(Last Updated On: )
آرٹسٹک طرز پر بنا یہ گھر قدیم دور کی حسین یادگار تھا مگر اس کے اندر کئی جدید تبدیلیاں بھی دکھائی دے رہی تھی انٹریئر ڈیکوریشن انتہائی شاندار تھا لاؤنج کے انٹرس پر مغلیہ نیچرز کی حامل بڑی خوبصورت سی مورتیاں کھڑی تھیں، اندر کا نقشہ کسی ٹی وی ڈرامے کے سیٹ سے کم نہیں تھا، باہر پورچ میں تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔
’’کیا سب پانے کے بعد مجھے پھر سے سب کھونا ہو گا۔‘‘ اس خیال پر وہ تھوڑا کمزور پڑی تھی لیکن دماغ نے اس کی ایک نہیں سنی۔
’’میں نے ساری خواہشیں دل کے اندر کہیں دفن کر دی ہیں اب اسے بھی روز اس قبر پر اپنی ناکام حسرتوں کا دیپ جلانا ہو گا۔‘‘
’’آپ آئیے میں آپ کو گیسٹ روم تک چھوڑ آؤں۔‘‘ شہروز اس کے عقب سے بولا تھا زیب تو راہداری سے گزرتے ہوئے جانے کس موڑ پر غائب ہو چکی تھی اس نے مدھم سا مسکراتے ہوئے اس کی معیت میں قدم بڑھا دئیے۔
’’آپ یہاں آرام کریں کسی چیز کی ضرورت ہو تو یہ بیل بجا دیجئے گا پھر ملاقات ہو گی۔‘‘ دروازے پر رک کر اس نے چند فارمل سے جملے ادا کیے اور واپس مڑ گیا نرم گرم بستر میں گھستے ہوئے وہ خوب جی بھر کر سوئی تھی، مغرب کے قریب آنکھ کھلی تو کمرہ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، اس نے اٹھ کر لائیٹس آن کیں پھر منہ ہاتھ دھو کر اپنا حلیہ درست کرتے ہوئے باہر نکل آئی۔
راہداری سیدھے لاؤنج کی سمت جاتی تھی جہاں اس وقت گھر کے تمام افراد گرین ٹی کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔
عارفہ بیگم صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں اور شہروز ان کی گود میں سر رکھے نیچے کارپٹ پر بیٹھا ہوا تھا محبت کے اس پیار بھرے مظاہرے نے اس کے اندر چنگاریاں سی بھر دی تھیں جب سے اس کے دل کا کشکول ان سکوں سے خالی ہوا تھا اس وقت سے اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اس شخص سے بھی ہر رشتہ چھین لے۔
’’میں وہ دیمک ہوں شہروز جو تمہارے وجود کو کھوکھلا کر دے گی قسم سے اتنی محبت کروں گی کہ تم میرے سوا ساری دنیا کو بھول جاؤ گے اور پھر میں تمہیں چھوڑ دوں گی وہ کھیل جو تم نے میرے ساتھ کھیلا تھا اب اس کھیل کے سارے مہرے میرے ہاتھ میں ہیں۔‘‘
’’ارے آؤ حریم۔‘‘ زیب اسے آتا دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’ماموں آپ تو ان سے مل چکے ہیں ممانی جان یہ میری دوست حریم ہے اور حریم یہ میری سویٹ ممانی ہیں اور یہ مہروز ہیں شہروز سے چھوٹے اور اتنے ہی کھوٹے۔‘‘ ناک سیکٹر تے ہوئے اس نے جس ادا سے کہا تھا اس کا بے ساختہ قہقہہ ابل پڑا البتہ مہروز نے خوب کڑے تیوروں سے اسے گھورا تھا۔
وہ سب کو مشترکہ سلام کرنے کے بعد زیب کے قریب ہی بیٹھ گئی، شہروز نے اپنے سامنے رکھا گرین ٹی کا کپ اس کی سمت بڑھا دیا تو سب کی نظریں اس منظر پر جم گئیں۔
’’میں اور بنا لاتی ہوں۔‘‘ زیب نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’اٹس اوکے میرا ویسے بھی موڈ نہیں تھا۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولا تو حریم نے کافی ہچکچاہٹ کے بعد کپ تھام لیا تھا۔
