(Last Updated On: )
مظفر آباد، آزاد کشمیر میں یوں تو ایک سے ایک قابل اور اردو ادب کا دل دادہ رہتے ہیں مگر یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے مظفر آباد میں کئی ایسے احباب ملے جن سے مل کر حقیقی خوشی حاصل ہوئی ۔ ایسے لوگوں کی فہرست اگرچہ بہت طویل نہیں ہے مگر اتنی بھی مختصر نہیں کہ میں انھیں انگلیوں پر گن کر بتا سکوں ۔سرِدست میں دو ایسے دوستوں کا ذکر کروں گا جن کا علمی و ادبی ورثہ بہت وقیع ہے ۔ ان میں ایک میرا خورد ہے جو میرے چھوٹے بھائیوں جیسا ہے یعنی فرہاد احمد فگارؔ اور دوسرے احمد عطاؔاللہ ۔
فگارؔ سے تعلُق کو اب خیر سے پانچ چھے برس ہو چکے ہیںیا شائد اس سے بھی زیادہ۔ فیس بک میں ایک ادبی کتاب کے حوالے سے تعارف ہوا اور پھر یہ تعارف ایک تعلُق میں بدل گیا ۔ فگارؔ نوجوان ہے ، متحرک ہے، ادیب ہے ، ،محقق ہے ،چھپا ہوا شاعر ہے اور پڑھاکو بھی ۔اعلا تعلیمی ڈگری کے حصول کے لیے کوشاں ہے مگر اس کا عمل ڈگری کا مرہونِ منت نہیں ۔ وہ اس چھوٹی عمر میں بھی اتنا ادبی کام کر چکا ہے جو آج کی نسل کے نوجوانوں میں خال خال ہی نظر آتا ہے ۔فگارؔ میں خدا نے علم و ادب کا شوق فراوانی سے عطا کیا ہے ۔ وہ نہ صرف پڑھاتا ہے بل کہ خو دبھی پڑھ رہا ہے اور ادبی محاذ پر بھی مستقل مستعدی سے ڈٹا ہوا ہے۔کوئی غلط شعر اس کی نظر سے گزر جائے تو بس پھر اس شعر کی صحت کے لیے اتنے ماخذات ڈھونڈ نکالے گا کہ لوگوں کو ماننا ہی پڑے گا۔مطالعے کا بہت شوق ہے اور کتابیں جمع کرنے کا بھی ۔ اس کی ابھی ایک چھوٹی سی لائبریری ہے اور اس لائبریر ی میں علم و ادب کی نہایت کام کی کتابیں جمع ہیں۔
میرا دوسرا دوست احمد عطا ؔاللہ ہے۔ احمد عطا ؔاللہ کو اللہ نے بڑی صلاحیت سے نوازا ہے ۔ وہ آزاد کشمیر کے مختلف محکمہ جات میں اعلا عہدوں پر فائز رہ چکا ہے اور اس وقت بھی مظفرآباد کے محکمہ بحالیات میں کمشنر ہے ۔مگر یہ کمشنری تو اس کی روٹی روزی کے لیے ہے اس کا اصل میدان تو ادب ہے اور ادب میں شاعری اس کا ادبی ذریعۂ معاش ہے یعنی وہ شاعری میں بھی اس طرح دل سے محنت کرتا ہے جس طرح اپنے محکمے سے اور اپنے عہدے سے ۔احمد عطا اللہ سے یک طرفہ واقفیت کو تو تین برس ہو چکے ہیں مگرجنوری، ۲۰۱۹ء میں مظفر آباد گیا تو تفصیلی ملاقات ہوئی۔احمد عطا اللہ نے جس طرح میری پذیرائی کی وہ اس کے ایک محبت کرنے والے دل کی گواہی تھی۔احمد عطا اللہ شعر اس آسانی سے کہتا ہے کہ لگتا ہے کہ اللہ تعالی نے احمد عطا اللہ کو واقعی شعر کہنے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے۔ نئی نسل کے اس نوجوان نے جو خیر سے اب جوانی کی بھی کئی منزلیں سر کر چکا ہے ۔نئے آہنگ ، نئے رنگ اور نئے اُسلوب سے شعر کہتا ہے ۔ احمد عطا ؔاللہ کے تین مجموعے آ چکے ہیں۔ پہلا ’’بھول جانا کسی کے بس میںنہیں‘‘ دوسرا ’ہمیشہ ‘‘ اور تیسرا’والہانہ ‘‘ ۔ عطاؔ نہ صرف اپنے جدید آہنگ اور دل پذیر شاعری کی بنا پر کشمیر بل کہ پاکستان کے شہروں اور ادب کے مشاہیر کی نظروں میں بھی احترام کا جذبہ رکھتا ہے ۔
