اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا۔ وجہ آنکھوں کا بند ہونا نہیں بلکہ وہ پٹی تھی جو اسکی آنکھوں پر باندھی گئی تھی۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ اسکی پشت پر ایک سخت ڈوری سے باندھے ہوئے تھے وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے ؟ کیوں ہے ؟ اور اسے یہاں لانے والا کون ہے ؟ کتنا وقت گزرا تھا؟ گھر والے جانتے بھی ہیں اسکے غائب ہونے کا یا نہیں ؟ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی اور کسی نے اس کی آنکھوں پر سے بندھی پٹی ہٹائی تھی ۔ اس نے آنکھیں کھولی تھی تھوڑی دیر تک تو اندھیرا ہی رہا پر جیسے ہی اندھیرا ہٹا اسے اپنے سامنے ایک درمیانی عمر کی خاتون نظر آئیں تھی وہ کچھ بول نہیں سکی تھی کیونکہ اسکے منہ پر ٹیپ لگی تھی جسے اس خاتون نے ہٹایا تھا
’’ کون ہیں آپ؟ مجھے کیوں لایا ہے یہاں ؟ ’’ وہ فوراً سوال کرنے لگ گئی تھی جس پر اس خاتون کے چہرے کے تعصورات بگڑے تھے
’’ زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں صرف اتنا بنانے آئی ہوں کہ تھوڑی دیر میں قاضی آنے والا ہے چپ چاپ نکاح نامے پر دستخط کر لینا ’’ اسنے دھمکی آمیز انداز میں کہا تھا
’’ نکاح ؟ میں کوئی نکاح نہیں کرونگی ’’ اس نے آواز اونچی کر کے کہا تھا
’’ نکاح تو تمہیں کرنا ہوگا اگر نہیں کروگی تو پوری رات یہاں گزار کر جاوگی اور ایک لڑکی رات بھر باہر رہے تو جانتی ہونا اسے کتنی ذلت ملتی ہے اس معاشرے میں ؟ اس لئے شرافت سے نکاح کرو اور گھر جاو اور اب مزید کوئی سوال نہیں ’’ وہ اب اسکی آنکھوں پر پٹی دوبارہ باندھ رہی تھی ’’ تمہاری ہاں کے لئے ہونٹ بند نہیں کر رہی ہوں یاد رکھنا اگر ہاں کہ علادہ کوئی بھی اور لفظ نکلا تو جتنے الفاظ۔۔ اتنی راتیں یہاں بند رہوگی ’’ وہ اس کے سر پر دوپٹہ ڈال کر ایک ہاتھ کھول کر وہ چلی گئی تھی اور وہ کچھ کہہ نہیں سکی تھی۔۔
تھوڑی دیر بعد دروازہ دوبارہ کھلا تھا وہ نہیں جانتی تھی کتنے لوگ ہیں ؟ قدموں کو آواز بتا رہی تھی کہ ایک سے زیادہ ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد اسے قاضی کی آواز آئی تھی اسکا دماغ شل ہوگیا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ قاضی کیا کہ رہا ہے ؟ اسے کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا ہاں اپنی ’’ ہاں ’’ کی آواز بھی اسے ایسے سنائی دی جیسے اندھیرے کنویں میں سے آرہی ہو ۔ کسی نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا اور کاغڈ کے ایک طرف اسے دستخط کا کہا گیا تھا اور اس نے وہاں دستخط کر دیئے تھے بس اتنی سی بات تھی اور پھر وہ لوگ چلے گئے تھے وہ اب بھی وہی بیٹھی تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ اب اسے یہاں سے کب جانے دیا جائے گا ۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ دروازہ کھلا تھا
