شام کو گھر آتے ہوۓ احمد نے سوچ لیا تھا کہ اُسے کیسے راضیہ بیگم سے بات کرنی ہے۔
امی امی کہاں ہیں آپ
یہاں اپنے کمرے میں یہیں آجاو۔۔۔۔
احمد جب کمرے میں داخل ہوا راضیہ تہ کئیے ہوۓ کپڑے اپنی الماری میں رکھ رہی تھیں ۔۔امی سب چھوڑیں ادھر آئیں میری بات سُنیں احمد نے اُنکے بستر پہ بیٹھتے ہوۓ اُنہیں بھی اپنے پاس بُلایا۔۔
ہاں بس آئ یہ لو بیٹھ گئ اب بولو کیا اتنی ضروری بات ہے جو آتے ساتھ کرنا بے حد ضروری ہے؟؟؟
امی میں آپ سے
ہاں مجھ سے
وہ امی میں یہ کہنا چاہ رہا تھا
راضیہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔۔کیا کہنا چاہ رہے ہو اب بول بھی چُکو۔۔۔۔
امی میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔
اچھااااااا
کِس سے کرنی ہے مریم سے
اااااامممممییییی۔۔۔
ہاہاہاہاہا
تمھیں کیا لگا تم نھیں بتاوگے تو مجھے نہیں پتہ چلیگا؟؟؟
میں بہت پریشان تھا کہ آپ سے کیسے بات کروں۔ مجھے لگا کہ شاید آپکو ممانی کہ رویہ کی وجہ سے کوئی ایشو نہ ہو۔۔
نہیں بیٹا وہ میرے بھائ کی بیٹی ہے۔ اور اپنی ماں سے تو بالکل مختلف ہے -جو بھی مسئلے مسائل ہیں وہ سب اپنی جگہ مجھے مریم بہت پسند ہے۔۔۔
thank you so much
فرطِ جذبات سے احمد نے اُنھیں گلے سے لگا لیا۔
تمھاری ماں ہوں بیٹا تمھاری آنکھوں سے ہی تمھاری ہر خواہش جان لیتی ہوں۔
راضیہ نے اپنی آنکھوں میں جھلکتی نمی کو روکتے ہوۓ احمد کو کہا۔۔
میری جان میرا بیٹا۔۔
میں کل ہی بھائ صاحب سے بات کرتی ہوں۔ میرے بیٹے کو اُسکی محبت ضرور ملیگی۔ راضیہ نے احمد کا ماتھا چومتے ہوۓ کہا۔۔
میری پیاری امی۔۔۔
************
رات کے کھانے کہ بعد جب قہوے کا دور چلا تب ممتاز بیگم نے اپنے بیٹے سے بات کرتے ہوۓ کہا۔۔
ساجد پتر
جی ماں جی اُنھوں نے تابعداری سے اکڑوں بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔۔
یہ تم نے کب تک اپنے پُتر کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑے رکھنا ہے؟؟
کیا مطلب ماں جی؟؟
مطلب یہ ہے پُتر جی کہ عادل کی عمر ہوگئ ہے اب اُسکے سر پہ سہرا سجا دینا چاہیۓ۔۔
اُنکی بات پر جہاں عادل کہ کان کھڑے ہوۓ وہیں ریحانہ بیگم کا دل ہولنے لگا۔۔
اُنہیں رضوانہ کہ چہرے کی مُسکراہٹ کچھ جتاتی ہوئ محسوس ہوئ جسے نظرانداز کرتے ہوۓ وہ عادل کہ بالکل ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔۔۔
ہم نے کیا سوچنا ہے بھلا آپ ہماری بڑی ہیں جیسے آپ حُکم کریں گی ویسا ہی ہوگا۔۔۔
اُنہوں نے ہمیشہ کی طرح ایک تابعدار بیٹا ہونے کا ثبوت دیا تھا۔۔اور یہ بات عادل کو آگ لگانے کہ لئیے کافی تھی۔۔
مجھے اپنے بیٹے سے یہی اُمید تھی جیتے رہو۔۔
مجھے عادل کے لئیے اپنی مریم بہت پسند ہے۔ اُنکی یہ بات بجلی کی طرح ریحانہ کے دل پہ گری تھی۔۔اور اُنکی فق ہوتی رنگت جہاں رضوانہ کو مزہ دے گئ تھی وہیں عادل کی برداشت ختم ہوئ تھی۔۔۔۔۔
