قدرے نشیب میں واقع لکڑیوں کا بنا وہ مکان اپنے قدم جمائے کھڑا تھا۔اسنے دروازے کو ہلکا سا دھکا دے کر کھولا اور اندر داخل ہوا ۔اندر لکڑی کے فرش والے چوکور برآمدے میں میٹ بچھا ہوا تھا ۔اسکے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ چھوئی۔اسی میٹ پر مارشل آرٹس سیکھتے ہوئے اسنے اپنا بچپن گزارا تھا اور ساتھ ہی حالات کے طلاطم سے لڑنے کا گر بھی سیکھا تھا۔وہ اِدھر اُدھر دیکھتا اندر جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسکے گھٹنے سے کوئی سخت سی چیز ٹکرائی۔ایک ہلکی سی کراہ اسکے لبوں سے آزاد ہوئی اور اسنے جھک کر فائبر کی چھوٹی گولی اٹھائی ۔محتاط نظروں سے چاروں طرف دیکھ کر وہ ایک راہداری میں گیا۔بالکل دبے پاؤں چلتے ہوئے وہ خاموشی سے سنہرے بالوں والی لڑکی کے پیچھے جا کھڑا ہوا جو ہاتھ میں پسٹل لئے شاید اگلے نشانے کی تیاری کر رہی تھی۔لبوں پر امڈتی ہوئی مسکراہٹ کو دباتے ہوئے اسنے لڑکی کا پسٹل والا بازو سختی سے پکڑا اور اسکا ہاتھ پیچھے کی طرف موڑ دیا تھا۔
“مجتبٰی! مجھے چھوڑو۔” وہ دبی دبی آواز میں چیخی۔
“نہیں پہلے تم بتاؤ کہ تمہاری یہ بچپن والی عادت کب چھوٹیگی؟” وہ ہنوز اسکا بازو پکڑے کہہ رہا تھا ۔
“کون سی عادت؟”
“یہی مجھے چوٹ پہنچانے والی۔”
“اچھا نا۔۔۔آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔”
“تم ہر دفعہ یہی کہتی ہو۔” اسکی تکلیف سے حظ اٹھاتے ہوئے اسنے کہا.
سنہرے بالوں والی لڑکی نے یکدم پوری قوت سے اپنی کوہنی اسکے سینے پر دے ماری. وہ کراہتا ہوا پیچھے ہٹا اور وہ ہنستی ہوئی اسکی طرف مڑی۔
” الماس! تم میری اکلوتی دوست ہو جو میری تکلیف پر ہنس رہی ہو۔” اسنے ناراضگی سے کہا۔اس وقت اسکی آنکھوں میں کوئی تیکھا پن نہیں تھا۔لہجہ میں کوئی تلخی نہیں تھی۔وہ ایسا ہی تھا۔اس گھر میں آتے ہی جیسے اسکے جلتے ہوئے جسم کو سکون مل جاتا تھا ۔وہ یہاں وہی بن جاتا جو وہ اصل میں تھا۔معصوم اور سادہ۔
” ہوں تو اور تمہاری کون سی ایسی دوست ہیں جو تمہاری تکلیف پر آنسو بہاتی ہیں ۔” اپنے سینے پر بازو لپیٹے الماس کی سبز آنکھوں میں شبہ اترا۔
“ابھی تک تو نہیں ہے ۔۔لیکن کیا پتہ کوئی ایسی مل جائے ۔” اسنے اسکے شبہے کو مزید بھڑکایا ۔
“مجتبٰی! میں بتا رہی ہوں۔۔۔سب سے پہلے تو میں اس لڑکی کی جان لونگی اسکے بعد پھر تمہاری باری آئیگی۔”اسنے دھمکی آمیز انداز میں کہا ۔
“ہاں مجھے تمہاری اسکلز کا اچھی طرح اندازہ ہے ۔”اسنے کہا اور ہاتھ بڑھا کر اسکے ہاتھ سے پسٹل لے لی۔
اب وہ دونوں لکڑی کے زینے پر بیٹھ گئے تھے ۔
” چلو یہ بتاؤ کہ تم آج کس وجہ سے ادھر آئے ہو؟ بغیر کسی وجہ کے تو تم کہیں نہیں جاتے۔” اسنے اپنا چہرہ اسکی جانب موڑتے ہوئے پوچھا ۔
“دو وجوہات ہیں ۔پہلی تو مجھ سے جڑی ہے اور دوسری تمہارے متعلق ۔”
“پہلے اپنی والی بتا دو۔”
“کرنل سے کہنا کہ مجھے ایک لائسنسی گن چاہیے ۔”
