دنیا کی کسی بھی زبان کامطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ فعل ہی زبان کی جان اوروح ِ رواں ہے ۔ جملوں کی ساخت میںفعل کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔تحریر و تقریر میں کوئی جملہ بھی ایسا نہیں ہوتا جس میںفعل موجود نہ ہو ۔اس بنا پر لسانیات میں فعل کی یہ اہمیت بے وجہ نہیں۔ ضرب الامثال ،مضامین کے عنوان اور کہاوتیں بالعموم فعل سے بے نیا ز رہتی ہیں مثلاً طویلے کی بَلا بندر کے سر ،اُلٹے بانس بریلی کو ،اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کَل سیدھی اور آم کے آم گُٹھلیوں کے دام وغیرہ ۔مصدر اگرچہ اسم کے طور پر مستعمل ہے اور حالیہ کا استعمال صفت کی صورت میں ہوتاہے اس کے باوجود ان دونوں کوفعال میں شمار کیا جاتاہے۔ حساس تخلیق کارجب اپنی ذات اور دِلِ گدا زکو رہین ِغم محسوس کرتاہے تووہ اپنے اندوہ ِ نہانی کی کہانی کو اشعار کے قالب میں ڈھالتا چلا جاتاہے ۔اپنی زندگی کو زرنگار کرنے کی غرض سے جملے لکھتے وقت وہ زمانے کی رعنائیوں کی تمکنت اور زرکار راستے کے سرابوں کے عذابوں کا احوال بھی بیان کرتاہے ۔اس کی ہمہ گیر وسعتِ دید پر عقیدت گل بار کرنے والے جانتے ہیں کہ تخلیق کار کی حسرتیں ہی اس کے رنج و الم کی کفیل ہیں۔تخلیق کار کے اسلوب میںفعل کو ا سی قدر اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے جس قدر اسم کو۔ ریاضِ زیست میںاظہار و ابلاغ کی خاطر کی جانے والی جملہ سازی میں فعل ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرتاہے۔ در اصل فعل اپنی نوعیت کے اعتبار سے عمل کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔جہاں تک اصطلاح ’ عمل‘ کا تعلق ہے اس کا وسیع تر معانی میں استعمال اظہار و ابلاغ کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔معنوی اصطلاح ’ عمل‘ اورقواعدی اصطلاح ’ فعل‘ میں مطابقت کے معجز نما اثر سے فکر و خیال اور قلب و روح کے جذبات کی کیفیت لبوں پر لانے اور اسے زیبِ قرطاس کر کے اپنے مافی الضمیر کا موثر انداز میں اظہار کیا جا سکتا ہے ۔فعل جہاں کسی عمل کی نشان دہی کرتا ہے مثلاً ’ سلطان نماز پڑھ رہا ہے ‘ وہیں یہ حالت کی ترجمانی پر بھی قادر ہے جیسے ’ نوید پڑھتاہے ،احسن تحقیق کرتا ہے اور شیرخان ہل چلاتاہے ۔یہ فعل ہی ہے جو اس عالم ناپائیدار میں آزمائشِ صبرگریز پااور فطرت کے جملہ مظاہر کے پیہم رواں دواں رہنے اور دمادم آنے والی صدائے کن فیکون کے جریدۂ عالم پر مرتب ہونے والے اثرات سے پیہم آ گاہ کرتا ہے ۔جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ کہاوتیں اور نظم و نثر کی تخلیقات کے عنوان فعل کی احتیاج سے بے نیازہیں ۔
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دِل مگر اِس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معنی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیںجانے والے
تُو نے جا کر تو جُدائی میری قسمت کر دی
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتا
تیرے حالات نے کیسی تیری صورت کر دی
( احمد ندیم قاسمی )
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اُٹھیں
وہ پُھول کِھل کے رہیں گے جو کِھلنے والے ہیں
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے اِک خوب صورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا ( ساحر لدھیانوی )
شاہ سراج کی شاعری کی اورنگ آبا د شہراور اس کے مضافات میں بہت دُھوم تھی ۔دکن میں شاعری کے قدیم استاد کی حیثیت سے اُسے معمار ِسخن سمجھا جاتاتھا۔سراج ؔکی یہ غزل زمانے کے نشیب وفراز کی مظہر ہے :
خبر تحیر عشق سُن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہاجو رہی سو بے خبری رہی
شہ بے خودی نے عطا کیامجھے اب لباس ِ برہنگی
نہ خردکی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
چلی سمت غیب سے کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخ ِ نہالِ غم جسے دِل کہو وہ ہری ر ہی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سے بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو خمِ دِل میں سو بھری رہی
ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینہ میں رہی جِلا نہ پری کوں جلوہ گری رہی
کیا خاک آتشِ عشق نے دِلِ بے نوائے سراج ؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حضر رہا مگر ایک بے خطر رہی
تحریر یاتقریرکا ہر جملہ جزوی یا کُلی طور پر کسی نہ کسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے اور جملے کو اس نوعیت کی ترجمانی کے لیے جو مواد درکار ہوتاہے وہ اسم فراہم کرتا ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ یہ فعل ہی ہے جو درپیش صورتِ حال کو زِیست کی تاب و تواں،تابندگی ،بو قلمونی ،تنوع اور دھنک رنگ منظر نامے سے متمتع کر کے منفرد آ ہنگ عطا کرتا ہے ۔اس سے یہ حقیقت کُھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جملے میں سوز و ساز زندگی کے حیات بخش عناصرکے تمام سوتے فعل ہی سے پُھوٹتے ہیں۔اسم کے مانند فعل کی معنوی قسم بھی ہے لیکن ’ فعل ‘ کو قواعدی اصطلاح کی حیثیت حاصل رہی ہے جب کہ ’عمل ’ کوفعل کے متوازی معنوں میں دیکھا جاتا ہے ۔اُردو اور دکنی زبان میں فعل کا استعمال با لعموم جملوں کے آخر میں کیا جاتا ہے ۔جب کوئی استدعا کی جائے یا دبنگ لہجے میں کوئی بات کی جائے تو فعل شروع میںبھی مستعمل ہے مثلاً :
ڈرتے ڈرتے دمِ سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا وہ کچل گئے ہیں
اُٹھ کہ خورشید کاسامان ِ سفر تازہ کریں
نفسِ سوختہ ٔ شام و سحر تازہ کریں ( علامہ اقبال)
آؤ اِک سجدہ کریں عالمِ مد ہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں ( ساغر صدیقی)
’’ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ‘‘،’’ چلو تم اُدھر ہی ہوا ہو جدھر کی ‘‘، ’’ جا ! تیرا اللہ نگہبان۔‘‘ ’’ ہے کوئی مائی کا لال ؟ ‘‘ ’’ کرتا ملک الموت تقاضاکوئی دِن اور‘‘ ،’’گرتے ہیں شہ سوارہی میدان جنگ میں ‘‘،
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مِل بیٹھیں گے دیوانے دو ( میاں دا د خان سیاح ؔ)
فعل کو چونکہ خارجی دنیا کے ترجمان کی حیثیت حاصل ہے اس لیے فعل وقت کی جلوہ نمائی پر کامل دسترس رکھتا ہے ۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں اورگردشِ ایام کے بارے میں حقیقی شعور سے متمتع کرنے کی غرض سے فعل اکثر مخصوص نوعیت کے صرفیوں پر انحصار کرتا ہے اوروقت کی ترجمانی فعل کا زمانہ بن کراپنی پہچان کراتی ہے ۔دعوی ٔ صبر وشکیب کرنے والے اہلِ درد جانتے ہیں کہ عرصہ ٔ دہر کے ہنگاموں میںبے بس انسانوں کو جبر کے سامنے سپر انداززہونے پر مائل کرناکاوشِ بے حصول کے سوا کچھ نہیں ۔حریت فکر کے مجاہد ظلمت ِ یاس میں بھی بیاض رُخ پہ سحر کی صباحتیں دیکھ کر بھی ستیز کا حوصلہ رکھتے ہیں۔زمانہ جو جنس کے مانند معنوی اصطلاح بھی ہے لیکن جب اسے فعل کے حوالے سے موضوع بحث بنایا جائے تو تو اسے خالص قواعدی اصطلاح سمجھنا چاہیے ۔اگر اس قواعدی اصطلاح سے امتیاز کی ضرورت محسوس ہوتو اہلِ نظر کو اقتضائے وقت کے مطابق اس کی متوازی معنوی اصطلاح ‘’ وقت ‘ کو مرکزِ نگاہ بنانا ہو گا ۔ معنوں کے لحاظ سے فعل کی جو تین اقسام ہیں اُن میں فعل لازم ، فعل متعدی اور فعل ناقص شامل ہیں ۔فعل لازم میں فعالیت صرف کا انجام دینے والے تک محدود رہتی ہے مثلاً احسن بیٹھا،نویدبولا،سلطان آیا۔فعل متعدی میں فاعل کی فعالیت کا سلسلہ مفعل تک جا پہنچتاہے جیسے نوید نے کتاب لکھی ،سلطان نے مکتوب تحریر کیا،شیر خان نے سانپ کو مارا۔فعل ناقص کسی پر اثر انداز نہیں ہوتا بل کہ مسلمہ تاثیر کو سامنے لاتاہے مثلاً تشفی ٹھگ کورنا میں مبتلا ہے ،رمزی معذور ہے ،تفسو قرنطینہ میں ہے ۔اردو اور دکنی میں مستعمل افعال ناقص اشتراک پایاجاتاہے ۔بننا،نکلنا،ہونا،پڑنا،رہنا،لگنا،دکھائی دینا اورنظر آنا اہم افعال ناقص ہیں ۔ان کی تفصیل آگے آ ئے گی۔ طور ،صور ت اور زمانہ کو بھی لوازمِ فعل کی حیثیت سے بہت اہمیت حاصل ہے ۔فعل کے بارے میں آ گہی حاصل ہو تو وہ فعل معروف ہو گا لیکن اگر فاعل پردۂ اخفا میںہو تو وہ فعل مجہول کہلائے گا۔ جس انداز سے کام پایۂ تکمیل کو پہنچے وہ اُسے فعل کی صورت سے تعبیر کیا جاتاہے ۔فعل کی یہ پانچ صورتیں درج ذیل ہیں :
خبری،شرطی ،احتمالی،امری ،مصدری
