جس طرح پورے خاندان میں اسکی رسم اور جلدی ہونے والی شادی کی خبر پھیل گئی تھی اس ہی طرح اسکا رشتہ ٹوٹنے کی خبر بھی پورے خاندان میں پھیل گئی۔۔۔وہ کسی کی نظر اورسوال کا جواب دینا نہیں چاہتی تھی وہ کہیں آنا جانا ملنا جلنا سب چھوڑ چکی تھی۔۔۔۔
اس دن شبینہ کی ممانی اسکے گھر فرصت میں آئ بیٹھی تھی وہ ممانی سے چاہ کر بھی زیادہ وقت چھپ نہیں سکتی تھی ممانی کی دوبیٹیاں حفظہ اور مریم دونوں ہی میٹرک کے بعد رخصت ہوچکی تھی ایک کے تین اور دوسری کے دو بچے تھے ممانی جان گھر سے فارغ اپنی بہوں کو گھر میں چھوڑ کر اکثر سارا سارا دن کے لیے آجاتی تھیں۔۔۔۔۔
شبینہ کو نہ چاہتے ھوۓ بھی اٹھ کر سلام کرنے جانا پڑا اگر ممانی خود اسکے کمرے میں آ کر اسے اس طرح بستر پے سوگ مناتے دیکھ لیتیں تو بات پورے خاندان میں پھیل جاتی۔۔۔
،،وہ امی کے پاس بیٹھیں شروع سے آخر تک کی روادات سن رہیں تھی۔۔۔
کے اچانک شبینہ کے کمرے میں آجانے سے اسکی امی چپ ہوگئی تھیں پر ممانی کیونکہ اپنی دونوں بیٹیوں کو کم عمر میں رخصت کر چکی تھیں تو وہ ہر احساس سے بےخبر بھرپور طریقے سے پرسہ کر رہیں تھیں۔۔
،،السلام علیکم ممانی
وعلیکم السلام۔۔۔۔۔۔سو رہیں تھیں کیا؟؟؟
جی۔۔۔
،،اسنے جان چھڑانا چاہی تھی جب کے وہ سو نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔،،
ممانی نے اسکے چہرے کا غور سے جائزہ لیا۔۔۔اور کہا
،،آے ہاے میری گلاب جیسی بچی کا چہرہ تو دیکھو کیسے مرجھایا ہوا ہے۔۔۔۔،،
اسکی موجودگی کو نظر انداز کر کے وہ امی سے مخاطب ہو چکی تھیں تم ایسا کرو اسکو کسی بابا سے جھڑواؤ میری نظر میں ایک اچھے بابا ہیں پیسہ ایک روپیہ نہیں لیتے ہو سکتا ہے کسی نے رشتے میں بندش کرا دی ہو۔۔۔۔اسکے چہرے سے صاف لگ رہاں ہے پلکیں دیکھو کسی کھڑی ہیں۔۔۔۔ ورنہ کیا کمی ہے ہماری بچی میں ہر کام میں ماہر پڑھی لکھی سلیقہ مند۔۔۔۔۔۔۔
،،وہ یہ سب فالتو کی باتیں سن کر کچھ کہے بنا ہی اٹھ کر چلی گئی تھی۔۔۔۔!
،،وہ رات میں تنہا چھت پے خاموش بیٹھی تھی نیچے سب ساتھ بیٹھے ہنس بول رہے تھے پر اسے تنہائی شور سے زیادہ اچھی لگنے لگی تھی۔۔۔وہ خاموش بیٹھی چاند کو تک رہی تھی چاند بھی اپنے جوبن پر تھا اور چھت پر پھیلی چاندنی اسکی آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہی تھی۔۔۔وہ اکثر یوں ہی تنہا چھت پے بیٹھی رہتی تھی۔۔۔۔۔
،،اسکی امی بھی اسکے پاس آگئیں تھیں۔۔۔۔!
