” بلُوم لینڈ ” نامی وہ پارک سینکڑوں اقسام کے پھولوں کے انتہائی دلکش مجموعے کی وجہ سے بہت معروف سیاحتی مقام تھا ۔۔۔ کورا اول اور عدیم اس وقت اسی پارک میں ، پھولوں کی سینکڑوں کیاریوں کے بیچوں بیچ بنائے گئے ، بل کھاتے پختہ راستے پر واک کرتے ہوئے محوِ گفتگو تھے ۔ کورا اول سکائے بلیو کلر کی میکسی میں ملبوس تھی جبکہ عدیم نے ٹو پیس سوٹ پہن رکھا تھا ۔
” ویسے کورا ، اس حادثے نے تمہیں واقعتاً بدل دیا ہے۔۔۔” عدیم نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
” اچھا ؟ ایسا کیوں لگ رہا ہے تمہیں ۔۔؟ کورا اول نے کہا۔
” پتا نہیں کیوں ۔۔۔ پر مجھے لگتا ہے جیسے آن کی آن میں تمہارا لائف سٹائل ہی بدل گیا۔۔۔ تمہارا کھانا پینا ، ڈریسنگ میں تمہاری چوائس ، تمہارا بولنے کا انداز سب کچھ بدل گیا۔۔۔
ہاں یہ تبدیل ایک مثبت تبدیلی ہے ۔
پہلے تم ایک کھلنڈری سی لاپروا لڑکی ہوا کرتی تھی ، اینڈ ناؤ یور آر اے ڈیسنٹ لیڈی۔۔۔” عدیم نے کہا۔
” یہ تبدیلی اچانک نہیں آئی ۔۔۔ ہاں لیکن پچھلے کچھ عرصے میں ہماری ملاقات ہی بہت کم رہی اس لیے شاید تمہیں دیر سے اندازہ ہوا۔۔۔” کورا اول نے کہا ۔
” اوہ اچھا ۔۔۔ تو یہ بات ہے۔” عدیم نے کہا۔
” عدیم ، اگر تم مجھے پاگل نہ سمجھو ، اور وجہ جاننے کی کوشش نہ کرو ۔۔۔ تو کیا میں تم سے ایک فرمائش کر سکتی ہوں ؟” کورا اول نے کہا۔
” ہاں ضرور ، کیسی فرمائش ۔۔۔؟ عدیم نے کہا۔
” ہمارے درمیان جب بھی کوئی ملاقات ہو , تو اس کا ذکر کسی سے مت کرنا ۔۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” شیور ۔۔۔ لیکن میں بھلا کسی سے ذکر کرؤں گا ہی کیوں ؟” عدیم نے کہا۔
” جب میں نے کہا کہ “کسی” سے بھی ذکر مت کرنا تو اس میں میں بھی شامل ہوں۔۔۔یعنی۔۔۔ہمارے درمیان ہوئی کسی بھی ملاقات کا ذکر کبھی مجھ سے بھی مت کرنا ، نہ تو کسی اگلی ملاقات میں اور نہ ہی فون کال پر۔۔۔۔” کورا اول نے کہا تو عدیم کے چہرے پر الجھن کی تاثرات ابھر آئے۔
” میں نہیں جانتا کہ تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔۔۔ لیکن پھر بھی میں تمہاری ان ہدایات کو ذہن میں رکھوں گا۔۔۔ ہاں اتنا ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ سب خیریت تو ہے ناں ؟ کسی پریشانی ، الجھن یا تناؤ سے تو نہیں گزر رہی آج کل ؟ ” عدیم نے کہا ۔
” نہیں ۔ سب خیریت ہے ۔ بلکہ اب تو سب کچھ پہلے سے بھی کہیں اچھا ہے۔۔” کورا اول نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
” ہمیشہ ایسے ہی مسکراتی رہو کزن۔۔۔” عدیم نے کہا۔
” اچھا عدیم مجھے کچھ اور بھی کہنا ہے تم سے ۔۔۔۔” کورا اول نے سوچ میں ڈوبے لہجے میں کہا اور چلتے چلتے رک گئی ۔
” ہاں ہاں بولو ناں ۔۔۔” عدیم نے بھی رک کر اس کی جانب مڑتے ہوئے کہا۔