’’ کون ہے ؟ مجھے کب واپس بھیجے گے آپ لوگ ؟ ’’ اس نے کہا تھا آواز میں گھبراہٹ تھی پر کوئی جواب نہیں آیا تھا بس کوئی تھا جو اسکا دوسرا ہاتھ کھول رہا تھا وہ محسوس کر سکتی تھی یہ ایک مردانہ ہاتھ تھا
’’ کو۔۔ کون ہے آپ ؟ ’’’ وہ اس لمس سے مزید گھبرا گئ تھی اب وہ ہاتھ کھلتے ہی کھڑی ہوئی تھی وہ شخص اب بھی اس کے سامنے تھا وہ محسوس کر سکتی تھی
’’ منگنی کر رہی تھی نہ تم آج ؟ ’’ اسنے کہا تھا اسکی آواز میں موجود سختی نے اسے پل بھر کے لئے ڈرا دیا تھا
’’ سوچ بھی کیسے لیا کہ کسی اور کے نام کی انگوٹھی ان ہاتھوں میں آسکتی ہے ’’ اس نے اب اسکا ہاتھ پکڑا تھا
’’ ہاتھ چھوڑے میرا ’’ وہ اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہتی تھی مگر گرفت مضبوط تھی
’’ آج تو ہاتھ چھوڑ دونگا میں مگر ’’ اس نے اسکے ہاتھ کی تیسری انگلی میں ایک رنگ پہنائی تھی
’’ یہ یاد رکھنا تم یہ ہاتھ لے کر جہاں بھی جاؤگی۔۔ یہ ہاتھ اور تم میری ہی رہوگی اور اگر تم نے کسی اور کو اس تک رسائی دی تو ’’ وہ اس کے تھوڑا قریب آیا تھا
’’ تو آج نکاح کیا ہے اگلی بار رخصتی ہوگی ’’ وہ کہہ کر اس سے دور ہوا تھا شاید پلٹا تھا اور پھر دوبارہ رکا تھا
’’ تم پندرہ منٹ میں اپنے گھر پر ہوگی اور تمہاری منگنی تم نے کیسے روکنی ہے یہ تمہارا مسئلہ ہے پر یہ قصہ ہمیشہ کے لئے ختم ہونا چاہیے ’’ وہ کہہ کر چلا گیا تھا اور وہ وہی سہمی کھڑی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟ دروازہ پھر کھلا تھا اور اسے بازو سے پکڑا گیا تھا اس بار وہ خاتون تھی
’’ چلو گھر جانا ہے ’’’ وہ اسے لے کر باہر آئی تھی اور ایک گاڑی میں اسے اس کے گھر کے آگے اتارا گیا تھا آنکھوں کی پٹی تب تک کھولنے کی اجازت نہیں تھی جب تک کہ وہ گاڑی چلی نہ جائے اسے محسوس ہوا کہ اب سڑک خالی ہے وہ لوگ جاچکے تھے اس نے آنکھوں سے پٹی کھولی تھی اور سامنے اسکا گھر تھا جس کا لان سجا ہوا تھا اور یہ سجاوٹ اسکی منگنی کی تھی ۔
اس نے گھر میں قدم رکھا تھا اسے یہ سجاوٹ اتنی عجیب لگ رہی تھی کچھ گھنٹے پہلے تک سب اتنا اچھا لگ رہا تھا اور صرف چند گھنٹوں نے سب بدل لیا تھا وہ اس ماحول سے بھاگنا چاہتی تھی اس نے تیزی سے قدم اپنے کمرے کی جانب کئے تھے ۔ سب کی نظروں سے بچ کر وہ کمرے کا دروازہ لاک کر کے بیٹھی تھی اور آنسوؤں کا سیلاب جو اب تک روکے رکا تھا سب بہہ گیا تھا جانے کتنا وقت وہ روتی رہی تھی جب اس کے کمرے پر دستک ہوئی تھی وہ گھبرا کر اٹھی تھی
’’ کون ہے؟ ’’
’’ ارسا تیار ہوگئ ہو ؟ سب بلا رہے ہیں نیچے تمہیں ’’ کمرے کے باہر سے نیشا بھابھی کی آواز آئی تھی
’’ جی بھا بھی بس تھوڑی دیر میں آرہی ہوں۔۔ آپ جائیں ’’ اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا تھا
