’داستان اردو والے نواب صاحب‘ سے مشہور، قومی ہمدردی اور رفاہ عام کے فطری جوش و خروش سے شرابور نصیر حسین خان خیال کی حیثیت رجل عبقری کی تھی۔ اوائل عمری سے ہی روشن خیال، قوم و ملت کے بہی خواہ، اصلاحی اور ادبی مزاج نیز حکیمانہ دور اندیشی کے حامل تھے۔ اولاً تو انھوں نے زبان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور کوشش کی کہ ہندوستان کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں اردو کو اس کا جائز مقام حاصل ہو سکے اور اس کی شناخت ملکی زبان کی حیثیت سے قائم کی جا سکے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ بہار کے شرفا و نجبا ہی نہیں، سبھی مسلمانوں کے درمیان عام طور پہ مستعمل ہونے والے الفاظ بے کم و کاست اردو میں استعمال کیے جائیں یہاں تک کہ انھیں ٹکسال کا درجہ حاصل ہو جائے۔ ایسے الفاظ بھی ان کی نگاہوں میں تھے جن کا رواج ان طبقاتی گروہوں کے درمیان تھا جن سے معاشرتی ربط ضبط رہا کرتا تھا۔ انھوں نے اردو دانوں کی اخلاقیات کو مہمیز کرنے کی کاوش بھی کی، یہ احساس بھی دلاتے رہے کہ اردو کو ’ملکی زبان‘ کی شناخت عطا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں ملکی بو باس بھی رہے۔ اسی کے تحت ان کی یہ کوششیں بھی رہیں کہ اردودانوں کے درمیان غزل گوئی اور مشاعروں کی بے سود، فرسودہ اور نقصان دہ روایات ختم ہوں اور نثر نگاری کی ایسی روش پروان چڑھے جو معاصر علمی تقاضوں اور معاشرتی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ہی اپنی روایات سے مربوط رہنے کا سلیقہ بھی عطا کر سکے۔ اس کے لئے ہی انھوں نے یہ بھی چاہا کہ فارسی کے اثر سے اردو اس طرح آزاد ہو جائے کہ اردو شاعری کی نازک خیالیاں خود کو ایک متحرک، موثر قوت میں تبدیل کر سکیں جن سے معاشرتی فلاح کا کام لیا جا سکے، اور مشاعروں کی آہ واہ کی بجائے غور و فکر کی صلاحیتوں کی نشو و نما ہو سکے۔
ثانیاً، انھوں نے مسلمانوں کو ان کے درمیان بالعموم موجود ان خرافات سے دور رہنے کی بار بار تلقین کی جن سے ان کے اخلاق و کردار مجروح ہو رہے تھے۔ انھوں نے بالخصوص شیعہ فرقہ میں پرورش پا رہے ان نقائص کو دور کرنے کی سعی کی جنھیں وہ نئے زمانوں کی اختراع یا بدعتیں سمجھتے تھے۔ اپنے بزرگوں کی ہی مانند شیعہ سنی تنازعات ختم کرنے کی کاوشیں بھی کرتے رہے۔ ان تمام معاملات میں ایسے راست گو اور سخت گیر تھے کہ انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ ان کا مخاطب کون ہے یا یہ کہ ان کی باتوں کا کیا رد عمل ہو سکتا ہے۔ ان کے کسی بیان کی مخالفت کی جاتی تھی تو خوش ہوتے تھے اور اسے مسلمانوں کی نیند سے بیداری کی علامت بھی کہتے تھے۔ تحریر و تقریر میں اپنی سخت مزاجی کی خود انھوں نے حمایت بھی کی ہے اور لکھا ہے کہ گہری نیند میں ڈوبی ہوئی قوم کو جگانے کے لئے جھنجھوڑنے کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں۔ اس سے اس میں تلملاہٹیں تو ہوں گی لیکن اسے گہری نیند سے جاگنے کی علامت مانا جائے گا۔
ثالثاً، خیال نے ملک گیر پیمانے پر مسلم ہندو اتحاد کے قیام اور اعتماد کی فضا بحال کرنے کی بھی حتی المقدور کاوشیں کیں۔ اس کے لئے انھوں نے اردو زبان و ادب کے آغاز و ارتقا کو بنیاد بنا کر ایسے تصورات پیش کیے جن سے زبان اردو کا سرزمین ہند سے ازلی ناطہ استوار کیا جا سکے۔ مسلمانان ہند کی تعلیمی بیداری اور معاشرتی فلاح کے لئے انھوں نے غیر مسلموں سے رشتوں کی استواری کو ناگزیر تصور کیا۔ اسی ذہنی رجحان کا نتیجہ تھا کہ بنگال میں مسلم لیگ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرنے کے باوجود لیگ کی سرگرمیوں سے محض اس بنا پر الگ ہو گئے کہ اس نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان دوریاں بڑھانی شروع کر دی تھیں۔ اس عہد میں کہ جب مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تلخیاں بڑھتی جا رہی تھیں، مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنی علیحدہ شناخت قائم کرنے پہ آمادہ تھا اور ہندوؤں میں بھی مسلمانوں کے تئیں نفرتوں کے لاوے ابلنے لگے تھے، خیال نے دونوں ہی کو قومی یکجہتی کا بے مثال درس دیا۔ خیال کے ماموں حضرت شاد عظیم آبادی نے جب ہندوستانی رزمیوں اور برادران وطن کے خداؤں کو اپنا موضوع بنایا تھا تو نشانۂ ستم بن گئے تھے اس کے باوجود خیال نے اسی موروثی نقش قدم کو نشان راہ بنائے رکھا۔ کم از کم اس معاملے میں وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے برملا اور اعلانیہ ہی نہیں فخر کے ساتھ یہ کہا کہ اردو کی اخلاقی شاعری (یعنی مرثیہ) کو قدیم ہندوستانی رزمیوں سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ سنسکرت شعریات، اردو شاعری پہ اس کے اثرات اور مراثی کی ہندوستانیت ایسے موضوعات ہیں جن پہ خیال کے بیانات زمانی اعتبار سے شرف اولیت کے حامل ہیں۔ انھیں اس معاملے میں شاد کا ہمنوا بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ اردو تنقید کا ایسا پہلو ہے جس پہ بعد ازاں قابل قدر کارنامے منظر عام پر آئے۔
خیال نے اردو کو آریائی نہیں بلکہ غیر آریائی یعنی دیسی زبان کہا ہے جس سے ان کی یہ مراد ہے کہ اردو سرزمین دگر سے آئے آریوں کی نہیں بلکہ ان دیسیوں کی زبان ہے جو آریوں سے بھی قبل ہندستان کے باشندے تھے۔ انھیں وہ غیر آریا کہتے ہیں، اور اس لحاظ سے اردو ان کی نگاہ میں غیر آریائی یعنی خالص دیسی زبان ہے۔ مراثیِ انیس اور ہندوستانی رزمیے اس زمین کی وہ تخلیقات ہیں جن سے اخلاق و کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان کے سامنے دوسری تمام شاعری ہیچ ہے۔ انیس اور مرثیہ نگاری ان کے محبوب موضوعات تھے۔ اردو شعر و ادب میں مراثیِ انیس کے ذریعہ عام کی جانے والی اخلاقیات، اردو والوں کے مزاج کی اس اخلاقی تشکیل اور اس میں مضمر معنوی سبیلوں کو انھوں نے تاریخ اردو کی داستان سرائی کے وقت بھی سامنے رکھا، اپنے خطبات و مضامین اور مکتوبات میں بھی۔
