اپنے من پسند شخص پر فتح پانے کا پہلا احساس بہت مسرور کن تھا۔۔ بے وجہ مسکراہٹ ہمہ وقت اسکے لبوں پر تیرتی رہتی تھی ۔۔ گھر والوں سمیت نوال نے بھی نوٹ کیا تھا ۔۔ جس کے لئے وہ اب بلکل معنی نہیں رکھتا تھا ۔۔ بھری محفل میں اسے بلاجواز ٹھکرا کر پھر سے اسکے حصول کے لئے گھر والوں سے الجھنا صرف چھوٹی سی بات کو جواز بنا کر جو اس نے مزاق میں کہی تھی ۔۔
سب اسی بات کی طرف اشارہ کررہے تھے کہ فاتح نے اس سے بدلہ لیا تھا ۔۔۔ اسکے جذباتوں میں زہر سا گھل گیا تھا ۔۔ لگتا ہے تم مرنے کے بعد بھی یہاں بسیرا کیئے رکھو گی ۔۔ خیر کوئی بات نہیں میں یہاں تمہارا مقبرہ بنوا دوں گا
” فاتح زوجہ نوال “۔۔ کیسا خیال ہے ؟؟؟
دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا وہ اسکی ہمہ وقت ٹری ہائوس پر براجماں ہونے والی عادت سے نالاں نظر آرہا تھا ۔۔۔ نوال نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا ۔۔۔
ان دونوں وہ اتنا ڈسٹرب رہی تھی ۔۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔ اماں کا شدید دبائو تھا ۔۔جو شاہین ماموں کے احسانوں تلے دبی ہوئی تھی ۔۔ اسے اپنا وجود قربانی کے جانور سے کم محسوس نہیں ہورہا تھا
کیسا محسوس رہا ہے نوال سعید ؟؟؟
اچھے سے جانتی تھی وہ کیا پوچھنا چاہ رہا تھا ۔۔۔
اللہ کرے کہ تم مرجائو فاتح ۔۔
وہ دانت پیستی ہوئی بولی ۔۔
فاتح جی جان سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔
کاش تمہاری دعائوں میں اثر ہوتا ڈیئر کزن ۔۔
اسکی سلگتی نگاہوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ مزے سے بولتا سیڑھیاں پھلانگ کر ہال میں آگیا ۔۔
شادی سے ایک دن پہلے اس گھر میں بہت خاص مہمان آنے والا ہے ۔۔ آپ ابراہیم بھائی کا کمرہ اسکے لئے خالی کروا دیں ۔۔۔ فاتح کی آواز پر محو گفتگو خواتین نے پلٹ کر اسے دیکھا ۔۔۔
آپ کا مہمان جتنا بھی خاص کیوں نہ ہو ۔۔ ابراہیم بھائی کا کمرہ اسے کسی قیمت پر نہیں مل سکتا ۔۔
تاشا کا انداز حتمی تھا ۔۔
ٹھیک ہے میں خود خالی کروالوں گا ۔۔ وہ پلٹ کر بولا اور پھر چلا گیا ۔۔ اسکا انداز عجیب سا تھا ۔۔ تاشا سر جھٹک طے شدہ کپڑے کیس میں رکھنے لگی ۔۔
یہ نوال کہاں چلی گئی ہے ۔۔ جب سے شادی کی بات چلی ہے لڑکی تو گم سم ہی ہوگئی ہے ۔۔
شاکرہ بیگم کو تعجب ہونے لگا ۔۔۔
اس بے مروت کو جی بھر کے آرام کرنے دیں ۔۔ ویسے بھی چند دنوں میں ایک کمرے سے رخصت ہوکر دوسرے کمرے میں چلے جانا ہے اس نے ۔۔ روشن نے لقمہ دیا ۔۔
نصیبہ پھپھو نے مسکرا کر اسے گھوری سے نوازا ۔۔۔ آج شام کو یوسف کی آمد بھی متوقع تھی ۔۔ شام ہی کو انہوں نے نکاح کی تاریخ فائنل کرنی تھی ۔۔شاکرہ بیگم کے انکار کے باوجود نصیبہ پھپھو سامان نکلوا نکلوا کر دیکھ رہی تھی ۔۔ جو انہوں نوال کے لئے جوڑ کر رکھا تھا ۔۔۔ ان کے درمیان نند بھاوج کم اور بہنوں جیسا رشتہ تھا ۔۔ نصیبہ پھپھو استنفسار پر وہ انکار نہیں کر سکیں تھی۔۔
______________________________________
مانوس سی خوشبو سانسوں میں اترنے لگی تو اسکے حواس بیدار ہونے لگے۔۔۔وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا ۔۔۔ اسکے احساسات درست تھے ۔۔ وہ اسکے پاس ہی بیٹھی تھی ۔۔۔ اتنا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی وہ اپنی عادت سے بہت نالاں تھا ۔۔۔حالانکہ وہ کتنی بار اسکے کمرے میں گیا تھا ۔۔ متعدد بار اس کے پاس سے گزرا تھا ۔۔مجال تھا جو اس لڑکی نے مڑ کر سرسری سا بھی نوٹس لیا ہو ۔۔۔
تم یہاں کیوں آئی ہو ؟؟؟ بیگانگی سے بولتا ہوا وہ کنپٹیاں مسلتا ہوا کمفرٹر ہٹا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
کیوں میں یہاں کیوں نہیں آ سکتی ؟
اس نے آنکھیں پٹپٹائیں ۔۔
کیونکہ یہ میرا گھر نہیں ہے ۔۔ میجر عون کا ہے
تمہارا گھر کہاں ہے وہ بتا دو وہاں آجائوں گی ۔۔
وہ خوشدلی سے گویا ہوئی
میرا کوئی گھر نہیں ہے ۔۔ وہ تلخ ہوا
کوئی بات نہیں ہم مل کر ایک خوبصورت سا گھر بنائیں گے ۔۔ بانہیں پھیلا کر بولی۔۔
ہونہہ ۔۔بڑی جلدی خیال آیا تمہیں!
ابراہیم کے لبوں پر تلخ سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی ۔۔۔
تم پچھلے دو دنوں سے میرے ساتھ ایسا بی ہیو کر رہے ہو اب بس بہت ہوگیا تم کیوں کر رہے ہو یہ سب۔۔؟؟؟حالانکہ تم اتنے سال مجھ سے دور رہے ہو میں نے کوئی سوال نہیں کیا ۔۔۔ وہ پھٹ پڑی
ہونہہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے !
ابراہیم نے فون کا سرسری سا جائزہ لینے کے بعد واپس پٹخا ۔۔۔
تو تم بھی ڈانٹ لو ۔۔ پلیز ایسے منہ مت موڑو ۔۔ تمہارا دل نہیں بھرا اب تک دور رہ کر ۔۔ اپنے دوستوں سے ۔۔ اپنی فیملی سے ۔۔ مجھ سے ۔۔ وہ روہانسی ہوگئی ۔۔
تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں شوق سے مرنے گیا تھا ۔۔۔ اس نے تمسخر اڑایا ۔۔
میں ایسا تو نہیں کہہ رہی !
