عثمانی سلطنت کے شہر توقات میں ماہر ہنرمند تھے۔ بغداد، موصل اور بصرہ میں کاٹن ورکشاپ تھیں۔ موصل شہر تھا جہاں ململ بنتی تھی۔ موجودہ مالی کے دارالحکومت بماکو میں چھ سو جولاہے تھے۔ کانو میں بنے کپڑے صحارا میں پہنے جاتے تھے۔ ٹمبکٹو میں 1590 میں 26 ورکشاپ تھیں جن میں پچاس یا اس سے زیادہ مزدور کام کرتے تھے۔ اوساکا میں اٹھارویں صدی کے آغاز میں تیس سے چالیس ہزار لوگ اس پیشے سے منسلک تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورکشاپ کی آمد کے بعد پیشہ ور جولاہے کا تصور آیا۔ ایسا شخص جو کپڑے کو بیچنے کے لئے تیار کرتا تھا۔ لیکن زیادہ تر پیداوار دیہات میں تھی۔
اور یہاں سے ہندوستان میں ایک اور پیشہ مشہور ہوا جو ساہوکار تھا۔ مثال کے طور پر دیہاتی جولاہے کو دھاگہ خریدنا ہوتا تھا اور جب تک کپڑا تیار نہ ہو جائے، اپنی گزر بسر کے لئے خرچ کی ضرورت ہوتی تھی۔ ساہوکار یہ قرض دیتے تھے۔ اور کپڑے کی فروخت پر پیسے لوٹائی جاتے تھے۔ کپاس کے کاشتکار سے پیشہ ور کاریگر تک سرمایے کی ضرورت نے ہندوستان میں سرمایہ دار اور پروڈیوسر کو ایک دوسرے سے گہرے تعلق میں منسلک کر دیا۔
ہندوستان میں کاریگروں کا اپنی محنت پر باقی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ کنٹرول تھا، کیونکہ ساہوکار کو غرض صرف پیسے کی واپسی سے تھی۔ بنائی گئی پراڈکٹ سے نہیں۔
عثمانیہ سلطنت میں تاجر یہ قرض دیا کرتے تھے اور ان کی ضرورت اور فرمائش کے مطابق کاشتکار دھاگہ سے ہنرمند تک سب اپنا تھوڑا منافع رکھ کر تاجر کے لئے پراڈکٹ تیار کرتے۔ چین میں تاجروں کے پاس یہ کنٹرول اور زیادہ مضبوط تھا۔
جس طرح سے کپڑا بُنا جا رہا تھا، ویسے ہی اس کے گرد پھیلی معاشی اور سیاسی سلطنت کا جال بھی۔
پیداوار کم تھی، محنت زیادہ۔ ٹیکنالوجی کی بڑی جدتیں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں آئیں۔ لیکن اس سے پہلے بھی مختلف ایجادات کی جاتی رہیں۔ ان کا مرکز ایشیا رہا۔ روئی اوتنے کی مشین (roller gin)، اوتی روئی کو صاف کرنے اور بل نکالنے کی مشین (bow)، چرخہ، اور کئی اقسام کی کھڈیاں ایشیا میں ایجاد کی گئیں۔ خاص طور پر گیارہویں صدی میں ایجاد کیا گیا چرخہ ایک بہت اہم ایجاد تھی۔
سب سے بڑی ایجاد کپاس کے پودے میں لائی گئی جدتیں تھیں۔ جو کپاس انیسویں صدی میں کھیتیوں سے اتاری جاتی تھی، وہ دو ہزار سال پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ مختلف تھی۔ مصنوعی چناو نے کپاس کو مختلف ماحول میں کاشت کے قابل بنایا۔ چین، جاپان، جنوبی ایشیا، شمالی اور جنوبی امریکہ، مغربی افریقہ اور اناطولیہ میں کپاس کے بیج دوسرے علاقوں سے لائے گئے اور اس کی فصل کاش ہونا شروع ہوئی۔ صدیوں کے سفر میں کپاس کے پودے کی اپنی خاصیتیں بدلتی گئیں۔ لمبی اور چمکدار ریشے والے پودے جس کا ریشہ اپنے خول سے الگ کرنا آسان ہو۔
آبپاشی اور زراعت کی نئی تکنیک آنے نے بھی اس پودے کا سفر نئی دنیاوٗں میں کرنا ممکن کیا۔ بیج کی سلیکشن اور بہتر ٹیکنالوجی کی وجہ سے کپاس کا پودا زیادہ خشک اور سرد علاقوں تک جا پہنچا۔ ایران نے نویں صدی میں آبپاشی کے بڑے منصوبے مکمل کئے تھے جس وجہ سے کپاس کی فصل کی پیداوار ہوئی۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ تبدیلیاں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب میں آنے والی تبدیلیوں کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھیں۔ اس سے پہلے کپاس کی پیداوار میں اضافہ صرف اس لئے ہو رہا تھا کہ زیادہ لوگ اس میں کام کرنے لگے تھے۔ صنعتی انقلاب نے کم لوگوں کے ساتھ زیادہ پیداوار ممکن بنائی۔
دنیا 1780 سے پہلے تک سست رفتار سے بڑھ رہی تھی۔ خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے ذرائع محدود ہونے کا مطلب اس کے پھیلنے میں بہت سی رکاوٹیں لے کر آتا تھا۔ گھریلو صنعت کپاس کی سلطنت کے مرکز میں تھی۔ پرانے سوشل سٹرکچر اس کی وجہ سے تبدیلی نہیں ہوتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک غیرمتوقع جگہ پر ہونے والی جدتوں نے اس سب کو بدل کر رکھ دیا۔
ساتھ لگی پہلی تصویر مقامات الحریری سے جو بصرہ سے تعلق رکھنے والے عرب شاعر نے 1237 میں لکھی۔ اس منظر میں خاتون کو چرخہ کاتتے دکھایا گیا ہے۔
دوسری تصویر چینی آرٹسٹ وانگ جوژینگ کی 1270 میں بنائی گئی پینٹنگ ہے جس کا عنوان “چرخہ” ہے۔