بابا جانی کو کیسے ولید نے منایا تھا اس بات کا علم آیت کو نہیں تھا ۔اسے صرف اتنا پتا تھا کہ بابا جانی نے ولید کو بہت سی باتیں سنائی تھی کہ اسے اپنے باپ دادا کی عزت کا کوئی خیال ہی نہیں ہے مگر اس نے بابا جانی کو یہ کہہ دیا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا اگر یہ آیت کے ساتھ الگ گھر میں رہے گا۔ولید کے ماں باپ نے ساتھ آنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ اپنی حویلی نہیں چھوڑ سکتے مگر جب بھی ولید کو ضرورت ہوگی وہ موجود ہوں گے۔آیت اس وقت اپنا سامان پیک کر رہی تھی۔آیت کی والدہ اس کے پاس آئی۔وہ شاید روتی رہی تھی۔
“میرا بچہ تم کیوں جا رہی ہو۔کیا کوئی کمی تھی تمہیں یہاں حویلی میں۔میری نظروں کے سامنے رہتی تھی تم ہر پل تو دل ایک سکون حاصل تھا کہ میری بیٹی ٹھیک ہے اب اتنے دور جا رہی ہو تو تمہاری خیریت پتا کیسے چلی گی۔”
“اتنے دور نہیں جا رہی نزدیک ہی تو ہوں امی۔بس آدھے گھنٹے کا فاصلہ ہے آپ کا جب دل چاہے آپ میرے پاس آسکتی ہیں ۔خیر یہاں اتنے پاس ہو کر بھی آپ نے میری خبر نہیں لی۔کبھی دور جاکر بھلا لیں گی۔”
“تو جا کیوں رہی ہے۔تیرے بچوں کو مستقبل میں ہماری ضرورت ہوگی تو ہم کیا کریں گے۔بچے خاندان میں ہی اچھی پرورش پاتے ہیں ۔”
“نہیں امی میں اپنے بچوں کو اس خاندان میں بڑا نہیں کرنا چاہتی۔میرے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔یقین کریں جب ڈاکٹر نے مجھے بتایا تھا نہ تو کچھ لمحے میں پریشان ہوگئی مگر پھر میں نے فیصلہ لیا کہ جو چاہے مرضی ہوجائے اپنی بیٹی کی خاطر میں یہ حویلی چھوڑ دوں گی۔اس حویلی میں اپنی اولاد کو رکھ کر انہیں دوسری آیت یا دوسرا ولید ہرگز نہیں بنائوں گی۔”
“تو ماں سے ناراض پے بیٹا۔”آیت کی والدہ نے اس کا ہاتھ تھاما ۔
“نہیں امی اولاد کہاں ناراض ہوسکتی ہے۔میں صرف اپنے بہتر مستقبل کے لیئے جا رہی ہوں ۔دعا کریں کہ میرے دل میں لگے زخم جلد ٹھیک ہوجائیں ورنہ شاید میری واپسی ممکن نہیں ۔”
آیت کی والدہ رونے لگ گئی تھی بہت زیادہ ۔
“میں سوچا کرتی تھی کہ اولاد ماں باپ کی نافرمان ہو تو اسے بہت سخت سزا ملتی ہے مگر اگر ماں باپ اولاد کے ساتھ زیادتی کر جائیں تو ان کی کیا سزا ہوگی امی یہ سوچنا ضرور۔میں چلتی یوں ولید میرے منتظر ہیں ۔”
آیت نے سامان کو بیڈ پر ہی رکھا اور باہر چلی گئی۔سب حویلی والے جمع تھے۔بابا جانی نے آیت کو گلے لگانا چاہا ۔
“بابا جانی معاف کیجیئے گا آپ مجھے اسی دن دفنا چکے تھے جس دن مجھے رخصت کیا تھا۔آپ نے اپنے پوتے کو میرے ساتھ جو سلوک کرنے کا کہا اس نے آپ کی عزت اور احترام میرے دل سے ہمیشہ کے لیئے ختم کر دیا ہے۔اب تو راکھ بھی باقی نہیں ۔خیر دعائوں میں یاد رکھیئے گا اپنے پوتے کو۔”
