راشد صاحب حسب معمول صبح کی چائے کے ساتھ اخبار کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے،تبھی ان کی نظر
“ملک میں بڑھتے ہںوئے کرپشن کا ذمہ دار کون؟”
اس آرٹیکل پر پڑی۔انھوں نے دلچسپی سے پڑھنا شروع کیا۔
آرٹیکل میں صاف لفظوں میں واضح کیا گیا تھا کہ کس طرح شہر میں کرپشن عام ہںو رہا ہںے اور ان سب کا ذمہ دار کوئی اور نہیں سڑک پر اپنی چمکتی گاڑیوں میں گھومنے والے رںٔیس زادے ہیں۔
جن کی نظر میں قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہںے۔یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے قانون کی خلاف ورزی کو فیشن بنا لیا ہے۔ساتھ ہی اس شخص کا ذکر کیا گیا تھا جس نے حال ہی میں ممنوعہ جگہ پر کار پارک کی تھی۔ احتجاج کرنے پر بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتا اس نے ڈھٹائی سے سرکاری ملازم کو رشوت دے کر خریدنا چاہا۔
اس شخص کی اس حرکت نےملک کے قانون کا مذاق اڑایا ہے۔اس سے قبل کے راشد صاحب خبر کے اختتام پر ملک کے بگڑتے حالات پر افسوس کرتے انکی نظر خبر کے ساتھ چھپی تصویر پر پڑی سیکنڈ سے بھی کم وقفہ لگا تھا انہیں شاہ ذر کی کار کی نمبر پلیٹ پہچاننے میں،انھیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ اشعر سے بات کرنے کا فیصلہ کرکے وہ اپنی جگہ سے اٹھے تھے۔
****
وہ بس کے منتظر بس سٹاپ پر کھڑی تھی۔سڑک پرقطار میں کھڑیں گاڑیوں میں سوار افراد سگنل کے ہرے ہںونے کا انتظار کررہے تھے۔تبھی چار سپورٹ باںٔیکس تیز رفتاری سے سگنل توڑتےہںوئیں اس کے سامنے سے گزری۔کچھ ہی دوری پر سڑک پار کرتی ایک عورت اور اس کا بچہ تیز رفتار باںٔیک کی زد میں آہی جاتے گر عین موقع پر باںٔیک سوار بریک نہ لگاتا۔
اس کو رکتا دیکھ اس کے دوسرے ساتھیوں نے بھی اپنی اپنی باںٔیکس روک دی۔ٹرافک حوالدار تیز تیز قدم اٹھاتا ہںوا جائے واردات پر پہنچا۔
وہ مسلسل منہ میں دبی سیٹی بجاتا جا رہا تھا۔قریبا پانچ منٹ حوالدار اور باںٔیک سوار لڑکےکےدرمیان بات ہںوئی ،جس کے بعد وہ چاروں ہںوا کی تیزی سے باںٔیکس اڑا لے گئے۔
حوالدار مسکراتا ہںوا پلٹا۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہںوئی حوالدار کے نزدیک پہنچی۔وہ سڑک کے کنارے کھڑی ڈری سہمی اس عورت سے مخاطب ہںوا۔
“دیکھ کر چلنے کا نا میڈم رستہ کیا تمھارے باپ کا ہںے”۔
شرم کے مارے وہ عورت کچھ بول ہی نہ پائی تھی۔حولدار کی بات سن کر زرمین طیش میں آگئی۔
“یہ آپ کس لہجے میں بات کررہے ہیں ان سے؟
یہاں جو کچھ وقوع پذیر ہںوا اس میں ان کا کیا قصور ہںے۔یہ تو اسی وقت روڈکراس کررہی تھی جب کرنا چاہیے۔قصور ان لڑکوں کا ہںے جو ریڈ سگنل کے دوران اپنی باںٔیکس کو ہںوا میں اڑا رہے تھے۔اگر وہ باںٔیک سوار بریک لگا نے میں ذرا سی دیری کرتا تو انکی جان بھی جا سکتی تھی اور آپ الٹا انہی پر برس رہے ہیں۔”
“میڈم آپ کو کیا پروبلمproblem ہںے۔یہ لڑکا لوگ روز یہاں سے جاتا ہے۔ان لیڈیس لوگ کو دھیان رکھنا چاہںیے نہ غلطی ان لوگ کا ہے۔”
