حجلّہ عروسی میں سمٹی ہوئی نادیہ کے دل میں نہ کوئی ترنگ تھی اور نہ ہی کوئی امنگ،مستقبل کے سپنوں کی جگہ ماضی کی یادیں اسے کچو کے بھر رہی تھیں۔اس کی آنکھ میں کوئی اک ذرا آنسو نہیں تھا اور نہ ہی لبوں پر کوئی مسکان مچل رہی تھی۔خالی الذہن سی،ویران دل کے ساتھ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک کا سفر نہ تو کوئی خوشگواریت لایا تھا اور نہ ہی کوئی تلخی اسے محسوس ہو رہی تھی۔اس کا وجود یوں ہو گیا تھا کہ جیسے کسی نے سحر کر دیا ہو اور اس کے اندر سے سارے جذبات و احسات کھینچ لیے ہوں۔وجود تھا کہ مٹی کا ایک ڈھیر بیڈ پر تھاجیسے عروسی جوڑا پہنا دیا گیا ہو۔سرخ جوڑے میں ملبوس نادیہ زیوارت سے لدی پھندی خاموشی سے ایک ٹک اپنے پیروں کو تکے جا رہی تھی۔اس نے بہت پڑھا تھا کہ شادی ہونے سے جو رسومات ہوتی ہیں۔ان میں کتنا ہلا گلا ہوتا ہے۔سکھیاں کس طرح چھیڑتی ہیں۔ ایک گھر سے دوسرے گھر تک کے سفر میں اگر آئیں ،سسکیاں اور آنسو ہوتے ہیں تو ان میں امنگ بھری خوشیاں ،ترنگ بھرے جذبے اور رنگ بھرے احساسات بھی ہوتے ہیں۔زندگی ہمک رہی ہوتی ہے کہ جس سے مستقبل سے تاروپودترتیب پاتے ہیں۔لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا،خلا کی سی کیفیت تھی،جس میں کچھ بھی واضح نہیں تھا۔اگرچہ دادی اماں نے خود سامنے بیٹھ کر ملازماؤں کو اسے سجانے سنوارنے کے لیے کہا تھا۔اتنی توجہ اس نے فرح پر نہیں دی تھی۔جتنی اس پر دی تھی۔ملازماؤں نے بھی اسے بڑے شوق سے تیار کیا تھا۔وہ تھی کی بے جان بت کی مانند سجتی سنورتی رہی۔اسے ،اس کے کمرے سے اٹھایا اور ظہیر شاہ کیسجے ہوئے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔جہاں وہ بے نیاز بیٹھی ہوئی تھی۔یہاں تک کہ سوچوں تک میں سناٹا تھا۔اختر رومانوی کا لہجہ بھی یاد کرنے کی کوشش تو بھی اسے یاد نہ آیا۔تبھی دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھلا۔اس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا۔ظہیر شاہ تھا۔پتہ نہیں اسے لگا ،یا حقیقت میں ہی ایساتھا ،اسے ظہیر شاہ کے چہرے پر بھی کوئی خوشگواریت دکھائی نہیں دی تھی۔اس نے نگاہیں پھیر لیں اور دوبارہ سے اپنے پیروں کو دیکھنے لگی۔جس پر سونے کی پائل خوب جچ رہی تھی۔ظہیر شاہ اس کے قریب بیڈ پر آ بیٹھا اور بڑی آہستگی سے سلام کیا۔اس نے بھی زیر لب جواب دے دیا۔چند لمحے یونہی خاموشی کی نذر ہو گئے۔یوں جیسے دونوں نے جان بت ایک دوسرے کے سامنے موجود ہوں۔پھر ظہیر شاہ نے اپنی جیب سے ہاتھ ڈالا اور سنہری ڈبیہ نکالی،اسے کھولا اور نادیہ کے سامنے کر دیا۔اس میں ہیرے کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔
’’یہ میری طرف سے تحفہ ہے تمہارے لیے۔‘‘
چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس کا ہاتھ تھام کر ،بڑے پیار اور نزاکت سے اسے پہناتا،لیکن وہ یونہی اس کے سامنے کئے رہا۔کتنے ہی لمحے یونہی گذر گئے۔اس نے بھی اپنا ہاتھ آگے نہیں کیا کہ وہ سمجھ جاتا۔تبھی ظہیر شاہ نے اس ڈبیہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے دھیمے سے لہجے میں پوچھا۔