کورا اول چند لمحہ خاموش رہی ، جیسے بولنے کے لیے مناسب الفاظ ڈھونڈ رہی ہو۔۔۔۔ پھر اس نے بمشکل تمام بولنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔
اور عدیم چہرے پر حیرت و تشویش کے تاثرات لیے اسے سننے لگا !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا ، کورا اول اور کورا ثانی تینوں چھت پر واقعہ اپنے “ہیڈکوارٹر” میں موجود تھیں لیکن اب کی بار ستی بھی ان کے ساتھ تھی جسے وہاں آئے نصف گھنٹہ ہوچکا تھا ۔
” دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ روپوشی کی زندگی مافیا باس گزارتے ہیں ، دوسرے نمبر پر دہشت گرد ۔۔۔ اور پہلے نمبر پر ہم۔” کورا ثانی نے کہا تو سب قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔
” ویسے اتنا جنونی تو پندرہویں صدی کا کوئی عاشق اپنے محبوب کی خاطر بھی نہیں ہوگا کہ جتنی جنونی ستی اپنی کزن کے لیے نکلی۔۔۔ مطلب سالم کزن کو ہی جنریٹ کرلیا ، وہ بھی دو دو مرتبہ ۔” کورا اول نے کہا اور پھر سے ان سب کا قہقہہ بلند ہوا ۔
” آرام سے بھئی ، اتنا اونچا مت ہنسو کہ نیچے کوئی ہمارے قہقہے سن لے۔۔۔” کورا نے کہا۔
” ویسے ستی ۔۔۔ کوئی دو ہفتے پہلے تم مجھے یقین دلا کر گئی تھی کہ تم ہم دونوں کے لیے کوئی بہتر رہائش کا انتظام کردو گی ۔۔۔ کیا بنا پھر ؟” کورا اول نے پوچھا ۔
” مجھے بس 3 دن مزید درکار ہیں ۔۔۔ میں پوری کوشش کررہی ہوں ۔امید ہے کوئی بندوبست ہوجائے گا۔” ستی نے کہا۔
” لیکن سوال تو یہ ہے۔۔۔۔ کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا ؟ حقیقت میں ہم دونوں کی کیفیت Out of nowhere ہے ۔ ہمارا اپنا کوئی ماضی نہیں اور ہمارا ‘حال’ بھی پیچیدہ ہے ۔۔۔ تو مستقبل سے متعلق فکرمند ہونا تو بنتا ہے۔” کورا ثانی نے کہا۔
” سٹیپ بائی سٹیپ میں ان سبھی معاملات پر کام کررہی ہوں۔۔۔۔ امید ہے بہت جلد آپ دونوں ایک بالکل نارمل زندگی جینے کے قابل ہو جاؤ گی ۔۔۔” ستی نے کہا۔
” اچھا چھوڑو فی الوقت ان باتوں کو ۔۔۔ یہ بتاؤ آجکل کالج کی کیا روٹین ہے ؟” ستی نے کہا۔
” کالج دو دن میں جاتی ہوں ، دو دن اول اور دو دن ثانی ۔۔۔” کورا نے کہا۔
” آہاں اور اب کیسی طبعیت ہے ٹرپل ایچ کی۔۔؟ ستی نے پوچھا ۔
” ٹرپل ایچ۔۔۔؟؟ کورا نے پوچھا۔
” ارے وہی ہانیہ ، ہیزل اور ہارلین جن کی کورا اول نے طبیعت صاف کی تھی ۔۔۔” ستی نے کہا۔
” کافی افاقہ ہے تینوں کو ، ساری اکڑ ختم ، لڑائیاں موقوف یہاں تک کہ اپنا بدمعاشوں والا حلیہ بھی بہتر کر لیا ہے انہوں نے ۔۔۔” کورا نے کہا۔
” بہت اچھے ۔۔۔ اور سناؤ عدیم کیسا ہے ؟” ستی نے پوچھا ۔
” ہاں ، بالکل ٹھیک ہے عدیم۔۔۔۔” کورا اور کورا اول نے بیک زبان کہا ، پھر بےاختیار چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔
” میرا مطلب ہے ۔۔۔ ہفتہ پہلے جب اس سے ملاقات ہوئی تھی رائلٹن میں ، تب بالکل ٹھیک تھا۔۔۔” کورا اول نے فوراً وضاحت کی ۔
” اوہ اچھا تو تمہاری بھی ملاقات ہو چکی ہے عدیم سے ۔۔۔ ؟” ستی نے کہا۔
” جی ہاں ۔۔۔ وہ دراصل کورا نے اس شام ایک برتھ ڈے پارٹی۔۔۔” کورا اول نے اس شام کی روداد بتانا شروع کی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالج میں کلاس معمول کے مطابق جاری تھی لیکن ہارلین ، ہانیہ اور ہیزل کا گروپ کلاس سے غائب تھا ۔۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا تھا ۔ وہ تینوں بمشکل نصف کلاسز ہی اٹینڈ کیا کرتی تھیں ۔ اور بس اتنا ہی پڑھتی تھیں کہ پاسنگ مارکس لے کر اگلی جماعت میں جا سکیں ۔۔۔ ان کا یہ معمول ہائی سکول سے ہی جاری تھا ۔
اس روز بھی کلاس کے دوران ، کالج کے وسیع گراؤنڈ کے ایک کونے میں ، آرائشی پودوں اور بیلوں کے عقب میں چوکڑی مار کر بیٹھی سموکنگ میں مگن تھیں اور ساتھ قہقہے لگاتے ہوئے کچھ گفتگو کررہی تھیں ۔
اسی وقت ان کی سماعت سے ایک آواز ٹکرائی۔۔۔
” ہیلو گرلز ۔۔۔” اور انہوں نے چونک کر اس سمت دیکھا ۔ وہاں کورا اول موجود تھی ۔۔ وہ تینوں کو چند روز قبل اس کے ہاتھوں بری طرح سے پِٹ چکی تھیں اسے وہاں دیکھ کر بری طرح سے بوکھلا اٹھیں ۔۔۔
” ریلیکس ۔۔۔ بیٹھی رہو ، انجوائے یور سموکنگ۔۔۔کسی کے پاس ایکسٹرا سگریٹ ہے تو مجھے بھی چکھاؤ”. کورا اول نے کہا۔
” نہیں۔۔۔ یہ سگریٹ تمہارے کام کے نہیں۔” ہیزل نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
” تم لوگ حیش پی رہی ہو۔۔۔؟” کورا اول نے ہوا میں کچھ سونگھتے ہوئے کہا۔
” ہاں وہ بس کبھی کبھار۔۔۔۔ ” ہانیہ نے کہا۔
” پلیز کسی کو بتانا مت ۔۔۔” ہارلین نے التجا آمیز لہجے میں کہا۔
” آل رائیٹ ۔۔۔ لیکن یہ باضابطہ طور پے ایک خطرناک اور تباہ کن نشہ ہے گرلز۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” ماں قسم مہینے میں ایک مرتبہ سے زیادہ نہیں پیتی ہم ۔۔۔” ہیزل نے کہا۔
” ٹھیک ہے ۔۔۔ مگر یہ ممنوع اور غیر قانونی ڈرگ تم لیتی کہاں سے ہو ۔۔۔۔؟؟ مطلب اگر کالج میں تمہیں کوئی سٹوڈنٹ یا کوئی ملازم تمہیں حیش فروخت کررہا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ شخص کالج کے مزید سٹوڈنٹس کی زندگی بھی برباد کررہا ہوگا ۔۔۔ ایسے کسی شخص کا قانون کے شکنجے سے باہر رہنا انتہائی خطرناک امر ہوگا ۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” نن نہیں ۔۔۔ کالج میں ایسا کوئی منشیات فروش نہیں ہے۔” ہانیہ نے کہا۔
” تو پھر ۔۔۔ کہاں سے آتی ہے یہ حیش ؟” کورا اول نے کہا ۔
” اگر تم پرامس کرو کہ اس حوالے سے کہیں بھی ہمارا نام نہ آئے گا تو پھر بتا سکتی ہوں ۔۔۔” ہارلین نے کہا۔
