اگلی صبح خیام سعید صاحب کو شہر کے سب سے مہنگے ہاسپٹل لے آیا۔
” خیام کیوں پیسہ ضائع کر رہے ہو، مہرا وقت پورا ہو گیا ہے۔”
سعید احمد ہاسپٹل کا معیار دیکھتے ہوئے بولے۔
” ابو پلیز ایسی باتیں مت کریں۔”
خیام افسردگی ملے فکھ سے انہیں دیکھ سکا اور انہیں ڈاکٹر کے روم میں لے آیا۔
ایک ہفتے کی میًیسن لیے وہ گھر آ گئے۔
” مجھے تندرست کرنا ہے تو میری بچی کا گھر بسا دے خیام، اپنک بہن کو اسکے گھر بھیج دے، میرے دل سے پریشانیوں کے بوجھ ہٹ جائیں گے۔”
سعید صاحب کافی دیر بعد بولے تھے، گہری سنجیدگی انکے نحیف چہرے سے جھلک رہی تھی۔
” کیا مطلب ابو۔؟”
خیام چونک سا گیا، پاس بیٹھی فوزیہ سر جھکائے ہاتھ گود میں دھرے انہیں گھور رہی تھی۔
” ثریا نے لڑئی ڈالی ہوئی ہے، ثمینہ کا رشتہ لو گے تب ہی منیب فوزیہ کو لے کر جائے گا۔”
سعید صاحب ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے خیام کی سگی خالہ کا نام لیتے ہوئے بولے۔
” پر خالہ ایسا کیدے کر سکتی ہیں ؟”
خیام کو غصہ آنے لگا تھا۔
” اور ثمینہ آپا مجھ سے بڑی اور شادی شدہ ہیں۔”
خیام کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
” پچھلے سال ثمینہ آپا کا طلاق ہو گئی تھی۔”
فوزیہ نے لب کھولے۔
” تو اب میں اس سے شادی کروں”
خیام کو سخت غصہ آ رہا تھا۔
” بہن کا گھر بسانے کی خاطر۔”
سعید احمد منت بھرے لہجے میں بولے۔
” میں شادی کر چکا ہوں کینیڈا میں۔”
خیام نے سعید صاحب نے ناتواں اعصاب پر بم ہھوڑا۔
” وہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہے ابو، وہ مر جائے گی میری شادی کی خبر سن کے۔”
خیام سر رھام کر رہ گیا۔
سعید صاحب چپ چاپ لیٹ گئے، کتنی ہی لمحے لگے انہیں خود کو سنبھالنے میں۔
” تیری بہن مر جائے گی، اسکا بھی تو سوچ خیام۔”
سعید صاحب آہستگی سے بولے تھے۔
” اسے طلاق دے دے، بہن سے محبت ہے تو، ورنہ واپس چلا جا، کبھی مت پلٹنا۔”
سعید صاحب ہاہپنے لگے تھے۔
” میں اسے طلاق نہیں دے سکتا، وہ امید سے ہے۔”
خیام ضبط سے بولا۔
” جا فوزیہ، اسے اس کا سامان لا دے، اسکی بیوی اسکا انتظار کر رہی ہے۔”
سعید احمد نے رخ موڑ کر ؛اشو آنکھوں پر دھر لیا۔
فوزیی نے ڈبڈبائی آنکھوں سے بھائی کو دیکھا، جو اہنی محبت اپنی بیوی کے لیے اتنا خود غرض ہو گیا تھا، بہن کا اجڑتا گھر بھی دکھائی نہ دیا۔
” امی امی۔۔۔تم کہتی تھی ماموں آئے گا تو اہنے گھر جائیں گے۔”
فوزیہ کی بیٹی نور اسکا دوپٹہ کھینچتے ہوئے بولی۔
فوزیہ نے بھرائی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔
” ماموں ماموں نہیں رہا، بیوی کا غلام بن گیا ہے۔”
سعید احمد بنا رخ موڑے بولے۔
خیام سعید چپ چاپ گھر سے نکل گیا۔