’’کیا تم اب بھی اس شادی پر نا خوش ہو۔؟‘‘
’’بہت سارے فیصلے انسان اپنی مرضی سے نہیں کر پاتا۔حالات و واقعات اسے مجبور کر دیتے ہیں۔اب ان پر خوش ہوا جائے یا نا خوش۔یہ بھی حالات وواقعات کی مرضی کے تحت ہوتاہے نا۔‘‘
’’تو دوسرے لفظوں میں تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ تیری اور میری شادی حالات وواقعات کی مجبوری کے تحت ہوئی ہے۔‘‘وہ خاصے تحمل سے بولا۔
’’میں دوسرے تیسرے لفظوں میں بات نہیں کر رہی ہوں ظہیر شاہ،میں نے صاف لفظوں میں بات کہ ہے۔بلکہ آپ کی بات کا جواب دیا ہے ۔کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ان سارے حالات وواقعات کو جس کے تحت یہ شادی ہوئی ۔‘‘ وہ بھی عام سے انداز میں بولی۔
’’خیر۔!وہ ہوا سو ہوا۔لیکن میں یہاں یہ الجھن دور کرلینا چاہتا ہوں کہ حویلی سے بھاگ جانے کی وجہ کیا تھی۔میری ذات سے نفرت،اختر رومانوی یا شعیب سے محبت۔۔یا کوئی بات۔۔۔؟‘‘
’’آپ کے والد۔۔۔پیر سائیں کا لالچ۔۔اس نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان فرسودہ اور جھوٹی روایات کو توڑ دوں۔۔اور میں نے توڑیں۔۔آپ کی ذات سے نفرت ہوتی ناتو جو چاہے ہو جاتا میں آپ سے شادی نہ کرتی۔۔اور نہ ہی مجھے کوئی مجبور کر سکتاتھا۔شعیب سے محبت۔۔تو میرے پاس ہر طرح سے آپشن تھا۔۔۔آپ نے بھی تو میرے ساتھ شادی اپنے لالچ کے لیے کی ہے۔میں آپ سے یہ سوال کروں کہ کیا آپ کو میرے ساتھ محبت ہے۔؟ تو آپ کیا جواب دیں گے۔۔بولیں۔‘‘نادیہ نے بڑے تحمل کے ساتھ صاف گوئی سے کہہ دیا۔
’’میں نے بابا سائیں کا حکم مانا ہے۔۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔
’’تو سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے ہو آپ کہ آپ بھی اپنے بابا سائیں کے لالچ میں پوری طرح شریک ہیں۔آپ کی اور میری شادی نہیں ہوئی ،مگر میری جائیداد اپنے نام کروانے کے لیے فائل بہت پہلے ہی پہنچا دی گئی۔میں اسے کیا سمجھوں۔۔یا پھر آپ انکار کریں کہ آپ اپنے بابا سائیں کے منصوبے سے آگاہ نہیں ہیں۔‘‘اس بار وہ کافی حد تک ہتھے سے اکھڑ گئی تھی تو ظہیر شاہ نے تحمل سے کہا۔
’’خیر۔!ہم یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس وقت شادی کے بندھن میں بند ھ گئے ہیں۔اور ایک چھت کے نیچے ہیں۔میرے خیال میں ہمیں اپنی آئندہ کی زندگی کے لیے یہ طے کر لینا چاہیے کہ ہم نے اپنی زندگی کیسے گذارنی ہے۔‘‘
’’زندگی توویسے ہی گذرتی ہے جیسے ہم چاہیں گے۔۔یہ تو ہم دونوں کے روئیے پر ہے نا۔ہم ایک دوسرے کے لیے اعتماد بنیں گے تو ہی اچھا رہے گا،ورنہ ہم میں بد گمانی اور تلخیاں ہی پیدا ہوتی رہیں گی۔‘‘نادیہ نے سکون سے کہا۔
’’یہ کیسے ممکن ہو گا۔کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور ہم ایک اچھی زندگی گذار سکیں؟‘‘اس نے سمجھوتہ کر لینے والے انداز میں پوچھا تو وہ بولی۔
