پچھلے مہینے میں مجھے اس عجائب خانے کا حال لکھنے کی فرصت نہ ہوئی۔ یہ عجائب خانہ جشن دربار دہلی کی تقریب میں حسب ایماء والا عالی جناب نواب لفٹننٹ گورنر بہادر پنجاب بالقابہم قلعہ معلّی (لال قلعہ) میں جمع کیا گیا اور بڑی عزت کی بات ہے کہ اس عجائب خانے کی اشیاء نادرہ دی ا مپر یل میجسٹیز اعلی حضرت قدر قدرت شہنشاہ معظم قیصر ہند اور علیا حضرت حضور ملکہ معظمہ قیصر ہند کی نظر اقدس سے گزریں اور پسند خاطرِ والا ہوئیں۔
یہاں کی عجیب و نادر اشیا کا ذخیرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، مگر ان چیزوں کی فہرست اور ان کی تحقیق و تاریخ کا حال جو انگریزی میں علیحدہ لکھا گیا ہے، ایک کارنامہ ہے۔ یہ تصنیف از روئے معلومات فنون لطیفہ وآثار الصنادید، دہلی دربار کی بہت پاکیزہ یادگار ہے۔ اس کو عجائب خانے کی محض فہرست نہ سمجھیے بلکہ یہ کیٹلاگ ایسا نادر تذکرہ ہے جس میں قدیم اسلحہ، ماہی مراتب، خلعت شاہی، فنِ مصوّری وسنگ تراشی وخوشنویسی، فر امین شاہی، ایام غدر یعنی ١٨٥٧ء کے متعلق یادگار چیزیں، خاندان مغلیہ کے رسم و رواج کی از روئے تحقیق ایسی اچھی تاریخ ہے جس کا اہل علم کے کتب خانوں میں موجود ہونا سامان لیاقت و پاکیزہ مزاجی میں داخل ہے۔
سنگ تراشی کے نمونے اکثر مسلمانوں سے پہلے اہل ہنود کی سلطنت کے زمانے کے ہیں۔ مسلمانوں کے وقت کے کتبے نہ صرف خوش خطی کا کمال ظاہر کرتے ہیں، بلکہ پاکیزگی کلام کے اچھے نمونے ہیں۔
(اللہ اکبر) بحکم پادشاہ ہفت کشور
(جل جلالہ) شہنشاہ بعدل وداد و تدبیر (یافتاح)
(یا ناصر) جہانگیر ابن شاہنشاہ اکبر
(یافیاض) کہ شمشیرش جہاں را کرد تسخیر (یاحی)
(١٢ء )چو ایں پُل گشت در دہلی مرتب
(جلوس) کہ وصفش را نشاید کرد تحریر
(باہتمام) پئے تاریخ اتمامش خرد گفت
(حسین حلبی) پُل شاہنشہ دہلی جہانگیر ( کعبہ شریف)
کتبوں کا ذخیرہ ١١٩٣ ءسے ١٨٥٧ء تک کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں محمود رکابدار گورخانی کا کتبہ، قلعہ سلیم گڑھ کی تاریخ، فرّخ سِیَر کے زمانے کے پتھر کا کتبہ اور سنگ تراشی کے کام اچھے اچھے ہیں۔ سنگ تراشی میں فرہاد کا نام مشہور ہے کہ:
ترا شُد چوں شود دستش سُبک پے
زلعل دلبراں آلایش مے
پتھر میں مسلمانوں نے جو گل بوٹے اور خوش خطی دکھائی اس کے سامنے فرہاد کا ذکر محض افسانہ رہ گیا۔
اسلحہ قدیم و نادر اسلحہ کا ذخیرہ نہایت عجیب ہے کہ تیر و خنجر سے لے کر توپ و تفنگ کے عجیب عجیب نادر نمونے ہیں، ہر ایک ہتھیار کا حال کہ کس طرح کام آتا ہےاور اس کی اصل کیا ہے، بڑی خوبی سے لکھا گیا ہے۔
ابوالفضل نے آئین اکبری میں اپنے زمانے کے ہتھیاروں کی تفصیل لکھی ہے۔ اس عجائب خانے میں اُس سے زیادہ عجیب عجیب قدیم ہتھیار دیکھنے میں آئے۔ نادر کی تلوار، اودے پور کے مہاراجا پرتاب سنگھ کی زرہ بکتر، ایران کی تلواریں، نامور لوگوں کے خنجر کی کٹار پیشِ قبض وغیرہ، اورنگ زیب کا ظفر تکیہ، چار آئینے کا نمونہ؛ چار آئینہ میں نے دیکھا نہ تھا، صرف کتابوں میں ذکر سنا تھا کہ:
“نوع از لباس جنگ کہ چہار تختہ از آہن ساختہ ودر بنات یا مخمل گرفتہ گرد پشت وسینہ کشند”۔
ماہی مراتب