رابعاً، خیال کی مختلف تحریروں، ان کے مکاتیب اور ان کے سلسلے میں ان کے بعض معاصرین کی تحریروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خیال کی قلمکاری کا مقصد کبھی بھی ادیب بننا یا کہلانا نہیں رہا۔ وہ ادب کو اصلاحی اور مقصدی بنائے جانے پر ہی مصر رہے۔ ان کی کم و بیش تمام تحریریں اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں کہ انھوں نے مختلف ادوار میں جن منازل مقصود کو پیش نظر رکھا تھا ان کے ہی مطابق موضوع اور زبان کا استعمال بھی کیا۔ جب مذہبی امور میں اصلاح کی خاطر کمر بستہ ہوئے تو ان کی زبان عالمانہ رہی، جب عوام الناس سے مخاطب ہوئے تو ان کی زبان میں عوامی رنگ و آہنگ موجود رہا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے شاد عظیم آبادی کی مثنوی ’مادر ہند‘ کی تقریب میں لکھا تھا کہ
’شاد اور خیال میرے نزدیک بہار کے انیس اور آزاد ہیں۔ شاد کے مراثی اور اس کے متعلقات بلندی اور روانی میں انیس کی سحر کاریوں سے تقابل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف آزاد نے فارسی الفاظ اور ترکیبوں سے اردو میں جو نیرنگ کاری کی ہے اس کا جواب اب تک اردو ادب میں نہیں ہوا۔ خیال نے ہندو روایات اور ہندو کلاسیکس (ادبیات عالیہ) کو اردو میں جس طور پر سمویا اور اجاگر کیا ہے وہ بھی اپنی نظیر آپ ہے۔‘ (1935، 14)
جب علمی یا ادبی مسائل پہ غور و فکر کا موقع آیا تو زبان میں اسی انداز سے ادب کی چاشنی ملی۔ ظریفانہ تحریریں بھی پیش کیں تو الفاظ کے انتخاب اور اسلوب کی نیرنگی کا نیا سلیقہ ہی سامنے آیا۔ ان کی انشا کا کمال یہ ہے کہ ادق مذہبی، معاشرتی اور ادبی موضوعات بھی دلچسپ انداز بیان میں یوں پیش کئے گئے ہیں کہ لطف بیان کے ساتھ ہی مقصد کی بار آوری بھی ہو سکے۔ حسرت نے لکھا ہے کہ
’زبان کے معاملہ میں وہ لکیر کے فقیر نہیں تھے بلکہ کہیں کہیں عام اصول و قواعد سے انحراف بھی کر جاتے تھے۔ داستان اردو کا مسودہ پہلی مرتبہ میری نظر سے گزرا تو اس میں کئی ایسی ترکیبیں نظر آئیں جو قاعدہ کی رو سے غلط تھیں۔ مثلاً بعض جگہ انھوں نے فارسی اور بھاشا کے الفاظ کو آپس میں ترکیب دے کر کوئی اصطلاح گھڑ لی ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ’نواب صاحب فارسی اور بھاشا کے الفاظ میں عطف و اضافت قاعدہ کے رو سے غلط ہے‘۔ کہنے لگے۔ ’اتنا تو میں بھی جانتا ہوں لیکن تم نے دیکھا نہیں میں نے بھاشا کے جن الفاظ کو فارسی سے ترکیب دیا ہے وہ باعتبار صوت فارسی سے بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک ایسے الفاظ کو باہم دگر ترکیب دینے میں کوئی ہرج نہیں‘۔ (حسرت 1939، 47-48)
خیال کے موضوعات خالص ادبی یا درسی ضروریات کے تحت لکھے جانے والے مقالوں یا مضامین جیسے نہیں تھے۔ انیس و دبیر کو موضوع بنائیں، یا شاہنامہ اور زردشت کو یا کسی بھی مذہبی مسئلہ کو، ان کی نگاہ ہمیشہ ان لوگوں پہ رہی جو ادبی موضوعات و اسالیب کے تکلفات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ جب کسی کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے تو اپنے نکات کی وضاحت اس شرح و بسط سے کرتے ہیں کہ عام قارئین بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ اس کی درخشاں مثالیں ’داستان اردو‘ کے مختلف اجزا، میر انیس کے حوالے سے ساتویں پشت سے متعلق ان کی بحث، اور ’شاہنامہ‘ میں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب میں حکیمانہ تدبر، ناصحانہ قصد، اور خطیبانہ آہنگ کی آمیزشیں ملتی ہیں۔ ابتداءً ان کا اسلوب فارسی زدہ بھی تھا۔ حسرت نے ہی ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جس سے علم ہوتا ہے کہ خیال نے زیادہ دنوں تک اس اسلوب کو نہیں اپنایا۔ بہت ہی جلد انھوں نے ایسی ہندی آمیز نثر کا استعمال شروع کر دیا جس میں دیسی بہاری الفاظ اور اصطلاحیں جگہ بنانے لگیں۔ ان کی مکمل تحریروں میں پر تکلف یا مرصع و مسجع عبارتیں برائے نام ہی ہیں۔ ان کی انشا کا کمال یہ ہے کہ اس میں شوخی اور سنجیدگی کی پر تاثیر آمیزشیں موجود ہیں۔ خالص علمی یا تاریخی موضوعات پر لکھنے کے دوران بھی ان کے مزاج کی بذلہ سنجی اور تمکنت دونوں ہی خاصۂ تحریر رہتی ہیں۔ اسلوب کی شگفتگی ان مقامات پہ مزید نکھر جاتی ہے جہاں وہ کسی معاملے میں مخاطب یا اپنے قارئین کو قصداً چھیڑنا چاہتے ہیں۔ یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ روایتوں سے الگ کوئی نئی بات یا نیا پہلو پیش کریں۔ ایسی صورت میں کسی نئی تحقیق کی جلوہ افروزی کی بجائے مقصد بس یہ ہوتا کہ ان کی باتیں سنی جائیں اور ان کا پیغام سمجھا جائے۔
نصیر حسین خیال کی تین مطبوعہ کتابیں ہیں: ’مغل اور اردو‘، ’داستان اردو‘ اور ’داستان عجم‘۔ ان کے علاوہ مضامین ہیں جو وقتاً فوقتاً رسائل میں شائع ہوئے۔ خیال کی خطابت کی چند مثالیں اور مکتوبات بھی ہمارے پیش نظر ہیں۔ ان میں سوانحی تحریر ’تزک خیال‘ بھی شامل ہے۔ یہ ایسی تحریریں ہیں جن میں خیال نے اپنی نثر کو علمیت کے وقار اور افادیت کے پہلوؤں سے مملو کرتے ہوئے ایسے اہم نکات پیش کیے ہیں جن کا براہ راست تعلق زبان و ادب اور معاشرت سے ہے۔ یہ خیال کا کل اثاثہ ہے۔ بہار و بنگال ہی نہیں، بر صغیر میں اردو نثر بطور خاص علمی نثر اور انشا پردازی کے فروغ میں خیال کی خدمات کے تعین کے دوران ان سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