’’یہی کہ ہم ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور کیا۔۔حالات و واقعات کی بجائے عزت اور مان دیں۔‘‘
’’کیسے۔۔کیسے ہو گایہ۔۔؟‘‘اس نے اصرار کرتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ میں کیسے بتا سکتی ہوں ۔جس طرح زندگی کی سانسوں بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اس طرح کسی دوسرے کی نیت بارے کیا کہا جا سکتاہے۔یہ تو زندگی کی راہوں پر چلنے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ہم سفر کیسا ہے۔‘‘اس نے بڑے محتاط انداز میں کہا۔
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ابھی تک الجھن میں ہو ہمارے اس رشتے کے بارے میں ۔الجھن ہے تمہیں ،یقین نہیں۔‘‘ظہیر شاہ نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو ظہیر شاہ۔!میری زندگی میں جو محرومیاں ہیں۔اس کے بارے میں آپ پوری طرح آگاہ ہو۔جانتے ہو کہ اس حویلی میں ہم عورتیں کیسے رہتی ہیں۔ہمیں تو اپنی مرضی سے سوچنے تک کا اختیار نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو آج یہ مجبوریاں نہ ہوتیں۔وہ مجبوریاں جو محرومیوں میں لپٹی ہوئی ہیں۔‘‘
’’یہ ہماری روایات ہیں انہیں قبول تو کرنا پڑے گا۔میں بھی انہی روایات کا پا بند ہوں اور رہوں گا۔تمہارے ساتھ شادی کرنے کے بعد ایسا نہیں ہے کہ میں ان روایات سے انحراف کر لوں گا۔جہاں تک جائیداد کا معاملہ ہے ،وہ تم رکھواپنے پاس،مجھے اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔کبھی بھی یہ مت سمجھنا کہ میں نے تمہارے ساتھ جائیداد کے لالچ میں شادی کی ہے۔میری اور تمہاری شادی فقط حویلی کی روایات کے لیے ہے۔‘‘ظہیر شاہ نے اس واضح کر نے کی کوشش کی۔
’’میں آپ کی بات کو جھٹلا تی نہیں ،اگرچہ میرے پاس بہت سارے دلائل ہیں کہ پیر سائیں نے کیا کچھ کیا۔تا ہم میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے بحث کو سمیٹ دینا چاہا۔
’’میں فقط یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں ماضی کو نظر انداز کر سکتا ہوں ،اگر تم آئندہ حویلی کی روایات کی پاسداری کرو۔اور یہ کبھی بھی جتانے کی کوشش نہ کرنا کہ میرے ساتھ شادی کر کے تم نے مجھ پر یا میرے والدین پر احسان کیا ہے۔کیونکہ یہ شادی تم نے شرط سے کہ ہے ۔تمہاری شرط پوری ہوئی اور اب تمہیں اپنی زندگی میرے مطابق گذارنا ہو گی۔‘‘ظہیر شاہ نے کافی حد تک سخت لہجے میں کہا تو وہ بہت زیادہ تحمل سے بولی۔
’’اب میں آپ کے نکاح میں آ گئی ہوں۔آپ میرے شوہر ہیں اور آپ کا ہر حکم ماننا میرا فرض ہے۔لیکن آپ کا لہجہ اور انداز مجھے یہ جتا رہا ہے کہ میں اب آپ کی زر خرید لونڈی بن کر رہوں تو زندگی گذارنے کا حق رکھتی ہوں۔ورنہ نجانے میرے ساتھ کیا ہو جائے گا۔میرے سارے حق سلب ہو جائیں گے اور میں انہی درودیوار میں گھٹ کر رہ جاؤں گی؟‘‘
