قآرزو کو لینے کوئی نہیں آیا تھا اس نے بہت انتظار کیا پھر خد ہی جانے لگی وہ آٹو لینے کے لیئے روڈ کی سائیڈ پر کھڑی تھی تب ہی ایک بائیک اس کے سامنے آ رکی آرزو پیچھے ہٹ گئی بائیک والا ہیلمنٹ پہنے ہی اس کے سامنے کھڑا ہو گیا –
آرزو نے اچنبھے سے اسے دیکھا اور دو تین قدم پیچھے کیئے اور اس سے دور ہوئی
وہ بھی دو تین قدم آگے ہوا –
کیا ہے کیا چاہیئے آپ کو –
آزرو نے اسے اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو جلدی سے بولی —-
مجھے تو ہمیشہ سے آپ ہی چاہیئے ہو –
اس نے بڑی ادا سے کہا-
کیا بکواز کر رہے ہیں آپ اپنی حد میں رہیئے سمجھے ورنا مجھے آپ کے جیسے بدمعاشوں کو سمجھانا آتا ہے-
آرزو نے انگلی اٹھا کر خاصے غصے سے کہا –
ہائے ایک تو آپ ہمیں آپ بول کر مغرور کر رہی ہیں قسم سے بڑا اچھا لگ رہا ہے –
آرزو کچھ نہیں بولی اور وہاں سے جانے لگی
اسے پہلے کے وہ آرزو کا ہاتھ پکڑتا کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر مروڑ دیا اور اس کے منہ سے ایک دلخراش چیکھ نکلی آرزو نے بے اختیار پیچھے مڑ کر دیکھا تو عون اس بائیک والے کا ہاتھ مروڑے کھڑا تھا اور وہ لڑکا چلا رہا تھا –
آرزو کا ہاتھ پکڑنے کی ہمت کیسے کی تونے ہاں بول کمینے –
عون اب اسے مکے مار رہا تھا –
عون چھوڑیں اسے ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگتے آپ چلیں یہاں سے آرزو نے عون کا ہاتھ پکڑتے ہوئے چلنے کے لیئے کہا-
تم جا کر گاڑی میں بیٹھو میں اس کی طبیعت صاف کر کے آتا ہوں –
عون پلیز چلیں یہاں سے چھوڑیں اسے-
ہا بھائی خدا کا واسطا مجھے چھوڑ دیں اب کبھی آپ کی بیوی کو ہاتھ بھی نہیں لگائوں گا –
عون اور آرزو نے بے اختیار ایک دوسرے کی طرف دیکھا حیدر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا-
کیوں کی یے آواز حیدر کی تھی –
عون نے اس کا ہیلمنٹ اتارا تو وہ مظلومانہ صورت بنائے کھڑا تھا-
یے سب کیا بکواز تھی حیدر ”
عون نے کھردرے لہجے میں پوچھا –
حیدر آرزو کے پیچھے چھپ گیا وہ ویسے بھی عون سے بہت ڈرتا تھا –
آرزو پہلے بھائی کو بولو مجھ سے دس قدم دور ہٹیں پھر میں بتائوں گا کے میں نے ایسا کیوں کیا –
حیدر نے ڈرتے ہوئے کہا-
حیدر بکواز نہیں کرو اور بتائو یے کیا ڈرامہ تھا-
وہ بھائی صبح آرزو نے مجھے چپل سے مارا تھا میں بس اس کا بدلا لے رہا تھا میں آرزو کو ڈرانا چاہتا تھا اور قسم سے مجھے بلکل بھی اندازا نہیں تھا کے آپ یہاں آ جائو گے کیوں کی آرزو کو لینے تو میں آیا تھا اگر مجھے پتا ہوتا کے آپ ڈراموں کے ہیرو کی طرح ہیروئن کو گنڈوں سے بچانے رائیٹ ٹائیم پر آ جائو گے تو میں یے غلطی کبھی نہیں کرتا خومخواہ چھوٹے سے بدلے کے چکر میں کنوارا ہی مر جاتا –
حیدر نے ڈرتے ڈرتے اپنا کارناما سنایا جس پر آرزو نے اسے ایسے دیکھا جیسے بیٹا تو گھر چل پھر تجھے بتاتی ہوں –
تم لوگ بچے نہیں ہو جو ایسی حرکتیں کرتے پھرو آج کے بعد اگر تم لوگوں نے خد کو نہیں سدھارا تو ٹانگیں توڑ دوں گا –
عون نے غصے سے دونوں کو وارن کیا
میری کیا غلطی ہے عون آپ مجھے کیوں بول رہے ہیں آرزو نے منہ بوسرتے کہا
اور اب اس کی توپوں کا رخ آرزو کی طرف آیا-