فرہاد احمد فگارؔ بھی چوں کہ احمد عطا ؔاللہ کا دوست ہے دوست کیا اس کے چھوٹے بھائی کی طرح ہے اور ایک ہی شہر کے باسی ہیں اس لیے فگارؔ نے اپنے ایم اے کی تکمیل کے لیے بہ طور سندی تحقیق احمد عطا ؔاللہ کی شاعری کا موضوع چنا اور اس کے نگران نے بھی بہ خوشی اجازت دے دی ۔ فرہاد نے ’’احمد عطا ؔاللہ کی غزل گوئی ‘‘ کے موضوع پر نہ صرف لکھا ہے بل کہ اس عنوان کے ساتھ پورا پورا انصاف بھی کیا ہے ۔مجھے بھی ادب سے جڑے چالیس برس بیت گئے ہیں۔ مجھ سے بھی ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ اپنے موضوع کے لیے مشورہ طلب کرتے ہیں۔اس وقت میں ان سے یہی کہتا ہوں کہ تم جو ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہو اس کے لیے وہ عنوان منتخب کرو جس پر تم کو عبور ہو ،جس میں تمھارا مطالعہ وسیع ہو، اگر کوئی ادبی عنوان ہے تو اس عنوان کے تعلق سے مطالعہ زیادہ ہونا چاہیے اور اگر کوئی شخصیت ہے تو اس شخصیت سے تمھاری واقفیت بہت ضروری ہے مگر بیشتر طلبہ کا کہنا ہے ہم تو وہ عنوان اپنے نگراں کو دیتے ہیںجن پر ہماری محنت کی ہوئی ہوتی ہے مگر ہمارے نگران ہمیں ا س کے برعکس اپنی پسند کا ایسا موضوع دیتے ہیںجن کے بارے میں ہمارا مطالعہ یا تو ہوتا نہیں ہے یا برائے نام ہوتا ہے ۔ اگر شخصیت پر مقالہ لکھنے کو دیتے ہیں تو ایسی شخصیت کے نام مقالہ لکھنے کے لیے کہیں گے جو ہمارے لیے بالکل اجنبی ہوں گے ۔ ایسی صورت میں ہم کہاں تک ان کے بارے میں معلومات حاصل کریں؟ ہمارے نگران بھی اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرتے ۔اللہ کا شکر ہے کہ فرہاد کے نگران نے فرہاد کو جو شخصی عنوان دیا وہ نہ صرف یہ کہ مظفر آباد ہی کی شخصیت ہے بل کہ اس وقت جدید اردو شاعر ی میں ایک مشہور نام بھی ہے ۔ ایسی صورت میں فرہا د نے جس دل جمعی سے اور پورے سیاق و سباق سے جولکھا ہے وہ یقینا ہر لحاظ سے قابل ِتحسین ہے۔اس مقالے کو لکھنے میں ابتدا میں فرہاد کو تھوڑی سی پریشانی یہ ہوئی کہ احمد عطاا للہ کا پہلا مجموعہ کلام’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں ‘‘ خود احمد عطا اللہ کے پاس نہیں بچا اور تلاش کیا گیا تو بھی نہیں ملا مگر کہتے ہیں نا کہ ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے لہٰذا فرہاد نے ایک دوست اویس بُردار نے تونسہ شریف سے یہ مجموعہ مہیا کر کے دیا ۔احمد عطا کا دوسرا مجموعہ ’’ہمیشہ ‘‘ دستیاب تھا اس لیے فرہاد کے لیے احمد عطا اللہ کی غزل گوئی پر کام آسان ہو گیا ۔ یاد رہے میں نے احمد عطا اللہ کے تین مجموعوں کے نام ابتدامیں لکھے ہیں۔ تیسرا مجموعہ کلام’والہانہ ‘‘ زیرِ بحث تحقیق کے بعد منصہ شہود پر آیا اس لیے اس مقالے میں احمد عطا اللہ کے دو مجموعوں کا جائز ہ لیا گیا ہے۔
