وہ روز اسکول پڑھانے جاتی اور واپس آکے گھر کے کام کرتی تھی وہ دل و جان سے عزیر اور اپنے بابا کا خیال رکھ رہی تھی
حروش اسکول سے پڑھا کر واپس آرہی تھی جب اسے ایک ٹھیلے پر بہت سے رسالے رکھے نظر آئے اس نے دو ڈائجسٹ خرید ی اسکو گھر آتے آتے دو بج جاتے تھے وہ گھر آتے ہی عزیر کے پاس گئی حروش کے باہر جانے کے بعد تیمور ہی عزیر کا خیال رکھتے تھے ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی تھی وہ ہر وقت اللہ سے معافی مانگتے رہتے تھے جس بیٹی کو وہ بوجھ سمجھتے تھے آج اسی بیٹی نے ان کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا تھا آج اسکو اسکول کی پہلی سیلری ملی تھی جو بہت کم تھی مگر پھر بھی اس نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا وہ عزیر کے کمرے میں گئی تھی وہ سو رہا تھا تیمور اس وقت گھر میں نہیں تھے وہ پریشان ہوگئی تھی اس نے جلدی جلدی کھانا تیار کیا تھا تھوڑی ہی دیر میں تیمور گھر آگئے تھے ان کو دیکھتے ہی حروش نے ہلکے سے پوچھا بابا آپ کہاں چلے گئے تھے ۔بیٹا نماز پڑھنے گیا تھا انہوں نے پیار سے اسکی طرف دیکھا تھا اس کی آنکھیں بھیگ گئیں تھی خدا نے اسکے نصیب پر بھی کن لکھ دیا تھا اسکو باپ کا پیار ملنا شروع ہوگیا تھا اس کو اس چیز سے کوئی مطلب نہیں تھا کہ اسے محنت کرنی پڑتی تھی وہ تو بس اپنوں سے محبت چاہتی تھی
****
اس نے رات میں ہی کپڑے استری کرکے رکھ دیئے تھے اگلے دن جمعہ تھا اسے اسکول بھی جانا تھا
****
اگلے دن تیمور جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد خطبہ سن نے لگے مولوی صاحب بیٹی پر بیان دے رہے تھے ان کے ایک ایک الفاظ پر تیمور کے آنسو نکل رہے تھے وہ گڑگڑاکر اللہ سے معافی مانگنے لگے مگر جب تک اللہ کے بندے معاف نہ کردیں اللہ بھی معاف نہیں کرتا مولوی صاحب کہنے لگے!
جانتے ہو
حضرت موسی علیہ سلام نے اللہ تعالی سے پوچھا یااللہ جب آپ اپنے بندے پر مہربان ہوتے ہیں تو کیا عطا کرتے ہو اللہ تعالی نے فرمایا اگر شادی شدہ ہو تو بیٹی،حضرت موسی نے پھر کہا یااللہ اگر زیادہ مہربان ہو تو اللہ نے پھر فرمایا تو میں دوسری بھی بیٹی عطا کرتاہوں حضرت موسی علیہ سلام نے پھر فرمایا یااللہ آگر سب سے زیادہ بہت زیادہ مہربان ہوتے ہو توپھر تو اللہ پاک نے پھر فرمایا میں تیسری بھی بیٹی پیدا کرتا ہوں
اللہ تعالی فرماتے ہیں جب میں بیٹا عطا کرتا ہوں تو اس بیٹے کو بولتاہوں جائو اور اپنے باپ کا بازو بنو اور جب بیٹی عطا کرتا ہوں تو مجھے اپنی خدائی کی قسم کے میں اسکے باپ کا بازو خود بنوں گا ۔ بیٹیوں سے محبت کرو جس شخص نے اپنی دو یا تین بیٹیوں کی اچھی پرورش کی ان کا خیال رکھا اور ان کا نکاح کیا اس کے نصیب میں جنت ہے۔مولوی صاحب مسلسل بیان دے رہے تھے مگر تیمور کے دماغ میں بس اسکا ماضی چل رہا تھا