اکیلے پن اور مسلسل کام نے اسکی سوچ کو مخفی اور حد درجہ تلخ بنا دیا تھا ۔۔ وہ سمجھ سکتی تھی مگر اسے سمجھا نہیں پارہی تھی ۔۔۔
تم جو بھی کہہ رہی ہو یار ۔۔ پلیز یہاں سے چلی جائو تم مجھے ڈسٹریکٹ کر رہی ہو ۔۔
وہ کڑوے کسیلے لہجے میں بولا ۔۔ ایک تو اسکی نیند ٹوٹ چکی تھی اوپر سے وہ اسکے سر پر سوار ہوگئی تھی ۔۔۔ نہیں جائوں گی ۔۔ حساب لیئے بغیر کہیں نہیں جائو گی ۔۔ وہ غصے سے بولی تھی
تم کہاں تھے اتنے سال؟ کہاں رہے ؟ کیا کیا کیا؟ کہاں گئے ؟ مجھے سب جاننا ہے ۔۔ اور ۔۔۔ کہیں تم نے دوسری شادی تو نہیں کرلی نا ابراہیم؟؟؟
وہ شکی نگاہوں سے گھورتی اسے مسکرانے پر مجبور کرگئی ۔۔
تم مسکرا رہے ہو ؟؟؟ عمارا کے دل کچھ ہوا
ہاں کرلی ہے دوسری شادی ۔۔تو پھر؟
اسکی اڑی ہوئی رنگت ابراہیم کو شرارت پر آمادہ کرنے لگی ۔۔۔
کس سے ؟ وہ بمشکل بولی سکی
اپنی جاب سے ۔۔ انتہائی سنجیدگی سے کہا گیا ۔۔۔
تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا
اسکے چہرے پر سکون ابھرا ۔۔
ڈر کس بات کا عمارا بی بی ۔۔ تم تو مجھے پسند نہیں کرتی تھی ۔۔ دن رات خالہ کے کان کھاتی رہتی تھی ۔۔ کہ تمہیں میرے ساتھ کیوں باندھ دیا گیا ۔۔۔ مجھے تو لگا تھا میرے زندہ ہونے کی خبر سن کر بہت غم کھائو گی ۔۔ یا پھر ہوسکتا ہے سے طلاق کا مطالبہ کر ڈالو ۔۔
عمارا کا چہرہ ہتک آمیز الفاظوں پر سرخ پڑ گیا ۔۔ دل کیا اسکے منہ پر تھپڑ ماردے ۔۔ کتنا غلط کہہ رہا تھا وہ اسکے بارے میں ۔۔ آنسو پھر سے اسکے گالوں پر بہنے لگے تھے ۔۔ ابراہیم نہ چاہتے ہوئے بھی نرم پڑ گیا ۔۔
تم ہی تھی نا جو مجھے کبھی ناپسند کرتی تھی ؟ وہ جو خاموش آنسو بہا رہی تھی میکانکی انداز میں اثبات میں سر ہلانے لگی ۔۔۔
اب تمہیں مجھ سے محبت ہوگئی ہے ۔۔ تو تم چاہتی ہو میں تمہیں سزا بھی نا دوں؟ اتنے سال جو تم نے میری محبت کی تذلیل کی ۔۔ مجھے جھٹلایا تم چاہتی ہو میں آسانی سے بھول جائوں ؟ اسکے نرمی برتنے پر وہ سسکتی ہوئی اسکے سینے سے لگ گئی ۔۔۔
یہ اچھا طریقہ ہے آنسو بہا کر سارے شکوے شکایتیں دھو ڈالو ۔۔۔ اگلے بندے کی محنت کا بیڑا غرق کردو ۔۔
اسکے لبوں افسردہ سی سانس خارج ہوئی ۔۔
۔اب کیوں آنسو بہا رہی ہو ۔۔۔؟؟
اسکے گرد بازو حمائل کرکے اپنے ساتھ لگا لیا ۔۔
تم بھی تو مجھ سے ناراض ہو ۔۔۔ تم نے اور کسی کو نہیں ڈانٹا ۔۔ کسی سے سوال نہیں کیا ۔۔ بس مجھ ہی تنگ کیا ۔۔ تم بہت برے ہو ! وہ سسکتی ہوئی بولی تھی ۔۔۔
اگر دوسری بیوی ہوتی تو ضرور اسکا بھی یہی حال کرتا ۔۔ اس نے وارن کیا ۔۔۔
اگر دوسری بیوی ہوتی تو میں تمہارا اس سے بھی برا حال کرتی ۔۔ وہ سر بلند کرکے بولی۔۔
ابراہیم قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔ میجر عون اپنے اپارٹمنٹ سے کچھ ضروری سامان لینے آئے تھے ۔۔۔ لیکن منظر خاصا دلچسپ تھا سو مس کرنے کا تو چانس ہی نہیں بنتا تھا ۔۔
لو اس سالے کو بھی ابھی آنا تھا ۔۔ کھیر میں نمک ۔۔
ابراہیم بڑبڑاتا ہوا ناپسندیدہ نگاہوں عون کو گھورنے لگا ۔۔۔ اسلام علیکم ۔۔ وہ شوخ اور جتاتی نگاہوں سےابراہیم کو دیکھے گیا ۔۔۔ عمارا سٹپٹا کر اس سے دور ہوئی ۔۔۔
تم پر سلامتی بھیجنا اس وقت خاصا نا معقول ہے لیکن پھر بھی وعلیکم اسلام
ابراہیم جل کر بولا ۔۔۔ عون قہقہہ لگا ہنس پڑا ۔۔۔ عمارا خفت زدہ سی ہوکر ابراہیم کے پیچھے چھپ گئی ۔۔
معافی چاہتا ہوں میں اپنا ضروری سامان لینے آیا تھا ۔۔
عون جتا کر بولا ۔۔۔
لے لیا سامان ۔۔ ؟ چلو اب چلتے پھرتے نظر آئو ۔۔۔
وہ بے مروتی سے بولا ۔۔
ٹھیک ہے بھئی چلے جاتے ہیں ۔۔ کیری آن ۔۔. جاتے جاتے مخصوص انداز میں آنکھ دبا کر ابراہیم کو کہہ گیا ۔۔
ابراہیم نے مسکرا کر سر جھٹکا ۔۔
تم یہاں کیسے آئی ؟ کیسے پتا چلا کہ میں یہاں ہوں؟ وہ ٹھٹھک کر پوچھنے لگا
بس میرے دل نے کہا کہ تم یہاں ہو ۔۔ وہ شریر ہوئی
اچھااا ۔۔۔ اور کیا کیا کہتا ہے تمہارا دل ۔۔۔وہ شوخ سا ہوکر اسکے طرف بڑھا ۔۔ مگر اسکا فون بج اٹھا ۔۔۔
بیڑا غرق ہو تم سب کا ۔۔۔ وہ ناگواری سے جھلا اٹھا ۔۔۔ جنرل بخشی کالنگ؟؟ عمارا نے لب دباتے ہوئے اسکی توجہ دلائی ۔۔۔ لمحے کے ہزاروے حصے میں اسکے چہرے کا رنگ بدلا ۔۔۔ لپک کر اسکے ہاتھ سے فون لیکر کان سے لگایا تھا ۔۔۔ اسکی ہڑبڑی دیکھ کر عمارا کھکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔ ابراہیم نے گھورتے ہوئے اسے خاموش رہنے کا کہا ۔۔۔
______________________________________
رات گھنی تاریک اور خاموش تھی ۔۔ فضا پہ سناٹا طاری تھی ۔۔۔ لہروں کی موجیں پتھروں سے اپنا سر پھوڑ رہی تھیں ۔۔وہ کئی دیر سے نرم ریت پر بیٹھے ان لہروں کو گھور رہے تھے۔۔جب ہوا چلتی تو وہ ٹھٹرتی ہوئی کچھ اور خود میں سمٹ جاتی ۔۔ کچھ لمحے قبل وہ شدید زہنی ازیت میں مبتلا تھا ۔۔ وہ نہیں جانتی تھی دائم دعوت سے اچانک کیوں چلا آیا تھا ۔۔مگر کوئی تو وجہ ضرور تھی ۔۔
تم بہت محبت کرتے تھے اپنی بیوی سے ؟؟؟
اسنے یونہی پوچھ لیا
نہیں ایسا تو کچھ نہیں ۔۔
اس نے افسوس سی سانس کھینچی ۔۔
پھر اداس کیوں ہو ؟؟
نہیں تو ۔۔فورا جواب آیا ۔۔
اگر اسکی سبز آنکھوں میں کوئی چند ساعتوں کے لئے جھانک لیتا تو وہ جان جائے کہ اس ذہانت سے بھرپور آنکھوں میں اداسی ہلکورے لے رہی تھی ۔۔۔
تمہیں ایسا کیوں لگا ؟؟؟ دائم نے رخ موڑا ۔۔
اسکا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح دہک رہا ۔۔۔ بال تیز ہوا کے سنگ اٹھکیلیاں کر رہے تھے ۔۔
ایسے ہی تم بنا بتائے چلے آئے ۔۔ تو مجھے لگا ۔۔
اسکی سحر انگیز آنکھوں سے نظریں چراتی ہوئی بولی ۔۔۔ ایک عجیب سی کشش تھی اس کی آنکھوں میں
