کوشش نہیں، ضرور آنا ہے”دلہن نے مسکراتے ہوئے کہا
“ہاہاہا،چلیں اب ہم چلتے ہیں،ویسے بھی کافی دیر ہوگئی ہے”
” اوکے بیٹا اللہ حافظ، سالار جاؤ جاکر بہن کو چھوڑ کر آؤ” عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے رانیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
“امی ان دونوں نے جانا ہے ، صرف رانیہ نے نہیں”فاطمہ نے حیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
” پہلے یہ بیٹی پرامس کریں کہ کل بھی آئی گی۔کیونکہ مجھے پتا ہے میری رانیہ بیٹی کل ضرور آئی گی۔مگر یہ بہانہ کریں گی”
“نہیں آنٹی ، میں کل ضرور آؤں گی، پرامس”حیا نے مسکراتے ہوئے عالیہ بیگم سے گلے ملتے ہوئے کہا
“بیٹا ، یہ مٹھائی آپ دونوں کے امی ابو کے لیۓ”
“آنٹی اس کی کیا ضرورت تھی”حیا نے مٹھائی کا ڈبہ پکڑتے ہوۓ کہا
“کچھ نہیں ہوتا بیٹا، صرف مٹھائی ہی تو ہے،اللہ حافظ بچو”
“اللہ حافظ ”
یہ کہنے کے بعد وہ چاروں لان سے گزرکر گھر سے باہر آگے اور گاڑی میں بیٹھ گے۔پہلے سالار نے رانیہ کو گھر چھوڑا اس کے بعد حیا کو چھوڑنے جانے لگے۔کچھ ہی دیر بعد گاڑی حیا کے گھر سامنے تھی۔
“کل آنا حیا، آج بھی آپ لوگوں کی وجہ سے کافی مزا آیا”
“جی ضرور، اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
___________________________________
حیا جب گھر کےاندر آئی تو اسے سلیم صاحب اور آسیہ بیگم لاؤنچ میں بیٹھے ہوۓ نظر آۓ۔
“آگئی ہماری بیٹی،مزا آیا شادی میں”
“جی بابا بہت مزا آیا، فاطمہ کی فیملی بہت اچھی ہے۔ان نے ہمیں بہت اچھا پروٹوکول دیا ہے، یہ مٹھائی ان نے آپ لوگوں کے لیۓ بھجوائی ہے”حیا نے مٹھائی کا ڈبہ آسیہ بیگم کو دیتے ہوئے کہا
” کیا ضرورت تھی لانے کی مٹھائی”
“ماما وہ لوگ اتنا فورس کر رہے تھے۔اب کل بارات پر جانے کا بھی آنٹی نے وعدہ لیا ہے”
” ہمیشہ خوش رہو” سلیم صاحب نے حیا ے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
“اچھا ماما بابا، میں بہت تھک گئی ہوں،تھوڑا آرام کر لوں”
” اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
___________________________________
حیا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر اپنے کمرے میں آگئی۔کمرے میں آتے ساتھ ہی وہ واشروم میں کپڑے چینچ کرنے چلی گئی۔دس منٹ بعد وہ کپڑے چینچ کر چکی تھی۔وہ لائٹ آف کر کے بیڈ پر لیٹ گئی۔
“کیا سچ میں شہریار مجھے پسند کرتا ہے، یار پھر یہ ایک طرفہ پیار ہے۔نہیں ایک طرفہ نہیں ہو سکتا۔میں اتنی پیاری ہوں،اچھی ہوں،امیر ہوں، شہریار مجھے کیوں نہیں پسند کرۓ گا۔ویسے بھی وہ جس انداز میں مجھ سے بات کرتا ہے۔اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔ویسے محبت کتنا اچھا جزبہ ہے۔یہ بےجان جسم میں روح ڈال دیتا ہے۔ قسم سے محبت وہ مرض کے جس کی کوئی دوا نہیں۔یہ انسان کو ایک جہان سے دوسرے جہان میں لے جاتا ہے۔
اگر ماما بابا کو یہ بات پتا چلی وہ کتنا خوش ہونگے۔ ان کو تو شہریار بہت پسند ہے۔ویسے بھی میں ان کی اکلوتی بیٹی ہوں۔وہ مجھے منع نہیں کرینگے۔
