وہ کھلے فضاء میں کھڑی تازی ہوا سے لطف اندوز ہورہی تھی موسم گرما کی رات تازہ ہوا اسے بہت مسرور کر رہی تھی۔ اپنے مرضی کے سادے قمیض شلوار پہنے سر پر جادر اوڑھے آج وہ عِدت کا دورانیہ پورا کر کے چار ماہ دس دن بعد گھر سے نکلی تھی۔
سر آسمان کی جانب اٹھائے وہ آنکھیں موندھے اپنی آذادی کے اس پل کو محسوس کرنے لگی تھی جب اس کی آواز سنی۔
“تمہارا پاسپورٹ اور ٹکٹ۔۔۔” آرین نے دھیمے لہجے میں اسے مخاطب کیا۔
کرن نے چمکتی ہوئی آنکھیں کھولی اور پورا مسکرا کر اس کی جانب رخ کیا۔
“تھینکیو” اس نے خوش دلی سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے اپنے دستاویز تھامے جو دوسرے سرے سے آرین نے مظبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔ کرن کو لگا وہ اس کے ساتھ شرارت کر رہا ہے اس نے زور لگانا چاہا لیکن ٹکٹ پھٹ جانے کے خوف سے نہیں کھینچا اور تعجبی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
“تم واقعی جانا چاہتی ہو” آرین نے دل گرفتگی سے پوچھا وہ اب بھی کرن کے فیصلے سے مطمئن نہیں تھا۔
کرن نے اسی طرح پاسپورٹ کا سرا تھامے ہوئے سامنے دیکھا اور سنجیدہ ہوگئی۔
“میرے لیے اب یہاں کچھ نہیں بچا۔۔۔۔۔۔ میرا جانا بہتر ہے” کرن نے اسی با اعتماد لہجے میں جواب دیا۔ اس کے اندر کی ڈری سہمی لڑکی کو وہ ختم کر کے اب با اعتماد مظبوط عصاب کی مالکن بن چکی تھی۔
آرین نے پاسپورٹ کا سرا چھوڑا اور ہاتھ پہلو میں گرائے اس کے آمنے سامنے آگیا۔
“کرن میرا پروپوزل اب بھی موجود ہے۔۔۔۔۔۔ میں اور تم۔۔۔۔” اس نے پر امید انداز میں کہا۔
کرن کے ماتھے پر شکن در آئی۔
“پلیز آرین۔۔۔۔۔۔ اس کے آگے ایسا کچھ مت کہنا جس سے میرے قدم پتھر ہوجائے۔۔۔۔۔۔ میں اور تم اچھے دوست ہے۔۔۔۔۔۔ میں تمہاری بہت قدر کرتی ہوں۔” کرن نرمی سے اسے سمجھانے لگی۔
“مجھے رہائی دلوانے میں تم نے جس قدر روحان کے ساتھ مدد کی ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔۔۔۔۔۔۔ بہت احسانات ہیں تمہارے مجھ پر” کرن چلتی ہوئی دو قدم آگے چلی گئی۔ آرین اپنی جگہ منجمد کھڑا رہا۔
“لیکن آرین۔۔۔۔۔ اب میں اپنے لیے جینا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔ بچپن سے شادی ہونے تک چچی کے اشاروں پر ناچتی رہی اور پھر رانا مبشر کے۔۔۔۔۔۔ مجھے کبھی خود سے اپنے لیے جینے کا موقع نہیں ملا” وہ اپنی خواہشات کا اظہار کر رہی تھی۔
اس نے پلٹ کر دیکھا آرین منہ بنائے وہی کھڑا تھا۔ وہ سر جھٹکتی ہوئی واپس اس کے پاس آئی اور اس کا ہاتھ تھام لیا ۔ آرین نے پہلے اپنے ہاتھ میں کرن کا نرم لمس محسوس کیا پھر مایوسی سے اس کی آنکھوں میں دیکھا
“تم بہت اچھی لائف پارٹنر deserve کرتے ہو اور مجھے یقین ہے بہت جلد وہ تمہیں مل جائے گی۔۔۔۔۔۔ جو دوسروں کے ساتھ نیکی کرتے ہے اللہ تعالی انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتے۔۔۔۔۔” اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر وہ پیار سے سمجھا رہی تھی۔
“پر تمہیں کہی بھی اکیلے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ رانا کو 13 سال قید ہوئی ہے۔۔۔۔” آرین نے اسے پھر روکنے کے لیے جتن شروع کئے۔