’’ اچھا جلدی آجاو’’ وہ کہہ کر جاچکی تھیں اور اب وہ اپنا حلیہ ٹھیک کر نے لگ گئ تھی
وہ باہر نکلی تھی جب اسکی کزن نے اسے روکا تھا
’’ ارسا یہ تم تیار نہیں ہوئی ابھی تک ؟ ’’ وہ اس کا حلیہ دیکھ کر بولی تھی
’’ تیار ہی ہوں ’’ وہ اسے کھوئے ہوئے انداز میں کہہ کر آگے بڑھ گئ تھی
’’ اسے کیا ہوا ؟ ’’ اسکی کزن کاندھے اچکا کر آگے بڑھ گئی تھی
وہ باہر آئی تھی ہر طرف مہمان ہی مہمان تھے اس نے دیکھا سامنے ہی اسکی ماما مہمانوں کے ساتھ باتیں کر رہیں تھی کتنی خوشی تھی ان کے چہرے پر اور بابا؟ وہ آج کتنے پرسکون تھے اس نے دیکھا بابا اپنے ہونے والے داماد کے ساتھ بیٹھے کچھ کہہ رہے تھے دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی ۔۔انکا داماد؟ ذہن میں ایک دھماکہ ہوا تھا اس نے سامنے بیٹھے محد کی طرف دیکھا تھا وہ اس سے محبت نہیں تھی مگر وہ ایک اچھا انسان تھا پاپا کے دوست کا بیٹا تھا وہ خوش تھی کہ اسے اسکا ساتھ مل رہا ہے پاپا بھی خوش تھے کہ انکے دوست کا بیٹا انکا داماد بن رہا ہے مگر اب ؟ اس نے اپنے ہاتھ میں اس انگوٹھی کی کو دیکھا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ انگوٹھی پہنانے والا کون تھا ؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ ایسا کیوں ہوا تھا ؟ وہ بس اتنا جانتی تھی کہ اس ایک انگوٹھی نے اسکی زندگی بدل دی تھی وہ اسے اتار نہیں سکتی تھی وہ انگوٹھی اسکے سائز سے چھوٹی تھی اسکی انگلی میں پھنس گئ تھی وہ آج کی تاریخ میں اس سے آزاد نہیں ہوسکتی تھی ۔ مگر اب آگے کیا ہوگا ؟ وہ سب کو کیا جواب دیگی؟ اس کی ماما نے اسکی طرف دیکھا تھا وہ اسے بلا رہی تھی اسکی فرینڈز اسکی طرف آرہی تھی وہ اب اسے سٹیج پر لے جارہی تھی جہاں محد اسے دیکھ کر کھڑا ہوچکا تھا
’’ یا اللہ ! میرے لئے آسانی کر مجھے اس ذلت سے بچا دے میرے مولا ! مجھے اس امتحان سے بچا لے میرے ماں باپ کی عزت کا پاس رکھ مجھے ان حالات سے نکال دے ’’ اس کا ہر قدم انہیں وعاؤں پر اٹھ رہا تھا
اور پھر اسکے قدم لڑکھڑائے تھے اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا آرہا تھا اسنے بس اتنا دیکھا تھا کہ اس کی ماما ، پاپا اور محد اسکی طرف بھاگتے ہوئے آرہے تھے اور پھر مکمل اندھیرا چھا گیا تھا ۔
وہ سب ہاسپٹل کے ایک کمرے کے باہر تھے ڈاکٹر اندر اسکا چیک اپ کر رہے تھے ۔ ماما ایک چئیر پر بیٹھی رو رہی تھیں اور اسکی صحت کی دعائیں کر رہیں تھیں ۔ پاپا دائیں بائیں چکر لگا رہے تھے اور محد وہ کمرے کے دروازے کے پاس ٹیک لگائے پریشان کھڑا تھا ۔ سب مہمانوں کو گھر بھیچ دیا گیا تھا ۔ روم کا دروازہ کھول کر ڈاکٹر باہر آئے تھے اور اسکی ماما ڈٓکٹر کی طرف بڑھی تھی
’’ میری بیٹی کیسی ہے ڈاکٹر ؟ ’’ وہ بہت پریشان تھیں یہ اچانک اسے کیا ہوگیا تھا ؟