**************
یوہوووووووووو۔۔۔۔۔
واہ پھوپھو کیا پارٹی ارینج کی ہے آپ نے آپ تو چھا گئ ہیں۔۔سدرہ نے راضیہ کا گال چومتے ہوۓ اُن سے کہا۔۔۔
ظاہر سی بات ہے میرے اعزاز میں ہے پارٹی سپیشل تو ہو گی۔
(راضیہ نے آج ان تینوں کو اپنے ہاں کھانے پہ بُلایا تھا )
ایک تو تم ہر جگہ اپنی اہمیت جتانے سے مت چوکنا- سدرہ نے اپنی چھوٹی سی ناک چڑھاتے ہوۓ کہا۔
چلو چلو کھانا لگ گیا ہے اپنی ورلڈ وار بند کرو۔مریم کہ کہنے پر سب اپنی اپنی کُرسیوں پر بیٹھ گۓ۔
کھانا بہت سادہ تھا پر ذائقہ میں بہترین تھا۔
واہ پھوپھو کیا بریانی ہے آپکی اس بریانی کہ لئیے تو میں ساری زندگی آپکے اس نکمے کو برداشت کرسکتی ہوں-(ایک پل کہ لئیے سب کھانے سے ہاتھ روکے سدرہ کو حیرت سے دیکھنے لگے تھے)
فرید صاحب کہ گھورنے پر سدرہ کو احساس ہوا کہ شاید کچھ زیادہ ہی بول دیا ہے۔
تبھی مریم نے سب کا دھیان بٹانے کے لئیے فہد سے اُسکی فیوچر پلاننگز
کہ بارے میں پوچھنے لگی۔
میں نے کینیڈا کی یونیورسٹی میں اپلائ کیا ہے –
واہ بیٹا اللہ تمھیں کامیاب کرے۔فرید صاحب نے دعا دی۔۔
سدرہ کی زبان میں خارش تو بہت ہوئ پر اپنے بابا کہ ڈر سے خود کو روکے رکھا۔
کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔
چلو تم سب بچے اپنی باتیں کرو۔
مجھے بھائ صاحب سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔
آئیں بھائ صاحب ہم ڈراۂنگ روم میں چلتے ہیں۔فرید اپنی بہن کہ ساتھ چل دئیے تھے۔
مریم نے احمد کی طرف دیکھا (جیسے پوچھنا چاہتی ہو کونسی بات) احمد کا مُسکرا کر شانے اُچکانا مریم کو بہت کچھ جتا گیا تھا۔
اور بھئ کیسا ہے تمھارا tatlitug ہیں یہ کون سی بلا ہے۔
مریم نے حیرت سے پوچھا؟؟
آپکی بہن کی نئ محبت ہے اور کون ہے بھلا۔
سدرہ نے گھور کر فہد کو دیکھا
سدرہ یہ کس کی بات ہو رہی ہے۔۔مریم نے حیرت س پوچھا
میرے ڈرامے کہ ہیرو کی سدرہ کہ سر جھکاۓ معصومیت سے جواب دینے پہ سب کا قہقہ ایک ساتھ گوبجا تھا
************
کیا ہوا راضیہ کوئ مسئلہ ہے کیا؟؟
پیسوں کی ضرورت تو نہیں ہے؟؟
راضیہ کے اس طرح سے اکیلے بات کرنے پر وہ پریشان ہوۓ تھے۔۔۔آج سے پہلے وہ کبھی اسطرح سے اکیلے میں کبھی بات کرنے کے لئیے اُنہوں نے نہیں کہا تھا۔
مانگنا تو واقعی میں کچھ ہے آپ سے بھائ صاحب۔۔کچھ ایسا جو بہت قیمتی ہے۔۔
بھلا ایسا بھی کہا ہے مہرے پاس؟؟
پہیلیاں مت بجھواو کھل کہ کہو کیا ہوا ہے۔۔۔
بھائ جان مجھےآپکی مریم چاپیے اپنے احمد کے لئیے ۔۔۔۔
راضیہ نے یہ بات کر کہ اُنھیں بیک وقت خوشی اور پریشانی دونوں سے ہمکنار کیا تھا۔۔
*************
پر میں مریم سے شادی نہیں کرنا چاہتا-
ایک پل کہ لئیے وہاں موت کا سا سناٹا پھیل گیا تھا-
ساتھ بیٹھی ریحانہ بیگم نے عادل کا ہاتھ دُباتے ہوۓ اُسے خاموش ہونے کو کہا-
پر اگلے ہی لمحے عادل نے نرمی سے اپنا ہاتھ اُنکے ہاتھ سے چھڑوایا-