****
وہ گھر آئے تو حروش کچن میں تھی چھوٹا سا کچن جہاں دو افراد مشکل سے ہی آسکتے تھے وہ پوری پسینے میں نہائی ہوئی تھی گرمی بھی شدت کی تھی انہوں نے حروش کو آواز دئ جی بابا وہ کچن سے باہر نکل کر ان کی طرف دیکھنے لگی ادھر آئو میرے پاس انہوں نے اسکو اپنے پاس بٹھایا بیٹا آج تک میں نے تمہارے ساتھ جو بھی کیا میں معافی کے قابل نہیں ہوں مجھ جیسا بدنصیب باپ جس نے اپنی اتنی اچھی بیٹی کی قدر نہہیں کی جس نے بیٹی جیسی رحمت سے نفرت کی اسکو بوجھ سمجھا آج میں خود اس رحمت پر بوجھ بن گیا ہوں مگر پھر بھی اپنے باپ کو معاف کردو انہوں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا نہیں بابا آپ ایسا نہیں کریں اس نے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور نیچے زمین پر بیٹھ اپنے بابا کے گھٹنوں پر سر رکھے رونے لگی
*******
وہ رات میں عزیر کے پاس بیٹھی گھنٹوں باتیں کرتی رہی جب وہ سو گیا تو وہ بھی اپنے کمرے میں چل دی گھر میں بس تین کمرے تھے وہ اپنے کمرے میں جاکر بیٹھی اسے بلکل نیند نہیں آرہی تھی اس نے ڈائجسٹ اٹھا کر پڑھنا شروع کی تھی تھوڑی ہی دیر میں اسنے پوری ڈائجسٹ پڑھ لی تھی اسکو خود کو بھی لکھنے کا دل کیا تھا اس نے اپنے بیگ سے کاپی پین نکالا اور کچھ لکھنے لگی ۔
*****
آگلے دن روٹین کے مطابق وہ اسکول گئی اسکول میں بہت کام تھا وہ بہت تھک گئی تھی اسکو تیز بخار چڑھ گیا تھا وہ نڈھال سی لیٹ گئی تیمور نے اسکو دیکھا تو پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے تھوڑی ہی دیر میں اسکو نیند آگئی تھی جب اسکی آنکھ کھلی تو کچن سے کچھ پکنے کی خوشبو آرہی تھی وہ اٹھ کر کچن کی طرف گئی تیمور کچن میں کھڑے کچھ کوک کرہے تھے اور عزیر کچن کے باہر وئیل چئیر پر بیٹھا انہیں گائیڈ کرہا تھا ان دونوں نے حروش کو آتے دیکھا تو چپ ہوگئے بابا بھائی آپ لوگ کیا کرہے ہیں اسنے حیرت سے پوچھا کیونکہ اسے یاد تھا اس کے بابا کبھی زندگی میں اسکے سامنے کچن میں نہیں گئے تھے ہم نے سوچا آج تمہیں کچھ آرام دے دیا جائے انہوں نے مسکرا کر کہا چلیں آپ دونوں باہر جائیں میں بنالوں گی کھانا اس نے ایک نظر کچن میں جھانک کر دیکھا پورا کچن الٹا ہوا تھا اس نے ایپرن پہنا اور کچن میں گھس گئی
****
کھانا بنانے اور گھر کا کام سمئٹنے کے بعد وہ چھت پر آئی تھی چھت کی حالت بہت غیر تھئ اس نے ایک جگہ صاف کی اور وہاں بیٹھ کر آسماں کی طرف دیکھنے لگی ٹھنڈی ہوائیں اسے سکون بخش رہیں تھی اس نے اپنی آنکھیں بند کرکے اپنے اندر سکون اتارا پھر اپنی کاپی اور پین نکال کر اپنی ادھوری تحریر مکمل کرنے لگی