فرہاد احمد فگار ؔکی ایک ایسی عادت کا میں یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس نے مجھے حیرت میں بھی ڈال دیا اور مجھے یقین بھی کرنا پڑا کہ فگارؔ میں ایک Perfectionistشخص مستور ہے۔ وہ جب کسی تحقیقی کام کو کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ تمام مآ خذکو کھنگالتا ہے بل کہ دیگر ذرایع بھی نہیںچھوڑتا ۔ فرہاد کی یہی اکملیت اس کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے اور اس طرح کے افراد علمی ،تحقیقی اور ادبی زندگی میں نیک نام ہوتے ہیں۔ احمد عطا اللہ کے حوالے سے اس کتاب کا جب میں نے مطالعہ کیا تو مجھے بہت لطف بھی حاصل ہوا، کئی انکشافات بھی ہوئے اور احمد عطا اللہ کی طبیعت کے کئی پہلوئو ں سے بھی واقفیت ہوئی ۔ فگارؔ نے ممکنہ حد تک احمد عطا اللہ کی زندگی اور اس کی شاعری کے کئی زاویوں پر قلم اٹھایا ہے اگر مقالے میںتحدید آڑے نہ آتی تو فرہاد اس مقالے کو چھے سات سو صفحات پر بمشکل تمام کرتا مگر اس نے ان صفحات میں بھی ایک دریا بند کر دیا ہے ۔
احمد عطا اللہ کو قدرت نے کئی اوصاف سے نوازاہے یعنی وہ ایک بھرپور انسان ہے یہ او ر بات ہے کہ قدرت نے ہی اس کے لیے ایک الگ منزل کا تعین کر رکھا تھا۔ وگرنہ وہ جہاں فلم اسکرپٹ رائٹربنا ، ڈائیلاگ لکھے ، مزاحیہ شاعر بننے کی ابتدا کی ، سیاسی جلسوں کے حوالے سے پیروڈیز کیںحتی کے نثر میں بھی مزاح لکھنے کی تیار ی پکڑی مگر بہ قول احمد عطا اللہ ’’جب میں نے دیکھا کہ میں مزاح میں یوسفی کے اثر سے نہیں بچ سکتا تو میںنے مزاح نگاری ترک کردی۔‘‘ ایسا سوچنا اور اس پر عمل کرنا ایک بالغ قلم کار کا شیوہ ہے جس کو اللہ نے عقل ِسلیم دی ہے وگرنہ بہ زعم خود کوئی شخص خود کو کسی ہنر میں کم تر ماننے کو تیار نہیںپھر عباس تابشؔ کی شاعری اور شخصیت سے متاثر ہو کر شاعری شروع کی ۔ بس یہی منزل استحکام کی تھی اور قدرت نے بھی احمد عطااللہ کو یہی ہنر دیا تھا پھر احمد عطا اللہ نے شاعری کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی اور بہت جلد اس میدان میں خود کو منوالیا ۔۸۰ء کی دہائی میںاس وقت کے نام وَران ِادب اور ممتاز و موقر ادبی جرائد دونوں نے احمد عطا اللہ کو پہچان لیا ۔ ممتاز شعرا نے احمد عطا اللہ کو پذیرائی بخشی اور بڑے ادبی جرائد نے اپنے دامن وا کر دیے ۔احمد عطا اللہ کی شاعری میںآخر ایسی کیا بات ہے کہ ایم اے کی سند کے لیے ان کے شاعری کو اس کا مستحق سمجھا گیا ؟ اتفاق سے میرے پاس احمدعطا اللہ کے دونوں مجموعے نہیں۔ البتہ جنوری ۲۰۱۹ء میں مجھے احمد عطا اللہ نے اپنا تیسرا مجموعہ ’’والہانہ ‘‘ خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر والہانہ انداز میں پیش کیا ۔میں نے جب فگار کے اس تحقیقی کام پر لکھنے کے لیے مقالہ پڑھا تو احمد عطا اللہ کے دونوں مجموعوں پر مشاہیرِ ادب کے بیانات اور احمد عطا اللہ کی شاعری کا انتخاب بھی پڑھنے کو ملا ۔
