دو ہفتے ان کے گھر خوشحالی سے گزرے۔ نور اور روحان ہر وقت کرن کی خدمت میں حاضر رہتے اور رانا صاحب کا رویہ بھی پہلے سے نرم تھا وہ ظاہر تو نہیں کرتے لیکن باپ بننے کی خوشی نے ان کو کسی حد تک نرم دل بنا دیا تھا۔ کرن کے ٹوٹے خواب پھر سے بُننے لگے وہ نئی سرے سے امید باندھ رہی تھی کہ اولاد کے آنے سے اس کی زندگی واقعی سنور جائے گی یہ بچہ اس کی قسمت کی چابی بن کر آیا ہے۔ آخر اللہ نے اس کی سن لی تھی اس کا گھرانہ بس جائے گا۔ اس نے ظہر کی نماز ادا کی اور دعا میں اللہ سے موجودہ نعمتوں کا شکر ادا کیا بیشک اللہ سب کی سننے والا ہے۔
****************&&&&**************
موسم گرما کے آغاز میں ہلکی بوندا باندی بھی ہورہی تھی اس دن بادلوں نے آفتاب کو چپا دیا تھا۔ رانا مبشر اور روحان سارے کارکنان کو اکھٹا کر کے کانفرنس روم میں خطاب کر رہے تھے بڑے سے اسکرین کے سامنے پہلے روحان نے نئے سال کے لیے معین فائنانشل بجٹ کی تفصیلات بیان کئے پھر رانا صاحب نے اپنے آنے والے پراجیکٹ سے آگاہ کیا۔ وہ معزز انداز میں اسکرین کے سامنے کھڑے ہاتھ ہوا میں لہراتے کارکنان کو ان کے ڈیوٹیز سمجھا رہے تھے جب کونے میں بیٹھا آرین اٹھا۔
“لیکن اس طرح تو مزدور طبقہ خسارے کا شکار ہوجائے گا۔۔۔۔ ان کو مشکل سے مزدوری ملتی ہے۔۔۔۔ اگر ہم اس میں سے بھی کمیشن کاٹے تو ان کو دو وقت کھانے کو کیسے ملے گا۔” اس نے بلند آواز میں سرد مہری سے کہا۔
جیسے جیسے وقت گرزتا گیا رانا صاحب آرین کو چوری چپے ان کے گھر جانے پر جھڑپنا بھول گئے تھے اور آج اس نے خود رانا صاحب کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی غلطی کر دی تھی۔
آرین کی اس طرح کانفرنس کے بیچ میں مداخلت کرنے پر رانا صاحب نے ضبط کر لیا اور روحان نے تندی سے اسے گھور کر دیکھا تو مینیجر نے منہ پر انگلی رکھ کر چپ ہونے کا اشارہ کیا اور باقی ہم منصبوں نے بھی خاموش نظر اس پر ڈالی۔ آرین منہ بھسورتے ہوئے واپس جگہ پر بیٹھ گیا اور بے دلی سے پاوں ہلانے لگا۔ ماحول میں بڑھتا تناو دیکھ کر روحان نے رانا صاحب کو ان کی سیمنٹ انڈسٹری کے بارے بتانا یاد کروایا تو وہ آرین پر جمی نظریں پھیر کر پھر سے گویا ہوئے۔ روحان نے رانا بھائی کا مزاج درست ہوتے دیکھا تو شکر کا سانس لیا اور پھر سے تنے آبرو سے آرین کو دیکھا۔ آرین اپنے جذبات ضبط کرتے ہوئے روحان سے نظر چرا گیا۔
کانفرنس ختم ہونے کے بعد سب اپنے اپنے کیبن میں چلے گئے۔ رانا صاحب نے پین ہاتھوں میں گھماتے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی اور مینیجر کو آرین کو ان کے پاس بھجوانے کا کہا۔ مینیجر سر کو خم دے کر باہر آیا اور پانچ منٹ بعد دروازے پر دستک ہوئی۔
“اcome in ” رانا صاحب نے کرسی جھلاتے ہوئے کہا۔
آرین سپاٹ تاثرات بنائے ہاتھ باندھے موودب انداز میں اندر آیا۔
“آئیے آرین صاحب۔۔۔۔۔۔ آپ کو editing ڈیپارٹمنٹ سے نکال کر مزدور یونین کا سربراہ بنانا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ اونچا بولنے کا بہت شوق ہے نا۔۔” رانا صاحب نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا اور قدم قدم چل کر آرین کے سامنے آئے۔