*****
اگلے دن اتوار تھا اس نے مشین لگا کر کپڑے دھوئے تھے جب اسے تیمور کی کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے آواز آئی تھی نرگس نے تیمور کے اسی دوست سے شادی کرلی تھی جس نے تیمور کو بزنس میں دھوکا دیا تھا تیمور سمجھ گئے تھے کہ یہ سب نرگس کی چال تھی جو ان سے انکا سب کچھ چھینا گیا تھا وہ فون کاٹ کر گھر سے باہر نکل گئے حروش نے گھر کا سارا کام کرلیا تھا تیمور بھی گھر آچکے تھے پھر انہوں نے مل کر کھانا کھایا تیمور عزیر کے پاس بیٹھے تھے حروش چھت پر چلی گئی تھی اور اپنی تحریر کا اختتام کرنے لگی
***
اگلے دن وہ اسکول گئی تھی اسکول کے سب ٹیچرز سے اسکی اچھی سلام دعا تھی اس نے اپنی تحریر ایک ٹیچر کو دکھائی جو سیکنڈری میں اردو کی ٹیچر تھیں اسکی تحریر انہیں بہت پسند آئی ایسے کرکے پورے اسکول میں اسکی تحریر پڑھی گئی تھی اسکول کی میڈم نے اسکو مشورہ دیا کہ وہ لکھنا بھی شروع کرےانہوں نے وہ تحریر اپنے پاس رکھ لی
*****
اگلے مہینے وہ اسکول سے خوشی خوشی گھر آئی تھی خواتین کی کسی ڈائجسٹ میں اسکی تحریر بطور افسانہ شائع ہوئی تھی اور آج اسے سیلری بڑھا کے ملی تھی اس نے میڈم کا شکریہ ادا کیا تھا گھر آتے ہی اسنے اپنی تحریر اپنے بابا اور بھائی کو دکھائی پھر ان کی پسند کا کڑاہی گوشت بنانے کچن میں چلی گئی
حروش کی سیلری سے گھر کا خرچ پورا نہیں ہورہا تھا اس لئے عزیر نے گھر بیٹھے ہی آنلائن ٹیوشن دینا شروع کردیا تھا چونکہ وہ پڑھا لکھا تھا اس لئے اسکو کافی رقم مل جاتی تھی اسنے ایک ویب سائٹ بھی بنائی ہوئی تھا جہاں وہ دوپہر میں بچوں کو بلکل مفت قرآن پاک پڑھاتا تھا اس نے اپنی معزوری سے بھی ہمت نہیں ہاری تھی حروش کو دیکھ کر اسکے اندر ایک چمک اٹھی تھی جینے کی ۔اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب اپنی زندگی اللہ کی راہ میں رہ کر گزارے گا
****
تیمور دن بہ دن بیمار ہوتے جارہے تھے حروش اور عزیر ان کے لئے بہت پریشان تھے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہورہے تھے کہ وہ تیمور کا علاج کروا سکیں عزیر نے صائم کو بھی کال کی تھی صائم کے ایک ہفتے پہلے بیٹا ہوا تھا اس نے صاف انکار کردیا تھا کہ وہ اب ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا
****
وہ روز رات میں چھت پر جاکے بیٹھ جاتی تھی اسے تنہائی میں سکون ملتا تھا اسنے کاپئ اور پین اٹھا کر اپنا اگلہ افسانہ لکھنا شروع کیا اس کے دل میں جتنا درد تھا اتنا ہی درد اس کے لفظوں سے نکلتا تھا اس نے وہ افسانہ مکمل کیا تھا اور نیچے جاکر سوگئی تھی اگلے دن وہ اسکول گئی تھی اسکول پہنچتے ہی اسنے اپنا افسانہ میڈم کو دیا ۔۔وہ اخلاق کی بہت اچھی تھی اس لئے اس کو ہر کوئی پسند کرتا تھا میڈم نے اس کی سمجھداری اور اخلاق کی وجہ سے اس کو پرائمری سیکشن کی انچارج بنادیا تھا اسی اسکول میں ایک اور ٹیچر تھے جن کا نام یاسر تھا وہ مزاج سے بہت مزاحیہ تھے وہ حروش کو بہت پسند کرنے لگ گئے تھے عمر میں وہ حروش سے آٹھ سال بڑے تھے اور سیکنڈری سیکشن کو پڑھاتے تھے انہوں نے میڈم سے حروش کے گھر کا ایڈریس لیا تھا اور جلد ہی اپنے گھر والوں کو اسکے گھر بھیجنے کا ارادہ کیا تھا
