابو میں رکھنا مشکل ہورہا تھا تو انسپیکٹر نے اپنی گن نکالی اور ہوائی فائر کیا۔ کرن نے ڈر کر آنکھیں بند کی اور کانوں پر ہاتھ رکھ لیئے۔
“اگر آپ نے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا تو مجھے مجبوراً آپ کو on the spot شوٹ کرنا پڑے گا مسٹر رانا۔” انسپیکٹر نے گن کا رخ رانا مبشر کی جانب کیا۔ رانا صاحب اپنے اضطراب کو قابو کرتے ڈھیلے پڑ گئے اور اہلکار کھینچتے ہوئے انہیں ساتھ لے جانے لگے۔ کرن کا دل ڈوبنے لگا آنکھیں بھیگ گئی۔ اس نے اشک بار آنکھوں سے رانا مبشر کو پولیس موبائل میں سوار ہوتے دیکھا۔ گاڑی کے نکل جانے کے بعد وہ گھٹنوں کے بل وہی بیٹھ گئی اور رونے لگی۔
*****************&&&&****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...