وادی سندھ کے کسان اور ہنرمند وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے کپاس کو لباس کے لئے استعمال کیا۔ 1929 میں آرکیولوجسٹ کی ٹیم نے موجودہ پاکستان میں موہنجوداڑو سے کاٹن ٹیکسٹائل کے ٹکڑے دریافت کئے۔ یہ 3250 قبلِ مسیح سے 2750 قبلِ مسیح کے درمیان کے تھے۔ جبکہ اس کے قریب مہرگڑھ میں 5000 قبلِ مسیح کے بیج ملے ہیں۔ رگِ وید، جس کا وقت 1500 قبلِ مسیح سے 1200 قبلِ مسیح کے درمیان کا ہے، میں اسے کاتنے اور بننے کا ذکر کیا گیا ہے۔ قدیم یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے ہندوستان کی نفیس کپاس کا ذکر 445 قبلِ مسیح میں کیا۔
قدیم زمانے سے انیسویں صدی تک کے ہزاروں سال تک برِصغیر کا علاقہ اس کی پیداوار میں سرِفہرست تھا۔ موجودہ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے علاقے میں کھانے کے لئے جب فصل اگائی جاتی تھی تو تھوڑی سی مقدار میں کپاس کو کاشت کر لیا جاتا تھا۔ اپنے استعمال کے لئے اسے کی بُنائی ہوتی تھی اور اس کو مقامی منڈی میں فروخت بھی کیا جاتا تھا۔ ہاتھ سے فصل کاٹی جاتی تھی۔ رولر سے اوت کر اس سے بیج نکالے جاتے تھے۔ مٹی اور گرہیں الگ کرنے کے لئے لکڑی کا اوزار استعمال ہوتا تھا۔ اس کو تکلے پر چڑھایا جاتا تھا۔ کات کر دھاگا بنتا تھا۔ دو درختوں کے درمیان کھڈی باندھی جاتی تھی اور اس میں دھاگے کو بُن کر کپڑا نکلتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستانی کاٹن کے کپڑوں کی کوالٹی کے قصے مشہور تھے۔ تیرہویں صدی میں مارکوپولو نے لکھا ہے، “دنیا کا سب سے نفیس اور سب سے خوبصورت کپڑا میں نے یہاں پر دیکھا”۔ اس سے چھ سو سال بعد ایڈورڈ بینز، جو کاٹن ایکسپرٹ تھے، اخبار میں لکھتے ہیں، “ہندوستانی کپڑے کی پرفیکشن ناقابلِ یقین ہے۔ ململ کے کئی کپڑے ایسا لگتا ہے کہ انسانوں نے نہیں بلکہ پریوں یا حشرات نے بنائے ہوں۔ یہ ہوا کے بُنے ہوئے جال تھے”۔
برِصغیر اس میں تنہا نہیں تھا۔ امریکاز میں بھی کپاس اور کپڑے کی بہتات تھے۔ یورپیوں کی آمد سے بہت پہلے میسوامریکہ سے جزائر غرب الہند تک اور جنوبی امریکہ تک، کاٹن سب سے اہم صنعت تھی۔ موجودہ پیرو میں آرکیولوجسٹ نے 2400 قبلِ مسیح کے مچھیروں کے کاٹن کے جال دریافت کئے ہیں۔ ٹیکسٹائل کے لباس کے ٹکڑے 1600 سے 1500 قبلِ مسیح کے دریافت ہوئے ہیں۔ جب پزارو نے انکا سلطنت پر 1532 میں حملہ کیا تھا تو کاٹن کے لباس کے معیار اور مقدار پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔ انکا کے شہر کاہامرکا میں فاتحین کو ٹیکسٹائل کی بھاری مقدار کے گودام بھرے ملے جو “اپنی نفاست اور رنگوں میں کسی بھی لباس سے بڑھ کر تھے”۔ (یہ فقرہ سوانح سے)۔
اس سے کچھ ہزار میل شمال میں اس سے دس سال پہلے جب یورپی ایزٹک سلطنت میں داخل ہوئے تھے تو ان کی حیرانی ویسی ہی تھی۔ ہرنان کورٹیس نے سونے اور دوسرے خزانے کے علاوہ چارلس پنجم کو قرمز اور انڈگو کے شوخ رنگوں سے رنگا ہوا کپڑا بھیجا تھا۔ جنوبی امریکہ کی طرح میسوامریکہ کی کاٹن انڈسٹری کی تاریخ بھی پرانی تھی۔ موجودہ وسطی میکسیکو میں 3400 قبلِ مسیح میں کپاس کی کاشت کی جاتی تھی۔ قدیم ترین دھاگہ 1200 اور 1500 قبلِ مسیح کا ملا ہے۔ مایا تہذیب کی طرف سے اس کا قدیم ترین استعمال 632 قبلِ مسیح کا دریافت ہو چکا ہے اور ویراکروز کے میدانوں میں 100 قبلِ مسیح کا۔