” اف مجتبٰی! یہ گن اور گولیوں کی بات کر کے مجھے ڈرایا مت کرو ۔یہ بات معلوم ہے نا کہ اگر آپ کسی کی طرف ایک گن اٹھاتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ ایسی ہی اور گنیں آپ کی طرف بھی اٹھی ہوئی ہوں ۔”
“حیرت ہے کہ ایک کرنل کی بیٹی ہوتے ہوئے بھی تمہیں ہتھیاروں سے ڈر لگتا ہے ۔”
” ہاں مجھے ڈر لگتا ہے ۔کیونکہ یہ خطرناک چیزیں ہم سے بہت کچھ چھین لیتی ہیں ۔مجھے خوف آتا ہے رشتوں کو کھونے سے۔۔میں کسی سے دور جانے کے تصور سے بھی کانپ جاتی ہوں ۔”اسکا لہجہ بھیگ گیا۔
حسن مجتبٰی نے ہاتھ بڑھا کر اسکا کندھا تھپکا۔” میں یہ گن اپنی حفاظت کے لئے لے رہا ہوں الماس!لیکن یقین کرو نا گریز حالات کے سوائے میں اسے کبھی استعمال نہیں کرونگا۔”
” تمہیں کس سے خطرہ ہے؟ ”
اسکی بات پر اسنے اسکا چہرہ دیکھا۔” تم جانتی تو ہو سب کچھ۔” اسنے دھیمے لہجے میں کہا ۔
“حسن مجتبٰی!” اسنے اسے پورے درد سے پکارا ۔” چھوڑ دو لاحاصل چیزوں کے پیچھے بھاگنا۔سوائے اذیتوں اور پچھتاؤں کے کچھ نہیں ملیگا۔ان سب سے اگر کسی کو نقصان ہوگا تو وہ تم اور تم سے جڑے رشتے ہونگے۔” اسنے ہزار دفعہ کی کہی بات ایک دفعہ پھر دہرائی۔
“میرے اندر کی آگ اب بھڑک کر شعلہ بن چکی ہے ۔اب میں اسے چاہ کر بھی نہیں بجھا سکتا ۔یہ صرف اپنے مقصد کو پورا کر لینے کے بعد ہی ٹھنڈی ہوگی۔اور اسکی زد میں کون آتا ہے اسکی مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۔”اسکی بھوری آنکھوں سے تیکھا پن جھلکنے لگا۔
“اوکے میں بابا سے کہہ دونگی کہ تمہیں گن مہیا کرا دیں ۔”الماس نے گہری سانس لے کر بات سمیٹی۔” اور دوسری وجہ کیا تھی تمہارے یہاں آنے کی؟ ”
” کرنل کہہ رہے تھے کہ میں تم سے شادی کی بات کروں ۔”وہ کہتے ہوئے مسکرایا۔آنکھوں کا تیکھا پن غائب ہو گیا تھا ۔
الماس نے اسکا چہرہ دیکھا۔ اسکے چہرے پر بھی ہلکی مسکراہٹ آئی۔
” تم شادی کے لئے تیار کیوں نہیں ہوتیں؟ اگلے ہفتے ایک فیملی آرہی ہے۔اچھے لوگ ہیں میں بھی انہیں جانتا ہوں ۔کرنل چاہتے ہیں کہ تم ایک دفعہ ان سے مل لو۔” وہ بے نیازی سے دوسری جانب دیکھتا کہہ رہا تھا ۔
الماس کی مسکراہٹ سمٹی اور اسنے اپنے لب کچلے۔
“بابا سے کہنا ہے میں تھوڑا اور انتظار کرنا چاہتی ہوں ۔”اسنے کہا اور اٹھ گئی تھی ۔وہ بھی اسکے پیچھے سیڑھیاں اترنے لگا۔
– – – – – – – – –
اس چھوٹے سے کمرے میں ایک نیلے نائٹ بلب کے علاوہ کوئی دوسری روشنی نہیں تھی۔وہ تنگ سا کمرہ شاید کبھی استعمال کیا جاتا رہا ہو مگر اب وہاں دھول و گرد کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔اس قبر جیسے کمرے میں وہ گھٹنے موڑے پیٹ سے لگائے زمین پر پڑی تھی۔ہونٹ کے کنارے زخم پر اب کھرنڈ جم چکی تھی ۔بال دھول سے اٹ کر ایک دوسرے سے چپک گئے تھے ۔اسکے جسم پر وہی لباس موجود تھا جو اس نے اپنے اغوا کے وقت پہنا تھا۔ایک ہفتے سے وہ اس عالیشان محل کے زنداں میں محبوس تھی۔پپڑی زدہ لب اور دھیمی دھیمی چلتی سانسوں کے بیچ وہ فضا میں موجود حبس کو بھی محسوس کرنے کے قابل نہیں تھی۔اپنے گھر واپس جانے کی ساری امیدوں کو چھوڑ کر وہ بس اپنی سانسیں گن رہی تھی کہ شاید سانسوں کی یہ بے رحم ڈور ٹوٹے اور وہ ہمیشہ کے لئے پرسکون ہو جائے ۔