انکشاف اتنا شدید تھا کہ میں خود پر کنٹرول نہیں کر پایا اسی لئے چلا آیا ۔۔۔ شفق ‘صرف’ میری دوست نہیں ہے ۔۔ وہ دوست سے بہت زیادہ ہے ۔۔۔ دوستی کا لفظ کم پڑ جاتا ہے اسکے سامنے جیسے اس نے ماں کے بعد میری بیٹی کو سنبھالا ہر موڑ پر میرا ساتھ دیا ۔۔وہ میری زندگی کے تمام پیچ و خم سے واقف ہے۔۔۔یہ سچویشن بہت عجیب ہوگئی ہے میرے لئے ۔۔ میں سمجھ نہیں پارہا اسکے احسانوں کو کیا رنگ دوں؟ صرف اسلئے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اس نے میرا ساتھ دیا ۔۔ شادی نہیں کی اب تک ۔۔ یا پھر دوستی کے ناطے ۔۔اس نے الجھ کر سر پکڑ لیا ۔۔
نایا اس سارے معاملے سے ناواقف تھی ۔۔ سو خاموش رہی ۔۔
وہ تمہاری کی بیوی تھی جو ۔۔
سابقہ بیوی ! اسکی بات کاٹ کر کہتا وہ یونہی ارد گرد نگاہ دوڑانے لگا ۔۔۔
مطلب تم دونوں میں علیحدگی ہوچکی ہے؟ وہ حیرانی کے ساگر میں ڈوب ڈوب گئی ۔۔۔
پانچ سال پہلے ۔۔ وہ بیٹی میرے حوالے کر گئی تھی ۔۔ اور اب احسان جتا رہی ہے میں نے تمہاری بہتری کے لئے تمہیں چھوڑا ۔۔
اسکے چہرے پر افسردہ سی مسکان ابھر کر معدوم ہوئی ۔۔ تو تم نے اور شفق نے مل کر پالا علیزے کو ۔۔ وہ سابقہ حیرانی برقرار رکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔
ہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ شفق نے اسے پالا ۔۔
وہ سر ہلا کر رہ گئی ۔۔ ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی تھی اسے سن کر۔۔۔ جانے کیوں
تم کیوں مسکرا رہی ہو ؟؟
نہ۔۔نہیں تو اسکے سوال پر گڑبڑا گئی ۔۔۔۔
لمحے بھر کے توقف کے بعد رخ پھیرا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔ایک دھیمی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر سجی تھی اور وہ اتنی دلکش تھی کہ چاہتے ہوئے بھی وہ اسکے چہرے نگاہ نہیں ہٹا پائی ۔۔۔
تم نے اپنے بارے میں کبھی ذکر نہیں کیا ؟؟؟
کچھ دیر قبل گھِر آنے والی اداسی بتدریج کم ہوگئی تھی
اس سے بات کرکے ۔۔ اب وہ ریلیکس ہوگیا تھا ۔۔
میرے بارے میں ایسا کچھ ہے ہی نہیں ۔۔ میں نے کسی کو اجازت نہیں دی کہ وہ میری خوشی یا اداسی کا سبب بن سکے ۔۔ میری زندگی بس بابا سے شروع سے ہوکر انہی پر ختم ہوتی ہے ۔۔ وہ ہی میری کُل کائنات ہیں ۔۔ میری زندگی کا اثاثہ ۔۔ جس کے زکر پر نہ چاہتے ہوئے نین کٹورے بھیگنے لگے ۔۔
تم اس دن بھی آبدیدہ ہوگئیں تھہ اد لئے میں نے پوچھا ہی نہیں ۔۔۔ کیا ہوا تھا انہیں ؟
وہ ایک مشن کے دوران گرفتار ہوگئے تھے ۔۔ میں بہت چھوٹی تھی تب۔۔۔ پھر بہت سال ایسے ہی گزر گئے مما ان کے انتظار میں جان سے چلی گئی ۔۔ تقریبا بارہ برس بعد جب میں اس فیلڈ میں تو میں انہیں واپس چھڑا لائی ۔۔ لیکن میں نے بہت دیر کردی تھی۔۔وہ اپنا دماغی توازن کھو چکے تھے ۔۔ وہ روہانسی ہوگئی ۔۔ آج کتنے ہی دن گزر گئے تھے انہیں دیکھے ہوئے ۔۔ بات تو ویسے بھی اب کہاں ممکن تھی ان باپ بیٹی کے بیچ ۔۔۔
تم تو میری سوچ سے بھی زیادہ بہادر نکلی ۔۔۔ مہربان سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے ۔۔ تیز چلتی ہوا سے خائف ہوکر اس کے بکھرتے ہوئے ریشمی بالوں کو شہادت کی انگلی سے کانوں کے پیچھے اڑسا ۔۔ نایا بس اسکی سحر انگیز آنکھوں میں دیکھے گئی ۔۔ چند قدموں کی دوری پر سایہ الٹے قدموں واپس لوٹ گیا ۔۔
_________________________________________
نوال کے نکاح کی تاریخ رات یوسف کے آنے پر ہی فکس کی جا چکی تھی ۔۔دو دن بعد سادگی سے نکاح طے پایا تھا ۔۔ بس کچھ قریبی دوست اور رشتہ داروں کو تقریب میں مدعو کیا تھا ۔۔ خواتین ابھی شاپنگ کرکے لوٹ رہی تھی ۔۔ نوال اپنے سرخ پائوں کے تلوے دبانے لگی ۔۔ مارے باندھے وہ ان کے ساتھ گھوم کر ہر چیز میں حصہ لے رہی تھی ۔۔ مگر اندر ہی اندر الگ جنگ چل رہی تھی ۔۔ اس کا دل ابھی تک فاتح کو قبول نہیں کر پارہا تھا ۔۔ کتنی عجیب بات تھی نا ۔۔ جس کی ہونے کے خواب اسنے بچپن سے دیکھے تھے ۔۔۔ سچ ہونے پر وہ بے چین تھی ۔۔ ٹھیک سے خوش بھی ہو پارہی تھی ۔۔۔وہ تھکاوٹ سے کنپٹیاں سہلاتی ہوئی اٹھی اور کمرے میں جانے لگی ۔۔ لاشعوری طور پر صحن میں فاتح سنگ آتے وجود کو دیکھ ٹھٹھکی ۔۔۔ تیزی سے آنکھیں مسلتی ہوئی وہ نزدیک ترین آ کھڑی ہوئی ۔۔ جیسے یقین کرلینا چاہتی ہو جو اس نے دیکھا وہ سچ ہو ۔۔
ا۔۔ براہیم بھائی ؟؟؟ اس نے ابراہیم سے نظر گزار کر فاتح کو دیکھا ۔۔
جی ہاں ۔۔ ابراہیم بھائی ۔۔ یہ راستہ بھٹک گئے تھے ۔۔ لیکن میں انہیں واپس لے آیا ۔۔ نوال کو اسکی باتوں پر یقین آنے لگا ۔۔۔ تاثرات بے یقینی اور خوشگوار حیرت میں بدلنے لگے تھے ۔۔۔
تم تو ویسی ہی ہو بلکل نہیں بدلی ۔۔ بات بات پر رونا شروع کردیتی ہو ۔۔۔ ابراہیم نے شرارتا آنکھیں پٹپٹائیں ۔۔
وہ بے اختیار اسکے کشادہ سینے پر سر رکھ کر روپڑی ۔۔ نصیبہ پھپھو ۔۔ شاکرہ بیگم ۔۔تاشا روشن سمیت سب خواتین ان کی آوازیں سن وہاں پہنچے ۔۔۔ شاکرہ بیگم تو جیسے اسی کی منتظر تھی ۔۔۔ فورا اسے سینے سے لگاکر چوما ۔۔ کئی بار بلائیں لے ڈالیں ۔۔
تم کتنے بڑے ہوگئے ہو ابراہیم ۔۔ اور کمزور بھی ۔۔ کچھ کھاتے پیتے نہیں ہو کیا ۔۔ اماں نے روتے ہوئے کہا تو وہ ہنس پڑا ۔۔
دیکھا میں نے پہچان لیا تھا اسی دن آپ کو ملٹری یونیفارم میں بھی آپ ہی تھے ۔۔۔ میں نے فاتح بھائی سے بھی پوچھا تھا ۔۔ نوال کو بھی بتایا لیکن کسی نے میری بات کا یقین نہیں کیا ۔۔ تاشا روتے روتے اس سے لپٹ گئی ۔۔۔
ناٹک کر رہی ہے ۔۔ایک بار بھی نہیں پوچھا مجھ سے !