کاٹن اشرافیہ کا لباس تھا۔ ایزٹک کی عسکری اور معاشی سلطنت کا عروج سات صدیاں قبل 1350 میں آیا۔ اس وقت اس کے استعمال کرنے والے زیادہ ہو چکے تھے۔ زیادہ لوگوں کے استعمال کے ساتھ اس کی پراسسنگ زیادہ اہم ہوتی گئی۔ کپڑا بنانے اور رنگنے کی صنعت زیادہ ترقی کرتی گئی۔ اور بہتر سے بہتر لباس کسی شخص کے لئے اس کی امارت کا دکھاوا بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہسپانویوں نے وسطی امریکہ پر قبضہ کیا، تب بھی مقامی پیداوار جاری رہی۔ لباس کے علاوہ اس کے استعمال مذہبی چڑھاوے، تحائف، کرنسی، سجاوٹ، مردے کو لپیٹ کر ممی بنانا کے طور پر ہوتے رہے۔ کولمبس کے امریکہ جانے سے پہلے میکسیکو کے علاقے میں کپاس کی سالانہ پیداوار 50 ملین کلوگرام کی تھی۔ (امریکہ میں اتنی پیداوار پہلی بار 1816 میں ہوئی)۔ ٹیوٹی ہواکان کے حکمرانوں کی طاقت میں جس طرح اضافہ ہوا۔ انہوں نے کپاس اگانے والوں اور کپڑا بنانے والوں سے خراج وصول کرنا شروع کیا اور اس کی تجارت میں اضافہ ہوتا گیا۔
میکسیکو اور پیرو کا علاقہ اس پیداوار کا مرکز تھا لیکن یہ کئی اور علاقوں میں بھی ہوتی تھی۔ موجودہ برازیل کے کئی علاقوں میں کپاس کے جنگلی پودوں سے ریشہ اکٹھا کر کے کپڑا بنایا جاتا تھا۔ موجودہ جنوب مغربی امریکہ میں نوواہو اور ہوپی تہذیب 300 قبلِ مسیح میں اس فن سے واقف ہو چکی تھیں۔ جب کرسٹوفر کولمبس جزائر غرب الہند پہنچے تھے تو وہاں پر کپاس کے پھیلے کھیت دیکھنا بھی ایک وجہ تھی جس وجہ سے انہیں غلط فہمی ہوئی کہ وہ ہندوستان پہنچ گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افریقہ میں بھی اس کی تاریخ پرانی ہے۔ موجودہ مشرقی سوڈان میں نوبیوں نے اسے اگایا تھا۔ دریائے نیل کے مشرقی ساحل کے شہر میروئے میں اس کی قدیم ترین دریافت 500 سے 300 قبلِ مسیح کی ہے لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی پیداوار اس سے بہت پہلے سے ہو رہی تھی۔ قدیم مصری تہذیب میں کاٹن کا کوئی خاص کردار نہیں لیکن ہمیں معلوم ہے کہ بنولے کو مویشیوں کی خوراک کے طور پر 2500 قبلِ مسیح میں استعمال کیا جاتا تھا۔ لگزور میں کارنک مندر میں کپاس کی جھاڑی کے نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ ٹیکسٹائل کی پیداوار یہاں 332 قبلِ مسیح کے بعد شروع ہوئی۔ 70 عیسوی میں پلائنی بزرگ نے مصر کی جھاڑی کا ذکر کیا ہے جو کپاس کی تھی۔ یہاں پر اس کی بڑی تعداد میں پیداوار نویں صدی میں اسلام کی آمد کے بعد زیادہ تیزی سے ہوئی۔
مغربی افریقہ میں یہ اس کے بعد پہنچا۔ کیسے؟ اس کا واضح نہیں۔ غالباً مشرقی افریقہ سے تاجر اس کو ساتھ لائے۔ اور یہ پہلی صدی عیسوی میں یہاں آیا۔ اسلام کی آمد کے بعد نویں صدی میں اس علاقے میں اس کا پھیلاوٗ تیزی سے ہوا۔ اسلامی مدارس میں لڑکیوں کو کاتنا اور لڑکوں کو بننا سکھایا جاتا تھا۔ یہاں کے موسم اور ماحول میں لباس کا استعمال اس سے پہلے زیادہ نہیں تھا۔ گیارہویں صدی میں یہ موجودہ ٹوگو تک پہنچ چکا تھا۔ پندرہویں صدی میں لیو افریکانس میں بتایا گیا ہے کہ “مالی کی سلطنت میں کاٹن کی بہتات تھی اور ٹمبکٹو میں کپڑے کے امیر تاجر تھے”۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...