” میری تم تینوں سے کوئی بھی دشمنی یا ذاتی پرخاش ہوتی تو اس دن سارا الزام اپنے آپ پر لے کر ساری سزا خود نہ برداشت کرتی ۔۔۔۔ڈونٹ وری کہیں بھی تمہارا نام نہیں آئے گا۔۔۔۔ اور ویسے بھی میں نے جان کے کیا کرنا ہے ؟ میں تو صرف متجسس ہوں اس سلسلے میں اس لیے پوچھ رہی ہوں!” کورا اول نے کہا۔
” ہم یہ حیش ڈریم کیفے کے مالک کارلوس یوڈی کولو سے لیتی ہیں ۔۔۔” ہارلین نے کہا تو کورا اول چونک سی اٹھی ۔
” ڈریم کیفے ۔۔۔ وہ جو سَین فورڈ روڈ پر ہے ؟؟” کورا اول نے کہا۔
” ہاں وہی ۔۔۔” ہارلین نے کہا۔
” لیکن وہ تو اچھا خاصا معروف کیفے ہے۔۔۔ اور کارلوس یوڈی کولو کافی معزز شخص مانا جاتا ہے۔” کورا اول نے کہا۔
” یہ سارا سیٹ اپ ایک cover ہے اس کے منشیات فروشی کے بزنس کے لیے۔۔۔۔” ہارلین نے کہا۔
” سٹرینج۔۔۔۔ خیر، یقین مانو اگر مجھے پتا چل گیا کہ تم تینوں مہینے میں ایک مرتبہ سے زیادہ حیش پی رہی ہو ۔۔۔ تو براہِ راست تمہارے والدین سے مل کر انہیں بتاؤں گی ۔” کورا اول نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملبری ٹاؤن اور پامیلو ٹاؤن کے درمیان 150 کلومیٹر کا فاصلہ تھا ، دونوں شہروں کو آپس میں ملانے والی شاہراہ کے اطراف میں کئی چھوٹی اور اوسط درجے کی آبادیاں موجود تھیں ۔
انہی میں سے ایک بلیوڈیل نامی قصبہ تھا جہاں 100 کے قریب گھر ، چند اپارٹمنٹ بلڈنگز اور ایک مارکیٹ موجود تھی ، بلیوڈیل کا ملبری ٹاؤن سے فاصلہ محض 40 کلومیٹر تھا ، یہاں آباد اکثریت لوگوں کا تعلق ان کنسٹرکشن پراجیکٹس سے تھا جو کہ ملبری ٹاؤن اور اس کے مضافات میں جاری تھے ، گویا یہاں آباد اکثر لوگ مزدور ، کاریگر اور دیگر کنسٹرکشن ورکرز تھے جو عارضی طور پر یہاں رہائش پذیر تھے، اس لیے یہاں فیملیز تو اکا دکا ہی تھیں اکثر لوگ کرائے دار کی حیثیت سے رہ رہے تھے ۔
بلیوڈیل کے بیچوں بیچ موجود ایک پرانے مگر اچھی حالت میں موجود کمپاونڈ میں اس وقت معمول سے زیادہ سرگرمی چل رہی تھی ۔۔۔ انتہائی سخت سکیورٹی کا حامل یہ کمپاونڈ ملک کے مافیا کنگ مکاریوس کا ہیڈکوارٹر تھا جہاں وہ ہفتے میں 3 دن گزارا کرتا تھا ۔۔۔ اور باقی وقت وہ پامیلو ٹاؤن میں واقع اپنے الٹرا لگژری بنگلے میں گزارتا تھا ۔
اس وقت مکاریوس اپنے ہیڈکوارٹر میں موجود تھا اور اسی لیے وہاں تعینات سو کے قریب مسلح افراد بھی پوری طرح مستعد تھے ۔
مکاریوس اس وقت اپنے نام نہاد “آفس” میں موجود تھا اور اپنے ایک ماتحت سے محوِ گفتگو تھا ، حسبِ سابق اس کے 4 مسلح گارڈز بھی کمرے میں موجود تھے ۔۔۔ جن میں سے دو اس کی کرسی کی پشت پر دونوں طرف کھڑے تھے جبکہ باقی دو سامنے کے دونوں کونوں میں ۔
” کیا تمہیں یقین ہے کہ یہی وہ لڑکی ہے جو فیری حادثے کے بعد بچ نکلنے والی واحد شخص تھی ۔۔۔۔؟ مکاریوس نے کہا اور لائیٹر اپنا سگار سلگانے لگا۔