“آرین۔۔۔۔۔ میں دنیا دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ چچی کے اور پھر رانا مبشر کے پنجرے میں رہ رہ کر میں اکتا گئی ہوں اب الگ ملک جا کر نئے لوگوں سے ملنا چاہتی ہوں اپنی الگ پہچان بنانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ تم ہمیشہ سے چاہتے تھے میں اپنی مرضی کی مالکن بنوں۔۔۔۔۔ تو اب مجھے میرے طریقہ سے جینے دو”۔ کرن نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
آرین اس کے آگے اور بحث نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے خاموش ہوگیا۔
” تم نے میرے لیے بہت کچھ کیا۔۔۔۔۔۔ ترکی گئے خلا سے ملنے والے رقم سے میرے لیے وہاں گھر لیا۔۔۔۔۔ میری مستقل رہائش کروائی۔۔۔۔۔ ایک لائبریری میں جاب بھی کروا دی۔۔۔۔۔ تھینکیو آرین۔۔۔۔ میں تمہاری بہت مشکور ہوں۔ ” کرن نے خوشی سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔ اپنے نئے سفر کے بارے میں سوچ کر ہی وہ مسرور ہو رہی تھی۔
“میری ایک نصیحت مانو گے” کرن نے معصومیت سے آرین کو دیکھ کر کہا۔ آرین بغیر کسی تاثرات کے اس کا ہاتھ پکڑے کھڑا رہا۔
“تم اپنے گاوں واپس چلے جاو۔۔۔۔۔ دو وقت کی روٹی ہی صحیح لیکن اپنے اپنوں کے ساتھ رہو۔۔۔۔۔۔۔ اس عمر میں تمہارے ماں باپ کو تمہارے سہارے کی ضرورت ہے تمہارے پیسوں کی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور جتنی جلدی ہو سکے اپنے اماں کی پسند کی ہوئی لڑکی سے شادی کر لو۔” کرن نے مسکراتے ہوئے آبرو اچکا کر کہا۔
آرین منہ بھسورتے ہوئے رخ موڑ گیا۔
“آرین۔۔۔۔۔۔اینٹ سے بنا مکان تب گھر بنتا ہے جب اس میں اپنے ہو۔۔۔۔ رشتے ہو۔۔۔۔۔ پیار ہو۔۔۔۔۔ خوشی ہو۔۔۔۔۔۔ سب دکھ سکھ میں ساتھ ہو۔۔۔۔۔ تمہارے ماں باپ کو وہ گھر چاہیئے۔۔۔۔۔ تمہاری بیوی بچے ہو ان کا دل لگا رہے۔۔۔۔۔ سہارا دینے بیٹا پاس ہو وہ کمائی چاہیئے۔۔۔۔۔۔ تمہاری یہ دولت شہرت نہیں۔” کرن نے ہمدردی سے اسے رشتوں کا اپنی فیملی ہونے کا مطلب سمجھاتے ہوئے کہا جو کرن کے پاس نہیں تھی۔
آرین افسردگی سے لب مینچھے اسے دیکھتا رہا۔
“چلو اب منہ صحیح کرو۔۔۔۔ مجھے ہنسی خوشی رخصت کرو۔۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ گزارے ان لمحوں کو بھی یادگار بنانا چاہتی ہوں” کرن نے اس کا ہاتھ جھنجوڑ کر اس کے سر پر تھپکی دیتے ہوئے مخاطب کیا۔ آرین نے پلکیں جھپکا کر خود کو کمپوز کیا اور مسکرا کر کرن کے رخسار پر ہاتھ رکھا۔
“خوش رہو” اس نے دعا دیتے ہوئے کہا۔
وہ اسی طرح ہاتھ تھامے آگے بڑھنے لگے۔ ایرپورٹ کے دروازے پر پہنچ کر کرن نے اپنا پاسپورٹ اور ٹکٹ چیک کروایا اور آرین سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے اندر جانے لگی۔ آرین نے دروازے کے باہر ہی کھڑے ہو کر ہوا میں ہاتھ لہراتے ہوئے اسے بائے کیا اور پلٹ گیا۔ کرن سنجیدہ انداز میں آنسو روکتی ایرپورٹ کے چمکتے فرش پر سامنے چلتی رہی اور مڑ کر دیکھنے سے گریز کرتی رہی۔ وہی آرین چلتے چلتے رکا اور بھیگی آنکھوں سے پلٹ کر دیکھا پر کرن سامنے چلتی رہی وہ نہیں پلٹی۔ آرین جانتا تھا وہ ایک دفعہ پھر اسے کھو چکا تھا اور اس دفعہ شاید ہمیشہ کے لیے۔ سرد آہ بھرتے ہوئے سر جھٹکتا وہ واپس مڑا اور ہاتھ جیب میں ڈال کر تیز تیز چل کر سڑک پر آگیا۔
