“یار نور بس کر دو غصہ! ایسا کیا کر دیا ہے اب میں نے؟” اس کے نور کو کال کی۔
“ہاں ایسا کیا کر دیا ہے تم نے! شاہ کو میرا فون ٹیپ کر کے دیا اور کہہ رہے ہو ایسا کیا کر دیا ہے۔ واہ مسٹر!” نور نے طنز کیا۔
“صرف فون ٹیپ کر کے بیچ میں سے نمبرز کا ریکارڈ لیا ہے۔ راز تو نہیں نہ کھولے۔” اسنے معصومیت سے کہا۔
“تمہارا کچھ پتہ نہیں، وہ بھی نہ بتا دو کہیں۔”نور غصے میں تھی۔
“نہیں وہ کیوں بتاؤں گا اور سمجھا کرو نا ،یہ تمہارا کام آسان کرنے کے لئے ہی تو کیا ہے۔” اس نے جھنجھلا کر کہا۔
“وہ کیسے؟” نور نے سوال کیا۔
“وہ ایسے کہ میں نے اسے ایسے معلومات دی جیسے کوئی تمہیں ڈرا رہا ہے اور اب یقین مانو وہ تمہارے عشق میں ڈوبا ہوا بندہ تمہارے گھر کے باہر بھی گارڈز لگا چکا ہے۔” اسنے مزے سے پلان بتایا۔
“کیا؟؟ یہ کیا کیا ہے تم نے؟ اگر وہ میرے گھر آیا تو شاہ کے گارڈز اسے پکڑ لیں گے۔ تم نے شاہ کا تو سوچا ہے مگر اس کا نہیں۔” نور نے اپنا سر پکڑا۔
” نہیں اس کا بھی سوچا ہے اسے میں نے فالوقت دبئی بھیج دیا ہے۔ فکر نہیں کرو پیچھے کام پورا کرنا ہے لیکن ایک بات کہوں گا۔ پھر سوچ لو شاہ اچھا انتخاب نہیں ہے۔” اسنے نور کو خبردار کیا۔
” پتہ ہے میں خود بھی ایسا نہیں چاہتی تھی۔ مگر پتہ نہیں کب کس وقت میری کایا پلٹ گئی۔” نور نے دھیمی آواز میں کہا۔
” ہمم! چلو خیر دل پہ زور چلتا تو اس بدنصیب کو تمھیں بھلانا آسان ہوتا۔ مگر مسئلہ ہی یہی ہے کہ تم کہیں اور دل لگا بیٹھی اور وہ تمہارے در پر!” اسنے افسوس سے کہا۔
“تمہیں کتنی بار کہا ہے الفاظ اچھے چنا کرو ایسے تو یوں لگتا جیسے میں کوئی بداخلاق لڑکی ہوں۔” نور نے غصے سے فون بند کیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
آج تین سال بعد وہ اسکے آفس آئی تھی۔
تین سال پہلے اسنے مشوانی کو کہا تھا کہ وہ مہمل خان سے تب تک دور رہے جب تک وہ اسے خود نہ بلائے۔
تب سے مشوانی نے اسکی بات کی لاج رکھی تھی اور مڑ کر اسکو کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔
آج تین سال بعد وہ اسکے آفس میں کھڑی تھی۔ مشوانی نے بہت ترقی کر لی تھی اسکا آفس مکمل تبدیل ہو چکا تھا اور سٹاف بھی۔
“السلام علیکم! مجھے داؤد مشوانی سے ملنا ہے۔” مہمل نے نئی سیکرٹری سے کہا جو اسے بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔
مہمل ایک سادہ سی سفید کیپری پر سفید کرتا ہی پہنے ہوئے تھی۔ سر پر سفید حجاب اچھے سے سیٹ کیا ہوا تھا۔
“جی سر تو ایک ضروری پراجیکٹ کے سلسلے میں کینیڈا گئے ہوئے ہیں۔” سیکرٹری نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کیونکہ اسنے مہمل کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
“کب تک آئیں گے؟” مہمل نے پریشانی سے پوچھا۔
“انھیں دو ہفتے اور لگیں گے لیکن آپ کون؟” سیکرٹری نے پوچھا۔
“میں انکی دوست ہوں کیا آپ مجھے ان کا نمبر دے سکتی ہیں؟” مہمل نے لب کاٹتے ہوئے پوچھا۔