بیٹا یہاں کیوں بیٹھی ہو کمرے میں جا کر لیٹ جاؤ سردی لگ جاۓ گی۔۔۔
،تھک گئی ہوں آرام کر کر کے امی،
اسنے بیزاریت سے کہا
شبینہ کی امی نے اسکو مصروف رکھنے کے لیے اسکے بابا سے اسکی پڑھائی دوبارہ جاری کرنے کی اجازت لے لی تھی اور وہ اسے یہی بتا رہی تھیں
“”بیٹا میں نے تمہارے ابو سے بات کر لی ہے وہ کہہ رہے ہیں اگر تم آگے پڑھنا چاہتی ہو تو پڑھ سکتی ہو۔۔””
امی کو لگا تھا وہ سن کر بہت خوش ہوجاۓ گی پر ایسا نہیں ہوا؟
،،میں اب پڑھنا نہیں چاہتی امی،،
(وہ اب ان پرندوں میں سے ہوگئی تھی جو پنجرہ کھلا دیکھ کر بھی اوڑھنا نہیں چاہتے تھے)
وہ امی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی ۔امی اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہیں۔۔۔۔
،بیٹا اللّه نے کسی کو بیکار پیدا نہیں کیا میرا دل کہتا ہے میری اس بیٹی کا نصیب سب سے بلند ہے۔۔۔۔۔،
اٹھو! اب اپنے کمرے میں جا کر لیٹ جاؤ۔۔۔۔۔
“” کتنے دن کتنی راتیں اسکی یونہی گزر گئی۔۔۔۔۔۔(بنا کسی مقصد)
روز ایک ایک دن اسکی زندگی سے گزر رہا تھا اسنے خود پر خوشیوں کے دروازے بند کر لیے تھے۔۔۔۔۔۔۔
*اسکی امی مہندی لیے اسکے سامنے کھڑی تھیں بیٹا اسکو بس زرا سی دیر ہتیلی پر چھوا لو منت کی مہندی ہے۔۔۔۔
،،امی آپ چلی جائیں پلیز میں پھینک دوں گی ایسے۔۔۔۔۔۔۔،،
اس نے غصہ سے کہا
“میری بچی لگا لے اپنی زندگی میں تجھے رخصت کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔
تاکہ سکون سے مر سکوں اپنا فرض پورا کر کے۔۔۔!
میری بچی۔۔۔!!!
امی نے پیار سے اسے بہلا لیا تھا۔۔۔۔۔
“”اس نے ہتیلی آگے کر دی۔۔۔””
،،صرف اسکی امی کے رو دینے والے انداز پر ،،
*اسکی پھپو کی بیٹی زرنش اسکے گھر دو دن کے لیے رکنے آگئی تھی ایسے میں شبینہ کا پہلے کی طرح ہسنا بولنا مشکل ہوگیا تھا اسکے دل کا موسم اسکے چہرے سے صاف نظر آجاتا تھا۔۔۔۔
اسکی کزن اس سے دو سال چھوٹی تھی۔۔۔۔پرتجربہ کے لحاظ سے اس سے چار سال آگے تھی۔۔۔
آتے ہی اس نے شبینہ سے نیٹ پاسورڈ لیا اور کونہ پکڑ کے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔ دو تین دن اسکو شبینہ کے کمرے میں ہی رہنا تھا۔۔۔۔۔۔
رات وہ سارا دیہان موبائل میں لگاے بیٹھی تھی جب شبینہ خاموشی سے اسکے برابر میں آکر بیٹھ گئی تھی
اسنے موبائل سے نگاہ ہٹائی اور شبینہ کا جائزہ لیتے ھوۓ بولی”” یار تم اتنا بدل کیوں گئی ہو ٹھیک سے بات ہی نہیں کر رہی میں یہاں تمہارے لیے آئ ہوں تاکہ تم مجھ سے پہلے کی طرح باتیں کرو۔۔۔۔””
،،دفع کرو یار اسکو۔۔۔۔،،
وہ نہیں تھا تمہارے قابل تم خود کسی کو کیوں پسند نہیں کر لیتی ہو۔۔
آج کل تو لڑکیاں اتنی فاسٹ ہیں۔۔
شبینہ نے اسکی طرف دیکھ کر کہا!
“”کسی کو پسند کرنے کے لیے کوئی نگاہ میں ہونا ضروری ہوتا ہے””
ہاں تو کوئی تو ہوگا ”
اس نے شرارت سے خاندان کے لڑکوں کی طرف اشارہ کیا تو شبینہ نے بھی دوٹوک جواب دےدیا “”کوئی نہیں ہے ایسا””
تم فیسبک پے بھی نہیں آتی ہو اب۔۔۔
“ہاں میری آئ ڈی بند ہوگئی تھی”
شبینہ نے اسکی بات کا مختصر جواب دیا۔۔۔۔
تو لاؤ میں بنا دوں دوسری آئ ڈی فیسبک پے تو اتنے پیارے پیارے لڑکے ہوتے ہیں انسے بات کر لیا کرو۔۔۔
شبینہ کو اسکی بات پر غصہ آیا تھا اسنے غصے سے اس سے مخاطب ہو کر کہا!
