وہ اس علاقے سے دور نکل جانا چاہتی تھی ۔۔۔
اسے لگ رہا تھا اگر وہ مزید کچھ وقت اس علاقے میں رہی تو اس کا دم گھٹ جائے گا ۔۔
“تمہیں آخر کس نے حق دیا میرے باپ کے خون کا سودا کرنے کا زمان خان ؟
تم ہوتے کون ہو میرے باپ کے قاتل کو قانون سے بچانے والے !
شرابی تھا ۔۔ جواری تھا ۔۔ خود ہی کے ساتھ دشمنی کر رہا تھا ۔۔۔۔
دنیا کے لیئے تو کتنا بے ضرر تھا ۔۔۔
اور میرے لیئے بہت خاص ۔۔!!”
ایک پیارا سا وقت اس کی بند بھیگی آنکھوں میں چلا آیا تھا ۔۔۔۔
ہاتھوں میں موجود سکے گنتی فٹ پاتھ پر چلتی وہ ٹھٹھک کر جمیل کی طرف متوجہ ہوئی تھی جو ہانپتا کانپتا آ رہا تھا ساتھ ہی اسے بھی بھاگنے کا اشارہ کر رہا تھا ۔۔۔
حواس باختہ سی کچھ سوچے سمجھے بغیر وہ بھی اس کے ساتھ ہی بھاگ پڑی تھی ۔۔۔
کسی دیوار کی اوٹ میں بیٹھے وہ اپنا سانس بحال کر رہے تھے جب جاناں نے پھولی سانسوں کے ساتھ ہی اس سے بھاگ کر چھپنے کی وجہ پوچھی تھی ۔۔۔۔
“وہ جو سب سے بڑی والی دکان ہے نہ یہاں !”
آدھی بات کر کے جمیل پھر ہانپنے لگا تھا ۔۔۔۔
“ہاں تو ؟”
سترہ سالہ جاناں کے چہرے پر کوفت ہی کوفت تھی ۔۔۔
وہاں ۔۔۔۔۔ وہاں سے ایک ۔۔ وہاں سے ۔۔۔۔۔۔ ایک جیکٹ چرا رہا تھا میں ۔۔
بڑے ہی کوئی کتے پہرے دار تھے ۔۔
جیکٹ بھی چھین لی ۔۔
ذلیل بھی کیا ۔۔ اس سب سے دل نہیں بھرا تو کٹ لگانے لگے ۔۔۔۔
میں جان بچا کر بھاگ آیا !
اب بھی پیچھے پڑے تھے میرے ۔۔”
سارا ماجرا سن کر وہ بگڑی تھی ۔۔
” تم بھلا جیکٹ کا کرتے کیا ؟؟؟”
“تجھے دیتا نہ !!! یہ کب لی تھی تونے ؟”
اشارہ اس کے تن پر موجود جیکٹ کی طرف تھا ۔۔۔۔
“پھٹ رہی ہے ساری جیکٹ مسلسل استعمال سے ۔۔
میں نے کہا ایسی جیکٹ لوں جو زیادہ عرصہ چل جائے اچھی سی وارٹی (ورائٹی) والی ۔۔۔”
جمیل تو کہ کر دیوار سے منہ نکال کر جھانکنے لگا جبکہ جاناں کو اس وقت اس پر کتنا پیارآیا تھا نہ !
“تو کہیں نہ کہیں تمہارے دل میں میرے لیئے محبت ہے ۔۔
خراب سنگت تمہیں سدھرنے نہیں دیتی بس ۔۔۔۔”
دل میں سوچتی جاناں نے اسی وقت جمیل کو اس کی ساری کوتاہیوں کے لیئے معاف کر دیا تھا ۔۔۔۔
اور اب !