’’ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے زیادہ ٹینشن لینے کی وجہ سے وہ ڈپریشن میں چلی گئ تھیں اب آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں کوشش کیجئے گا کہ انہیں کوئی ٹینشن نہ ہو ہم شام تک انہیں ڈسچارج کر دیں گے ’’ ڈاکٹر کہہ کر چلے گئے تھے۔۔ ماما اور پاپا دونوں اس کے کمرے میں جاچکے تھے اور محد وہی کھڑا تھا ’’ ایسی کونسی بات ہے جو اسے پریشان کر رہی ہے ؟ کل تک تو ٹھیک تھی وہ ؟ ’’ اس کا ذہن انہیں سوالوں میں اٹکا تھا
’’ کیسی ہو تم ؟ لیٹی رہوں تمہیں آرام کی ضرورت ہے ’’ ماما نے اسے اٹھنے کی کوشش کرتے دیکھ کر کہا تھا
’’ ٹھیک ہوں ماما میں آپ دونوں پریشان نہ ہوں ’’ وہ ان دونوں کو اپنے لئے پریشان دیکھ کر بولی
’’ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ تمہیں کسی بات کی ٹینشن ہے تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا ’’ پاپا اس کےسر پر ہاتھ رکھ کر بولے تھے
’’ ایسی کوئی بات نہیں پاپا میں بلکل ٹھیک ہوں ’’ اس نے انہیں مطمئن کرنا چاہا تھا
’’ پر تم پریشان کیوں ہو ؟ ’’ ماما کو بھی یہ بات پریشان کر رہی تھی
’’ میں پریشان نہیں ہوں ماما بس اگلے مہینے میرے امتحان ہیں نا اسی کی ٹینشن تھی تھوڑی ’’ اسے اور کوئی بہانا نہ سوجا تھا
’’ ارے تو امتحان کو سر پر سوار کرنے کی کیا ضرورت ہے ’’ ماما اب اسے ڈانٹنے کے لئے تیار تھیں
’’ ارے صائمہ میری بیٹی کو مت ڈانٹو ’’ پاپا نے انہیں ڈانٹنے سے منع کیا تھا
’’ اور تمہیں بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں جانتا ہوں میری بیٹی سب سے اچھے نمبر لائے گی ’’ انہوں نے اسکی پیشانی چوم کر کہا تھا اسے وقت دروازہ کھول کر محد اندر آیا تھا اسکے ہاتھ میں اسکی میڈیسنز تھیں
’’ انکل آنٹی آپ دونوں گھر چلے جائے میں اسے شام میں لے آؤنگا ’’ اس نے میڈیسنز سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا تھا
’’ نہیں میں بھی شام میں ہی جاؤنگی ’’ ماما نے فوراً انکار کیا تھا وہ اس کے لئے پریشان تھیں
’’ ماما آپ دونوں جائیں میں اب بلکل ٹھیک ہوں اور پھر گھر پر انکل آنٹی بھی آپکا ویٹ کر رہے ہونگے انکی فلائیٹ ہے نا؟ ’’ اس نے محد کے والدین کا پوچھا تھا جو کہ منگنی کے اگلے دن ہی واپس امریکہ جانے والے تھے
’’ ارسا ٹھیک کہہ رہی ہے محد نے انہیں زبردستی گھر پر روکا تھا اب اچھا نہیں لگے گا اگر ہم انہیں سی آف کرنے نہ جائیں ’’ پاپا نے کہا تھا
’’ ٹھیک ہے پر محد بیٹا اسکا خیال رکھنا میں شام میں انتظار کرونگی ’’ وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے بولی تھیں
’’ آپ پریشان نہ ہوں میں ہوں اسکے پاس ’’ اس نے انہیں تسلی دی تھی اور اب وہ ان دونوں کو باہر چھوڑنے گیا تھا