زرنش میرا کسی سے چکر نہیں تھا جو میں اب کسی اور سے بات کر کے اپنا ،غم یا شوق پورا کروں۔۔۔۔۔۔۔
فیسبک ایک جھوٹی دنیا ہے وہاں لوگ باتیں تو کر سکتے ہیں پر وہاں گھر نہیں بستے ہیں۔۔۔۔
میری شادی میرے خواب ٹوٹے ہیں سب ختم۔۔۔۔۔اور تم۔۔۔۔۔۔
اب مجھے کسی میں کوئی دلچسبی نہیں ہے۔۔۔!!
مجھ سے اب ایسی باتیں مت کرنا!!
اسکا دماغ خراب دیکھ کے زرنش پھر چپ چاپ موبائل میں مگن ہوگئی تھی۔۔۔۔
*امی نے ہر ہفتے اسکا صدقہ باقاعدہ دینا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔
آج منت کی چوڑیاں اور مٹھائی لیے کھڑی تھیں اسے خود سے زیادہ امی پر ترس آیا تھا کیا کچھ نا تھا امی کے چہرے پر فکر پریشانی، بیٹی پیدا کر کے انہوں نے نا جانے کیوں بیٹی کے ساتھ یہ سب مفت حاصل کر لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی اور اسنے ہاتھ آگے بڑھا دیا تھا امی نے چار چوڑیاں اسکے ہاتھ میں ڈال دی تھیں امی کا چہرہ دیکھ کر۔۔۔۔۔وہ خاموشی سے مٹھائی کھا گئی۔۔۔۔۔۔۔
“”اپنی بیٹی کے اس رد عمل سے وہ سمجھیں تھیں کے وہ آنے والے رشتے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوگئی ہے پر ایسا نہیں تھا۔۔۔۔۔
اسکی امی نے ایک رشتے لگانے والی آنٹی گھر بلا لیں تھیں پہلے وہ شبینہ کو دیکھنا چاہتی تھیں کہ اسکو دیکھنے کے بعد اسکے جوڑ کا رشتہ لا سکیں اسے امی نے بہانے سے کمرے میں بلایا تھا کے شبینہ پانی لے کر آو کمرے میں مہمان آے ہیں۔۔
اسنے سلام کر کے پانی دیا اور جانے لگی تو آنٹی نے اپنے پاس بلا لیا۔۔۔۔۔
وہ سمجھ گئی تھی پر چپ رہی،
انکے جانے کے بعد اسنے قیامت کر دی تھی آپ لوگ کیوں میرے پیچھے پڑھ گئے ہیں میں زہر کھا لونگی پر اب کسی کے سامنے نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔۔آپ لوگ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔۔۔۔۔
“وہ بہت خود سر اور ضدی ہوگئی تھی “”ایک بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو وہ فرشتہ صفت پیدا ہوتا ہے اسے اچھا برا حالات بنا دیتے ہیں کوئی بھی انسان خود خودکشی نہیں کرتا ہر خودکشی کے پیچھے کئی قاتل موجود ہوتے ہیں۔۔اسکی بھی ہنستی مسکراتی زندگی معاشرے کی نظر ہوگئی تھی۔۔۔۔
،اگر اب یہ دوبارہ آگئیں یہاں تو بہت برا ہوگا وہ پیر پٹختی ہوئی کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔
*اسکے بعد بھی اسکے کتنے رشتے آے پر وہ ایک کے لیے بھی راضی نا ہوتی، نہیں کرنا تو نہیں کرنا سنا اپنے۔۔۔۔۔”ایک ہی بات تھی اسکی کسی کے سامنے نہیں جاؤں گی اب میں”
اسکی امی بہت پریشان رہنے لگیں کہ اچانک تیز بخار نے ان کو گھیر لیا تو وہ بھی بہت پریشان ہوگئی تھی ”وہ تیز بخار میں غفلت میں اسکا چہرہ دیکھیں جا رہیں تھیں۔۔
اسکی امی کا بخار کسی طور کم نہیں ہورہا تھا۔۔۔
وہ اپنی امی کے پاس سے زرا بھی نہیں ہٹ رہی تھی اسکی امی تیز بخار میں اسی کا چہرہ مسلسل دیکھ رہیں تھیں غفلت میں نا جانے کیا کیا بول رہیں تھی۔ امی کی حالت دیکھ کر اسنے امی کو دوا دے کر انکا سر سہلا کر سلانے کی کوشش کی مگر اسکی امی نے اچانک اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا میری بچی دلہن بنے گی۔۔۔۔۔
وه غفلت میں کہہ رہیں تھی جملے آدھے ادھورے بار بار وہ بول رہی تھیں شبینہ کا دل بھر آیا وہ مشکل سے آنسو روک رہی تھی اپنی امی کا خیال کرتے ھوۓ اس نے امی کا ہاتھ پکڑ کر محبت سےچوم کر گال پر لگا لیا تھا۔۔۔۔
دوا کے زیر اثر شبینہ کی امی سوگئیں تھیں۔۔۔۔۔
شبینہ اپنے کمرے میں آکر اپنی وجہ سے امی کی یہ حالت پے تکیے میں منہ دے کر روتی رہی تھی کیا قصور تھا انکا صرف یہی نا کے انھوں نے بیٹی پیدا کی ہے ایک ایسی بیٹی جو معاشرے کی نگاہ پر پوری نہیں اترتی جو عرفان جیسے لڑکوں کی محبوبہ نہیں بنتی جو باہر نکل کر خود لڑکوں کو اپنی ادائیں دیکھا کر انھیں اپنا دیوانہ نہیں بناتی ایک ایسی بیٹی جو سر جھکا کر ہر ایک کے سامنے بھیڑ بکریوں کی طرح جانچ پڑتال کر واتی رہی پر پھر بھی وہ اس معاشرے کی نگاہ پر پوری نہیں اتر پائی۔۔۔۔
یا پھر یہ اسکی قسمت کا دوش۔۔۔۔؟
ایک ایسی بیٹی جو اپنے ماں باپ کی عزت کا مان رکھتی ہے اور عزت سے گھر بسانے کی چاہا میں اس مقام تک آجاتی ہیں۔۔۔۔۔
کتنی بےبس ہے اسکی ماں۔۔۔۔
اللّه کسی کو میری ماں کی طرح بیٹی پیدا کرنے کا عذاب مت دینا اب۔۔۔
اسکا تکیہ بھیگتا جا رہا تھا
آج پھر وہ ٹوٹ کے برسی تھی!!!!
میں کتنے ٹکڑوں میں ٹوٹی
کوئی جانے نا۔۔۔۔
میں کتنا راتوں میں روتی
کوئی جانے نا۔۔۔۔۔
میرا درد کوئی کیوں بانٹے۔۔۔۔
میرے آنچل میں لپٹے ھوۓ کانٹے
مجھے نام کوئی کیوں دیتا
میری قسمت نے بس ہیں غم چھانٹے
میرا حال جانتا ہے خدا
کیا بتاؤں تجھے
میری داستاں ادھوری رہی
کیا سناؤں تجھے۔۔۔!!!!