اُردو اور دکنی میں واحد حاضر کی صورت میں ضروری اظہاریے کو اکثرفعل کی سادہ صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی کو فعل کی جڑ کہاجاتا ہے جیسے ’ چاہ ‘ ، ’ بول‘ وغیرہ ۔فعل کی اسی جر کے ساتھ نا،نے ،نی ،ن ،لگا کر مصدر کی تشکیل ممکن ہے ۔یہاں مصدر اورفعل کے فرق کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے ۔مصدر میں کسی کام یاحرکت کا بیان ہوتا ہے لیکن اِس میں زمانے کا وجود عنقا ہے مثلاًتوڑنا /بھاننا ۔ان مصادر میں حرکت کا تصور تو یقیناً موجود ہے مگر زمانہ غائب ہے ۔فعل کے بارے میں گرامر کے ممتاز ماہرین کے خیالات قابل غور ہیں :
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی :
’ ’ فعل ایک ایسا کلمہ ہے جو اکیلا اپنے معنی دے ۔اس میں کسی کام یا شے کا کرنا یا ہونا یا نہ کرنا یا نہ ہونا
اور ازمنہ ثلاثہ یعنی ماضی ،حال اوراستقبال میں ایک زمانہ پایا جاتا ہے ۔‘‘ (1)
ڈاکٹر مولوی عبدالحق :
’’ فعل وہ ہے جس سے کسی شے کا ہونا یا کرنا ظاہر ہوتا ہے جیسے تماشا شروع ہوا ،اُس نے خط لکھا ،ریل چلی ۔‘‘ (2)
مولوی فتح محمدخان جالندھری :
’’ جو اکیلا اپنے معنی دیتا ہے اوراس میں منجملہ ازمنہ ثلاثہ کے ایک زمانہ بھی پایا جاتا ہے اس کو فعل کہتے ہیں ۔‘‘ (3 )
ڈاکٹر عصمت جاوید :
’’ایسے الفاط جِن سے یا تو کام کا تصور وابستہ ہوتا ہے یا پِھرجو اِسم کی موجودگی کا اظہار کرتے ہیں اور ان
کے ساتھ وقت نما علامتیں جُڑی ہوتی ہیں اُنھیں فعل کہتے ہیں ۔‘‘ (4)
شیو پرشاد راجا :
’’فعل کے معنی کام اور وہ اُس کا نام ہے جو بِنامدد دوسرے لفظ کے اپنے معنی بتلا دیتا ہے اور ماضی ،
حال اور مستقبل اِن تینوں زمانوں میں سے کوئی زمانہ پایا جاتا ہے ۔‘‘ (5)
رُتھ لیلیٰ شمٹ (Ruth Laila Schmidt ):
,, Urdu verbs have four parts : the Root ,Imperfective Particle,
Perfective Particle,and Infinitives.These are eleborated with auxiliaries
and suffixes into complex system of verb tense aspect.The basic form
of a verb determines its aspect, whereas the auxiliary(or the future
tense,the future suffix)determines the tense.,, (6)
جان شیکسپئیر ( John Shakespear):
,, A verb is a word which of itself may constitute a sentence and without
whic, expressed or understood,no sentence can be complete. In the
Hindustani,the Arabic term action is commonly used to designate this
part of speech ,which admitsof various subdivisions.,, (7)
محترمہ ڈاکٹر حبیب ضیا:
’’ فعل اس کلمہ کو کہتے ہیں جس سے کسی کام کاکرنا ،ہونا یا سہنا سمجھا جائے اور اس میں زمانہ پایا جائے ۔ہر فعل کے لیے
ضروری ہے کہ اس کاکوئی فاعل ہو اس لیے جس سے فعل صادر ہوتا ہے اس کو فاعل کہتے ہیں ۔‘‘(8)
ہلیالشکر لے شہ جاگے تے اپنی
چلیا عسکر لے شہ جاگے تے اپنی ( ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 126)
معانی کے لحاظ سے فعل کی قسمیں : معانی کے لحاظ سے فعل کی تین اقسام ہیں :
۱۔ فعل لاز م
فعل لازم میں فعل کی تاثیر کا تعلق صرف فاعل تک محدود رہتاہے اوراِسے کسی اور آسرے کی احتیاج نہیں رہتی۔
لے لشکر شاہ اس جنگل میں بیٹھا
ستاریاں سوں چندربادل میں بیٹھا ( ابن نشاطی : پھولبن ص ۶۶)
رہیا یوں توں آدم کے دِل تنگ میں
کہ جیوں آگ پنہاں اچھے سنگ میں ( وجہی: قطب مشتری ص ۶)
۲۔ فعل متعدی
فعل متعدی میں فعل کے اثرات فاعل کی حدود سے آگے نکل کر مفعول پر بھی مرتب ہوتے ہیں:
مشتری تماشا دیکھنے آئی ( وجہی: سب رس ص ۲۹۶)
اے سکھیں میں نے دیکھیا سنگ کر کے یار کا
پن نہ دیکھیا بے سج ھور سنگدل تج سار کا ( بحری : کلیات ص۱۲۷)
۳۔ فعل ناقص
فعل ناقص ایسا فعل ہے جو کسی اثر کا ثبوت فراہم کرے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ اس میں کام کرنے کے بجائے ہونے سے غرض رکھی جاتی ہے ،فعل ناقص بالعموم فاعل سے بے نیاز رہتا ہے ۔پڑنا ،ہونا ،لگنا افعال ناقص ہیں۔
میں گر پڑا کہ میرے بازوؤں میں جان نہ تھی
وگرنہ میرا نشیمن تو یہ چٹان نہ تھی ( رام ریاض )
دکنی زبان میں مستعمل افعال ناقص درج ذیل ہیں:
اتھا،اہے ،اہیں ،اتھی،اتھے،اتھیاں،ہے،ہیں،تھا،تھی،تھے،تھیاں
علی ؑ وہ کہ شانِ ولایت اہے
جہاں بخش صاحب کرامت اہے ( نصرتی : گلشن عشق ،ص ۲۳)
گرامر کے اصولوں کے مطابق فعل کی دو کیفیات ہیں:
۱۔فعل معروف
جب کسی فعل کے فاعل کے بارے میں مکمل معلومات دستیاب ہوں تووہ فعل معروف کہلائے گا۔
سمن بر اس کوں گند کرہار دی ایک ( ابن نشاطی:پھولبن ص ۹۷)
۲۔فعل مجہول
جب فاعل کا تو علم نہ ہو مگر مفعول کے بارے میں آگہی حاصل ہوایسا فعل مجہول کہلاتاہے ۔
جکوئی اپنی عزت خاطر مارا گیا سو شہید ہے ۔
بادی النظر میں واحد حاضر کے لیے ضروری لفظ کی سادہ صورت ہی فعل قرار پاتی ہے جیسے ’ چاہ ‘ ، ’ بول ‘ وغیرہ ۔
دکنی اُردو
میرا کہنا مجھے کہنا
ہِلنے جُلنے باج ہِلے جُلے بغیر
دیکھنے دیوے دیکھنے دے
بِھگنا بِھیگنا
سُنگنا سُونگھنا
تھڑنا ٹھٹھرنا
فعل کی بناوٹ
فعل مصدر سے علامت مصدر ہٹانے اور بعض تغیرات لانے سے حاصل ہوتاہے ۔اگر مادے کے تصور سے بات کی جائے تو مادہ ٔ فعل اوراس پر اضافات سے فعل کی تشکیل ہوتی ہے ۔ فعل کی تشکیل کو درج ذیل صورتو ں میں دیکھا جا سکتاہے :
۱۔افعال مفرد
۲۔افعال مرکب
۱۔افعال مفرد
ایسے افعال جو صرف ایک لفظ پرمشتمل ہوں ،افعال مفرد کہلاتے ہیں۔مثلاًرونا،سوئے،دھوئیں وغیرہ۔
۲ ۔ افعال مرکب
الف ۔ امدادی افعال : دوسرے افعال کی مدد سے جو مرکب افعال بنتے ہیں انھیں امدادی افعال کہتے ہیں ۔
ب۔ مرکب افعال :افعال کو اسما یا صفات کے ساتھ ترتیب دینے سے مرکب افعال بنائے جاتے ہیں ۔
1 ۔امدادی افعال سے مرکب افعال بنانا
الف۔ ’’ہو ‘‘ : ایک امدادی فعل ہے اس سے بہت سے مرکب افعال بنتے ہیں مثلاً آیا ہونا ،منایا ہونا۔
دکنی میں اس کی مثال اس طر ح ہے :
جدھاں تھے تن کے چشمے میں جیا جل دھار ہو آ یا
تدھاں تھے عشق منج دل کے برک کا بار ہو آیا ( غواصی ؔ : کلیات ،صفحہ 114)
ب ۔ ’’دینا ‘‘ اور ’’ لینا ‘‘ : سے بھی مرکب افعال بنتے ہیں مثلاً مل دینا ،نکال دینا،چھین لینا ۔ اردو اور دکنی میں ’ لینا ‘ سے امدادی فعل کی مثال :
سمج کر دیک توں دنیا کے شیوے
کہ چھن میں دیوے چھن میں چھین لیوے (اب نشاطی : پھول بن ،صفحہ 21)
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دِل کو اُس مقام پہ لاتا چلا گیا
اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں
تم نے کسی کے ساتھ محبت نباہ تو دی ( ساحر لدھیانوی)
مصدر سے علامت مصدر ہٹانے اور بعض تغیرات لانے سے مادۂ فعل حاصل ہوتا ہے ۔اگر مادے کے تصور کو پیش نظر رکھا جائے تویہ امر واضح ہے کہ مادہ ٔ فعل اور اس پر
الف ۔ امدادی افعال
جب کسی فعل کی تشکیل دوسرے فعل یااس کے جزو کی مرہونِ منت ہو اوراس کے مفہوم میں وسعت ،قوت اور حسن پیدا کرکے اصل فعل کی معاونت کرے تو امدادی فعل کہلاتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں امدادی فعل سے مراد ایسا فعل ہے جس کی گردان اور صیغے دوسرے افعال سے مختلف صیغے بنانے میں معاون ثابت ہوں ۔امدادی فعل کے وسیلے سے فعل کے مطالب اور مفاہیم کی توضیح و تشریح کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔زمانے کی نوعیت ، طور اورحالت کے بارے میں بھی امدادی افعال حقائق کی گرہ کشائی کرتے ہیں ۔ دوسرے افعال کی مدد سے جو مرکب افعال بنتے ہیں انھیں امدادی افعال کہتے ہیں ۔
وہیں متفق ہو او چائے سو غل
سری دے گئے جملہ مل خر یو کل
ہوئی پل میں اس دھات لشکر کی موڑ
کہ نیں لڑ سکے پھر کبھی فوج جوڑ ( نصرتی ؔ)
میں دِل پہ جبر کروں گا تجھے بُھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تُجھے بھی کڑی سزادوں گا
یہ تیرگی میرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دئیے بُجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خو داُڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
بڑھا رہی ہیں میرے دُکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تیری تصویر تک جلادو ںگا ( محسن نقوی )
ب۔ مرکب افعال
افعال کو اسما یا صفات کے ساتھ ترتیب دینے سے مرکب افعال بنائے جاتے ہیں ۔بعض اوقات مرکب افعال میں دیگر زبانوں سے تراجم کر لیے جاتے ہیںجیسے فارسی سے کثیر تعداد میںافعال دکنی اور اردو میں داخل ہوئے۔ دکنی شاعری میں فارسی محاورات کے تراجم بھی کیے گئے ۔ ولی ؔ دکنی نے فارسی محاورات کے معانی کوجس خوش اسلوبی سے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
محاورات
معانی
مثالیں
دِل بَستن
دِ ل باندھنا
ولیؔ جن نے نہ باندھیا دِل کوں اپنے نو نہالاں سے
خوش آمدن
راس آنا ،پسند آنا
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
دم زدن
دم مارنا
دم زدن میں بھبھوتی مُکھ پہ لیا دم مارتی ہے خاک
شیوہ گرفتن
طریقہ اپنانا
لیا ہے اِس سبب دِل نے مرے شیوہ گدائی کا