فوزیہ کمرے میں جا کر آنسو بہانے لگی، کیاری میں کھیلتے اسکے دونوں بچے اسے بے حد عزیز تھے، اسے منیب کی ضرورت نہیں تھی، بس اپنے بچوں کے لیے باپ کا سایہ چاہیے تھا، عورت کب اپنی خواہشات مقدم رکھتی ہے، کبھی باپ کی خواہش تلے اسکے خواہشیں دب جاتی ہیں، کہیں اولاد کے لیے تو کہیں گھر کے وہ ہر بار خود کو ارزاں کر لیتی ہے، اور ناقص عقل کے مالک عورت کو کمزور گردان لیتے ہیں۔
گھر سے باہر نکلا اور بے مقصد گہری سوچوں کے ہمراہ گھومتا رہا۔
شام کے سائے پھیلے تو وہ تھک ہار کر گھر لوٹ آیا۔
فوزیہ نے اسکے آگے کھانا رکھا، خیام سعید بے بسی کی انتہا پر تھا، ایک طرف اسکی محبوب بیوی اور دوسری طرف عزیز از جان بہن، جس نے ماں کے بعد بچوں کی طرح پالا۔
خیام نے کھانا ایک طرف کیا اور چارپائی پر دراز ہو گیا۔
سعید احمد نے گہری نگاہ اسکے سنجیدہ مکھ پر ڈالی۔
” جانا ہے تو چلا جا، ان بچوں کو جھوٹی امیدیں نہ دلائے رکھ۔”
سعید احمد کھرے لہجے میں بولے۔
” میں تیار ہوں، صبح آپا کو اسکے گھر چھوڑ آوں گا۔”
خیام ضبط کے آخری دہانے پر تھا۔
سچے لوگ محبت میں خیانت نہیں کر پاتے پر وقت کی چالبازیاں انہیں وفا کے دائرے سے کھینچ کر جفا کے کٹہرے میں لا پھینکتی ہیں۔
وہ خود کو ساریہ نائک کا مجرم سمجھ رہا تھآ۔
خیام سعید نے بھیگی آنکھوں سے خوبرو بیٹے کو دیکھا،
مجبوریاں مسکراہٹوں کی پیاسی ہوتیں ہیں، کہیں نا کہیں کسی نا کسی کی مسکراہٹ نگل جاتیں ہیں۔
خیام سعید نے فوزیہ کے بچوں کی مسکراہٹوں کے بدلے اپنی مسکراہٹیں تیاگ دیں۔
وقت بڑا بے رحم ثابت ہوتا ہے، لوگ کہتے ہیں جب رزق لکھا ہے، قسمت لکھی ہے تو پریشانیاں کس بات کی۔۔۔؟
پریشانیاں وقت کے ہیر پھیر سے جنم لیتی ہیں، من چاہی خوشیاں چھین کر ان چاہی سنگتیں تھما دینے پر جنم لیتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
قتل کے دن۔
۔
درد کی ایک شدید لہر اسکے سر میں دوڑی، اسنے کراہ کر آنکھیں کھولنی چاہیں۔
مندی مندی آنکھوں سے اطراف میں دیکھا تو کچھ سمجھ نہ آیا۔
ہاتھ ہلانے چاہے تو ہل نہ پائے، کلائیوں پر رسی کی مضبوط گرفت تھی، ٹخنوں کا بھی یہی حال تھا۔
اس نے سر ہیچھے کو گرا لیا، درد شدید تھا، پورا جسم دکھ رہا تھا۔
دماغ نے کام کرنا شروع کیا اور اور آہستہ آہستہ اسے یاد آیا۔
“مسٹر ملک۔۔”
وہ زیر لب بڑبڑائی، اور گردن سیدھی کیے رسیوں سے کلائیاں کھینچنے لگی، نتیجتاً کلائیاں چھل گئیں۔
” ایااااان”
وہ بلکی تھی۔
اوپر دیکھنے پر ہلکی ہلکی روشنی آنکھوں میں پڑنے لگی، دروازہ پورا کھلا تو آنکھیں چندھیا گئیں، وفا نے آنکھیں میچ کر دوبارہ کھولیں۔
روشنی سے کنپٹی سے گرشن تک خون کی دھاری خشک ہو چکی تھی، بھورے بال گردن کے اطراف میں بکھر کر الجھے ہوئے تھے، گلابی لب خشک ہو ہورہے تھے۔