“سوری میم ان کا ذاتی نمبر کسی کو بھی نہیں دیا جا سکتا۔ انھوں نے منع کیا ہے۔” سیکرٹری نے دوٹوک جواب دیا اور کام کرنے لگ گئی۔
مہمل آفس سے ہارے ہوئے شخص کی طرح نکلی تھی۔ اسکی ایک ہی امید تھی مشوانی! لیکن اب وہ بھی ختم ہو گئی تھی۔ وہ بار بار مشوانی کا پرانا نمبر ملا رہی تھی مگر وہ شاید نمبر بدل چکا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے باپ کے آپریشن کے پیسے کہاں سے لائے؟
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل ہسپتال کے کوریڈور میں رقیہ بیگم کے ساتھ بینچ پر آ کر بیٹھی تھی۔
“مہمل بچے کچھ بنا؟” رقیہ بیگم نے جلدی سے پوچھا۔
“نہیں امی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔” مہمل نے کہا اور ساتھ ہی اسکی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے۔
بچپن کے بعد وہ آج پہلی بار روئی تھی ورنہ وہ ہمیشہ اپنے آنسو پی جاتی تھی۔
“مہمل بچے ایسے نہیں کرو ورنہ میری ہمت ٹوٹ جائے گی۔” رقیہ بیگم اسکے آنسو دیکھ کر تڑپ کر اسے گلے لگاتی بولیں تھیں۔
” امی مجھ سے نہیں برداشت ہوتا سب کچھ تو چھن گیا تھا۔ اب ابو بھی میں نہیں کھونا چاہتی ابو کو۔ آپی اور دانی کا غم کیا کم تھا، جو اب ابو بھی۔۔۔” مہمل یہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
” مہمل گھر جاؤ کچھ زیور پڑا ہوگا الماری میں۔ تمہاری شادی کے لئے بنایا تھا۔ اسے بیچ دو!” رقیہ بیگم نے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا وہ بہت مشکل سے خود کو سنبھالے ہوئے تھی۔
مہمل انکی بات سن کر خود کو سنبھالتی بمشکل اٹھی تھی۔
اسکے جانے کے بعد رقیہ بیگم ماضی کی یاد میں گم ہو گئیں تھیں۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
ماضی :-
“خان آپکے گھر والے کبھی نہیں مانیں گے۔” رقیہ گل نے کہا جو پٹھان لڑکیوں کا روایتی لباس پہنے ہوئے تھی۔
“بھلا وہ کیوں نہیں مانیں گے ہم خود داجی سے بات کریں گے۔” جہانگیر خان نے مسکرا کر کہا۔
“خان ہمارا قبیلہ اور آپ کا قبیلہ مختلف ہے۔ دونوں قبائل کبھی روایات کے خلاف کچھ نہیں کریں گے۔” رقیہ گل نے پریشانی سے کہا۔
“اسلام اجازت دیتا ہے گل یہ تو جاہلانہ باتیں ہیں۔ میں آج ہی داجی سے بات کروں گا۔” جہانگیر خان نے ضدی لہجے میں کہا اور جہانگیر خان تو ویسے ہی پورے قبیلے میں اپنی ضد پوری کرنے کی وجہ سے مشہور تھے۔
اور وہی ہوا جسکا رقیہ گل کو خدشہ تھا۔
یوسفزئی خاندان کے سردار اور جہانگیر خان کے داجی نے اس بات کے سنتے ہی انکار کر دیا تھا۔ لیکن جہانگیر خان پوری حویلی کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تھے۔
حویلی میں ایک بھونچال سا آ گیا تھا۔ جہانگیر خان کے بڑے بھائی جہانداد خان جو غصے کے تیز تھے انھوں نے اپنی بندوق جہانگیر خان پہ تان لی لیکن داجی نے انھیں روکا۔
سب سے زیادہ شور زرینہ گل نے کیا تھا جنکی بہن جہانگیر خان کے ساتھ بچپن سے منسوب تھی۔ لیکن جہانگیر خان نے بھابھی زرینہ گل کو صاف کہہ دیا کہ وہ انکی بہن سے شادی نہیں کرینگے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل نے تھوڑا سا زیور جو اسکی ماں کی کل جمع پونجی تھا لیا اور ایک جیولری شاپ پر چلی گئی۔