فاتح نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔۔
تم سے تو میں بعد میں نپٹ لوں گی ۔۔ آپ بہت برے ہیں ابراہیم بھائی ۔۔۔؟ آپ اتنی دیر تک کہاں تھے ۔۔ پتا ہے میں نے کتنا یاد آپ کو ۔۔۔ اس نے آنسو بہاتے ہوئے شکوہ کیا ۔۔
بھئی اب تو آگیا ہوں نا ۔۔ سب بتائو گا ۔۔ یہ بتائو سب یہاں ہیں یوسف کہاں ہے ؟؟؟ وہ اسکے گرد بازو کا گھیرا بنا کر چلتا ہوا لائونج میں آگیا ۔۔۔
یوسف بھائی رات دیر سے اسلام آباد سے لوٹے تھے اس لئے سو رہے ہیں ۔۔۔
اسلام آباد بھی آفس بنا لیا ۔۔۔ وہ حیران ہوا تھا ۔۔
بہت کچھ بدل گیا ہے بھائی ۔۔۔ آپ کے بعد ۔۔ بس اماں نہیں بدلیں ۔۔ اور انکا آپ کے لئے پیار نہیں بدلا ۔۔۔ نہ بابا کا صبح صبح آپ کے مسکراتی فوٹو کا دیدار کرنا بدلا ۔۔ نہ یوسف بھائی کا آپ کو آئیڈلائز کرنا ۔۔۔ نہ ہی ہم سب کا آپ کو یاد کرنا بدلا ۔۔ آپ بھی تو نہیں بدلے بہت ہنڈسم ہوگئے ہیں ۔۔ کیا کھاتے ہیں ؟؟؟ وہ زرا سا قریب ہوکر دریافت کرنے لگی ۔۔۔ ابراہیم نے مسکرا کر سرنفی میں جھٹکا ۔۔۔
بس کرو تاشا ۔۔ اسے سانس تو لینے دو ۔۔ نصیبہ پھپھو نے خفگی سے اسے ٹوکا ۔۔
ہاں بھئی لے لیں سکون کا سانس پھر آپ نے ایک ایک دن کی رواداد ہمیں سنانی ہے ۔۔ پوری رات جگا کر رکھیں گے ۔۔ سونے نہیں دیں گے ۔۔ بہت ساری باتیں کرنی ہے آپ سے ۔۔ وہ اسکے کندھے سے لگی ہوئی تھی ۔۔
ساری باتیں منظور ہیں ۔۔ اب زرا ہٹو مجھے اپنے چہیتے بھائی سے تو ملنے دو ۔۔ وہ اسکی پیشانی پر مہر ثبت کرتا ہوا اٹھا ۔۔
اور بابا ؟؟ ان سے نہیں ملے آپ؟؟؟ یکدم پوچھنے پر وہ رکا ۔۔ مگر مڑا نہیں تھا ۔۔۔
سب سے پہلے انہی سے ملا ہوں ۔۔ وہ کہہ کر چلا گیا ۔۔ اسکے لہجے کی نمی کو شاکرہ بیگم نے صاف نوٹ کیا تھا ۔۔ یقیننا وہ بہت رویا ہوگا ان سے مل کر ۔۔
امید ہے آپ سب میرے خاص مہمان کی خاطرداری اچھے سے کریں گے ۔۔ اب میں چلا اپنے کمرے میں ۔۔ نوال تم میرے لئے ایک کپ چائے بنادو گی؟؟؟
انتہائی معصومانہ انداز میں دریافت کیا گیا تھا ۔۔
اس نے لا شعوری طور پر اماں کو دیکھا جن کی نظریں اس پر مرکوز تھیں ۔۔۔ وہ سر تا پاکر سلگ گئی ۔۔
میرے کمرے میں دے جانا پلیز ۔۔ جتا کر کہتا اسکی خاموشی کو رضا مندی گرادن کر حکم صادر کرکے چلا گیا ۔۔ تاشا کے زہن میں خیال کوندا ۔۔ وہ ٹھٹھک کر رہ گئی ۔۔ فاتح بھائی کو پتا تھا سب ؟ بس مجھ سے چھپایا؟ مگر کب سے ؟؟؟ وہ فاتح کا حشر نشر کرنے کے ارادے کشن لے کر کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔
_________________________________________
رات لیث ھانی کی چنگل سے آزاد ہوچکا تھا ۔۔۔ مقامی شخص سے فون لے کر اس نے اپنے مینیجر کو فون کال کرکے صورتحال معلوم کی تھی ۔۔ شزانہ ابھی تک لا پتہ تھی ۔۔ اس نے اپنے سارے لیگل ڈاکومنٹس منگوا لئے تھے ۔۔ جو صبح موصول ہونے تھے ۔۔وہ اگلی فلائٹ سے پاکستان جا رہا تھا ۔۔۔ اس نے آئی ایس آئی کے ساتھ بھرپور تعاون کیا تھا ۔۔ اسکے باوجود اسکی بہن کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ۔۔ وہ ان سے نپٹ لے گا ۔۔ یہی سوچتے ہوئے اس نے آنکھیں موند لیں ۔۔ صبح ہونے میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھے ۔۔
__________________________________
میٹنگ کا انعقاد صبح کے وقت ھانی کے محل ہی کیا گیا تھا ۔۔۔ میٹنگ کا مقصد یقینا کسی بڑی سازش کی طرف اشارہ تھا ۔۔۔ فیصل وین میں موجود ساری سچویشن مانیٹر کر رہا تھا اور انہیں انسٹرکشنز دے رہا تھا ۔۔۔ ہیڈ کوارٹر سے جنرل بخشی بھی اس لنک سے جڑے ان کی گفتگو سننے کے لئے بے تاب تھے ۔۔۔ اس نے اپنی ہتھیلی گھما کر سب کو کوریج دی تاکے ریکارڈ جا سکے ۔۔ اسی اثنا میں قدموں کی چاپوں کی آوزیں سنائی دینے لگیں ۔۔ جنت کو ھانی کے ساتھ دیکھ کر وہ حیران پریشان ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔۔ فیصل بھی بری طرح سے چونکا تھا۔۔
دونوں بھرپور طریقے سے آدھے گھنٹے کی میٹنگ بھگتا کر واپس گاڑی میں آبیٹھے ۔۔ ھانی کے نیک ارادے سن کر انکا خون کھول رہا تھا ۔۔ وہ پھر سے دہشت پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا ۔۔ اسکی خواہش تھی کہ میٹنگ میں شریک لوگ اسکے دو نمبر کام میں شراکت داری نبھائیں ۔۔
فیصل تم خطرے میں ہو ۔۔ ؟ اگر جنت نے تمہیں یہاں دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی ۔۔. تمہیں واپس جانا ہوگا ۔۔ ہم تمہارے ساتھ اس منصوبے کو آگے بڑھانے کا رسک نہیں لے سکتے اس میں تمہاری جان کو بھی خطرہ ہے ۔۔
وہ گاڑی گھماتے ہوئے قطعی انداز میں بولا تھا ۔۔
لیکن ہم سب رسک پر ہیں ۔۔ ہمارا مشن رسک پر ہے ۔۔ جسے میں بیچ میں چھوڑ کر نہیں جائوں گا ۔۔ ہرگز نہیں ۔۔
فیصل نے سرے سے اسکا حکم ماننے سے انکار کردیا ۔۔
حکم کی تعمیل کرنا تمہارا فرض ہے ۔۔ اور میرا حکم ہے کہ تم واپس جا رہے ہو ۔۔ اسکا لہجہ اٹل تھا
فیصل بے بسی ان دونوں کو دیکھے گیا ۔۔
جنت وہاں کیسے پہنچی ؟؟؟
کیونکہ لیث وہاں سے بھاگ گیا ہے ۔۔۔
لیث کا جنت سے تعلق ؟ نایا چونکی ۔۔