اور تم تمہیں کتنی بار کہا ہے کچھ بھی ہو جائے اکیلی مت آنا تمہیں میری باتیں سمجھ میں نہیں آتی اور یے موبائل تمہیں صرف ناولز پڑھنے کے لیئے نہیں دیا اس سے اور بھی کام ہوتے ہیں اگر اب کبھی ایسی صورتحال آجائے تو اس میں سب کے نمبرز ہیں صرف کال کرنے کی زحمت کر لینا-
عون نے آرزو کی بھی کلاس لے لی تھی-
آرزو نے جلدی سے اثبات میں سر ھلایا –
وہ دنوں گردن جھکائے کھڑے تھے ”
چلو اب اتنی معصوم شکل بنانے کی ضرورت نہیں جانتا ہوں کتنے معصوم ہو تم دونوں –
اور وہ دونوں چل کر گاڑی میں بیٹھ گئے
تم کیوں گاڑی میں بیٹھ رہے ہو اپنی بائیک میں آئو –
آرزو نے اسے گاڑی کا دروازے کھولتے دیکھا تو کہا-
تمہیں ہاتھ لگانے کے جرم میں تمہارے کھڑوس شوہر نے میرا ہاتھ لگ بھگ توڑ دیا ہے میں بائیک نہیں چلا سکتا –
حیدر دبے دبے غصے سے بولا ”
تمہارے اپنے ہی کرم ہیں خد کو ہی شوق چڑھا تھا بدلا لینے کا اب بھکتو
آرزو نے منہ بنا کے کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئے حیدر بھی منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا بیٹھ گیا –
عون بھی ڈرائیونگ سیٹ میں بیٹھ گیا-
عون ایک بات کہوں آپ گاڑی میں بیٹھنے کا انداز بدل نہیں سکتے ہمیشہ کھڑوس شکل بنا کے خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے عون شاہ ڈرائیونگ کرنے کے لیئے ہی بنا ہے
آرزو کو اس کی خاموشی سے غصہ آتا تھا وہ بس یا تو ڈانٹنے کے لیئے بولتا تھا یا پھر کوئی کام ہو تب بھلا بندے کو ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے کے لوگ اسے خاموش آتما سمجھیں—
کیوں کی عون شاہ کے گھر میں آرزو رہتی ہے جو کے اتنا بولتی ہے کے کسی اور کے بولنے کا سوال ہی نہیں ہوتا
عون نے طنزیہ لہجے میں کہا ”
عون یے محلے کی خالائوں کی طرح طعنے مت دیا کریں جو بھی کہنا ہو گھر کے ابا کی طرح صاف صاف کہیں –
آرزو نے اپنے ہی مثال دیئے –
مجھے تم سے کچھ کہنا ہی نہیں اور اگر ہو سکے تو جب تک گھر پھچیں اپنا یے راولپنڈی ایکسپریس کی طرح چلتا ہوا منہ بند رکھنا-
عون نے چڑ کر کہا –
میرے بولنے سے آپ کو اتنی تکلیف ہوتی عون
ہا اب کیا لکھ کر دوں
عون نے بیزاری سے کہا
ایک دن ایسی چپ ہو جائوں گی نا آپ بولو گے تب بھی نہیں بولوں گی پھر میری آواز سننے کے لیئے ترسیئے گا
آرزو نے دکھ سے کہا –
پتا نہیں وہ دن کب آئے گا
عون نے بے نیازی سے کہا
آرزو نے بس اسے گھور کر دیکھا اور حیدر کی طرف متوجہ ہوئی
حیدر ویسے پہلے تم نے دوسری آواز میں بات کیسے کی تھی میں تو تمہیں پہچان ہی نہیں پائی ”
آرزو نے عون کی بات کو سیریئز نا لیتے ہوئے حیدر سے پوچھا-
بس ٹیلنٹ ہے اپنا اپنا
حیدر مصنوئی کالر جھاڑتے ہوئے بولا”
میں تمہیں پھر سے بول کر دکھاتا ہوں
ہا بولو بولو ویسے کیا ڈائیلاگ مارا تھا تم نے
مجھے تو ہمیشہ سے آپ ہی چاہیئے ہو ہائے کاش تمہارا بھائی بھی کبھی مجھ سے ایسے کہتا-
آرزو نے شرارت سے کہا-
بکواز بند کرو دونوں اپنی اگر اب کچھ بولا نا دونوں کو گاڑی سے نیچے پھینک دوں گا
عون نے غصے سے کہا –
ہمیشہ پھینکتے ہی رہیئے گا
آرزو نے منہ میں بڑبڑایا جو کے کسی نے نہیں سنا”
کچھ دیر سب خاموش رہے آرزو بھی چپ ہوگئے –
گھر پھچنے کے بعد حیدر اور عون اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے آرزو کو پیاس لگی تھی وہ کچن میں چلی گئی