وہ زیور بمشکل ڈیڑھ لاکھ کا تھا اور حقیقت یہی تھی کہ رقیہ بیگم نے دن رات لوگوں کے کپڑے سی کر کڑھائی کر کے سارا روپیہ مہمل کی پڑھائی پہ لگایا تھا تبھی تو وہ آج میڈیکل کے چوتھے سال میں تھی۔
“بھائی آپ ڈیڑھ لاکھ روپے دے دیں۔” مہمل نے بادل نخواستہ اس زیور کی رقم وصول کی اور باہر نکلنے لگی تو حماد لغاری ایک ماڈرن سی لڑکی کے ساتھ جیولری شاپ میں اینٹر ہوا اور اسکے ہاتھ میں رقم دیکھ کر سمجھ گیا کہ مہمل نے کچھ بیچا ہے۔
“اسمارہ یہ تھی میری بےوقوف سابقہ منگیتر جس نے دولت کو ٹانگ ماری اور منگنی ختم کر دی۔” حماد نے ساتھ موجود لڑکی کو مسکرا کر کہا جبکہ مہمل کے اعصاب اسکی بات سن کر تن گئے تھے۔
مہمل سایڈ سے گزرنے لگی تو حماد اسکے سامنے آیا۔
“بہت چالاک سمجھتی تھی نا تم خود کو اسفر سعید کو ساتھ ملایا ہے نا تم نے؟ مگر یاد رکھنا اسفر سعید صرف اپنی مرضی تک کام کرتا ہے پھر بندے کو ایسی جگہ چھوڑتا ہے جہاں سے وہ ساری زندگی نہیں نکل پاتا۔ خیر فی الحال تو اپنے باپ کو بچاؤ تم مس حسینہ!” حماد نے اسے طنزاً کہا جب مہمل نے ایک زوردار تھپڑ اسکو مارا اور وہاں سے نکلتی رکشہ روک کر ہسپتال کی طرف چلی گئی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
” جا رہی ہو پھر اسوہ کی شادی پر تم؟ اسنے نور کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
“نور جو پیکنگ کر رہی تھی ایک دم مڑی اور بولی “یاد رکھنا اگر میری کھڑکی کسی دن تمہارے اس طرح آنے جانے کی وجہ سے ٹوٹی تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔”
“اچھا بتاؤ جانا ہے؟” اسنے ڈھیٹ پنے سے نور کا لیپ ٹاپ کھولتے ہوئے کہا۔
” ہاں جا رہی ہوں کیونکہ کام ختم کرنا ہے۔” نور نے پیکنگ کرتے ہوئے کہا۔
“کام شادی ہو جانے کے بعد کرنا تم!” اسنے لیپ ٹاپ پر جی پی ایس ایکٹیویٹ کرتے ہوئے کہا۔
” کیوں؟؟” نور نے حیرانگی سے پوچھا۔
” وہ اس لئے کہ اسوہ پر بے قصور ہوتے ہوئے بھی بہت بڑا داغ ہے اگر یہ شادی نہ ہوئی تو زمانہ اس پر اور کیچڑ اچھالے ۔گا اس لئے نکاح کے بعد سب دیکھیں گے۔” اسنے لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرتے ہوئے کہا۔
“اوکے لیکن تم کیا کر رہے ہو؟” نور نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“لیپ ٹاپ پر سیکیورٹی لگا رہا ہوں اور جی پی ایس ایکٹیویٹ کر رہا ہوں تاکہ مجھے پتہ ہو تمہاری لوکیشن کا۔ تمہارے موبائل میں بھی یہ کام کر چکا ہوں جب تم شاہ کے ساتھ راؤنڈ پر تھی۔” اسنے مزے سے کہا اور نور کا منہ کھلا تھا۔
” تم نہیں سدھر سکتے۔” نور نے کہا مگر وہ اسکی بات ان سنی کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر کودا اور ہڈی کو سر پر پہن کر بھاگنے لگا جبکہ نور نفی میں سر ہلا کر رہ گئی کیونکہ وہ اپنی مرضی سے کام کرتا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