زرمین کی بات کا کوئی خاص اثر نہ لیتے ہںوۓ حوالدار نے ان لڑکوں کی طرفداری کی۔
”اوہ اچھا تو آپ کا خیال ہے کہ غلطی اس عورت کی تھی۔ آپ ٹرافک پولیس ہیں کیا آپ کو بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ریڈ سگنل کے دوران گاڑی چلانا قانوناً جرم ہے۔”
زرمین نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔
” ہاں ، بند سگنل پر گاڑی چلانا allowنہیں ہے۔ پتہ ہے ہم کو، تو لیا نہ ہم نے ان لڑکا لوگ سے فائن۔ ہو گیا ان کا سزا پورا ۔میڈم تم ہم کو قانون مت سیکھاؤ۔”
کئ ہری نوٹوں کو اس کی نظروں کے سامنے لہراتے ہوئے حوالدار نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا۔
” ان لڑکوں نے آپ کو محض چند روپے پکڑائے اور ان کی سزا پوری ہوگئ۔ انھیں تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے۔
ان عیاشوں کی لاپرواہی کے چلتے کسی کی جان بھی جاسکتی تھی۔ مگر آپ جیسوں کو اس سے کیا سروکار، آپ کی تو جیبیں گرم ہونی چاہیے بس۔ چاہے آپ کی رشوت خوری کسی راہ چلتے کو اپاہج ہی کیوں نہ بنادے۔”
اس نے نخوت سے کہا۔
حوالدار اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہوا ٹرافک کی طرف متوجہ ہوگیا گویاوہ اس سے نہیں کسی اور سے مخاطب تھی۔
زرمین تاسف سے گردن ہلاتی ہوئ پلٹی وہ عورت اپنے بچے کو لیکر جا چکی تھی۔ اس کی بس مقررہ وقت پر آپہنچی۔
ان عیاشوں کی لاپرواہی کے چلتے کسی کی جان بھی اس نے جاسکتی تھی۔ مگر آپ جیسوں کو اس سے کیا سروکار آپ کی تو جیبیں گرم ہونی چاہیے بس چاہے آپ کی رشوت خوری کسی راہ چلتے کو اپاہج ہی کیوں نہ بنادے۔”
اس نے نخوت سے کہا۔
حوالدار اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہوا ٹرافک کی طرف متوجہ ہوگیا گویاوہ اس سے نہیں کسی اور سے مخاطب تھی۔
زرمین تاسف سے گردن ہلاتی ہوئ پلٹی وہ عورت اپنے بچے کو لیکر جا چکی تھی۔ اس کی بس مقررہ وقت پر آپہنچی۔اس سے قبل کہ وہ بس میں سوار ہوتی وہ چاروں بائیک سوار مخالف سمت سے آتے ہوئے نظر آئےتھے۔
اس بار ان کی بائیکس کی رفتار قدرے دھیمی تھی۔ان چار میں سے تین نے ہیلمیٹ پہن رکھا تھا، جبکہ چوتھے نے اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ چوتھا سوار وہی شخص تھا جس کا پسندیدہ مشغلہ قانون کی خلاف ورزی کرنا تھا۔اسے دیکھ کر زرمین کو زرا بھی حیرت نہ ہوئی تھی۔اس شخص سے کچھ ایسے ہی کارنامے کی توقع کی جاسکتی تھی جو اس نے تھوڑی دیر قبل انجام دیا تھا۔
****
آفریدی ولا کی بالائی منزل پر شاہ زر کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا ۔وہ بیڈ پر اڑا ترچھا لیٹا اسمارٹ فون کی اسکرین کو سوائپ کرنے میں مصروف تھا۔ تبھی اشعر اس کے کمرے میں داخل ہںوا ۔اسے دیکھ کر شاہ زر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
” کیا بات ہے بھائی؟”
اس نے انجان بن کر استفار کیا ۔جبکہ اسے اندازہ تھا کہ حسب توفیق اشعر اس کے والد کا پیام لیکر آ یا ہوگا۔
