“کیا واقعے ہی اسے محبت ہو گئی تھی۔۔۔ جو وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔ نہیں۔۔ نہیں یہ تو میں نے اس تھپڑ کا بدلہ لینا ہے“ زوہیب نے سگریٹ کا کش بھرتے ہوئے خود سے سوال کر کے جلدی سے ہی خود سے ہی اپنے سوال کی نفی کی تھی۔
اچانک اس کے موبائل کی ٹیون بجی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اون کیا تو وہاں کوئی میسیج تھا۔
“اگر اس لڑکی کی لوکیشن جاننا چاہتے ہوں تو۔۔ اس اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کروں۔۔۔ پانچ منٹ کے بعد لوکیشن مل جائے گئی“ زوہیب نے میسج کھول کر پڑھا وہاں پر ایک خطیر رقم لکھی ہوئی تھی ساتھ ایک ویڈیو بھی تھی۔ ویڈیو دیکھ زوہیب کا گویا ایک بار سانس روکا تھا۔
“عدیل۔۔۔ عدیل یہ رقم اس اکاؤنٹ میں جمع کرواں۔۔۔ جلدی۔۔ اس اکاؤنٹ اور اس نمبر کا بھی پتہ لگوا۔۔ جتنا جلدی ہو سکے “ زوہیب نے تقریباً چیختے ہوئے اسے بلایا۔ عدیل کے آتے ہی اس نے اسے اکاؤنٹ نمبر، رقم اور موبائل نمبر بتاتے ہوئے حکم صادر کیا تھا۔ جس پر عدیل وہ سب چیز نوٹ کرتا ہوں وہاں سے غائب ہوا تھا۔
زوہیب نے ایک دفعہ پھر ویڈیو دیکھی تھی۔ اس ویڈیو میں ایڈیٹنگ کے ذریعے دو ویڈیوز اکھٹی تھی۔ پہلے اس ویڈیو میں دو لڑکیاں ہاسپٹل میں ارشیہ کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔
یہ کئی دن پرانی ویڈیو تھی جبکہ دوسری ویڈیو میں ایک لڑکی ہاسپٹل کے بیڈ پر لیٹی تھی۔ کچھ منٹ بعد عدیل نے رقم منتقل ہونے کی خبر سنائی۔ اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
پانچ منٹ سے پہلے ہی اس کے موبائل کی ٹیون بجی اس نے جلدی سے لوکیشن کھولی تو وہ کسی ہاسپٹل کی تھی۔ زوہیب نے جلدی سے اپنے کمرے کا رخ کیا۔جاتے ہوئے وہ عدیل کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا کہہ کر گیا۔
کمرے میں پہنچ کر اس نے سائیڈ ڈرا سے اپنی گن نکال کر اپنی پینٹ میں اڑسائی اور تقریباً بھاگتے ہوئے باہر گیا جہاں عدیل پہلے سے ہی گاڑی سٹارٹ کیے ہوئے تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے گاڑی جلدی سے لوکیشن کی جانب بڑھائی۔
اسے جاتا دیکھ اس کے آدمیوں نے نظروں کا تبادلہ کیا تھا۔ ان سب کے چہروں پر مسکراہٹ در آئی تھی۔ مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے کے بعد وہ اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ لیکن ان میں سے ایک شخص نے زوہیب کی گاڑی کو نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھا تھا۔
“سائیں اللّٰہ آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے“ اس آدمی نے جانے کس خیال کے تحت کہا تھا۔ لیکن کہہ کر وہ وہاں روکا نہیں تھا۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””’
گھر آ کر ارشیہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ملازمہ سے اسے پتہ چلا کہ حیدر اور جیا بیگم کہی مدعو تھے تو وہاں گئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اٹھ کر اس نے نماز ادا کی اور اپنے کمرے میں قرآن مجید ڈھونڈنے لگی۔ لیکن اسے وہ کہی نہ ملا۔
قرآن مجید آخری بار اس نے چھوٹے ہوتے پڑھا تھا۔ یاد آتے ہی اسے ڈھیروں شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔ خاموشی سے اپنے کمرے سے نکل کر وہ اپنی دادی کے کمرے میں آئی تھی۔ وہ ہمیشہ اسے اچھا بنانے اور غرور وتکبر کرنے سے منع کرتیں تھیں۔
لیکن دونوں گھروں میں اکلوتے ہونے کی وجہ سے حیدر صاحب، اکرام صاحب، جیا بیگم اور نجمہ بیگم سب کا پیار اسے اور زوہیب کو ملا تھا۔جس کی وجہ سے دنوں بگڑے تھے۔
ارشیہ نے اپنی دادی کا کمرہ کھولا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ کمرے میں ایک الگ قسم کا سکون تھا۔ کمرے میں بکھری خوشبو بہت پیاری تھی۔ ایک پل کو ارشیہ نے آنکھیں بند کیے خوشبو کو خود میں اتارا تھا۔
