(Last Updated On: )
نقطۂ آشفتہ
یکم اکتوبر۱۹۷۹ء۔ ۱۸ مئی ۱ ۱۹۸ء
٭٭
قریہ فکر میں سناٹا بسا میرے بعد
آخری شخص تھا میں کچھ نہ بچا میرے بعد
نہ جلا پھر کبھی احساس کا رنگیں دامن
پھر نہ آیا کوئی یاں شعلہ نوا میرے بعد
ایک اک سانس کو ترسا کیا، کیا موسم تھا
سُنتے ہیں شہر میں پھرتی ہے ہوا میرے بعد
میرا پیکر نہ بچا… کوچہ دلدار میں کیوں
چاپ سی پھر بھی اُبھرتی ہے صدا میرے بعد
ٹوٹنا، ٹوٹتے رہنا تو ہے اک رسمِ جنوں
اہلِ دل ہی جو نہیں، ٹوٹتا کیا میرے بعد
قاتلِ مشہور بھی کس سُکھ سے جئے گا اسلمؔ
حوصلہ کِس میں؟ کرے گا جو گلہ میرے بعد
٭٭٭