تب ہی دروازے پر کھٹکا ہوا اور دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی ۔مگر وہ اسی طرح پڑی رہی۔کوئی بے حد آہستگی سے چلتا اسکے قریب آیا اور دو زانو اسکے پاس بیٹھ گیا ۔
“جویریہ!” کسی نے بے حد اپنائیت اور دکھ سے اسے پکارا۔
وہ آنکھیں کھولتی سیدھی ہوئی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔اسکا بھائی اسکے سامنے تھا۔اسے ہر چیز خواب جیسی لگی یا کوئی وہم. وہ اسے ہاتھ لگائیگی اور وہ غائب ہو جائیگا۔فہد ندیم مزید اسکی ویران آنکھوں میں نہیں دیکھ پایا۔اسنے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے قریب کیا اور اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔وہ اب ہچکیوں سے رو رہا تھا ۔تو یہ نا ہی خواب تھا اور نا ہی کوئی وہم۔اسکا بھائی حقیقتاً اسکے سامنے تھا۔اسنے پہلی دفعہ اسے آنسوؤں سے روتا دیکھا۔اسکے آنسو اب جویریہ کے کندھے پر گر رہے تھے ۔مگر آسکی آنکھیں خشک تھیں ۔وہ پچھلے ایک ہفتے میں جتنا رو چکی تھی کہ اگر اسکے پاس آنسوؤں کا سمندر بھی ہوتا تو ختم ہو گیا ہوتا۔اسکے کندھے پر اپنا سر رکھے وہ بے تاثر نگاہوں سے اسے روتا دیکھ رہی تھی ۔
“جویریہ! بہت تکلیف پہنچائی ہے انہوں نے ۔” اس سے الگ ہوتے ہوئے اسنے اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے تھاما۔
“بھائی! آپ مجھے لینے آئے ہیں نا!” اسکے سوال کو نظر انداز کر کے اسنے پوچھا۔
اسکے سوال میں اتنی حسرت تھی کہ فہد کو اپنا دل کٹتا محسوس ہوا۔وہ آج اسی لئے یہاں اپنے ایک قریبی دوست ایس۔پی کے ساتھ آیا تھا ۔اور جب ان لوگوں سے جویریہ کے بابت سوال کیا گیا تو انہیں نکاح کے پیپرز کے ساتھ جویریہ کے دستخط شدہ پیپر دکھایا گیا جس میں صاف لکھا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے یہاں پر ہے اور اپنے بھائی کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔دوسرے یہ کہ اسے اپنے بھائی سے خطرہ ہے اسلئے وہ یہیں رہیگی۔
کاش وہ اسے یہاں سے لے جا پاتا۔جسے اتنی محبت سے پال کر بڑا کیا تھا وہ اسکی نظروں کے سامنے ارزاں حالت میں تھی اور وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں تھا ۔اسکی آنکھوں میں ایک دفعہ پھر آنسو آنے لگے۔
“میں تمہیں یہاں سے لے جاؤنگا جویریہ! یہ میرا وعدہ ہے۔تمہیں بس تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔ان بڑے اور طاقتور لوگوں کو مجھے دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہے ۔بس دو دن رک جاؤ۔پھر تم دیکھ لینا کہ تمہارا بھائی کس طرح تمہیں یہاں سے بحفاظت نکال لینے کے ساتھ ڈی ڈی کمپنی کی حقیقت دنیا کے سامنے لے آئیگا۔”اسنے کہا اور اسکے سر کو تھپتھپاتا وہاں سے چلا گیا تھا ۔