آرزو باجی یے چائے آپ اپنے باپ کو دے آئیں گی وہ میں کھانا بنا رہی ہوں نہیں تو میں لے جاتی
میں کیسے،،،،،
آرزو کو پتا تھا وہ اس کے ہاتھ سے کچھ نہیں کھاتے پر اس نے کئی دنوں سے ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنے باپ کو نہیں دیکھا تھا اسے ان کی یاد آ رہی تھی ماں کی یاد آتی تھی تو وہ ان کی تصویر سے باتیں کر کے روتی تھی پر باپ تو زندہ تھا نا اس نے سوچا
پھر چائے لیکر ان کے کمرے کی طرف چلی گئی اسے ڈر تو لگ رہا تھا کے پتا نہیں کیسا ری ایکٹ کریں گے پھر بھی وہ انہیں دیکھ تو لے گی
اس نے دروازہ نوک کیا
آجائو –
اندر سے اس کے باپ کی آواز آئی
آرزو نے دروازہ کھولا وہ کچھ لکھ رہے تھے ان کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی اس لیئے انہوں نے آرزو کو نہیں دیکھا تھا-
بابا چائے
آرزو نے کانپتے ہوئے لہجے میں کہا-
وہ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھے اور آرزو کو دیکھ کرٹھٹھک گئے کیوں کی وہ کبھی ان کے کمرے میں نہیں آتی تھی
تم یہاں کیا کر رہی جائو یہاں سے –
انہوں نے غصے اور نفرت سے کہا”
آرزو نے چائے ٹیبل پر رکھی اور بولی میں آپ کے لیئے چائے لیکر آئی تھی بابا –
زھر ڈال کر لائی ہو مجھے بھی مارنا چاہتی ہو جیسے اپنی ماں کو مارا تھا”
آرزو کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے
بابا میں نے نہیں مارا تھا امی کو میں نے نہیں مارا
وہ روتے ہوئے بول رہی تھی اس کی آواز میں بہت درد تھا وہ زیادہ کچھ نہیں بول پا رہی تھی وہ وہاں سے بھاگ گئی اور اپنے کمرے میں آکر دروازہ بند کر دیا
اسے میری آنکھوں سے دور کریں بھائی صاحب یے لڑکی قاتل ہے میری بیوی کی –
آرزو کو وہ بات یاد آئی جب اس کی ماں کو مرے ہوئے دو دن ہوئے تھے اور وہ اپنے پاپا کے پاس گئی تھی تو انہوں نے اسے کس طرح ڈانٹہ تھا
بابا بول رہے تھے یے لڑکی قاتل ہے میں کون تھی کیا میں صرف اپنی ماں کی بیٹی تھی وہ میرے کچھ نہیں لگتے تھے اگر اس دن امی کی جگہ وہ ہوتے تو کیا وہ مجھے نہیں بچاتے
امی کیوں چھوڑ کر چلی گئی آپ مجھے ایک آپ ہی تو تھی جو مجھ سے محبت کرتی تھی امی بابا بہت برے ہیں مجھے ان کے ساتھ نہیں رہنا مجھے اپنے پاس بلا لیں نا امی اگر انہوں نے اپنی بیوی کھوئی تھی تو کیا میں نے اپنی ماں نہیں کھوئی تھی ان کو اپنا دکھ نظر آ رہا تھا انہیں میرا دکھ کیوں نہیں دکھا امی اگر مائیں آپ جیسی ہوتی ہیں جو اولاد کے لیئے موت کو گلے لگا دیتی ہیں تو پھر باپ ایسے کیوں نہیں ہوتے کیا سارے باپ ایسے ہوتے ہیں امی اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اب بہت ہو گیا امی میں بہت ٹوٹ چکی ہوں یہاں کوئی میرا نہیں ہے مجھے اپنے پاس بلا لو نا امی آرزو زارو قطار روتے ہوئے اپنی ماں کی فوٹو سے باتیں کر رہی تھی
ماں نہیں تھی پھر بھی اس کی تصویر سے باتیں کر کے اس کا دل ہلکا ہو جاتا تھا وہ ایسے ہی اپنی ماں کی تصویر سے باتیں کرتی تھی کیوں کی ان کے سوا کوئی بھی اس کی باتیں نہیں سنتا تھا وہ جس سے بھی بات کرتی وہ اسے جھڑک دیتے تھے اسے ایسا لگتا تھا اس کا کوئی نہیں ہے وہ ایک انچاہی لڑکی ہے جس سے سب بیزار ہیں عون کی باتوں سے اسے بہت دکھ ہوتا تھا پر وہ کسی کو نہیں بتاتی تھی وہ دیکھنا چاہتی تھی وہ اس سے کتنا بیزار ہے