وہ انکے جانے کے بعد اب اوپر ہوکر بیٹھی تھی ۔۔وہ خدا کی شکر گزار تھی کہ اس نے اسے اس مشکل سے نکالا تھا مگر وہ ابھی پوری طرح نکلی نہیں تھی وجانتی تھی کہ منگنی ڈلے ہوئی ہے کینسل نہیں ۔ اسے اب اسے کینسل کرنے کا سوچنا تھا ۔ محد دروازہ کھول کر اندر آیا تھا اس نے اسکی طرف دیکھا تھا اور وہ سوچ چکی تھی ۔
وہ اسکی طرف آیا تھا اور کرسی اسکے نزدیک رکھ کر بیٹھ چکا تھا
’’ کیسی ہو ؟ ’’ اس نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا
’’ ٹھیک ہوں ’’ وہ نظریں جھکا کر بولی تھی وہ جانتی تھی کہ اسکی کھوجتی نظریں اس کے چہرے پر کیا ڈھونڈ رہی تھیں
’’ اب بولوگی یا مجھے پوچھنا ہوگا ’’ وہ اسکے کہنے کا منتظر تھا
’’ محد میں ۔۔’’ وہ رکی تھی
’’ بولو تم جو کہوگی میں مانوگا ’’ وہ جیسے اسکا چہرہ پڑھ رہا تھا
’’ میں یہ منگنی کینسل کرنا چاہتی ہوں ’’ اس نے کہا تھا اور محد کا وقت جیسے رک گیا تھا۔۔ جسکا ڈر تھا وہی ہوا تھا وہ منگنی سے انکار کر رہی تھی
’’ کیوں ؟’’ یہ وہی جانتا تھا کہ یہ لفظ اس نے کیسے ادا کیے تھے
’’ ابھی نہیں بتا سکتی ’’ اس کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے وہ تڑپ گیا تھا
’’ ارسا پلیز رؤ مت تم جو چاہوگی ویسا ہی ہوگا ’’ یہ دل بھی عجیب ہوتا ہے جسے چاہتا ہے اسکی چاہت کے لئے قربان بھی ہوجاتا ہے
’’ تم سچ کہہ رہے ہو ؟ ’’ اس نے بے یقینی سے پوچھا تھا وہ ہلکا سا مسکرایا تھا
’’ ہاں پر میری بھی ایک شرط ہے ’’
’’ کیا ؟ ’’ وہ ڈری تھی کہی وہ وجہ جاننے کی ضد نا کرے
’’ ہم ہمیشہ دوست رہے گے بیسٹ فرینڈز ! ہر چیز شئیر کرنے والے ’’ وہ اس سے لاتعلق نہیں ہونا چاہتا تھا یہ دل کو نامنظور تھا
’’ وعدہ ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا
’’ ایک سوال کا جواب دے دو بس ’’ دل میں ایک وہم تھا
’’ بولو ’’
’’ تم کسی اور کو پسند کرتی ہو؟ ’’ اسکی آنکھوں میں ڈر تھا کہیں وہ ہاں نہ کہہ دے ؟ اگر ایسا ہوا تو وہ کیا کریگا؟
’’ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ’’ اس نے کہا تھا لہجہ اور آنکھیں دوںوں اسکی سچائی کا ثبوت تھی وہ دل سے مسکرایا تھا ’’ ابھی سارے راستے بند نہیں ہوئے تھے ابھی ایک امید باقی تھی ’’ دل کو سکون ملا تھا
’’ پھر تو تم مزے کرو میں سب سنبھال لونگا ’’ اس نے چہک کر کہا تھا اور وہ پرسکون ہوئی تھی ایک مسئلہ تو حل ہوگیا تھا ۔۔
وہ گھر آچکی تھی اور کسی نے بھی اس سے اس بارے میں دوبارہ نہیں پوچھا تھا محد کے والدین بھی اس سے مل کر ائرپورٹ جاچکے تھے وہ لوگ امریکہ میں سیٹل تھے انکل کا بزنس وہی تھا اور محد وہاں کے ماحول کو پسند نہیں کرتا تھا اس لئےوہ یہاں موجود گھر میں رہتا تھا اس کے علادہ وہ بزنس مینیجمنٹ میں ڈگری لے کر اپنا بزنس بھی یہاں شروع کرناچاہتا تھا وہ اور ارسا ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے ارسا ہوسٹل میں رہتئ تھی کیونکہ یونیورسٹی اس کے گھر سے بہت دور تھی ہاں چھٹیوں میں گھر آجایا کرتی تھی محد اسے پسند کرتا تھا ایک دو بار بات بھی ہوئی تھی پر عام سی اور یہ ایک حسین اتفاق ہی تھا کہ ان دونوں کے پاپا ایک دوسرے کے دوست نکلے تھے اور پھر بہت آسانی سے محد کو اسکی محبت تک رسائی ملی تھی مگر وہ محبت ہی کیا جو آسانی سے مل جائے ؟