ابھی وہ یہی کچھ سوچ رہی تھی کہ اسے پتا بھی نہیں چلا کہ وہ کب نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
___________________________________
“مجھے ڈر ہے کہ حیا میری والی غلطی نہ کر لے”عالیہ بیگم نے بیڈ پر لیٹتے ہوۓ کہا
“نہیں حیاکافی سلجھی ہوئی ہے”
“تو کیا مطلب میں نہیں تھی”
“نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔میرا کہنا کا یہ مطلب ہے کہ ہم اتنے سخت والدین تھوڑی ہی ہیں کہ اپنی بیٹی کی پسند کو ترجیح نہ دیں”
“ہاں یہ بھی ہے، حیا کو جو کوئی بھی پسند آیا ، میں اسی سے اس کی شادی کرواؤں گی”
“انشاللہ ،ابھی سو جاتے ہیں ،کافی رات ہوگئی ہے”
“ہممم شب بخیر”
“شب بخیر”
___________________________________
“بھائی آپ کو حیا پسند ہے نہ، دیکھے جھوٹ مت بولیے گا ،مجھے سب پتا ہے”فاطمہ نے سالار سے پوچھا جو کہ اب کپڑے چینچ کرکے لیپ ٹاپ آن کرکے کام میں مصروف تھا۔
“ہاں پسند ہے مجھے، اور دیکھنا وہی تمہاری بھابی بنیں گی،میں جلد ہی امی ابو کو اس کے گھر بھیجو گا ”
“ہممم انشاللہ،مجھے بھی بہت پسند ہے حیا آپ کے لیۓ”
“یہ تو بہت اچھی بات ہے، شادی کے بعد تم دونوں لڑو گے نہیں”
“ہاہاہاہاہاہا بھائی، یہ بھی ہے، ابھی میں سو جاؤ ، صبح جلدی اٹھ کر کام بھی کرنا ہے”
“شب بخیر”
“شب بخیر”
______________________
صبح سات بجے حیا کی آنکھ کھلی۔وہ جمائیاں لیتے ہوئے بیڈ سے اٹھی اور واشروم میں چلی گئی۔اس نے شیشے میں اپنی شکل دیکھی۔الجھے ہوۓ بال اور آنکھوں کا کاجل خراب ہونے کی وجہ سے وہ کافی حد تک بھوت بنگلا کی بھوتنی لگ رہی تھی۔کل رات کو اس نے واپس آکر منہ نہیں دھویا تھا۔شاید اس وجہ سے اس کی یہ حالت تھی۔اس نے جلدی جلدی منہ دھویا۔اور کپڑے چینچ کرکے باہر آگئی۔اس کا موبائل بیڈ کے ساتھ پڑے ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔اس نے بال باندھے اور موبائل ٹیبل سے اٹھا کر رانیہ کو کال ملائی۔
” ہیلو رانیہ، اٹھ گئی ہو”
“ہاں، ابھی فون کی رنگ سن کر جاگی ہوں”
“کالج آرہی ہو ”
“نہیں یار ، میں نہیں آتی، میں بہت تھکی ہوئی ہوں اور رات کو بارات پر بھی جانا ہے، میں نے رات کے فنکشن کے لیۓ کچھ شاپنگ بھی کرنی ہے، اس لیۓ میں تو نہیں آرہی ،میرا مشورہ ہے کہ تم بھی نہ جاؤ”
“کوئی اور بہانہ رہ گیا ہو تو وہ بھی بتا دوں”
” تم بھی نہ جاؤ نہ پلیز”
“اچھا دیکھتی ہوں کہ جاؤ نہ جاؤ”
“ہممم چلو میں کچھ دیر کے لیۓ سو جاؤ، اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
رانیہ سے بات کرکے اسنے شہریار کو کال ملائی۔پہلی ہی رنگ میں فون اٹھا لیا گیا۔
“ہیلو، شہریار، آج رانیہ کالج نہیں آرہی تو میں بھی نہیں آؤں گی”
” کیوں بریانی نہیں کھلانا چاہتی آپ،ہاہاہا”
” نہیں ایسی کوئی بات نہیں، میں نے آج رات کےفنکشن کے لیے شاپنگ کرنی ہے”
“اوکے آج میں بھی کالج نہیں جاتا۔آپ کے ساتھ شاپنگ کے لیے چلا جاتا ہوں۔اس طرح آپ کی ہیلپ بھی ہوجاۓ گی اور ہم مل بھی لیں گے”