لیث نے پاکستانی ایمبیسی سے مدد مانگی ہے ۔. وہ یقینا بھاگ گیا ہے ھانی کی چنگل سے ۔۔ مزید یہ کہ انہیں علم ہوچکا ہوگا کہ ہم نے اسکی پرانی رہائش پر چھان بین کی ۔۔ لیکن اچھا ہوا ۔۔ لیث نے ہمارا راز رکھا ۔۔ اور ہم نے اسکا ۔۔ حساب برابر ۔۔
مگر جنت کیوں یہاں آگئی ہے ؟؟ کہیں اس کو بھی مجھ پر شک تو نہیں ہوگیا ۔۔ ؟ فیصل الجھ کر بولا ۔۔
جنت اسکی آنکھیں اور کان ہیں شام اور اسرائیل دونوں میں ۔۔یہ لڑکی وہی بیلک-ہیٹ-ہیکر ہے جو اس نے اسرائیل سے خریدا ہے ۔۔ دائم نے اسکے سر پر دھماکہ کیا ۔۔
پھر تو اسے مجھ پر شک نہیں یقین ہوگیا ہوگا ۔۔۔
فیصل کے چہرے پر کسی سوچ کا تاثر لہرانے لگا۔۔
اسی لئے تمہارا روپوش ہونا بہت ضروری ہے فیصل ۔۔ وہ تمہیں پہچانتی ہے ۔۔ ہمیں بھی تمہارے ساتھ دیکھے گی تو ہم سب خطرے میں پڑ جائیں گے ۔۔ دائم نے رسان سے کہا ۔۔ کاٹیج پہنچ کر ہنگامی صورت میں انہوں نے مطلوبہ سامان سمیٹ لیا ۔۔ صبح ہوتے ہیں انہیں اگلی پیش قدمی کرنی تھی ۔۔ فیصل کچھ اداس سا ہوگیا تھا ۔۔
وہ دعوت والی شام سے کچھ چپ چپ سا تھا نایا نے نوٹ کیا تھا مگر پوچھ نہیں سکی ۔۔۔
تم اداس کیوں ہو رہے ہو ۔۔ تم ہیڈ کوارٹر جا کر ہماری کرنا ۔۔ آفٹرآل ہمارے پاس دا گریٹ فیصل جیسی ذہانت تو نہیں جو منٹوں کا کام سیکنڈ میں نپٹا لیتا ہے۔۔۔ کافی کا کپ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولی ۔۔ جوابا پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کپ تھام لیا ۔۔
وہ جب جب اسے مخاطب کرتی اسکا دل بے قابو ہوجاتا ۔۔ اپنی چوری پکڑے جانے کے ڈر سے اس نے نایا کو نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا ۔۔۔
ہمارے کیپٹن صاحب نے مروتا بھی نہیں پوچھا کہ میں ان کے فیصلے سے خوش ہوں یا نہیں ۔۔
وہ دبی دبی سرگوشیوں میں کہتا شکوہ کر گیا ۔۔
کیا کر سکتے ہیں ‘کیپٹن’ جو ٹھہرے ۔۔ چار و نہ چار ہر بات ماننی ہی پڑتی ہے
نایا نے شریر سی مسکان سجائے بلند آواز کہا ۔۔۔تاکہ وہ سن لے اور اس نے سن کر حسب عادت نظر انداز کردیا تھا
__________________________________________
رات دیر تک یوسف اور ابا سے ڈھیروں باتیں کرنے کے بعد وہ سونے کی غرض سے اپنے کمرے میں آگیا ۔۔۔
اسکا کمرہ جوں کا توں تھا ۔۔ یقیننا اماں نے کسی کو اسکے کمرے میں بسیرا جمانے نہیں دیا ہوگا ۔۔۔ اسٹڈی ٹیبل پر پرانی نوٹ بک ، اسکی ڈائری، قلم ، رالکس کی گھڑی ، جو اب اسکی کلائی کے لحاظ سے چھوٹی پڑ گئی تھی ۔۔ ہر چیز ویسی کی ویسی تھی ۔۔ اس نے گہرا سانس کھینچ خود ڈھیلا چھوڑ دیا۔۔۔ لائٹ آف کرکے لیٹ گیا ۔۔۔ آنکھ بند کیں تو دشمن جاں خیالوں میں آدھمکی ۔۔۔
کئی اچھی بری یادیں بے سبب مسکراہٹ کی وجہ بنی ۔۔ وہ دونوں بہت لابالی تھے ۔۔ جب انکا نکاح ہوا تھا ۔۔ عمارا اس سے ہمیشہ خائف رہتی تھی ۔۔ جہاں ابراہیم جاتا وہ وہاں ہٹ جاتی ۔۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی ۔۔۔ اور ابراہیم کی تو اس میں جان بستی تھی ۔۔ وہ سرما کی چھٹیوں کا انتظار کرتا تھا جب وہ لوگ یہاں رہنے آتے تھے ۔۔عمارا آتے ہی بیمار پڑ جاتی تھی۔۔اسے اول تو یہاں آنا ہی پسند نہیں تھا۔۔آہستہ آہستہ اس نے بتانا اور جتانا شروع کردیا اس نے اماں سے اپنی پسندیدگی کا ذکر کیا تو وہ فورا مانتی بنیں۔۔ایسے انکی نسبت طے ہوگئی اسکے بعد تو خالہ نے بلکل آنا چھوڑ دیا تھا۔۔اسے ڈر تھا کہیں خالہ رشتے سے انکار ہی نہ کردیں۔۔اسکی ضد اور ایما پر انکا نکاح کردیا گیا۔۔جس پر عمارہ کی ناپسندیدگی کھل کر سامنے آئی تھی۔۔مگر اسے کہاں پروا تھی وہ تو ہوائوں میں تھا اسے من چاہا ساتھی جو مل گیا تھایہاں آکر پرانی ساری یادیں تازہ ہوگئیں تھی ۔۔یادوں کے گرداب میں الجھے کب اسکی آنکھ لگ گئی اسے خبر ہی نہیں ہوئی ۔۔
اندھیرے کھٹ پٹ ہوئی تو وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا ۔۔۔
میں پانی کا جگ رکھنے آئی تھی ۔۔ روشنی اسلئے نہیں جلائی میں نے سوچا تمہاری نیند نہ ٹوٹ جائے
اماں کے لہجے میں یاس کا تاثر ابھرا ۔۔ ابراہیم مسکرادیا ۔ آپ کو یاد تھا مجھے اندھیرے میں سونے کی عادت ہے ۔۔ اس نے ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا ۔۔
بھلا تمہاری عادتیں ، پسند نا پسند بھی کبھی بھول سکتی ہو ۔۔ بس تم ہی ہمیں بھول گئے تھے ۔۔
انکی کی آواز بھرا گئی ۔۔۔
زندگی بہت ظالم ہے اماں ۔۔ اس نے مجھے کیا کیا دن نہیں دکھائے کیا کیا تکلیفیں نہیں سہی آپ لوگوں سے دور رہ کر ۔۔ بس لوٹنے میں تھوڑی دیر ہوگئی ۔۔ پھر آپ سے تو میں کبھی بھی غافل نہیں رہا ۔۔
وہ انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا ۔۔۔
دلہن سے ملے تم؟؟ اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں ۔۔ ابراہیم آنکھیں کر انہیں دیکھا ۔۔ جن کے چہرے عیاں تھا کہ وہ ابھی بھی عمارا کو اسکی محبت سمجھتی تھی ۔۔
اس نےآہستگی سے سر جھٹکا ۔۔
کاش میں کبھی ملا ہی نہ ہوتا اس سے ۔۔
اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں ۔۔
کیوں بھلا ؟ وہ حیران ہوئیں ۔۔۔
اس انا پرست لڑکی کو رتی برابر فرق نہیں پڑا ۔۔ میرے ہونے سے نہ ہونے سے ۔۔ اسکی زندگی ایک سی ہے ۔۔ میں دیکھ چکا ہوں اماں اپنی آنکھوں سے !
