اردو ماہیے کی موجودہ تحریک سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے پروفیسر قمر ساحری چھپے رستم نکلے کہ انہوںنے بڑی ہی خاموشی کے ساتھ ماہیے سے محبت کی ۔ کسی کو خبر نہ ہونے دی ۔ اس محبت کا راز تب افشا ہواجب ”بادسبز“ نے اس کی خوشبو پھیلا دی۔ میں نے ماہنامہ ”منشور“کراچی کے ایک شمارہ میں ان کی کتاب ”باد سبز “کا اشتہار دیکھا تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوا۔۲۷جولائی ۱۹۹۶ءکو میں نے انہیں ایک خط لکھا۔ انہوں نے ۶اگست ۱۹۹۶ءکو اس کا جواب دیتے ہوئے جی خوش کر دیا۔ انہوںنے لکھا:
”باد سبز“ میں تین سو سے زیادہ ماہیے ہیں ۔کمپوز ہو چکے ہیں پیسٹنگ اور پرنٹنگ کے مراحل باقی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مراحل آخر اگست تک مکمل ہو ہی جائیں گے۔“
جس طرح کبھی پنجابی ہیر سنا کر پنجابیوں نے اہل درد کو لوٹ لیا تھا ۔ کچھ ایسے ہی اب ماہیے کے پنجابی انگ نے اردو والوں کو اپنا اسیر بنا لیا ہے۔ قمر ساحری بھی پنجابی ماہیے کے اسیر ہیں لیکن پھر انہوں نے ماہیے کہہ کر اہل پنجاب کو بھی رقصاں کر دیا ہے:
مہتاب ہوا رقصاں
گیت لکھے ہم نے
پنجاب ہوا رقصاں
قمر ساحری کے ماہیوں میں دھرتی کے مختلف مظاہر ثقافتی سطح پر بھی اپنی جھلک دکھاتے ہیں اور محبت کی مختلف کیفیات کے ساتھ مل کر بھی جلوہ گر ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو سیاسی صورتحال پر بھی خوبصورتی سے منطبق ہوتے ہیں ان کے اس نوعیت کے چند ماہیے دیکھیں:
ٹھنڈک ہے فضاﺅں میں
برف پہاڑوں پر
ساون ہے ہواﺅں میں
جب کھیت مہکتے ہیں
رقص کریں آنچل
دل اور دھڑکتے ہیں
سکھ، چین وہیں پانا
شہر سے گھبرا کر
کھیتوں کی طرف جانا
خوشبو تو مہک اٹھے
گیت لکھو ایسے
ہر شخص لہک اٹھے
جنگل میں گرے اولے
سرد فضاﺅں میں
اب تو بھی کہیں ہولے
پھرتیری مہک آئی
دھول اڑی دل سے
آنکھوں میں چمک آئی
کچھ کر کے دکھانا ہے
وقت کے جنگل کو
گلزار بنانا ہے
ہے ساری فضا ان کی
پھول بکھرتے ہیں
چلتی ہے ہوا ان کی
بحیثیت شاعر قمر ساحری محنت کش طبقے اور غریب عوام سے محبت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کی ماہیا نگاری میں بھی اس محبت کا اظہار ملتا ہے۔ غریب عوام کے مسائل اور حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ بھی قمر ساحری کا خاص موضوع ہیں۔
سلگتے ہوئے سیاسی او ر سماجی مسائل کے حوالے سے انہوں نے بہت سارے ماہیے لکھے ہیں۔ کراچی شہر کا روگ بھی ان کے ماہیوں میں دکھ بن کر اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ قمر ساحری کے ایسی نوعیت کے چند ماہیے دیکھیں جن میں ساری صورتحال کا کرب فکری سطح پر نمایاں ہے۔
حیرت میں فقط ہم تم
فصل انہیں کی ہے
محنت میں فقط ہم تم
دیہات ہی میں رہ کے
لوگ رہیں بھوکے
کھلیان کہیں مہکے
پھر چیخ اٹھا کوئی
جشن ہوا برپا
پھر قتل ہو اکوئی
پتھر کا جگر رکھیں
یار بنا دشمن
کس کس پہ نظر رکھیں
ٹوٹے ہیں ستم ہم پر
حال سنائیں کیا
ہیں سب کے کرم ہم پر
خوشیاں ہیں یتیموں میں
پیار کے نقشے بھی
شامل ہیں سکیموں میں
عادل ہی نہیں کوئی
عدل کہاں ہو گا
ہے نیک کہیں کوئی؟
ظالم نہ رہے کوئی
حشر اٹھے ایسا
قاتل نہ رہے کوئی
وہ شہر نگینہ تھا
لوٹ لیا کس نے
علموں کا خزینہ تھا
انصاف کہاں ہوگا؟
یاد ہمیں آیا
سرمایہ جہاں ہو گا
اک عمر گنوا دی ہے
صبر کریں کتنا
ہر چیز لٹا دی ہے
اک بات پہ ڈٹ جاﺅ
ظلم سہیں کب تک
میداں میں نکل آﺅ
قمر ساحری کی شاعری کا غالب موضوع سیاسی اور سماجی مسائل ہی ہیں۔ اس موضوع کو چھوتے ہوئے جب وہ نفس مضمون کو تھوڑا سا پردے میں رکھ کر بیان کرتے ہیں تو شاعری کا حسن دمکنے لگتا ہے۔ ان کے چند ایسے ماہیے بھی دیکھ لیں:
آنکھوں کی بھلائی سے
فیض نہیں پہنچا
قندیل نمائی سے
آئین کرم بدلا
پھول کھلے دل میں
انداز ستم بدلا
بادل تو بہت آئے
دھوپ رہی رقصاں
گرجے نہ برس پائے
باغوں میں کہاں ڈھونڈیں
پھول کہاں ہوگا
داغوں میں کہاں ڈھونڈیں
بارش جو ہوئی اب کے
پیاس بجھی لیکن
پھر ہوش اڑے سب کے
باتیں نہ بناﺅتم
اور کوئی قصہ
سن لیں گے، سناﺅتم
جذبے تو بہت سے ہیں
کام دکھاﺅتو
وعدے تو بہت سے ہیں
کچھ اور بھی جلنا ہے
آگ ابھی نم ہے
لوہے کو پگھلنا ہے
کانٹے بھی مہکتے ہیں
دور ہے کچھ ایسا
سائے بھی چمکتے ہیں
کیا اس کی دعائیں تھیں
کھیت رہے سوکھے
باتوں میں گھٹائیں تھیں
قمر ساحری کے بعض ماہیے محض مصرعوں کی ترتیب بدلنے سے ہائیکو جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ا گر ان میں مصرعہ اولیٰ کو مصرعہ ثالث اور مصرعہ ثالث کو مصرعہ اول کر دیا جائے تو ماہیا زیادہ چمک اٹھے گا۔
صرف دو مثالیں:
مطبوعہ صورت میں
اے جان جہاںتجھ کو
بھول نہیں سکتا
ہے یاد ابھی مجھ کو
ترتیب میں تبدیلی سے
ہے یاد ابھی مجھ کو
بھول نہیں سکتا
اے جان جہاں تجھ کو
غیروں میں کوئی اپنا
کاش نکل آئے
آنکھوں میں یہی سپنا
آنکھوں میں یہی سپنا
کاش نکل آئے
غیروں میں کوئی اپنا
قمر ساحری کے بعض ماہیوں میںلفظوں کا برتاﺅنامانوس سا لگتا ہے ۔ ممکن ہے اہل زبان میں یہ مروج ہو اور ہم پنجابی اور سرائیکی لہجے والی اردو بولنے والے اسی وجہ سے اجنبیت محسوس کرتے ہوں۔
ایسے چند ماہیے بھی دیکھ لیں:
آواز کہاں تک دیں
ساتھ تمہارے ہیں
تم ساتھ جہاں تک دیں
دوزخ کی دہک والی
دھوپ!!!ارے توبہ
سائے کو جلا ڈالی
ہونٹوں کو سئیے رکھنا
شہر درخشاں میں
پلکوں پہ دئیے رکھنا
ایسا بھی ہوا لوگو
بھول ہوئی سب سے
سب اپنی دعا لوگو
قمر ساحری کے بعض ماہیوں میں پنجابی ماہیے جیسی مٹھا س ملتی ہے تو بعض ماہیوں میں انوکھا اور خوبصورت شعری اسلوب جھلکتا ہے۔ یہ بلا شبہ ایسے ماہیے ہیں جو اہل پنجاب کو بھی متاثر کرنے والے ہیں۔ صرف چند مثالیں دیکھی:
بانہوں میں نہیں نرمی
سرد ہوئے جذبے
بوسوں سے گئی گرمی
بے معنی تبسم کیا
بات کرو آﺅ!
چھپ چھپ کے تکلم کیا
سچ تھا کہ کہانی تھی
یاد نہیں ہم کو
کیا چیز جوانی تھی
کیا دن تھے، نظارے تھے
بھول گئے ہوں گے
جب ہم بھی ”ستارے “تھے
وہ اور زمانے تھے
یاد ابھی تک ہیں
جب خواب سہانے تھے
ہر صبح سہانی تھی
یاد ابھی تک ہے
ہر رات کہانی تھی
قمر ساحری نے ”باد سبز“ کے صفحہ نمبر۳پر لکھا ہے۔”اردو ادب میں پہلا دیوان ماہیا حرف اسبق کی ترتیب کے ساتھ “۔اگرچہ ”بادِسبز“میرے ماہیوں کے مجموعہ ”محبت کے پھول“ کے بعد منظر عام پر آئی ہے تاہم اس کتاب کے بارے میں ان کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ حروف تہجی کے حساب سے ماہیے کہہ کر ماہیے کا دیوان پیش کرنا پروفیسر قمر ساحری کا اعزاز اور کارنامہ ہے۔ان کا یہ کارنامہ اور اعزاز اردو ماہیے کی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہے گا۔
قمر ساحری حیدر آباد سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دکن سے کراچی آکر آباد ہوئے۔ دکنی اردو کا پنجابی اور سرائیکی زبانوں سے قدیمی تعلقی رہا ہے۔ قمر ساحری نے پنجابی ماہیے کو اردو ماہیے میں زندگی دے کر دکنی اردو او ر پنجابی ، سرائیکی زبانوں کے پرانے رشتے کو بھی پھر سے زندہ کر دیا ہے:
باشندہ دکن کاہوں
حرف نکھرتے ہیں
اردو کے وطن کا ہوں
وہ کام کیا ہم نے
دنگ ہوئے سب ہی
دیوان لکھا ہم نے
بلاشبہ قمر ساحری نے اپنے ماہیوں کا دیوان پیش کر کے اردو ماہیے سے دلچسپی رکھنے والوں کو مسرت آمیز حیرت سے دوچار کر دیا ہے۔ خدا کرے ہم سب کی یہ حیرت قائم رہے اور قمر ساحری اردو ماہیے کے میدان میں مزید پیش قدمی کرتے رہیں۔
٭٭٭٭