ماضی:-
جہانگیر خان جو بلا کے ضدی تھی انھوں نے رقیہ گل کے ساتھ کورٹ میرج کی اور اسکا اعلان کیا۔
جب دونوں قبیلوں کو پتہ چلا تو رقیہ گل کے قبیلے نے ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔
یوسفزئی قبیلہ بھی غصے میں تھا لیکن داجی نے سب کو روکا اور جہانگیر خان کو حویلی میں پناہ دے دی۔
داجی کو اس سب کے بعد ہارٹ اٹیک ہوا جس کی وجہ سے وہ انتقال کر گئے۔
اس سب کے بعد زرینہ گل کے دل میں نفرت کا بیج اگا تھا کیونکہ جہانگیر خان نے انکی بہن کو رد کر کے رقیہ گل سے شادی کی تھی۔
وہ بدلے کی آگ میں جل رہیں تھیں انھیں موقع کی تلاش تھی اور قدرت نے انھیں چند سالوں بعد موقع بھی فراہم کر دیا۔
جہانداد خان تین ماہ کے لئے لندن گئے تو زرینہ گل نے بدلہ لینا شروع کیا اور یہیں سے رقیہ گل کی زندگی بھونچال کی زد میں آ گئی تھی۔
حال:-
“امی امی کدھر گم ہیں؟” مہمل نے رقیہ بیگم کا کندھا ہلایا تو وہ ماضی نکل کر حال میں آئیں۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“کہاں ہو؟” اسنے پوچھا۔
“جہنم میں!” نور نے تپ کے فون پر نامعلوم نمبر دیکھا جو کہ یقیناً اس فضول بندے کا ہی تھا۔ ایسے کال کرنا شاید اسی کا مشغلہ تھا۔
“ارے واہ پھر دوزخ کے داروغے کو میرا سلام کہنا!” اسنے قہقہہ لگاتے ہوئے نور کو پیغام دیا۔
“تم نے فون کیوں کیا ہے؟” نور نے گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
“ایسے ہی! سوچا پوچھ لوں کہ پہنچ گئی جہنم کے داروغے کے پاس۔۔۔سو سوری میرا مطلب ہے پشاور پہنچ گئی؟” اسنے نچلا لب دبایا تھا۔
“کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے میرے موبائل اور لیپ ٹاپ کو ٹریس تم کرتے ہی نہیں۔” نور نے طنز کیا۔
“مطلب کی بات کرو!” نور نے روکھے لہجے میں کہا۔
مطلب کی بات یہ ہے کہ اس ناہنجار مفرور یعنی اس فکر کا ٹھیکہ اٹھائے رکھنے والے کا فون مت اٹھانا۔ میں نہیں چاہتا کوئی مسئلہ ہو۔” اسنے ہمیشہ کی طرح مطلب کہ بات کہی اور فون بند کر دیا جبکہ نور بس آنکھیں موند کر سر سیٹ سے ٹکا گئی ۔
کبھی کبھار نور کو لگتا تھا کہ وہ اس زندگی سے جیسے تھک گئی ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک بھاگتے ہوئے اب جب وہ منزل پر پہنچنے والی تھی، تو کوئی چیز تھی جو اسے منزل سے پیچھے کھینچتی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“کچھ نہیں بیٹا بس ماضی کی بھول بھلیوں میں گم گئی تھی۔ ویسے اگر میں نہ ہوتی تو آج تمہارے بابا اس حال میں نہ ہوتے۔” رقیہ بیگم نے سرد آہ بھر کر کہا۔
“امی کیوں فکر کرتی ہیں؟ میں کچھ نہ کچھ کر لونگی۔ اب بس اللہ پر بھروسہ رکھیں۔” مہمل کی آواز ایک پل کو لڑکھڑائی تھی۔
“ہمم!” رقیہ بیگم نے کہا اور مہمل انکو ہسپتال کے کوریڈور میں چھوڑتی پیسوں کا انتظام کرنے کے لئے باہر چلی گئی جبکہ وہ ایک بار پھر ماضی کو سوچنے لگیں۔
ماضی:-
زرینہ گل کو قدرت نے بدلہ لینے کا موقع دیا تو انھوں نے ظلم کے پہاڑ ہی توڑ دیے۔