***************&&&&***************
############ 6 سال بعد ##############
آج ترکی کے مشہور پریس کلب میں ایک بہت بڑی تقریب منعقد کی ہوئی تھی۔ ایک سال میں اس کے اپنی زندگی پر مبنی کتاب قسمت سے ہاری میں کی 10 لاکھ کاپیاں فروخت ہونے کے اس کامیابی تقریب میں اسے خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ دنیا سے انجان اپنے گھر اور لائبریری کے ارد گرد ہی بسر رہی تھی 3 سال پہلے جب اس نے اپنی ایک ساتھی کام کرنے والی ترکش خاتون کو اپنی کہانی سنائی تو اس نے کرن کو اپنی کہانی کتاب کی شکل میں دنیا تک پہنچانے کی تجویز دی تاکہ لڑکیاں عبرت حاصل کر سکے اس وقت تو اس نے وہ بات مذاق میں اڑا دی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد جب اس نے قلم کاغذ اٹھا کر کچھ سطور درج کئے تو آہستہ آہستہ اس کا شوق بڑھنے لگا اور ایک سال کے عرصہ میں کتاب لکھ کر پبلشنگ کے لیے دے دی۔
تقریب کے آغاز میں اس نے اپنے کتاب کا آخری صفحہ پڑھ کر گیلی سانس اندر کھینچ کر خود کو نارمل کیا اور نظریں اٹھا کر سامنے اس پریس کانفرنس کو دیکھا جو خاموشی سے اپنے نشت پر بیٹھے پبلشر کی زبانی کرن کے کتاب کی تعریفیں بیان کر رہی تھی۔ جرنلسٹس کے کیمرے کبھی پوڈیم پر کھڑی پبلشر کی جانب ہوتے تو کھبی شان سے بیٹھی اس 31 سالہ خوبصورت با اعتماد خاتون پر۔
کتاب کی تعارفی نکتے بیان کرنے کے بعد پبلشر نے کرن کو پوڈیم پر آکر میڈیا سے گفتگو کرنے کی پیشکش کی۔ کرن سفید ٹراؤزر پر لمبا گاون زیب تن کئے سر پر اسکارف پہنے موودب انداز میں اٹھی اور مسکرا کر ترکش انداز میں سر کو خم دیتے پوڈیم پر آئی۔ اس کے چل کر آتے ہوئے ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ مائیک کو اپنے حساب سے برابر کرتے ہوئے گویا ہوئی تو ہال میں پن ڈراپ خاموشی ہوگئی۔
“اسلام علیکم”۔ با اعتماد لہجے میں کہتے ہوئے وہ مسکرائی
“اتنی تعریف کے قابل نہیں ہے یہ کتاب۔۔۔۔۔ میری طرح ہزاروں کرن موجود ہونگی اس دنیا میں۔۔۔۔۔ مخصوص طور پر اگر اپنے ملک پاکستان کی بات کروں تو وہاں ہر گلی کوچے ہر گاوں قصبے میں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے 80 فیصد تو اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے لیکن اپنے لیے آواز نہیں اٹھا پاتی۔” کرن نے انگلش میں اپنے تقریر کا آغاز کیا
(پاکستان میں روحان نے بزنس کی ساری ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی تھی۔ دفتر ہو یا گھر کسی پر کوئی پابندی نہیں تھی کام کے وقت کام اور تفریح کے دوران سب مل جل ہنسی مذاق کرتے۔)
“مرد چاہے عورت پر حاکمیت جتانے کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہو یا اس کی بد زبانی روکنے کے لیے پر یہ قابل مذمت عمل ہے۔۔۔۔۔۔ اسے روکنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے کوئی معافی نہیں دی جا سکتی۔” وہ پرویشنل انداز میں ایک ایک جرنلسٹ کے کیمرے میں دیکھ کر کہتی رہی۔