*****
وہ گھر آکے کاموں میں لگ گئی تھی عزیر اپنے کمرے میں بیٹھا بچوں کو قرآن پاک پڑھا رہا تھا وہ اتنی خوبصورتی سے قرآن پاک پڑھتا تھا کہ پورے گھر میں اسکئ آواز گونجتی تھی تیمور بھی آگے کمرے میں بیٹھے آرام کرہے تھے اتنے میں ہی گیٹ بجنے کی آواز آئی تیمور نے جاکر گھیٹ کھولا سامنے اجنبی سے چہرے تھے
****
حروش بیٹا تم اپنے کمرے میں جائو اور جلدی سے تیار ہوکر آو گیٹ کھولنے کے تھوڑی دیر بعد وہ اسکے پاس آئے تھے کون آیا ہے بابا اس نے حیرانی سے بوچھا تم جائو تیار ہوکر آئو سب پتا چل جائے گا انہوں نے مسکرا کر اپنی پھول سی بیٹی کو دیکھا تھا
***
تھوڑی دیر میں ہی وہ اپنا حلیہ درست کرکے کمرے میں آئی تھی وہ آگے کا کمرہ تھا جو گیٹ سے انرر آتے ہی آتا تھا وہ گھر اتنا خاص نہیں بنا ہوا تھا مگر حروش نے اسکو صاف ستھرا کرکے رکھا تھا بڑا گھر چھوڑتے وقت تیمور نے سارا فرنیچر بھی بیچ دیا تھا بہت کم چیزیں وہ اپنے کمرے میں لائے تھے اسنے اندر آتے ہی سلام کیا سامنے بیٹھے یاسر کو دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی تھی اسے اس طرح کھڑا دیکھ یاسر نے اپنی امی اور بہن سے اسکا تعارف کرایا تھا اسکی امی سادہ سی عورت تھی انہوں نے پیار سے حروش کو اپنے پاس بلایا ماشااللہ بہت پیاری بیٹی ہے آپکی اسکی امی نے تیمور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہمم ماشااللہ سے جس گھر میں بھی جائے گی خوشیاں پھیلادے گی میری بیٹی۔ تیمور نے بے حد پیار سے مسکراتے دیکھا جائو بیٹا چائے بنا کر لے آئو تیمور نے اس کو کچن میں بھیج دیا تھا یاسر کی امی نے انہیں بتادیا تھا کہ وہ حروش کا ہاتھ مانگنے آئیں ہیں تیمور خوش تھے ان کی بیٹی کو اس کے حصے کی خوشی ملنے کا وقت آچکا تھا ۔
*****
ان کے جانے کے بعد تیمور نے حروش کو بلایا تھا وہ ان کے پاس آکے بیٹھی تھی جی بابا جان بولیں اس نے پیار سے ان کی طرف دیکھا تھا بیٹا میں چاہتا ہوں تمہاری شادی یاسر سے کردی جائے اس کی والدہ تمہارا رشتہ لے کر آئیں تھی ان کو اس طرح دیکھ حروش سمجھ گئئ تھی مگر وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی بابا میں شادی نہیں کرنا چاہتی اس نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا کیوں میری گڑیا شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی انہوں نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا انہیں لگا تھا حروش خوش ہوگی مگر وہ رونے لگی تھی بابا میں آپ کو اور بھائی کو چھوڑ کے نہیں جاسکتی ۔۔