جہانگیر خان کو بہانے سے کھانے میں زہر ملا کر دیا اور وہ ساری زندگی کے لئیے مفلوج ہو گئے وہ اپنی انگلی تک ہلا نہیں پاتے تھے۔
یہ سانحہ رقیہ بیگم کو توڑ گیا لیکن انھیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس سب کے پیچھے انکی جیٹھانی زرینہ گل ہونگی،
رقیہ بیگم اپنے شوہر کی تیمارداری میں لگ گئیں اور علاج کے لیے کراچی لے کر آئیں اور اپنے بچے جیٹھانی کے حوالے کر دیے۔
سب سے بڑی مومنہ جو اس وقت گیارہ سال کی تھی اور پھر مومنہ سے تین سال چھوٹے جڑواں مہمل اور دانیال تھے اس وقت زرینہ گل کا بیٹا میر یوسفزئی چودہ سال کا تھا اور صرف وہی ایک تھا جو سب جانتے ہوئے بھی چپ تھا۔
وہ اگر سب بتاتا تو جرگہ اسکی ماں کو سزا سناتا۔
وہ ماں کی محبت میں چچا کے خاندان کی تباہی دیکھ رہا تھا۔
سب سے پہلے مومنہ انکے عتاب کا نشانہ بنی اور انھوں نے اسے اپنے وفادار ملازم کے ہاتھوں قتل کروا دیا۔
پھر مہمل اور دانیال کو انھوں نے حویلی کے پچھواڑے میں موجود کمروں میں بند کر دیا۔ جہاں روز دانیال پر ظلم ہوتا اور وہ مومی بچاؤ مومی بچاؤ کی پکار لگاتا لیکن اس معصوم کی آواز حویلی کے زنان خانے تک نہ پہنچ پاتی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“لالہ آپ کے مہمانوں کے لیے مہمان خانے کو تیار کر دیا ہے۔” عمیر نے میر یوسفزئی عرف شاہ کو کہا۔
شاہ جو کل شام ہی اسوہ کی شادی میں شرکت کے لیے پہنچا تھا عمیر کی بات پر سر ہلا گیا۔
“لالہ آپ نے زنان خانے میں بھی دو کمرے تیار کروائے ہیں ایک تو ڈاکٹر ماریہ کے لیے دوسرا کس کے لیے ہے؟” عمیر نے پوچھا۔
” بچے وہ ڈاکٹر نور کے لیے ہیں جو ہسپتال میں نئی آئیں ہیں۔” شاہ نے بتایا۔
“اچھا یہ بتاؤ خان بابا کدھر ہیں؟” شاہ نے اپنے والد کے بارے میں پوچھا۔”
“خان بابا تو چار دن پہلے کوئٹہ گئے تھے۔ آج شام تک آجائیں گے۔” عمیر نے کہا تو شاہ چونک کر بولا۔
” یوں اچانک مجھے بتائے بغیر وہ کوئٹہ کیسے چلے گئے ہیں؟”
“ارے لالہ بات یہ ہے کہ انکو کوئٹہ میں موجود اپنے دوست کی بیٹی زرمینہ آپ کے لیے پسند آ گئی تو رشتہ مانگنے گئے ہیں۔” عمیر نے ہنستے ہوئے بات کھولی تو شاہ ہکا بکا رہ گیا۔
“کیا خان بابا نے مجھے بتائے بغیر۔۔۔” شاہ ابھی بول رہا تھا کہ عمیر نے ٹوکا۔
” ابھی تو وہ صرف اشاروں کنایوں میں بات کریں گے۔ صحیح رشتہ تو وہ دھوم دھام سے آپ کو بتا کر لے کر جائیں گے۔” عمیر نے خوشی سے کہا لیکن شاہ وہاں سے اٹھ کر باہر آ گیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“مومی بچاؤ!!! مومی بچاؤ!”
یہ صدا اسکے کان پھاڑ رہی تھی لیکن وہ کمرے کا دروازہ کھول نہیں پا رہی تھی۔
” دانی میں قید ہوں میں کیا کروں دانی تم حوصلہ کرو امی واپس آئیں گی۔ وہ ہمیں نکال لیں گی۔” مومی نے روتے ہوئے کہا۔
“مومی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!” ایک چیخ اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔
مہمل خواب سے ایک دم جاگی تو اسکے منہ سے ایک لفظ نکلا تھا۔
“دانی!!”