’’دھیان سے حریم یہ ایک سپ لگا چکا ہے۔‘‘ زیب نے دوبارہ بیٹھتے ہوئے یونہی بے پر کی اڑائی تو مہروز نے فوراً ٹکڑا لگایا۔
’’کوئی بات نہیں جھوٹا پینے سے یوں بھی محبت بڑھتی ہے۔‘‘ فوراً ایک اور قہقہہ پڑا تھا۔
اس کا گھونٹ حلق میں اٹک گیا نظر بے ساختہ اس کی سمت اٹھی تھی وہ بھی زیر لب مسکراتے ہوئے بڑی دلچسپی سے اس کے تاثرات نوٹ کر رہا تھا، میرون اور سی گرین کنٹر اس میں وہ کتنی حسین لگ رہی تھی، حریم کو زیب کے ماموں اور عارفہ بیگم کا چہرہ بھی کچھ شناسا لگ رہا تھا بہت سوچنے پر اسے شوروم کے باہر گاڑی میں بیٹھی وہ خاتون یاد آ گئی تھیں جسے دیکھ کر اس نے کتنی حسرت سے سوچا تھا۔
’’کاش میں بھی اس گاڑی میں اتنے ہی کروفر اور شان سے بیٹھ سکتی۔‘‘ اور اب وہ ان کے گھر میں موجود تھی ان کی گاڑیوں میں گھوم رہی تھی اور بہت جلد اسے اس گھر کی مالکن بھی بن جانا تھا۔
ایک پل کو اس کا دل چاہا وہ انتقام کی ضد چھوڑ کر مزے سے یہاں اپنی تمام خواہشوں اور نا آسودہ تمناؤں کے ساتھ عیش کرے، مگر اپنی زخمی بلبلاتی انا کا کیا کرتی عزت نفس کا سودا تو اسے کسی بھی طور منظور نہیں تھا، ماموں اور عارفہ بیگم کچھ دیر بعد انہیں شب بخیر کہتےجا چکے تھے اور اب ہال کمرے میں ان چاروں کی محفل جمی تھی، زیب برمنگھم گھومنے کی فرمائش کر رہی تھی اور مہروز نے ہاتھ اٹھا کر کہہ دیا تھا۔
’’ڈرائیور میں بن جاؤں گا لیکن لنچ تمہاری طرف سے ہو گا۔‘‘
’’شرم کرو میں مہمان ہوئی تمہاری۔‘‘ اس نے آنکھیں دکھائیں۔
’’ہاں لیکن تمہاری میزبانی پر مجھے کوئی تمغہ نہیں ملنے والا جو میں اپنی جیب کا کباڑا کروں ہاں اگر گرل فرینڈ ہوتی تو اور بات تھی۔‘‘ آنکھیں مٹکاتے ہوئے وہ جس قدر معنی خیزی سے بولا تھا زیب نے کشن اٹھا کر اس کے منہ پر دے مارا۔
’’بہت کمینے ہو۔‘‘
’’ٹاس کر لیتے ہیں۔‘‘ شہروز نے آسان حل نکالا۔
’’نہیں یہ میرے ساتھ بیت بازی کا مقابلہ کرے گا۔‘‘ زیب نے تو اپنی جانب سے خوب گھیرا تھا مگر وہ خباثت سے مسکراتے ہوئے واپس بیٹھ گیا۔
’’چونکہ میں جانتا تھا آپ میری دکھتی رگ پر ہاتھ ضرور رکھیں گی سو اس بار میں خوب تیاری کے ساتھ میدان میں اترا ہوں بشرط کہ پہلا شعر حریم سنائیں تم مجھے ’’ی‘‘ میں اٹکا دیتی ہو۔‘‘ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اخبار کا رول بنا کر اس نے انتہائی احترام کے ساتھ مائیک کی صورت حریم کے سامنے کیا تو وہ اس بے تکی فرمائش پر قدرے سٹپٹا کر رہ گئی۔
’’مجھے کوئی شعر نہیں آتا۔‘‘ اس نے صاف معذرت کر لی تھی۔
’’یہ کیا بات ہوئی کچھ تو آتا ہو گا۔‘‘ زیب ماننے کو تیار نہیں تھی مہروز کا اصرار بھی بڑھ گیا تھا البتہ وہ خاموش بیٹھا گہری پر شوق نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
امید نہ رکھنا کسی سے سچے پیار کی ساقی
بڑے پیار سے دھوکہ دیتے ہیں شدت سے چاہنے والے
’’دیکھ لو ’’ی‘‘ آ گئی۔‘‘ زیب نے تالیاں بجاتے ہوئے مہروز کو چڑایا اور پھر اس سے مخاطب ہوئی۔