” گزشتہ روز تمھاری کسی رپورٹر سے بحث ہوئی تھی۔”
اشعر نے سنجیدگی سے سوال کیا تھا۔
” ارے یہ کیا بھائی مجھے لگا تھا کہ صرف بھابھی ہی ہم دونوں کی محبت کے درمیان حائل ہیں مگر یہ کیا یہ رپورٹر کہاں سے وارد ہوگیا؟”۔
اس نے بات کو مزاحیہ رخ دیتے ہوئے کہا۔
” ہر بات مزاق نہیں ہوتی شاہ زر ۔ میں نے تمہیں کتنی دفع سمجھایا ہے کہ اپنی حدوں کو یاد رکھو۔ اپنے شوق کو پورا کرتے کرتے کہیں کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھنا جس سے ڈیڈ کی عزت پر آنچ آئے۔
مگر تم نے وہی کیا جس کا ڈیڈ کو ڈر تھا۔”
اشعر خطرناک حد تک سنجیدہ تھا۔
” کیا ہوگیا ہے بھائیicant understand”۔
وہ متحیر تھا۔
” تمھیں اخبار کا مطالعہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے نہ ہی اس بات سے سروکار ہے کہ روزانہ اخباروں میں کس نوعیت کی خبریں شائع ہوتی ہیں ۔مگر میں تمھیں آگاہ کردوں کہ اس شہر کی کئ معزز افراد سمیت تمھارے ڈیڈ بھی اخبار کا مطالعہ بلا ناغہ کرتے ہیں۔اور آج کے اخبار میں انکے بیٹے کے کارنامہ کو پڑھکر وہ حد درجہ پریشان ہیں۔ جس وقت تم اپنی غلطی ہونے کہ باوجود اس رپورٹر کو کوئی عام ٹرافک پولیس سمجھ رشوت دے رہے تھے اسوقت تمھیں اپنے والد کی عزت و رتبے کا زرا سا احساس کرلینا چاہیے تھا۔”
اشعر نے سابقہ لہجے میں کہا ۔
ایک جھماکے کہ ساتھ سڑک پر ایک لڑکی کی ساتھ ہوئ بحث اس کے ذہن میں تازہ ہوئی۔اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔اس نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ وہ لڑکی ایک صحافی ہوسکتی ہے۔ وہ بھی ایسی صحافی جو اتنی چھوٹی سی بات کو اخبار میں شائع کرواسکتی ہے۔”
” Iam really very sorry Bhai میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں میں نے بس مزاق کیا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھاکہ وہ رپورٹر ہوگی اور اس بات کو
اخبار کی خبر بنا دےگی۔”
آپ پاپا کو یقین دلائیں کہ آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا جو ان کی تذليل کا باعث بنے۔”
اس نے معزرت کر کے معاملے کو رفع دفع کرنے میں ہی عافیت جانی۔وہ بات کو بڑھا کر اشعر کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اشعر کو ہنوز اپنا چہرہ مخالف سمت میں کیے دیکھ وہ پریشان ہو گیا۔
“بھائی پلیز آپ تو مجھ سے خفا نہ ہوں، پہلے ہی ڈیڈ مجھ سے ناراض رہتے ہیں۔ مجھ سے ٹھیک طرح سے بات تک نہیں کرتے ۔وہ بس مجھے مسٹر پرفیکٹ بنا دیکھنا چاہتے ہیں۔
میں یہ سب کچھ برداشت کر جاتا ہوں مگر آپکی ناراضگی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔”
اس نے زمانے بھر کا دکھ اپنے لہجے میں سموتے ہوئے کہا۔
” میں تم سے خفا رہ سکتا ہوں بھلا۔بس ڈیڈ کی وجہ سے پریشان ہو گیا تھا۔آئندہ بہت احتیاط کرنا یہ میڈیا کامیاب لوگوں کی نیک نامی کو بدنامی میں تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔”