وہاں بیٹھے سب افراد تو جیسے سکتے میں آگۓ تھے۔۔۔
کیا کہہ رہے ہو یہ تم عادل۔۔
کیا تم جانتے نہیں تمھاری دادو کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔۔ساجد صاحب بات کرتے کرتے غصے میں اپنی نشست سے کھڑے ہو چُکے تھے۔
عادل بھی اب اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔
پر یہ فیصلہ میری زندگی کا ہے ابو۔۔
اور میں اپنی زندگی مریم کہ ساتھ تو کم سے کم نہیں گُزارنا چاہتا تھا۔۔عادل نے تنفر سے کہا۔
رضوانہ کی تو بس ہی ہوگئ تھی اب۔۔۔
کیا مطلب ہے تیرا ہیں ؟؟
عادل ادھر دیکھ کے بات کر ذرا کیا کمی ہے میری بیٹی میں ہاں بتا ذرا۔
کمی نہیں ہے پھوپھو میں کیسے بتاوں آپکو۔۔
میں
میں
کسی اور کو پسند کرتا ہوں۔۔
کیاااااااا
پر کسے (اب کے ممتاز بیگم بولی تھیں)
نبتٰھل کو
کون وہ تیری ماسی کی بیٹی (ممتاز بیگم نے حقارت سے پُر لہجے میں کہا)
جی وہی۔
بسسس سمجھ گئ میں یہ سارا کھیل اسکی ماں نے رچایا ہے یہ اپنے خاندان کی لڑکی لانا چاہتی یہ میری بیٹی پر اپنی بھانجی کو فوقیت دے رہی ہے(رضوانہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ ریحانہ کو اُنکی چوٹی سے پکڑ کر گھسیٹ ڈالیں۔۔)وہ اسی ارادے سے جب آگی بڑھیں تب عادل اپنی ماں کہ آگے ڈھال بن کر کھڑا ہوگیا۔
کیا کر رہی ہیں پھوپھو آپ اس میں امی کا کوئ قصور نہیں ہے۔
میں اُسے پسند کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں بس اتنی سی بات ہے۔
اتنی سی بات نہیں ہے یہ پوری زندگی اپنی اولاد سے زیادہ تمھیں پیا ر کیا اور تم۔
ٹھیک ہے اماں جی پھر–
رضوانہ نے ممتاز بیگم کو دیکھتے ہوۓ کہا جو کب سے خاموش تماشائ بنی ہوئ تھیں۔ اُنکا تو اپنی بات کو رد کیا جانا ہی ابھی ہضم نہیں ہوا تھا۔۔
یہ جس مرضی سے شادی کرے میرا اب اس سے اور اس گھر سے کوئ تعلق نہیں ہے۔
ساجد بھائ مجھے ابھی کہ ابھی گھر چھوڑ آئیں نھیں تو ٹیکسیاں بھت —
وہ یہ کہتے ہی باہر کوبڑھ گئیں ۔ساجد اُن کے پیچھے لپکے
اور ممتاز بیگم اُنہیں آوازیں دیتی رہ گئیں۔۔۔
جبکہ ریحانہ بیگم کو اپنی سانس رُکتی ہوئ محسوس ہوئ کیونکہ وہ جانتی تھیں یہ سارا نزلہ اب اُنہی پر گریگا۔۔۔۔۔۔
یہ تم نے کیا کِیا عادل؟؟؟
امی آپ تو پرسکون رہیں (ریحانہ کے سفید پڑتے رنگ نے عادل کو مزید پریشان کیا تھا)
میں کیسے پریشان نہ ہوں کیا تم اپنی دادو کو نھیں جانتے آج تک کبھی کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوئ کہ اُنکی بات سے اختلاف کرے کوئ۔میرا دل ہول رہا ہے عادل یہ خاموشی مجھے بےچین کر رہی ہے۔کچھ نہیں ہوگا امی مجھ پر بھروسہ رکھیں میں سب سنبھال لونگا۔عادل نے اپنی طرف سے اُنھیں مُطمئین کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔
*************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...