اسکا لہجہ انہیں دکھی کر گیا ۔۔
تم کہنا کیا چاہتے ہو ابراہیم ؟؟
اگر وہ علیحدگی چاہے گی تو میں اپنے رستے جدا کرلوں گا بسس۔۔ میں اس رشتے کو اور نہیں گھسیٹ سکتا اماں ۔۔ تھک گیا ہوں اسکی اوروں سے وابستگیاں میرے لئے بہت خواری کا بعث بنی ہیں ۔۔ محبت اپنی جگہ لیکن میں اس تکلیف سے چھٹکارا چاہتا ہوں ۔۔ اسکا لہجہ قطعی تھا ۔۔۔ شاکرہ بیگم شاکڈ سے کچھ بول ہی نہیں پائی ۔۔
تمہاری پسند تھی وہ ابراہیم !
انہوں نے اسے زیر کرنے کی کوشش کرنی چاہی ۔۔
پسند نا پسند وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔۔
وہ سفاکی سے بولا ۔۔
وہ بن ماں کی بچی ہے ۔۔ اتنی سمجھ بوجھ نہیں ہے اس میں تم ہی کچھ خیال کرلو ۔۔ کچھ گنجائش نکال لو اسکے لئے ابراہیم ! اماں نے دکھ سے گزارش کی ۔۔۔
گنجائش چھوڑیں میں نے اسے پناہ دی تھہ اپنے دل میں لیکن اس نے قدر نہیں کی ۔۔۔ایسی بے قدری لڑکی کے لئے میں دن رات اپنا دل جلاتا رہا ہوں ۔۔ سوچ کر رہی شرم آتی ہے کتنا بے وقوف تھا میں ۔۔ لیکن اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی اماں ۔۔ اب اگر وہ چاہے گی تو میں اسے اس رشتے سے الگ کردوں گا ۔۔
اماں بے ساختہ مسکرائیں تھیں ۔۔
اب بھی تم کہہ رہو ‘اگر وہ چاہے گی ۔۔ مجھے سمجھ جانا چاہئے تھا کہ تم بدگمان ہو ۔۔فکر مت کرو وہ کبھی ایسا نہیں چاہے گی ۔۔ ان کے لہجے میں مان تھا ۔۔ وہ پرسکون سی ہوکر بولیں۔۔۔ابراہیم ان کی صورت دیکھ کر رہ گیا ۔۔۔
__________________________________
اگلے دن ان لوگوں نے اسپیشل-فورسز کی مدد طلب کی تھی ۔۔ فیصل کو ان کے حوالے کرنا تھا ۔۔۔ وہ تینوں ساتھ ہی نکلے تھے ۔۔ روایتی بازاروں میں معمولات کے مطابق رش تھا ۔۔ نایا کو محسوس ہورہا تھا آج بھی جیسے کوئی ان کے تعقب میں ہو ۔۔۔ اس نے دائم کو انفارم کرکے اپنی راہ جدا کرلی ۔۔۔ اس کا شک درست نکلا ۔۔۔ وہ اسے پکڑ بھی لیتی لیکن اچانک فضا دھماکے کی گونج سنائی دی ۔۔۔ زمین شدت سے کانپ اٹھی ۔۔۔ وہ لڑکھڑا کر گری ۔۔ سمجھ نہیں سکی اسکا سر کس شے سے ٹکرایا تھا ۔۔۔ ضرب کاری کے بعث اسکی صلاحیتیں مبہوت ہوکر گئیں ۔۔۔ وہ محسوس کر سکتی تھی لوگوں کی چیخ و پکار ۔۔ ہر طرف بھگدڑ مچی ہوئی تھی ۔۔ اس پر غش طاری ہوگیا ۔۔ سماعتیں تاریک ہوتی چلی گئیں ۔۔
____________________________________
پچھلے پانچ منٹ سے تیار ہوکر مسلسل ایک ہی زاویے سے خود کو آئینے میں دیکھ دیکھ کر آج وہ خود کو عجیب و غریب تاثرات سے دوچار ہوتا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ اسے خوش ہونا چائیے تھا ۔۔ لیکن وہ خوش نہیں ہو پارہی تھی ۔۔ پتا نہیں کیوں ؟
بس بھی کرو ۔۔
دروازے کی چوکھت پار کرکے اندر آئی تھی ۔۔۔
اللہ ۔۔۔نوال تم کتنی پیاری لگ رہی ہو ۔۔ نظر نہ لگے ۔۔تاشا نے اسکی بلائیں لے ڈالی ۔۔ ہلکے کامدار جوڑے میں اسکا سوگوار حسن قیامت خیز لگ رہا تھا ۔۔۔ تاشا اور اسکی سہیلیاں اسے باہر لے آئی تھیں ۔۔ جہاں مہندی کے فنکشن کا انعقاد کیا گیا تھا۔۔ خاص رشتے داروں کے علاوہ نوال اور فاتح کے دوستوں کو بھی مدعو کیا گیا ۔۔ البتہ بولنے والوں کی زبانیں کون روک سکتا تھا ۔۔ پہلے شادی کہیں اور ہورہی تھی ۔۔ پھر وہاں سے انکار کرکے فاتح سے ہورہی ہے ۔۔ بھئی پہلے فاتح نظر نہیں آیا ۔۔
نصیبہ پھپھو کا منہ اتر گیا تھا ۔۔ تاشا کو بہت غصہ آیا ۔۔لیکن خاموش رہی وہ اپنی خوشی ان لوگوں کے منہ لگ کر خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ البتہ نصیبہ پھپھو رسما بھی مسکرا نہ سکی۔۔ فاتح نے اپنی عادت کے برخلاف ساری رسمیں خندہ پیشانی سے نبھائی ۔۔۔کوئی ہلا گلا اور شور شرابا نہیں کیا گیا ۔۔رسمی سی مہندی کے بعد وہ نوال ہاتھوں کی مہندی مکمل کروارہی تھی ۔۔۔ فاتح اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا ۔۔ گابگاہے نظر اسکے حسین سراپے پر بھی ڈال لیتا ۔۔۔ نوال اسے مسلسل نظر انداز کر رہی تھی جو بات اب اسے طائو دلا رہی تھی ۔۔مگر آج کے دن وہ غصہ کنٹرول کرگیا۔۔
اسی اثنا میں ابراہیم اپنے مسلسل بجتے فون خائف ہوکر ٹری ہائوس سیڑھیوں پر آ بیٹھا ۔۔ فون اٹینڈ کرکے کان سے لگایا مگر بولا کچھ نہیں ۔۔
تم مسلسل میں کالز کو نظرانداز کررہے ہو ابراہیم آخر کیوں؟؟؟ اسکی جھلائی ہوئی آواز ابراہیم کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔ ابراہیم کا دل کیا اپنا سر دیوار میں دے مارے ۔۔
روایتی بیویوں کی طرح بی ہیو مت کرو عمارا ۔۔
تمہاری کال رسیو نہیں کر رہا اسکا مطلب میں بزی ہو ۔۔ کاٹدار لہجے میں بولا
کہاں بزی ہو تم ؟ فورا سے سوال آیا ۔۔
شادی میں ۔۔
کس کی شادی ؟