روا داشتن
جائز سمجھنا
رکھتا ہے کیوں جفا کو مجھ پر روا اے ظالم
آب کردن
آب کرنا،صیقل کرنا
اے ولیؔ دِل کو آب کرتی ہے
نماز کردن
عبادت کرنا ،نماز کرنا
کرتی ہیں تیری پلکاں مِل کر نماز گویا
جا کردن
جگہ پانا
گوہر اُس کی نظر میں جا نہ کرے
چشم داشتن
نگاہ رکھنا
چشم رکھتا ہوں اے سجن کہ پڑھوں
جفا کشیدن
ستم سہنا
سدا عاشقاں کھینچتے ہیں جفا
بتنگ شُدن
کم ہونا ،تہی ہونا
اے دوستاں بتنگ ہوا ہوں میں ہوش سے
افعال کی ہمہ گیر اثر آفرینی کا کرشمہ دامن ِ دِل کھینچتاہے ۔ہر فعل میں اس کی تین حالتوں ( گزشتہ ،موجودہ اور آئندہ ) کا احوال مذکور ہوتاہے ۔درج ذیل اشعارمیں زمانے کی تینوں صورتیں اپنا رنگ اور آ ہنگ پیش کرتی ہیں :
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر میرا کیا ہے شاعری کیا ہے ( علامہ اقبال)
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں ( انشااللہ خان انشاؔ)
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دِن ( مرزا اسداللہ خان غالب ؔ)
مادہ ٔ فعل ایک جائزہ ایسے الفاظ جن کے ساتھ یا تو کام کا تصور وابستہ ہوتا ہے یا پھر جو اسم کی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ وقت نما علامات کا انسلاک کیا جاتا ہے ،انھیں فعل کہا جاتا ہے ۔ جیسے ’’ لکھا ہے : فعل ہے ‘‘بادی النظر میںواحد حاضر کے لیے ضروری لفظ کی سادہ صور ت ہی فعل قرارپاتی ہے ۔ اسی کو فعل کی جڑ سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے چاہ ،بول وغیرہ ۔ فعل کے بنیادی مباحث اور اس کے تصور کی تفہیم کے لیے درج ذیل مباحث کا جاننا ضروری ہے :
الف ۔ فعل کی تعریف اور اس کی اقسام
ب۔ مصدر ، مادہ ٔ فعل ، فعل کی اقسام اور مصدر سے فعل کی تشکیل
مادہ ٔ فعل
ہر مصدر میں ایک ’’مادہ ‘‘موجود ہوتا ہے جوعلامت مصدر ’’نا‘‘کے ہٹانے سے حاصل ہوتا ہے اور اس کے سب تغیرات میں بھی موجود رہتا ہے اور ان تغیرات کی علامتیں ہٹانے کے بعد بھی بچ جاتا ہے جیسے چلنا سے ’ چل ‘ مادہ ٔ فعل ہے ۔فعل کی مختلف صورتوں جیسے چلتا ہے ،چلے گا ،چلنے والا ،ان سب میں مادہ ٔ فعل’ چل ‘ مشترک ہے ۔دکنی مصادر اور اُردو مصادر میں مادہ ٔ فعل کے حصول کایہی طریقہ ہے ۔مادہ ٔ فعل بالعموم فعل امر ہی ہوتا ہے مثلاً:
نمبر شمار
زبان
مصادر
مادہٌفعل
۱
اردو
اوڑھنا
اوڑھ
۲
دکنی
اوڑنا
اوڑ
۳
اردو
اُٹھانا
اٹھا
۴
دکنی
اُچانا
اُچا
۵
اردو
اٹکنا
اَٹک
۶
دکنی
اَڑکنا
اَڑک
مادہ ٔفعل کی اقسام
اردو گرامر میں مادہ ٔ فعل دو طرح کے ہیں :
(۱)۔ اولین/اصلی مادے (۲(۔ثانوی /وضعی مادے
اولین یااصلی مادے سنسکرت یا پراکرت سے لیے گئے ہیں۔اردو میںقدیم مادوں کی مثال پر وضع کیے گئے ہیں جیساکہ پہلے اس امر کی صراحت کر دی گئی ہے کہ مصدر کی مصدری علامت ’ نا ‘ ہٹانے سے مادہ ٔ فعل باقی رہ جاتا ہے ۔ مادہ ٔ فعل کے آخر میں ’ الف ‘ بڑھانے سے حالیہ تمام جب کہ مادہ ٔ فعل کے آخر میں ’ تا ‘ کااضافہ کرنے سے حالیہ نا تمام بن جاتا ہے ۔ افعال کے تقابلی جائزے کی خاطر یہ امر ناگزیر ہے کہ مادہ ٔ فعل کو زبان کے اسلوب میںحقیقی تناظر میں دیکھا جائے ۔ دکنی اور اردو مصادر کے مادہ ٔ فعل اور افعال میں اس کے مقام کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
زبان
مصادر
مادہٌفعل
حالیہ تمام
حالیہ ناتمام
حاصل مصدر
اردو
اوڑھنا
اوڑھ
اوڑھا
اوڑھتا
اوڑھ
دکنی
اوڑنا
اوڑ
اوڑا
اوڑتا
اوڑ
اردو
اُٹھانا
اُٹھا
اُٹھایا
اُٹھاتا
اُٹھا
دکنی
اُچانا
اُچا
اُچایا
اُچاتا
اُچا
اردو
اُبلنا
اُبل
اُبلا
اُبلتا
اُبل
دکنی
اُبلن
اُبل
اُبلا
اُبلتا
اُبل
بادی النظر میں اُردو میں حاصل مصدر اور مادہ دونوں یکساں صورت میں موجود ہیں ۔حاصل مصدر اور مادہ مصدر کے حصول کے لیے علامتِ مصدر کو گرا نا ضروری ہے مثلاً ’ دوڑنا ‘ سے علامت مصدر ’ نا ‘ گرانے سے ’ دوڑ ‘ حاصل ہوا اور ’ کھیلنا ‘ سے علامت مصدر ’ نا ‘ کو ہٹانے سے ’ کھیل ‘ مل گیا ۔ یہ کہنا کہ ہر مصدرکی علامت ہٹانے سے حاصل مصدر مِلے گا،درست نہیں ۔
فعل کی اقسام
فعل مصدر سے علامت مصدر ہٹانے اور بعض تغیرات لانے سے حاصل ہوتا ہے ۔اگر مادے کے تصور سے بات کی جائے تومادۂ فعل اور اس پر اضافات سے نئے افعال بنائے جا سکتے ہیں۔ان میںسے مرکب افعال زیادہ مستعمل ہیں ۔دکنی میں اسما سے فعل کی تشکیل عام تھی جیسے چِتر ( تصویر ) سے چِترانااوردِیپ سے دِیپنا وغیرہ۔
مرکب افعال
مرکب فعل ایسا فعل ہے جو کسی دوسرے فعل اِسم یا صفت سے مربوط ہو۔دوسرے لفظوں میں ایسے افعال جو ایک سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ہوں افعال مرکب /مرکب افعال کہلاتے ہیں۔ مرکب افعال کی دو اقسام ہیں مرکب فعل امدادی اور مرکب فعل ارتباطی ۔ان میں سے مرکب فعل امدادی تو امدادی فعل کی مدد سے بنایا جاتا ہے جب کہ مرکب فعل ارتباطی اسم یا صفت کے ربط سے متشکل ہوتا ہے ۔ مثلاً شرو ع کرنا ،ختم کرنا ،دُکھ دینا ،گِر پڑنا وغیرہ ۔ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے مطابق افعال مرکب دو طرح سے بنتے ہیں :
الف ۔ دوسرے افعال کی مدد سے جنھیں امدادی افعال کہتے ہیں ۔
ب ۔ افعال کو اسما ء یا صفات کے ساتھ ترتیب دینے سے ۔
1۔ امدادی افعال سے مرکب افعال بنانا
امدادی افعال سے مرکب افعال کی تیاری گرامر کا اہم موضوع ہے ۔اس کا طریق کار درج ذیل ہے :
الف ۔ ’’ہو ‘‘ ایک امدادی فعل ہے اس سے بہت سے مرکب افعال بنتے ہیں مثلاً آیا ہو نا،منایا ہونا ۔
ب ۔ ’’دینا ‘‘ اور ’’ لینا ‘‘ بھی اسی طرح مرکب افعال ہیں مثلاً مل دینا ،نکال دینا ،ہٹا دینا،بُلا لینا ،رکھ لینا وغیرہ ۔
ج۔ اسی طرح ’’جانا ‘‘ سے ٹوٹ جانا ،بِکھر جانا ،مِل جانا ۔
د۔ ’’ رہنا ‘‘ سے بیٹھ رہنا ،سو رہنا ،لٹکے رہنا ۔
ر۔ ’’پڑنا ‘‘ سے ٹُوٹ پڑنا ، گِر پڑنا ۔
س۔ ’’بیٹھنا ‘‘ سے چڑھ بیٹھنا ،آ بیٹھا،دبا بیٹھا ۔
اور اب یہ کہتا ہوں،یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں ،کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی ہنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں ،ہجراورہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دِل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انہی حدوں تک اُبھرتی ،یہ لہر جس میں ہوں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈتا،رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں ،میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوںیا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں ،کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اَب ہے یہی ابتدا ٔ میں تھا امجد ؔ
کریم تھا،مری کوشش میں انتہا رکھتا ( مجید امجد )
اسمائے صفات کے ساتھ ترتیب دینے سے مرکب افعال بنانا
بعض اوقات اسمائے صفات کو ترتیب دینے سے بھی مرکب افعال بنتے ہیں مثلاً تیز دوڑنا ۔
قبا کوں پُھول کی تُوں چاک کِیتا
کلی کے پیرہن کوں تنگ کِیتا ( ابن نشاطی : پُھول بن ،صفحہ 3)
3۔افعال وضعی
یہ ایسے فعل ہوتے ہیں جن کا کلمہ شروع سے برائے معنی فعل ہی کے کام کرتا ہے یا فعل وضعی در اصل فعل کامل کی ایک شکل ہے ۔ایسے افعال جو اپنے معنوںمیں کامل ہوں مثلاً آنا ،جانا ،کھانا فعل کامل کہلاتے ہیں۔
4۔ افعال غیر وضعی
ایسے افعال جن کا کلمہ غیر وضعی ہوتا ہے اور جن پر ’’نا ‘‘ کااضافہ کر کے فعل غیر وضعی بنا لیا جاتا ہے جیسے گرم سے گرمانا ،قبول سے قبولنا ۔
( الف ) ۔ اقسام فعل : ( تحریر میںفاعل کا ذکر کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے )
۱۔ فعل معروف
ایسا فعل جس کا فاعل معلوم ہو فعل معروف کہلاتا ہے مثلاً احسن نے ارشد کو پِیٹا۔کوثرنے سیب کھائے ۔نوید نے خط لکھا۔
۲۔ فعل مجہول
ایسا فعل جس کا فاعل معلوم نہیں ہوتالیکن مفعول معلوم ہوتا ہے فعل مجہول کہلاتا ہے جیسے دروازہ کھولا گیا۔وہ ماراگیا ۔ وہ پِیٹا گیا۔اردو میں فاعل کا ذکر نہ ہو اورفعل کے بعد ’ جانا ‘ کے صیغے فعل مجہول بناتے ہیں۔
(ب)۔ اقسام فعل : (بہ لحاظ فاعل )
فاعل کے اعتبار سے بھی فعل کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ فعل لازم
ایسا فعل جس میں فاعل اور فعل موجود ہوں لیکن مفعول نہ ہو فعل لازم کہلاتا ہے ۔یعنی کام کا اثر صرف کام کرنے والے تک محدود رہتاہے جیسے ریل چلی ،احسن آیا۔
۲۔ فعل متعدی
ایسا فعل جس میں فاعل کے ساتھ ساتھ مفعول کو بھی طلب کیا جائے فعل متعدی کہلاتا ہے مثلاً ریحانہ نے کپڑے دھوئے ،احسن نے خط لکھا۔اُردو میں ایسے افعال متعدی جن کی ماضی مطلق ،ماضی قریب ،ماضی بعید ،ماضی احتمالی کے ساتھ ’’نے ‘‘کا استعمال کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں فعل ہر صورت میں مذکر مستعمل ہوتا ہے خواہ فاعل مونث ہی کیوں نہ ہو ،جہاں تک دکنی کا تعلق ہے اس زبان میں مذکر کے لیے مذکر اور مونث کے لیے مونث فعل کااستعمال عام ہے جیسے :