(رانا مبشر سینٹرل جیل میں تھے۔ پچھلے چھ سالوں سے وہ اس کوٹھڑی کے چار دیواری میں قید ہوگئے تھے جیسے انہوں نے مظلوموں کو رکھا تھا۔ روحان اپنے وعدے کے مطابق ہر ہفتے رانا بھائی سے ملنے جاتا اور باقاعدگی سے ان کی صحت اور آرام کا خیال رکھتا۔ دونوں بچوں کی بے رخی سے نگار بیگم کافی بیمار ہوگئی تھی امریکہ سے لوٹنے کے بعد کرن کے کہنے پر نور نے اپنی ماما کو معاف کر دیا تھا اور اپنی نگرانی میں نگار بیگم کی دیکھ بھال کرواتی رہی جس سے ان کی صحت میں بہتری آگئی تھی۔)
” عورت تو اللہ نے ایسی ذات بنائی ہے جسے مرد پھول جیسے رکھے تو وہ خوشبو برساتی ہے اور اگر کچل کر رکھے تو دم توڑ دیتی ہے۔۔۔۔۔ اللہ نے عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا فرمایا ہے تا کہ نا وہ سر پر چڑھے اور نا پیروں طلے روند دی جائے بلکہ شانہ بہ شانہ مرد کے ساتھ جیئے۔۔۔۔۔۔ وہ بھی انسان ہے خواہشات رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ خواب دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ حسرتیں پالتی ہے۔” اس کی با اعتماد آواز ہال میں گونج رہی تھی اور سب دم سادھے اس سن رہے تھے۔
(روحان کو اللہ نے اولاد جیسے نعمت سے نوازا۔ اس کے ہاں تین بچے تھے 4 سالہ جڑواں زینب اور ذیشان اور 2 سالہ سفیان۔ رانا صاحب کا کمرا ویسی ہی رکھا گیا تھا جیسے وہ چھوڑ کر گئے تھے جبکہ بیلا کا کمرا کھلوا کر روحان نے اسے اپنا سٹڈی روم بنا دیا تھا اور کرن کے الماریوں کا کمرا اپنے بچوں کا بنا دیا تھا۔)
“میرا ایسے مردوں سے سوال ہے آخر کیا تسکین مل جاتی ہے عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر۔۔۔۔۔ مجھے نہیں پتا کبھی میری کتاب یا میری یہ تقریر رانا مبشر سن پائے گے یا نہیں لیکن میں پوچھنا چاہوں گی۔۔۔۔۔ کیا مل گیا۔۔۔۔ ایک بیوی مر گئی دوسری چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔۔ اولاد جیسا بھائی بدگمان ہوگیا۔۔۔۔۔۔ دولت شہرت سب مٹھی میں مل گئی اور جیل میں قید ہو کر رہ گئے۔۔۔۔۔۔ میں پھر بھی سہہ لیتی چپ رہتی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن رانا مبشر نے میرے ممتا کو کچل دیا تو میرا دل ٹوٹ گیا۔” اس نے زخمی انداز میں سر جھکا دیا
(آرین کرن کے نصیحت پر عمل کرتے ہوئے واپس گاوں چلا گیا تھا جبکہ روحان نے اسے editing ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ بنانے کی آفر بھی کی لیکن آرین نے رد کر دیا اور واپس گاوں کے اسکول میں استاد بن گیا۔ جب اس نے نوکری کی آفر سے انکار کر دیا تو روحان نے اس کے گاوں کے اسکول کو بھاری فنڈ مہیہ کیا جس سے وہاں کے شاگردوں اور اساتذہ کو کافی مدد ہوئی۔ آرین کو چار سال لگے کرن کی یادوں سے نکلنے میں اور بالآخر دو سال پہلے اس نے ماں باپ کی خوشی کے لیے اپنی دور کی کزن سے شادی کر لی تھی اور کچھ ماہ پہلے اولاد کی پیدائش ہوئی تھی۔)