نوال اور فاتح کی شادی ۔۔
کیا؟؟؟ وہ چلائی ۔۔
ابراہیم نے بے ساختہ فون کان سے دور ہٹایا ۔۔
نوال اور فاتح کی شادی ہے اور تم نے بتایا تک نہیں ؟ کسی نے بھی مجھے بتانا یا بلانا ضروری نہیں سمجھا ؟؟؟ عمارا کو صدمہ ہوا تھا ۔۔
میں نے ہی منع کیا تھا ۔۔
اسکے جواب پر وہ شاکڈ رہ گئی۔۔ چند ساعتوں پر اس نے فون کان سے ہٹایا تو کال کٹ چکی تھی ۔۔ اتنی آسانی سے تو وہ اسے معاف کرنے والا نہیں تھا ۔۔ بلکل نہیں ۔۔
تاشا کو چائے کا کپ لئے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ مسکرایا ۔۔
آپ سے ایک بات پوچھوں بھائی ؟؟
وہ اس سے چند قدم نیچے سیڑھیوں لپر ہنگا پھیلا کر بیٹھ گئی ۔۔
تمہیں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ! اس نے ہلکی سی چپت اسکے سر پر رسید کی ۔۔
آپ عمارا بھابھی سے بہت محبت کرتے تھے ۔۔ یقینا آپ سے ملتے رہے ہوں گے ۔۔پھر آپ نے ہمیں یہ سزا کیوں دی ۔۔
اس نے منہ بسور کر پوچھا ۔۔
یقین مانو میں اس دوران ایک بار بھی اس سے نہیں ملا ۔۔ اس کا لہجہ اداس تھا ۔۔
سچ میں ؟ وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگی ۔۔ کہاں تو وہ ایک لمحہ عمارا سے غافل نہیں رہتا تھا کہاں اتنے سال اسکے بغیر گزار دیئے ۔۔
ہاں نا ۔۔
تو کیا کیا آپ نے اتنے سال؟ اسے تعجب ہوا
جاسوسی کی اور کیا ۔۔
وہ جھک کر اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا ۔۔
ہائے اللہ ۔۔آ۔۔آپ جاسوس بن گئے ہیں بھائی ؟؟؟
وہ دونوں ہاتھ لبوں پر جمائے بے یقینی سے بس اسے دیکھے گئی۔۔۔ ابراہیم نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا ۔۔
آپ نے اور کس کس کو بتائی یہ بات بھابھی کو بتائی ؟؟
بتایا ہے تب ہی تو وہ ناراض ہے ۔۔اس کی خود غرضی جو عیاں ہوگئی ہے مجھ پر ! وہ کسی سوچ کے تحت بڑبڑایا ۔۔ اب ایسا بھی نہیں آپ کے جانے کے بعد وہ آتی رہی ہیں ۔۔ لیکن پھر اچانک آنا بند کردیا ہمیں لگا شاید خالو کو ان کا یہاں آنا پسند نہیں ۔۔ ابراہیم نے خاموشی سے اسے سنا ۔۔۔
جو بھی ہوا عمارا کی نظر میں کسی کی محبت کوئی وقعت نہیں تھی ۔۔ اس بات کا احساس دلانا بہت ضروری ہوگیا تھا ۔۔ اب ایسی بھی کیا بے خبری کہ اسے معلوم نہیں اسکے خالہ زاد کی شادی ہورہی ہے ۔۔ کم از کم سسرال سمجھ کر ہی آجاتی ۔۔ لیکن عمارا کی بھی غلطی نہیں تھی اسی نے سب کو منع کر دیا تھا ۔۔۔وہ نکاح والے دن خود اسے یہاں لے آئے گا ۔۔
____________________________________
اسکی آنکھ بند کمرے میں کھلی ۔۔ چند ثانیے چھت کو گھورتے رہنے کے بعد وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھی ۔۔
آس پاس نگاہ دوڑائی تو دائم سر تھامے بیٹھا تھا ۔۔
فیصل کہاں ہے ؟؟؟ کسی انہونی کے تحت اس نے پوچھا ۔۔ دائم نے سر اٹھا اسے دیکھا اور رخ موڑ لیا ۔۔
تم ٹھیک ہو؟؟
میں ٹھیک ہوں فیصل کہاں ہے ؟؟ اس نے اپنا سوال دہرایا ۔۔ جواباً دائم کے چہرے پر ہلکی سی مایوسی تھی ۔۔۔
او خدا ۔۔ اسکا کیا حال ہورہا ہوگا ؟؟
وہ لوگ کیا کریں اسکے ساتھ ۔۔
اس کی صدمے سے چور آواز کمرے میں گونجی ۔۔
ھانی کے خیالات نیک نہیں ہیں اتنا تو میں جان گیا ہوں ۔۔ اور وہ بھی سب جان گیا ہے کہ ہمارے پاس فیصل جیسا ہیکر موجود وہ اب اسے استعمال کرے گا ۔۔ اس سے پہلے وہ فیصل کو کسی خفیہ مقام پر منتقل کردیں ہمیں اسے چھڑانا ہے کسی بھی حال میں ۔۔ وہ اضطراری کیفیت میں اٹھ کر کھڑکی کے باہر جھانکنے لگا ۔۔
تو وہ لوگ میٹنگ میں اس دہشت کی بات کررہے تھے ۔۔ دائم کی اوٹ سے کھڑکی کے باہر جھانکا تو بازار کی گلیاں قیامت کا منظر پیش کر رہی تھی ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے خون کی ہولی کھیلی گئی ہو ۔۔
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کی یہ مہربانی ہم پرکی گئی ہو جسکی زد میں کتنی ہی معصوم جانیں آگئی ہیں ۔۔ دائم نے افسوس سے سر جھٹکا ۔۔
روسی فوج ہر طرف گھوم رہی ہے ۔۔ ہمیں شام ڈھلنے کا انتظار کرنا ہے ۔۔۔ ہم کچھ ہی دیر میں یہاں سے ھانی کی رہائشگاہ کے لئے نکلیں گے۔۔ سب سے پہلے وہاں تلاشی لیں گے ۔۔ امید ہے فیصل وہیں ہوگا ۔۔
اور سہی سلامت ہو ۔۔ نایا نے مزید کہا ۔۔ اور اپنا گھومتا ہوا سر تھام لیا ۔۔۔ کھڑکی کے باہر بکھرے ہوئے بازار ۔۔ روتی بلکتی مائیں ۔۔خون و خون لاشیں ایمبولینسز کی آوازوں سمیت کہرام مچا ہوا تھا ۔۔
_____________________________________
صبح کسلمندی سے اٹھی اور لاشعوری طور پر فون ٹٹولا۔۔۔ کوئی میسیج یا کال نہ دیکھ کر آزردگی سے فون دوبارہ پٹخ دیا ۔۔
ڈور بیل بجنے پر فیروزہ نے دروازہ کھولا تو ابراہیم کو تیار شدہ حلیے میں دیکھ کر خوشگوار حیرت سے کہا ۔۔