” جی باس میں نے مختلف ذرائع سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس حادثے میں یہی لڑکی واحد سروائیور تھی ۔۔۔” جارڈی نے کہا۔
” ہمممممم۔۔۔۔” مکاریوس نے کہا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
” شکل سے تو نہیں لگتا کہ اس کا تعلق کسی مخالف کارٹیل سے ہوسکتا ہے ۔۔۔ دیکھنے میں تو بالکل معصوم لگتی ہے ۔۔۔ اب اصل بات تو یہ خود ہی بتا سکتی ہے.” جارڈی نے کہا۔
” اس حادثے میں میرا کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کا نقصان ہوا ہے ۔۔۔ ہمارے مخالفین کو اس بات کی بھنک کیسے لگی کہ اس فیری میں ہماری کھیپ آرچڈ آئی لینڈ تک پہنچائی جارہی ہے۔۔۔۔ پھر بیچ سمندر فیری کو آگ کیسے لگ گئی ۔۔۔ اور اس خونریز حادثے میں صرف ایک وہی لڑکی کیسے زندہ بچ نکلی کہ جس میں فیری کے ڈرائیور اور ملازم بھی مارے گئے جنہوں نے اپنی نصف زندگی ہی سمندروں میں گزاری تھی ۔۔۔ اس سب کا جواب تو یہ لڑکی ہی دے سکتی ہے۔۔۔” مکاریوس نے کہا۔
” تو اب کیا حکم ہے باس۔۔۔۔؟ جارڈی نے کہا۔
” میں کل تین دن کے لیے راکس برگ جارہا ہوں۔۔۔ میرے لوٹنے تک اسے اغواء کرکے ہیڈکوارٹر پہنچا دو ۔۔۔ لیکن یاد رکھنا کہ میری واپسی سے پہلے اس پر کوئی تشدد نہ کیا جائے ۔۔۔ پوچھ گچھ اور چھان بین کا کام میں خود ہی کروں گا۔” مکاریوس نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا اور کورا ثانی ، کورا کے بیڈروم میں موجود تھیں اور کچھ گھومنے پھرنے کا پلان بنارہی تھیں ۔
” میرے خیال میں چڑیا گھر مناسب رہے گا ۔۔۔ میوزیم پھر کبھی چلے جائیں گے۔” کورا نے کہا ۔
” کوئی حرج نہیں۔۔۔میوزیم پھر کسی دن سہی۔” کورا ثانی نے کہا۔
” تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ پلان یہ ہے کہ ہم باری باری گھر سے نکلیں گی اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ہمیں اس دوران کوئی دو مرتبہ نہ باہر نکلتے دیکھے۔۔۔ باہر جاکر ہم کچھ فاصلے پر مل جائیں گی ۔۔۔۔ آتے جاتے اور وہاں سیر کے دوران نصف وقت تم ماسک پہننے رکھنا اور باقی نصف وقت میں ماسک پہن لوں گی۔۔۔ بھلے ہی کوویڈ کی شدت سب کافی کم ہے لیکن اب بھی باہر بہت سے لوگ ماسک پہنے ملتے ہیں لہٰذا ماسک پہننے میں کوئی پرابلم نہیں۔۔۔ رہی بات کھانے پینے کی ، تو لنچ کے لیے ہم ایسے ہوٹل کا انتخاب کریں گی جہاں الگ ڈائننگ کیبنز موجود ہوں۔۔” کورا نے کہا۔
” پرفیکٹ۔۔۔ کورا اول بھی ساتھ چلتی تو زیادہ اچھا رہتا۔” کورا ثانی نے کہا۔
” شوٹنگ کلب گئی ہے۔۔۔ تمہیں تو پتا ہے ناں اس کی نیچر کا ، اسے گھومنے پھرنے سے زیادہ رغبت شوٹنگ ، کراٹے اور سوئمنگ جیسی سرگرمیوں میں ہے۔۔۔” کورا نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا اول اور عدیم، ملبری ٹاؤن کے وسیع اور شاندار چڑیا گھر میں موجود تھے ۔