“امی کا بخار کافی بہتر تھا ڈاکٹر نے انھیں آرام اور سکون کے لیے کہا تھا۔
شبینہ امی کے پاس بیٹھی انکے لیے سوپ بنا کر لائی تھی امی تھوڑا تو پی لیں۔۔۔۔۔۔۔
امی آپ اب جلدی سے ٹھیک ہوجائیں۔۔۔۔۔
ابھی تو میں ہوں توآپکا خیال رکھ رہی ہوں جب میں رخصت ہو کر چلی جاؤں گی تو بھابھی تھوڑی آپکے اتنے نخرے اٹھاۓ گی۔۔
اس نے شرارت سے کہا تو امی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔۔۔۔۔
“میری بچی امی نے اسے گلے لگالیا میری بہادر بیٹی۔۔۔۔۔۔
امی آپ جب جہاں جس سے کہیں گی آپکی بیٹی تیار ہے پر امی میری ایک شرط ہے۔۔۔۔۔۔
امی کو اسکا ضدی رویہ یاد آیا جو وہ پچھلے ایک سال سے کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔امی کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات ابھر آے تھے۔۔۔۔
،،،،امی اس بار کوئی مجھے دیکھنے نہیں آے گا آپ کہتی ہیں نا ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے اور سب کے جوڑے اللّه نے بنادیے ہیں تو پھر آپ اس طرح عجیب عجیب لوگوں کو گھر کیوں بلا لیتیں ہیں میں دیکھنے کی چیز ہوں کیا۔۔۔۔؟
اگر اللّه نے آپکی بیٹی کا جوڑ بنایا ہے امی تو اسے مجھ سے ملوانے کے اسباب بھی وہی بناۓ گا
اگر وہ صرف میرے لیے ہے تو وہ خود چل کر صرف میرے لیے آے گا چاہے وہ دو قدم پے ہو یا ساتھ سمندر پار۔۔۔۔۔۔اسے خود چل کر آنا ہوگا۔۔۔۔۔۔
ضرور آیگا میری گڑیا۔۔۔۔۔
امی نے پیار سے اسکا ماتھا چوم لیا اور دعائیں دینے لگیں۔۔
تین ماہ بعد۔۔۔۔۔
وہ دوپہر کے وقت اپنے کمرے میں لیٹی آرام کر رہی تھی
کے فون بج اٹھا،دوسری طرف اسکی بہن کی آواز تھی۔۔۔
شبینہ کی بہن نے یاد دلانے کے لیے فون کیا تھا “یاد ہے نا کل میلاد ہے۔۔۔”
!!!!!ہممممم
بتا رہیں تھی امی۔۔۔
تو تم آو گی نا؟؟
،،دل کیا توآجاؤں گی ،،شبینہ نے ٹالنا چاہا،، پر اسکی بہن نے اسے میلاد میں شرکت کے لیے منا لیا تھا۔۔
وہ زیادہ منا نہیں کر سکی تھی کے یہ “رسول پاک ﷺ ” کے ذکر کی محفل تھی۔۔۔۔
“”دوسرے دن اسنے کپڑے پریس کر کے میلاد میں جانے کی تیاری کر لی اور وہ بھی ساتھ چلی گئی۔۔۔۔
میلاد کی محفل میں وہ کاٹن کے سوٹ میں سادہ سی بیٹھی میلاد سننے میں مگن تھی۔۔۔۔
اچانک اسکی “چھٹی حس” کو عورتوں کے بیچ دو خاص “نظروں” کی گہرائی کا علم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
“”ایک نفیس سی خاتون دور بیٹھی اس پر خاص نگاہ رکھی ہوئیں تھیں۔۔۔””
میلاد ختم ہونے کے بعد انھوں نے اپنے پاس بیٹھی عورتوں سے سامنے بیٹھی شبینہ کی معلومات کرلی۔۔۔
میلاد ختم ہوچکا تھا
اور وہ بھی اپنے گھر لوٹ آئ۔۔۔۔
دوسرے دن وہی خاتون اسکی بہن کی سسرال پھر سے پہچ گئیں تھیں وہ بھی آج کل بہو کی تلاش میں تھی اور اپنے بیٹے “شاہ میر” کے لیے لڑکی ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔
شبینہ انھیں پہلی نظر میں ہی بھا گئی تھی اور جب “رب تعالیٰ” کا حکم ہوتا ہے تو ساری بند راہیں کھل جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔انھیں شبینہ کے دروازے پر “شاہ میر” کا نصیب کھیچ لایا تھا۔
“شاہ میر” ایک سلجھا ہوا پڑھا لکھا لڑکا تھا اسکی والدہ اسکے لیے لڑکیاں دیکھ دیکھ کر تھک گئی تھی پر انھیں بھی اسکے جوڑ کی لڑکی نہیں مل رہی تھی اور رب نے “کن” فرمایا تو اسکی والدہ اپنی بہوں کی تلاش میں اسکے گھر تک خود چل کر آگئیں تھی۔۔۔۔۔
“شاہ میر” کی امی شبینہ کی امی کی طرح سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔۔۔۔
شاہ میر انکا ایک ہی بیٹا تھا جب کے چار بیٹیاں اور بھی تھی پر سب کے سب ہی شادی شدہ اپنے اپنے گھر کی تھیں۔۔۔
“شاہ میر”کے پاس اچھی تعلیم ،اچھی جاب سب تھی پر شاہ میر اس سے عمر میں تھوڑا زیادہ بڑا تھا۔
*لڑکا دیکھ کر گھر والوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا
سب نے اس رشتے کو قبول کر لیا۔۔۔
گھر والوں کے بیچ لڑکا لڑکی کی تصویروں کا تبادلہ ہوا اس طرح شبینہ کی تصویر شاہ میر اور شاہ میر کی تصویر شبینہ کے گھر پہچ گئیں۔۔۔
*”شاہ میر” کی بہنوں نے “شاہ میر” کو “شبینہ” کی پک دیکھائی تو اسنے کہا! آپ لوگوں کو پسند آگئی سمجھیں مجھے بھی پسند آگئی اسنے بنا دیکھے تصویر سائیڈ پے رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر کی امی نے بیٹی کو کہا،تصویر جا کر اس کے کمرے میں رکھ آو دیکھ لیگا شرمارہا ہے تو سب بہنیں اسے تنگ کرنے لگیں ،شاہ میر اتنا اندھا اعتماد نا کرو ہم پر بھئی کے کل بولو یہ تو اتنی موٹی ہے ،دوسری بہن نے اپنی بہن کا ساتھ دیا اور کہا اور نہیں تو کیا، ابھی موٹی ہے بعد میں بیچاری “شاہ میر” کے پلے بندھ کے کمزور تو ہو ہی جاۓ گی۔۔۔۔۔۔شاہ میر کی بہنیں مل کر ہسنیں لگیں۔۔۔
“شاہ میر” ویسے تو سنجیدہ سا انسان تھا پر اکثر ایسے لوگ اندر سے بہت گہرے ہوتے ہیں۔۔۔۔
شبینہ کی بھابھی نے شبینہ کے سامنے شاہ میر کی تصویر رکھی تو وہ نظر ہٹا گئی بھابھی مت کیجئے یہ سب آپ لوگ جہاں کہیں گے میں خوش ہوں اس تصویر کی ضرورت نہیں ہے اب۔۔۔۔بھابھی اسکے پاس تصویر رکھ کر چلی گئیں تھیں۔۔۔
پر اس بار شبینہ کے جذبات پہلے جیسے بلکل نا تھے تصویر یونہی رکھی رہی۔۔۔۔
شاہ میر جب اپنے کمرے میں گیا تو اسے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اینولپ نظر آیا اس نے شبینہ کو دیکھنا چاہا اور لفافہ اٹھا کر وہ بیڈ پے لیٹ گیا تصویر پے نگاہ پڑی تو محبت کے جگنو اسکی انکھوں میں چمک اٹھے۔۔۔۔۔۔۔
اسکی آنکھیں پہلی بار اسے دیکھ رہیں تھیں سر پے دوپٹہ لیے معصوم سی آنکھیں،قدرت کے خوبصورتی سے تراشے ھوۓ گلابی ہونٹ اور بلکل چاۓ جیسی رنگت۔۔۔۔
دیکھ کر ان کو یہ انکشاف ہوا
پھول بھی سر پے شال لیتے ہیں۔۔۔۔۔!
اس نے مسکرا کر تصویر لفافے میں واپس رکھ دی۔۔۔۔!!