” مجھے یہاں سے نکال لیں بھائی! میں یہاں نہیں رہ سکتی ۔آپکی بہن مر جائیگی۔آپ اسے یہاں سے دور لے جائیں بھائی! “جویریہ زمین پر لیٹی، آنکھیں بند کئے دیوانہ وار وہی الفاظ دہرائے جا رہی تھی ۔
– – – – – – – – – –
فرنچ ونڈو سے چھن کر آتی چمکیلی دھوپ اس ہال نما آفس کو روشن کر رہی تھی۔آفس میں دیوار کے ایک سائڈ تین بڑی بڑی کاغذات سے بھری الماریاں رکھی تھیں ۔وسط میں ایک گلاس ٹیبل ویل آرگنائزڈ انداز میں ارینج تھی۔وہ حسن مجتبٰی کی میز تھی۔اسی کی طرح اپ ٹو ڈیٹ اور نظم و ضبط کی پابند ۔اس آفس میں حسن مجتبٰی کی میز کے علاوہ دو میزیں اور تھیں۔ایک میز پر اسکا اسسٹنٹ فیصل سر جھکائے مسلسل کام کر رہا تھا اور دوسری میز انابہ سلمان کی تھی جسے کسی بھی لحاظ سے کام کرتا ہوا نہیں کہا جا سکتا تھا ۔وہ تو تھوڑی اپنی دائیں ہتھیلی پر رکھے یک ٹک حسن مجتبٰی کی خالی میز کو دیکھ رہی تھی ۔اسکے سامنے بھی لیپ ٹاپ کھلا رکھا تھا اور آفس سے نکلنے سے پہلے وہ اسے کئی کام دے کر گیا تھا ۔مگر وہ کام ادھورا چھوڑے آدھے گھنٹے سے اسکی خالی میز کو تاک رہی تھی ۔پچھلے پندرہ دنوں سے وہ یہاں تھی اور ان دونوں کا تعلق وہی تھا جو ایک سینئر کا اپنے جونیئر کلیگ کے ساتھ ہوتا ہے ۔اتنے کم وقت میں اسے اس چیز کا ادراک ہو گیا تھا کہ حسن مجتبٰی کا ستارہ بام عروج پر کیوں ہے؟ وہ اتنے کم عرصے میں کس طرح کامیابی کے منازل طے کرتا بہت سارے لوگوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے ۔وہ اپنے کام کے لئے بہت جنونی تھا۔ہفتے میں ایک دن نشر ہونے والے اپنے پروگرام کے لئے وہ پورے ہفتے محنت کرتا تھا ۔کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات، کوئی باریک سا نظر آنے والا نکتہ اسکی باریک بین نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہ پاتا تھا ۔اسے اپنے پیشے سے عشق تھا، اسے کام سے محبت تھی۔اسکی ہر بات سچائی کے سہارے کھڑی رہتی تھی۔بے لاگ و لپیٹ انداز ۔۔وہ اپنے مقابل کو اپنے ایک جملے سے مات دیا کرتا تھا ۔
انابہ سلمان، حسن مجتبٰی کی شخصیت کے سحر میں اتنی گرفتار ہو چکی تھی کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ آفس کا گلاس ڈور کھولتا اندر داخل ہو چکا ہے ۔اور اسے تب بھی احساس نہیں ہوا جب وہ بالکل اسکی میز کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ۔وہ تب چونکی تھی جب اسنے ایک موٹی سی فائل آواز کے ساتھ میز پر رکھی ۔
“مس انابہ! آپ نے یہ کام مکمل کر کے دیا ہے؟” دایاں ابرو اٹھاتے ہوئے اسنے تیکھے انداز میں پوچھا ۔
انابہ نے ایک نظر نیلے کور والی فائل پر ڈالی اور دوسری غصے سے لب بھینچے کھڑے حسن مجتبٰی پر۔
“میں نے تو سارے پوائنٹس درست لکھے ہیں ۔” اسنے اعتماد سے کہا اور ساتھ ہی بے نیازی سے اپنے شانوں کو جنبش دی ۔
” آر یو شیور؟” اسنے تلخی سے کہا ۔
“آف کورس ۔۔۔” اسکے جواب میں بے نیازی تھی۔