” کیا سچ میں، ویسے لڑکیوں کو شاپنگ کروانا بہت مشکل ہوتا ہے، پھر سوچ لیں”
“ماما کو شاپنگ پر میں ہی لے کر جاتا ہوں، اس لیے مجھے عادت ہے”
“یہ تو بہت اچھی بات ہے، چلیں پھر ملتے ہیں۔”
“اوکے ،میں آپ کو خود پک کرنے آجاؤں گا ،آپ کے گھر”
“نہیں آپ مت آنا،میں شاپنگ مال تک آجاؤں گی، وہاں پر ملیں گے”
“اوکے، بارہ بجے میں مال پر آپ کا انتظار کروں گا اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
شہریار سے بات کرنے کے بعد وہ پھر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی اور فیسبک استعمال کرنے لگی۔ابھی وہ موبائل ہی استعمال کر رہی تھی کہ اس کے کمرے میں دستک ہوئی۔اس نے بیڈ سے اٹھ کر دروازہ کھولا۔دروازے پر آسیہ بیگم تھی۔
“کیا ہوا میری گڑیا تیار نہیں ہوئی کالج کے لیۓ، آج کالج جانا ہے کہ نہیں”آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
“نہیں ماما آج میں کالج نہیں جاؤں گی۔آج میں اور رانیہ شاپنگ کے لیۓ جائیں گے”
” ایک تو حیا آپ کو شاپنگ پر جانے کا بہت شوق ہے”
” وہ ماما آج کے فنکشن کے لیے کچھ چیزیں لینی تھی”
” ہاں تو میرے ساتھ چلی جانا شام کو، میں نے بھی جانا ہے بازار شام کو”
” ماما میں رانیہ سے بات کر چکی ہوں ، ورنہ آپ کے ساتھ ہی چلی جاتی”
” کچھ نہیں ہوتا،آپ رانیہ کے ساتھ ہی چلی جاؤ”
” تھینک یو سو مچ ماما”
” ہممم ، تو وہ آپ کو گھر سے پک کرے گی”
“نہیں ماما آپ شرافت انکل کو کہنا کہ وہ مجھے مال تک چھوڑ آئیں، وہاں سے رانیہ آجاۓ گی”
” اوکے میں کہ دونگی، ویسے جانا کتنے بجے ہے”
” بارہ بجے”
“اچھا ناشتہ تیار ہوگیا ہے ، آؤں مل کر کرتے ہیں”
” ہمممم چلیں”
______________________________
” امی٬ میں بازار جارہا ہوں،ٹیلر سے کپڑے لینے ہیں، آپ کو کچھ منگوانا ہے تو بتا دیں” سالار نے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوۓ کہا
” نہیں مجھے کچھ نہیں منگوانا ، خیر سے آنا، خیر سے جانا”
” مگر بھائی مجھے کچھ منگوانا ہے،میرے لیے سرخ رنگ کی چوڑیاں لے آئیگا واپسی پر”
” ایک تمہاری فرمائشیں نہیں ختم ہوتی” عالیہ بیگم نے مصنوعی ناراضگی سے کہا
” امی کیا ہوگیا ہے چوڑیاں ہی تو مانگی ہے، بھائی ہوں میں اس کا،میں نہیں لے کر دوں گا تو کون لے کر دے گا، ایک کام کرو تم بھی تیار ہو جاؤ،اکٹھے چلتے ہیں”
” کوئی ضرورت نہیں ہے،شادی والا گھر ہے اتنے کام پڑے ہیں ، وہ کون کرے گا”
” بھائی آپ خود ہی لے آئیگا” فاطمہ نے مصنوعی ناراضگی سے کہا
فاطمہ عالیہ بیگم کے خلاف نہیں جاسکتی تھی اور اوپر سے بہت کام بھی پڑے تھے۔اس نے تیار بھی ہونا تھا اور اوروں کو بھی تیار کرنا تھا۔ تو اس نے عالیہ بیگم کی منتیں بھی نہیں کی کہ اسے جانے دیں۔
“اوکے پھر میں چلتا ہوں ، اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