جبکہ جمیل نے اس کے لیئے اپنی جان تک دے ڈالی تھی وہ کیسے نہ اپنے باپ سی اتنی محبت محسوس کرتی ۔۔۔
کیسے وہ کسی کرپٹ پولیس افسر کو اپنے باپ کے قتل کو دبا کر قاتلوں سے پیسہ وصول کر کے عیش کرنے دیتی !
اور کیسے وہ بدلہ نہ لیتی ؟
جبکہ وہ کوئی روتی دھوتی نازک اندام لڑکی بھی نہیں تھی ۔۔
“یا اللہ !
جب کوئی انسان برائی کی طرف بڑھتا ہے تو آپ اسے دنیا میں ایسے اختیارات کیوں دیتے ہیں جو معاشرے میں برائی کو اور بڑھاوا دیں ؟
برا کرنے والوں کو پناہ دیں !
یہاں قانون کے سارے محافظ ہی قانون کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔۔۔
اس لیئے میں خود اپنے مجرموں کو دنیا میں ہی عبرت کا نشان بنا دوں گی !
کچھ نہ کچھ برائی ختم ہو ہی جائے گی ۔۔۔۔۔۔!!”
****************************
زمان خان اسے ڈھونڈنے کی کوشش ضرور کرے گا ۔۔
اتنا تو اسے یقین تھا ۔۔۔
وہ بچی نہیں تھی جو زمان خان جیسے شخص کا اپنے ساتھ خاص برتائو محسوس نہ کرتی ۔۔۔۔
ہاں زمان خان ابھی خود سے بھی اعتراف نہیں کرتا تھا ۔۔
لیکن اس کے چلے جانے کے بعد زمان خان پر یقیناً اپنے احساسات آشکار ہو
جائیں گے ۔۔۔
وہ اسے ڈھونڈنے کے لیئے سب سے پہلے اس کے رشتہ داروں کے ہی گھر کا رخ کرے گا ۔۔۔۔
کسی جاننے والے کے گھر جاناں کے نہ ملنے پر وہ بے سہارہ خواتین کے اداروں میں ڈھونڈنے جائے گا ۔۔۔
تو ایسی کون سی جگہ تھی جہاں زمان خان کو اس سارے تماشے کے بعد جاناں کے پناہ لینے کا کوئی امکان نظر نہ آتا ۔۔۔۔
جس طرف اس کا دھیان بھی نہ جاتا !
وہ جگہ تھی زمان خان کے دوست کا گھر ۔۔۔
یا یوں کہ لیں زبردستی کے دوست کا گھر ۔۔۔۔
مٹھی میں بند کارڈ پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے وہ شکر ادا کر رہی تھی کہ اسے بھاگ جانے کا موقعہ مل گیا تھا ۔۔۔
گھر پہنچ کر اس نے سب سے پہلے پیٹی سے اپنی اماں کے کچھ اچھی حالت والے کپڑے نکالے تھے ۔۔۔
ایک جوڑا خود پہن کر باقی پوٹلی میں بند کیئے اور پھر گھر کی پچھلی طرف سے بھاگ نکلی ۔۔۔۔
ابا کی جیب سے نکلی سگرٹ کی خالی ڈبیا بھی اپنے ساتھ لے آئی تھی ۔۔۔
اب وہ خالی ڈبیا اور تن پر موجود اماں کا گہرا گلابی ریشمی لباس اسے ان دونوں ہی کی موجودگی کا احساس دلاتے اور اس کے دل کو ڈاھارس بندھاتے نیند کی وادیوں میں اتار گئے تھے ۔۔۔۔
******************************
“واہ میرے مولا !!!