اور پھر مہمل کو وہ رات یاد آنے لگی جو اسے سکون سے سونے نہیں دیتی تھی جو اسکو انتقام پر اکساتی تھی۔
ماضی :-
اس رات ہمیشہ کی طرح دانیال پر ظلم ہو رہا تھا اور اپنے ماں جائے کہ تکلیف اس سے برداشت نہیں ہو پارہی تھی۔ جب آٹھ سالہ دانیال زرینہ گل کے وفادار کتوں سے الجھا تھا اور پھر اسکو مار دیا گیا تھا۔
مہمل نے اپنے جڑواں بھائی کی لاش اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اور وہ رات اسے آج تک نہیں بھولتی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل صبح پھر سے ہسپتال سے باہر نکلتی پیسوں کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کا سوچ رہی تھی جب اسفر سعید اسکے سامنے آیا۔
“مہمل! معافی چاہتا ہوں میں کچھ مشکل میں تھا۔ لیکن اس سے نکلتے ہی فوراً تمہارے پاس آیا ہوں۔” اسفر نے کہا۔
“ہمم کوئی کام ہے کیا؟” مہمل نے کہا۔
“تمہارے والد کے علاج کا خرچہ میں اٹھاؤں گا۔ تم قرض سمجھ کے ابھی مجھ سے لے لو۔” اسفر نے اس سے کہا ۔ اسکے سر پر پٹی تھی جو اس بات کی ثبوت تھی کہ وہ واقعی ہی مشکل میں تھا۔
” میں تمہارا شکریہ کس منہ سے ادا کروں۔” مہمل نے مشکور لہجے میں کہا۔
” رہنے دو تم کھڑوس ہی اچھی لگتی ہو۔” اسفر نے ہنس کر کہا تو وہ بس اسے پھیکی سی مسکراہٹ دے پائی اسے اپنے والد کی پریشانی میں کچھ یاد نہیں تھا۔
“اوہ یاد آیا کہ چوٹ کیسے آئی؟” مہمل نے اسکی چوٹ کا پوچھا۔
” بس وکیل ایماندار غریب کا کیس لڑ کر جیت جائے تو پھر انعام تو ملتا ہے نا۔” اسفر نے طنز کرتے ہوئے کہا۔
اور پھر وہ لوگ آپریشن کے لیے پیسے جمع کرانے لگے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
ماضی:-
رقیہ بیگم مایوس ہو کر مفلوج ہوئے جہانگیر خان کے ساتھ حویلی پہنچی تو آگے کا حال انکی ہمت توڑ گیا۔
اپنی پہلی اولاد مومنہ اور اکلوتے بیٹے کی موت کا صدمہ انکے اعصاب شل کر گیا تھا۔
مہمل سے بھی ان کو زرینہ گل نے ملنے نہیں دیا۔
زرینہ گل نے اس دن رقیہ بیگم سے اپنا بدلہ لیا تھا۔
مہمل پر روز تشدد ہوتا تھا لیکن کسی کو پتہ نہیں چلتا تھا سوائے میر یوسفزئی کے لیکن وہ اپنی ماں کی وجہ سے خاموش تھا۔
رقیہ گل سارا دن ملازمہ کی طرح حویلی کا کام کرتی تھیں۔
دو مہینوں میں سب بدل گیا تھا اب ایک مہینے بعد جہانداد خان نے واپس آنا تھا زرینہ گل اس سے پہلے یہ قصہ ختم کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن قسمت نے اس بار زرینہ گل کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
ڈاکٹرز نے فوراً جہانگیر خان کا آپریشن کیا لیکن انھیں جہانگیر خان کی صحت سے کچھ زیادہ امید نہیں۔
تین ہفتے سے وہ کومہ میں تھے اور مہمل میڈیکل کالج جاتی اور واپسی پر ہسپتال آتی تھی۔ اسے تھکن کا احساس تک نہیں ہوتا تھا اس مشینی روٹین سے وہ ہر جذبے ہر احساس سے عاری ہو چکی تھی۔
آج اسفر نے بہت مشکلوں سے رات کو گھر بھیجا تھا کہ وہ اور رقیہ بیگم جہانگیر خان کے پاس رکیں گے۔
صبح مہمل اٹھ کر میڈیکل کالج کے لیے نکلنے ہی والی تھی کہ اچانک گھر کے گیٹ پر دستک ہوئی۔
مہمل نے جا کر دروازہ کھولا لیکن اسکے بعد وہ ہل نہ سکی۔
اسکے سارے احساس آج منجمند ہوئے یا پھر سارے احساس آج ہی جاگے تھے۔
اسے نہیں معلوم کہ وہ زندگی میں کبھی یوں گم صم ہوئی ہو جیسے آج وہ منظر دیکھ کر وہ ہو چکی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“کچھ ہے جو غلط ہے تم چھپا رہے ہو کچھ!” اسنے غصے سے کہا۔
“میں بھلا کیا چھپاؤں گا ابھی مجھے مشن پر جانا ہے۔ بعد میں بتاتا ہوں۔” دوسرے نے کہا اور ہڈی پہن کر رات کے اندھیرے میں گم ہو کر اپنا کام کرنے کے لیے چل پڑا۔
شاید قسمت ان سب کے ساتھ کھیل رہی ہے!
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...