________________________________
گیارہ بج چکے تھے اور حیا ابھی تک تیار نہیں ہوئی تھی۔ ساڑھے گیارہ بجے وہ لان سے اٹھی جہاں وہ آدھے گھنٹے سے دھوپ میں بیٹھی ہوئی تھی۔وہ جلدی جلدی اپنے کمرے میں بھاگی اور دس منٹ میں کپڑے چینچ کرکے باہر آگئی۔ پنک کلر کی شارٹ شرٹ اور بلیو جینز میں وہ کافی خوبصورت لگ رہی تھی۔اس نے آدھے بالوں کو ہمیشہ کی طرح کھلا چھوڑا ہوا تھا اور آدھے بالوں کو کیچر کیا ہوا تھا۔
لپسٹک اور مسکارا لگانے کے بعد وہ کمرے سے باہر آگئی۔
” ماما آپ شرافت انکل کو بولیں کہ وہ مجھے چھوڑ آئیں، میں تیار ہوچکی ہوں”
“اوکے تم گاڑی میں بیٹھو جاکر،میں انکو کہتی ہوں،اپنا خیال رکھنا، اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
حیا نے گھر سے نکلنے کے ساتھ ہی رانیہ کو میسچ کیا کہ میں شہریار کے ساتھ شاپنگ کے لیے جارہی ہوں، اگر میری ماما کا میسچ آیا تو کہ دینا کہ تمہارے ساتھ ہوں۔
کچھ دیر بعد وہ مال کے سامنے تھی۔ابھی وہ بامشکل اندر ہی آئی تھی کہ رانیہ کی کال آگئی۔
” تم شہریار کے ساتھ شاپنگ کے لیے کیوں جارہی ہو، معاملہ کیا ہے، کیا تم لوگ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو، تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا یہ سب، کب سے چل رہا ہے یہ سب”
“ریلیکس جیسا تم سوچ رہی ہو ویسے کچھ نہیں ہے، ہاں میں مانتی ہوں کہ میں شہریار کو پسند کرتی ہوں مگر شہریار نے ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں کہا”
” کیا مطلب تم پسند کرتی ہو، کب ہوا یہ سب ،مجھے کیوں نہیں بتایا”
” یار بس ہوگیا نہ”
” آج شاپنگ کے لیے کیوں آئی ہو اس کے ساتھ”
” میں نے اسے آج کال کی تھی کہ کالج نہیں آؤں گی ،شاپنگ پر جانا ہے تو اس نے مجھے خود آفر کردی کہ میں اس کے ساتھ شاپنگ کے لیے چلی جاؤں”
ابھی اس نے یہ کہا ہی تھا کہ اسے شہریار نظر آیا۔بلیک جینز اور وائٹ ٹی شرٹ میں وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا۔ شہریارا نے اس کو دیکھتے ہی اپنا ہاتھ ہلایا، اور اس کے پاس آنے لگا۔
” رانیہ،میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں، شہریار آگیا ہے”
“ہممم اوکے بیسٹ آف لک”
__________________________________
” واؤ حیا تم بہت پیاری لگ رہی ہو” شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
” تھینک یو، تم بھی اچھے لگ رہے ہو”
” یار پہلے ہم کچھ کھاتے ہیں ، اس کے بعد شاپنگ کریں گے،اور آج میں نے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے”
اس کی بات سن کر حیا کا دل زور سے مچلا ،مگر وہ صرف اتنا ہی کہ سکی۔
“ہمممم چلو”
وہ مال میں ایک قریبی ریسٹورنٹ پر چلے گے۔کھانے کا آرڈر شہریار نے دیا۔حیا کافی نروس تھی۔وہ پہلی دفعہ کسی لڑکے کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ پر آئی تھی۔ وہ بہت دعائیں بھی کر رہی تھی کہ کوئی اسے نہ دیکھیں مگر قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔
” حیا میں بات کو گھما پھرا کر کرنے والا انسان نہیں ہوں،میں تمھیں کچھ کہنا چاہتا ہوں”