دکنی اُردو
اس عورت نے کہی اس عورت نے کہا
لڑکی نے پانی پی لڑکی نے پانی پیا
(ج) فعل کی قسمیں ( بہ لحاظ زمانہ )
علامات زمانہ (اُردو ) :
حال : ہیں ہوں۔ ( ہے اور اس کے اخوان،ہے)
ماضی : میں تھا ۔ (تھااور اس کے اخوان،تھا،تھے ،تھی )
مستقبل : وہ آئیں گے ۔ ( گا اور اس کے اخوان ،گا ،گی ،گے)
جہا ںتک مستقبل کا تعلق ہے اُردو میں ’ گا‘ فعل مضارع پر متصل ہے جب کہ دکنی میںمستقبل کا ’سی ‘ مادہ ٔ فعل سے متصل ہے جیسے’ بولسی ‘ ، ’کھاسی ‘ ، ’اپرسی ‘ ۔
علامات زمانہ (دکنی) :اہے ،اتھا ،سی
حال : دھن گن بھری گیانی چنچل اکثر یاں آتی ہے صبح
یک وقت پر نا آئے تو تُمنا بلاتی ہے صبح (ہاشمیؔ:دیوان ،صفحہ 51)
ماضی : وو ایسے وقت شہ مجلس کیا تھا
ارم کا زیب مجلس کوں دیا تھا (ابن نشاطی )
مستقبل : ترے جب کی ات سوز دھر آئیں گیاں
سلامت ترے ٹھار انپڑ آئیں گیاں (نصرتیؔ : گلشن عشق ،صفحہ 72)
فعل کی اشتقاقی صورتیں : بنیاد مادۂ فعل
فعل امر،تمام ،ناتمام، مضارع
کسی بھی فعل کی تین حیثیتیں ہوتی ہیں :
۱۔ جو ختم ہو چکا ہے
۲۔جوشروع ہو چکا ہے اور ختم نہیں ہوا۔
۳۔ جو ابھی شروع نہیں ہوا ۔
دوسرے لفظوں میں ماضی ،حال اور مستقبل ۔
زمانہ ماضی ،حال اور مستقبل کی بھی اپنی اقسام ہیں ۔
فعل ماضی کی اقسام
۱۔ ماضی مطلق ۲۔ تمام ۳۔نا تمام ۴۔شرطیہ ۵۔ تمنائی ۶۔احتمالی
روایتی قواعد میںماضی مطلق ،ماضی قریب ،ماضی بعید ،ماضی استمراری ،ماضی تمنائی ،شرطیہ۔
مولوی عبدالحق نے اشتقاقی صورتوں پر بنیاد رکھتے ہوئے اس تقسیم کو یوں بیان کیا ہے :
ماضی مطلق
ایسا فعل جس کی محض گزشتہ زمانے میں واقع ہونے کی خبر مِلی ہو مگ رزمانے کا تعین نہ ہو ماضی مطلق کے زمرے میں آتا ہے۔ احسن آیا ، بڑھئی بھاگا،نوید گیا۔
اردو اور دکنی زبان میں ماضی مطلق بنانے کا طریقہ:
اردو میں ماضی مطلق بنانے کے لیے مادہ فعل کے آخر میں الف (ا)بڑھا دیاجاتاہے ۔جیسے بھاگ سے بھاگا ،جاگ سے جاگا ۔اگر مادۂ فعل کے آخر میں ’’الف ‘‘ یا ’’واؤ ‘‘ہو تو ’الف ‘ کے بجائے ’’یا‘‘ کااضافہ کر دیا جاتا ہے جیسے سو سے سویا اور کھا سے کھایا ۔اسی طرح اگر فعل مادہ کے آخر میں’’ی‘‘ ،’’ے ‘‘ ہوتو ’الف‘ کا اضافہ کرنے سے ماضی مطلق بن جاتا ہے جیسے پی سے پیا،لے سے لیالیکن جا سے گیا،کر سے کیا اور مر سے مرا بے قاعدہ ہیں ۔دکنی زبان میں ماضی مطلق (فعل متعدی)کو معروف کے طور پر استعمال عام ہے جب کہ اردو زبان میں یہ مجہول کے طور پر مستعمل ہے ۔دکنی زبان میں فعل کی فاعل کے ساتھ مطابقت لازم ہے جب کہ اردو میں فاعل کی مفعول کے ساتھ مطابقت نا گزیر ہے ۔دکنی زبان میںماضی مطلق کے آخری حرف سے پہلے ’’ ی ‘‘ مخلوط کی موجودگی اس زبان کی تحریروں میں عام ہے ۔اس کی چند مثالیں پیش ہیں :
مصادر سے دکنی اور اردو میں ماضی مطلق بنانا
نمبر شمار
مصادر
دکنی
اردو
۱
مِلنا
مِلیا
مِلا
۲
سُننا
سُنیا
سُنا
۳
چلنا
چلیا
چلا
۴
رہنا
رہیا
رہا
۵
کہنا
کہیا
کہا
۶
لانا
لیایا
لایا
قدیم دکنی میں برج بھاشا کے قواعد کے مطابق ماضی مطلق بنانے کے تجربے بھی عام تھے جیسے رہیو ،آیو،بہیو،کہیو وغیرہ۔اس کے علاوہ دکنی میں ماضی مطلق بنانے کے لیے مصدر کی علامت ’ نا ‘ دُور کرنے کے بعد ’ یا ‘ کا اضافہ کر دیا جاتاہے ۔
مگر بہو دھیاں اُس مُکھ کا رکھیا چیت
رھیا ہے تن یہاں ہے جیو اُس کن (شیخ احمد شریف گجراتی: یوسف زلیخا ،صفحہ 98)
تیرے وعدے اُپر اے آس با ندھیا
زلیخا کوں بھریا دھن مال سنپت (شیخ احمد شریف گجراتی: یوسف زلیخا ،صفحہ 98)
جِنے دِل کوں جلایا اُنے کچھ پایا ( وجہی : سب رس صفحہ 17)
ندیاںلھو کی بُھیں پر بہایا تہیں
جِتا کفر کا جِس ڈبایا تہیں (نصرتی : گلشن عشق ،صفحہ 24)
دکنی زبان میں ماضی مطلق ’ الف ‘ یا ’ ی ‘ سے بھی بنتی ہے مثلاً :
دیکھت مرغاں کو ساری کئے سو بھانے
چھپا سیمرغ جا کوہ کاف میانے ( ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 68)
مبارک باد دینے آیا نو روز تج دو بار
اوکھ سوکھ تھے کریں تارے قراں ہم عید و ہم نوروز (محمد قلی : کلیات ،صفحہ 22)
واحد مونث کی صورت میں دکنی میں مادہ ٔ مصدر کے بعد ’’ ی ‘‘ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جیسے :
تُوں تو بندی بے فکر رہی
دُکھ سُکھ میرے سیں دی
جس طر ح اُردو میں ’ کرنا ‘ کا ماضی مطلق ’ کیا ‘ و ’ کی ‘ مستعمل ہے اسی طرح دکنی میں بھی کسی منضبط انداز کے بجائے ’ کریا ‘ و ’ کری ‘ لکھ جاتاہے ۔یہی صورت حال ’ جانا‘ کی ہے اس سے ’ گیا ‘ بغیر کسی قاعدے کے بنایا جاتا ہے ۔
میں جو مجنوں کے نمن اپسیں بیابانی کیا
عشق میں دانا ہو چُپ لوگاں میں نادانی کیا (غواصیؔ : کلیات ،صفحہ 108)
گیا جب کہ بن ترا قطرہ نور
ترے نور تھے جگ یو پایا ظہور (نصرتیؔ : گلشن عشق ،صفحہ 1)
ماضی مطلق کے طور پر دکنی زبان میں ایک فعل ’ کیتا ‘ کثرت سے استعما ل کیا جاتا ہے:
سو کیتا ابتدا تعظیم کاسطر
لکھائی احسن تقویم کا سطر (ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 14)
اردو میں ایسے مصادرجن میں علامت مصدر سے پہلے ’’الف ‘‘ یا ’’ و ‘‘موجود نہیں ہوتا ،ان سے ماضی مطلق بنانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ فعل امر کے بعدالف کا اضافہ کر دیا جاتا ہے ،دکنی میںبھی بالعموم یہی طریقہ مستعمل ہے تاہم بعض اوقا ت الف کے بجائے ’’ یا ‘‘ کا اضافہ کیا جاتاہے۔ اس کی چند مثالیں درج کی جا رہی ہیں :
نمبر شمار
مصدر (اردو)
ماضی مطلق
مصدر(دکنی )
ماضی مطلق
1
اوڑھنا
اوڑھا
اوڑنا
اوڑا
2
اُٹھانا
اُٹھایا
اُچانا
اُچایا
3
اُبھرنا
اُبھرا
اِترانا
اِترایا
4
اُبلنا
اُبلا
اُبلن
اُبلیا
5
اُٹھنا
اُٹھا
اُٹنا
اُٹیا
6
اَٹکنا
اَٹکا
اڑکنا
اَڑکا
7
اُونگھنا
اُونگھا
اُونگنا
اُونگا
8
اُکھڑنا
اُکھڑا
اُوپاڑنا
اُپاڑا
9
بیٹھنا
بیٹھا
بسلنا
بسلا
10
بھاگنا
بھاگا
بھگنا/ بھاجنا
بھگیا/بھاجیا
11
بچنا
بچا
بانچنا
بانچا
12
دیکھنا
دیکھا
دیکھنا
دیکھیا
13
پِھرنا
پِھرا
پِھرنا
پِھرا
14
مِلنا
مِلا
مِلنا
مِلیا
15
دھرنا
دھرا
دھرنا
دھریا
16
سہنا
سہا
سیہنا
سیہا
17
نکالنا
نکالا
کاڑنا
کاڑا
18
گھبرانا
گھبرایا
گھابرنا
گھابرا
19
نبیڑنا
نبیڑا
نباڑنا
نباڑا
20
لانا
لایا
لیانا
لیایا
گردان ماضی مطلق معروف
صیغے
واحد و جمع
زبان (اُردو)
زبان(دکنی)
غائب
واحدمذکر
وہ لایا
وو یایا
جمع مذکر
وہ لائے
وو لیائے
واحدمونث
وہ لائی
وو لیائی
جمع مونث
وہ لیائی
وو لیائیں
حاضر
واحدمذکر
تُو لایا
تُو لیایا
جمع مذکر
تم لائے
تم لیائے
واحدمونث
تُو لائی
تُو لیایا
جمع مونث
تم لائیں
تم لیائے
متکلم
واحدمذکر
میں لایا
میں لیایا
جمع مذکر
ہم لائے
ہم لیائے
واحدمونث
میں لائی
میں لیائی
جمع مونث
ہم لائے
ہم لیائیاں
ماضی نا تمام یا ماضی استمراری
گرامرمیں ماضی نا تمام کوماضی استمراری بھی کہتے ہیں ۔ ماضی استمراری سے گزشتہ زمانے میں جاری حالت میںکسی کا م کے ہونے کی خبر ملتی ۔ یعنی وہ کام نا مکمل حالت میں ہوجیسے وہ کھانا کھاتا تھا ۔وہ مزدوری کرتا تھا۔رمزی ٹھگی کرتاتھا۔
اردو اور دکنی میں فعل ماضی نا تمام بنانے کا طریقہ
اردو زبان میںفعل نا تمام بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ اردومادہ فعل پر ’’تا ‘‘ کااضافہ کیا جاتا ہے جیسے لکھ سے لکھتا،رو سے روتا ،جا سے جاتا۔اس کے بعد ماضی کے اظہار کے لیے علامت ماضی ’’تھا ‘‘ کی مختلف شکلیں لائی جاتی ہیں ۔ماضی نا تمام بعض اوقات عادت کو ظاہرکرتا ہے ۔جیسے جب کبھی وہ آتا تھاتو ان سے ملنے ضرور جاتا تھا۔اسے دو اور طریقوں سے بھی ظاہر کیا جاتاہے جیسے :
۱۔ کھا لیا کرتا تھا ۔
۲۔ کھاتا رہتا تھا۔
اردو شاعری میں ماضی استمراری کے استعما ل سے سماںباندھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ذیل میں اس کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہنر رکھتا تھا (محسن بھوپالی )
محمد داؤد خان اختر شیرانی ( 1905-1948) کی رومانی شاعری سے فطرت نگاری کی مظہر سراپا نگاری ایک ایسی نادر مثال پیش کی جاتی ہے جس کے بیان میں ماضی استمراری کے استعمال سے سماں بندھ گیاہے ۔
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اس وادی کی شہزادی تھی اور شاہانہ رہتی تھی
کنول کا پُھول تھی ،سنسار سے بیگانہ رہتی تھی
نظر سے دُور، مِثل ِ نِکہت ِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
انہی صحراؤ ں میں وہ اپنے گلّے کو چراتی تھی
انہی چشموں پہ وہ ہرروز، منھ دھونے کو آ تی تھی
اِنہی ٹیلوں کے دامن میںوہ آزادانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
تباہی کی ہوا اس خاکِ رنگیں تک نہ آئی تھی
یہ وہ خطّہ تھا ،جس میں نو بہاروں کی خدائی تھی