’’ہاں،تمہیں ایسا ہی کرنا ہو گا۔جیسے پرکھوں سے ہماری یہ روایات چلی آ رہی ہیں ۔اور اس پر میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرو گی۔میں تمہیں یہی باور کرا رہا ہوں ۔۔‘‘وہ قدرے کھردرے لہجے میں بولا۔
’’تو ٹھیک ہے ۔۔میں آپ کی بات مان لیتی ہوں۔لیکن آپ کو میرا حق مجھے دینا ہوگا۔جس سے آپ فرار نہیں لے سکتے۔۔‘‘وہ پھر اسی تحمل سے بولی۔
’’کیسا، حق۔۔میں نے تمہیں اپنے عقد میں لے لیا ہے تو حقوق بھی پورے کروں گا۔۔‘‘ اس نے تیزی سے کہا۔
’’تو پھر سنیں۔!یا تو آپ مجھے اپنے ساتھ لندن لے جائیں۔یا پھر آپ کو یہاں رہنا ہو گا۔میرے ساتھ۔۔یہ میرا حق ہے کہ جہاں آپ رہیں گے،میں نے بھی وہیں رہنا ہے۔کیونکہ آپ میرے ذمے دار ہیں۔دوسرا اور کوئی نہیں۔۔‘‘وہ پر سکون انداز میں بولی۔
’’یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟ ایسا نا ممکن ہے ۔مجھے اپنی تعلیم مکمل کر کے ہی یہاں آنا ہے۔جو میرے باپ کا خواب ہے۔اور ویسے بھی میں ابھی اپنے ساتھ تمہیں لے جا نہیں سکتا۔‘‘اس نے الجھتے ہوئے کہا۔
’’یہ آپ جانیں،آپ فیصلہ کر کے مجھے بتا دیں۔تب ہم زندگی کی شروعات کر لیں گے۔‘‘اس نے ظہیر شاہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تووہ بھنا کر بولا۔
’’یہ تم خواہ مخواہ کی ضد کر رہی ہو۔یہ اقرار کر لو کہ تم نے مجھے اپنے دل سے شوہر تسلیم ہی نہیں کیا۔‘‘
’’اور کیا آپ نے دل سے مجھے بیوی تسلیم کر لیا؟‘‘وہ تنک کر بولی تو کافی دیر تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔پھر بولا۔
’’دیکھو نادیہ۔!میں تمہیں بار بار یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اگرہم زندگی کی راہ پر سمجھوتے کے ساتھ چلے تو زندگی سہل ہو بھی سکتی ہے۔لیکن مجھے لگتا ہے تم کچھ اور ہی سوچ رہی ہو۔ٹھیک ہے،اب میں تمہیں اپنے فیصلے ہی سے آگاہ کروں گا۔‘‘اس نے کہا اور اٹھ کر باہر کی جانب چل دیا۔وہ اسے دیکھتی رہی۔اس کے دل میں قطعاً احساس نہیں تھا کہ وہ اس کی سہاگ رات ہے اوراس کا دولہا اس سے روٹھ کر حجلہ عروسی سے جا رہا ہے۔وہ کمرے میں تنہا ہو گئی تو نجانے کیوں اسے یوں لگا کہ وہ اب تک گھٹن کی شکار تھی اب کھل کر سانس لے سکتی ہے۔اس نے ایک طویل سانس لی اور اپنے زیور اتارنے لگی۔اس کا خیال تھا کہ اب وہ اپنا عروسی جوڑا اتا رکر سکون سے سو جائے
***
شعیب اپنے آپ ہی میں خود کو اجنبی محسو س کر رہا تھا۔اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے حالات و واقعات کے ساتھ ہوائیں بھی بدل جاتی ہیں ۔ایک ہی دن میں اتنا کچھ بدل جائے گا یہ تو اس کے گمان میں بھی نہیں تھا۔وہ تو اپنی امی سے پوری بات سن کر نادیہ کو لے آنے کے لیے اس گھر سے نکلا تھا۔لیکن ہوا کیا؟ فرح اس سے نکاح دی گئی جسے وہ اپنے ساتھ لے آیا اور اب وہ حجلّہ عروسی میں اس کی منتظر تھی۔ زندگی اپنے رنگ کیسے بدلتی ہے،یہ اس دن اس کی سمجھ میں آیا۔مقدر کس قدر طاقت ور ہوتا ہے یہ اس دن اسے پتہ چلا۔