اس وقت وہ دونوں بھیڑیے کے پنجرے کے سامنے تھے ۔۔۔۔ ” بھیڑیا ہمیشہ سے میرا پسندیدہ جانور رہا ہے .” کورا اول نے پنجرے کی طرف نظریں جمائے ، عدیم سے کہا۔
” لیکن۔۔۔ بھیڑیا تو دنیا میں درندگی اور خونخواری کی علامت کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔” عدیم نے کہا۔
” وہ جملہ تو تم نے سنا ہوگا۔۔۔ بھلے ہی شیر جنگل کا بادشاہ ہے لیکن بھیڑیا کبھی سرکس میں پرفارم نہیں کرتا’۔۔۔۔ بھیڑیا ، جنگل کا فیڈیل کاسٹرو ہے ، دشمن کے لیے موت کا پیغام لیکن اپنوں کے لیے مہربان اور شفیق۔۔۔۔ بھیڑیا محاورتاً نہیں حقیقتاً اپنے جھُنڈ کی حفاظت کے لیے جان پر کھیل جاتا ہے ، اور اکثر تو ان کی خاطر لڑتا ہوا اپنی جان تک نچھاور کر دیتا ہے۔۔۔۔” کورا اول نے کہا ۔
کچھ دیر تک گھومتے پھرتے اور مختلف جانوروں کو دیکھتے ہوئے وہ دونوں ایک سِٹنگ ایریا تک پہنچے ۔۔۔
” بیٹھتے ہیں کچھ دیر ۔۔۔” عدیم نے کہا اور وہ دونوں وہاں موجود بینچوں میں سے ایک پر براجمان ہوگئے۔
” کورا ، مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔۔۔ تم بیٹھو ، میں دونوں کے لیے کینٹین سے کچھ لے کر آتا ہوں۔” عدیم نے کہا ، بینچ سے اٹھا اور وہاں سے تھوڑی ہی دور واقع کینٹین کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا اور کورا ثانی چڑیا گھر میں گھومنے پھرنے میں مگن تھیں ۔
” میں تو یہاں آکے بہت انجوائے کررہی ہوں۔۔۔تمہارا مشورہ بالکل ٹھیک تھا ۔ میوزیم کی نسبت اب مجھے چڑیا گھر زیادہ دلچسپ لگ رہا ہے ۔۔۔” کورا ثانی نے پرندوں کے پنجروں کے پاس کھڑے ، کورا سے کہا۔
” میرا آئسکریم کھانے کو بہت دل کررہا ہے۔۔۔ تم بس ایک منٹ یہاں ٹھہرؤ میں سامنے کینٹین سے دونوں کے لیے آئس کریم لے کر آتی ہوں۔۔۔” کورا نے کہا ۔
” لیکن۔۔۔ ہم دونوں بیک وقت کیسے کھائیں گے ؟” کورا ثانی نے انگلی سے ماسک کو چھوتے ہوئے کہا۔
” ارے ڈونٹ وری ۔۔۔ ہمیں بس آئس کریم کھانے کے دوران اپنا رخ پنجروں کی طرف رکھنا ہوگا ۔۔۔ جس پوزیشن میں ہم ہیں جب تک کوئی ہمارا رخ موڑ کر ہمیں اپنی جانب نہ کر لے تب تک ہم دونوں کے چہرے نہیں دیکھ پائے گا ۔۔۔” کورا نے کہا اور کینٹین کی جانب بڑھ گئی۔
جلد ہی وہ کینٹین تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔ کاونٹر پر کافی رش تھا ، وہ انتظار کرنے لگی کہ کاؤنٹر پر کھڑے بیس کے قریب لوگوں میں سے کوئی اپنا آرڈر لے کر ہٹے تو وہ آئس کریم آرڈر کرے ۔۔۔تبھی کاؤنٹر کے باہر کھڑے گاہکوں میں سے کسی نے یونہی پیچھے مڑ کر دیکھا اور اس پر نظر پڑتے ہی چونک سا گیا ۔
” ارے عدیم ۔۔۔ تم یہاں ؟ کورا نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