“ہاں بولو ”
” حیا میں تمھیں لائک کرتا ہوں، اور بہت جلد تمہارے گھر اپنے والدین کو بھیجنے والا ہوں، دیکھو انکار مت کرنا ،ورنہ میرا دل ٹوٹ جاۓ گا”
” مجھے کچھ ٹائم چاہیے”
حیا نے کہ تو دیا تھا مگر اس کی بات سن کر وہ بہت خوش ہوگئی۔وہ تو اس کو ابھی ہی کہنے والی تھی کہ میں بھی تمھیں لائک کرتی ہوں مگر پھر بھی اپنی عزت رکھنے کے لیے اس نے ٹائم مانگا۔
” اوکے تمھیں جتنا ٹائم بھی لینا ہے لے لو،مگرجواب میرے ہی حق میں ہونا چاہیے”
حیا نے کچھ نہیں بولا اور چپ کرکے کھانا کھانے لگی
________________________________
” یار آؤں کچھ کھاتے ہیں،مجھے بہت بھوک لگ گئی ہے،کب سے تمہارے ساتھ پاگلوں کی طرح شاپنگ کر رہا ہوں “عثمان نے ریسٹورنٹ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
” ہاں چلو” سالار نے اپنے بیسٹ فرینڈ عثمان کو کہا
مگر جوہی سالار ریسٹورنٹ میں داخل ہوا اسے حیا کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔وہ لڑکا اور حیا کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ سالار کو یہ سب دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔اس کا دل بہت بری طرح ٹوٹا گیا۔وہ تو حیا کے گھر اپنا رشتہ بھیجوانے کا سوچ رہا تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ حیا کے ساتھ بیٹھے ہوۓ لڑکے کا سر پھوڑ دے۔اس کو اپنے آپ کوکنٹرول کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔وہ عثمان سے کچھ کہ بغیر ریسٹورنٹ سے باہر آگیا۔
_______________________
عثمان سالار کو یوں اٹھتا دیکھ کر حیران ہوگیا۔اس نے بھی اپنا والٹ اٹھایا اور سالار کے پیچھے بھاگا۔ادھر سالار کو سکون نہیں آرہا تھا۔اسے حیا سے ایسی امید نہیں تھی۔وہ حیا کو دوسری لڑکیوں سے مختلف سمجھتا تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ حیا کو دو تھپر لگا کر اسے اس کے گھر چھوڑ کر آۓ۔مگر جلد ہی اس کا غصہ ختم ہوگیا۔اب وہ اپنے آپ کو تسلی دینےلگا۔”کیا پتہ وہ حیا کا کوئی رشتہ دار ہو۔بھائی تو ہو نہیں سکتا کیونکہ حیا اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی جو ہے۔مجھے وہاں سے ایسے اٹھ کر نہیں آنا چاہیے تھا۔مجھے حیا سے ملنا چاہیے تھا”ابھی وہ یہی کچھ سوچ رہا تھا کہ عثمان کے پاس آگیا
” یار کیا ہوا، تم ایسے کیوں بغیر کچھ بولے باہر آگے” عثمان نے سالار کے چہرے کو دیکھتے ہوۓ کہا جو غصے سے لال پیلا تھا۔
“یار مجھے ضروری کال کرنی تھی، اس لیے باہر آگیا”سالار نے نظریں چراتے ہوۓ کہا
” اچھا اب کال کر لی ہے نہ تو چلو اندر چلو،مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے”
” ہمممم چلو”
یہ کہ کر وہ پھر ریسٹورنٹ میں چلے گے۔وہ جونہی ریسٹورنٹ میں داخل ہوۓ، سالار نے ایک دم اس ٹیبل کی طرف دیکھا ،جہاں پر حیا اور وہ لڑکا کچھ دیر پہلے بیٹھے ہوۓ تھے۔لیکن اب وہ وہاں نہیں تھے۔شاید وہ جا چکے تھے۔
” کیا آرڈر کروں” عثمان نے مینیو کارڈ دیکھتے ہوئے کہا