اور آج کے بعد شاید وہ ویسی نہیں ہو پائے گی جیسی وہ روز ہوتی تھی ”
کیوں کی آج اس کے بابا کے لفظوں نے اسے توڑ دیا تھا اب بس اسے اپنی ماں کے پاس جانا تھا
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
صبح سب اٹھ گئے تھے اور ایک ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے آج سنڈے تھا سنڈے والے دن سب ایک ساتھ ہی ناشتہ لنچ اور ڈنر کرتے تھے –
آرزو کہاں ہے ابھی تک نہیں اٹھی کیا رجو جائو اسے بلا کر لائو
دادو نے آرزو کو موجود نا پاکر رجو کو اسے بلانے کے لیئے بھیجا وہ ہر روز جلدی اٹھ جاتی تھی اور سنڈے والے دن تو وہ سب سے پہلے جاگ جاتی تھی –
رجو جب آرزو کے کمرے میں گئے تو دروازا لاکڈ تھا اس نے بہت کھٹکھٹایا پر اندر سے جواب نہیں آ رہا تھا
آرزو باجی سب آپ کو بلا رہے ہیں ناشتے کے لیئے دروازا کھولیں پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں تھا
رجو پریشان ہو گئی کیوں کی آرزو کی نیند بہت کچی تھی تھوڑے سے شور سے وہ جاگ جاتی تھی —
رجو واپس ڈائیننگ ٹیبل پر آئی
کیا ہوا آرزو کو نہیں اٹھایا تم نے اسے دیکھتے ہی دادو نے پوچھا-
وہ بڑی بی بی آرزو باجی دروازا نہیں کھول رہی ”
کیا مطلب دروازا نہیں کھول رہی عون جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور آرزو کے کمرے کی طرف گیا باقی سب پریشان ہو گئے تھے سوائے عثمان کے وہ اٹھ کر چلے گئے باقی سب عون کے پیچھے گئے
آرزو دروازہ کھولو آرزو
عون نے دروازا کھٹکھٹاتے ہوئے کہا –
دو بار تین بار پر کوئی جواب نہیں
بھائی مجھے لگتا ہے دروازا توڑنا پڑے گا
حیدر نے پریشانی سے کہا-
عون نے اثبات میں سر ھلایا پھر دونوں نے مل کر دروازے کو دھکے لگائے دو تین دھکوں میں دروازا کھل گیا
عون جلدی سے اندر بھاگا
آرزو زمین پر بے ہوش پڑی ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں اس کی ماں کی تصویر تھی وہ بے ہوش تھی اس کا چہرا بلکل سرخ ہو گیا تھا-
آرزو کیا ہوا آنکھیں کھولو آرزو پلیز کچھ بولو عون نے اس کا سر اپنے گود میں رکھتے ہوئے اسے اٹھانے کی کوشش کی اس کی حالت بہت خراب ہو رہی تھی اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا اسے بار بار اپنا خواب یاد آ رہا تھا جس میں آرزو اسے چھوڑ کر جا رہی تھی اسے لگا کے اگر آرزو کو کچھ ہوا تو وہ سانس نہیں لے پائے گا ”
بھائی میں گاڑی نکالتا ہوں ہمیں جلد سے جلد اسے ہاسپیٹل لیکر چلنا چاہیئے-
حیدر یے کچھ بول کیوں نہیں رہی دادو اسے کہو نا اٹھ جائے ایسے کیوں سو رہی
عون پاگلوں کی طرح چلا رہا تھا وہ بار بار آرزو کو اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا پر وہ چپ تھی خاموش جیسا وہ چاہتا تھا-
یا اللہ میری بچی پر رحم کر میرے مولا بڑی ماں دادو کو سنبھال کے کھڑی تھیں کیوں کی ان کی حالت بھی خراب ہو گئی تھی آرزو کو اس حالت میں دیکھ کر