چند پل گزرنے کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور پھر آگے بڑھ کر وہاں موجود الماری کھولی۔ اس میں ایک ترتیب سے قرآن مجید رکھے ہوئے تھے۔ ان پر زرا برابر بھی دھول نہ تھی۔ وہاں سے ایک قرآن مجید اٹھایا اور الماری ویسے بند کرکے اپنے کمرے کا رخ کیا۔
کمرے میں آ کر اس نے دروازا بند کیا اور قرآن مجید لے کر بیٹھ گئی۔ قرآن مجید کھولنے سے پہلے اس نے ایک بار زور سے آنکھیں بند کر کے کھولیں اور قرآن مجید اندازے سے کھولا۔ سامنے اس کے پہلی وحی کے الفاظ جگمگائے تھے۔ سورۃ العلق کی آیات اس نے پڑھنا شروع کیا۔
[حوالہ: سورۃ العلق (سورۃ نمبر 96 ) آیت نمبر 1_19 ]
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾
پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا ، ( ١ )
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾
اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے ۔
اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾
پڑھو ، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے ،
الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾
جس نے قلم سے تعلیم دی ،
عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾
انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا ۔ ( ٢ )
کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾
حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلی سرکشی کر رہا ہے ( ٣ )
ترجمہ پڑھنے پر اس پر ایک بار کپکپی طاری ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمکیں پانی کے ڈورے تیرنے لگے تھے۔ آنکھوں کے آگے دھند چھانے لگی۔ ہاں وہ سر کشی تو کر رہی تھی شروع سے۔۔ اب ہی اس نے اللّٰہ کی راہ اختیار کی تھی۔ بے شک قرآن کریم ایک زندہ و جاوید کتاب تھی۔ اس میں ہر انسان کے لیے راہنمائی موجود تھی۔ اس نے آنکھیں صاف کر کے جہاں سے چھوڑا تھا وہاں سے ہی دوبارا سلسلہ کلام شروع کیا۔
اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾
کیونکہ اس نے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھ لیا ہے ۔ ( ٤ )
اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾
سچ تو یہ ہے کہ تمہارے پروردگار ہی کی طرف سب کو لوٹنا ہے ۔
اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی ۙ﴿۹﴾
بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ایک بندے کو منع کرتا ہے
عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ﴿ؕ۱۰﴾
جب وہ نماز پڑھتا ہے؟
اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَانَ عَلَی الۡہُدٰۤی ﴿ۙ۱۱﴾
بھلا بتلاؤ کہ اگر وہ ( نماز پڑھنے والا ) ہدایت پر ہو ،
اَوۡ اَمَرَ بِالتَّقۡوٰی ﴿ؕ۱۲﴾
یا تقوی کا حکم دیتا ہو ، ( تو کیا اسے روکنا گمراہی نہیں؟ )
اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ؕ۱۳﴾
بھلا بتلاؤ کہ اگر وہ ( روکنے والا ) حق کو جھٹلاتا ہو ، اور منہ موڑتا ہو ،
اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی ﴿ؕ۱۴﴾
کیا اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟
اس کی آنکھوں سے ایک آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر گرا تھا۔ اس کا گلہ سے آواز نکلنے سے انکاری تھی۔ لیکن اس نے ہمت کرکے اگلی آیات کا بھی ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔
کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ ۬ ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ﴿ۙ۱۵﴾
خبردار ! اگر وہ باز نہ آیا ، تو ہم ( اسے ) پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ،
نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ ﴿ۚ۱۶﴾
اس پیشانی کے بال جو جھوٹی ہے ، گنہگار ہے ۔
فَلۡیَدۡعُ نَادِیَہٗ ﴿ۙ۱۷﴾
اب وہ بلالے اپنی مجلس والوں کو !