ہر بندہ ایک جیسا ہے آپ کے لیئے مگر
کسی بندے کو دنیا میں انصاف بھی نہیں ملتا اور کسی کو سب مل جاتا ہے ۔۔۔! سب کچھ !!! ”
آسمانوں سے باتیں کرتی بلند و بالا سرمئی عمارت کو تکتی وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس سیاہ گیٹ کے بلکل ہی قریب پہنچ گئی تھی ۔۔۔۔
ابھی ہچکچاتے ہوئے گیٹ کو چھوا ہی تھا جب گیٹ ایک جھٹکے سے کھلا تھا ۔۔۔
گھبرا کر جاناں چند قدم پیچھے ہو کر گرتے گرتے بچی تھی جبکہ اندر سے بھاری بھرکم ڈبا اٹھائے پہلے ایک ملازمہ نکلی تھی پھر ایک خوبصورت مگر جلالی قسم کی خاتون اور ان کی ٹانگوں سے لپٹی ایک دوشیزہ !
تینوں میں سے کسی نے اس پر توجہ نہیں دی تھی ۔۔
خود جاناں بھی وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی ۔۔۔۔
لیکن دلچسپ تماشہ لگا تھا ۔۔۔
وہ کچھ فاصلے پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگی ۔۔۔
“اچھا ہوا آج میں نے دیکھ ہی لیا ۔۔۔
میں خوش تھی میری بیٹی سارا ٹائم کچھ لکھتی لکھاتی رہتی ہے ۔۔۔”
“ہاں تو لکھتی لکھاتی تو ہوں نہ !”
وہ ان کی ٹانگوں سے چپکی ہی چلائی تھی ۔۔
“یہ ! یہ لکھتی ہے تو بیغرت لڑکی !!
یہ دن دیکھنے کے لیئے تجھے لکھایا پڑھایا تھا ہیں ۔۔۔۔؟؟”
ملازمہ کے ہاتھ میں موجود ڈبے میں سے ایک ڈائری نکال کر کر انہوں نے بآواز بلند پڑھا ۔۔۔
“خربوزہ اچھا لگتا ہے تنہا ہی !
نہ اسے فروٹ چاٹ میں مکس کیجیئے !
پیار کا دعویٰ تو سب ہی کرتے ہیں !
گلفام جی آپ مجھ سے عشق کیجیئے !
“یا اللہ !!!”
آخر میں وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر رہ گئیں ۔۔۔
“اور یہ بکواس تم گلفام کو سالگرہ پر لکھ کر بھیجنے والی تھیں ۔۔؟”
برینکڈ میں ہی نیچے لکھا “ارادہ” دیکھ کر وہ صدمے سے چلائی تھیں ۔۔۔
“یہ تو بھیج بھی دیا پچھلے سال ۔۔۔
اس سال کے لیئے نیا لکھا ہے ۔۔
سنائوں ؟”
شرما کر بتایا گیا ۔۔ ساتھ ہی پوچھا بھی گیا ۔۔۔
“بتا کر دیکھ !!! ایسا لگائوں گی نہ ۔۔۔۔۔”
چپ ہو کر انہوں نے کھنکھارتی ملازمہ کو اور پھر اس کے اشارے پر ہنسی روکنے کے چکر میں منہ سرخ غبارہ بنائے جاناں کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
“کیا مدھو مکھیوں نے کاٹ لیا ہے منہ پر ؟”
اس کا چہرہ بغور دیکھتی خاتوں ہمدردی سے پوچھ بیٹھی تھیں مگر پھر جاناں کے فلک شگاف قہقے پر گلا کھنکھار کر رہ گئیں ۔۔۔
جبکہ چھوٹی سی موٹی سی لڑکی بھی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
“کون ہو تم ؟”
خاتون کے سنجیدگی سے پوچھنے پر اس کی ہنسی کچھ دھیمی پڑی تھی ۔۔۔
***************************
“تو تمہارے گائوں والے تمہیں میری عمر کے شخص کے ساتھ ونی کرنے والے تھے اور تمہیں کسی نے بتایا ہے کہ یہاں بڑا کوئی فرض شناس افسر رہتا ہے جو تمہیں پناہ دے سکتا ؟”
موٹے سے چشمے کو آنکھوں سے زرا نیچے سرکا کے دادی نے اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے اسے ایک بار پھر سر سے پیر تک گھورا تھا ۔۔۔۔
جبکہ ان کے قدموں کے نزدیک ہی سکڑی بیٹھی جاناں کے لیئے بہت مشکل ہو رہا تھا خالص زنانہ انداز میں رونا کانپنا اور منتیں کرنا !