*شبینہ حیران رہ گئی تھی اتنی جلدی جلدی سب کچھ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔وہ ذہنی طور پر تیار بھی نا ہوئی تھی۔۔۔۔کہ شادی کا ایسا شور ہوا کے اسکی شادی کی تاریخ بھی رکھ دی گئی۔۔۔۔۔۔
شبینہ کو ایسا لگتا کے ابھی کوئی آکر کہے گا ہم یہ شادی نہیں کر سکتے ہم مجبور ہیں۔۔۔۔
“وہ ہمیشہ سے رش والی جگہ سے دور رہتی تھی۔۔۔۔”” اور یہی بہانا اسکے کام آگیا کے میں شاپنگ پے نہیں جاسکتی چکر آجاتے ہیں اتنا گھومنے سے ،اسکی طبیعت خراب نا ہو جاۓ اس ڈر سے اسکی شادی کی تیاریاں اسکی بھابھی اور بہن مل کر امی کے ساتھ کر رہیں تھیں انکی لائی ہوئی سب چیزوں میں اسے اگر کوئی چیز نا بھی اچھی لگتی تو وہ اسے اچھا کہہ دیتی۔۔۔۔۔۔۔
“”شاہ میر کی ساری بہنیں اپنے بھائی کی شادی سے بہت خوش تھی کے انکے پیچھے انکی ماں کا خیال رکھنے والی اور گھر سمبھالنے والی بھابھی آرہی تھی۔۔
انھوں نے اپنے بھائی کی دلہن کے لیے بہت پیارا سا شادی کا لہنگا لیا اور خوبصورت سی بری تیار کی تھی۔۔۔۔۔۔
*وہ پیلے جوڑے میں مایوں بیٹھنے کے لیے تیار تھی اسکی بھابھی کی پسند کا جدید فیشن غرارہ پہنے گیندے کے پیلے پھول بالوں کی لمبی سی چوٹی میں اسکے بالوں کو خوبصورتی بخش رہے تھے ،چہرے کو گھونگٹ سے چھپاے وہ اسٹیج پے بیٹھی تھی سب سے پہلے اسکی امی نے اسکی نازک سی کلائی پر پیارا سا شگن کا کنگنا باندھا اور اس طرح باری باری سب آتے گئے اسے شگن کی مہندی لگاتے رہے۔۔۔۔
وہ خاموش بیٹھی رہی اس بار مٹھائی کھانے میں اسنے کوئی نخرے نہیں کیے تھے زندگی میں وہ کئی کڑوے گھونٹ پی چکی تھی پھر یہ تو میٹھائی تھی۔۔۔۔۔۔۔
رات دیر تک سب جاگتے رہے اسکی مہندی کا فنکشن چلتا رہا۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔۔۔۔۔۔
نئی زندگی نے اسے اور بھی الجھن اور خدشات میں ڈال دیا تھا۔۔۔۔۔۔
اسکی رخصتی میں بس دو دن رہ گیے تھے اسکی آنکھیں آنسوں سے بھر بھر جا رہی تھیں۔۔۔
بابل کا گھر چھوڑنے کا دکھ ایک طرف تھا پر نئی زندگی اور اسکی زندگی میں آنے والا شامیر جانے کیسا ہو اسکی نظر میں دنیا کا ہر مرد برا تھا وہ خوش نہیں تھی پر وہ چاہتی تھی کے یہ شادی ہو تاکہ اسکے ماں باپ سکون سے رہ سکیں دنیا کے سامنے کے انکی بیٹی میں کوئی برائی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
آج اسکی اس گھر میں آخری رات تھی اور کل اسے سارے رشتے پیچھے چھوڑ کر نیا رشتہ بنانا تھا آدھی رات کو سب سو چکے تھے پر اسکی آنکھوں میں نیند نہیں تھی وہ یونہی غرارہ پہنے سر سے دوپٹہ لیے امی بابا کے کمرے کے پاس سے گزری تھی کے اندر سے آتی آواز پے وہ رکی۔۔۔۔۔۔ جب اسکے بابا کو اس نے اسکی امی سے کہتے سنا۔۔۔۔۔۔
ایسا لگتا ہے ابھی ہماری بیٹی دو پونی باندھے بھاگتے ھوۓ آے گی اور اپنے بابا کے گلے لگ جاۓ گی اسکی چھوٹی چھوٹی شرارتے اسکا شور مچانا بات بات پے ضد کر کے اپنی باتوں کو منوانا سب یہی رہ جاۓ گا۔یہ بیٹی کب اتنی بڑی ہوجاتی ہیں پتا نہیں چلتا۔۔۔۔۔۔شبینہ کی امی نے بھی بھری ہوئی آواز میں اسکے ابو سے کہا! بیٹیوں کی شادی نا ہو تو زمانہ جینے نہیں دیتا اور شادی کر دو تو کوئی نہیں پوچھتا کے پھر ماں باپ کیسے جیتے ہیں!
شبینہ کا دل تڑپ اٹھا تھا۔۔
اسنے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا اور دوڑ کے اپننے بابا کے سینے سے لگ کر رونے لگی اسکی امی نے اسے بہلایا۔۔۔بیٹا تمہارے ابو بھی تو تمہاری ماں کو اسے ہی رخصت کر کے لاے تھے دیکھو مجھے میں کتنی خوش ہوں تمہارے ابو کے ساتھ شاہ میر بھی تمہیں بہت خوش رکھے گا جب دل کرے آجانا ملنے کے یہ تو دستور ہے دنیا کا۔۔۔۔۔
یہ ریت تو ہر بیٹی کو نبھانی پڑھتی ہے
“کل ماشاء اللّه ہماری بیٹی اپنے گھر کی ہوجاۓ گی” میری بیٹی بہت صبر والی ہے۔۔۔۔۔
اللّه اسکا نصیب بلند کرے۔۔۔۔
امی ابو نے مل کر اسکے سر پر محبت سے شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔۔۔۔
چلو اب کمرے میں چل کر سوجاؤ جا کر شاباش۔۔۔۔۔۔۔!
