شام کے پانچ بجے جہاں سڑکوں پر رش ہوجاتا ہے ایسے میں لاہور کی یہ سڑک حسب معمول خالی تھی ۔ اس خالی سڑک پر بلیک پراڈو اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی ۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا زالان ہمیشہ کی طرح کالی پینٹ شرٹ کے اوپر کالی ہی جیکٹ پہنے پوری توجہ سےڈرائیونگ کرتے ہوئے بہت وجیہ لگ رہا تھا ۔ گاڑی ابھی بھی اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی ۔ کچھ آگے جاکر ایک بلڈنگ کے نمودار ہوتے ہی گاڑی کی رفتار میں کمی آئی ۔ اس بلڈنگ کے مین گیٹ کے پاس پہنچ کر اس نے ہارن دیا ۔ ایک گارڈ اس کی جانب بڑھا ۔
پاسورڈ ؟ گارڈ نے پوچھا ۔ اس نے پاسورڈ بتایا گارڈ نے اس کی نمبر پلیٹ کا نمبر نوٹ کرتے ہوئے دروازہ کھول دیا ۔ اس نے اپنی گاڑی اندر کی طرف بڑھادی ۔
گاڑی سائیڈ پر پارک کر کے وہ جمپ لگا کر گاڑی سے اترا ۔ یہ ایک پانچ منزلہ عمارت تھی ۔ جو کہ بہت سے مناظر پیش کر رہی تھی ۔ ایک جگہ پر بہت سے سٹوڈنٹس کی ٹریننگ ہو رہی تھی کوئی گن چلا رہا ہے کوئی پانی میں تیر رہا ہے ۔ بہت سے لوگ ہاتھوں میں فائلز لیئے ادھر ادھر جارہے ہیں ۔
وہ ان سب کو دیکھتا ہوا اندر کی جانب بڑھا ۔ لفٹ سے گزرتے ہوئے وہ آگے بڑھتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔ ایک ساتھ دو دو سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے وہ تیسری منزل کی راہداری میں چلنے لگا ۔ ایک بڑے سے کمرے کے باہر کھڑے ہوکر اس نے دروازہ بجایا ۔
یس ۔ اندر سے آواز آنے پر وہ دروازہ کھول کر اندر کی جانب بڑھا ۔ اس بڑے سے افس نما کمرے میں ایک ٹیبل کے پاس پڑی کچھ کرسیوں پر بیٹھے نوجوان لڑکے اسے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اور اسے سیلیوٹ کرتے ہوئے باہر چلے گے ۔
حسیب کمانڈر ۔ زالان نے سیلیوٹ کرتے ہوئے کہا
آئیے برخوردار آپ کا ہی انتظار تھا ۔ ٹیبل کے پاس پار بیٹھے ادھیر عمر اس شخص نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
زالان پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا ۔
اب تک کیا کیا ہوا سب تفصیل سے بتاو زالان ۔ اس شخص نے کمرے میں موجود اس کھڑکی کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سنائیے محترمہ ! کورٹ میں چیختے ہوئے مزہ آتا ہے ؟ ہادیہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے ارسا سے پوچھا
وہ آج صبح ہی آئی تھی ۔عائشہ صبح سے تیاریوں میں مصروف تھیں ۔ ارسا کی بھی آج چھٹی تھی ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ اور ہادیہ کمرے میں آگئیں تھیں اور اب دونوں چاکلیٹ کھاتے ہوئے باتیں کر رہی تھیں
یار نہیں چیخنا پڑتا کورٹ میں کتنی مرتبہ بتاوں ۔ اس نے ہادیہ کو گھورتے ہوئے کہا ۔ سرخ رنگ کی شارٹ فراک جس پر سیاہ رنگ کی کڑھائی ہوئی ہوئی تھی ۔ گلے میں سیاہ دوپٹہ ڈالے بالوں کا ڈھیلا جوڑا بنائے وہ پروقار شخصیت کی مالک تھی ۔
ارسا ایک بات کہوں ۔ ہادیہ نے تھوڑی دیر خاموشی کے بعد کہا ۔
تم کب سے مجھ سے پوچھنے لگی ۔ اس نے سنجیدگی سے کہا
ارسا آپیییی ۔ ہادیہ کے کچھ بولنے سے پہلے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اس کی چھوٹی بہن زینب نے چیخ ماری ۔
ارسا نے سنجیدگی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔
کیا ہوا زینب کیوں چیخ رہی ہو ۔ ہادیہ نے جھنجھلا کر کہا
وہ ۔۔۔ وہ مجھے بس ارسا آپی سے یہ پوچھنا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کام کون سا ہے ۔ زینب نے جلدی جلدی کہ کر معصومیت سے آنکھیں جھپکاتے ہوئے کہا
کسی کے ساتھ چاکلیٹ شیئر کرنا ۔ اس نے چاکلیٹ کھاتے ہوئے کہا ۔