“جی !”
مشکل سے نکالے گئے آنسئوں کو ریشمی دوپٹے میں جزب کرتے ہوئے اس نے باریک سی آواز نکالی تھی ۔۔
“تو بی بی تم کسی غلط گھر میں آگئی ہو ۔۔۔
یہاں کوئی فرض شناس رحم دل پولیس والا نہیں رہتا ۔۔۔!!!
جو رہتا ہے اسے ہمیں روز یاد دلانا پڑتا ہے کہ وہ پولیس میں ہے ”
دادی کے منہ بنا کر کہنے پر لائونج میں بھری ہر عمر کی بہت سی خواتین کھی کھی کھی کرنے لگی تھیں ۔۔۔
” بی بی جی ! میں بڑی مشکلوں سے بڑی امیدیں لے کر یہاں آئی ہوں ۔۔۔۔
مجھے ایسے نا نکالیئے ۔۔
اب تو ممکن ہے وہ لوگ مجھے جان سے ہی مار دیں ۔۔۔
آپ کے اپنے گھر میں میری ہم عمر بچیاں ہیں ۔۔۔۔۔”
انتہائی جزباتی ہو کر کہتی وہ اس وقت ہونٹ سکیڑ کر چپ ہو گئی تھی جب دادی نے کہا ۔۔۔
“جو تمہاری عمر کی ہیں ۔۔۔ وہ بچیاں نہیں ہیں ۔۔!!”
“اچھا جی !!! میری ہم عمر لڑکیاں آپ کے گھر میں بھی ہیں ۔۔
ان میں سے کسی کے ساتھ خدا نا خاستہ ایسا ہوتا تو آپ برداشت کر لیتیں ؟
نہیں نہ ؟
آپ جیسی فرشتہ صفت بزرگ خاتون کبھی برداشت نہ کرتیں اور مجھے پتہ ہے آپ میرے ساتھ بھی یہ نہیں ہونے دیں گی ۔۔۔”
آنکھوں میں جگنوں بھر کر اس نے نظریں ان کے جھریوں بھرے چہرے پر جما دیں ۔۔۔
فرشتہ صفت بزرگ خاتون کی پیشانی کے بلوں میں کوئی کمی نہ آئی البتہ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔۔
“واصفہ ! ”
ایک درمیانی عمر کی خاتون ان کی پکار پر فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔۔
“اسے پیچھے ملازموں کے کوارٹر میں لے جائو ۔۔۔
یہ فیاض کے حوالے سے یہاں آئی ہے ۔۔
وہی اس کے یہاں رہنے کا فیصلہ کرے گا ۔۔۔۔”
“فیاض میاں تو اپنے فیصلے نہیں کر سکتے ۔۔۔
دوسروں کے فیصلے کریں گے ۔۔۔!!”
ایک طنزیہ آواز ابھری پھر دادی کی زبردست گھوری پر کئی کھانسیاں ابھریں ۔۔۔۔
“ہاہ ! ایک مرحلہ تو عبور ہوا ۔۔۔
اب دیکھ لیں گے ان فیاض صاحب کو بھی !”