اشعر نے رسان سے سمجھایا۔وہ گردن ہلا کر رہ گیا ۔تیر نشانے پر لگا تھا اشعر کو منانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔وہ جانتا تھا کہ اشعر اس سے خفا نہیں رہ سکتا تھا اور اسی ایک بات کا فائدہ وہ اکثر اٹھایا کرتا تھا۔
****
اگلی صبح وہ جیسے ہی بائیک پارک کرکے پلٹا اس کی نگاہ اس لڑکی پر پڑی جو سلمان سے محوگفتگو تھی۔وہ قدرت کے اتفاق پر حیران رہ گیا وہ خود اس سے ملکراسے وارن کرنا چاہ رہا تھا اور وہ اسکے سامنے کھڑی تھی ۔اس کا کام آسان ہو گیا تھا ۔اسنے اپنے قدم اس کی طرف بڑھا دیئے۔
“یار سلمان ایک بات بتانا، کیا میں تمھیں چمکیلی گاڑی میں گھومنے والا آوارہ عیاش رئیس زاردہ دکھائی دیتا ہوں”۔
اس نے سلمان کی گردن کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے با آواز بلند کہا۔
” یہ افواہ کس دشمن نے اڑائی ہے”۔
سلمان نے ٹھوری کھجلاتے ہوئے کہا۔
اسے سلمان کے ساتھ کھڑا دیکھ زرمین کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔وہ اپنے اخبار کے لیے اس کالج کے ٹاپرس کے نام اور ان کے متعلق معلومات اکٹھی کرنے یہاں آئ تھی۔ سلمان سے وہ ہیڈ آفس تک کا راستہ سمجھ رہی تھی ۔اسنے وہاں سے خاموشی کے ساتھ نکل جانے میں بہتری سمجھی۔ فی الحال وہ اس شخص کے منہ نہیں لگنا چاہتی تھی۔اس سے قبل کہ وہ آگے بڑھتی وہ اس کی راہ میں دیوار کی طرح حائل ہوگیا۔مہنگے کلون cologneکی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔
“دراصل آج کل ہمارے کچھ نئے دشمن پیدا ہو گئے ہیں۔”
اس نے زرمین کے چہرے کو نظروں کی گرفت میں لیتے ہوئے کہا۔
اسکو اپنا راستہ روکے دیکھ زرمین نے سمت بدل کر اس کے قریب سے نکل جانے کی کوشش کی مگر وہ ایک بار پھر اس کا راستہ روکے کھڑا ہوگیا۔
“تو آپ خدمت ملک سے باز نہ آئیں محترمہ۔ ہمیں تو لگا تھا کہ کیچڑ والے اور نو پارکنگ والے معاملے میں آپ نے درگزر سے کام لیا ہوگا مگر یہ کیا آپ تو ناراض ہو گئیں اور اب تو آپ کی ناراضگی اخباروں میں بھی نظر آ نے لگی ہے۔”
اسنے کافی ادب کے ساتھ اس پر وار کیا تھا۔
” میں تمھارے منہ نہیں لگنا چاہتی ،میرے راستہ چھوڑ و۔”
اس نے غصہ ضبط کرتے ہو ہے کہا۔
” کمال ہے ہم تو آپ جناب میں اٹکے ہوئے تھے ،میڈم تو سیدھے تم پر اتر آئیں۔خاصی بے تکلف ہو گئ ہیں ہم سے”۔
اس نے بات کو دوسرا رخ دیتے ہوئے طنزاً کہا۔
” یہ بے تکلفی نہیں میری نظر میں تمھاری حیثیت ہے۔ جس شخص سے میں بات تک کرنا گوارہ نہیں کرتی۔ اس شخص سے آپ جناب کرتے ہوئے اسے عزت دیکر میں مخاطب نہیں کرسکتی۔”
اس نے نخوت سے کہا۔
اس لڑکی کی جرات پر وہ حیران رہ گیا ۔ اسنے اپنے لیے ایسے الفاظ اس سےقبل نہ سنے تھے۔ اسکی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس لڑکی کا مسئلہ کیا ہے۔
تذلیل کے احساس سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔جبکہ سلمان اس افتاد پر ہکا بکا کھڑا ان دونوں کی طرف بار ی باری دیکھتا جا رہا تھا۔
” Are you interested in
me?