پہلا مجموعہ ’’بھول جانا کسی کے بس میںنہیں‘‘ ۱۹۹۸ء میں منظرِ عام پر آیا ۔ اس وقت شاعری پڑھنے والوں کو ایک نئے ذائقے کا احسا س ہوا ۔ احمد عطا اللہ نے اس پہلے مجموعے میں دیہات کو پابند شعر کیا ہے۔ اسی لیے اس پر احمد ندیمؔ قاسمی صاحب نے لکھا ہے کہ احمد ندیم ؔقاسمی بھی دیہات کے اسیر تھے ، دیہات اس دنیا میں ایسی سادہ ، سچی اور پیاری جنت ہے کہ اگر بیرونی اثرات سے بالکل پاک ہو تو شائد کوئی اس جنت سے جانے کو تیار نہ ہو ۔احمد عطا اللہ کا دوسرا مجموعہ ’’ہمیشہ ‘‘۲۰۱۱میں شائع ہوا اور پھر۲۰۱۳ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن بھی آیا مگر اب وہ بھی ناپید ہے۔ اس مجموعے میں احمد عطاؔایک دوسرے رنگ میں نظر آتا ہے۔ تھوڑا سا مذہبی اوربہت زیادہ سا عاشق ۔احمد عطا اللہ کے اس مجموعے میں عطاؔکا ایک کمال جدید لفظیات کا استعمال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور صرف شعر کہتا ہی نہیں ہے بل کہ اسے مطالعے کا بھی بہت شوق ہے ، وہ دوسروں کی شاعری پڑھتا بھی ہے اسی لیے اس کی شاعری میںتازگی نظر آتی ہے۔
ظفر ؔاقبال اپنی غزل شکنی کے لیے مشہور ہیںمگر ظفرؔ اقبال نے احمد عطا اللہ کے دوسرے مجموعے’’ہمیشہ ‘‘ پر ایک جامع مضمون لکھاہے۔ نہ صرف لکھا ہے بل کہ احمد عطا اللہ کو قابلِ رشک شاعر بھی قرار دیا ہے۔ میرے نزدیک تو ظفر ؔاقبال کا ایک غزل گو شاعر کو اس قدر بڑا درجہ دینا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے تاہم ظفر ؔاقبال بلاسے آج غزل شکن ہیں مگر ماضی میںتو وہ خالص غزل کے شاعر ہی تھے اور اگر ظفرؔ اقبال اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’آب رواں ‘‘ کے بعد شاعری نہ بھی کرتے تو ادب کے کینوس پر ان کی بھی ایک بڑی تصویر دیگر کلاسیکی شعرا کے ساتھ نظر آتی ۔ آخر یہ خالص غزل کا شعر ظفرؔ اقبال کا ہی تو ہے جس پر ان کا احترام غزل کی تاریخ میں درج ہو چکا ہے کہ:
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
ظفرؔ اقبال کا احمد عطا ؔاللہ کو خراج تحسین پیش کرنا واقعی احمد عطا اللہ کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔اس مجموعے میں بھی احمد عطا اللہ نے گائوں کو منظورِ نظر بنایا ہے ۔گائوں احمد عطااللہ کے دل میں بسا رہتا ہے ۔گائوں کو پسند کرنے والے لوگ سچے ، سیدھے اور محبت کرنے والے ہوتے ہیںکہ گائوں محبت اور سادگی کا ایک ایسا سمبل ہے جو آج بھی دلوں پر راج کرتا ہے۔ احمد عطا اللہ چاہے شہر اور شہر کی جدید زندگی میں خود کو ضم کر لیںمگر ان کے اندر کا سادہ او ربھولا شخص گائوں کو نہیں بھول سکتا ۔مثلا: ً
گائوں کا چاند سرِ شام جو آیا ہوتا
دل نے بچوں کی طرح شور مچایا ہوتا
٭٭٭
اس چہرے پہ روشن ہے کسی گائوں کا منظر
اچھا ہے اگر اور سنوارا نہ گیا تو
٭٭٭
احمد عطا ؔاللہ چوں کہ ایک مکمل شاعر ہے اس لیے اس کی شاعری میںانسان کی فریبیاں، دنیا کی چال بازیاں اور کائنات کی تمام تر رعنائیاں نظر آتی ہیں۔ فرہاد احمد فگارؔ نے بھی احمد عطا اللہ کی شاعری کا بھرپور تجزیہ پیش کیا ہے، احمد عطااللہ کے کلام کو ایک طرح سے گھول کر پی گیا ہے اور جتنے موضوعات پر احمد عطاا للہ نے شعر کہے ہیںسب کا اجمالاً تذکرہ مع اشعار کیا ہے۔میں فرہاد کو احمد عطا اللہ کی شعر گوئی پر لکھے گئے اس مقالے کو شائع کروانے پر اور احمد عطا ؔاللہ کو جدید شاعری کے گیسوسنوارنے پر دلی مبارَک باد پیش کرتا ہوں۔
سید معراج جامی،کراچی
۲۶،ستمبر،۲۰۱۹ء