حیدر نے گاڑی نکال دی تھی عون نے آرزو کو اپنے بازوئوں میں اٹھایا اور جلدی سے گاڑی کی طرف آیا عون کی حالت ایسی نہیں تھی کے وہ ڈرائیونگ کر پاتا حیدر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی وہ لوگ جلد سے جلد ہاسپیٹل پھچنا چاہتے تھے کیوں کی آرزو بہت مشکل سے سانس لے پا رہی تھی حیدر نے بہت ریش ڈرائیو کرتے ہوئے آدھے گھنٹے کا فاصلا پندرہ منٹ میں طئے کر لیا وہ لوگ ہاسپیٹل پھچ گئے تھے
آرزو کو آئے سی یو میں ڈالا گیا تھا اسے بہت تیز بخار ہوا تھا جو اس کے دماغ میں چڑھ گیا تھا اگر تھوڑی دیر ہوجاتی تو وہ لوگ آرزو کو ہمیشہ کے لیئے کھو دیتے –
عون اور حیدر کوریڈر پر کھڑے تھے
بھائی کچھ نہیں ہوگا اسے آپ فکر نا کریں
حیدر نے عون کو تسلی دی جو کے بلکل خاموش کھڑا تھا
آرزو تم چپ کیوں نہیں ہوتی
آرزو تم میرے کس جرم کی سزا ہو
وہ دن کب آئے گا جس دن تم خاموش ہو جائو گی
ایک دن ایسی چپ ہو جائوں گی نا آپ میری آواز سننے کے لیئے بھی تڑپو گے دیکھ لینا
پتا نہیں وہ دن کب آئے گا
عون کو اپنی آواز آ رہی تھی اس نے کبھی آرزو کی قدر نہیں کی تھی
اس کی قدر کرنا جو تمہاری زندگی ہے ورنا وہ تم سے بہت دور چلی جائے گی ”
اسے آج اس بابا کی بات کا مطلب سمجھ آیا تھا واقعی آرزو اس کی زندگی تھی وہ ایک پل بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا پر اس نے اپنی آرزو کی قدر نہیں کی تھی –
عون کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ آرزو کے لیئے رو رہا تھا
بھائی آپ رو رہے ہیں
حیدر کو یقین نہیں آ رہا تھا اس کا وہ بھائی جسے اپنے سوا اور کوئی پسند نہیں تھا وہ صحیح اور باقی سب غلط آج وہ کسی لڑکی کے لیئے رو رہا تھا-
حیدر اسے کچھ نہیں ہوگا نا عون نے دکھی لہجے میں کہا-
نہیں بھائی کچھ نہیں ہوگا اسے وہ ٹھیک ہو جائے گی ہماری آرزو ٹھیک ہو جائے گی حیدر نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا
بھائی مجھے نہیں پتا تھا آپ آرزو سے اتنی محبت کرتے ہیں
مجھے بھی نہیں پتا تھا حیدر جب آج لگا کے وہ مجھ سے دور چلی جائے گی تو ایسا لگا جیسے کسی نے میری سانسیں روک دی ہوں میں خد نہیں جانتا تھا میں اس پاگل سے اتنی محبت کرتا ہوں –
عون کھوئے ہوئے لہجے میں بولا اور حیدر بس اسے دیکھتا رہ گیا –
ڈاکٹر کو آتا دیکھ کر وہ دونوں اس کی طرف لپکے
ڈاکٹر آرزو کیسی ہے
دیکھیں ابھی تک ان کی حالت میں کچھ زیادہ بہتری نہیں آئی بخار بہت تیز تھا اور انہیں کوئی صدمہ پہچا ہے جس کی وجہ سے ان کا نروس بریک ڈائون ہوا ہے جو کے بہت خطرناک تھا آپ لوگ دعا کریں کے انہیں ہوش آ جائے اگر چوبیس گھنٹے میں ہوش نا آیا تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے
ڈاکٹر نے انہیں کوئی اچھی خبر نہیں سنائی تھی –
بھائی میں گھر کال کر کے آتا ہوں
حیدر پریشانی سے بول کر چلا گیا اور عون وہیں بینچ پر ڈھے گیا –
آرزو میری غلطیوں کی اتنی بڑی سزا نہیں دوگی تم مجھے میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا دعائوں میں بہت اثر ہوتا ہے میں دعا کروں گا اور مجھے یقین ہے اللہ تمہیں مجھ سے نہیں چھینے گا اس نے یقین سے کہا اور ہاسپیٹل کی ہی مسجد میں نماز پڑھی اور دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے اسے آج اپنی آرزو کی زندگی مانگنی تھی “”
¤¤¤¤¤¤¤¤¤
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...