کیا تم میری توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ سب کر رہی ہو اگر میرا اندازہ درست ہے تو میں تمھیں آگاہ کردوں کہ دوسری لڑکیوں کی نسبت تمھارا طریقہ ڈفرنٹ(Different) تو ہے مگر انٹرسٹنگ(Interesting) نہیں ۔ اسلیے کچھ اور ٹرائ کرو۔
لڑکیوں کے حوالے سے اپنے گزشتہ تجربات کی روشنی میں وہ اس لڑکی کی ان حرکتوں کا یہی نتیجہ اخذ کر پایا۔لڑکیاں اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرنے سے نہ گریز نہیں کرتی تھیں۔
اس کی بات سن کر وہ ہنسی اور پھر ہنستی ہی چلی گئی۔یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں آنسوں تیر گئے۔
” تمھاری اس بات کو سنکر آج مجھے اندازہ ہوا ہے کہ خوش فہمی کس بلا کا نام ہے۔
خیر اس خیال کو دل سے نکال دو کہ میں تم میں انٹرسڈ ہوں۔ہم لوگ صحافت پیشہ لوگ ہیں۔ ہر دوسرے دن مختلف نئ خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تمھارے مشاغل تمھاری شخصیت کافی سے زیادہ مختلف ہیں ۔ تم جیسے لوگوں کو اخبار کی زینت بڑھانے کا موقع ملنا چاہئےاس لیے میں نے تمھیں اخبار کی سرخیوں میں آنے کا موقع دے دیا۔ تمھیں تو مجھے thank youکہنا چاہیے۔”
اس نے تپا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
اس کی بات پر شاہ زر بپھر اٹھا۔
” سنو لڑکی ، مجھ سے دور رہو۔ آئندہ میرے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی سوچنا بھی مت ورنہ پچھتاؤگی۔ یہ خدمت ملک تمھیں بہت مہنگی پڑے گی۔”
وہ ایک قدم آگے آیا تھا وہ بے ساختہ پیچھے ہٹی۔ اس نے تنفر بھری نگاہ سے اس اڑیل لڑکی کو دیکھا تھا۔
” یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون پچھتائے گا”۔
اس کے غصہ کا زرا بھی اثر نہ لیتے ہو ئے وہ مسکرا کر پلٹی تھی۔شاہ زر کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔
***
وہ دفتر پہنچتے ہںی اپنی سیٹ پر ڈھے گئی۔اس عیاش کے ساتھ ہںوئی بحث کی وجہ سے اس کا موڈ ابھی تک خراب تھا۔اس سے قبل کہ وہ اپنا کام شروع کرتی اس کی نظر عائشہ کے کمپیوٹر اسکرین پر پڑی۔اسکرین پر وہی شخص مسکرارہا تھا۔اس کے دائیں بائیں راشد صاحب اور اشعر آفریدی اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے مسکرا رہے تھے۔
” یہ کون ہے؟”
حیرت کے سمندر میں غوطہ زن گویا ہںوئی۔
“کیامطلب؟کیا تم ان لوگوں کو نہیں پہچانتی؟”
عائشہ نے حیرانگی کا اظہارکیا۔
“یہ کون ہے؟”
اس نے کمپیوٹر اسکرین پر شاہ ذر کے چہرے کو انگلی سے چھو کر استفار کیا.