قدوس صہبائی کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ نواب نصیر حسین خیال مولانا شبلی نعمانی مرحوم، خواجہ الطاف حسین حالی، مولانا عبد الحلیم شر ر، مولانا محمد حسین آزاد، ڈاکٹر نذیر احمد اور مولوی ذکاء اللہ کے کم عمر ہم عصر اور پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم، مولانا عبد الماجد دریا آبادی، بابائے اردو مولوی عبدالحق، عبدالقادر مرحوم، منشی دیا نرائن نگم، مولانا اسمٰعیل میرٹھی اور منشی سجاد حسین کے ہم مرتبہ اور ہم عصر تھے لیکن اردو زبان و ادب کی مسلمہ تاریخ میں مشکل ہی سے ان کا ذکر ملتا ہے۔ اور اگر کسی نے ذکر کیا بھی تو، بجز ایک دو اصحاب کے، مولوی محمد حسین آزاد کے پس منظر میں۔
’جن نقادوں اور اردو کے محققوں نے نواب نصیر حسین خیال پر کچھ لکھا ہے ان میں سے اب تک میری نظر سے چار یا پانچ مضمون گزرے ہیں اور ان میں بھی نواب موصوف کے اصل مقام اور طرزِ نگارش و اسلوب کے متعلق مفصل بحث نہیں کی گئی ہے لیکن ہر لکھنے والے نے یہ قدرِ مشترک تسلیم کی ہے کہ زبانوں کی تاریخ میں جب تک اردو زبان کا نام باقی رہے گا، نصیر حسین خیال کا نام بھی ایک بے مثل ادیب کی طرح ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بالاتفاق رائے یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ نواب ایک منفرد اور مخصوص طرزِ تحریر کے مالک تھے اور اب تک مشکل ہی سے اس اسلوب اور طرزِ انشا پردازی میں لکھنے والا کوئی ادیب پیدا ہوا ہے۔ ان کی ایک اہم خصوصیت یہ سمجھی گئی ہے کہ وہ اپنے مضمون کے لئے جو موضوع تلاش کرتے تھے اس کی نوعیت کے مطابق الفاظ استعمال کرنے پر انھیں بڑی قدرت حاصل تھی۔
حسن ترتیب ان کے مضامین کی دوسری سب سے بڑی خصوصیت تھی۔ اس احساس توازن سے ان کی تحریروں کا حسن دوبالا ہو گیا ہے۔ الفاظ کی شوخی اور بانکپن کے باوجود عبارت میں بے انتہا سادگی اور روانی ایک پڑھنے والے کو پوری طرح محویت اور جذبیت کے عالم میں پہنچ جانے سے نہ روک سکتی تھی۔ نواب خیال کی سب سے بڑی خوبی یہ سمجھی گئی ہے کہ وہ ٹھوس اور خالص علمی موضوعات اور لطیف طنز اور ظرافت پر یکساں عبور رکھتے تھے۔‘ (صہبائی 1955، 39)
چونکہ نصیر حسین خاں خیال کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے اس لئے ان کی فکری جہات اور انشا پردازی پر محض ’مغل اور اردو‘ کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ نا مناسب ہے۔ ’داستان اردو‘ سے متعلق تمام دستیاب تحریروں میں خیال نے خود ہی واضح طور پہ لکھا ہے کہ یہ ان ہزار برسوں کی ثقافت کا بیان ہے جس نے اردو کی پیدائش اور نشو و نما کے لئے ہندوستان میں زمینیں تیار کیں۔ لہذا زبان اردو اور اس کے شعر و ادب کو اس سرزمین سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان میں یہاں کی قدیم روایتیں اس طرح گھلی ملی ہیں کہ ان سے الگ ہو کر یہ اپنی شناخت کھو دیں گی۔ ان کا خیال ہے کہ آریوں کا تمدن بھی اہم ہے، رامائن کی روایتیں اور مغلوں کی ادب نوازیاں بھی۔ ان سب نے مل جل کر زبان و ادب کی شیرازہ بندی کی ہے۔ ان کتابوں میں پیش کردہ نظریات اور شعری مثالوں پہ اعتراضات اور ان سے اختلافات کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان سے خیال کے موقف یا ان کی انشا پردازی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ انھوں نے ان تصانیف میں عصری معاملات پر تبصرے بھی کیے ہیں، کہیں کہیں تحقیق اور تنقید کے اجزا کی بہترین آمیزشیں بھی پیش کی ہیں۔
در حقیقت خیال کی انشا پردازی معاصرین یا متقدمین میں سے کسی سے بھی براہ راست متاثر نہیں ہے۔ وہ محمد حسین آزاد اور ابو الکلام آزاد دونوں ہی سے مختلف اور منفرد اسلوب نگارش کے مالک تھے۔ جو بھی لکھتے تھے اس میں روایتوں کی پیروی نہیں کرتے تھے، خالص ادبی معیار اور اپنے مخاطب کا لحاظ رکھتے تھے۔ کے بغیر تنقیدی موقف میں شدت و حرارت پیدا نہیں ہو سکتی۔ ایسے موقعوں پر کہیں کہیں انھوں نے موضوع اور اس کی پیشکش دونوں ہی معاملوں میں امتیازی شناخت قائم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
گرچہ ’داستان اردو‘ اور ’مغل اور اردو‘ کی تصنیف بھی ایک واضح مقصد رکھتی تھی، ’داستان عجم‘ اور خیال کے مضامین انھیں متذکرہ دونوں تصانیف سے الگ ایک نئی شناخت عطا کرتے ہیں۔ انھوں اپنے اصلاحی نقطۂ نظر سے معاشرتی فلاح کی غرض سے زبان کے تخلیقی استعمال کی خوبصورت مثالیں پیش کی ہیں اور مضامین، تقابلی مطالعوں، خود نوشت، مکاتیب اور انشائیوں میں اپنی مجتہدانہ اختراعی طبیعت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ان کے یہاں موضوعات اور موقع و محل کے لحاظ سے زبان کے استعمال کی مثالیں موجود ہیں۔ وہ صاحب طرز نثر نگار اور متنوع اسلوب نگارش کے مالک تھے۔ ان کے یہاں سنجیدگی بھی ہے، شوخی و شگفتگی بھی، وقار و تمکنت بھی۔ داستان اردو سے متعلق اردو کی ابتدا اور فروغ، دیگر زبانوں اور قوموں سے اردو کے رشتوں پر مبنی مطالعے، مطبوعہ کتابوں کے کئی حصے اور زیادہ تر مکتوبات ایسے ہیں جن میں ان کے اس ادبی تنقیدی شعور کی نشانیاں موجود ہیں جس کا تعلق شعر و ادب کے ثقافتی مطالعات سے ہے۔ حکیمانہ بصیرت، التقاطی رجحان، شعر و ادب کو ثقافتی نقاد کی حیثیت سے دیکھنے پرکھنے کا طریقۂ کار، حب وطن، انسان دوستی، تعمیری شعور، آزاد خیالی اور اخلاقیات کا فروغ ایسے عوامل ہیں جن سے خیال کی نثرنگاری کی امتیازی شناخت قائم ہوتی ہے۔