’’تم نے تو ابھی تک کھانا نہیں کھایا اصل میں تمہیں دو بار بلانے گئی تھی لیکن تم سو رہی تھی شہروز تم اسے کچن دکھا دو میں ذرا اس سے نمٹ لوں۔‘‘ شہروز جو اس شعر کے سیاق و سباق میں الجھا ہوا تھا چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آئیے۔‘‘ اسے بھوک تو نہیں تھی پھر بھی کسی خیال کے تخت اس کے ساتھ چلی آئی تھی شہروز نے خود مائیکروویو میں اس کے لئے کھانا گرم کیا تھا۔
وہ کچن میں رکھی چار کرسیوں والی میز پر بیٹھی اسے کام کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
’’بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ چکن پاستا، بریانی اور بادام کا حلوہ گرم کرنے کے بعد اب وہ شامی کباب والی ڈش اٹھا رہا تھا جب اس نے ٹوک دیا مگر اس نے ان سنی کرتے ہوئے سلیقے سے تمام تر ڈشز ٹیبل پر منتقل کی تھیں۔
’’میڈم اور کچھ۔‘‘ وہ اب اچھے ویٹر کی مانند استفسار کر رہا تھا حریم بڑی مشکل سے مسکراتے ہوئے شان بے نیازی سے بولی۔
’’اور آپ۔‘‘
’’جی۔‘‘ اس نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔
’’آپ میرا ساتھ نہیں دیں گے۔‘‘ عارضوں پر جھکی ریشمی پلکوں کی جھالر اٹھی تو یوں لگا جیسے پانی میں چراغ جل اٹھا ہو ہیزل گرین آنکھوں کا کانچ ہیرے کی مانند دمک رہا تھا۔
’’آپ کا ساتھ تو میرے لئے باعث اعزاز ہے۔‘‘ذ و معنی لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کے مقابل بیٹھ گیا تھا وہ اس کے یوں دیکھنے پر کچھ سمٹ گئی تھی۔
’’مرد ہار بھی جائے تو نقصان عورت کا ہوتا ہے۔‘‘ کوئی اس کی سماعتوں میں بولا تھا کون… شاید اس کا وجدان۔
٭٭٭
کھانے کے دوران دونوں میں اچھی خاصی انڈر سٹیڈنگ ہو چکی تھی دونوں ایک دوسرے کی غیر نصابی سرگرمیوں، شوق اور دلچسپیوں پر کافی دیر باتیں کرتے رہے۔
اس نے بتایا تھا کہ اسے گارڈننگ کار ریس اور بکس پڑھنے کا شوق ہے اس کی ڈیٹ آف برتھ سترہ مارچ تھی اسے ایکشن اور ہارر موویز اچھی لگتی تھی اس کا فیورٹ رنگ وائیٹ تھا کھانے میں اسے اٹالین پیزا اور مشروم والا پاستا پسند تھا خوشبو وہ D&G یوز کرتا تھا اسے آرٹ اور ہسٹری میں بہت انٹرسٹ تھا اور ان ساری باتوں میں کوئی ایک بات بھی اس کی سابقہ گفتگو سے میچ نہیں کرتی تھی۔
لیکن خواتین پر آ کر اس نے صاف معذرت کر لی تھی۔
’’اس سلسلے میں میرے پاس کوئی طویل فہرست نہیں بس اک چہرے نے دل پر کلک کیا تھا اور آج جبکہ وہ سراپا مجسم میرے سامنے براجمان ہیں تو ان کی ہر بات اچھی لگ رہی ہے۔‘‘ حریم نے چونک کر الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘ دھماکہ اس قدر اچانک ہوا تھا کہ وہ بے یقین ہو کر رہ گئی تھی۔
’’آئیے میرے ساتھ سب سمجھ جائیں گی۔‘‘ وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا حریم چند لمحے یونہی خالی الذہن کی کیفیت میں دیکھتی رہی۔