” یہ شاہ ذر ہںے۔راشد صاحب کا دوسرا بیٹا، اس دن میں اسی کا ذکر کر رہی تھی۔ہینڈسم ہے نا”۔
عائشہ نے معلومات بہم پہنچائی۔اور وہ تقدیر کے اتفاق پر حیران رہ گئی۔
“کل شاہ ذرآفریدی کی سالگرہ ہںے۔ہمیں سالگرہ کے موقع پر راشد صاحب کے فرزند کو
” آج کی آواز”
ٹیم کی طرف سے سالگرہ کی مبارک باد دینی ہںے”۔عائشہ بولتی جارہی تھی جبکہ اس کے ذہن میں سوچوں کا جال بچھ گیا تھا۔تو اس سے بار بار ٹکرانے والا شخص کوئ اور نہیں راشد صاحب کا بیٹا تھا۔جسے شہر کے کامیاب ترین انڈسٹریلسٹ کے بیٹے اور اپنے کالج کی مقبول ترین شخصیت ہونے کا شرف حاصل تھا۔
اس کے لہجے سے چھلکتے گھمنڈ کی وجہ محض دولت ہی نہیں اس کے خاندان کی بے پناہ شہرت بھی تھی۔دھیرے دھیرے زرمین کی حیرت کی جگہ غصے نے لے لی۔
” ہنںہ،وہ کیا سمجھتا ہے اس کے والد کی سفید پوشی کی آڑ میں جو مرضی آئے کرتا جائے گا۔اسقدر گھمنڈ اتنی بے نیازی ،اسے لگتا ہے کہ اس کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا ۔ میں اس عیاش کو چین سے جینے نہ دونگی۔ابتک تو اسے محض دولت کی طاقت کا اندازہ تھا مگر عنقریب قلم کی طاقت کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔”
اس نے جوش سے گردن ہلائی تھی۔
****
وہ ایک ہی ہفتہ میں دو دفعہ شاہ زر کے خلاف خبریں شائع کر چکی تھی۔ دوسری دفعہ وہ ایک عام رئیس زادے کے نہیں مشہور ہستی راشد آفریدی کے فرزند کے خلاف لکھ رہی تھی ۔اسے لگا تھا نیوز ڈیسک کے ہیڈ سر زیدی اس خبر کو منظر عام پر نہیں آنے دینگے۔مشہور اور طاقتور ہستیوں کے خلاف کچھ بھی شائع کرنے سے وہ گریز برتتے تھے۔زرا سی بھی چوک ان کے دفتر کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔مگر اس کی توقع کے بر عکس وہ اس کی خبر سن کر بہت خوش ہوئے تھے۔ان کا خیال تھا کہ یہ خبر ان کے اخبار کو مشہور بنا دیگی۔
سر زیدی کی منظوری ملتے ہی گویا اس کے حوصلے اور بلند ہوگئے۔
اور اس نے شاہ زر کے خلاف خبریں شائع کرنے اور ثبوت اکٹھا کرنے کو اپنا مقصد بنا لیا ۔ اپنی انہیں کوششوں کے چلتے وہ شاہ زر کی سالگرہ کی تقریب میں پہنچ گئی۔وہ پوری تقریب کے دوران سب سے چھپتے چھپاتے شاہ زر کو فو لو کرتی رہی تھی ۔ شاہ زر اور اسکے دوست گارڈن میں سجیں مختلف ٹیبلس میں سے سب سے کونے والی ٹیبل کے گرد بیٹھے تھے۔
وہ ان کےعقب والی ٹیبل پر دوسری سمت رخ کیئے بیٹھی تھی ۔وہ ان لوگوں کی باتیں با آسانی سن سکتی تھی۔ آصف کو اس بات پر اعتراض تھا کہ آفریدی ولا میں دی جانے والی کسی بھی پارٹی میں شراب سرو نہیں کی جاتی تھی۔ یہ واحد ڈرنک تھی جو اس گھر میں تشریف لائے مہمانوں کو خواہش کے باوجود دستیاب نہیں تھی۔ شاہ زر نے اس کی بات کا کوئی اثر نہیں لیا تھا۔اسے اس گھر کے اس قانون سے کوئی شکایت نہیں تھی ۔وہ حرام مشروبات کو ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا۔اپنا رونا رو لینے کے بعد آصف نے چپکے سے اپنے ساتھ رکھے بیگ سے دو شراب کی بوتلیں نکال لیں۔شاہ زر کے منع کرنے کہ باوجود آصف نے دوسرے دوستوں کو تو بس چکھائ ہی تھی باقی ساری شراب وہ اکیلا ہی پی گیا۔آخر میں سبھی شاہ زر کو good nightکہتے اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر چل دیئے۔