لیکن آپ نے عبداللہ کو کہا تھا کہ اسکارف باندھنا مشکل ہے ۔ زینب نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
وہ اس لیئے کہ جس وقت ہم کام کر رہے ہوتے ہمیں وہ ہی مشکل لگتا ہے ۔ جس وقت عبداللہ نے یہ پوچھا تھا اس وقت میں اسکارف سیٹ کر رہی تھی اور وہ مجھ سے نہیں ہورہا تھا ۔ اسی لیئے مجھے اسکارف باندھنا مشکل لگا اور ابھی میں چاکلیٹ کھا رہی ہوں اور جن نظروں سے تم میرے چاکلیٹ کو دیکھ رہی ہو مجھے چاکلیٹ شیئر کرنا زیادہ مشکل لگ رہا ہے ۔ اس نے زینب کو گھورتے ہوئے کہا
تھینکیو سو مچ آپی ۔ اس سوال کے جواب ملنے کی خوشی میں میں اپنی عزت افضائی کرنے پر آپ کو معاف کرتی ہوں ۔ زینب نے بیڈ سے اترتے ہوئے کہا
ویسے تم لوگ کیوں ایک ہی سوال کے پیچھے پڑ گئے ہو ۔ ارسا نے اسے مشکوک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا
کالج میں ٹیچر نے نے پوچھا ہے ۔ کل جواب دینا ہے اس کا ۔ زینب نے باہر جاتے ہوئے کہا
دنیا جہاں کی نکمی اولاد پیدا کی ہے میری ماں نے ۔ ارسا نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔ اس کی بات سن کر ہادیہ مسکرائی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو مطلب کل تم جارہے ہو اسکندر کا کام تمام کرنے ۔ کمانڈر نے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہا
جی سر ۔ زالان نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا
اور اگر میں تمہیں روک لوں تو ۔ انہوں نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا
میں نے برسوں اس موقع کا انتظار کیا ہے اور اب جب مجھے یہ موقع مل رہا ہے آپ اس موقع پر مجھے نہیں روکیں گے مجھے آپ پر یقین ہے ۔ زالان نے یقین سے کہا
ہوں ۔ وہ پھر کمرے میں ٹہلنے لگے
سر آپ نے مجھے یہاں کیوں بلایا ؟ زالان نے سنجیدگی سے کہا ۔ حسیب اب کرسی پر بیٹھ گئے
تمہیں یہاں بلانے کی وجہ کورٹ ہے ۔ انہوں نے دونوں ہاتھ آپس میں ملاتے ہوئے کہا زالان نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا
تم جانتے ہو انٹیلیجنس مطلب خفیہ ایجنسی ۔ ہم پولیس اور آرمی سے الگ کام کرتے ہیں ہم ظاہر نہیں ہوتے ۔ ہمارے کچھ مشنس میں پولیس اگر رکاوٹ بنے تو کورٹ کے ذریعے پولیس کو سنبھالا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ پولیس کورٹ کے انڈر ہوتی ہے ۔ اس معاملے میں کورٹ ہمارے ساتھ پورا اب تک تو پورا تعاون کر رہی تھی جیسے اسمگلنگ کیسس میں اگر کسی اسمگلر کو ہم نے جیل سے باہر نہیں نکلوانا تو کورٹ ہمارے کہنے پر اس اسمگلر کا کیس لٹکادیتی تھی دیر سے تاریخیں دیتی سالوں تک کیس چلتا رہتا لیکن کچھ مہینے پہلے کورٹ کی طرف سے مزاحمت ہوئی ہے انہوں نے قانون اور انصاف پر ترجیع دی ہے کورٹ نے آرڈر دیا ہے کہ ایک کیس کو ایک یا دو مہینے تک ختم کرنا ہے ۔ حسیب نے گہری سانس لی اور پھر بولنا شروع کیا
میں مانتا ہوں یہ اچھی بات ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف ہورہا ہے لیکن یہ سب ہمارے اکثر مشنس میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے ۔ ہماری معلومات کے مطابق ججس کی ایک ٹیم بنائی گئی ہے جس نے انصاف مہم شروع کی ہے ۔ اگر ہم ان کے لیڈر تک پہنچ جائیں تو یہ کام آسان ہوجائے گا ۔
مجھے کیا کرنا ہوگا کمانڈر ۔ زالان نے پوچھا
تم کورٹ جاو گے ان کے لیڈر تک پہنچو گے اور ہوسکے تو پہلے اسے سمجھانا اگر وہ بات نا مانے تو shoot him on side – کیونکہ لیڈر کے بغیر کوئی بھی تنظیم ہو ٹوٹ جاتی ہے ۔ جہاں اس ملک کے کیلیئے اتنی جانیں گئی ہیں وہاں ایک اور سہی ۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا
لیکن سر میں کورٹ تک کیسے پہنچوں گا ۔ زالان نے سوال کیا
انٹیلیجنس خود تمہیں پہنچائے گی اب تم جاسکتے ہو ۔ ان کے کہنے پر زالان کھڑا ہوگیا
اگر تمہارے قدم تھوڑا سا بھی ڈگمگائے تو انٹیلیجنس تمہیں مارنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگائے گی ۔ زالان نے حیرت سے انہیں دیکھا ۔ اور پھر انہیں سیلیوٹ کرتے ہوئے باہر نکل گیا
مجھے معاف کر دینا زالان میں تمہارا مان نہیں رکھ سکا ۔ حسیب کمانڈر نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا ۔
تیز چلتی ہوا نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ یہ وہ کیا کہ رہا تھا لیکن قسمت نے ہوا کو خاموش کروادیا ۔ ابھی کہانی باقی تھی
————— ——
سورج غروب ہو چکا تھا ۔ اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا ۔ سردیوں میں مارکیٹیں جلدی بند ہوجاتی تھیں ۔ اس وقت بھی تمام دکانیں بند تھیں ۔شہر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ اسی اثناء میں شہر کے ویرانے میں گاؤں سے کچھ فاصلے پر دو آدمی اپنے چہروں کو ڈھانپے آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھا رہے تھے ۔ ان دونوں کے کندھوں پر سفری بیگ تھے ۔ تھوڑی دیر یونہی چلنے کے بعد وہ رک کر آپس میں کچھ باتیں کرنے لگے ۔ باتیں کر کے وہ دونوں مخالف سمتوں میں چلنے لگے ۔ ان میں سے ایک آدمی گاؤں کی کچی پگڈنڈی پر چلنے لگا ۔ کچھ ہی دیر بعد فائرنگ کی آواز آئی ۔ اور ایک نقاب پوش سیاہ چغے میں اس آدمی کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔
کون ہو تم ۔ اس آدمی نے غرا کر کہا
تمہاری موت اسکندر ۔ نقاب پوش نے اس آدمی سے کہا
میرا نام کیسے جانتے ہو ۔ اس آدمی نے گھبراتے ہوئے کہا
باتیں بہت ہو چکیں اب کام کی طرف آتے ہیں ۔ اس نقاب پوش نے اپنی پسٹل اس آدمی کے ماتھے پر رکھ دی
کیسا کام کیا چاہتے ہو مجھ سے ؟ شدید گھبراہٹ کے مارے اس آدمی کو اتنی ٹھنڈ میں بھی پسینے آرہے تھے
تم اکیلے کیوں ہو اسکندر ؟تمہارے باقی ساتھی کہاں ہیں ؟ نقاب پوش نے اپنا ہاتھ اس آدمی کی گردن پر رکھا ۔
اچانک فائرنگ کی آواز آئی ۔ نقاب پوش فورا پیچھے ہوا ۔ اس نے ادھر ادھر تو کوئی نظر نہ آیا نہ ہی دوبارہ فائرنگ کی آواز آئی اس نے نیچے دیکھا تو اس آدمی کے سر سے بہت سا خون بہ رہا تھا گولی اس کے سر میں لگی تھی اس کا نقاب اتر چکا تھا ، اس آدمی کا چہرہ دیکھ کر نقاب پوش ششدر رہ گیا ۔ وہ اسکندر نہیں تھا ۔ اتنے میں اسے کچھ قدموں کی آواز سنائی دی ۔ کچھ لوگ اس کے پاس آرہے تھے ۔ اندھیرے کی وجہ سے ان کے چہرے واضع نہیں تھے ۔ اس کے قریب آکر ان لوگوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ نقاب پوش کی نظر ان کے کپڑوں پر پڑی وہ سب پولیس وردی میں تھے
ہینڈز اپ یو آر انڈر اریسٹ ۔ پولیس انسپکٹر نے گن اس کی طرف کرتے ہوئے کہا ۔ اس نے اپنی گن نیچے پھینکی اور ہاتھ اوپر اٹھا دیئے ۔ ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر اسے ہتھکڑی لگادی
اس کا نقاب اتارو اور گاڑی لے کر آو ہم اسے تھانے لے کر جارہے ہیں ۔ انسپکٹر کے کہنے پر ایک سپاہی نے آگے آکر نقاب پوش کا نقاب اتارا
سیاہ آسمان پر روشن چاند ، وہ جھاڑیاں ، وہ مٹی ، گاوں کی کچی پگڈنڈی ، سب گواہ تھے کہ وہ نقاب پوش زالان تھا ۔ ہاں وہ زالان حیدر ہی تھا ۔ جب وہ جیتنے کا سوچ رہا تھا قسمت نے اسے ہرا دیا تھا ۔پولیس اسے لے کر گاڑیوں کی طرف بڑھ گئی ۔ جھاڑیوں میں چھپے اس آدمی نے اپنا فون کان سے لگایا
ہم کامیاب رہے کمانڈر ۔ اس نے آہستہ آواز میں کہا اور فون رکھ دیا ۔
—————- ——–
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...