محد نے سب سے یہ کہہ کر منگنی کینسل کروا دی تھی کہ وہ اپنے والدین کے بغیر منگنی نہیں کرنا چاہتا اس لئے اس سلسلے کو روک دیا گیا تھا وہ پر سکون تھی مگر اب اسے نہیں معلوم تھا کہ آگے کیا کرنا ہے ؟ وہ جلد از جلد ہوسٹل جانا چاہتی تھی کیونکہ وہی بیٹھ کر وہ کچھ سوچ سکتی تھی ۔ وہ اس وقت انہیں سوچوں میں گم تھی کہ بھابھی اس کے کمرے میں آئیں تھی
’’ تم منگنی والے دن کہاں گئ تھی ؟ ’’ وہ اسے مشکوک انداز میں دیکھ کر کہہ رہی تھیں
’’ کیا مطلب آپکا ’’ وہ ڈر گئ تھی اسکا ڈر اسکے چہرے پر ظاہرتھا
’’ مطلب تو تمہیں میں اب بتاتی ہوں ’’ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے دھکیلتی ہوئی باہر لے گئی تھیں اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بھابھی کو آخر ہوا کیا ہے
وہ اسے لاونچ میں لے آئیں تھیں جہاں ماما ، پاپا اور بھائی پہلے سے موجود ہیں
’’ نیشا کیا طریقہ ہے یہ ’’ احمد بھائی نے نیشا بھابھی کے انداز پر انہیں ٹوکا تھا
’’ اس سے پوچھیں یہ منگنی والے دن پانچ گھنٹے کہاں گزار کر آئی تھی ؟ ’’ بھابھی کی بات پر سب کھڑے ہوگئے تھے
’’ یہ کیا بکواس کے نیشا ’’ بھائی نےغصے سے کہا تھا اور وہ ؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ اب اس کے ساتھ کیا ہونا تھا ؟
’’ بکواس نہیں کر رہی میں ابھی میری پارلر والی سے بات ہوئی ہے پیسے واپس بھجوائے ہیں اس نے کیونکہ کلائینٹ تو وہاں پہنچی ہی نہیں تھی ’’ بھابھی نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تھااور اس پیروں تلے زمین نکل گئ تھی وہ تو سمجھی تھی کہ وہ اس ذلت سے بچ گئ ہے مگر قسمت کو یہ منظور نہ تھا
’’ ارسا ؟ نیشا کیا کہہ رہی ہے ؟ جواب دو’’ ماما اب اسکا بازوں پکڑ کر اسے جھنجھوڑ رہی تھیں اور اسکا دماغ شل تھا وہ کیا جواب دے ؟
’’ نیشا یہ بات آرام سے بھی کی جاسکتی ہے ہوسکتا ہے وہ کسی دوست کے ساتھ ہو ’’ پاپا نے کہا تھا
’’ آپ بھول رہے ہیں پاپا کہ اسکی یہاں کوئی دوست نہیں ہے اور جو ہے ہیں ان سے پہلے ہی میں پوچھ چکی ہوں ’’ بھابھی نے کہا تھا اور اس نے اپنی آنکھیں بند کردی تھی فرار کا کوئی راستہ نہیں بچا تھا
’’ اسکی خاموشی بتا رہی ہے کہ یہ کسی سے ملنے گئ تھی منگنی والے دن ٹینشن سے بےہوش ہوجانا یہ کوئی عام بات نہیں ہے ضرور دال میں کچھ کالا ہے ’’ بھابھی نے ایک اور تیلی پھینکی تھی وہ اب بھی خاموش تھی
’’ تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں ہم کہا گئ تھی تم ؟ کس سے ملنے گئ تھی ؟ ’’ بھائی کے سوال پر اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تھا ’’ تو کیا انہوں نے مان لیا تھا کہ وہ کسی سے ملنے گئ تھی ؟ ’’