نصیر حسین خیال جس طرح اپنی زباندانی، لیاقت، امارت و ثروت اور خاندانی جاہ و حشمت کی بنیادوں پر ملک گیر سطح پر تعلقات قائم کرتے ہوئے اردو کے فروغ اور اسے اس کا جائز حق دلانے کے لئے تا عمر سرگرم رہے اس کی مثالیں عظیم آباد کی تاریخ میں کم ملتی ہیں۔ حافظ ظہیر احمد شمسی کا یہ بیان توجہ کا متقاضی ہے کہ خیال کے منفرد اسالیب نگارش تھے جو ان کے خطبوں، انشائیوں، ادبی مضامین اور مکتوبات میں الگ الگ نوعیتوں میں نمایاں ہوئے ہیں۔ ان میں زبان کے اختراعی استعمال کے ساتھ ہی شوخی و بذلہ سنجی بھی ہے، لطیف طنز کی آمیزش بھی۔ وہیں ادبی مضامین میں تخلیقی نثر کی تمام خوبیاں، اور مکاتیب و خود نوشت میں سلیس و سادہ نثر کی خوبصورتیاں موجود ہیں جن کی مثالیں پچھلے صفحات پہ پیش کی جا چکی ہیں۔ ظہیر احمد شمسی نے ’داستان عجم‘ میں لکھا ہے کہ:
’خیال کا قلم مناظر قدرت کا آئینہ رو نما ہونے کے بجائے خوردبین کا شیشہ تھا۔ اس نے مرقع سخن میں صرف رنگ بھرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ فطرت کی کوتاہیاں ابھار ابھار کر دکھائیں اور اس کے ایک ایک رنگ میں سو سو رنگ بھرے، اسی سلسلہ میں اگر یہ اور اضافہ کر دیا جائے تو شاید بیجا نہ ہوکہ صدق جذبات اور جدتِ ادا خیال کے سوا آزاد میں موجود ہی نہیں۔ نازک خیالی اور آرائش سخن میں البتہ آزاد ان کے شریک ہیں مگر شریک غالب نہیں۔ دونوں کی تخئیل کا میدان مختلف ہے، آزاد کی نازک خیالی کی بنیاد تاثرات قلب پر ہے۔ اور خیال کی تخئیل کی بنا حقائق کونیہ اور معارف روحانیہ پر۔ خیال میں ایک طرف نازک خیالی کے جلوے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف معاملہ بندی کے۔ گویا وہ ایک ہی وقت میں ابو الکلام آزاد کی طرز کے بھی مالک ہیں اور محمد حسین آزاد کے انداز میں بھی ماہر ہیں۔ ان کی تحریر کی شگفتگی میں کیفیت بھی ہے اور کمیت بھی۔ بلاغت بھی ہے اور فصاحت بھی۔ خیال کی مجتہدانہ اختراعوں نے اردو کی سلاست میں اشکال پیدا نہیں کیں اور مجموعی طور پر وہ نہایت دل پسند اور مفید ہیں بلکہ انصاف یہ ہے کہ آزاد کی ترکیبوں سے شوخ تر ہیں۔ کلام میں کہیں کہیں ترجیع و تقابل کی بدولت گبنGibbon اور مکاؤلے Macaulay کی شان نظر آتی ہے۔ خیال کی مجتہدانہ ایجاد پسندی اور لا ابالیانہ وارستہ مزاجی اتنی مہلت دیتی تو اس میں شک نہیں کہ ادب اردو کے نثاروں میں ان کا جواب نہ ہوتا۔ …… انھوں نے اردو میں سر سید، شبلی، حالی، آزاد کسی کی پیروی نہ کی بلکہ اپنی راہ دنیا سے الگ نکالی۔‘ (1935، 3)
خیال بنیادی طور پہ اس تہذیب کی زندہ علامت بھی تھے جو عظیم آباد جیسی مردم خیز بستیوں کی ویرانی کے بعد خواب و خیال بن کر رہ گئی تھیں۔ اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مظفر حسین شمیم نے یہ اظہار خیال کیا تھا کہ:
’نواب خیال جس دودمان عالی کے چشم و چراغ ہیں وہ دو سو برس سے گیسوئے اردو کی شانہ کشی میں مصروف ہے۔ یہ خانوادہ بجائے خود اردو کی ٹکسال ہے اور اس ٹکسال کے ڈھلے ہوئے سکے آج اردو بازار میں بے لاگ چل رہے اور منہ مانگے دام پا رہے ہیں۔ نواب صاحب نے جن محفلوں کو دیکھا اور برت چکے ہیں انھیں دیکھنے والی آنکھیں اب بھی مشکل ہی سے دکھائی دیتی ہیں اور وہ بھی آج کل میں بند ہونے والی ہیں۔ یہ جناب جو اردو لکھ رہے ہیں وہ محض اردو نہیں بلکہ اردوئے معلی ہے۔ ہر لفظ ایک نگینہ ہے کہ انگوٹھی پر جڑا ہوا ہے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں میں چکا چوند کا عالم پیدا کر رہا ہے۔ نواب صاحب جن موتیوں کو رول رہے ہیں ان کے پرکھنے والے جوہری بھی اب خال خال ہی نظر آتے ہیں چنانچہ امید نہیں کہ خاکدان ہند سے ایسا کوئی آسمان جاہ ادیب اٹھے گا یا اس مینو سواد میں پھر کوئی ایسا مینا نگار پیدا ہو گا۔ حق یہ ہے کہ یہ مینا نگاری اور مرصع کاری اسی کی ذات پر ختم ہوئی۔ وجہ اس کی ظاہر ہے۔ جس چمن کا یہ طائر چمن زاد ہے اس کی بہار گردش روزگار کے ہاتھوں خزاں ہو گئی اور جس بازار کا یہ بے بہا گوہر ہے وہ فلک کج رفتار کے ہاتھوں تاراج ہوا۔ جس کارواں کا یہ کارواں سالار ہے وہ مغربی تہذیب کی طوفان بد تمیزی کی لپیٹ میں آ کر کب کا لٹ چکا اور اب یہ یوسف بے کارواں محض کاروان شوق لیے منزل کی طرف قدم بڑھائے چلا جا رہا ہے۔
نواب خیال جس رنگ کو نبھا رہے ہیں اسے نبھانے ولا اب پورے ملک میں کوئی نظر نہیں آتا۔ اس وقت اردو کی اجڑی ہوئی محفل میں کچھ رونق سی نظر آتی ہے وہ نواب خیال کے دم سے ہے اور خیال کے بعد یہ بات بھی خواب و خیال ہے۔‘ (داستان اردو 1934، 6)
خیال نے جا بجا اپنی تحریروں، تقریروں اور مراسلوں میں اپنی ’ادب گردی‘(خیال کی اصطلاح) کے حوالے سے جو کچھ عرض کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے۔ اس قسم کے ادب کے دلدادہ بھی نہیں تھے جو معاشرتی بوقلمونیاں پیش نہ کرتا ہو۔ انجم مانپوری کے نام لکھے مکتوب کا نقل ذیل پورا حصہ خیال کی زندگی، ان کے مقاصد زندگی، ان کی جد و جہد اور حاصل جد و جہد کی مکمل ترجمانی کرتا ہے:
’مجھے بہار ہی نہیں، اس ملک سے، اور مسلمانوں ہی سے نہیں، ہندوؤں سے بھی نا امیدی ہے کہ وہ ہمارے درد کا درماں ہو سکیں ! انھوں نے اب تک اس ملک کے اصلی مرض کو نہ سمجھا اس لئے اسے الٹی دوائیں دی گئیں اور دی جا رہی ہیں۔ قومیں جب اپنی روایتیں بھول جاتی ہیں تو پھر اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتیں۔ یہی ہمارا حال ہے۔ اس سو برس کے اندر ہم نے خود کو کھو دیا۔ 1856ء سے باضابطہ طور پر یہاں انگریزی رائج کی گئی۔ ہمارے علوم و زبان کو کچلا گیا، اور ولایت سے وہ مال ہم تک پہنچایا گیاجو ہمارے مزاج کے موافق نہ تھا۔ غلط دوا جسم و جان کی دشمن ہے۔ سو برس کے اس لگاتار انجکشن نے ہمارا خون پانی کر دیا۔ اب ہم میں رہا کیا جو ہم ایستادہ ہو سکیں ؟ 16ءمیں اس مرض کو بتایا گیا اور اس کا درماں تجویز کر دیا گیا تھا۔ مگر تجربہ نے ثابت کیا کہ ملک و قوم اب تک شاعر مزاج ہے۔ ایک فوری کیف حاصل ہو جانے کے سوا اور غرض نہیں رکھتی۔ سترہ سال کے بعد بھی یہی نتیجہ ظاہر ہوا۔ اردو کانفرنس(16ء) کے ایڈرس کو جس طرح اس وقت غلط سمجھا گیا تھا اسی طرح اس وقت بھی ’مغل اور اردو‘ کو اور نظرسے دیکھا گیا۔ اور امید نہیں کہ اسے صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔ وجہ؟ موجودہ تعلیم نے ہمارے قوائے عقلی کو شل کر دیا ہے۔ مفلوج دماغ کیا کر سکتا ہے ؟ اس مسئلہ کو ذرا وضاحت سے ’مغل اور اردو‘ کے اخیر باب میں بیان کر دیا گیا ہے۔ مگر حاصل؟ مجھے بہت شبہ ہے کہ سو میں ایک نے بھی اس پر نظر کی۔ جہاں دماغ ہی پیدا نہ ہوں، وہاں طبیب کیونکر پیدا ہو سکتے ہیں ؟! یاد رکھنا چاہیے کہ غلامی اصل ذہنیت کی غلامی ہے۔ قومیں مفتوح ہوتی اور آزاد بھی ہو جاتی ہیں۔ مگر اگر ان کی ذہنیت مغلوب ہو گئی تو وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتیں۔ عربوں نے ایران کو فتح کیا مگر چونکہ ایرانیوں نے اپنی زبان کو مفتوح نہ ہونے دیا اس لئے وہ حقیقی طور پر کبھی مغلوب نہ ہوئے۔ بلکہ دو صدی کے اندر وہ اپنے فاتحین پر قبضہ کر بیٹھے۔ اور پھر اپنے پیر پر کھڑے ہو گئے۔ شاہنامہ پر میں نے وہ تبصرہ اسی غرض سے کیا تھا کہ قوموں کے عروج و زوال کے سبب کو سمجھا جا سکے۔ اس تبصرہ کو دو ہزار آدمیوں نے ہماری زبان سے سنا اور اس سے زیادہ حضرات نے اسے پڑھا۔ لیکن کے صاحبوں نے ہمارے مقصد کو سمجھا؟ مجلسوں اور مشاعروں کی طرح سر بھی دھنے گئے، مگر نتیجہ نہ نکلا۔ دماغوں میں گودے کے عوض جہاں بھوسا بھرا ہو وہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ غرض میں اکثر چیزیں پیش کر دیتا ہوں کہ وہ ہمارے جسم و جان کی صحیح غذا ہو سکیں۔ لیکن دماغ تیار نہیں۔ کیا کیا جائے ؟ میں نے ۵۳ برس اردو ہی کی نہیں، دماغوں کی خدمت کی ہے۔ 21ء میں ’خالاؤں کا مارا آغا‘ ایک مضمون شائع کیا۔ اس میں فضول شاعری اور فضول شاعروں کا حال کھولا گیا تھا۔ اس مضمون کے فقرے لوگوں نے یاد کر لیے، مگر ہماری غرض و غایت کو کوئی نہ سمجھا۔ 26ء میں ’ہمارے پانچ ملک الشعرا‘ کا سا مضمون اسی مطلب سے عام کیا گیا لیکن ایک کمزور دماغ رکھنے والی قوم نے صرف اس کی مزیدار شوخیوں پر نظر کی، مضمون کی تہ تک نہ پہنچی۔ اس لئے فائدہ نہ اٹھا سکی۔ ان تجربات کے بعد ہمارا دل اور قلم نہیں اٹھتا کہ کچھ لکھوں۔ ہماری قوم اس وقت حقیقتاً جس غلامی میں مبتلا ہے، وہ اصل ذہنیت کی غلامی ہے اور جب تک اس غلامی سے نجات نہ ملے، ملک آزاد نہیں ہو سکتا۔‘ (مکتوبات مشاہیر 1999، 25)
بالکل سامنے کا معاملہ ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والے کی تحریروں کو محض مولوی محمد حسین آزاد کا چربہ کہہ دینا کتنی بڑی علمی بد دیانتی ہے۔ خیال کی نگاہ میں شعر و ادب کا مقصدی اور افادیت پسند ہونا لازمی ہے۔ وہ اعلی شاعری اور مرثیہ کو کردار سازی اور اخلاق کی درستگی کا وسیلہ مانتے تھے۔ سنسکرت شعریات کے ثنا خواں تھے اور فارسی کی ان شعری روایات کے دلدادہ جن میں حرکت و عمل کے پیغامات ہیں۔ غزل کو ایسی صنف مانتے تھے جس نے مسلمانوں میں بے عملی کے رجحان کو فروغ دیا اور حقیقت کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس سے فرار اور محض خواب و خیال میں جینے کا رجحان عطا کیا۔ ان کا تصور تھا کہ اخلاقی اقدار کی پاسداری کسی بھی زبان و زمانہ کی شاعری کو آفاقیت عطا کر دیتی ہے۔ اخلاقی اقدار سے مراد اخلاقیات کی وہ روشیں ہیں جو ازمنۂ پارینہ سے بنتی، سنورتی، نکھرتی ہوئی کسی بھی قوم اور اس کی تہذیب کی شناخت بن جاتی ہیں۔ ایسی شاعری میں عمل پیہم کے لئے آمادہ رکھنے والے عناصر موجود ہوتے ہیں جو گردش دوراں کے مختلف مراحل میں کبھی تو فراموش کر دیے جاتے ہیں اور کبھی انہی کے بطن سے انقلابات بھی رونما ہوتے ہیں۔ یہ اخلاقیات اور اقدار اقوام کے درمیان مفاہمت کا وہ کلیدی نظریہ ہے جو خیال کی تحریروں میں متنوع آہنگ میں موجود ہے۔
خیال کی زیادہ تر تحریریں اسی اصلاحی مزاج کی حامل ہیں جن میں زمانے کی روش کے خلاف کچھ کرنے یا کہنے کا میلان نظر آتا ہے۔ زمانے کی روش کی خلاف بایں وجہ کہ اس کے کئی عوامل مسلمانوں کی اخلاقی اور معاشرتی پستی، ان کے تعلیمی اور معاشی زوال نیز ان کی پسپائی اور بے حرمتی کا سبب بنے ہوئے تھے۔ ان کی فطرت کا یہ میلان تا عمر رہا۔ کسی بھی معاملے کو عقل کی کسوٹی پہ ہی پرکھنا چاہتے تھے۔ لہذا ان کے یہاں کسی مخصوص مکتب فکر کی نمائندگی نہیں ملتی۔ انھوں نے کبھی مذہب کی مخالفت نہیں کی لیکن اس کے تئیں ان کا نقطۂ نظر التقاطی تھا۔ یہی صورت حال علم اور تحصیل علم کے ساتھ بھی تھی۔ آغاز جوانی میں ہی ایک شیعہ مدرسہ کے ناظم سے دیگر امور کے پہلو بہ پہلو یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ وہ اپنے مدرسہ میں سنیوں کو تحصیل علم کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ کلکتہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے لئے منعقد اجلاس میں اس پہلو پہ روشنی ڈالتے ہیں کہ اسلامی طریقۂ تعلیم کس طرح زوال آمادہ ہو گیا اور اسے نئی فرحت بخش تازگی عطا کرنے کے لیے کیا اقدامات ممکن ہیں۔ جب شیعہ حضرات کی اکثریت محسن المک نواب سید محمد مہدی علی خاں کی وجہ سے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس ہی نہیں، علی گڑھ سے بھی بد ظن ہو گئی تھی تو انھوں نے مسلمانوں کو اور خاص طور پہ اپنے فرقہ والوں کو یہ احساس دلا یا کہ محسن الملک کا ’آیات بینات‘ لکھنا ایک طرف، ان کی ملکی اور قومی خدمات نیز علی گڑھ کے لئے ان کی جاں نثاری دوسری طرف۔ محسن الملک سے آیات بینات کے معاملے میں اختلاف ہونے کے باوجود خیال کا تصور تھا کہ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں ان کے خلوص و احسان اس کے متقاضی ہیں کہ ان کی باتیں سنی جائیں اور ان پر عمل کیا جائے۔ لہذا جب کلکتہ میں مسلمان گروہ بندیوں میں لگے تھے تب انھوں نے نفاق و نفرت کی فضا کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پچھلے صفحات میں عرض کیا گیا ہے کہ خیال سے بھی کلکتہ یونیورسٹی کمیشن نے شہادت لی تھی۔ اس کمیشن کی کار گزاریوں سے قبل کلکتہ کے اجلاس میں پیش کیے گئے ان کے خطبہ کے یہ الفاظ ان معنوں میں اہم ہیں کہ کلکتہ کے برطانوی افسروں سے اپنے خوشگوار تعلقات کے باوجود ان میں ہندوستانی مسلمانوں کے قدیم تعلیمی نظام اور ہندوستان کے برطانوی تعلیمی نظام دونوں کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔
’اس طرز تعلیم کا جو کچھ اب تک نتیجہ نکلا اور ڈیڑھ سو برس کی جد و جہد اور کروڑوں صرف کے بعد جو کچھ ہمیں حاصل ہوا اس کا سمجھنا مشکل نہیں۔ اس ملک کے ماہران تعلیم نے وقتاً فوقتاً سنجیدگی سے اس پر رائے ظاہر کی ہے۔ سر سید نے اپنے ایک مشہور لکچر میں سو برس کی اس تعلیم سے یہ نتیجہ نکالا کہ ہماری موجودہ یونیورسٹیاں ہم کو خر بناتی ہیں۔ اس قول کو ستائیس سال ہو گئے مگر ہماری یونیورسٹیوں کے بیشہ سے بمشکل کسی نے کوئی شیر نکلتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ پروفیسر ہیول کا ارشاد ہے کہ موجودہ تعلیم نے ہندوستان کو ولگرائزڈ یعنی حد درجہ مہمل و پست کر دیا ہے۔ سر جارج برڈوڈ کی رائے ہے کہ اس تعلیم نے ہندیوں کو اپنے ادب و لٹریچر کی محبت سے باز رکھا اور اپنے تمام محاسن کو بھلا دیا ہے۔ اس طرز تعلیم نے مردوں کو اپنے گھروں اور اپنی بیویوں اور اپنی ماں بہنوں سے بیگانہ کر دیا اور ایک عجیب طرح کا خلجان پھیلا دیا ہے۔ مرحوم گوکھلے کے سے محتاط نے ایک مرتبہ بمبئی کے کاؤس جی انسٹی ٹیوشن میں تقریر کرتے وقت کہا تھا کہ عرصہ سے یہاں کی تعلیم پر نکتہ چینیاں ہو رہی ہیں۔ اس طرز تعلیم نے طلبا میں علم و عقل کے حصول کا شوق سلب کر کے انھیں نمائشی اور صرف کمانے کی ایک کل بنا دیا ہے۔ دو مثالوں کے سوا اس یونیورسٹی نے اب تک کوئی دماغ پیدا نہیں کیا، اور صاحبو، اسی طرح اگر کلکتہ یونیورسٹی میں سے پروفیسر بوس اور ڈاکٹر اسوتوش علیحدہ کر لیے جائیں تو پھر یہاں بھی رہ ہی کیا جاتا ہے۔‘ (تقریر صدر 1917، 8)
وہ مانتے تھے کہ کلکتہ یونیورسٹی لندن یونیورسٹی کے طرز پر کھڑی کی گئی جس کے سبب ہماری تمدنی، معاشرتی، مذہبی اور روحانی پہلو و ترقی کا زوال ہوا اور اس کے دروازے صرف سرکاری نوکری کے متلاشیوں اور دفتروں میں بھرتی ہونے والے رنگروٹوں کی خاطر کھولے گئے۔ وہ سر سید احمد کے تعلیمی مشن کی تعریف کرتے ہوئے مسلمانان بنگالہ کو اس کی پوری حمایت کی تلقین کرتے ہیں۔ تعلیم کے سلسلے میں ان کا خاص نقطۂ نظر تھا۔ مجتبیٰ حسین سے یوں مخاطب ہیں:
’خدا سمجھے اس طریقۂ درس و تعلیم سے جو مدرسۂ نظامی میں شروع ہوا اور جس نے آٹھ سو سال جاری رہ کر مسلمانوں کو چوپٹ کر دیا۔ اب بھی وقت ہے۔ اور چیزوں سے قطع نظر کر کے خدا کے لئے تاریخ کی طرف متوجہ ہو جیے، پڑھیے، پڑھائیے، جانوروں کو آدمی بنائیے۔ تاریخ اسلام کو سمجھا دے گی اور ہماری فقہی کمزوریاں بتا دے گی۔ علمائے اسلام (وہ سنی ہوں یا شیعہ) ان حقیقتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، یا وہ ان حقائق سے واقفیت ہی نہیں رکھتے۔‘ (مقالات و مکتوبات نصیر حسین خیال 1981، 5)
اس سے پندرہ برسوں قبل اسی خیال کا اظہار انھوں نے متذکرہ کانفرنس میں بھی کیا تھا۔
’اکثر صاحبوں نے فرانس کے مشہور فلسفی اور علوم مشرقیہ کے ایک زبردست عالم موسیو لیبان کا نام سنا ہو گا۔ جس زمانہ میں وہ اپنی نادر کتاب ’تمدن اسلام‘ لکھ رہے تھے کسی طالب علم تاریخ ترقی و تنزلِ اقوام نے استعجاباً ان سے سوال کیا کہ عرب جو اسمعیل ؑکے بعد کبھی متمدن نہیں دکھائی دیے، اور آپس کے افتراق و نفاق میں مشہور رہے، اور جو صدیوں سے وحشیانہ زندگی کے خوگر تھے اور سیکڑوں برس تک عالم میں حقیر و ذلیل سمجھے گئے وہ دفعتاً، یعنی صرف پچیس سال میں اس درجہ با وقعت و متمدن کیوں کر ہو گئے کہ دنیا پر قابو کر کے سب کے استاد بن بیٹھے اور آج ہم حیرت سے ان کے کارنامے پڑھتے ہیں۔ اور اب پھر بھی وہی عرب ہیں اور انہیں اگلوں کی یہ یادگاریں اور نسلیں ہیں، لیکن زمانہ کے چکر اور گردش کے بعد پھر وہ اپنے اصلی رنگ میں آ گئے اور تیرہ سو برس قبل جیسے وہ تھے آج بھی ویسے ہی دکھائی دینے لگے۔ اس فلسفی نے گردن اٹھا کر کہا، ہاں۔ طالب علم نے عرض کیا، اس کی وجہ؟ جواب ملا، تعلیم اور صحیح تعلیم، اور غلط تعلیم اور جہالت۔ ہماری اتنی لمبی چوڑی کہانی واقعی ان ہی دو بولوں پر ختم ہے۔ صحیح، یعنی قانون فطرت کے مطابق جب تک ہماری تعلیم ہوتی رہی ہم کامیاب رہے اور جب سے غلط، یعنی قانون فطرت کے خلاف ہم کو سبق دیا گیا، جاہل بنے اور ناکامیاب رہے۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اور صحیح و غلط تعلیم کے سمجھنے اور اس کے متعلق آپ کے فیصلہ کا وقت اب آنے والا ہے۔‘ (تقریر صدر 1917، 3-4)
قانون فطرت کے مطابق تعلیم سے خیال کی مراد وقت کے تقاضوں کے مطابق تعلیم کا نظام قائم کرنا ہے۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کو ایسی کانفرنس کہتے ہیں جس نے گذشتہ تیس سالوں سے مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ ان کا اشارہ واضح طور پہ اس حقیقت کی جانب تھا کہ درس نظامی نے اپنی تمام تر دینی خدمتوں کے باوجود عصری تقاضوں کے لحاظ سے تعلیم کا انتظام نہیں کیا اور نہ ہی ایسا نصاب بنایا جو زمین سے جڑے رہنے کا سلیقہ بھی عطا کرے۔ انھوں نے ایسی تعلیم کو بے سود کہا ہے جس میں تمدنی، معاشرتی، مذہبی اور روحانی پہلوؤں کا امتزاج نہ ہو۔ علی گڑھ کے ان تیس سالوں کو وہ مسلمانوں کے ’جاگنے‘ کا سال بھی کہتے ہیں۔