بھوری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، تین لوگ سیڑھیاں اتر کر اسکے سامنے آگئے، وفا ایک لمحے میں پہچان گئی۔
” ماما ٹھیک کہتیں تھیں، تم لوگ انتہائی گرے ہوئے ہو ”
وفا حلق کے بل چلائی۔
” ہاہاہاہا۔”
شزا کا قہقہہ بلند ہوا۔
” تو تم ہمارے درمیان آنے کی جرات ہی نہ کرتی۔”
شزا کرسی کے بازوں پر ہاتھ رکھے اسکے اوپر جھکی۔
” مجھے کوئی شوق نہیں ہے، تم جیسوں کے منہ لگنے کا۔”
وفا کلائیاں کھینچتے ہوئے شزا کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔
باخاج غیر معمولی حد تک سنجیدہ تھا۔
” ایان تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔”
وفا غرائی تھی۔
شزا نے اسکی گردن دبوچ لی۔
” رئیلی۔”
شزا نے بڑھے ہوئے ناخن اسکی گردن کے جلد میں پیوست کردیے۔
وفا نے ضبط سے آنکھیں میچیں۔
” شزا چھوڑو اسے۔”
بالاج کو بے اختیار شیریں جہاں یاد آئی تو اس نے شزا کو پیچھے دھکیلا۔
شہروز خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔
” کیا پرابلم ہے تمہیں۔؟”
شزا کو بالاج کا ٹوکنا زہر لگا۔
” یہ تم لوگ ٹھیک نہیں کر رہے۔؟”
بالاج نائک ڈبل مائنڈڈ ہو گیا، اسکی آنکھوں میں بار بار شیریں جہاں کا چہرہ گھوم رہا تھا۔
” تم ہوش میں تو ہو؟”
شہروز کو اس پہ سخت تاو آیا۔
” اب آیا یوں ہوش میں شہروز نائک، کیونکہ مجھے اب علم ہوا، آپ میری مام کے قاتل ہیں۔”
بالاج دکھ سے بولتا پھٹ پڑا۔
شزا کے لبوں پر شیطانیت مسکرائی۔
شپروز نے لب بھینچے۔
” تو تمہیں پتہ چل ہی گیا ہے تو سن لو، یہ سب میں نے تمہارے ہی نام کیا ہے۔”
شہروز نائک کوٹ پیچھے دھکیتا کمر پر ہاتھ رکھے اسکے مقابل آیا۔
” وہ اس لیے کہ آپ پہ شک نہ کیا جائے۔”
بالاج کرب سے بولا۔
” ویری سمارٹ۔۔۔”
شہروز نائک ہنسا۔
” میں آپ کو معاف نہیں کروں گا ڈیڈ۔”
بالاج ایک طرف سے نکل کر باہر جانے لگا، پہلی سیڑھی پر قدم دھرتے ہی شپروز کی آواز نے اسکے قدم جکڑے۔
” میں یہ کرنا نہیں چاہتا تھا، پر تم بغاوت کر کے مجبور کر گئے بالاج۔”
شہروز نائک کی آواز پر بالاج پلٹا تو شہروز نائک اس پر گن تانے ہوئے تھا۔
” آپ بہت خود غرض انسان ہیں ڈیڈ۔”
بالاج انتہائی دکھ سے بولا
” ہاں میں خود غرض ہوں، میں بدنامی افورڈ نہیں کرسکتا۔”
شہروز نائک نے فائیر کھول دیا، سائلنسرڈ گن سے گولی نکل کر بالاج نائک کے سینے کو چیر گئی، وہ جھٙٹکے سے پیچھے کو لہرایا، بے یقینی آنکھوں میں جھلک رہی تھی، اسکے باپ نے اسے قتل کیا تھا۔
“ڈیڈ۔”
بالاج بے یقینی سے بولا۔
” میں نے اس قتل کو چھپانے کو کئی قتل کرنے پڑے ہیں، مجھے افسوس ہے ان میں تم بھی شامل ہو۔”
شہروز نائک دوسرا فائیر کرتے ہوئے بولا۔
بالاج کو خون کی سفیدی اور شہروز نائک کے حیوان ہونے کا یقین ہوگیا۔
