خدا خدا کر کے بیس دن کے عرصے میں لودھیانہ پہنچے۔ شاید رمضان شریف کی ٢٨ تاریخ تھی۔ کیونکہ ہم نے عید کا چاند لودھیانہ میں جا کر دیکھا تھا۔ وہاں کے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے ہم سب کے لیے پہلے سے مکان کا انتظام کر رکھا تھا۔ پرانی سرائے جو وہاں مشہور ہے وہ ساری کی ساری خالی کرا رکھی تھی۔ اس میں جا کر اترے مگر قافلہ بڑا تھا۔ گنجائش نہ ہوئی۔ اس واسطے لوگوں نے کرائے کے مکانات لے کر سکونت اختیار کی۔ مگر میری ساس اور ان کے سب متعلقین سرائے میں رہے۔ میرا یہ حال کہ دل اچاٹ رہتا۔ کیونکہ نیا شہر نئے لوگ۔ سسرال میں بھی اتنا رہنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اول اول نہ کسی سے شناسائی نہ ملاپ، عجب طرح کی کشمکش میں مبتلا تھی۔
ساس کی ناحق کی خفگی
اس پر طرہ یہ ہوا کہ خوش دامن صاحبہ کی ناحق کی خفگی مجھ پر ہونی شروع ہوئی۔ وہ خوش دامنی کا نازیبا داب بٹھانے لگیں۔ صبح کو سلام کرنے کے لیے گھڑیوں کھڑی ہوں، آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔ چپ ششدر ہوں کہ الٰہی کیا کروں۔ کوئی خطا ہو تو معاف کراؤں۔ میرے میکے سے خط آتا ہے اور کسی کنیز یا ماما نے جا کر کہا کہ بیوی! پاٹودی سے خط آیا ہے، تو اس کو جواب یہ دیتیں کہ پھر میں کیا کروں۔ کبھی خدا کی بندی نے یہ نہ پوچھا کہ خیر صلاح تو ہے یا اگر کوئی بیمار ہے تو وہ کیسا ہے۔
میں اپنی ہم جولیوں میں بیٹھی ہوئی اگر کسی بات پر ہنس پڑتی تو کہتیں: “تمھیں کیا دکھائی دیا جو ہنستی ہو؟” اور جو مجھے کبھی اپنے ماں باپ یاد آئے اور میں رونے گئی تو پوچھتیں: “کیا تمھارا کوئی مر گیا ہے یا سناؤنی آئی ہے جو روتی ہو”۔ ناک میں دم آ گیا۔ میرے ساتھ کے جو آدمی تھے وہ بھی زچ ہو گئے۔ ایک دن استانی جی نے انور محل صاحبہ سے، جو میری سوتیلی ساس تھیں، جا کر کل حقیقت بیان کی۔
سوکن کا سوکن کو سمجھانا
انھوں نے آ کر میری ساس کو بہت سی ملامت کر کے اور پس و پیش سمجھا کر کہا کہ “دیکھو بہو کے ساتھ ایسا برتاؤ برتو جیسے دنیا جہاں کا دستور ہے۔ وہ بات نہ کرو جس میں لوگ تمھیں نکو بنا دیں۔ بہو کو شفقت اور دلاسے سے رکھو، کیونکہ وہ ابھی نادان ہے، نگوڑی نو برس کی جان ہے۔ پہلے ہی پہل وہ اپنے ماں باپ سے جدا ہوئی ہے۔ انھوں نے صرف تمھارے ہی بھروسے پر سینکڑوں کوس بھیج دیا ہے۔ کیا اس کے بدلے تمھیں یہی چاہیے کہ تم اس کے خون کی پیاسی ہو جاؤ۔ خدا کو کیا منہ دکھاؤ گی۔ آخر پچھتاؤگی۔ اور دیکھو اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بہو تمھاری برابری میں جواب دینا سیکھ جائے تو کیا بات رہ جائے گی۔ علاوہ اس کے وہ کوئی غریب فقیر زادی تو نہیں ہے، امیر کی لڑکی ہے۔ اگر اس کے ماں باپ کو خبر ہو گئی تو کیسی تھڑی تھڑی ہوگی۔ بوا خدا کو مانو، ایسی باتوں سے باز آؤ۔ بہو کی دل داری کرو۔ گلے سے لگاؤ”۔ ہزار طرح سے سمجھایا، مگر بھلا وہ کب مانتی تھیں۔
میری ددّا اور ساس کی تکرار
آخر ایک دن میری ددا اور ساس میں خوب چخ ہوئی۔ ددا بھی بھری تو بیٹھی تھی، ایسے پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑیں کہ انھیں پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا۔ پر بوا! مجھے تو ہمیشہ بک بک جھک جھک کرنے سے چڑ رہی ہے، جلتی بیٹھتی مگر دم نہ مارتی۔ چپ لگ گئی تھی اور ایسا حال ہو گیا تھا کہ اچھی طرح نہ کھاتی تھی نہ پیتی تھی۔ رنگت زرد، آنکھوں میں حلقے، چہره اداس، صورت غمگین۔
استانی جی کا سمجھانا