آیت کسی سے بھی ملے بغیر باہر چلی گئی جہاں گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ولید سب سے مل رہا تھا۔سامان ملازم گاڑی میں رکھ رہے تھے۔آیت نے ایک نظر اس حویلی پر ڈالی جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔اس حویلی نے اسے بہت دکھ دیئے تھے۔یہاں اس کا دم گھٹتا تھا یہاں سے جانے کا فیصلہ ہی اس کے لیئے درست تھا اور اسے یقین تھا کہ مستقبل اس کے لیئے بہت اچھا ہوگا اور اس کے بچوں کے لیئے بھی۔
________________________
مہر کی بہت خواہش تھی کہ یہ جلدی جلدی ماں بن جائے مگر ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔اس کی والدہ نے بھی اس سے یہی کہا تھا کہ جتنی جلدی ہوجائے یہ ماں بن جائے تو بہتر ہے ہوگا۔اس کے بچے باپ کے پائوں کی زنجیر بن جائیں ۔ویسے بھی اسے جب سے پتا چل اٹھا کہ آیت ولید کے ساتھ حویلی سے جاچکی ہے اس کے دل میں آگ لگ گئی تھی کہ یہ کایا کیسے پلٹ گئی۔اس کا وہ بھائی جو کبھی آیت کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا اب آیت کے ساتھ اتنی نرمی کیوں اختیار کیئے ہوئے تھا۔مہر اس وقت اپنی ایک کولیک کے ساتھ بیٹھی تھی۔اسے اپنی رپورٹس کا انتظار تھا۔رپورٹس آئی تو اسے پتا چلا کہ اس کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ڈاکٹر نے اسے شاہ بخت کے ٹیسٹ کروانے کا بھی کہا۔مہر کو اس وقت کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا بس اسے آیت کو نیچا دیکھانا تھا ویسے بھی وہ تو اب حویلی میں تھی نہیں تو مہر کے ہی بچے حویلی میں راج کرتے ۔
____________________________
آیت سو کر اٹھی۔شام کا وقت تھا۔یہ جگہ بہت خوبصورت تھی۔اس کے اردگرد خاموشی کا راج تھا۔فضیلہ کو ولید نے اس کے شوہر اور دو بچوں سمیت یہاں بلا لیا تھا کیونکہ وہ بہت پرانے ملازم تھے اور آیت کے معاملے میں ولید ان پر ہی اعتبار کر سکتا تھا۔آیت کچن میں آئی اور اپنے لیئے پانی کا گلاس لے کر باہر لان میں آگئی۔سردی ختم ہوگئی تھی اور اب گرمی عروج پر تھی۔اس کا وجود بھی اب بہت بھاری ہوگیا تھا۔اس وقت یہ لان کی کرسی پر بیٹھے ہوئے اپنے اردگرد نکلے ہوئے درخت دیکھ رہی تھی جن کو خوبصورتی کے ساتھ یہاں لگایا گیا گھا۔ولید کے ساتھ رہنے کا فیصلہ اسکے لیئے آسان نہیں تھا مگر یہ جذباتی تو ہرگز نہ تھی کہ کسی فلمی ہیروئین کی طرح ولید کو چھوڑ کر چلی جاتی۔ولید نے اسے کہا تھا کہ اگر یہ دوبارہ ہسپتال جانا چاہے تو یہ جا سکتی ہے۔مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ جب انسان کوئی خواب بہت چاہ سے دیکھتا ہے اور وہ ٹوٹ جائے تو وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔آیت بھی بلکل ایسے ہی ٹوٹ گئی تھی۔اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا تھا۔اس کو تو شاید اب یاد بھی نہیں رہا تھا کہ اس نے کیا پڑھا تھا۔اب ویسے بھی اس کا دماغ اس ماحول کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔اب اس نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ یہ اپنے بچوں پر توجہ دے گی انہیں سنوارے گی۔ولید سے سے کوئی دلی لگائو نہیں تھا اب مگر وقت اپنا مرہم خود ہوتا ہے۔وقت شاید کبھی اس کے دل میں ولید کے لیئے محبت ڈال دیتا جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے آیت کے دل سے ختم کر دی تھی۔مگر اس نے کبھی ولید سے اپنی نفرت کا اظہار نہیں لیا تھا کیونکہ یہ جانتی تھی اس کے وجود میں پل رہے بچوں کو باپ کا پیار ولید ہی دے گا۔اگر یہ ولید کے ساتھ ٹھیک رہی گی تو کل کو اس کی بیٹی کو بھی باپ کا بہت سا پیار ملے گا۔ آیت انہیں سوچوں میں گم تھی جب اس کہ پیشانی پر ولید نے پیار دیا۔
“آپ آگئے۔”
“جی ہاں آگیا ہوں میں ۔طبیعت تو ٹھیک ہے نہ تمہاری۔”
“جی بہتر ہے ۔آپ بیٹھیں میں اندر کسی کو کہتی ہوں آپ کے لیئے کھانا لگا دیں ۔”
“تم بیٹھ جائو آیت۔اس حالت میں زیادہ کام مت کیا کرو۔دیکھو ہاتھ پائوں کتنے سوجھ گئے ہیں تمہارے ۔”
“یہ سب تو نارمل ہے نہ خان۔آپ تو جانتے ہیں کہ مجھے اس گھر میں آکر بہت سکون ملا ہے ۔ایسا لگتا ہے میں ایک بڑے پنجرے سے آزاد ہوگئی ہوں۔آپ نے بابا جانی کو کیسے منایا ۔”
“وہ میرا مسئلہ ہے آیت کہ میں نے ان کو کیسے منایا ۔تمہارا کام صرف ہمارے گھر پر دھیان دینا ہے۔ایسا کرو اندر آجائو آیت اب تم ۔”
“میرا دل نہیں کر رہا اندر جانے گا ۔کچھ دیر یہاں ہی بیٹھ جاتے ہیں نہ۔”
“میں کپڑے بدل آتا ہوں پھر کھانا کھاتے ہیں ۔”
ولید آیت کو باہر ہی چھوڑ کر چلا گیا۔یہ شاور لے کر کمرے میں آیا تو اسے آیت بیڈ پر بیٹھی ہوئی نظر آئی۔آیت اندر آگئی تھی ولید بال خشک کرتے ہوئے آیت کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ہاتھوں سے چوڑیاں نہیں اتار پا رہی تھی کیونکہ اس کے ہاتھ بہت زیادہ موٹے ہوگئے۔ ولید کنگھی رکھ کر آیت کے پاس۔آیا اور اس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔
“خان نہ کرنا پلیز بہت درد ہوتا ہے۔ایسا لگتا ہے ہاتھ اور زخمی ہوجائیں گے ۔”
“کچھ نہیں ہوتا ۔آیت تم یہ مت پہنا کرو دیکھو ہاتھ سوجے ہوئے ہیں ۔”
ولید نے کریم اٹھا کر آیت کے ہاتھوں پر لگا کر چوڑیاں اتار ہی دی۔ولید نے آیت کے سرخ پڑتے ہاتھوں پر پیار دیا ۔آیت نے ولید کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو شادی کی پہلی رات آیت کی طرف دیکھتے ہوئے ولید کو نظر آئی تھی۔ولید نے آیت کی آنکھوں پر انگلیاں پھیری تو آیت نے ولید کی طرف حیرانی دے دیکھا کہ یہ کیا کر رہا ہے۔