’اس تیس سال میں مسلمانان ہند میں جو جاگ ہو گئی ہے اور غدر کے بعد سے جو ابتری اور قومی انحطاط بلکہ زوال شروع ہو چلا تھا، اس بیداری نے ایک حد تک اسے روکا اور ہم کو سخت انتشار اور پائمالی سے ایک گونہ بچا لیا ہے۔ اپنی حالت پر نظر کرنے اور اپنے زوال کو سمجھنے کی جو بلند اور زبردست آواز چوتھائی صدی سال قبل علی گڑھ میں گونجی تھی اس کا اثر چار دانگ ہند میں پھیلا اور اس وسیع میدان کے چاروں کونے اس سے متاثر ہوئے۔‘ (1917، 4-5)
یہی معاملہ ادب کے ساتھ بھی نظر آتا ہے۔ جب پورا ہندوستان ہندو مسلم فسادات اور ان دونوں کی انتہا پسندیوں سے جوجھ رہا تھا تب انھوں نے برسرعام ہندوؤں اور ہندوستانی روایتوں کی عظمتوں کی داستانیں سنائیں اور یہ کوشش کی کہ علیحدگی پسندی کے رجحانات پر قدغن لگائی جا سکے۔ ان کے مشہور خطبے ہوں یا داستان اردو سے متعلق وقتاً فوقتاً شائع ہونے والے ان کے مضامین، ہر جگہ زمانے کی رفتار کے مطابق مسلمانوں کے فکری رویے میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوششیں ہی نظر آتی ہیں۔ خیال نے پہلی بار اپنے خطبۂ لکھنؤ میں اس پیغام کو موثر طریقے سے پیش کیا تھا۔ خیال سے قبل اور خیال کے زمانے میں بھی رفتہ رفتہ اردو کے ان شعرا و ادبا کی خدمات کا اعتراف کیا جانے لگا تھا جو غیر مسلم تھے۔ اس کی مثالیں مرزا علی لطف کے ’گلشن ہند‘، میر تقی میر کے ’نکات الشعرا‘، شیفتہ کے ’گلشن بے خار‘، فرزند علی صفیر بلگرامی کے ’جلوۂ خضر‘، عبد الغفور نساخ کے ’سخن شعرا‘، حکیم قطب الدین دہلوی کے ’گلستان بے خزاں ‘، منشی کریم الدین کے ’تاریخ شعرائے اردو‘ وغیرہ میں موجود ہیں۔ اسی موضوع پر خواجہ عشرت لکھنوی کی کتاب ’ہندو شعرا‘ 1931ء میں شائع ہوتی ہے اور اتفاق دیکھیے کہ دہلی میں منعقد ہونے والے آل انڈیا اردو کانفرنس میں تقسیم کی غرض سے خواجہ حسن نظامی نے 20 اپریل 1934ء کو ایک رسالہ ’اردو کے ہندو ادیب‘ شائع کیا تھا جو مولوی محمد مشیر احمد علوی ناظر کاکوروی کا ریاست گوالیار کے جلسۂ اردو سے خطاب تھا، اس میں بھی اردو کے ہندو ادیبوں اور ناشروں کی خدمات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ یہی رسالہ اسی عنوان سے کئی اضافوں اور تفصیلات کے ساتھ 1939ء میں بھی شائع ہوا۔ عشرت لکھنوی کی کتاب کی اشاعت کے دوسرے سال 1932ء میں شیام سندر لال برق سیتا پوری کا تذکرۂ ہندو شعرا ’بہار سخن‘ بھی شائع ہو چکا تھا۔ پروفیسر نصیرالدین ہاشمی نے رسالہ ’ہندوستانی‘، الہ آباد کے لئے اردو کے دکنی ہندو شعرا کی خدمات پر تذکرہ لکھنے کا آغاز بھی کیا تھا جس کی اشاعت بعدہ 1956ء میں ’دکھنی ہندو اور اردو‘ کے نام سے ہوئی۔ ہندو شعرا و ادبا کی اردو خدمات کے اعتراف کے اسی سلسلے کو خیال نے بھی یوں آگے بڑھا یا کہ اسے قومی یکجہتی اور ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین اتفاق و اتحاد کا نقیب بھی ٹھیرایا۔ وہ اسی صورت حال کو ہندوستان کی اصل پہچان تصور کرتے تھے۔ ان کا مضمون ’نادر اتحاد‘ جو رسالہ ندیم کے اکتوبر 1934ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا بعینہ ویسا ہی ہے جیسا کہ ان کے خطبۂ لکھنؤ میں تھا۔ اخیر میں کچھ اضافے کر دیے گئے ہیں۔ خیال نے ہندو شعرا کا ذکر ہی نہیں، ان کی فنکاری کا اعتراف بھی کیا ہے۔
خیال اتحاد بین المذاہب ہی نہیں، اتحاد بین الاقوام کے حامی بھی تھے۔ کسی بھی زبان، ادب یا مذہب سے ایسے کسی تصور کو اپنانا تقاضۂ وقت مانتے تھے جو مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق، ان کی علمی، معاشرتی اور معاشی بہتری، مسلمانوں سے دوسرے مذہبی گروہوں کے تعلقات باہمی، بالفاظ دگر، اتحاد بین المسلمین، اتحاد بین المذاہب اور اتحاد بین الاقوام کے جذبوں کے فروغ میں ممد و معاون ہو سکے۔ بہار میں زبان اردو کا گرتا ہوا معیار ان کے لئے سوہان روح تھا تو ایسے شعر و ادب کی تخلیق بھی کرب ناک تھی جس میں کردار سازی اور تعمیر و تشکیل معاشرہ کے عناصر نہ ہوں، جس کی اساس افادی پہلوؤں پہ نہ ہو۔
خیال کے کارناموں پر، جو اردو زبان کے فروغ کی ثقافتی تاریخ، اردو شاعری کی تنقید، صحت زبان کے مسائل، قومی زبان کے مسئلہ، ثقافتی تاریخ و تحقیق پر مشتمل ہے، نقادوں اور مورخین ادب نے نہ ان کی زندگی میں توجہ دی اور نہ ہی ان کی موت کے بعد کوئی مکمل محاکمہ سامنے آیا۔ حتیٰ کہ نقی احمد ارشاد نے بھی اختصار کے ساتھ ان کا تعارف پیش کرتے ہوئے چند غیر مطبوعہ تحریروں اور مکتوبات شائع کر دینے پر ہی اکتفا کیا۔ اس ضمن میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ عظیم آباد سے روانہ ہونے کے بعد خیال کو بھی یہ گلہ رہا کہ بہاریوں نے ان کی تحریروں پہ توجہ نہ دی۔ واقعہ یہ ہے کہ عظیم آباد کے متذکرہ خانوادوں کے علاوہ بہت کم گھرانے بہار میں ایسے تھے جہاں اردو زبان کی صحت کا خیال رکھا جاتا تھا، جہاں اردو زبان کی ترویج کی بے لوث خدمت عبادت کے زمرے میں شامل تھی۔ انھیں وہ صحبتیں بھی میسر نہ تھیں جنھیں خیال نے زبان دانی کے لئے جزو لاینفک تصور کیا ہے۔ اس پہلو کی جانب خیال سے قبل شاد نے بھی اشارے کیے تھے، صفیر بلگرامی اور امداد امام اثر نے بھی، اور حالیہ دہائیوں میں نقی احمد ارشاد نے بھی۔ شاد کی اصلاح زبان کی کوششوں کے نتیجے میں تو بساط علم اور میدان جنگ کا فرق ہی ختم ہو گیا تھا۔ یقینی طور پہ کہا جا سکتا ہے کہ پچھلی صدی کی تیسری چوتھی دہائی تک اس کا اثر زائل نہیں ہوا تھا۔