اس نے روتے ہوئے کہا تیمور کو اپنی بیٹی پر بے انتہا پیار آیا تھا ابھی بھی وہ بس ان کا سوچ رہی تھی نہیں میری گڑیا تم نے ہمارے لئے بہت قربانیاں دی ہیں اتنے احسان نہیں کرو ہم پر کہ خدا روز محشر ہمیں معاف نہ کرے انہوں نے روتے ہوئے کہا تھا بس بابا میں نے آپ کو بول دیا نہ نہیں کرنئ مجھے شادی اس نے تیز آواز سے کہا یہ پہلی بار تھا جب اس نے تیمور سے تیز آواز میں بات کی تھی یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی
****
وہ پوری رات سوئی نہیں تھی وہ اپنے بابا سے دور جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی اتنی آزمائشوں کے بعد اسکو باپ کا پیار نصیب ہوا تھا اور اگر وہ چلی گئی تو اسکے بابا اور بھائی کا خیال کون رکھے گا وہ رونے لگی تھی رات کے کس پہر اسکی آنکھ لگی تھی اسکو نہیں پتا تھا
***
اگلے دن اس نے اسکول جاکے یاسر کو صاف انکار کردیا تھا کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی یاسر نے بہت کوشش کی کہ وہ مان جائے مگر اس کے بابا کی محبت ہر محبت سے بھاری تھی
****
اسکول سے آکر معمول کے مطابق اسنے کام کیا اور مغرب سے پہلے چھت پر چلی گئی آسمان ہلکا ہلکا نیلا تھا پرندے اپنے اپنے گھر جارہے تھے اسے یہ سب دیکھ کر سکون مل رہا تھا اس نے کاپی اٹھا کر سوچ سوچ کر کچھ لکھنا شروع کردیا اسے لکھ کر اچھا لگتا تھا اسنے کبھی کوئی دوست نہیں بنائی تھی کوئی ہمراز نہیں تھا اسکا جس سے وہ دل کی بات کرلے
****
اس مہینے اسکی تحریر شائع نہیں ہوئی تھی وہ اداس ہوئی تھی جب تیمور نے اسکو اداس دیکھا تو اس کے پاس جاکے بیٹھ گئے میری گڑیا کو کیا ہوا انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا بابا میں نے اتنی محنت سے افسانہ لکھا تھا مگر وہ شائع نہیں ہوا اس نے رونی صورت بنائی بیٹا تمہیں ایک کہانی سنائو ں جی بابا سنائیں اس نے آہستے سے بولا ایک چھوٹی سی چیونٹی ہوتی ہے وہ پہاڑ پر چڑھنے لگتی ہے تھوڑا سا چل کر ہی وہ نیچے گر جاتی ہے وہ پھر اٹھتی ہے پھر پہاڑ پر چلنے لگتی ہے مگر وہ پھر گر جاتی ہے ایسے ہی کئی بار ہوتا ہے وہ اوپر چڑھتی ہے اور نیچے گر جاتی ہے مگر وہ ہار نہیں مانتی اور کافی محنت کے بعد بھی وہ ہمت نہیں ہارتی اور آخر کار وہ پہاڑ پر چڑھ ہی جاتی ہے تمہیں بھی چاہئے کہ تم بھی ہمت نہیں ہارو اپنی کوشش جاری رکھو حروش بہت غور سے ان کی بات سنتی ہے وہ سوچ لیتی ہے کہ وہ ہمت نہیں ہارے گی
*****
اگلے مہینے ڈائجسٹ میں بیسٹ ناول کمپیٹیشن تھا حروش بہت محنت کرکے ایک ناول لکھتی ہے ناول لکھتے وقت کئی بار اسکے زہن میں یہ خیال آیا کہ وہ نہیں لکھ پائے گی لیکن اسکو ہر بار اس چیونٹی کی کہانی یاد آجاتی تھی اور وہ پہلے سے زیادہ محنت کرتی ہے