سَنَدۡعُ الزَّبَانِیَۃَ ﴿ۙ۱۸﴾
ہم دوزخ کے فرشتوں کو بلا لیں گے ۔ ( ٥ )
کَلَّا ؕ لَا تُطِعۡہُ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ ﴿۱۹﴾
ہرگز نہیں ! اس کی بات نہ مانو ، اور سجدہ کرو ، اور قریب آجاؤ ۔ ( ٦ )
آخری آیت پڑھ کر اس پر کپکپی طاری ہوئی تھی۔ اس کے دل میں خوف پیدا ہوا تھا۔ قیامت کا خوف، دوزخ کا خوف، سب سے بڑھ کر اللّٰہ کی رحمت سے محروم ہونے کا خوف۔ اس نے جلدی سے قرآن کریم کو ایک طرف کیا اور جائے نماز بچا کر سجدہ کیا تھا۔
سجدے میں جاتے ہی اس نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔ روتے ہوئے اس کی ہچکی بندھی تھی۔ سجدے میں پڑھی وہ زیرِ لب اللّٰہ اکبر کی گردان کیے جا رہی تھی۔ اس کا دماغ اس بات پر اٹکا تھا کہ “اللّٰہ دیکھ رہا ہے“ وہ ہر حال میں اسے دیکھ رہا ہے۔۔
یہ سوچ آتے ہی اس کے رونے میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ کتنے گناہ کرتی رہی تھی اپنی زندگی میں۔۔ وہ سب اللّٰہ نے دیکھے تھے۔ اب سجدے سے اٹھ کر اس نے اپنے ہاتھ دعا سے انداز میں اپنے منہ پر رکھ کر استغفار پڑھنا شروع کیا تھا۔
“اے اللّٰہ بے شک تو بے نیاز ہے۔۔ تو غفور و رحیم ہے۔۔ تو ہی قہار و جبار ہے۔۔ اے میرے مالک میرے گناہوں پر میری پکڑ نہ کرنا۔۔ مجھے معاف فرما۔۔ میرے مولا۔۔ آج میں اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگتی ہوں میرے مولا۔۔ مجھے معاف فرما“ ہچکیوں بھری آواز اس کمرے میں گونجی تھی۔ وہ مسلسل اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہی تھی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
ولی کی زندگی اپنے معمول پر جا رہی تھی۔ ارشیہ سے اب اس کا رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ اس نے بہت بار کال کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا نمبر زیادہ تر بزی جاتا۔
زینب سے اسے ارشیہ کے بارے میں پتہ چلا تو وہ خود پیچھے ہٹ گیا۔ وہ جانتا تھاکہ ایک لڑکی جس کے دل میں کوئی اور ہوں۔۔ وہ اس کے لیے ہر چیز داؤ پر لگا دیے۔۔
اس کے لیے اپنا سٹیٹس، اپنا غرور و تکبر چھوڑ۔۔۔ عاجزی و انکساری اپنا لے۔۔۔ وہ اس کے لیے اسلام کی طرف راغب ہو جائے تو وہ ہر دوسرے شخص کا خیال تک دل سے نکال دیے گئی۔
جب زینب نے اسے اس کے بارے میں بتایا کہ وہ اب اسلام کی راستے کی طرف جا رہی ہے۔۔۔ جلد ہی وہ ایک اچھی اور نیک عورت بن جائے گئی۔۔ ان کی آواز میں ولی کو ایک امید سنائی دی تھی۔۔۔ شاید وہ پر امید تھی کہ ارشیہ حیدر اب اسلام کے راستے پر چل پڑے گئی۔۔۔ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کو مانے گئی۔۔۔