خیال اس حقیقت سے واقف تھے کہ نواب لطف اللہ خاں کے خاندان کے افراد کا عظیم آباد آنا اور امیر الامرا نواب سید حسین علی خاں کا پٹنہ کا صوبے دار بننا دو ایسے واقعات تھے جن کی وجہ سے اس صوبے کی رونق بڑھی اور جن کے محلوں کی زبان و معاشرت اس کے لئے باعث تقلید بنی۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے ہی یہ وقار جاتا رہا۔ خیال کا تصور تھا کہآج کا عظیم آباد وہ اگلا عظیم آباد نہیں، لہذا، اہل عظیم آبادی یہ نہ سمجھ لیں کہ اب بھی یہاں کی عام زبان پہلے کی طرح فصیح اور لائق تقلید ہے۔ سوا چند نفوس کے (جن کی تعداد بہت ہی کم ہے ) تمام اہل عظیم آباد کا شمار فصحا میں نہیں ہو سکتا۔ یہ چند گنتی کے فصحا تمام صوبے کی زبان کیوں کر درست کر سکتے ہیں … ہاں، پچاس ساٹھ سال اُدھر عظیم آباد فصحا کا مولد و مسکن تھا۔ چبھتی ہوئی باتیں تھیں لہذا خموشی ہی بہتر تھی لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہو سکتا کہ خیال کی خدمات سرے سے خارج کر دی جائیں۔ اگر یہ ماحول خیال کے لئے تکلیف دہ تھا تو اس ماحول میں خیال کے قدردانوں کا نہ ہونا خلاف توقع بھی نہ تھا۔ معین الدین دردائی بھی’بہار اور اردو شاعری‘ میں معترض تھے کہ وہ بہار جس کی خاک پاک سے مرزا بیدل، سید عماد، سجاد، تحقیق، راسخ، جذب، جوش، خلیل، عبرتی، شاد اور اثر جیسی ہستیاں اٹھیں، اس کے باشندوں نے اپنے جواہر کو پہچاننے سے انکار کر دیا، حتیٰ کہ، بقول معین الدین دردائی،
’حضرت مخدوم الملک بہاری اور ان کے رفقا کو چھوڑ کر ہمارے صوبے نے ہندستان کی رسم کہن کے برخلاف مشائخ و اولیا کے کارناموں کو بھی تازہ نہ رکھا۔ شیخ بڑہ جیسے نامور طبیب اور ممتاز شیخ کو، جن کی شیر شاہ سوری جیسا جلیل القدر بادشاہ جوتیاں سیدھی کرتا تھا، جاننے والے اس وقت کتنے ہیں!‘ (بہار اور اردو شاعری 1947، 2)
1934ء میں خیال کا انتقال ایک جلیل القدر انشا پرداز اور محسن اردو کی رحلت تھی۔ لیکن خود دردائی نے بھی اسی بہاری رواج کی تقلید کی۔ اثر کا تذکرہ انھوں نے کیا مگر صفیر اور خیال کا ذکر چھوڑ گئے۔ جبکہ اس زمانے میں اردو کے حقوق کے حصول کے لئے ملک گیر پیمانہ پر بے خوف و خطر آواز بلند کرنے والے بہار کے محسنین اردو میں خیال کے مقابلے کی کوئی اور شخصیت شاذ ہی نظر آتی ہے۔
خیال نے کشادہ قلبی کے ساتھ اس کا اعتراف کیا کہ ہندوؤں کی اردو نوازی کے ذکر کے بغیر اتحاد کی فضا قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ امر بہر حال اپنی جگہ بدستور قائم ہے کہ خیال نے باضابطہ تذکرہ نویسی یا تاریخ نویسی نہیں کی بلکہ ان کی صورت میں غور و فکر کے لئے کچھ سامان مہیا کر دیے۔ صوبۂ بہار کے پس منظر میں ان کی خدمات اس وجہ سے اہم ہیں کہ ان کی حیات تک اردو تحقیق و تنقید کی بساطیں تو وہاں بچھنے لگی تھیں لیکن دور اندیش دانشورانہ فکر کے معاملے میں اردو دانوں میں خیال کے مرتبہ کے اصحاب یہاں برائے نام تھے۔ خیال مذہب و معاشرت کے لئے عقلیت پسندی اور دب کی افادیت پسندی کے روادار تھے۔ فکری اعتبار سے سر سید احمد خاں سے قریب تھے۔ اسلوب و انشا کے معاملے میں ان کی کوشش یہ رہی کہ بہار کے اپنے پیش روؤں، اور سر سید احمد خان، مولوی محمد حسین آزاد، مولانا ابو الکلام آزاد، ان تینوں سے بھی الگ کوئی راہ نکالیں۔ وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔
جمیل مظہری نے لکھا ہے کہ خیال صرف انشا پرداز نہیں بلکہ بڑی حد تک ایک مفکر اور مورخ بھی تھے۔ ’انھوں نے سب سے پہلے مجھے مذہب اور تصوف کا رستہ سمجھایا۔ تشیع اور تصوف کی علیحدگی کی داستان سنائی۔ اور اس سلسلے میں جو روشنی مجھے دی وہ آج بھی میرے دماغ میں محفوظ ہے‘۔ (منثورات جمیل مظہری 1991، 390)
انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد اور نیاز فتح پوری کی ہی مانند آغا حشر کاشمیری اور نواب خیال نے ان کے ذہن اور اس کی تعمیر میں مساوی حصہ لیا تھا۔
نصیر حسین خیال آزاد خیال، عقلیت پسند اور التقاطی مزاج کے حامی ثقافتی مبصر تھے۔ ان کے یہاں سر سید احمد خاں کے اصلاحی مزاج، مولوی آزاد کے شگفتہ اسلوب اور مولانا آزاد کے خطیبانہ انداز اسے الگ جس نثرنگاری کی صورت گری ملتی ہے اس میں افادیت پسند، مصلحانہ اور ناصحانہ انداز بھی ہے، خطابت اور داستانی مزاج بھی۔ ان کی نثر میں حلاوت و شیرینی، شگفتگی و بذلہ سنجی، وقار و تمکنت، صاف گوئی، استدلالی اور تجزیاتی طرز بیان، بے ساختگی اور بے تکلفی کی فطری آمیزش موجود ہے۔ چھوٹے چھوٹے برجستہ فقروں میں منظر نگاری، واقعہ طرازی اور حرکت و عمل کے متحرک پیکروں کی تشکیل کا ہنر بھی خیال کی نثر سے مختص ہے۔
شاد کی ’مثنوی مادر ہند‘ کی تقریب میں رشید احمد صدیقی نے لکھا تھا کہ شاد اور خیال ان کے نزدیک بِہار کے انیس اور آزاد ہیں۔ خیال نے ہندو روایات اور ہندو کلاسیکس کو اردو میں جس طور پر سمویا اور اجاگر کیا ہے، وہ اپنی نظیر آپ ہیں۔ (مثنوی مادر ہند 1931، 14) علاوہ ازیں، بہار کی اردو نثر کی تاریخ میں سید نصیر حسین خاں خیال عظیم آبادی کی نثر نگاری یوں بھی اہمیت و انفرادیت کی حامل ہے کہ اس میں روانی کے ساتھ علاقائی بہاری الفاظ حسب موقع و ضرورت کامیابی کے ساتھ یوں استعمال کیے گئے ہیں کہ ان کی حیثیت ٹکسال کی ہو گئی ہے۔ سید فرزند احمد صفیر بلگرامی نے ’جلوۂ خضر‘، نواب امداد امام اثر نے ’کاشف الحقائق‘ اور شاد عظیم آبادی نے ’فکر بلیغ‘ کے ذریعہ جس طرح بہار میں اردو نثر کو بالیدگی عطا کی تھی، خیال نے اس روایت میں اضافہ کرتے ہوئے اپنی علیحدہ شناخت قائم کی ہے۔ شاد عظیم آبادی کے ساتھ ہی شاد و خیال کے معاصر نثرنگاروں کے بمقابلہ خیال کی نثر جس تخلیقی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے اس کی وجہ سے وہ ایک منفرد اور امتیازی شان رکھتی ہے۔ متقدمین و معاصرین کے اسلوب نگارش میں آمد و آورد کا فرق ذہن میں رکھیے تو خیال کا اسلوب زمین سے اس طرح جڑا ملتا ہے کہ اس میں تکلف اور تصنع کی گنجائش ہی نہیں۔ خیال بنیادی طور پہ صداقت پسند اور راست گو تھے۔
قیس سا پھر نہ کوئی اٹھا بنی عامر میں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
(الطاف حسین حالی)
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...