“حرام کا کمانے سے تو اچھا ہے مزدوروں کے ساتھ مل کر حلال کی سوکھی روٹی کھائی جائے۔” آرین نے سپاٹ انداز میں کہا وہ آج رانا مبشر کے لیے احترام ان کے اور اپنے رتبے کا فرق سب بالائے طاق رکھ کر ترقی بہ ترقی انہیں جواب دے رہا تھا۔
رانا صاحب نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس کی بات پر آبرو اچکائے۔
“مجھ سے بحث کرنے کا انجام جانتے ہو نا ” رانا صاحب کی آواز ڈٹ گئی پیشانی کی رگیں تن گئی۔
“اپنے سے کم تر عوام پر ظلم کرنے کے علاوہ آپ اور کر بھی کیا سکتے ہے مسٹر رانا مبشر۔۔۔۔۔۔ یہاں اپنے کارکنان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہے اور گھر میں اپنی بیوی کو۔” آرین نے زور دے کر کہا۔
رانا صاحب کے آبرو تعجب سے پھیل گئے۔
“تمہیں کیسے پتا۔۔۔۔۔ میں اپنی بیوی کو کیسے رکھتا ہوں۔” رانا مبشر نے اس کا گریبان پکڑ لیا اور وحشتناک انداز میں جواب دیا۔
آرین کو احساس ہوا اس نے جذباتی ہوکر غلط وقت پر یہ بات کر دی ہے۔ اپنا پچھتاوا چپاتے ہوئے اس نے معصومانہ انداز بنایا۔
“ویسے ہی۔۔۔۔۔ صرف اندازہ لگایا رانا سر۔۔۔۔۔ مجھے کیسے پتا ہوگا۔” اس نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
رانا مبشر پر اس کے بھولےپن کا زرا بھی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی پوری قوت سے آرین کو دھکیلا وہ لڑکھڑاتا ہوا دیوار سے جا لگا۔
“اس دن تمہیں اور کرن کو ایک ہی وقت پر غائب پا کر مجھے شک ہوا اور تصدیق کرنے گھر بھی گیا لیکن کوئی ثبوت ہاتھ نہ لگا تو مجھے لگا شاید یہ میرا وہم ہے۔۔۔۔۔ اور اس بات کو نظر انداز کر گیا۔” انہوں نے تھیوری کجاتے ہوئے کہا اور پھر سے آرین کا گریبان جکڑا
“لیکن آج تم نے خود تصدیق کر دی کہ تم۔۔۔۔۔۔ میری غیر موجودگی میں میری بیوی سے ملتے رہے ہو۔” انہوں نے آرین کے منہ پر زور دار ضرب لگائی اس کے قدم ڈگمگائے اور وہ فرش بوس ہوگیا اس کے ناک سے خون رسنے لگا درد برداشت کرنے کے لیے اس نے آنکھیں موند کر لب مینچھے اور پھر سے کھڑا ہوگیا وہ چاہتا تھا کہ رانا صاحب اسے مار مار کر اپنا غضب ٹھنڈا کرے تاکہ اس کی غلطی کے لئے وہ کرن پر ہاتھ نہ اٹھائے۔
“پہلے دن میری آنکھوں کے سامنے جب میں نے تمہیں میری بیوی کو تاڑتے دیکھا تب ہی میں سمجھ گیا کہ تمہارے نیت میں کھوٹ ہے۔” انہوں نے آرین کا سر پکڑ کر دیوار پر دے مارا اس کے منہ سے کراہ نکلی اور وہ ٹیبل پر سے کھسکتا ہوا کرسی سے جا ٹکرایا۔ آرین چاہتا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا لیکن اس نے رانا صاحب کی مار کو کرن کے خاطر ضبط کر لیا۔
رانا صاحب کے کمرے سے توڑ پھوڑ کی آوازیں سن کر مینیجر تیزی سے بھاگا اور روحان کو خبر دی۔ روحان کا رنگ فق سے اڑ گیا اور مینیجر کے ہمراہ بھاگتا ہوا رانا صاحب کے کیبن میں داخل ہوا
“رانا بھائی” روحان بھاگتا ہوا رانا مبشر کے آگے آیا اور انہیں بازووں میں جکڑ لیا