انسان اپنے ذہن میں نجانے کیسے منصوبے بناتا ہے ۔کس قدر ارادے باندھتا ہے لیکن ہوتا کیاہے؟یہاں تک کہ کچھ بھی اس کی دسترس میں نہیں رہتا۔گھر میں موجود تین فرد ،وہ ،فرح اوراس کی امی کے ساتھ فقط دو ملازمین۔خاموشی انتہائی گہری تھی۔سب ہی اپنی اپنی جگہ خاموش تھے۔ رات تھی کہ گذرتی چلی جا رہی تھی۔اور وہ لان میں بیٹھا ان لمحات کی بھل بھلیوں میں کھویا ہوا تھا جو نادیؔ سے بات کرتے ہوئے گذرتے تھے۔کہیں بھی کچھ ایسا نہیں تھا۔جس سے ان کے درمیان کوئی کسی قسم کا وعدہ ہوا ہو۔ وہ دونوں اچھے دوستوں کی طرح ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے تھے۔زندگی کا ایسا کون سا موضوع تھا جو ان کے زیر بحث نہیں آیاتھا لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کوئی اظہار ہو ،جس سے دونوں کی محبت عیاں ہوتی ہو۔وہ ایک دوسرے کو سمجھتے تھے۔بہت قریب آ گئے لیکن جب ان دونوں ہی کے ملنے کا وقت آیا ۔تب نادیہ نے عجیب رویہ دکھا دیا۔کیا اسے مجھ سے محبت کبھی تھی ہی نہیں؟اگر ایسی بات ہے تو پھر حویلی سے اختر رومانوی تک جانا کس زمرے میں جاتا ہے؟ظہیر شاہ سے اگر اس نے شادی کرنا تھی تو پھر حویلی سے جانے کا کیا مطلب۔۔۔اگر وہ حویلی سے نہ جاتی تو کیا اس کے بارے میں علم ہوتا۔۔؟ ایسے ہی نجانے کتنے سوال اس کے ذہن میں ایک کے بعد آتے چلے جا رہے تھے۔اسے اب تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ فرح اس کے انتظار میں ہے۔یہ عجیب بات تھی کہ جو اس کی ہمسفر بن چکی تھی ،اس کے بارے میں اندر سے ذرا سا جذبہ بھی نہیں اٹھا تھا۔اور وہ جو اس سے بچھڑ گئی تھی وہ اسے ہی یاد کرتا چلا جا رہا تھا۔
’’ایسا کیا سوچ رہے ہو بیٹا۔‘‘ اس کے کانوں میں اس کی امی کی آواز گونجی اور اس کے ساتھ ہی دائیں کاندھے پر دباؤ کا احساس ہوا تو وہ چونک گیا۔
’’نہیں۔۔کچھ نہیں امی۔۔‘‘اس نے جھجکتے ہوئے کہا تو اس کی امی نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’میں جانتی ہوں بیٹا۔!تم نے اگر کبھی نادیہ کے لیے اظہار نہیں بھی کیا تو ان دنوں تمہاری اس کے لیے تڑپ دیکھ کر میں اندازہ لگا چکی ہوں کہ تم اسے کتنا چاہتے ہو۔لیکن فرح بھی تو اس کا دیا ہوا تحفہ ہے۔۔نجانے کس مصلحت کے تحت اس نے فرح کو اپنا مقام دے دیا ہے اور خود حویلی کی چاردیواری میں دفن ہو گئی۔۔‘‘
’’ہاں امی۔!پہلے مجھے اتنا احساس نہیں تھا۔لیکن اس کے کھو جانے کے بعد وہ مجھے بہت یاد آ رہی ہے۔‘‘ اس نے واضح طور اعتراف کرلیا۔
’’میں سمجھتی ہوں بیٹا۔!لیکن اب وہ ماضی کا حصہ بن گئی ہے۔اس میں نہ حالات کا کوئی دوش ہے اور نہ ہماری کوئی کوتاہی ،یہ فیصلہ اس نے خود کیا۔اب اس پر ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘‘اس کی امی نے پیار سے کہا۔
’’ہاں امی۔!شاید اس لیے میں نے فرح کو قبول کر لیا ۔ورنہ شاید۔۔۔‘‘اس نے کہنا چاہا لیکن مصلحت کے تحت خاموش ہو گیا۔