ماہی مراتب اور نشاناتِ شاہی کا حال بہت مفصل لکھا گیا ہے۔ مسلمانوں میں حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو ید اللہ کا لقب ہے، ید یعنی ہاتھ سے پنجے کا تعلق سمجھا جاتا ہے۔ آفتاب و شیر و ماہی ایرانیوں کے نشان میں جو اُن کے ہاں قدیم سے رائج تھے اور جس طرح سلطنت انگریزی کی تعریف میں ہے کہ اس پر آفتاب غروب نہیں ہوتا، فارسی میں وسعت عملداری کی نسبت مشہور ہے کہ از ماہ تا بہ ماہی کہتے ہیں کہ زمین سے آسمان تک حکم جاری ہے، ماہ اونچی چیزوں میں اور ماہی نشیب کی چیزوں میں ظاہر ہے۔
“نشان کوکبہ چو بے باشد بلند وکج کہ از سرآں گوئے فولادی مصیقل آویزند وپیشِ سوارئ ملوک مے برند وآن از لوازم بادشاہی است”۔
قمقمہ “ظرف کوچک کہ آنرا کوزہ گویند”۔
خلعت
“خلعت جامہ باشد کہ از تن کشیدہ بردیگرے دہند”
خلعت کی بڑی عزت یہ ہے کہ بادشاہ کا پہنا ہوا لباس کسی کو عطا ہو۔ بہادر شاہ کے اخبار قلعہ معلّی سراج الاخبار نامی ہفتہ من ابتدائے روز پنجشنبہ لغایت شارم چہار شنبہ شعبان المعظم ١٢٥٧ھ (مطابق ١٨٤١ء) کی خبروں میں لکھا ہے کہ:
“فرزند ارجمند معظم الدولہ بہادر جناب صاحب رزیڈنٹ بہادر دہلی معہ سکتر صاحب بآستان بوسی فائز شدہ صیقل آئینہ اعزاز ورنگ چہرہ امتیاز گردیدہ بعرض رسانید کہ فدوی ارادہ روانگی کوہ شملہ برسمِ دورہ دارد۔ ۔ ۔ ۔ چوں محمول ایں خاندان رفیع الشان است کہ ہنگامِ رجعتِ امراء بعطائے خلعت سرفراز میگردند بہادر موصوف بعنایتِ دوشالہ ملبوسِ خاص ممتاز گردیدہ نذرِ تہنیت گزرایند ۔۔۔ ۔ ۔ ۔خلعت شاہی تین پارچے سے کم کا نہیں ہوتا تھا”۔
اسی طرح کھانے کی عزت اس بات کی تھی کہ خاصے سے بھیجا جائے جس کو اُلش کہتے تھے۔
فرامین
فرامین شاہی کی تحقیق میں صاحب فہرست نے کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا۔ سلطنت مغلیہ میں فرمان نویسی کا صیغہ ہی علاحدہ تھا، جو مسلمانوں کے وقت میں ایک خاص فن کے مرتبہ کو پہنچ گیا۔ اچھے سے اچھے خوشنویس اور اہل کمال اس صیغے کے متعلق تھے، ایک ایک کاغذ پانچ چھ جگہ اور دس بارہ معزز اہلکاروں کی نظر سے گزرتا تھا۔ ان کی تصحیح و نقل کی اصلاحیں جدا جدا تھیں، مُہر ثبت کرنے کی تاریخ بھی بالتحقیق لکھی جاتی تھی۔ اہل علم و تحقیق کے واسطے فرامین شاہی بڑے دلکش اسباب میں سمجھیے۔
ان فرمانوں میں سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد کا ایک فرمان خط نسخ میں ہے کہ اس وقت نستعلیق کا رواج نہ تھا۔ ہندوستان میں خط نسخ پٹھانوں کے زمانے تک جاری رہا، خاندان مغلیہ کے فرمان سب نستعلیق خط میں ہیں اور خط نستعلیق کے بہت اچھی طرز کے۔ بقول صاحب فہرست جوں جوں سلطنت مغلیہ میں ضعف آتاگیا، فرمانوں کی حالت میں بھی زوال کی صورت نظر آتی ہے۔
دکھن میں عالمگیر کا فرمان پہنچنے پر مرہٹوں کا سردار راجا تین لعل مع لشکر شہر سے باہر استقبال کو آیا تھا۔ اس وقت کے فرامین شاہی کی شان ایسی تزک و احتشام کی تھی جس کے لیے ایک کتاب علاحدہ لکھی جائے تو مناسب ہے۔ فرمان نویسی میں قدیم تعلیم کا کیسا اچھا ثبوت ہے کہ بڑے کے نام کا بڑا ادب تھا۔ خدا، رسول، بادشاہ اور بڑوں کے نام ہمیشہ اوپر لکھے جاتے تھے اور اگر کوئی نام عبارت میں کہیں نیچے آجاتا تو وہ جگہ خالی چھوڑ کر اوپر لکھا جاتا تھا، یہ حفظ مراتب ہماری گھٹّی میں پڑا ہوا ہے۔ فرامین کے ساتھ جرنیل پر ان صاحب کا ایک قول (عہدنامے کے طور پر) ہے جس میں جناب حضرت عیسی علیہ السلام کا نام آیا تو نیچے جگہ خالی چھوڑ کر اوپر لکھا۔