“رانا بھائی۔۔۔۔۔ stop it۔۔۔۔۔۔ چھوڑے اسے۔” اس نے پورے زور سے رانا بھائی کو جکڑے رکھا اور آرین سے دور کر دیا
“تم دیکھ کیا رہے ہو جاو یہاں سے” اس نے رخ موڑے چلا کر آرین کو مخاطب کیا جو لنگڑاتا ہوا کھڑا ہوا تھا مینیجر تیزی سے آگے آیا اور آرین کا بازو دبوچ کر گھسیٹتا ہوا باہر لے گیا۔
روحان نے رانا بھائی کو بیٹھایا اور پانی پلایا غصے سے وہ پسینہ پسینہ ہوگئے تھے اور چھڑپ سے تنفس تیز ہوگیا تھا۔ روحان کو اس افسوسناک سانحہ پر دکھ ہورہا تھا لیکن رانا بھائی سے پوچھنے کی ہمت نہیں تھی اس لیے خاموشی سے ان کو دلاسہ دینے لگا۔
آرین کو مینیجر نے گیٹ سے باہر پٹخ دیا۔ وہ خود کو سنبھالتے ہوئے درخت کا سہارا لینے لگا۔ اسے اپنے بیوقوفی پر افسوس ہورہا تھا۔ وہ کرن کو در پیش خطرے سے آگاہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس کرن سے رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور اضطراب میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
**************&&&&&*************
شام گھر آکر رانا صاحب خاموش رہے کوئی ردعمل نہیں دکھایا۔ ڈنر بھی اسی خاموشی سے کیا گیا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ کرن جب نور اور روحان سے شب بخیر کہہ کر اپنے کمرے میں آئی تو رانا مبشر کو دروازے پر کھڑے پایا۔
“رانا صاحب۔۔۔۔ کچھ چاہیئے” اس نے خوش مزاجی سے انہیں مخاطب کیا
وہ پیچھے ہاتھ ملائے سنجیدگی سے اس پر نظر جمائے ہوئے تھے۔
“کب سے چل رہا ہے تمہارا اور آرین کا” انہوں نے سرد مہری سے کہا۔ کرن رانا صاحب کے زبان سے آرین کا نام سن کر ٹھٹک گئی اور سہم کر رخ رانا صاحب کے دوسری جانب موڑا
“آپ کس بارے میں بات کر رہے ہے۔۔۔۔۔ میں سمجھی نہیں۔” کرن نے اپنے خوف کو دباتے ہوئے پوچھا۔
رانا صاحب ایڑیوں کے مل پلٹے اور ان کی تیر سی نظریں کرن کے اندر تک چبنے لگی۔
“میں نے کہا تھا نا۔۔۔۔۔ مجھ سے بےایمانی کی تو جان سے مار دوں گا” رانا صاحب نے کرن کے کندھوں کو جھنجوڑ کر یاد دہانی کرائی۔
کرن افسردہ ہوگئی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
“میں نے کوئی بےایمانی نہیں کی ہے۔۔۔۔۔۔ آپ میرا یقین کیوں نہیں کرتے” کرن نے مایوسی سے ان کے چہرے کے گرد ہاتھوں کا پیالہ بناتے ہوئے کہا۔
“جب میں ٹرپ پر گیا تھا تم اس سے ملتی رہی ہو نا۔” انہوں نے اسی بے ضابطہ اخلاق سے کہا۔ کرن کے تعجب سے آبرو پھیل گئے دل ڈوبنے لگا ہاتھ چھوٹ کر پہلووں میں جا گرے۔
رانا صاحب نے تلخ مزاجی سے سر تا پیر اسے دیکھا۔
“اس بچے سے پہلے۔۔۔۔۔”
“بس رانا صاحب۔۔۔۔۔ اس کے آگے ایک لفظ مت کہیے گا۔۔۔۔۔۔ میں آج تک چپ چاپ آپ کی ڈانٹ۔۔۔۔ آپ کی مار۔۔۔۔۔ آپ کی جھڑک۔۔۔۔۔۔ سب برداشت کرتی آئی ہوں۔۔۔۔ لیکن اپنے کردار پر الزام برداشت نہیں کروں گی” کرن نے بھرائی آواز میں خود کو ان سے دور کرتے ہوئے کہا اور رانا مبشر کی بات حلق میں ہی رہ گئی۔
