یہ دنیا ہمہ وقت بدلتی حالت میں ہے۔ اسی کے ساتھ چلتے معیشت اور تجارت کے نظام بھی۔ جنگی کیپٹلزم نے گلوبلائزیشن کی تعمیر کی تھی۔ اس کا جغرافیائی مرکز لنکاشائر تھا جو اب نہیں رہا۔ غیراہم علاقے جیسا کہ چین اب اس کے مرکز میں ہیں۔
اور صرف جغرافیہ ہی نہیں۔ ہر طرح کی ہونے والی مسلسل تبدیلی رہی ہے۔ لیبر کے سسٹم۔ سرمایہ کاری کے طریقے۔ پالیسیاں۔ سستی مزدور، بہتر انفراسٹرکچر اور بڑی منڈیوں کی کھوج۔
اور اس کو پڑھتے وقت ایک اہم پہلو آپ نے دیکھا ہو گا۔ تاریخ کی تُک صرف اس وقت بنتی ہے مختلف علاقوں اور لوگوں کی تاریخ کو اکٹھا دیکھا جائے۔ صرف ایک پہلو کو دیکھنا بڑی غلط فہمیاں لے کر آتا ہے۔۔
مثال کے طور پر کئی پورپی اور امریکی سوشل سائنٹسٹ پچھلے پچاس برسوں کو صنعت کے خاتمے کے سال لکھتے ہیں جبکہ اس کا متضاد درست ہے۔ عالمی طور پر صنعتکاری کی سب سے بڑی لہر دنیا میں آئی ہے۔ صرف اس کے علاقے پہلے والے نہیں۔
ریاست اور کیپٹلزم، ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ طاقتور کا امیر ہونا اور امیر کا طاقتور ہونا تاریخ میں محض اتفاق نہیں رہا۔ دنیا میں ایک دور تھا جب یہ لازم و ملزوم تھے۔
سرمایہ کار کا انحصار ریاست پر تھا۔ لیکن جمہوریت کی آمد کا یہ مطلب تھا کہ ریاست کی ہمدردی مزدور سے تھی۔ اور یہی سرمایہ دار کی سب سے بڑی کمزوری ثابت ہوئی۔ جبری مشقت کے نظام ختم ہوئے۔ جنگی کیپٹلزم کا پرتشدد دور بھی۔
کسی ایک علاقے میں بحران نے دوسروں کو مواقع دئے۔ انیسویں صدی یورپ کے لئے خوشحالی کی تھی۔ افریقہ، امریکاز اور ایشیا کے بڑے حصوں میں اس سے متضاد۔ غلامی اور امپریل ازم کا قبضہ تھا۔ بیسویں صدی میں یہ بیڑیاں ٹوٹ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کپاس کے مزدور یا فیکٹری کے مزدور خوشحال نہیں۔ اور دنیا میں ان کی حالت میں بہت فرق ہیں۔ بینن کا کسان روزانہ ایک ڈالر سے کم آمدنی پر کام کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کی فیکٹریوں میں بہت کم اجرت پر خطرناک حالات میں سٹچنگ کی جاتی ہے۔ اور یوں ناقابلِ یقین حد تک سستا لباس ہم تک پہنچتا ہے۔ وہ جس کا دو صدیوں پہلے تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی ٹوکول نے مانچسٹر کے عروج کے بارے میں لکھا تھا، “یہ مہذب انسان کا معجزہ ہے۔ لیکن یہاں پر آ کر مہذب اور وحشی کا فرق مٹ جاتا ہے”۔ اور یہاں پر بھی بدحالی کی کہانی کے متوازی ہی آزادی اور تخلیق کاری کی کہانی ہے۔ دونوں اکٹھے ہی جڑے ہیں، الگ نہیں ہو سکتے۔ اسی نے بے اندازہ لوگوں کو غربت کے چکر سے نکالا ہے۔
عالمی کیپٹلزم کی دو صدیاں پیداواری صلاحیت میں ناقابلِ تصور اضافہ لے کر آئی ہیں۔ 1950 کی دہائی میں شمالی چین میں اوسط فیملی کے لئے (جو پانچ لوگوں پر مشتمل تھی)، کپاس سے لباس کی تیاری اس خاندان کے لئے ساٹھ روز کی سخت مشقت تھی۔ آج یہ گھریلو بجٹ کے چار فیصد سے بھی کم ہے (جو آٹھ روز کی محنت ہے)۔
زراعت اور صنعت میں بے اندازہ ترقی ہوئی ہے۔ کسی بھی اور نظام کے مقابلے میں کیپیٹلزم نے پیداوار کے بے مثال سسٹم بنائے ہیں۔ آج لوگ توقع رکھتے ہیں کہ معیشت ہر سال بڑھے گی۔ لوگ توقع رکھتے ہیں کہ کپاس کی پیداوار 2050 تک ایک مرتبہ پھر تین سے چار گنا ہو جائے گی۔ اور انسان کی یہ نت نئے طریقوں سے منظم ہو جانے کی صلاحیت، ہمیں مستقبل کی امید دیتی ہے۔
اس بات کی امید بھی کہ نیچر کے اوپر ہمارا شاندار غلبہ ہمیں دانائی بھی دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاقتور چہرے، لوگ، کردار اور علاقے بدلتے رہے ہیں۔ تبدیلیاں ڈرامائی بھی رہی ہیں، غیرمحسوس طریقے سے آنے والی بھی۔ لیکن ایک وقت میں مستحکم اور مستقل لگنے والی دنیا بہت جلد الٹ بھی سکتی ہے۔ جیسے دنیا کی کھڈیاں اور تکلے مسلسل نئے میٹیریل نکال رہی ہیں، ویسے ہی کیپٹلزم کا نہ ختم ہونے والا انقلاب مسلسل دنیا کی تشکیلِ نو کرتا رہتا ہے۔
کھیتوں میں اگنے والے ریشے، شور مچاتی مشینیں، سامان سے لدے ٹرک، عظیم الجثہ بحری جہاز، محنت کے نظام، معاہدے، ریاست، قرض، مالیاتی نظام، کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی، نفع نقصان کے کھاتے۔۔۔ میری قمیض مہذب انسان کا معجزہ ہے۔
انسانوں، معاشروں، معیشتوں کی تبدیلیوں کا زور آور پہیہ چل رہا ہے۔ اس کا کوئی اختتام نہیں۔
ختم شد