’’ میں ’’ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی تھی کہ بھابھی نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا
’’ یہ رنگ ؟ کس نے دی ہے تمہیں یہ رنگ ؟ ’’ انہوں نے اسکی رنگ والا ہاتھ سب کے سامنے کیا تھا
’’ ارسا ؟ یہ انگوٹھی کہا سے آئی ہے تمہارے پاس ؟ ’’ ماما نے بے یقینی سے پوچھا تھا وہ سب دیکھ سکتےتھے کہ یہ انگوٹھی بے حد قیمتی تھی
’’ اسی نے دی ہی نہ جس کے ساتھ گئ تھی تم ؟ ’’ بھابھی کا ایک اور سوال تھا اور اسکی ہمت ختم ہوگئ تھی
’’ نہیں میں اسکے ساتھ نہیں گئ تھی وہ مجھے زبردستی لے گیا اور نکاح ۔۔۔’’ بس اتنا ہی کہنا تھا کہ ماما نے اس کا بازو چھوڑ دیا تھا بھائی کا ہاتھ اٹھا تھا اور ایک آواز گونجی تھی۔۔ پاپا صوفے پر ڈھے گئے تھے
’’ تم نے نکاح کرلیا ؟ اف اللہ تم نکاح کر کے آگئ ہو ؟ ’’ بھابھی نے کہا تھا
’’ کہتی تھی نا میں آپ سے کہ مجھے کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے کسی نے نہیں مانی میری ’’ بھابھی اب سب کسے کہہ رہی تھی
’’ نہیں بھابھی ایسی بات نہیں ہے اس نے مجھ سے نکاح۔۔ ’’ اس کی بات دوبارہ کاٹ دی گئ تھی
’’ ہاں ہاں ایسی کوئی بات نہیں ، نکاح تو نہیں ہوا نا بولو؟ ’’ بھابھی اسے بولنے کا موقع نہیں دے رہی تھیں
’’ ہاں ہوا ہے میرا نکاح ’’ وہ تنگ آکر بولی تھی
’’ دیکھا کہا تھا نا میں نے کے کوئی اور چکر ہے بتاو کون ہے وہ ؟ ’’ بھابھی اب دوسرے سوال پر آئی تھیں اور سب اسکے جواب کے منتظر تھے۔۔
’’ مجھے نہیں معلوم۔۔ میں نہیں جانتی ’’ وہ اب رونے لگی تھی
’’ لو جی سن لیں آپ نکاح کر کے آگئ ہیں اور معلوم نہیں کہ کون تھا وہ ؟ واہ ’’ بھابھی اب طنزیہ مسکرائی تھیں
’’ میں تم سے آخری بار کہہ رہا ہو صاف صاف بتاؤ کون تھا وہ کس کے ساتھ گئ تھی تم ؟؟ ’’ اب بھائی کی باری تھی اس نے دیکھا تھا اس کے پاپا ، ماما اور بھائی سب کی آنکھوں میں بے اعتباری تھی
’’ میں نہیں جانتی مجھے کچھ نہیں معلوم میں نے نہیں دیکھا اسے ’’ ا س نے کہا تھا اور بھائی دھاڑے تھے
’’ سٹ اپ ! اسکی دی ہوئی انگوٹھی پہن کر گھوم رہی ہو اور کہتی ہو کہ جانتی نہیں اسے ’’
’’ یہ اس نے زبردستی پہنا دی تھی ’’ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے اپنی بات کا یقین دلائے۔۔
’’ بیوقوف سمجھ رکھا ہے تم نے ہمیں ۔۔ ’’ بھائی آگے کہنے ہی والے تھے کہ ماما کی گھبرائی ہوئی آواز آئی تھی
’’ ساجد ، ساجد کیا ہوا آپکو ؟’’ ماما کی آواز پر سب پاپا کی طرف بڑھے تھے اور وہ وہی کھڑی رہ گئ تھی پاپا کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔۔
وہ سب پاپا کو ہاسپٹل لے کر گئے تھے اسے ساتھ جانے نہیں دیا تھا وہ نہیں جانتی تھی اسکا کیا قصور ہے ؟ ایسا کیوں ہوا تھا ؟ اب آگے کیا ہونا تھا ؟ شام کو بھائی اور بھابھی گھر آئے تھے جب وہ انکے پاس گئ تھی
