(Last Updated On: )
ستیہ پال آنند
سرطان زدہ جسم سے کہتا ہوں میں اکثر
باغِ ارم ہے ،ایک خیاباں ہے یہ جہاں
تُو مرغزارِ زیست کا وہ مرزبان ہے
جو ذوق و شوق، تاب و تواں میں تھا مستعد
جس میں قرار تھا نہ تعطل نہ کاہلی
طوفاں میں بھی جو بر سرِ پرواز رہا تھا
جو آشنا نہ تھا کبھی فرصت کے نام سے!
سرطان زدہ جسم سے کہتا ہوں کہ اُٹھ، چل
مت دیکھ یہ بکھرے ہوئے سرطان زدہ جسم
جو ماندگی سے مضمحل ہر سمت پڑے ہیں
پسپائی کے مارے ہوئے یہ لوگ ہیں ناکام
تو ان کی طرح بے عمل،بے کار نہیں ہے
اٹھ چل کہ ابھی تک تری منزل نہیں آئی
اٹھ چل کہ تجھے راہ میں رکنا نہیں ہے آتا!
جنت بدر ہوا تو ہوں لیکن درونِ دشت
’’قانونِ باغبانیِ صحرا نوشتہ ایم!‘‘