اسی لیے ولی نے اس سے رابطہ منقطع کیا تھا کہ اب وہ رشتوں کو سمجھنے لگی ہوں گئی۔۔ وہ جان گئی ہوں گئی کہ ولی اس کے لیے ایک نامحرم کی حیثیت رکھتا ہے۔۔ وہ دوست تھے لیکن۔۔۔ دوستی سے بالا تر تھا محرم اور نامحرم کا رشتہ۔۔
یہ وہ حدود تھیں جو اللّٰہ تبارک وتعالی نے اپنے بندوں کے لیے بنائی تھی۔ ان رشتوں کو ولی سمجھتا تھا۔ ان رشتوں کے پیچھے چھپی حکمت بھی اس کی سمجھ میں تھی۔ اسی لیے اب اس نے ارشیہ کو کال کرنا چھوڑ دی تھی۔ اب وہ دوبارا سے اپنی پہلی زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا اور اس میں مگن ہو گیا تھا۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
نمرا نے زیاد کے کہنے پر ارشیہ سے رابطہ منقطع کر دیا۔ لیکن اس کے دل میں کچھ کھٹکا تھا۔ اس طرح اچانک اس نے ارشیہ سے رابطہ منقطع کرنے کا کہا۔ وہ ہمیشہ سے دوست تھے۔۔۔ ایک کلاس میں پڑھے۔۔
اسے حسن کے ایکسیڈنٹ کا دکھ تھا لیکن اتنا بھی کیا کہ وہہ اپنی دوست سے منہ موڑ کر بیٹھ جاتی۔ وہ یہ سوچتی تھی کہ زیاد حسن کا بیسٹ فرینڈ تھا شاید اس لیے اس نے کہا لیکن بات بتانے کی بجائے گھول کر جاتا۔
نمرا نے اس کے کہنے پر ارشیہ سے رابطہ کم کیا۔تھا البتہ منقطع نہیں کیا تھا۔ ارشیہ کی منگنی پر زیاد نے ارشیہ سے بہانے سے پوچھا چاہا تھا لیکن اس نے۔اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا۔۔
ارشیہ اسے واضح الفاظ میں بتا چکی تھی کہ وہ صرف نمرا کی خوشی کے لیے خاموش ہے کہ نمرا کی خوشیاں برباد ہو جائے گئی اگر اسے پتہ چلا کہ زیاد ایک قاتل ہے۔۔۔
نمرا الٹا اس سے لڑتی جھگڑا کرتی۔ وہ صحیح غلط کی حدود سے آگے نکل کر محبت کے در کے آخر میں کھڑی تھی۔ وہ محبوب کی ہر غلطی معاف کر جاتی۔ وہ صحیح غلط کی تمیز بھلا چکی تھی۔
لیکن اب۔۔۔ اب زیاد کو وہ بوجھ لگنے لگی تھی۔ وہ اس سے اکتا گیا تھا۔ اس کی آئے دن شادی کی رٹ کی وجہ سے۔۔ وہ اس سے سیدھے منہ بات نہ کرتا۔ گھر والوں کو وہ کب تک پڑھائی کا۔جواز بنا کر ٹالتی۔
ہر بار مسز نعمان اور اپنی پھپھو کے پوچھنے پر وہ “ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔۔۔ ابھی میں نے آگے پڑھنا ہے “ کہہ کر ٹال دیتی۔
جبکہ دوسری طرف زیاد ارشیہ کے بارے میں معلومات اکھٹی کر رہا تھا۔ اس کی معلومات نکلوائی۔ ارشیہ کی منگنی کے بعد اس نے زوہیب کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنا شروع کر دی جس پر اسے ارسل اور عبیرہ کے بارے میں پتہ چلا۔
اس نے توجہ ارسل پر دی۔ ارسل جو چپ چاپ حسن کی موت کو ایک حادثہ تصور کر چکا تھا۔ زیاد کے بتانے پر اس نے زیاد سے مدد مانگنے کا سوچا اور پھر زوہیب کو عبیرہ کی ویڈیوز ایڈیٹنگ کر کے سینڈ کی۔
رقم ملتے ہی انہوں نے عبیرہ کو ہاسپٹل اے غائب کروانا چاہا تھا لیکن ہارے قسمت۔۔ عین وقت پر یوسف نے آ کر عبیرہ کو بچا لے گیا۔ حائقہ کو وہ پہلے کی کمرے میں سر پر کوئی بھاری شے مر کر بے ہوش کر آئے تھے۔ لیکن چوٹ گہری تھی اور اس کی وجہ سے اس کا بلڈ کافی ضائع ہو گیا۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