بالاج دیوار سے ٹکرا کر اوندھے منہ سیڑھیوں پر گر گیا، خود کو بمشکل سنبھالتے وہ سرخ ہوتی آنکھوں باپ کو دیکھتے ہوئے خون میں لتھڑا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
شہروز جانتا تھا، وہ زیادہ دور نہیں جا سکے گا۔
بالاج خود کو گھسیٹتے ہوئے باہر آیا اور ایان ملک کو کال کر دی۔
” ٹ۔۔۔ٹریے۔۔س دا لل۔۔۔۔لوکیشن۔۔۔ وفا ملک۔”
بالاج نے وائس نوٹ ریکارڈ کیا اور منہ کے بل زمین پر گر گیا، وجییہ چہرے پر خون ہی خون تھا۔
وفا کی دلخراش چیخیں، بیسمینٹ میں گونج رہیں تھیں۔
خون سیڑھیوں سے بہہ کر اسکی طرف بڑھ رہا تھا، وفا نے خوف سے آنکھیں میچیں اور ہوش و خرد کی دنیا سے نکل گئی۔
” بیچارہ۔”
شزا نائک استہزایہ ہنسی، شہروز نائک گن پینٹ میں اڑستا باہر کی سمت چلا گیا۔
شزا نے پانی کا جگ وفا کے منہ پر پھینکا۔
وفا ہڑبڑا کو ہوش میں آئی۔
سیڑھیوں پر کچھ بھی نہیں تھا، خون کے نشان اب بھی باقی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
ذندگی بعض اوقات بڑی خوشیوں کا تاوان لے لیتی ہے۔
کمرے میں افراد بحث و مباحثے میں مشغول تھے، ثریا خاتون کانوں کے پیچھے دوپٹہ اڑسے کڑک دار آواز میں باتیں کر رہی تھی۔
خیام کو انکے انداز سے کوفت محسوس ہو رہی تھی، آپا کی زندگی کی بات نہ ہوتی تو وہ بیٹھنا بھی گوارہ نہ کرتا۔
” ارے او منیب، بہرہ ہے کیا، جا مولوی کو لے کر آ۔”
ثریا گرج کر بولی تو منیب سر جھٹکتا چہرے پر کوفت بھرے تاثرات لیے گھر سے نکلا۔
” اری او فوزیہ چل ثمینہ کو تیار کر۔”
رعب و دبدبے سے فوزیہ پر حکم جھاڑتی وہ ہاتھ کمر پر ٹکائے صحن میں پھرکی کی طرح گھوم رہی تھی۔
شعیب اور زوہیب کے کانوؑں تلے دو دو تھپڑ جڑے اور گھسیٹتے ہوئے برآمدے میں چارپائی پر پٹخے۔
فرح گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے لگی تو کوفت و بے زاری سے جھنجھلا کے اسے دیکھا۔
منیب مولوی کو لیے اندر داخل ہوا، عمر رسیدہ مولوی صاحب سفید سوٹ میں ملبوس، چہرے پر مٹھی بھر داڑھی سرخ مہندی سے رنگی ہوئی تھی، سر پر عمامہ باندھے بغل میؓ رجسٹر دبائے سعید صاحب کے پاس آبیٹھا۔
ثمینہ سرخ سوٹ پہنے خیام کے پاس آبیٹھی، ںکاح سنجیدگی سے ہو گیا۔
کھانا کھائے بغیر خیام سعید صاحب اور ثمینہ کو بمعہ تین بچوں کے لیے چلا آیا۔
فرح کا مسلسل رونا خیام سعید کو بے زار کر رہا تھا۔
” تم نے میرے کندھوں سے بوجھ ہٹا دیا ہے۔”
سعید صاحب اسکی سنجیدہ صورت دیکھ کر بولے۔
” میں اس بوجھ تلے دب گیا ہوں ابو، ساریہ کو خبر ہوئی تو اسکا باپ مجھے بیچ سڑک بھون دے گا۔”
خیام شدید پریشان لگ رہا تھا۔
” واپس مت جاو۔”
سعید صاحب نے آسان سا حل بتایا۔
خیام سعید ساریہ نائک کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں سمجھ رہا تھا۔