بڑے ہینڈسم لگ رہے ہں صاحب کہیں باہر جانے کا ارادہ ہے بی بی کے ساتھ ؟؟
بی بی مانے تب نا فیروزہ ۔۔ یہ تو جان لے کر مانے گی ۔۔
وہ زیر لب بڑبڑایا ۔۔
فیروزہ بابا آئے ہیں کیا؟؟؟ عمارا کی بلند آواز یہاں تک پہنچی تھی ۔۔ وہ اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتا کمرے کی طرف بڑھا ۔۔۔ اسکے کلون کی مہک فضا میں محسوس کرکے وہ پلٹی ۔۔۔ ایک ناراضگی سے بھرپور نظر اس پر ڈال کر واشروم کی جانب بڑھی مگر راہداری میں ابراہیم حائل تھا ۔۔۔
کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ؟؟ وہ نظروں سے نگلنے کو تیار تھی ۔۔۔
تم ہو میرا مسلہ زوجہ محترم ۔۔
۔ انتہائی سنجیدگی سے بیان کیا گیا ۔۔
بڑی جلدی یاد آئی شوہر نامدار کو ۔۔ میری ہر معافی ہر صفائی کو رد کردیا تم نے اس گھر میں بھی سب کو میرے خلاف کردیا حتی کہ مجھے شادی پر بھی نہیں بلایا خالہ نے ۔۔ اور کیا چاہتے ہو تم ابراہیم ؟؟؟
وہ روہانسی ہونے لگی ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر بے تابی سے اسکی جانب بڑھا ۔۔
تم بہت بے حس انسان ہو وہ رو پڑی ۔۔
عمارا نے اسے دور دھکیلا ۔۔
تم نے پھر سے رونا شروع کردیا ۔۔تمہارے آنسو سالوں کی جمع کردہ بے شمار بدگمانیاں نہیں دھو سکتے عمارا ۔۔۔
اس نے نرمی سے کہتے ہوئے آنسو چن لئے ۔۔
عمارا کو بے اختیار درباس کی یاد دلا گیا ۔۔
درباس بھی تو مجھ سے کرتا تھا ۔۔ اس نے بھی تو میری ہر غلطی کو خندہ پیشانی سے درگزر کردیا تھا ۔۔ تم کیوں نہیں کردیتے ۔۔ وہ براہراست آنکھوں میں جھانکنے لگی ۔۔
تم یہی نہیں سمجھتی عمارا ۔۔ تم ‘درباس’ کی نہیں ابراہیم کی بیوی ہو ۔۔ جو تمہاری محبت کسی سے بانٹنا نہیں چاہتا ۔۔۔ اسکے لہجے میں جھنجھلاہٹ واضع تھی ۔۔۔
تم میری لئے درباس نہیں بن سکتے ؟
اسکی گردن ایک طرف ڈھلکی ۔۔۔
اسکے انداز ابراہیم کا دل پسیج گیا ۔۔
نہیں میں ابراہیم ہوں ۔۔
درباس کیوں نہیں ؟
کیوں کہ وہ میں نہیں تھا ۔۔۔
مطلب تم نے مجھ سے جھوٹی محبت جتائی ۔۔
اس کی آنکھیں پھیلنے لگی ۔۔
یہ تو تم خود سے پوچھو ۔۔
وہ پوروں سے اسکے بے ترتیب بال سنوارنے لگا ۔۔
میں تم سے پوچھنا چاہتی ہوں ؟؟ اس نے آنکھیں پٹپٹائیں ۔۔
پوچھو ؟؟؟
تم ابھی بھی مجھ سے پہلے جیسی محبت کرتے ہو نا ابراہیم؟؟؟ اس کے ہاتھ تھمے ۔۔ پرسکون سانس لیکتے ہوئے بولا
تمہاری تمام تر کڑوی کسیلی باتوں اور تلخ یادوں سمیت ۔۔میں تم سے شدید محبت کرتا ہوں یا یوں کہو کہ محبت ایک چھوٹا سا لفظ ہے میری چاہت میری محبت اس سے کہیں زیادہ ہے۔۔۔ محبت سے چور لہجے میں بولا
عمارا کی دھڑکنیں مشتعل ہونے لگیں ۔۔
میں ایک پل بھی تم سے غافل نہیں رہا ۔۔ میں لڑا ہوں خود سے ۔۔ زندگی سے ۔۔ اپنے دل سے لیکن تمہاری محبت سے دستبرادری کا کوئی سر ہاتھ نہیں آیا ۔۔ اور چاہتا بھی نہیں ہوں بس بہت دور رہ لیا ۔۔ اب تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں زندگی کی آخری سانس تک ۔۔
اسکی پیشانی پر محبت کی مہر ثبت کرنے لگا ۔۔
عمارا نے بے ساختہ آنکھیں میچ لیں ۔۔ وہ غیر یقینی تھی ۔۔۔ اسکی محبت کو کھو کر پالیا تھا ۔۔۔
باجی آپ ناشتہ کریں گی یا میییییں ۔۔۔۔۔۔۔ فیروزہ کی میں کچھ زیادہ لمبی ہوگئی تھی یہ منظر دیکھ کر ۔۔
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔تم جا سکتی ہو فیروزہ ۔۔
وہ خفت زدہ سی ہوکر کان کے پیچھے بال اڑسنے لگی ۔۔۔
اسکے سرخیاں بکھیرتے رخسار ابراہیم کے لئے دلچسپی کا باعث بنے تھے ۔۔
نوال اور فاتح کا نکاح ہے آج تم تیار ہوجائو ۔۔ میں تمہیں ہی لینے آیا تھا ۔۔ وہ گھڑی دیکھتا ہوا بولا ۔۔
بس پانچ منٹ … وہ مسکراتے ہوئے کبڈ سے لمبی سی میکسی نکال کر واشروم میں گھسی ۔۔۔
فریش ہونے کے بعد اس نے ہلکا پھلکا میک اپ کیا اور ہیئر ڈرائیر اٹھا لیا ۔۔
تم نے بال کیوں کٹوائے ؟؟؟ وہ بغور اسکی ہر ہر حرکت دیکھ رہا تھا ۔۔ وہ جو اسکی موجودگی بھلائے دلجمعی سے تیار ہورہی تھی چونک کر پلٹی ۔۔
نہیں تو ۔۔ سفید جھوٹ بولا
دو مہینے پہلے کچھ پندرہ / بیس تاریخ کو آدھے گھنٹے کے دروانیہ میں اپنی سہیلی ملیحہ کے ساتھ سفاری سلون کیوں گئی تھی پھر ؟؟؟ اسکا لہجہ بے تاثر تھا ۔۔کورے کاغذ کی مانند ۔۔ عمارا پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔ بھول گئی تھی ایسے شخص سے جھوٹ بول رہی تھی جو خود جھوٹ بولنے اور سمجھنے میں ماہر تھا ۔۔ اپنے دائیں سینڈل کی اسٹرپ ٹھیک سے باندھ لینا ۔۔
نیچے آجائو میں انتظار کررہا ہوں ۔۔ وہ کہہ کر چلا گیا تھا کب کا ۔۔ عمارا ہنوز بے یقینی سے اس جگہ کو گھورے گئی۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...