وہ اِس خطے میں مِثلِ سبزہ ٔ بیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
اِسی ویرانے میں اِک دِن بہشتیں لہلہاتی تھیں
گھٹائیں گِھر کے آ تی تھیں، ہوائیں مسکراتی تھیں
کہ وہ بن کر بہارِ جنتِ ویرانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِ س ٹیلے پر اکثر عاشقانہ گِیت گاتی تھی
پُرانے سورماؤں کے فسانے گنگناتی تھی
یہیں پر، منتظر میری وہ بے تابانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ گیسوئے پریشاں، یا گھٹائیں رقص کرتی تھیں
فضائیں وجد کرتی تھیں، ہوائیں رقص کرتی تھیں
وہ اس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے حسیں سائے زمیں پر لہلہاتے تھے
ستارے جگمگاتے تھے شگوفے کھلکھلاتے تھے
فضامیں منتشر اک نکہت ِمستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
شمیمِ زُلف سے اُس کی ، مہک جاتی تھی کُل وادی
نگاہِ مست سے اُس کی بہک جاتی تھی کُل وادی
ہوامیںپر فشاں روحِ مے و مے خانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں ہم رنگِ گُل ہائے حسیں رہتی تھی ریحانہ
مثالِ حورِ فردوسِ بریں رہتی تھی ریحانہ
یہیں رہتی تھی ریحانہ ،یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی
پیامِ دردِ دِل اختر دئیے جاتا ہوں وادی کو
سلامِ رخصت ِ غمگیں دئیے جاتاہوں وادی کو
سلام اے وادیٔ ویران جہاں ریحانہ رہتی تھی (اختر شیرانی )
اردوزبان کے ممتاز مزاح نگار سرفراز شاہد نے اختر شیرانی کی محولہ بالا نظم کی تحریف کی ہے ۔ اختر شیرانی نے ریحانہ اور سرفراز شاہد نے سلطانہ جیسی عیاش لڑکیوں کی جس انداز میں تصویر کشی کی ہے قاری چشم ِ تصور سے اُنھیں دیکھ لیتا ہے ۔یہ ایسے کردار ہیں جو عشوہ و غمزہ و ادا کے تیر چلا کر اپنے شکار کو گھائل کر نے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔جنوبی ہند اور شمالی ہند میں تہذیب و تمدن کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا تھاوہ آج بھی موجود ہیں ۔اگر کوئی حسینہ اپنے بارے میں تمام حقائق منظر عام پر لانے میں تامل کرے تومعاشرتی زندگی میں جب وہ دوسروں کے روّیے پر گرفت کرے گی تو اُس کے تاثرات پرکون دھیان دے گا؟بھاگ متی ،لال کنور ، ادھم بائی ،ریحانہ اور سلطانہ تو محض علامتی کردارہیں ۔انھیں ایک نفساتی کُل کے روپ میں دیکھنا چاہیے جس کے معجز نما اثر سے لا شعور کی تاب و تواں کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔اس دنیاکے آئینہ خانے میں مربع کو ہر حال میں مربع ہی پر منطبق کرنا چاہیے نہ کہ اُسے مستطیل کے ہم پلہ قرار دے کر صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کی قبیح روش اپناکر اپنی ذات کو تماشا بنا دیاجائے ۔ماضی میں جو قباحتیں ادھم بائی ،لا ل کنوراور بھاگ متی سے منسوب رہیں جدید دور کے معاشرے میں ریحانہ اور سلطانہ اُسی قبیح روایت کو نہایت ڈھٹائی سے پروان چڑھارہی ہیں۔اس دنیا میں ایسے ننگ وجود کرداروں کی کمی نہیں ایک کی تلا ش مقصود ہو تو راہ ایک ہزار کو ہنہناتے ہوئے دیکھ کر اہلِ دِل پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔ہجر کی طویل تیرہ و تاریک راتوں میں خاطرِ بے خواب کی زد میں آکر یاس و حُرماں کے دُکھ سہنے والے عشاق کی نا صبورنگاہیں اس قماش کی عیار حسیناؤں کے انتظار میں پتھر اجاتی ہیں۔ اِن نظموں میں ماضی استمراری میں دو کرداروں( ریحانہ اور سلطانہ ) کے بارے میں حقیقت پسندانہ اندازمیں بیان کیے گئے حالات کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔
یہی کالج ہے وہ ہمدم، جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
وہ اِ س کالج کی شہزادی تھی اور شاہانہ پڑھتی تھی
وہ بے باکانہ آتی تھی اوربے باکانہ پڑھتی تھی
بڑے مشکل سبق تھے جن کو وہ روزانہ پڑھتی تھی
وہ لڑکی تھی مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم ،جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
کلاسوں میں ہمیشہ دیر سے وہ آیا کرتی تھی
کتابوں کے تلے فلمی رسالے لایا کرتی تھی
وہ جب دوران ِ لیکچر بور سی ہو جایا کرتی تھی
تو چُپکے سے کوئی تازہ ترین افسانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم، جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
کتابیں دیکھ کر کُڑھتی تھی محو ِ یاس ہوتی تھی
بہ قول اُس کے کتابوں میں نِری بکواس ہوتی تھی
تعجب ہے کہ وہ ہر سال کیسے پاس ہوتی تھی
دھڑلے سے جو نانا جان کو جا نانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم ،جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
عجب انداز کے عشاق تھے اُس ہیر کے مامے
کھڑے رہتے تھے پھاٹک پر کئی ماجھے کئی گامے
جو پیچھے اتنے فتنے تھے تو آگے کتنے ہنگامے
وہ اِس طوفان میں رہتی تھی طوفانانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم ،جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
وہ سلطانہ مگر پہلی سی سلطانہ نہیں یارو
سُنا ہے اب کوئی بھی اُس کا دیوانہ نہیں یارو
کوئی اس شمع خاکستر کا پروانہ نہیں یارو
خود افسانہ بنی بیٹھی ہے جو افسانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم ،جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
اسی طرح ماضی نا تمام کو ظاہر کرنے کی ایک اور صورت ہے مثلاً کہتا رہا ،کھاتا رہا ،نکلتا رہا ۔اکثر یہ صورت فعل کے مسلسل جاری رہنے کی صورت کو ظاہر کرتی ہے مثلاًمیں ہر چند منع کرتا رہا مگر وہ بکتا رہا۔بارش ہوتی رہی اور وہ نہاتا رہا ۔اس کے علاوہ ایک اور صورت بھی ہے جیسے پکارا کیا ،بکا کیا ،سنا کیا ۔یہ خلاف قاعدہ ہے مثلاًاس میں لڑائی کی کیا بات ہے تم اپنا کام کرتے میں اپنا کام کرتا(یعنی کرتے رہتے )۔میری عادت تھی کہ پہلے کھانا کھاتاپھر پڑھنے جاتا(یعنی کھانا کھاتا تھا ،جاتا تھا)
دکنی میں زمانہ ماضی میں فعل کی تکرار، پیہم اور غیر مختتم روانی کوظاہر کرنے کے لیے ماضی استمراری کا استعمال عام ہے ۔دکنی میں ماضی شرطیہ کے بعد ’ تھی ‘ ، ’ تھا ‘ ، ’تھے ‘ کااضافہ کیا جاتا ہے ۔
جو باتاں خداکوں بھاتیاں تھیاں سو باتاں دِلیچ میں تے آ تیاں تھیاں ۔ ( وجہیؔ : سب رس ،صفحہ 99)
نظر پڑتی تھی جو ناسک سندر کی
تو جاتی تھی سُد اُڑ ہر یک بھنور کی (ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 80)
زمیں پرواں کے بستے تھے چرندے
گگن کوں ڈھانپ لیتے تھے پرندے (ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 66)
ماضی تمام یا ماضی بعید
ماضی تما م یا ماضی بعید ایسا فعل ہے جس میں طویل عرصہ قبل کام کاختم ہونا پایا جاتا ہو یا وہ کام جو بہت پہلے مکمل ہو چکا ہو ۔ماضی تمام بنانے کے لیے ’’فعل ‘‘ تمام کے آخر میں ’’تھا ‘‘ یا ’ تھی ‘ لگا دیا جاتا ہے جیسے’ میں سکول گیا تھا ۔ میں احسن سے ملنے گیا تھا ۔ سلطان مجھے ملنے آ یا تھا۔وہ اُس وقت پہنچا جب میں کھانا کھا چکا تھا۔
تمنّا کوں ملنے رات کوں اچیل چنچل کوئی آ ئی تھی
ہو ڈھیٹ کچھ کا کچھ انے سٹ دی سیکچ کچھ لیائی تھی (ہاشمی : دیوان صفحہ 324)
نہ دیکھے تھے کوئی اس زمانے میں کاج
کیا تھا جو اُن حق کے کچ امر باج (نصرتی : گلشن عشق ، صفحہ 63)
کھڑے رہتے تھے پھاٹک پر کئی ماجھے کئی گامے
جو پیچھے اتنے فتنے تھے تو آگے کتنے ہنگامے
وہ اِس طوفان میں رہتی تھی طوفانانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم ،جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
وہ سلطانہ مگر پہلی سی سلطانہ نہیں یارو
سُنا ہے اب کوئی بھی اُس کا دیوانہ نہیں یارو
کوئی اس شمع خاکستر کا پروانہ نہیں یارو
خود افسانہ بنی بیٹھی ہے جو افسانہ پڑھتی تھی
یہی کالج ہے وہ ہمدم ،جہاں سلطانہ پڑھتی تھی
اسی طرح ماضی نا تمام کو ظاہر کرنے کی ایک اور صورت ہے مثلاً کہتا رہا ،کھاتا رہا ،نکلتا رہا ۔اکثر یہ صورت فعل کے مسلسل جاری رہنے کی صورت کو ظاہر کرتی ہے مثلاًمیں ہر چند منع کرتا رہا مگر وہ بکتا رہا۔بارش ہوتی رہی اور وہ نہاتا رہا ۔اس کے علاوہ ایک اور صورت بھی ہے جیسے پکارا کیا ،بکا کیا ،سنا کیا ۔یہ خلاف قاعدہ ہے مثلاًاس میں لڑائی کی کیا بات ہے تم اپنا کام کرتے میں اپنا کام کرتا(یعنی کرتے رہتے )۔میری عادت تھی کہ پہلے کھانا کھاتاپھر پڑھنے جاتا(یعنی کھانا کھاتا تھا ،جاتا تھا)
دکنی میں زمانہ ماضی میں فعل کی تکرار، پیہم اور غیر مختتم روانی کوظاہر کرنے کے لیے ماضی استمراری کا استعمال عام ہے ۔دکنی میں ماضی شرطیہ کے بعد ’ تھی ‘ ، ’ تھا ‘ ، ’تھے ‘ کااضافہ کیا جاتا ہے ۔
جو باتاں خداکوں بھاتیاں تھیاں سو باتاں دِلیچ میں تے آ تیاں تھیاں ۔ ( وجہیؔ : سب رس ،صفحہ 99)
نظر پڑتی تھی جو ناسک سندر کی