سکون کی لمبی سانس لیتی جاناں اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
*****************************
گھٹنوں پر کہنیاں ٹکائے وہ پوری طرح جاناں کی جانب متوجہ اس کے پسینے چھٹوا رہا تھا ۔۔۔
دس منٹ ہوگئے تھے فیاض صاحب کی نظروں کو جاناں کے چہرے پر جمے ہوئے ۔۔۔۔
اگر مجبوری نہ ہوتی ۔۔
تو جاناں یوں یک ٹک تکنے پر اس کی چنی منی آنکھوں میں سوئیاں چبھا دیتی ۔۔۔
“پتہ نہیں اتنی منی منی آنکھوں میں سوئی گھس بھی پاتی یا نہیں”
زمان خان کے مسلسل نوٹ کرنے کی وجہ سے اب اس نے اپنی سوچوں کو چہرے پر لہرانے سے روکنے کی کوشش شروع کر دی تھی ۔۔۔
“اہو !!! اوہو !!!! تو آپ وہ ہیں !”
“کون وہ ؟”
جانان کے ساتھ دادی نے بھی اچھل کر پوچھا تھا ۔۔۔
“کہیں یہ مجھے پہچانتا تو نہیں ہے !”
جاناں کا دل ہولا تھا ۔۔
“وہی جس کا دادی نے مجھے بتایا ہے ابھی ۔۔”
فیاض کے معصومیت سے کہنے پر جاناں سمیت لائونج میں موجود سب ہی افراد نے ہاتھ اپنی پیشانی پر مارے تھے ۔۔۔
“ہاں یہ وہی ہے اب تو آگے بول!
اس بچی کی کوئی مدد کر سکتا ہے ؟”
“مگر میں کیوں دادی ؟”
“کیونکہ تو ہی ایک یہاں پولیس میں ہے ”
مگر ! مگر یہ پولیس کیا ہے ؟”
اس بار دادی نے پوتے کو ایک ہاتھ جڑ ہی ڈالا ۔۔۔
اب وہ لوگ اپنی بحث شروع کر چکے تھے ۔۔
جبکہ جاناں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی ۔۔۔
اس شخص سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا ۔۔۔
“یہ بھلا زمام خان کو کیا بتائے گا ۔۔!!”
****************************
شاہ ولا میں رہتے ہوئے جاناں کو دو ہفتے ہونے کو تھے ۔۔۔
ان دو ہفتوں میں جاناں نے یہ باتیں جانی تھیں کہ یہاں رہنے والا ہر شخص ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ ہے ۔۔
ہٹلر دادی ۔۔
پانچ جل ککڑی بہوئیں ۔۔
بہئوں میں سے بھی تین کی اپنی چار عدد بہوئیں ۔۔۔
آٹھ ڈرامہ کوئینز یعنی پوتیاں ۔۔۔
اس کے علاوہ آفتیں مچاتے بچے ۔۔!!
اس گھر میں خواتین کی اجارہ داری تھی ۔۔۔
مرد حضرات بہت بے ضرر تھے ۔۔
فیاض صاحب کچھ زیادہ ہی بیچارے تھے ۔۔
اچھے بھلے ہوا کرتے تھے ۔۔
دو سال پہلے کسی پولیس مقابلے میں سر پر چوٹ لگنے سے یہ حال ہو گیا تھا ۔۔۔
تاہم کبھی کبھار بلکل نارمل ہوجاتے اور اس وقت جاناں ان سے چھپتی رہتی تھی ۔۔۔۔
ایک بات جو اسے بہت اچھی لگی تھی ۔۔۔
وہ تھی ملازموں کے ساتھ ان سب کا پر شفقت رویہ ۔۔۔!!!
ورنہ امیروں کے حوالے سے اس کے دماغ میں بڑا گند تھا ۔۔۔
کھانا خواتین خود ہی بنایا کرتی تھی مگر گھر کی صفائی ستھرائی کی ذمہ داری اس سمیت تین ملازمائوں کے سپرد تھی ۔۔۔۔
اس کی پھرتی سے سب ہی خوش تھے سوائے دادی کے ۔۔۔
جو جب تک وہ ان کے سامنے ہوتی اسے کھوجتی نظروں سے دیکھتی رہتیں ۔۔۔
یوں وہ فیاض شاہ اور دادی کے علاوہ باقی سب سے اچھے تعلقات بنا چکی تھی ۔۔۔
اپنے چھوٹے بالوں کے حوالے سے اس نے بڑے دردناک انداز میں بتایا تھا کہ اس کی سوتیلی ماں نے قینچی پھیر دی جس پر ایموشنل سی رمشہ بھابی سسکیاں لیتی اس کے لیئے سات مکس تیل کی ایک شیشی اٹھا لائیں ۔۔۔
“یہ لگانا ۔۔۔ میری امی نے بنایا ہے ۔۔!!