“جو دل چاہے” سالار نے کہا
_____________________
_____________
” حیا مجھے کل تک اپنے سوال کا جواب چاہیے”
” لگتا ہے بہت جلدی ہے تمھیں”
” جلدی تو ہے،خیر چلو، آؤ تمھیں شاپنگ کرواتا ہوں”
” ہممم چلو”
آدھے گھنٹے بعد حیا اپنی شاپنگ مکمل کر چکی تھی۔اب وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر آئسکریم انجواۓ کر رہے تھے۔
” شہریار، میرا خیال ہے کہ اب ہمیں چلنا چاہیے، کافی دیر ہوچکی ہے،مجھے رات کے فنکشن کے لیے تیار بھی ہونا ہے” حیا نے ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا
” ہمممم چلتے ہیں،لیکن آپ کو کہاں ڈراپ کروں”
” رانیہ کے گھر ، میں اور رانیہ نے اکٹھے تیار ہونا ہے”
” اچھا پھر چلتے ہیں میڈم”شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
تقریباً بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ لوگ رانیہ کے گھر کے سامنے تھے۔حیا ابھی گاڑی کا دروازہ کھولنے ہی والی تھی کہ شہریار گاڑی سے نکلا اور حیا کو دروازہ کھول کر دیا۔اس کی اس حرکت پر حیا مسکراۓ بھی نہ رہ سکی۔
” کیا بات ہے شہریار صاحب ،بڑا پروٹوکول دے رہے ہیں مجھے” حیا نے مسکراتے ہوۓ کہا
” اپنوں کے لیے کرنا پڑتا ہے، میڈم حیا”
” ہمممم اوکے اب میں چلتی ہوں، اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
یہ کہ کر حیا رانیہ کے گھر کے اندر چلی گئی۔جب کہ شہریار گاڑی میں بیٹھا حیا کو جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔
__________________________________
حیا رانیہ کے گھر جاتے ہی لاؤنچ میں کھڑا ہو کر اس کو آواز دینے لگی
” او، حیا تم ادھر” رانیہ نے سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا
” یار مجھے تمھیں بہت مزے کی بات بتانی ہے، جلدی آؤ ، میرے گھر چلتے ہیں وہاں سے اکٹھے تیار ہونگے”
” اچھا مجھے پانچ منٹ دو، میں کپڑے چینچ کرکے آتی ہوں”
” نہیں یار جو پہنا ہے ، وہی ٹھیک ہے چلو نہ ، بتایا جو ہے تمھیں، ایک بات بتانی ہے تمھیں، اپنا سامان باندھو اور چلو میرے ساتھ”
” اچھا تم بیٹھو میں آتی ہوں”
” یار باقی لوگ کدھر ہیں، انکل آنٹی بھی نظر نہیں آرہے ، اور تابش کدھر ہے”
” یار مام ڈیڈ ماموں کے گھر گے ہوۓ ہیں۔اور تابش اپنے دوستوں کے ساتھ گیا ہوا ہے”
” اچھا، تم جلدی آؤ”
” راحیلہ آنٹی آپ حیا کے لیے کچھ کھانے کے لیے لے کر آئیں”
” جی اچھا بی بی جی”
” نہیں یار میرا کچھ بھی کھانے کا موڈ نہیں ہے، بس تم جلدی آؤ”
” اچھا، پھر راحیلہ آنٹی آپ، جوس لے آئیں”
” جی اچھا”
تقریباً دس منٹ بعد رانیہ اپنا سامان لے کر سڑھیاں اتر رہی تھی۔اس کے آنے سے پہلے ہی حیا جوس پی چکی تھی۔اس کو آتا دیکھ کر حیا صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
” چلیں”
” راحیلہ آنٹی، آپ مام کو بتا دینا کہ میں حیا کے ساتھ چلی گئی تھی۔ وہی سے شادی میں جاؤں گی۔
” ہاں چلو”