وہ بھی پارٹی کے اختتام پر دوسرے رپورٹرس کے ساتھ گھر کے لیے روانہ ہوئی مگر جس راستے سے بس گزر رہی تھی اس سڑک پر حادثہ ہو جانے کی وجہ سے جام لگا ہوا تھا۔
دوسرے سواروں کے ساتھ وہ بھی بس سے نیچے اتر گئ۔جائے واردات پر ایک کار پیڑ سے ٹکرا گئی تھی۔زخمی کو کار سے نکال کر لے جایا جا رہا تھا ۔جیسے ہی اسٹریچر اس کے سامنے سے گزری آصف کے زخمی چہرے کو دیکھ اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔
وہ ہوش میں تھا نشے کی حالت میں مسلسل بڑبڑا رہا تھا۔اسے ایک دھماکہ دار نیوز مل چکی تھی۔
ادھرآفریدی ولا میں صبح کی چہل پہل دکھائی دیتی تھی۔صبح کی چائے کے ساتھ اخبار کا مطالعہ کرتے راشد صاحب کی نگاہ اس ہیڈ لائن پر پڑی۔
‘”مشہور بزنس مین راشد آفریدی کے فرزند شاہ زر آفریدی کی سالگرہ کی رات ان کے دوست ہوئے سڑک حادثہ کا شکار” ۔
ذیلی ہیڈ لائن تھی
” نشے کی حالت میں گاڑی چلانا پڑا مہنگا”۔
تفصیل میں پارٹی کی روداد کا ذکر تھا۔خبر میں واضح الفاظ میں حادثہ کا ذمہ دار شاہ زر کو ٹھہرایا گیا تھا۔ گویا حادثہ آصف کے نہیں شاہ زر ہاتھوں انجام پایا ہو۔بقول اس صحافی کہ پارٹی میں شراب نہ سرو کرنے کہ باوجود شاہ زر کے دوست کو شراب پینے کی چھوٹ کیوں دی گئی۔اس کی موجودگی میں آصف نے لمٹ سے زیادہ شراب پی، اگر شاہ زر سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آصف کو روکتا تو یہ حادثہ ٹل سکتا تھا۔ابھی سگنل توڑنے والی خبر سے ہی راشد صاحب ابھر نہ پائے تھے ۔شاہ زر کی سالگرہ کا موقع پڑ جانے کی وجہ سے وہ اس کے متعلق شاہ زر سے بات نہ کر پائے تھے۔جبکہ پارٹی کی رات کی اگلی صبح ہی شاہ زر اپنے دوستوں کے ساتھ گوا کے لیے روانہ ہو چکا تھا۔خبر کے آخر میں بائیں طرف رپورٹر کا نام پڑھ کر ان کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا۔بھلے ہی پچھلے دو دفعہ شاہ زر قصوروار تھا مگر پارٹی کی رات والے حادثہ میں اس کا کوئی قصور نہ تھا ۔جبکہ یہ اس خبر کی روشنی میں دیکھا جائے تو سارا الزام شاہ زر کے سر جاتا تھا۔
یہ رپورٹر گزشتہ ایک ماہ سے لگاتار شاہ زر کے خلاف خبریں شائع کرتی جارہی تھی ۔اس کی اس حرکت سے راشد صاحب یہی نتیجہ اخذ کر سکیں تھے کہ اس کا مقصد ان کے نام کو نہیں بلکہ شاہ زر کے نام کو خراب کرنا تھا۔ غالباً وہ اپنی ذاتی دشمنی نکالنے لیے اخباروں کا استعمال کرہی تھی۔ یہ بات ان کے لیے پریشان کن تھی۔