امی کہتی ہیں عورت کے بال عورت کا حسن ہوتے ہیں ۔۔
ان کا خاص خیال رکھنا چاہیے ۔۔۔۔۔
میرے بال دیکھو ۔۔۔”
انہوں نے اپنی گھنی سی گھٹنوں تک جاتی چوٹی لہرائی ۔۔۔
“ہر مہینے کاٹتی ہوں ۔۔۔
ہر مہینے پھر اتنے ہو جاتے ہیں اس تیل کی وجہ سے ۔۔۔۔”
جاناں کہنا چاہتی تھی
“یہ کیا پاگل پنا ہے بھابی صاحبہ ؟
نہیں بڑھانے تو تیل کیوں لگاتی ہو ؟
بڑھانے ہیں تو کاٹتی کیوں ہو ؟”
لیکن یہاں آ کر اسے نہ صرف اپنی زبان پر بلکہ اپنے تاثرات پر بھی کنٹرول کرنا پڑ رہا تھا ۔۔۔۔
جس میں وہ اچھی ایکسپرٹ ہو گئی تھی ۔۔۔
“بہت بہت شکریہ بھابی جی ۔۔۔”
“روز رات کو سونے سے پہلے لگانا اور صبح دھو لینا ۔۔۔
مہنے بھر میں گردن چھپ جائے گی تمہاری ۔۔۔!”
وہ ہدایت دیتی ہوئی چلی گئیں ۔۔
جاناں مسکرا مسکرا کر سر ہلاتی رہی ۔۔
اور ان کے چلے جانے کے ساتھ ہی آنکھیں گھما کر عادتاً شانے اچکائے ۔۔۔
اسے کوئی شوق نہیں تھا گردن چھپانے کا ۔۔۔
“لیکن پھر بھی ۔۔ دیکھتے ہیں !”
سر سے دوپٹہ اتار کر اس نے اپنی تقریباً ٹنڈ ہوئے سر کو آئینے میں دیکھا تھا ۔۔
پھر تیل کی بوتل اٹھا لی ۔۔۔۔
*****************************
“ڈشائوں ۔۔۔!! ڈشکائوں !!”
ٹی وی پر فل والیوم میں کوئی ایکشن مووی چل رہی تھی ۔۔۔
اچھائی اور برائی ایک دوسرے کو مات دینے کو بیقرار تھے ۔۔۔
اور ۔۔۔۔۔
جیسا کہ سب جانتے تھے ۔۔
اچھائی جیت گئی ۔۔
اچائی جیت ہی جاتی ہے ۔۔۔
لیکن صرف فلموں میں !
برے ہوتے دل کے ساتھ وہ قدسیہ بیگم کو بتا کر اپنے کوارٹر میں چلی آئی تھی اور اب پلنگ پر گری جلے دل کے ساتھ خود کوس رہی تھی ۔۔۔
“میں گھر سے بدلہ لینے نکلی ہوں یا بال بڑھانے ؟”
اپنے صاف ستھرے نرم بالوں میں ہاتھ چلاتی وہ عجیب سا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
اٹھ کر دیوار پر لگے آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
اچھا کھانا پینا اچھا ماحول اس پر بہت جلدی اثر انداز ہو گیا تھا ۔۔۔
اس کا چہرہ جمیل کے چہرے سے مشابہ تھا تاہم باقی وجود بلکل ماں پر پڑا تھا ۔۔۔۔
ویسے ہی سیاہ گھنے لچے دار بال ۔۔
چوڑے کندھے ۔۔ اونچاقد ۔۔ صراحی دار گردن ۔۔
سنولاہٹ مائل گندمی رنگت !