*****
آگلے مہینے اس کی برتھ ڈے تھی اسکی پیدائش کے دن سے اس کے لئے ایک دکھ جڑا تھا جو وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی
****
اس نے ناول لکھ کے اسکول کی میڈم کو دے دیا تھا کیونکہ گھر میں تو کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کام میں اسکی مدد کر سکتا ہر کام کے لئے اللہ نے کسی نہ کسئ کو وسیلہ بنایا تھا وہ جانتی تھی قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے اکثر لوگ لکھنے کو بہت عام اور بورنگ کام سمجھتے ہیں مگر حروش کو یہ ثابت کرنا تھا کہ جو کام تلوار نہیں کر سکتی وہ کام قلم کرسکتا ہے
****
نرگس نے اپنی ساری دولت جو اسنے تیمور سے دھوکے سے حاصل کی تھی تیمور کے اسی دوست محمود جس نے تیمور کو دھوکہ دیا تھا اس کے سپرد کردی تھی تیمور کی نظروں کے نیچے ان دونوں کا کافی ٹائم سے افئیر چل رہا تھا نرگس نے تیمور کو استعمال کیا تھا مگر وہ بھول گئی تھی کہ جیسا کیا جاتا ہے ویسی بھرا جاتا ہے محمود نے بھی نرگس کو اپنے کام کے لئے استعمال کیا تھا اس نے نرگس سے ساری دولت اپنی طرف کرلی تھی اور نرگس کو طلاق دے دی تھی اب برباد ہونے کی باری نرگس کی تھی کیونکہ اپنے گناہوں کئ سزا ہر کسی کو اس دنیا میں ہی بھگت کر جانی ہے
*****
آج حروش کی برتھ ڈے تھی اس نے اپنی دادی کے ایصال ثواب کے لئے قرآن پڑھا تھا شام کو تیمور اس کے لئے کیک لائے تھے عزیر تیمور اور حروش نے مل کر کیک کاٹا تھا حروش بیس سال کی ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر میں گیٹ بجا تھا تیمور گیٹ کھولنے گئے تھے جب وہ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک پارسل تھا جس پر سفید رنگ کا اسٹیکر لگا ہوا تھا جس پر بڑا بڑا”حروش تیمور” لکھا ہوا تھا اس نے حیران پریشان وہ پیکٹ کھولا اس نے ناول مقابلے میں تھرڈ پوزیشن حاصل کی تھی پیکٹ کے اندر کچھ کتابیں اور کچھ پیسے بھی تھے اسکی محنت رنگ لائی تھی
****
اس نے آہستہ آہستہ لکھنا شروع کیا تھا اس کا لکھا ہوا لوگ بہت پسند کرتے تھے تھوڑے ہی ٹائم میں وہ مشہور رائیٹر “حروش تیمور” بن گئی تھی معمول کے مطابق گھر کا کام اور اسکول کے کام نمٹاکر وہ لکھنے کے لئے ضرور ٹائم نکالتی تھی اس کے ناول اور افسانے کئی ڈائجسٹ میں چھپنے لگ گئے تھے اس نے آنلائن لکھنا بھی شروع کردیا تھا
****
ماہا نے باہر ملک جاکر پیسے والے لڑکے سے شادی کرلی تھی
مگر وہ ماہا پر بلکل توجہ نہیں دیتا تھا اس کے شوہر کا کافی لڑکیوں سے افئیر چل رہا تھا آگر ماہا اس سے کچھ بولتی تو وہ اسکو مارتا پیٹتا تھا ماہا کو عزیر کی محبت یاد آتی تھی کہ وہ کس طرح اس پر جان نثار کرتا تھا ماہا کو بھی اسکے کئے کی سزا مل چکی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...