“صبر کی ایک بات بہت اچھی ہے۔۔۔۔۔۔ جب آجائے پھر کسی چیز کی طلب نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی اپنے ناذائدہ بچے کو کھو کر صبر آگیا۔۔۔۔۔ پھر نہ مجھے رانا مبشر کے ساتھ کی طلب رہی۔۔۔۔۔ نہ آرین کے پیار کی۔۔۔۔۔ میں بس اپنے نفس کے لیے جینا چاہتی تھی” اس نے افسردگی سے کہا۔
(رانا صاحب چھ سال میں بہت خاموش ہوگئے تھے۔ روحان جب ان سے ملنے آتا تو صرف وہی گویا ہوتا اپنے بچوں کے شرارتے گنواتا ان کی ویڈیوز دکھاتا۔ نور بھی کبھی کبھار ملنے آجاتی لیکن بچوں کو لانے سے خود رانا صاحب منع کرتے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے کئے کا برا اثر بچوں پر پڑے اور نہ جیل کی سنگت ان کی تربیت پر اثر انداز ہو )
سب اپنی اپنی زندگیوں میں مشغول تھے کوئی خوش کوئی دکھی کوئی مجبور تو کوئی قید میں بند لیکن زندگی اور وقت کا سفر اپنے مقررہ رفتار سے رواں دواں تھے۔
“میں نے اپنی کتاب کا عنوان قسمت سے ہاری میں اس لیے رکھا کیونکہ۔۔۔۔۔ کبھی کبھی انسان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ بس قسمت ساتھ نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ اس لیے میں سب کو یہی تجویز کروں گی کہ جب بھی دعا کریں تو اپنے اچھے قسمت کے لیے دعا کریں۔۔۔۔۔ اللہ کے راضی ہونے کی فریاد کریں۔۔۔۔۔۔ کیونکہ جب قسمت ساتھ دینا شروع کریں تو وہ سب حاصل ہوجاتا ہے جس کی کبھی خواہش کی ہو۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی اچھا گھر ملا۔۔۔۔۔۔ شوہر ملا۔۔۔۔۔۔ اپنا کہنے کے لیے روحان اور نور جیسے رشتے ملے۔۔۔۔۔۔۔ آرین جیسا دوست ملا۔۔۔۔۔۔ بس قسمت سے ہار گئی۔۔۔۔” آخری فقرہ کہتے وہ آبدیدہ ہوگئی
“آپ سب نے میری کتاب پسند کی۔۔۔۔۔ میری کہانی سے متاثر ہوئے۔۔۔۔۔ مجھے اتنا پیار دیا جس کے لیے میں بہت مشکور ہوں۔۔۔۔۔ تھینکیو۔” اس نے پھیکا مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور پوڈیم پر سے ہٹ گئی۔
سب اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ ہال پھر سے تالیوں کے شور سے گھونج اٹھا۔ کرن نے نظریں گھما کر دیکھا بہت ساری آنکھیں نم دکھائی دی۔
تقریب ختم ہونے کے بعد وہ ہال کے باہر آئی تو کار اور ڈرائیور کے ساتھ ساتھ 21 سالہ جوان ترکش لڑکی سوٹ پہنے ہاتھوں میں فائل پکڑے اس کا انتظار کر رہی تھی۔
وہ کرن کی مینیجر تھی جو اس کی لکھاری کے کام سنبھالتی تھی۔ کرن اب مصنفہ بن گئی تھی لائبریرین کے جاب کے ساتھ ساتھ وہ ایک حقوق زنان ادارے سے بھی منسلک تھی جہاں وہ اپنی جیسی تشدد سے متاثرہ خواتین کی کہانیوں پر کتابیں لکھتی اسی کے چلتے اسے کافی ملکوں کا سفر بھی کرنا پڑتا۔ وہ اپنی موجودہ زندگی سے خوش تھی اس کی آزمائش ختم ہوگئی تھی بس قسمت میں زندگی بھر کی تنہائی آگئی تھی۔
اس نے قسمت کے سمجھوتوں کا مثبت انداز میں مقابلہ کرنا سیکھ لیا تھا اس نے اپنے طریقے سے نام اور عزت کمانا سیکھ لیا تھا۔ پروفیشنل رائٹر کے انداز میں چلتی وہ گاڑی میں آکر بیٹھی اور ہلکے بارش سے تر ہوتی سڑک کو دیکھنے لگی۔ نا جانے اگلا مرحلہ اسے کس طرف لے جاتا پر وہ ہر امتحان کے لیے تیار تھی۔
********************&&&&******************
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...