اُس وقت کی طرز تحریر اور تاریخ لکھنے کے لیے یہ فرامین اور خطوط جو اس عجائب خانے میں جمع کئے گئے، بڑے کام کے ہیں۔
خوش خطی
یہ فن ہندوستان اور ایران کا حصہ ہے چھاپے خانے کی وجہ سے یورپ میں اس کا رواج نہ ہوا۔
خوش خطی کی قدر ہندوستان میں سلاطین مغلیہ کے زمانے میں زیادہ ہوئی اور جوں جوں چھاپے کا رواج ہوا کم ہوتا گیا، اس فن کے صاحب کمال اور شوقین روز بروز گھٹتے جاتے ہیں؛ لیکن اب بھی گو چھاپے خانوں کی کثرت ہے مگر نستعلیق ہاتھ ہی سے لکھا جاتا ہے۔ اس کا ٹائپ اب تک کسی سے بن نہ سکا کہ نستعلیق خط کے لیے کم و بیش چار سو پانسو توڑ چاہئیں۔
مجھے اس فن کا شوق ہے اور شوق کے موافق اگر خوش خطی کا ذکر کیے جاؤں تو ایک کتاب ہو جائے۔ فارسی میں اس فن کی کتابیں موجود ہیں، اس لیے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
تصویریں
تصویروں کا ذخیرہ واقعی لاجواب ہے جن کی فہرست تیار کرنے اور ترتیب دینے میں بڑی لیاقت دکھائی گئی ہے۔ اکثر تصویریں ایسی بے مثل ہیں جنہیں فن مصوری کی جان کہیے۔ یہ فن مسلمانوں نے باوجود شرعی ممانعت کے کمال کو پہنچادیا۔ حکام کا ہم پر احسان ہے جن کی پرورش سے ایسی پاکیزہ تصویریں ہمارے دیکھنے میں آئیں، فن مصوری اب ہندوستان سے مٹا جاتا ہے۔ اول تو اس فن کے اہل کمال نہیں رہے، دوسرے شوخ رنگ کے وہ مسالے جو مچھلی کے پوٹے سے تیار ہوتے تھے، شنجرف کا برسوں گھوٹنا اب کہاں۔ ہمارے ہاں کے مصور چہرہ تو ایسا پاکیزہ بناتے ہیں کہ اور ملکوں میں یہ بات میسر نہیں اور تصویر بھی جس قدر چھوٹی بنائی اسی قدر خوبصورت۔ شروع میں تو مغلیہ اسکول میں تاتاریوں کی تقلید رہی، جن میں مانی و بہزاد کا نام ہر شخص کی زبان پر ہے۔ پھر ہندوستان کے خط و خال کا اسکول علاحدہ پیدا ہوا، دہلی میں ہندوستانی خط و خال کی تعریف سمجھی جاتی ہے اور لکھنو میں یورپ کے مصوروں کی تقلید زیادہ پائی جاتی ہے، آخر میں دہلی اور لکھنؤ دونوں جگہ یورپ کے مصور زیادہ آ گئے۔ بہادر شاہ کے زمانے میں مسٹر سوفٹ صاحب بہادر نامی مصوّر انگریزی نے سواری کی تصویریں اچھی کھینچیں۔ ہمارے ہاں کے مصوروں کو ہاتھی گھوڑے کی تصویریں کھینچنے میں کمال نہیں ہوا۔ مصوری کا فوٹو گرافی کی طرح گو اہل علم سے بہت تعلق نہیں سمجھا جاتا لیکن قدیم تصویروں کی بڑی خوبی یہ ہے کہ بیش قیمت تصویروں کے ساتھ فارسی کلامِ نظم موقع کے مناسب ضرور ہوتا ہے یا ایک طرف خوش خطی کا کوئی نمونہ قطعے کے طور پر اور دوسری طرف تصویر کہ متقی اور مولوی لوگ جو تصویر دیکھنا ناجائز سمجھتے ہیں ان کے لیے قطعہ کا رخ کافی ہے۔ خوبصورتی میں تصویر اور خوش خطی و پاکیزہ کلامی میں قطعہ دونوں لاجواب سمجھیے۔
میں دیکھتا ہوں کہ یہ مضمون بہت بڑھا جاتا ہے اور واقعی مصوری اور تصویروں کا حال اس مضمون میں آنا مشکل ہے؛ اس لیے تصویر اور مصوروں کی نسبت میں پھر عرض کروں گا۔ لیکن اس وقت اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ واقعی ان مختلف اور متعدد فنون کی تحقیق میں اس قدر کمال اور واقف کاری جو عجائب خانے کے کیٹلاگ (فہرست) سے ثابت ہوتی ہے، ہزار تحسین کے قابل ہے۔ اس فہرست میں بعض مَدوں کا ذکر مَیں جان بوجھ کر چھوڑ گیا کہ مجھے ان میں دَخل نہیں اور جن میں کچھ دخل ہے ان کے لکھنے کی رسالے کے مضامین میں زیادہ گنجائش نہیں۔