تو جاتی تھی سُد اُڑ ہر یک بھنور کی (ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 80)
زمیں پرواں کے بستے تھے چرندے
گگن کوں ڈھانپ لیتے تھے پرندے (ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 66)
ماضی تمام یا ماضی بعید
ماضی تما م یا ماضی بعید ایسا فعل ہے جس میں طویل عرصہ قبل کام کاختم ہونا پایا جاتا ہو یا وہ کام جو بہت پہلے مکمل ہو چکا ہو ۔ماضی تمام بنانے کے لیے ’’فعل ‘‘ تمام کے آخر میں ’’تھا ‘‘ یا ’ تھی ‘ لگا دیا جاتا ہے جیسے’ میں سکول گیا تھا ۔ میں احسن سے ملنے گیا تھا ۔ سلطان مجھے ملنے آ یا تھا۔وہ اُس وقت پہنچا جب میں کھانا کھا چکا تھا۔
تمنّا کوں ملنے رات کوں اچیل چنچل کوئی آ ئی تھی
ہو ڈھیٹ کچھ کا کچھ انے سٹ دی سیکچ کچھ لیائی تھی (ہاشمی : دیوان صفحہ 324)
نہ دیکھے تھے کوئی اس زمانے میں کاج
کیا تھا جو اُن حق کے کچ امر باج (نصرتی : گلشن عشق ، صفحہ 63)
یادوں کے گریبانوں کے رفو
پر دِل کی گزر کب ہوتی ہے
اِک بخیہ اُدھیڑا،ایک سیا
یوں عمر بسر کب ہوتی ہے ( فیض احمد فیض ؔ)
حال نا تمام (دوسرا طریقہ ): جب حال نا تمام میںاجرا کے معنی ہوں تو حال استمراری کہلاتا ہے ۔حال استمراری ایسا فعل ہے جس سے یہ ظاہر ہو کام ابھی جاری ہے ۔کام ابھی ختم نہیں ہوا اور موجودہ وقت میں وقوع پذیر ہو رہاہے جیسے’ بچہ ودھ پی رہا ہے ‘ ، ’مالی پودوں کو پانی لگا رہا ہے ۔‘ اردو میں حال نا تمام استمراری مادہ ٔ فعل پر امدادی فعل ’’ رہا ‘‘ کے اضافے سے بنتا ہے جیسے ’آ رہا ہے ‘ ، ’ جا رہا ہے ۔‘ حقیقت یہ ہے اردو میں فعل نا تمام استمراری میںاصل فعل کاصیغہ نا تمام نہیں آتا۔ اُردو زبان میں حال نا تمام بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ مصدر کے مادے کے آخر میں ’’ رہا ہے ‘‘ کی تبدیل شدہ صورتیں لگا دی جاتی ہیں تاہم دکنی میں اس کا استعمال شاذ ہوتا ہے ۔
تیرے باتاں سُن میں ریا ہوں آس کر ( ملا وجہی : سب رس، صفحہ 76)
نمبر شمار
مصدر(اردو)
فعل حال
مصدر (دکنی)
فعل حال
1
اوڑھنا
اَوڑھتا ہے /اوڑھ رہا ہے
اَوڑنا
اَوڑ تا ہے /اوڑ ریا اہے
2
اُٹھانا
اُٹھاتا ہے/اُٹھا رہا ہے
اُچانا
اُچاتا ہے/اُچا ریا اہے
3
اُبھرنا
اُبھرتا ہے
اِترانا
اِتراتا ہے/اِتر ا ریا اہے
4
اُبلنا
اُبلتا ہے
اُبلن
اُبلن ہے
5
اُٹھنا
اُٹھتا ہے
اَٹ /اَٹنا
اَٹتا ہے
6
اَٹکنا
اَٹکتا ہے
اَڑکنا
اَڑکتا ہے
7
اُونگھنا
اُونگھتا ہے
اُونگنا
اُنگتا ہے
8
اُکھڑنا
اُکھڑتا ہے
اُوپاڑنا
اُپاڑتا ہے
9
بیٹھنا
بیٹھتا ہے
بسلنا
بسلتا ہے
10
بھاگنا
بھاگتا ہے
بھگنا/بھاجنا
بھاجتا ہے
11
بچنا
بچتا ہے
بانچنا
بانچتا ہے
حال تمام
حال تمام یہ ظاہر کرتا ہے کہ فعل ابھی ابھی تمام ہوا ہے ۔اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اگر فعل چند لمحے پہلے بھی تمام ہوا تو پھر بھی ظاہر ہے یہ ماضی کی بات ہو گی لیکن ماضی ا س قدر قریب ہے کہ اس میں اور حال میں پائے جانے والے انتہائی قلیل فاصلے کا احساس نہیں ہوتا۔بیتے لمحات کی چاپ سننے کے بعد صرف یہی جواز اس قسم کے افعال کو حال کہنے کا ہوسکتا ہے ۔حالیہ تمام ’ ہے ‘ ، ’ہیں ‘ ، ’ہوں ‘ کے لاحقے کے اضافے سے بناتے ہیں ۔مثلاً ’ وہ آیا ہے ۔‘ ، ’ وہ لایا ہے ۔‘
اردو میںایک قرینہ اور بھی ہے جس میں تمامی حالت میں قطعیت پائی جاتی ہے ۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ مادہ فعل کے آخر میں’ چکا ہے ‘ ، ’ چکے ہیں ‘ وغیرہ لگانے سے بنتا ہے جیسے ’ وہ کھا چکا ہے ۔ ‘ ، ’ وہ سکول جا چکا ہے ۔‘گویااس میں مادہ ٔ فعل پر ’’ چک ‘‘ کی تمامی شکلیں علامات حال کے ساتھ آ ئی ہیں ۔
و ہ آ ئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤ ں کہاں سے ( مومن خان مومنؔ)
ہو چکیں غالب ؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگِ نا گہانی اور ہے ( مرزا اسداللہ خان غالبؔ)
پھل بھاگ سب پھلے ہیں وندے سو دیکھ جلے ہیں
کلیاں انند کھلے ہیں روت یوں سکھی کا (محمد قلی : کلیات ،صفحہ 77)
حال احتمالی
حال احتمالی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس سے زمانہ حال کے کسی فعل میں احتمال پایا جاتا ہے مثلاً ’وہ آتا ہو ۔‘ ، ’ وہ آ رہا ہو ۔‘ اب ان جملوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’آتا ہو ‘‘ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کہ کام قریب کے زمانے میں واقع ہو گا اور ’’ آ رہا ہو ۔‘‘ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آنے کا فعل ابھی جاری ہے یعنی ظن غالب ہے کہ وہ چل دیا ہے ۔
اردو زبان اور دکنی زبان میں زمانہ حال بنانے کی چند مثالیں پیش کی جار ہیں ۔ان زبانوں میں زمانہ حال کی تقابلی کیفیت کے جائزے سے لسانی ارتقا کی تفہیم میں مدد ملے گی:
مضارع اور امر دونوں کو بالعموم مستقبل کے تحت رکھا جاتا ہے ۔ان دونوں میں فعل کاآغاز زمانہ حال میں نہیں ہوتا بل کہ زمانہ آئندہ میں ہوتا ہے ۔مضارع زمانہ مستقبل شرطیہ کے لیے مخصوص ہے ۔ حال کی اس قدیم صورت میںمستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ مصدر کے مادہ کے آخر میں ’ ے ‘ بڑھانے سے مضارع بن جاتاہے ۔ایسی صورت میں جب مصدر کے آخر میں الف یا واؤ موجود ہو تو حروف [ء + ے ]کے اضافے سے مضارع بن جاتاہے ۔
مثالیں : چلنا : چلے ، جانا: جائے
مضارع کے استعمال کی دو صورتیں ہیں ایک تو شرطیہ اور احتمالی جس میں یہ مستقبل کے معنی دیتا ہے اوردوسری خبریہ۔مضارع کے استعمال کی مختلف صورتیں درج ذیل ہیں :
۱۔ روزمرہ جملوں اور ضرب الامثال میں یہ حال کے معنی دیتا ہے جسے مضارع کے اصل استعمال سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اردو مثالیں درج ذیل ہیں :
کرے کوئی اور بھرے کوئی ۔ کرے مونچھوں والا پکڑا جائے ڈاڑھی والا۔کچھ ہم سمجھے کچھ تم سمجھ۔خدا جانے کیا ہوا ۔ کیا جانے کیا ہے ۔
دکنی مثالیں درج ذیل ہیں:
۲۔ امکان : کو ئی پوچھے کہ آپ کو اس سے غرض ۔
کدھیں ٹک گرم ہو کردوڑ میں آ ئے
صبا کا دِن پچھیں سٹ کر اگے جائے (ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 12)
۳۔ اجازت : آپ فرمائیں تو آؤں ۔کیا وہ جائے ۔
وو پرانہ کاں ہے جو یو پانی پیوے ۔ (ملا وجہی : سب رس ،صفحہ 52)
۴۔شرط اور جزا دونوں کے جملوں میں امکان ،شک و شبہ یا ابہام کی موجودگی کی صورت میں مضارع دونوں میں مستعمل ہے جیسے اگر وہ آئے تو میں جاؤں ۔
ہم پکاریں اور کُھلے یوں جائے کون
یار کا دروازہ گر پائیں کُھلا
خود بے خود ہوئے تو خدا کوں پاوے (ملا وجہی : سب رس ،صفحہ 21)
۵۔ جب جملہ تابع بشرطیکہ ،شاید وغیرہ سے شروع ہو اور اس سے تمنا ،مقصد ،مدعا ،نتیجہ ،استدعا یا مشورہ وغیرہ ظاہر ہو جیسے میں نے کہا وہ نہ آئے توبہتر ہے ۔میں اس پر عمل کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ اس میں جھوٹ نہ ہو۔شاید اس کا کہا سچ نکلے ۔
سوکن سووے نہ سونے دیوے ۔ ( ُملا وجہی : سب رس ،صفحہ253)
۶۔ کسی دعا ،عرض حال یا تمنا کے لیے جیسے عمر دراز ہو ۔خدا کرے وہ کامیاب ہو جائے ۔خدا تجھے برکت دے ۔
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام تمھارا رکھے ( احمد فراز)
خدا تیری مراد کوں انپڑاوے ،چکچھ تو ں منگتا سو خدا تے پاوے ( ُملا وجہی : سب رس ،صفحہ81)
۷۔ شکوک و شبہات ،تشویش ،تذبذب کی صورت میں جیسے کیا کروں کیا نہ کروں ۔ کہوں یا نہ کہوں ۔
ذوق سوں تیزی پہ چڑ جب لیوے چوگان ہات
گیند ہو اسماں تھے سور اتر اوے تلار (غواصی : کلیات ،صفحہ 55)
۸۔بعض اوقات اس سے زمانہ آ ئندہ کی غیر محدود کیفیات کو ظاہر کیا جاتاہے ۔ جیسے جب بُلائیں تب آنا ۔جب کہیں تو لانا ۔
ع: ہر اک دھاتاں سوں اس تارے کو توڑوں (ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 105)
دونوں مِل کے جس ٹھار بستی کو جائیں
ادک دھاں کے لوگا ں سو تعظیم پائیں (نصرتی ؔ:گلشن عشق ،صفحہ 176)
۹۔ رنج و غم ، کرب و اذیت ، ندامت ،حیرت ،تاسف اور پشیمانی کے اظہار کے لیے جیسے :
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
یوں پھریں اہلِ کمال آشفتہ حال افسوس
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس
کرو ں تج کرم یاد تو پھول رھوں
بچاروں جو تُج قہر سب بھول رھوں (نصرتیؔ : گلشن عشق ،صفحہ 7)
۱۰۔ تشبیہہ یا مقابلہ جب غیر حقیقی ،فرضی یا احتمالی ہوتو مضارع استعما ل کیا جاتا ہے جیسے اس نے اپنے رقیب کو اس طرح پھینک دیا ،جیسے کوئی تِنکا توڑ موڑ کے پھینک دے ۔
خود بے خود ہوئے تو خدا کو ں پایا ( وجہی: سب رس ،ص۲۱)
صبا کا دن پچھیں سٹ کر اگے جائے ( ابن نشاطی : پھولبن ،ص ۱۲)
۱۱۔ کسی کام کی توقع سامنے لانے کے لیے جیسے ’ آپ آئیں تو عین عنایت ہوگی ۔
ذوق سوں تیزی پہ چڑ جب لیوے چوگان ہات