“یہ میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔ اور میرا اللہ گواہ ہے کہ میں نے آپ سے کبھی بھی دھوکہ بازی نہیں کی۔۔۔۔۔۔ میں پورے تن من سے آپ کی بیوی ہوں اور رہوں گی۔۔۔۔۔۔ ہاں میں آرین سے ملتی تھی لیکن جیسا آپ سوچ رہے ہے ویسا تعلق نہیں تھا ہمارا۔۔۔۔۔ پلیز یقین کرے میرا۔” اس نے نرمی سے بھیگی آنکھوں سے کہا اور پیار سے رانا صاحب کا بازو تھام کر التجا کی۔
رانا صاحب نے تنے ہوئے اعصاب سے پورے زور سے اسے خود سے الگ کیا کرن کے قدم ڈگمگائے اور وہ پیٹ کے بل فرش پر جا گری۔ مارے تکلیف کے وہ چیخنے چلانے لگی۔ رانا صاحب کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے لیکن اپنی جگہ جامد کھڑے رہے۔
کرن کی بلند رونے کی آوازیں سن کر روحان اور نور تیزی سے کمرے سے باہر آئے اور سیڑھیوں کو لپکے۔ روحان پھرتی سے ایک ساتھ تین سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر آیا اور ناب گھما کر دروازہ کھولا۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ دھنگ رہ گیا کرن فرش پر پڑی کراہ رہی تھی اور رانا صاحب تند تاثرات بنائے جامد کھڑے تھے۔
نور پھولتی سانس میں کمرے میں داخل ہوئی اور ہیبت زدہ ہو کر گھٹنوں کے بل کرن کے سرہانے بیٹھی۔
“کرن۔۔۔۔۔۔ کرن کیا ہوا۔۔۔۔۔ روحان دیکھو اسے کیا ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔ کرن۔ ” وہ حواس باختہ کرن کے ہاتھ مسلنے لگی اور کرن پیٹ پکرے مسلسل کراہ رہی تھی۔
روحان کبھی کرن کو دیکھتا کبھی رانا بھائی کے بے اثر چہرے کو۔ اپنے خیالات جھٹکتے ہوئے وہ نور کے ساتھ بیٹھا اور کرن کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
“نور اٹھاو اسے۔۔۔۔۔ کرن ہمت کرو۔۔۔۔ اٹھو۔۔۔۔۔۔ c’mon ۔۔۔۔۔ ہمیں ہسپتال جانا ہوگا۔۔۔۔۔ چلو اٹھو کرن۔” اس نے نور کی مدد سے کرن کو سہارا دے کر اٹھایا اور باہر لے جانے لگا۔
اسے اپنی گاڑی میں لیٹا کر روحان ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور پوری تیز رفتاری سے گاڑی چلا دی۔
رانا صاحب اپنا بزنس مین ہولیہ بناتے ہوئے ایک گھنٹہ بعد ہسپتال پہنچے اور روحان کو نظرانداز کر کے نور سے مخاطب ہوئے۔
“کرن کیسی ہے” انہوں نے متفکر انداز میں پوچھا۔
“ابھی تک کچھ کہہ نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اپنی کوشش کر رہی ہے۔” نور پریشانی سے دوچار اس حالت میں رانا صاحب سے اتنا ہی کہہ پائی۔
رانا صاحب نے ایک جھوٹی نظر روحان پر ڈالی وہ سپاٹ انداز میں ان ہی کو دیکھ رہا تھا۔ رانا صاحب نے جلد رخ پھیرا اور دو قدم آگے کھڑے ہوگئے۔
آنکھیں بند کر کے وہ پیشانی سہلا رہے تھے جب انہوں نے روحان کو ان کے ساتھ آکر کھڑا ہوتے محسوس کیا۔
“ایسی کیا نوبت آگئی کہ اس حالت میں۔۔۔۔۔۔۔ ” روحان نے کہتے ہوئے ہوا میں ہاتھ اٹھائے۔ رانا صاحب نے رخ موڑ کر اسے دیکھا اور واپس خاموش نگاہوں سے سامنے دیکھنے لگے۔ روحان نے بے بسی سے سرد آہ بھری اور واپس مڑ گیا۔ روحان نے آج پہلی بار رانا صاحب سے سوال کیا تھا اس میں رانا بھائی کے آگے بولنے کی ہمت آگئی تھی ان سے مباحثہ کرنے کی قوت آگئی تھی آج رانا صاحب نے روحان کی آنکھوں میں اپنے لیے سرد مہری دیکھی تھی جو ان کو اندیشے میں مبتلا کر رہی تھی۔