ادھر گوا میں شاہ زر جو دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کا ارادہ لیئے یہاں آیا تھا توقع کے برعکس اس کا موڈ فریش ہونے کہ بجائے بری طرح خراب ہوا تھا ۔وجہ تھی اسی ہوٹل میں چھٹی انجواے کرنے آئ ہوئی ایک لڑکی۔
اس کا نام لزا تھا ۔وہ شاہ زر کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔جب اسے کامیابی حاصل نہ ہو ئ تو سیدھے شاہ زر کو پرپوز کردیا۔وہ لڑکی جس سے وہ
محض ایک گھنٹے قبل ملا تھا کتنی آسانی سے اسے سب کے سامنے پرپوز کر رہی تھی۔ اس عیاش اور بدکردار لڑکی کی اس حرکت پر اسکا دماغ گھوم گیا۔اسنے سخت الفاظ میں اس لڑکی کو منع کردیا۔ان لڑکیوں کو کسطرح ہینڈل کرنا چاہیے یہ وہ اچھی طرح سیکھ گیا تھا ۔اس کو انکار کر بڑے آرام سے اپنے سامنے ٹیبل پر دھرے جوس کے گلاس کو لبوں سے لگا لیا تھا ۔اس بات سے بلکل بے خبر کہ جو جوس وہ پی رہا ہے اس میں نشہ آور گولیاں گھلی ہوئی ہیں۔وہ لڑکی حد سے زیادہ جنونی ثابت ہوئی تھی۔ شاہ زر کا انکار سن اس نے اپنے ذہن میں غلیظ پلاننگ کرکے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس نے جوس میں سب کی نظر بچا کر بڑی مہارت سے وہ گولیاں ملا دیں۔وہ ایسا کھیل کھیلنا چاہتی تھی جس میں شاہ زر کو شکست ہو اور وہ اس سے کبھی چھٹکارا نہ حاصل کر پائے۔وہ سبھی آج کی رات ہوٹل میں قیام کرنے والے تھے ۔لزا کو حیرانی کا شدید جھٹکا تب لگا جب اچانک شاہ زر نے گھر کے لیے روانہ ہونے کی جلدی مچادی۔راشد صاحب نے اسے بذات خودفون کر فوراً سے پیشتر گھر پہنچے کا حکم دیا تھا۔اپنے دوستوں کے ساتھ شاہ زر کو جاتا دیکھ لیزا تلملا کر رہ گئی۔تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
شاہ زر اس کی دسترس سے دور جا چکا تھا۔
ادھر شاہ زر اپنے سبھی دوستوں کو ڈراپ کر چکا تھا۔گاڑی Banjara hills کو جاتی سڑک پر ڈور رہی تھی۔اچانک اس کی طبیعت بوجھل ہںونے لگی۔
یوں محسوس ہںو رہا تھا گویا آنکھوں پر منوں بوجھ رکھ دیا گیا ہںو۔گھر پہنچنے میں ابھی آدھا گھنٹہ درکار تھا۔ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ اس کی حالت ابتر ہںوتی جا رہی تھی۔سر چکرا رہا تھا۔اس نے جبراً اپنی آنکھوں کو کھلی رکھنے کی سعی کی لیکن ناکام رہا۔اس سے قبل کے وہ اپنی کار سائڈ پر لگاتا سامنے سے تیزرفتار ٹرک آتا دیکھائی دیا۔ اس نے اپنے بچاؤ کے لیے بند ہںوتی آنکھوں کے ساتھ موڑ کاٹا نتیجتاً کار فوٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔کار کسی چیز سے ٹکڑائی دھماکے دار آواز کے ساتھ وہ ہںوش و حواس سے بے گانہ ہںوگیا۔
کار کی سیٹ پر زخمی حالت میں پڑا شاہ زر اس بات سے یکسر بے خبر تھا کہ یہ حادثہ آفریدی ولا کے مکینوں کی زندگیوں میں بہت بڑا طوفان لے کر آنے والا تھا۔
****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...