“میں نے کہا تھا کہ اُس سلم ایریا میں جا کر ہر اس گھر کی نشاندہی کریں جہاں ایک وقت بھی کوئی بھوکا سوتا ہے ۔”
“شیور سر! مجھے آپ کی بات اچھی طرح یاد ہے ۔اور میں نے وہی کیا بھی ہے ۔”اسنے کہتے ہوئے فائل کی ربن کھولی اور کاغذ پر انگلی سے اشارہ کیا ۔”یہ دیکھیں پوری لسٹ ہے اور ان گھروں میں کتنے افراد ہیں، انکی ماہانہ انکم کتنی ہے وغیرہ ساری تفصیلات موجود ہیں ۔”
” واچ یور ورڈز انابہ! ایک دفعہ پھر پوچھ رہا ہوں کہ کیا آپ خود گئی تھیں یہ سروے کرنے؟” اسنے جھٹکے سے فائل لی اور اسے فرش پر پھینک دیا ۔
لیپ ٹاپ پر جھکے فیصل نے بس ایک بار اپنا سر اٹھایا تھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا ۔وہ جانتا تھا کہ حسن مجتبٰی کو بے قاعدگی کتنی ناپسند ہے اور اس سے بھی زیادہ وہ لوگ ناپسند ہیں جو یہ بے قاعدگی کرتے ہیں ۔
انابہ نے فائل کو اسکے ہاتھ سے فرش پر جاتے دیکھا اور لیپ ٹاپ کی اسکرین فولڈ کرتی کھڑی ہو گئی ۔وہ وہاں سے اٹھ کر فائل تک آئی تھی اور بڑے احتیاط سے فائل کو اٹھایا ۔فائل واپس میز پر رکھتے ہوئے اسنے بھوری آنکھوں والے حسن مجتبٰی کو دیکھا۔
“میں وہاں خود جاؤں یا کسی کو بھیجوں کیا فرق پڑتا ہے؟ کام تو وہی ہوا ہے جو آپ کو چاہیے تھا ۔” چہرے پر بے نیازی سجائے اسنے اپنی پیشانی پر گرنے والے بالوں کو انگلی سے پرے کیا۔
فیصل نے ایک پر تاسف نگاہ انابہ پر ڈالی ۔اس لڑکی کا آج دن بہت برا تھا۔حسن مجتبٰی کو وہ لوگ زہر لگتے تھے جو اپنی غلطیوں کی توجیحات پیش کرتے تھے ۔حسن مجتبٰی کی کشادہ پیشانی پر بے شمار بل پڑے اور اسنے مٹھی بند کرتے ہوئے اسکی طرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا ۔
“مس انابہ سلمان! کسی ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر اپنی ایک فون کال سے اکٹھا کی گئی انفارمیشن کو سروے نہیں کہتے ہیں ۔ہر دروازے تک آپ کو خود پہنچنا ہوتا ہے، ہر بندے سے آپ نے خود سوال کرنے ہوتے ہیں ۔دھوپ میں جلنا پڑتا ہے اور اپنے جوتوں کو دھول سے مانوس کرانا ہوتا ہے ۔تب کہیں جا کر مستند اور معتبر رپورٹ سامنے آتی ہے ۔”وہ بھوری آنکھوں میں ڈھیروں غصہ اور تلخی لئے اسے کہہ رہا تھا ۔اور وہ سینے پر بازو لپیٹے بےحد سکون سے سن رہی تھی ۔” اگر آپ کو ٹرتھ مرر میں یہی سب کرنا ہے تو آپ کوئی اور ادارہ جوائن کر لیں ۔لیکن آپ نے مزید یہی روش برقرار رکھی تو پھر ہمارا ساتھ کام کرنا ناممکن ہوگا۔سمجھیں آپ؟” اسنے ہنوز پرتپش لہجے میں کہا ۔
انابہ نے ایک گہری سانس لی۔کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ کی اتنی بے عزتی کر رہا ہو، بد لحاظی سے بے بھاؤ کی سنا رہا ہو مگر پھر بھی آپ کو اسکی ڈانٹ بری لگنے کی بجائے اچھی لگے اور آپ چاہیں کہ وہ یونہی مزید آپ کے سامنے کھڑا آپ کو ڈانٹا ہی رہے۔
“آپ کل جائینگی اور دوبارہ یہ رپورٹ بنا کر لائینگی۔دیٹس اٹ!” وہ اب مڑ گیا تھا ۔وہ اثباتی انداز میں اپنا سر ہلاتی واپس اپنی جگہ آ کر بیٹھ گئی۔
– – – – – – – – –