ایک روز استانی جی نے مجھے دیکھ کر کہا کہ “بیگم! ایسی چپ چپ کیوں رہتی ہو۔ بہو، ساس، نندوں کا تو ایسا ہی معاملہ ہے۔ ابھی سلامتی سے تمھارے میاں نادان ہیں۔ جس وقت ماشاء اللہ ہوشیار ہو جائیں گے، اپنے نیک و بد کو آپ سمجھنے اور اپنی بگڑی باتوں کا آپ بندوبست کرنے لگیں گے تو یہ سارے جھگڑے ٹنٹے جاتے رہیں گے”۔ میں نے جواب دیا کہ “ہے ہے استانی جی! اتنی مدت تک یہ ظلم مجھ پر ہوتے رہیں گے اور میں اس ہر دم کی کوفت سے جب تک کیوں کر زندہ بچوں گی۔ استانی جی میں نے تو ایسی ساس نہ کسی کی سنی نہ دیکھی۔ میں تو ایسی زچ ہوئی ہوں کہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہوں۔ جو بات ہے سو ٹیڑھی، جو ادا ہے سو نرالی”۔ اس پر ددا نے کہا کہ “استانی جی! خدا خدا کرو، نوج ایسی ساس کسی کی ہو۔ دیکھتی ہو کہ بات بات پر لڑکی سے الجھتی ہیں۔ انھوں نے سمجھا کیا ہے۔ اب وہ ایک کہیں گی تو دس سنیں گی۔ کیونکہ صبر کی حد ہو چکی۔ اب ہم سے نہیں رہا جاتا۔ تم کو یاد ہے، جس دن میرے منہ لگی تھیں تو میں نے کیسے کیسے جواب دیے تھے۔ چپ ہی تو ہو رہیں”۔ بوا! چھے مہینے میں وہاں رہی، اس تکا فضیحتی میں کٹی۔
ابا جان کا خط میری ساس کے نام آنا اور میرا پاٹودی جانا
چھے مہینے کے بعد ابا جان نے ایک خط میرے بلاوے کا میری ساس کے نام لکھ کر صوبیدار اسمعیل خاں کے ہاتھ بھیجا اور دس سوار چار پہرے سپاہیوں کے ان کے ساتھ کیے۔ جس دن اسمعیل خاں مع اپنے ہمراہیوں کے لودھیانہ میں پہنچے ہیں اور انھوں نے وہ خط میری ساس کو دیا ہے اور اس کا مضمون مجھے معلوم ہوا ہے، اس روز کی خوشی کا کیا بیان کروں۔ مارے خوشی کے خود بخود تھیں کہ باچھیں کھلی جاتی تھیں اور یہ جی چاہتا تھا کہ اگر پر ہو جائیں تو اسی وقت اڑ کر چلی جاؤں۔ سہیلیاں آن آن کر چپکے چپکے مبارک باد دیتی تھیں۔ اور میں باغ باغ ہوتی تھی۔ چار پانچ روز اسمعیل خاں، لودھیانہ میں رہے۔ میں نے وہ دن گن گن کر کاٹے۔
لودھیانہ سے پاٹودی کو آنا
چھٹے روز لودھیانہ سے روانہ ہوئی۔ منزل بمنزل چلتے تھے۔ چودہ پندرہ روز میں دہلی آئے۔ یہاں پہنچ کر ایک سوار کو پاٹودی روانہ کیا۔ اس نے جا کر وہاں میرے آنے کی خبر پہنچائی۔ سن کر ماں باپ کی جان میں جان آئی۔ دوسرے روز دہلی سے روانہ ہوئی اور گوڑ گاؤں میں پہنچ کر قیام کیا۔ شب وہاں گزار کر پاٹودی کا رخ کیا۔
بڑے بھائی صاحب کا پیشوائی کو آنا
آدھی منزل طے کی ہوگی، سنتی کیا ہوں کہ بڑے بھائی جان محمد تقی علی خاں صاحب مرحوم میرے لینے کے واسطے چلے آتے ہیں۔ قریب آئے تو سواریاں دیکھتے ہی گھوڑے پر سے کود پڑے۔ آن کر مجھ سے ملے۔ رتھ میں سے اتار کر پالکی میں سوار کیا۔ نو بجے کے قریب پاٹودی میں پہنچے، محل میں اترے۔ اماں جان نے بلائیں لیں، گلے سے لگایا، پیار کیا۔ ابا جان مل کر بہت خوش ہوئے۔ دور نزدیک سے مبارک باد کی صدا پیدا ہوئی۔ مہمان آنے لگے۔ ڈومنیاں مبارک باد گانے لگیں۔ پیر دیدار کا کونڈا ہوا۔ بیوی کی نیاز دلائی۔ رات بھر رت جگا رہا۔ میں نے سسرال کا سارا قصہ سنایا، کبھی ہنسایا کبھی رلایا۔ پھر تو بوا ہم سوا برسں میکے میں رہے۔ نہایت خوش و خرم نہ کسی کا فکر نہ غم۔ اپنی ہم جولیاں تھیں اور ہم۔ خوب آرام سے گزری۔ بعد سوا برسں کے پھر ساس نے بلاوا بھیجا۔ جی تو ہر گز جانے کو نہ چاہتا تھا، مگر ناچار روانگی کی تیاری کی۔
پاٹودی سے لودھیانہ کو جانا
اور آخر ماں باپ بہن بھائیوں سے رخصت ہو کر ایک روز لودھیانہ کو روانہ ہوئی اور رستے کی منزلیں طے کر کے سسرال میں پہنچی۔ اپنی ساس کو جو دیکھتی ہوں تو وہی بد مزاجی، بد زبانی، خود پسندی، جنگ جوئی۔ میں نے بہتیرا چاہا کہ اپنا ادب رکھیں اور میری زبان نہ کھلوائیں۔ اول اول تو بہت سا ٹالا، پر وہ کب مانتی تھیں۔ روز کی جھک جھک سے میرا دل جل گیا تھا۔