” فرار کسی پریشانی کا حل نہیں ہوتا ابو۔”
تھکن سے بولتا وہ کمرے میں چلا گیا۔
ثمینہ ادے دیکھ کر شرمانے لگی تھی، خیام کی نظروں سے ساریہ کا حسین مکھ گھوم گیا، اسکے مقابل ثمینہ ماسی لگ رہی تھی۔
خیام کا موبائل رنگ کرنے لگا تھا۔
ساریہ کی کال آ رہی تھی، خیام کی آنکھیں بھیگ گئیں، وہ جانتا تھا، ساریہ پاگل ہو جائے گی۔
ضبط کی منجدھار پر کھڑے اس!ے کال رسیو کر لی۔
” میں خفا ہوں آپ سے۔”
ساریہ نائک کی خفگی بھری آواز ابھری۔
وہ حکم دینا جانتی تھی بس۔
” کس کس چیز کی معافی مانگوں آپ سے۔؟”
خیام خاموشی سے کرب سے سوچ سکا۔
” میں واپس نہیں آ سکتا ابھی۔”
خیام کو اپنی آواز کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
” پرسوں ڈلیوری ہے۔”
ساریہ روہاندی ہوئی تھی، خیام کی آنکھیں بھیگ گئیں، کتنے خواب دیکھے تھے، اپنی بے بی کو لے کر۔۔۔۔۔۔
” ساریہ ایم سوری۔”
خیام کی برداشت ختم ہو رہی تغی اس نے کال کاٹ دی۔
” وہ جی آپ کے لیے کریلے گوشت بنا لوں۔”
ثمینہ تیز گلآبی سوٹ پہنے ہوئے تھے، بھنوں کے بیچ کاجل سے بنا نقطہ اسے مزحکہ خیز بنا رہی تھی۔
” آپ کے سپیشل ڈشز بنوائیں ہیں۔”
ساریہ کا کھنکتا محبت بھرا لہجہ گونجا۔
خیام سر جھٹکتا گھر سے نکل گیا۔
” اماں۔۔۔۔ خیام تو سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا۔”
ثمینیہ نے ماں کو فون لگا دیا۔
” ابھی کرتی ہوں اسے ٹھیک۔”
ثریا خاتون بھڑک کر بولیں اور منیب سے کہہ کر فوزیہ کو مار پڑوا ڈالی۔
شام ہوئی تو فوزیہ بچے لیے پھر انکی دہلیز پر بیٹھی تھی۔
خیام گھر آیا تو فوزیہ کو دیکھ پریشان ہوگیا۔
” کیا ہوا آپا؟”
خیام فوزیہ کے پاس بیٹھا۔
” تم نے ثمینہ سے کیا کہا ہے،یہ اسی کا نتیجہ ہے۔”
سعید صاحب اس پر برسے۔
” ابو میں نے کچھ کہا ہی نہیں ہے”
خیام اس بے وجہ کی پریشانی پر طیش میں آگیا۔
” ثمینہ۔”
خیام کی دھاڑ پر ثمینہ بھاگی آئی۔
” کیا کہا ہے تم نے جو آپا کو ہھر سے نکال دیا۔”
خیام طیش کے عالم اسکی طرف بڑھا۔
” کک کچھ نہیں۔۔۔”
ثمینہ خوفزدہ ہو گئی۔
” آج کے بعد آپا کو کسی نے ہاتھ بھی لگایا تو بتا دو اپنے بھائی تم لوگوں کی لاشیں بھی نہیں ملیں گی۔”
خیام غرایا تھا، ثمینہ کی شکل دیکھ کر ہی اسکا دماغ الٹ رہا تھا۔
” جج جی۔۔”
ثمینہ ہکلائی تھی۔
” لگاو فون منیب کو لے کے جائے آپا کو ورنہ ابھی کے ابھی طلاق دے دوں گا۔”
خیام دھمکاتے ہوئے اندر چلا گیا۔
نتیجتاً دس منٹ میں منیب دروازے پر تھا۔
” آج کے بعد آپا پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کرنا سمجھے ورنہ وہ حال کروں گا، مر کے بھی بھول نہیں سکو گے۔”
خیام نے وارننگ دی تھی، اس سے عمر میں بڑے منیب کو پسینہ آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...