اسکے ابو نے اسکی امی کو اشارہ کیا’! تو اسکی امی اسے لے کر اسکے کمرے میں آگئی تھی۔۔۔۔۔۔
آجاؤ لیٹو ادھر اب آرام کرو کل شادی کے بہت کام ہیں سوجاؤ اب
“”آج کی رات بہت بھاری ہے امی آپ آج یہیں میرے پاس رہ جائیں کل میں اس گھر میں نہیں رہوں گی اسکے آنسو گرنے لگے۔۔
بابا بھائی امی بھابھی چھوٹا سا بھتیجا سب پراے ہوجائیں گے۔۔۔۔
اور شاہ میر اسکے لیے میرے دل میں کوئی جذبہ نہیں میں کیسے رہوں گی اسکے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے بےدیہانی میں کہے گئے آخری جملے نے ماں کے دل کو پریشان کر دیا تھا۔۔۔۔
شبینہ کی امی نے اسے سمجھانا چاہا۔۔۔
بیٹا بس کرو ہر لڑکی کی زندگی میں یہ مقام آتا ہے اسے جانا ہی پڑھتا ہے ادھر بیٹھو میری بات سنو۔۔۔۔۔
وہ امی کی گود میں سر رکھے آنسو بہاتی رہی، نہیں امی آج آپ یونہی رہیں میرے پاس۔۔۔۔۔
“میں یہیں ہوں بیٹا اب چپ ہو جاؤ خوشی کے موقع پر روتے نہیں ہیں اچھا ادھر سنو!!
میری پیاری بیٹی ہو نا ،بیٹا جو کچھ بھی ہوا ،اسکی سزا شاہ میر کو مت دینا۔۔۔۔
وہ جو کہے ہر بات ہنس کے مان لینا بحث یا جھگڑا مت کرنا نا کبھی “شاہ میر”کے گھر والوں سے کوئی برا رویہ کرنا بیٹا شادی کے بعد شوہر اور اسکا گھر ہی سب کچھ ہے
تم یہ باتیں اپنے پلو سے باندھ لو اور اس پر گرہ لگا لو کے جب تک تم اپنے سسرال والو اور اپنے شوہر کی خوشی اور مرضی کی خاطر کئی بار اپنا دل نہیں مارو گی زندگی کے کئی مر حلوں میں اپنے دل میں اٹھنے والی خواہشوں کو دفن نہیں کرو گی اس وقت تک تمہاری زندگی میں بھی پھول نہیں کھلے گے بیٹا کچھ پانے کے لیے کھونا بھی پڑھتا ہے اپنے سسرال میں کبھی ماں کی تربیت پے حرف مت آنے دینا۔۔۔۔
بیٹیوں کو تو بابل کا گھر چھوڑ کر جانا ہی پڑتا ہے یہ تو بس مہمان ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔
اور لڑکیاں تو لڑکیاں آج کل کے تو لڑکے بھی شادی ہوتے ہی ماں باپ کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ﺍﺏ ﺗﻮ ﺑﯿﭩﮯ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿں رخصت ہو کر
ﺻﺮﻑ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﯽ ﮐﻮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﻧﮧ سمجھا جائے
بیٹا لڑکی کا اصل گھر تو اسکے شوہر کا گھرہے۔۔۔۔۔۔
شوہر کی بات کو اہمیت دینا۔۔۔!!
امی جان اسکے سر میں ہاتھ پھیر رہیں تھیں اور وہ نیند کی وادی میں اتر چکی تھی۔۔۔۔۔۔اس نے امی کی کسی نصیحت کو توجہ سے نہیں سنا تھا وہ تو بس ماں کے آنچل کی ٹھنڈی چھاؤں میں سر رکھتے ہی سو گئی تھی۔۔۔۔۔۔