یہ کہنے کے بعد وہ دونوں لاؤنچ سے باہر آگئی اور رانیہ کی گاڑی میں أکر بیٹھ گئی۔کچھ ہی دیر بعد گاڑی گھر سے باہر تھی۔
” یار تم نے کیا بات کرنی تھی”
” شہریار نے مجھے آج پروپوز کیا ہے”
” کیا سچ میں”
” کیا مطلب سچ میں، تمھارا کیا مطلب ہے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں”
” اچھا یہ بتاؤ، تم نے کیا کہا”
” میں نے تھوڑا ٹائم مانگا ہے”
” ٹائم کیوں مانگا ہے، یار میں تمھاری جگہ ہوتی تو ایک دم قبول کر لیتی”
” یار اس ٹائم میں بہت نروس تھی، اس لیے ٹائم مانگا ہے ، خیر میں بھی بہت جلد اظہار کردوں گی”
“ہمممم اچھا ہے ، آج کیا پہنوگی”
” میں شارٹ فراک اور کیپری ، تم”
” میں لہنگا ”
” واؤ”
ابھی وہ بات ہی کر رہے تھے کہ حیا کا گھر آگیا۔گارڈ نے حیا کو دیکھتے ہی گھر کا دروازہ کھول لیا۔رانیہ گاڑی لے کر اندر آگئی۔لان میں سلیم صاحب اور آسیہ بیگم ہمیشہ کی طرح شام کی چاۓ کے مزے لے رہے تھے۔رانیہ اور حیا کو دیکھ کر وہ مسکرانے لگے
” کیسی ہو رانیہ”
” ٹھیک ہو انکل ، آپ کیسے ہیں”
” میں بھی ٹھیک ہوں، مزا آیا شاپنگ کرکے”
” جی انکل بہت”
” آؤ بیٹا ، آپ لوگ بھی چاۓ پیۓ ، ہمارے ساتھ”
” نہیں ماما ،ہم پہلے ہی بہت لیٹ ہوچکے ہیں، ساڑھے پانچ یہی بج چکے ہیں ، سات بجے ہمیں پہنچنا ہے”
” ہمممم ،پھر جلدی کرو، لڑکیوں کو تو ویسے بھی تیار ہونے میں کافی وقت لگتا ہے ” سلیم صاحب نے آسیہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” بیٹا آپ جاۓ ، ان کی باتوں پر دھیان نہ دیں، میں آپ لوگوں کے لیے چاۓ کمرے میں بھیجواتی ہوں”
” ہمممم ، اوکے ہم چلتے ہیں”
یہ کہ کر وہ دونوں گھر کے اندر چلی گئی۔جب کہ سلیم صاحب اور آسیہ بیگم حیا کو جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
” دیکھو ، سلیم وقت کا پتا ہی نہیں چلا، حیا کتنی بڑی ہو گئی ہے”
” بیٹیاں بےشک بڑی ہو جائیں، مگر ماں باپ کے لیے تو وہ ہمیشہ چھوٹی ہی رہتی ہیں”
” ہمممم”
_________________________________
” کیا بات ہوئی تمھاری حیا سے”سدرہ نے کہا
” اسکو میں نے پروپوز کیا ہے”
” پھر اس نے کیا کہا”
” یار اس نے ٹائم مانگا ہے”
” ٹائم کیوں، کیا وہ تمھیں پسند نہیں کرتی”
“نہیں یار پسند تو کرتی ہے، لڑکیاں ٹائم تو مانگتی ہیں ، تم نے بھی مانگا تھا”
” اچھا ، جب اس کا جواب آیا تو مجھے بتانا”
” ہمممم ، چھوڑو اس کو ، یہ بتاؤ منگنی کب کرنے کا ارادہ ہے”
” یار ابھی تو اگلے مہینے میرے ایگزام شروع ہونے والے ہیں، ابھی بھی پڑھ ہی رہی تھی کہ تمہاری کال آگئی”
” ہمممم اچھا تم پڑھو، بعد میں بات کرتے ہیں، اپنا خیال رکھنا”
” تم بھی اپنا خیال رکھنا، باۓ”
یہ کہ کر سدرہ نے کال کاٹ دی۔
میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ مجھے شہریار کا پیار ملا اور ایک حیا شہریار کے پیار کو ترسے گی۔ حیا مجھ سے صورت شکل اور دولت کے لحاظ سے ہمیشہ آگے رہی ہے، مگر پیار کے معاملے میں وہ مجھ سے ہار گئی۔یہ سوچ کر سدرہ مسکرانے لگی اور پھر اپنی کتابوں میں مصروف ہو گئی۔