’’آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔‘‘ وہ اس کا تذبذب بھانپ کر مسکرایا اور اس کے دل کو جیسے کوئی نشتر چھو کر گزرا تھا، یہ شخص اعتبار کی بات کر رہا تھا جس کے اعتبار کو محبت کا سائبان سمجھ کر اس نے ہر رشتے کو چھوڑ دیا تھا اور وہ ابر کی مانند ذرا ایک پل کو اس کے سر پہ ٹھہرا تھا پھر ہوا کا رخ بدلتے ہی کسی اور نگر کو نکل گیا۔
’’میں کس جلتے صحرا میں تنہا کھڑی ہوں تم نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ وہاں کتنی دھوپ تھی کتنی وحشت تھی کیسا کرب تھا کتنی اذیت تھی، تمہیں بھی اس مقام پر لے جا کر تنہا چھوڑوں گی۔‘‘ اس کے تعاقب میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی تو وہ اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھولے اسے اندر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔
وہ غائب دماغی کی کیفیت میں اندر داخل ہوئی تو شہروز نے اس کا ہاتھ تھام کر عقب میں دروازہ بند کر دیا۔
٭٭٭
آخری پرچہ دینے کے بعد اگیزیمینشن ہال سے باہر نکلتے ہوئے اس نے کھلے آسمان پر نگاہ دوڑائی بادلوں کی ٹولیاں جوق در جوق البیلی ہواؤں کے سنگ جھومتی پانی میں گھلے رنگ کی مانند افق کی نیلی چادر پر پھیلتی جا رہی تھیں خوشگوار ہوا کے جھونکے کیاریوں میں لگے بیلے اور گلاب کے پھولوں سے اٹکھیلیاں کرتے خوب شوخیوں پر آمادہ تھے۔
کالج لان میں لڑکیاں کولڈ ڈرنک کے ٹن اور سموسوں کی پلیٹوں کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے اس حسین خوشگوار موسم کا بھرپور لطف لے رہی تھیں اس نے بے دلی کے ساتھ قدم مرکزی گیٹ کی سمت بڑھا دئیے تھے۔
وہ یہ ساری عیاشیاں افورڈ نہیں کر سکتی تھی اس کے بیگ میں محض اتنے پیسے تھے کہ دو بسوں کا کرایہ ادا کر سکتی تھی۔
باہر کالج کے پارکنگ لاٹ میں بے شمار گاڑیاں، موٹر سائیکل اور رکشہ وغیرہ کی لائینیں لگی ہوئی تھیں۔
اسے لگا بس وہ ایک واحد ہے جسے پیدل مارچ کرتے ہوئے اسٹاپ تک جانا تھا شو روم کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ گلاس وال کے اس پار رک کر لائن میں لگی لموزین، پراڈو اور لینڈ کروزر کے نئے ماڈلز کو بڑی حسرت زدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی جب سرخ رنگ کی چمچماتی کرولا اس کے قدموں کے قریب چڑچڑائی۔
ایک گریس فل سا درمیانی عمر کا آدمی فرنٹ ڈور کھول کر باہر نکلتے ہوئے شوروم میں داخل ہو چکا تھا اس نے ذرا سا جھک کر گاڑی میں جھانکا۔
ایک خوبصورت اسٹائلش سی خاتون گرد و پیش کا جائزہ لینے میں مگن تھیں، حریم کی آنکھوں میں اس کے لئے بے پناہ رشک امڈ آیا تھا۔
یہ شان یہ تفاخر ادائے بے نیازی اس گاڑی کا ہی تو شاخسانہ تھی، اسے گاڑیاں بہت پسند تھیں اور اس کے نزدیک ہر وہ انسان قابل رشک تھا جس کے پاس گاڑیوں کی لمبی قطاریں تھیں، ایان ہنستے ہوئے اسے چھیڑا کرتا تھا۔
’’پھر ایسا کرتا ہوں کہ میں ورکشاپ کھول لیتا ہوں اس بہانے روز تمہیں نئی نئی گاڑیوں میں گھمایا کروں گا۔‘‘ جس پر وہ منہ پھلا کر اسے باور کرواتی تھی۔