گیند ہو اسما ں تھے سور اتراوے تلار (غواصی ؔ : کلیات ،صفحہ 55)
۱۲۔کیسا ،کتنا وغیرہ کے ساتھ جب تاکیدی معنوں میں استعمال ہوں ۔ایسی صورت میں یہ منفی معنوں میں استعمال ہوتاہے جیسے کوئی کتنا ہی شور مچائے اُسے خبر بھی نہیں ہوتی ۔
کہ تعریف سُن جس کی دھر اشتیاق
منگاویں سہج تحفہ اہل ِ عراق (نصرتیؔ : گلشن عشق ،صفحہ176)
۱۳۔ درپیش حالات اور کیفیات کے اعتراف میں جیسے نہ میں شعر کہوں نہ شاعر کہلاؤں ۔
۱۴۔ اپنے دِل ِ حزیں سے مشاورت کی صورت میں :
ع: رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
قلم کوں قد کے ترے دیکھ ھور بھوں کانوں
صریح سورہ نور ا لقلم ہے کر جانوں (غواصی : کلیات ،صفحہ 153)
۱۵۔ چاہیے بھی مضارع ہے جسے مناسب ،لازم اور اخلاقی فرض ادا کرنے کی صورت میں استعمال کیا جاتاہے جیسے ہمیں ان سے ملنا چاہیے ۔
اردو اور دکنی زبان میں فعل مضارع بنانے کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔اس تقابلی مطالعے سے محولہ بالا قواعد کی تفہیم میں مدد ملے گی:
نمبر شمار
مصدر (اُردو)
فعل مضارع (اُردو)
مصدر(دکنی)
فعل مضارع (دکنی)
۱
اوڑھنا
اوڑھے
اوڑنا
اوڑے
۲
اُٹھانا
اُٹھائے
اُچانا
اُچائے
۳
اُبھرنا
اُبھرے
اِترانا
اِترائے
۴
اُبلنا
اُبلے
اُبلن
اُبلن
۵
اُٹھنا
اُٹھے
اَٹنا
اَٹے
۶
اَٹکنا
اَٹکے
اَڑکنا
اَڑکے
۷
اُونگھنا
اُونگھے
اُونگنا
اُنگے
۸
اُکھڑنا
اُکھڑے
اُوپاڑنا
اُپاڑے
۹
بیٹھنا
بیٹھے
بسلنا
بسلے
۱۰
بھاگنا
بھاگے
بھاجنا
بھاجے
۱۱
بچنا
بچے
بانچنا
بانچے
کدھیں ٹک گر م ہو کر دوڑ میں آئے
صبا کا دِن پچھیں سٹ کر اگے جائے (ابن نشاطی : پھول بن ،صفحہ 12)
خود بے خود ہوئے تو خدا کوں پاوے ( ملا وجہی : سب رس ، صفحہ 21)
فعل امر اور فعل نہی
ایسا فعل جس میں دعا،تحکم ، التماس ،استدعا ،فرمان یا عرض تمنا کی کیفیت موجود ہواُسے امر کہتے ہیں۔ امر کے لفظی معنی فرمان یا حکم کے ہیں لیکن قواعد کی اصطلاح کے مطابق افعال کی وہ سب کیفیات جن میں حکم ،فرمان ،التجا ،عرض تمنا ،استدعا ،مدعا اور طلب کا مفہوم کوجود ہو۔ اس تمام کیفیت کی منفی صورت نہی کہلاتی ہے۔ مضارع کے بعد دوسرا فعل جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مادہ ٔ فعل ہے وہ امر ہے ۔فعل امر کی مضارع سے مشابہت اس کا امتیازی وصف ہے ۔یہ امر پیش نظر رہے کہ سوائے حاضر کے صیغوں کے امر کے باقی تمام صیغے وہی ہیں جو مضارع کے ہیں ۔ جہاں تک ساخت کا تعلق ہے امر کی سب سے عام صورت وہی ہے جوفعل کی ہے یعنی فعل میں سے علامت مصدر ہٹا دی جائے مثلاً واحد حاضر(مذکر ،مونث ) کی صورت میں آنا سے آ ،پڑھنا سے پڑھ ،چلنا سے چل وغیرہ۔صیغہ غائب میں واحد کے لیے مادہ فعل کے لیے بعد ’’ے ‘‘ کااضافہ ہوتا ہے ۔وہ آئے ،وہ پڑھے ،وہ چلے ۔صیغہ جمع کی صورت میں’’ ں ‘‘ کا مزید اضافہ کرنا ضروری ہے جیسے وہ آئیں ،وہ پڑھیں ،وہ چلیں ۔
فعل امر کے استعمال کی چند صورتیں درج ذیل ہیں :
۱۔امر با لعموم حکم اور ممانعت کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔
۲۔امتناعی صورت میں امر کے ساتھ ’ نہ ‘ اور ’ مت ‘ آتا ہے جیسے ڈرو نہیں ۔
۳۔غائب اور متکلم کے صیغے صرف مشاورت اور اجازت کے لیے آتے ہیں ۔
۴۔ادب ،تعظیم اور حفظ ِ مراتب کے لیے امرکی کئی صورتیں ہیں جیسے جائیو،آئیو،کھائیو،جیو۔
۵۔ حالیہ نا تمام کے بعد (رہ ) کے آنے سے مدامی صورت پیدا ہوتی ہے جیسے جیتا رہ ،کھاتا رہ،پھولتا رہ ،پھلتا رہ۔
۶۔ فعل امر کے بعدبعض اوقات ’ نہ ‘ لگا دیا جاتاہے ۔اس سے نفی کے بجائے تاکید اور اثبات مراد ہے جیسے آؤ نہ ہم بھی چلیں ،بیٹھو نہ ۔
بُت خانہ توڑ ڈالیے مسجد کو ڈھائیے
دِل کو نہ توڑئیے یہ خدا کا مقام ہے ( خواجہ حیدر علی آتش ؔ)
دوستو بارگہ ِ قتل سجاتے جاؤ
قرض ہے رشتہ ٔ جاں قرض چُکاتے جاؤ ( محسن بھوپالی )
جُھوٹی بلندیوں کا دھواں پار کر کے آ
قد ناپنا ہے میرا تو چھت سے اُتر کے آ ( راحت اندوری )
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سَیر کریں کوہِ طُور کی ( مرزا اسداللہ خان غالبؔ)
خدایا معانی کی اُمید بر لیا
کہ جیوں سانت کے میہوں تھے جگ سب اکھایا ( محمد قلی قطب شاہ : کلیات ص ۱۵۰)
خدا کا ہونے منگتا ہے تو کچھ خدا کے کام کر ( ملا وجہی : سب رس ، ص ۲۱)
دکنی میں اَمر کے واحد کے بعد ’ و‘ کے اضافے سے امر کی جمع کی ساخت ممکن ہے :
خبر بارے اول شہزادے کا لیو
تمیں منگتے ہیں جیوں بعد از سزا دیو ( ابن نشاطی : پھولبن،ص ۱۳۶)
دکنی زبان میںفعل نہی کے لیے یہی طریقہ مستعمل ہے :
فلک کے دام تے غافل نہ اچھنا
کبھی اِس کام تے غافل نہ اچھنا ( غواصی :
خاوند پر اپنے اے ننھی پری قربان جیو بل بل کرو
دیکھو خدا خوش ہوئے دِ ل نرمل کرو نرمل کرو ہاشمی: دیوان،ص۲۱۱)
اُردو اور دکنی میں فعل امر اور فعل نہی کی تشکیل کی حقیقی کیفیت سمجھنے کے لیے ان کا تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے :
نمبر شمار
مصادر (اُردو)
فعل امر ( اُردو)
فعل نہی( اُردو )
مصادر ( دکنی)
فعل اَمر ( اُردو )
فعل نہی ( دکنی)
1
اوڑھنا
اوڑھ
نہ اوڑھ
اوڑنا
اوڑ
نہ اوڑ
2
اُٹھانا
اُٹھا
نہ اُ ٹھا
اُچانا
اُچا
نہ اُچا
3
اُبلنا
اُبل
نہ اُبل
اُبلن
اُبھل
نہ اُبھل
4
اُبھرنا
اُبھر
نہ اُبھر
اترانا
اترا
نہ اترا
5
اُٹھنا
اُٹھ
نہ اُٹھ
اُٹنا
اُٹ
نہ اُٹ
6
اَٹکنا
اَٹک
نہ اَٹک
اَڑکنا
اَڑک
نہ اَڑک
7
پُھوٹنا
پُھوٹ
نہ پُھوٹ
بکسنا
بکس
نہ بکس
8
بچنا
بچ
نہ بچ
بانچنا
بانچ
نہ بانچ
9
بھاگنا
بھاگ
نہ بھاگ
بھاجنا
بھاج
نہ بھاج
10
بیٹھنا
بیٹھ
نہ بیٹھ
بسلنا
بسل
نہ بسل
11
اُکھڑنا
اُکھڑ
نہ اُکھڑ
اُپاڑنا
اُوپاڑ
نہ اُوپاڑ
12
اُونگھنا
اُونگھ
نہ اُونگھ
اُونگنا
اُنگھ
نہ اُنگھ
فعل مستقبل
فعل کا صیغہ مستقبل اِ ن حقائق کی گرہ کشائی کرتا ہے کہ کسی فعل کا وقوع جلدآنے والے زمانے میں ہو گاجیسے: احسن مزید پڑھے گا ۔کینہ پرور حاسداپنی موت آپ مریں گے ۔ محسن کش اپنی جفا پر شرمندہ ہوں گے ۔فعل مستقبل کی دو اقسام ہیں:
۱۔مستقبل مطلق ۲۔ مستقبل مدامی
۱۔ مستقبل مطلق : کسی جملے میں مستقبل مطلق کے اظہار کے لیے دکنی میںمضارع کے بعد الفاظ ’ گیاں ،گی،گے ،گا کو بڑھا دیا جاتاہے ۔
رموزراز ہوئے گا،ناز نیاز ہوئے گا ( وجہی : سب رس،ص ۹۵)
۲۔ مستقبل مدامی : ایسی صورت جب کسی فعالیت کا آنے والے زمانے میں جاری رہنے کے امکانات موجود ہوں تویہ مستقبل مدامی کہلائے گا۔دکنی میں اس کی ساخت کا طریقہ یہ ہے کہ ماضی شرطیہ کے الفاظ کے بعد ’ رہے گا‘ کا اضافہ کر دیا جاتاہے ۔
ہم پرورش ِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دِل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے ( فیض ؔ)
متی ہمت حلقے کے تھے بے شمار
پسینے میں جھلتے رہیں گے ہزار
اُردو زبان کے جدید لہجے کے غزل گو شاعرناصر کاظمی نے قیام پاکستان کے بعد اِنتقال ِ آبادی کے مسائل کے حوالے سے مستقبل کے بارے میں رجائی لہجے میں کہا تھا :
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر ؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی (ناصر کاظمی )
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا (جون ایلیا)
ابھی کچھ اور بھی گرد و غبار اُبھرے گا
پِھر اِس کے بعد مرا شہ سوار اُبھرے گا (محسن بھوپالی )
اپنا آپ تماشا کر کے دیکھوں گا
خو دسے خود کو مِنہا کر کے دیکھوں گا ( محسن بھوپالی )
خبر کیا تھی نہ مِلنے کے نئے اسباب کر دے گا
وہ کر کے خواب کا وعدہ مُجھے بے خواب کر دے گا ( محسن بھوپالی )
فعل کے صیغہ مستقبل کی مختلف صورتیں درج ذیل ہیں :
اُردو میںسادہ یا مستقبل مطلق بنانے کا عام قاعدہ یہ ہے کہ مضارع کے بعد گا ،گی ،گے کااضافہ کیا جاتا ہے جیسے آئے گا ،پڑھے گا وغیرہ ۔مصدر ’ ہونا ‘ کی استثنائی مثال قابل توجہ ہے جہاں مستقبل مطلق( ہو گا ) خلا ف قیاس بنا ہے ۔متقدمین کے دور میں مصدر ’ ہونا ‘ سے مستقبل مطلق بناتے وقت ’ہووے گا ،ہوئے گا مستعمل تھے ۔ دکنی میں ’سی ‘ ، ’ سے ‘ ’ سوں ‘ اور ’ سیں ‘ مستقبل کی علامتیں ہیں جو فعلی کلمے سے متصل ہیں۔اس کے علاوہ کئی افعال اُردو طریقے کے مطابق علامت مستقبل ’’ گا ‘‘ ، ’’ گے ‘‘ ، ، ’’ گی ‘‘ کے ساتھ بھی بنتے ہیں ۔
تج سار کہیں جگ میں پری زاد نہ ہوسے
کوئی ناز نیں تیرے نمن استاد نہ ہوسے (غواصی ؔ : کلیات ،صفحہ 159)
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جُھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا (پروین شاکر )
مرے وجود کے دوزخ کو سرد کر دے گا
اگر وہ ابرِ کرم ہے تو کُھل کے برسے گا
یہ شہرِ کم نظراں ہے اِدھرنہ کر آ نکھیں
یہاں اشارۂ مژگان کوئی نہ سمجھے گا ( محسن احسان )
تم بہت جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں
نہ کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اِتنی بڑی دلیل نہیں (جون ایلیا )
۲۔ مستقبل استمراری
ایسا فعل جس میں کسی کام کا آ نا یا ہونا آنے والے زمانے میں جاری حالت میں پایا جائے فعل مستقبل استمراری کہلاتا ہے جیسے پڑھتا رہے گا،کھاتا رہے گا ۔ مستقبل استمراری بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ حالیہ نا تمام کے بعد’’ رہے گا ‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔ یہ نکتہ غور طلب ہے کہ مستقبل مطلق میںاور دکنی میں اختلاف کے باوجودمستقبل استمراری بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔
متی ہمت حلقے کے تھے بے شمار
پسینے میں جھلتے رہیں گے ہزار ( نصرتی ؔ : گلشن عشق ،صفحہ 61)
جو اِس شور سے میر ؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کوسوتا رہے گا ( میر تقی میر ؔ )
چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر اردو زبان اور دکنی زبان میں فعل مستقبل کی ساخت بالعموم مندرجہ بالا قواعد کے مطابق ہوتی ہے ۔ چند دکنی مصادر میں عام روایت سے قدرے ہٹ کربھی فعل مستقبل کی تیاری کی جاتی ہے ۔ذیل میں چند مثالوںکے ذریعے اس کا تقابلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے:
نمبر شمار
مصدر(اردو)
فعل مستقبل
مصدر( دکنی)
فعل مستقبل
۱
اوڑھنا
اَوڑھے گا
اَوڑنا
اَوڑے گا
۲
اُٹھانا
اُٹھائے گا
اُچانا
اُچائے گا
۳
اُبھرنا
اُبھرے گا
اِترانا
اِترائے گا
۴
اُبلنا
اُبلے گا
اُبلن
اُبلن گا
۵
اُٹھنا
اُٹھے گا
اَٹ /اَٹنا
اَٹے گا
۶
اَٹکنا
اَٹکے گا
اَڑکنا
اَڑکے گا
۷
اُونگھنا
اُونگھے گا
اُونگنا
اُنگے گا
۸
اُکھڑنا
اُکھڑے گا
اُوپاڑنا
اُوپاڑے گا
۹
بیٹھنا
بیٹھے گا
بسلنا
بسلے گا
۱۰
بھاگنا
بھاگے گا
بھگنا/بھاجنا
بھاجے گا
۱۱
بچنا
بچے گا
بانچنا
بانچے گا
لوازم فعل
فعل سے متعلق لواز م ایسے کلمات ہیں جن سے فعل کی مختلف کیفیات او ر حالتوں کا اظہار ہوتا ہے ۔لوازم فعل کی تین قسمیں ہیں :
۱۔ طور ۲۔ صورت ۳۔ زمانہ
۱۔ طور : وہ حالت جس سے یہ واضح ہو کہ کام خود فاعل نے انجام دیاہے یاکام کے اثرات کسی پر مر تب ہوئے ہیں ۔ جب فاعل سے متاثرہ معلوم ہو تو طور معروف جیسے احسن نے چور کو مارا اوراگر فاعل کا علم نہ ہو تو طور مجہو ل ہو گا جیسے خط سُنا گیا،وہ گاؤں سے نکلوا دیا گیا،اُسے سمجھا دیا گیا ۔
۲۔ صورت : ہر فعل کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور ہوتی ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فعل( کام ) کس انداز سے پایہ ٔ تکمیل کو پہنچا ۔ گرامر میں فعل کی پانچ صورتیں مذکور ہیں :
۱۔ خبریہ ۲۔ شرطیہ ۳۔ احتمالی ۴۔ امریہ ۵۔ مصدریہ
۱ ۔ صورت خبریہ : اس سے کسی فعل کے واقع ہونے کے بارے میں آ گہی ملتی ہے یا کسی مسئلے کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے جیسے : احسن چل پڑا ،آپ چائے پئیں گے ؟
رمزی نے فریب کاری کی ۔تفسو نے اداکاری کی ۔مس بہا نے بہو کا بھیس بنایا۔
صورت ِ خبریہ میں درپیش حالات کے بارے میں حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے :
ہم تو جانے کب سے ہیں آوارۂ ظلمت مگر
تم ٹھہر جاؤ توپَل بھر میں گُزر جائے گی رات
ہے اُفق سے ایک سنگِ آفتاب آنے کی دیر
ٹُوٹ کر مانند ِ آئینہ بِکھر جائے گی رات ( سرو بارہ بنکوی )
میں گِر پڑا کہ میرے بازوؤں میںجان نہ تھی
وگرنہ میر ا نشیمن تو یہ چٹان نہ تھی ( را م ریاض )
۲۔ صورت شرطیہ : اس میں شرط یا تمنا موجود ہوتی ہے جیسے : اگر صبح کو آپ آ جائیںتو میں بھی آپ کے ساتھ چلوں،وہ آتے تو میں سوتا،یہ کتاب مجھے مِل جاتی تو خوب ہوتا،وہ جاتا تو اچھا ہوتا۔
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
۳۔ صورت احتمالی : اس میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں جیسے سلطان نے لکھا ہو گا ،سجاد آ جائے،ممکن ہے وہ نہ پہنچا ہو۔
وہ آ تو جائے مگر انتظار ہی کم ہے
وہ بے وفا تو نہیں میرا پیار ہی کم ہے
۴۔صورت امر : اس میں استدعا یا تحکمانہ اندا ز کااظہار ہوتا ہے جیسے دُودھ لاؤ ،مجھے معاف کرو۔
اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفس ِ سوختہ شام و سحر تازہ کریں ( علامہ اقبال )
۵۔ صورت مصدر : اس میں کسی کام کے وقت کے تعین یا تذکرہ کے بغیر وقو ع پذیر ہونے کا معاملہ بیان کیا جاتاہے ۔اس کے آخر میں مصدر کی ایک خاص علامت بالعموم ’ نا ‘ ہوتی ہے جسے گرا نے کے بعد مادہ ٔ فعلباقی رہ جاتا ہے۔مصدر کی اِس صورت کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
اُردو زبان کے مصادر :اُٹھانا-اُٹھا،اُبھرنا-اُبھر،بچنا -بچ،جوڑنا-جوڑ
دکنی زبان کے مصادر :اُچانا-اُچا ،اُبرنا-اُبر ،بانچنا-بانچ،ساندنا-ساند
مثلاً اُردو مصدراُٹھانا سے اُٹھا اور دکنی مصدر اُچانا سے اُچا ۔
گدازِ دِل سے باطِن کا تجلی زار ہو جانا
محبت اصل میں ہے روح کا بیدار ہو جانا
وہ اُن کے دِل میں خود نمائی کا خیال آ نا
وہ ہر شے کا تبسم کے لیے تیار ہو جانا (شبیر حسن خان جوشؔ ملیح آبادی :1898-1982)
دکنی زبان اور اردو زبان نے مقامی اوربیرونی زبانوں بالخصوص فارسی زبان کے ذخیرہ ٔ الفاظ سے بھر پور استفادہ کیا ۔دنیا کے کسی بھی ملک میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کے آپس کے روابط ،استفادے اور تجربات سے ان زبانوں کے نئے امکانات تک رسائی کی صورت پیدا ہوتی ہے ۔ ڈنمار ک سے تعلق رکھنے والے اپنے عہد کے ممتاز ماہر لسانیات اورماہرگرامر آٹو جس پرسن ( 1860-1943: Jens Otto Harry Jespersen ) نے لکھا ہے :
,, No language is entirely pure ; we meet with no nation
that has not adopted some loan words.,, (9)
اس مقالے کے گزشتہ صفحات میںقدیم دکنی زبان اور موجودہ اُردو زبان کے ارتقا ،لسانی روابط اور تہذیبی و ثقافتی مسائل اور ان زبانوں کے افعال کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔ موضوع کی قدامت ،وسعت اور ندرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے متعلقہ حقائق تک رسائی کی مقدور بھر کوشش کی گئی۔ اپنے عہد کی تہذیب و ثقافت کی مظہر یہ قدیم تخلیقات لسانی کیفیات اور فکر و خیال کی نمو کے سب حوالوں کی کسوٹی ہیں ۔ جہاں تک لسانی تقابل کا تعلق ہے یہ ایک پیہم رواں عمل ہے جو ہر عہد میں افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافورکر کے جہانِ تازہ کی جانب سر گرم سفر رہنے والوں کے حوصلوں کو مہمیزکرتا رہے گا۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ور ق گردانی کرتے ہوئے سے اِس لرزہ خیزخیال سے دِل بیٹھ جاتاہے کہ کیسے کیسے ہفت اختر تخلیق کار اس جہاں سے اُٹھ گئے۔ دکنی زبان کے کچھ قدیم تخلیق کاروں کے مخطوطے تاریخ کے طوماروں میں دب گئے۔ دکن میں قدیم تخلیق کاروں نے اپنے تخیل کی جولانیوں سے ادب کی جو شمع فروزاں کی اُس کے معجز نما اثرسے نہ صرف دکنی ادب کی ثروت میں گراں قدراضافہ ہوا بل کہ تخلیقی فعالیت کوتصوراتی اور تاثراتی دنیا کو مسخر کرنے کے متعد دمواقع نصیب ہوئے ۔ اس عہد کے ادب پاروں میں موضوعات اور مواد کا تنوع اور صد رنگی لسانی ارتقا کا حقیقی منظرنامہ سامنے لاتی ہے ۔ہمار ے اجداد کی یہ میراث جو ہمارے علمی خزینے کی صورت میں ہمیںنصیب ہوئی ہے جہانِ تازہ کی جانب سفر کے دوران میں ہمارا زادِ راہ ہیں اور انہی سے افکار ِ تازہ کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔ ہر عہد میں ادب اورفنون لطیفہ کے فروغ کے لیے ان تخلیقی تجربات کا نشان ملے گا ۔جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے ان قدیم تخلیق کاروں کی آواز سنائی دیتی ہے ۔
مر بھی جائوں تو کہاں لوگ بُھلا ہی دیں گے
لفظ میرے،میرے ہونے کی گواہی دیں گے ( پروین شاکر )
مآخذ
(1) ۔ابواللیث صدیقی ڈاکٹر : جامع القواعد، لاہور،مرکزی اردو بورڈ ،بار اول ،1971، ،صفحہ 108۔
(2)عبدالحق ڈاکٹر مولوی : قواعد اردو ، نئی دلی ،انجمن ترقی ٔ اردو ہند ،سال اشاعت ،2007، صفحہ 87۔
(3) مولوی فتح محمد خان جالندھری : مصباح القواعد ،حیدر آباد دکن ، صفحہ 23۔
(4)عصمت جاوید ڈاکٹر :نئی اردو قواعد ، نئی دہلی ،ترقی ٔ اردو بیورو ،پہلا ایڈیشن،1981، صفحہ 54۔
(5)شیو پرشاد راجا : اُردو گرامر ،الہ آباد ،سال اشاعت 1877،صفحہ 35۔
6.Ruth Laila Schmidt: Urdu : An Essential Grammar ,London, Routledge ,2004,Page,87
7.John Shakespear:A Grammar Of The Hindustani Language,London,1848,Page,42
(8)ڈاکٹر حبیب ضیا: دکنی زبان کی قواعدنئی دہلی،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاو ٔ س ،سال اشاعت 2016،صفحہ ،113۔
9.Otto Jespersen : Growth And Structure Of The English Language,Copenhagen,1912,Page ,57