وہ تینوں اسی کشمکش میں تھے جب انہوں نے نگار بیگم کو بلند آواز میں جعلی آہ و بکا کرتے دیکھا۔
“ہائیں۔۔۔۔۔ کیا ہوگیا میری بچی کو۔۔۔۔۔۔۔ کس کی نظر لگ گئی۔۔۔۔۔۔ ہائیں۔۔۔۔۔ میری پیاری بچی کس حال میں ہے۔۔۔۔ ” انہوں نے اپنا سینہ کوبی شروع کر دی جو نور نے بر وقت ہسپتال کا لحاظ یاد کرواتے ہوئے انہیں روک دیا۔
رانا صاحب اور روحان نگار بیگم کے ڈرامے پر منہ بھسورتے رہ گئے۔
کمرے کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آتی دکھائی دی تو نور روحان اور نگار بیگم آگے لپکے اور ڈاکٹر سے کرن کا حال دریافت کرنے لگے۔
“کرن خطرے سے باہر ہے۔” ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
“لیکن فلحال دوائیوں کے زیر اثر ہے۔۔۔۔۔ اینڈ ۔۔۔۔۔ we are sorry۔۔۔۔۔ رانا صاحب۔۔۔۔۔ ہم بچے کو نہیں بچا پائے۔۔۔۔۔۔ آپ کی مسزز کا miscarriage (بچہ ضائع ہونا) ہوگیا ہے۔” ڈاکٹر نے افسوس سے رانا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے روانہ ہوگئی۔
اس کی بات سن کر رانا صاحب نے زخمی سانس خارج کی اور لب مینچھے پلکیں جھپکائی۔
وہی دوسری جانب نور نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور نگار بیگم اپنے خاص انداز میں کرسی پر بیٹھ گئی۔
“اshit۔۔۔۔۔” روحان نے کوفت سے دیوار پر لات ماری۔
“روحان۔۔۔۔۔۔ حوصلہ رکھو۔۔۔۔۔ قدرت کو شاید یہی منظور تھا۔۔۔۔۔ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی نا۔۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ کیا کر سکتے تھے۔” نور نے روحان کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا اور اسے کرسی پر بیٹھا دیا۔
اسے سب سے زیادہ رانا بھائی کے لیے پریشانی ہورہی تھی۔
” رانا بھائی۔۔۔۔۔ آپ ٹھیک ہے” نور نے دل گرفتگی سے ہمدرد لہجے میں انہیں مخاطب کیا۔
رنا مبشر نے دل شکستہ انداز میں اداس نظروں سے نور کے جانب دیکھا اور سر کو اثابت میں جنبش دیا۔
سوا گھنٹے بعد رانا صاحب کرسی پر بیٹھے کہنیاں گھٹنوں پر ٹکائے ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر سر اس پر رکھے ہوئے تھے جب نرس نے کرن کے جاگنے کی اطلاع دی۔ وہ چاروں اٹھ کر آگے پیچھے کمرے میں داخل ہوئے۔ کرن زرد چہرے سے اور ویران آنکھوں کے ساتھ نیم دراز لیٹی تھی۔
نور اس کے پہلو میں بیٹھی اور اس کے کندھے سے لپٹ گئی
“شکر ہے تم ٹھیک ہو کرن۔۔۔۔۔۔۔ تم مایوس مت ہونا۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔” نور نے اس سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔
نگار چچی اس کے سرہانے کھڑے ہو کر اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر رہی تھی۔
“ہاں کرن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم سلامت ہو تو یہ خوشی پھر سے آجائے گی۔۔۔۔۔ میں تو کل تمہارے نام سے صدقہ و خیرات کراوں گی۔” چچی نے بھی نرمی سے اس پر ترس کھاتے ہوئے کہا۔
نور اور نگار بیگم اسے دلاسہ دینے کی اسے سمجھانے کی کوشش کرتی رہی اور وہ خاموش بے حس و حرکت ان کو دیکھتی رہی۔ ان پر سے ہوتے کرن کی نظریں پیچھے کھڑے مرد حضرات پر پڑی۔ روحان پھیکا مسکرایا جبکہ رانا صاحب بنا کسی تاثرات کے اسے دیکھ رہے تھے۔