کچھ ہی دیر بعد زوہیب کی گاڑی ہاسپٹل کے باہر روکی تھی۔ گاڑی سے اتر کر زوہیب بھاگتے ہوئے اندر کی طرف بڑھا تھا۔ مطلوبہ کمرے کا دروازا کھول کر اندر دیکھا تو اس کی روح فنا ہوئی تھی۔
وہاں ایک لڑکی اوندھے منہ نیچے زمین پر گری ہوئی تھی۔ اس کے ,شاید سر پر چوٹ لگی تھی جس کی وجہ سے کافی خون بہ گیا تھا۔
زوہیب نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے سے حجاب ہٹائے بغیر دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی آنکھیں کھول کر دیکھی تھی۔
آنکھوں کا رنگ شہد کلر تھا۔ بلاشبہ وہ ہلکی بھوری آنکھیں نہیں تھیں۔اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے اپنے قدم واپس لیے تھے۔
“عدیل اندر کوئی لڑکی بے ہوش ہے۔۔ نرس کو بلوا کر اسے دیکھا“ باہر نکلتے عدیل سے کہہ کر اس نے اپنا موبائل نکالا اور جس نمبر سے لوکیشن آئی تھی وہی نمبر ڈائل کرنے لگ پڑا۔
لیکن بے سود وہ نمبر بند تھا۔ اس نے کئی بار ٹرائے کیا لیکن ہر بار ناکامی ہوئی۔ اس نے غصے سے موبائل ڈیش بورڈ پر پھینکا اور گاڑی زن سے بھگا لی۔ گھر پہنچ کر وہ اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر دھم سے گرا۔
“یہ۔۔ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔۔ کیوں میں اس کے پیچھے ہوں۔۔۔ اب مجھے ہر حال میں وہ چاہیے۔۔ وہ اب میری ضد بند گئی ہے۔۔۔ میں اسے زمین کی آخری تہ سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔۔۔ اے میرے “ زوہیب نے غصے سے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے تھے۔ اس کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔ آخر میں وہ چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہوئے رکا تھا۔ اس کی زبان۔۔
اس کی زبان ہلنے سے انکاری تھی۔ آنکھوں میں پانی آیا تھا۔ اس کا سر درد سے الگ پھٹ رہا تھا۔ ایک پل میں وہ بیڈ سے اٹھا اور سائیڈ ڈرا سے سر درد کی گولی نکالنے کی بجائے بے دھیانی میں وہ نیند کی گولی نکال کر اس نے پانی کے ساتھ نگلی۔
واپس بیڈ پر بیٹھے وہ صبح کے بارے میں سوچنے لگا۔ کیسے وہ کسی پر بھی یقین کر کے اتنی بڑی رقم اس کے اکاونٹ میں جمع کروا کر اس انجان شخص پر یقین کر کے اس کی بتائی لوکیشن پر چلا گیا تھا۔
“وہ ویڈیو دیکھ کر” دل نے فوراً سے جواب پیش کیا تھا۔ لیکن اس ویڈیو میں آنکھیں واضح نہیں تھیں۔ تو میں نے کیسے یقین کر لیا۔ اس نے ماؤف ہوتے ذہین سے پوچھا تھا۔ لیکن اس سے پہلے دل کوئی جواب دیتا وہ غنودگی میں چلا گیا۔ وہ وہی بیڈ پر ڈھیر ہو گیا۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...