’’ بھائی پاپا کیسے ہیں ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا
’’ زندہ ہیں وہ ورنہ تم نے انہیں مارنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی ’’ بھابھی کا جواب آیا تھا
’’ یہ آپ کیا کہہ رہی ہے بھابھی ؟ ’’ وہ حیران تھی
’’ ٹھیک کہہ رہی ہے یہ اور اب مزید کوئی ڈرامہ برداشت نہیں کرونگا ۔۔ مجھے صاف صاف بتاو کون ہے وہ؟ بھائی اسے شعلہ برساتی نظروں سے دیکھ رہے تھے
’’ کوئی نہیں ہے بھائی ’’ وہ بے بسی سے بولی تھی
’’ ہاں جن سے نکاح کر کے آئی ہو ’’ بھابھی کا ایک اور طنز تھا
’’ ٹھیک ہے پھر جب تک تمہاری یاداشت واپس نہیں آجاتی اس گھر میں قدم مت رکھنا ’’ بھائی نے اسکے سر پر دھماکہ کیا تھا
’’ کیا مطلب ؟ ’’
’’ مطلب یہ کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر اپنا سامان اٹھاؤ اور جاو یہاں سے ’’ وہ فیصلہ سنا رہے تھے
’’ آپ ایسا نہیں کر سکتے یہ میرے پاپا کا گھر ہے آپ مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتے ’’ وہ بولی تھی
’’ تمہیں کیا لگتا ہے میں یہ سب پاپا کی مرضی کے بغیر کر رہا ہوں ؟ ’’ انہوں نے کہا تھا اور وہ حیران تھی پاپا ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ اسکی پوری بات تو سن لیتے۔۔
’’ اگر تم چاہتی ہو کہ وہ جلد گھر آجائے وہ ایک گھنٹے میں یہاں سے چلی جاو ورنہ مجھے زبردستی کرنی ہوگی ’’ وہ کہہ کر آگے بڑھ گئے تھے اور بھابھی ایک مسکراتی نگاہ اس پر ڈال کر جاچکی تھی
وہ حیران تھی اسکے اپنوں نے اس پر اعتبار نہیں کیا تھا اعتبار تو دور وہ تو اسکی بات سننے کو تیار نہیں تھے اور پاپا ؟ ماما ؟ بیگ میں کپڑے رکھتے ہوئے اسکے ہاتھ رک گئے تھے ۔۔
’’ میں تو انکی لاڈلی تھی وہ تو مجھ سے پیار کرتے تھے پھر انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کیوں کیا ؟ ’’ اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اس نے اپنا بیگ ریڈی کیا تھا ایک آخری نظر اپنےکمرے میں ڈال کر وہ باہر نکلی تھی باہر کوئی موجود نہ تھا وہ بھائی سے ملنا چاہتی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ اس سےاب کوئی ملنا نہیں چاہتا ۔۔اس لئے اس خواہش کو دبائے وہ گھر سے باہر نکلی تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ اب وہ کہا جائے گی؟ اس کے پاس پیسے بھی نہیں تھےکہ وہ اپنے ہاسٹل جاسکے وہ چلتئ جاری تھی۔۔ جب ایک جگہ رک کر اس نے موبائیل نکالا تھا کہتے ہیں جب اپنے بھی ساتھ چھوڑ دیں تو اللہ کے بعد صرف وہی آپکے ساتھ ہوتا ہے جو آپسے محبت کرتا ہے ویسے تو محبت ماما ، پاپا اور بھائی بھی اس سے کرتے تھے پر انکی محبت مشکل وقت میں اسکا ساتھ چھوڑ چکی تھی اب وہ ایک دوست کی محبت کو آزمانا چاہتئ تھی۔۔