“تمہاری آنکھوں میں وہ چمک نہیں ہے آیت جو میں دیکھنا چاہتا ہوں ۔مجھے وہ چمک تمہاری آنکھوں میں اچھی لگتی ہے۔میں چاہتا ہوں میرے چھونے پر تمہاری آنکھوں میں وہ چمک واپس آئے۔”
“آپ وہ چمک تو کب کی ختم کرچکے ہیں خان۔وہ تو میری زندگی تھی جس کو آپ نے ختم کر دیا۔اب تو صرف آیت کا وجود ہی ہے جس نے اس دنیا میں مرنے تک زندہ رہنا ہے۔”
ولید نے آیت کو اپنے سینے سے لایا۔
“ایسا مت کہو۔میں نے تم سے پہلے بھی معافی مانگی تھی آج پھر مانگتا ہوں ۔مجھے معاف کر دو میں تمہارے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں میں جان بھی دینے
کو تیار ہوں۔بس مجھ سے نفرت مت کرو۔”
“وقت بہت بڑا مرہم ہے خان۔ہوسکتا ہے ایک وقت آئے میری آنکھوں کی چمک واپس آجائے مگر آپ کو اس وقت کا انتظار کرنا ہے۔کیا آپ انتظار کر سکتے ہیں۔”
“میں ہر لمحہ منتظر ہو تمہارا۔تم جب کہو میں تمہارے لیئے کچھ بھی قربان کر دوں گا۔تم تو میری آیت ہو بس میری۔”
آیت نے ولید کی پیشانی پر بوسہ دیا۔آیت جانتی تھی مشکل وقت بدل گیا ہے اور پرانے زخم ولید کے رویے سے ختم ہوجائیں گی مگر ایک کسک ہمیشہ باقی رہے گی جو نجانے کب دور ہوتی ۔
_______________________
مہر شاہ بخت کے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی ۔مہر نے شاہ بخت سے بات کرنے تھی کہ یہ اس کے ساتھ ہسپتال جائے۔
“بخت آپ میرے ساتھ ہسپتال جائیں گے۔”
“کیا ہوا سب ٹھیک ہے۔”
:ویسے ہی ہماری سنیئر ڈاکٹر ہیں بہت قابل ۔ان کے پاس بہت علاج ہوتا ہے بہت سے لوگوں کا۔میں نے انہیں بتایا اپنا مسئلہ تو وہ کہہ رہی تھی آپ بھی میرے ساتھ ان کے پاس جائیں ۔”
“مہر میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ میں کہیں آجا سکوں آفس کے علاوہ۔تم خود ہی چلی جانا۔”
“نہیں نہ شاہ بخت آپ کا جانا بہت ضروری ہے میری بات کو سمجھیں۔آپ کل شام میں کوئی وقت نہیں نکال سکتے ۔بہت ضروری نہ ہوتا تو میں آپ کو کبھی نہ کہتی۔”
“اچھا ٹھیک ہے۔ کل مجھے وقت ملا تو آجائوں گا۔امی کی کال آئی تھی کہہ رہی تھی کہ آیت کی ڈلیوری ہونے والی ہے تو ہمیں گائوں میں ہونا چاہیئے ۔پہلا بچا ہے حویلی کا تو ہمیں وہاں موجود ہونا چاہیے۔”
“بس کر دیں دیں شاہ بخت آپ۔اس کا بچا ہمارے لیئے اہم نہیں ہونا چاہیے۔جب پیدا ہوگا تو دیکھا جائے گا۔آپ چھوڑ دیں یہ سب باتیں ہماری باتیں بہت اہم ہیں۔”
مہر نہیں جانتی تھی کہ کل اس کا غرور خاک میں مل جائے گا کیونکہ جب آپ کسی کو تکلیف دیتے ہیں وہ بھی بلاوجہ تو قسمت آپ کا خوب سارا امتحان لیتی ہے.
___________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...