’’مکینک اور مالک میں فرق ہوتا ہے۔‘‘ آسمان سے ایک بوند گری تھی اس نے پھر نگاہ اوپر اٹھائی اور بارش کا امکان قریب ترین دیکھ کر اس کا دل کوفت سے بھر گیا تھا وہ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہرگز نہیں تھی جن کے لئے ابر رحمت بن کر برستا تھا۔
ناظم صاحب کی مہربانیوں کی بدولت ان کی گلی ایک بار پھر پختہ کروائی گئی تھی اور نتیجے کے طور پر ان کا صحن جو پہلے بمشکل گلی کے برابر آتا تھا اب دو فٹ گہرا ہو چکا تھا دو بوندیں برسنے کی دیر تھی اور یوں لگتا تھا جیسے کسی نے راوی کا رخ ان کے گھر کی سمت موڑ دیا ہو، اس پر سے ٹپکتی چھت اور پیندے میں پانی گرنے کی منحوس ٹک ٹک اس کے دماغ میں ہتھوڑے کی مانند برستی تھی۔
’’یا اللہ آج تو بارش نہ آئے۔‘‘ جھنجھلا کر اس نے بے ساختہ دعا مانگی آج تو وہ خوب جی بھر کر سونا چاہتی تھی، بی اے کے پرچوں نے تھکا ڈالا تھا، بس سے اترنے کے بعد ابھی مزید واک باقی تھی جب ایان کی بائیک اچانک ہی اس کے قریب آن رکی تھی۔
’’اب آئے ہو۔‘‘ وہ کاٹ کھانے کو دوڑی، دو بسوں کی خجل خواری نے اس کا خوب میٹر گھمایا ہوا تھا۔
’’اچھا تو تم نے کون سا میرے ساتھ ڈیٹ فکس کی ہوئی تھی جو میں محترمہ کی راہ میں دیدہ دل فرش راہ کیے بیٹھا ہوتا۔‘‘ وہ اس کے بگڑے بگڑے زاویوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے ہنسا، جس پر وہ مزید جل گئی۔
’’میری جگہ اگر ماہا ہوتی تو تم اسے کالج سے ڈراپ کرنے جاتے۔‘‘ اس نے سڑک پر ہی محاذ کھول لیا تھا۔
’’تم نے بتایا ہی نہیں کہ تمہارا پیپر تھا۔‘‘
’’اگر میں بتاتی تو تم آ جاتے جیسے۔‘‘ وہ منہ پھلا کر سوار ہو چکی تھی۔
’’کیوں نہ آتا۔‘‘ ایان نے گردن موڑ کر الٹا سوال پوچھا۔
’’تمہارا آف ٹائم چھ بجے کا تھا۔‘‘
’’ہاں اگر تم بتاتی تو میں پانچ بجے لیو لے کر آ جاتا۔‘‘
’’یہ تم اب کہہ رہے ہو۔‘‘ وہ ہنوز خفا تھی۔
’’حریم۔‘‘ ایان نے بائیک روک دی۔
’’میں تو مذاق کر رہی تھی۔‘‘ وہ اس کی اتری شکل دیکھ کر کھلکھلائی۔
’’اتنی سنجیدگی سے مذاق نہ کیا کرو کہیں اس مذاق کے چکر میں بندہ گزر جائے۔‘‘
’’تم تو جانتے ہو کہ…‘‘
’’بریانی کھانے کا بھی اتنا مزہ نہیں آتا جتنا مجھے تنگ کرنے میں آتا ہے حالانکہ بریانی تمہیں بے حد مرغوب ہے۔‘‘ ایان نے جملہ مکمل کیا اور دونوں بے ساختہ ہنسنے لگے۔
’’اچھا سنجیدہ شکل بنا لو آگے ابا کی دوکان ہے۔‘‘
’’میں ڈرتا نہیں ہوں۔‘‘ اب چھیڑنے کی باری اس کی تھی۔
’’بات ڈر کی نہیں لحاظ کی ہے۔‘‘ حریم نے اس کے بال کھینچے۔
’’اف کس قدر ظالم لڑکی ہو سارے ہیر اسٹائل کا کباڑا کر دیا۔‘‘
’’یہ اتنے جما جما کر بال نہ بنایا کرو۔‘‘ اس نے دانت پیسے۔
’’کیوں زیادہ ہینڈسم لگتا ہوں۔‘‘ وہ شوخ ہوا۔
’’چغد لگتے ہو۔‘‘ حریم نے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔
’’چغد نہیں مہذب لگتا ہوں اور دفتر کی لڑکیاں جی جان سے مجھ پر فریفتہ ہوتی ہیں۔‘‘
’’نیت بھی معلوم کر لینی تھی آدھی سے زیادہ تمہاری بہنیں نکلیں گی۔‘‘
’’اور باقی کی دو چار عدد۔‘‘ اس کا استفسار معنی خیز تھا۔
’’بھاڑ میں جاؤ۔‘‘ وہ اتر کر سبز گیٹ عبور کر گئی تھی۔
٭٭٭