کرن کے دل میں ٹیس اٹھنے لگا اور اضطراب میں اضافہ ہورہا تھا اس لیے رخ موڑا اور دوسرے ٹیبل پر کام کرتی نرس کو پکارا۔
“نرس۔۔۔۔۔۔ مجھے ابھی آرام کرنا ہے۔۔۔۔۔ آپ ان سب سے کہے یہاں سے چلے جائے۔۔” کرن نے سپاٹ انداز میں کہا
نرس کرن کی بات سن کر ان سب کو دیکھنے لگی۔
“چلو نور۔۔۔۔۔” روحان نے نور کا بازو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
“لیکن۔۔۔۔۔” نور نے کچھ کہنا چاہا تو روحان نے نفی میں سر ہلاتے اسے چپ ہونے کا اشارہ کیا اور اسے اٹھانے لگا۔ نور کا دل بھر آنے لگا وہ اٹھ کر روحان کے ساتھ باہر نکل گئی۔
نگار چچی نے اس صورتحال میں مداخلت نہ کرنا مناسب سمجھا اور خاموشی سے باہر نکل گئی۔
کرن سر جھکائے کناکھیوں سے دیکھ رہی تھی رانا صاحب وہی کھڑے رہے۔ ایسے موقع پر لڑکی کو شوہر کا ساتھ درکار ہوتا ہے اس کی تسلی چاہیئے ہوتی ہے، کرن کو اتنا سب ہونے کے باوجود بھی رانا صاحب سے محبت کے نظر کی توقع تھی اس نے سوچ بھی رکھا تھا کہ اگر رانا صاحب اسے تھام کر دلاسہ دے اس سے ایک دفعہ جھوٹ موٹ ہی سہی افسوس کا اظہار کرے اپنے غلطی پر قناعت کرے تو وہ سب کچھ بھلا کر انہیں معاف کر دے گی لیکن اس کے توقعات کے بر عکس رانا صاحب اسی خاموشی سے واپس مڑ کر باہر نکل گئے۔ کرن نے کرب سے آنکھیں بند کر کے آنسوؤں کا گولا اپنے اندر اتارا اور گیلی سانس اندر کھینچ کر خود کو کمپوز کرنے لگی۔
*************&&&&&**************
صبح گھر لوٹنے کے بعد وہ کمرے میں آرام کرنے چلی گئی۔ بیڈ پر لیٹ کر وہ پژمردہ سی خشک آنکھوں سے چھت کو تکتی رہی۔ اس دن رانا صاحب اور روحان آفس نہیں گئے اور نگار بیگم بھی ان کے ساتھ آگئی تھی۔ ناشتہ لنچ ڈنر کرن کو سب کمرے میں ہی دیا گیا۔ رات کو سونے کے لیے رانا صاحب کمرے میں آئے تو آہٹ سن کر کرن نے آنکھیں موند لی اور سونے کی اداکاری کرتی رہی وہ اس وقت کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اگلی صبح مون سون کی بارشیں اپنے آغاز میں تھی باہر وقفے وقفے سے بارش برس رہی تھی۔ وہ رانا صاحب کے آفس جانے کے بعد کمرے سے باہر نکلی بھاری قدموں سے سیڑھیاں اترتے اس کے نظریں گما کر بنگلے کا جائزہ لیا۔
“کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔ پنجرہ سونے کا ہو یا پیتل کا۔۔۔۔۔۔ ہوتا تو پنجرہ ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ایسے بنگلے ایسے جائیداد کا کیا فائدہ جب قید تنہائی نصیب ہو۔۔۔۔” اس نے دل میں سوچا اور اداسی سے سر جھٹکا۔
آخری زینہ پر اس نے روحان کی آواز سنی تو ڈائننگ ایریا میں گئی۔ وہ اور نور وہی بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔
“کرن۔۔۔۔۔۔ طبیعت کسی ہے۔۔۔۔۔۔ ہمیں بلا لیا ہوتا۔۔۔۔ ہم کمرے میں آجاتے تمہارے پاس۔” نور نے سیٹ سے اٹھتے ہوئے مخاطب کیا۔
“اب ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔ کمرے میں دل تنگی کر رہا تھا تو نیچے آگئی۔” اس نے ہلکے آواز میں کہا۔ اس کا دل رانا مبشر سے دکھا تھا نور اور روحان سے نہیں اس لیے وہ صرف رانا صاحب سے رو بہ رو ہونے سے کتراتی تھی۔