اگر آنکھوں کو زرا سکیڑ کر اسے دیکھا جاتا تو بلکل یوں لگتا جیسے شاداں کھڑی ہو ۔۔۔۔
لمبا عرصہ گزر چکا تھا ۔۔۔
خود پر غور کیئے ۔۔
اب غور کیا تھا تو اپنا آپ بہت نیا نیا لگ رہا تھا ۔۔۔۔
اس کے کپڑے پرانے مگر اچھے تھے
جو گھر کی مالکنوں میں سے ہی کسی نے دیئے تھے ۔۔۔۔
“کیا مصیبت ہے !”
گھنگریالے بال کو کھینچ تان کے انگلی پر لپیٹنے کی کوشش کرتی وہ یکدم ہی خود کو شیشے میں لعنت دے بیٹھی ۔۔۔
“مجھے بس ایک موقح مل جائے اپنا مشن پورا کرنے کا ۔۔۔۔
ایک منٹ !!”
ارادہ باندھتی وہ یکدم ہی ٹھٹھکی تھی ۔۔۔
“جاناں موقح ڈھونڈتی نہیں موقح بناتی ہے !
اب مجھے کچھ کرنا ہی ہوگا ۔۔۔۔
بہت ہوگیا ۔۔۔”
*****************************
اپنے کوارٹر کی بے دیوار چھت پر چڑھی وہ لرزتی ٹانگوں کے ساتھ گردن اٹھائے جائزہ لے رہی تھی کہ وہ یہاں سے کیسے گھر سے باہر نکل سکتی تھی ؟
لیکن بہت غور و خوض کے بعد بھی اسے کوئی راستہ نظر نہیں آیا تھا ۔۔۔۔
گھر کے چاروں اطراف دیواریں تھیں جن پر تاروں میں کرنٹ چھوڑے گئے تھے ۔۔۔۔
“یا اللہ !
اب میں کیا کروں ؟
آپ ہی کوئی موقح عطا کر دیں ۔۔۔”
منہ لٹکائے وہ درخت کی ٹہنی پھر کمرے کی کھڑکی کا سہارہ لیتی بندروں کی طرح چھلانگیں لگاتی اتر گئی تھی ۔۔۔
اور اپنے کمرے کی گیلری میں کھڑا دوربین کی زریعے سارا منظر دیکھتا فیاض بیساختہ ہنس دیا تھا ۔۔۔
فون دوسرے کان سے لگاتے ہوئے اس نے توصیفی انداز میں کہا تھا ۔۔۔۔
“واقعی !! یہ بہت منفرد ہے ۔۔۔۔!!”
“ایسے ہی تو میں فدا نہیں ہو گیا !!!”
دوسری طرف زمان خان نے فخر سے اعتراف کیا تھا ۔۔۔
“چلی گئی نہ واپس ؟”
“ہاں ۔۔۔ لیکن اب یہ فل چارج لگ رہی ہے ۔۔۔۔۔ کچھ بھی کر سکتی ہے ۔۔
ہیلو آپ کون ؟”
کہتے کہتے فیاض کے سر میںٹیسیں سی اٹھی تھیں ۔۔
سر پر مکے مارتے ہوئے وہ یکدم انجان بن کر پوچھنے لگا ۔۔۔
“تمہاری ساس !!”
جل کر کہتا زمان خان رابطہ منقطح کر چکا تھا ۔۔۔
“مگر یہ ساس کیا ہے ؟ ہیلو ؟
لو ۔۔۔ فون ہی کاٹ دیا ۔۔۔۔”
***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...