“اچھا کیا۔۔۔۔۔ چلیں لاؤنج میں بیٹھتے ہیں” روحان نے دوستانہ انداز میں جواب دیا اور وہ تینوں لاؤنج میں بیٹھ گئے۔
“کرن۔۔۔۔۔۔ رانا بھائی کے برتاو کے لیے میں تم سے معذرت خواہ ہوں۔۔۔۔۔” روحان نے ہاتھ باہم مسلتے ہوئے سر جھکا کر اظہار ندامت کیا۔
“تم کیوں معذرت کر رہے ہو۔۔۔۔ تم نے بر وقت مجھے بچایا ہے۔۔۔۔۔۔ پر اب سوچتی ہوں۔۔۔۔۔ کاش نہ بچاتے۔۔۔۔۔۔ کاش میں بھی مر جاتی۔۔۔” کرن کے دل گرفتگی سے کہا۔
“کیسی باتیں کر رہی ہو کرن” نور نے منہ بناتے ہوئے اسے ٹوکا۔
“مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ رانا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔” روحان نے بے بسی سے کہا اور اٹھ کر کمر پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑا ہو گیا۔
کرن کا دل بھر آنے لگا وہ اپنے اضطراب کو قابو رکھنے ہاتھ مڑوڑنے لگی۔
“جب میرا رانا صاحب سے رشتہ ہوا۔۔۔۔۔۔ میں نے سوچا۔۔۔۔۔ ہماری جوڑی اللہ نے ایک دوسرے کے لیے بنائی ہے۔۔۔۔۔۔ رانا صاحب بھی بچپن سے مشکلات میں جونچھتے رہے ہے۔۔۔۔۔ اور میں بھی۔” کرن پلکیں جھپکا کر آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتی کھڑی ہوگئی۔ ایک لمبی سانس لے کر پھر سے گویا ہوئی۔
ماں باپ الگ ہوگئے ملک چھوڑ کر آنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔ بیوی کم عرصے میں انتقال کر گئی۔۔۔۔۔۔۔ اتنے سال اکیلے گزارے۔۔۔۔۔۔ میری طرح انہیں بھی کبھی اپنوں کا پیار نہیں ملا۔۔۔۔۔۔” کرن کہتے ہوئے کچھ پل خاموش ہوگئی۔ اس کی زبان کپکا رہی تھی۔ نور اور روحان سناٹے میں ڈوبے اسے سن رہے تھے۔ خود کو کمپوز کرتے ہوئے وہ پھر سے اپنی کیفیت بیان کرنے لگی۔
“میں نے سوچا۔۔۔۔۔ اب ہم ایک دوسرے کا سہارا بنے گے۔۔۔۔۔ زندگی کے ہمسفر بنے گے۔۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کو پیار دینگے۔۔۔۔۔ عزت دینگے۔۔۔۔۔۔ وہ خوشیاں دینگے جس سے آج تک محروم رہے ہے۔۔۔۔۔” کرن نے بہتے آنسوؤں میں اپنے دل کے ارمان ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
“لیکن انہوں نے میرے سارے ارمان توڑ دیئے۔۔۔۔۔۔۔ میں پھر بھی کوشش کرتی رہی۔۔۔۔۔ اپنی رشتے کو نبھانے کے جتن کرتی رہی۔۔۔۔۔۔۔ سوچا کبھی تو وہ بدلے گے۔۔۔۔۔۔۔ کبھی تو انہیں میرا احساس ہوگا۔۔۔۔۔۔لیکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے میری آخری آس۔۔۔۔۔ میرے بچے کو بھی ختم کر دیا۔۔۔۔۔۔ پھر بھی اگر انہیں زرا بھی احساس ہوتا تو میں معاف کر دیتی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن انہیں اب بھی احساس نہیں ہے کہ مجھ پر کیا گزر رہی ہے۔۔۔۔۔۔” اتنا کہتے کرن منہ پر ہاتھ رکھ کر صوفے پر بیٹھ گئی اس سے یہ تکلیف اور بیان نہیں ہو پا رہی تھی۔ نور اشک بار آنکھوں سے اس کو دلاسہ دینے لگی اور روحان لب مینچھے کھڑا رہا۔
**************&&&&***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...