’’اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ماضی کو بھول جاؤ اور آنے والے وقت کو اچھا اور خوشگوار بنانے کی کوشش کرو۔جس طرح بھی سوچا جائے ،اس میں فرح بے چاری کا تو کوئی بھی قصور نہیں ہے۔اس بے چاری کو تم ایک بیوی کا مان دینا کہ وہ خوشگوار زندگی کا سکھ پائے۔‘‘ امی نے سمجھایا تو وہ سر ہلاتے ہوئے بولا۔
’’ٹھیک ہے امی۔۔۔جیسا آپ چائیں۔‘‘
’’تو چلو اٹھو ،وہ بے چاری تمہارا انتظار کر رہی ہے۔اسے کبھی دکھ مت دینا۔‘‘امی نے اسے سمجھایا تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور پھر دونوں ماں بیٹا رہائش گاہ کے اندر چل دیئے۔
شعیب جس وقت اپنے کمرے میں داخل ہوا تو فرح ایک گٹھڑی کی مانند بیڈ کے ایک کونے پر ٹکی ہوئی تھی ۔زیورات سے لدی پھندی وہ سر نیہوڑے یوں بیٹھی ہوئی تھی کہ جیسے خودمیں ہی کہیں گم ہونے جا رہی ہے۔وہ چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا ۔اس کی حالت کا اندازہ کرتا رہا۔پھر وہ آہستگی سے آگے بڑھا اور بیڈ کے دوسرے کنارے پر جا بیٹھا ۔اس نے محسوس کیا کہ فرح ہلکے ہلکے کانپ رہی ہے۔ نجانے کیوں اسے فرح پر ایک دم سے ترس آ گیا۔وہ اگر نادیہ کا تصور ذہن میں لیے ہوئے ہے تو ممکن ہے فرح کے ذہن میں بھی کوئی تصور ہو۔اس نے ہولے سے اسے سلام کہا تو عجیب مردنی سی آواز میں فرح نے جواب دیا۔تب شعیب کو احساس ہوا کہ اسے باتوں ہی باتوں میں حوصلہ دینا ضروری ہے۔ورنہ شاید وہ بات ہی نہ کر پائے۔اس کا دم گھٹا جا رہا ہے۔اس لیے وہ بڑے نرم لہجے میں بولا۔
’’فرح۔!میں مانتا ہوں کہ ہماری شادی ایسے حالات میں ہوئی ہے جس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔آج کیا،دوپہر تک تمہارے ذہن میں نہیں ہو گا کہ آج رات تمہاری سہاگ رات ہو گی۔ قسمت کے اس کھیل میں ہمارے لیے کیا ہے، نہ تم جانتی ہو اور نہ میں جانتا ہوں۔تم جو کہناچاہو اورجیسی زندگی چاہو،میں اس طرح کی زندگی تمہیں دینے کی کوشش کروں گا۔‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔پھر اسے اپنی جانب لاکر ایک کنگن اس کی کلائی میں پہنا دیا۔اس نے محسوس کیا کہ فرح کا بدن مزید لرزنے لگا ہے۔کافی لمحات کی خاموشی کے بعد وہ اس ہلکی سی آواز میں بولی۔
’’شکریہ۔‘‘
’’کیا تم کچھ نہیں کہوں گی؟‘‘ شعیب نے اسے بات کرنے پر ابھارا تو اس نے حوصلہ کرتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کیا کہنا ہے ۔کیونکہ مجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔زندگی نے جو دیا اور جیسا دیا مجھے قبول ہے۔آئندہ بھی میں کوئی گلہ نہیں کرو ں گی۔حویلی کی روایت میں ہے کہ عورتیں اپنے فیصلے نہیں کر سکتیں تو میں بھی اپنا آپ اور اپنی زندگی کے سارے فیصلے آپ کے سپرد کرتی ہوں۔‘‘
’’کیا تم نے کبھی سوچا تھا کہ ایسی انہونی ہو سکتی ہے۔‘‘اس نے پوچھا۔
’’ہاں۔!یہ انہونی ہی ہے۔آپ کو شاید نہیں معلوم کہ خاندان کے باہر شادی نہ کرنا بھی حویلی کی روایت میں ہے۔خاندان میں کوئی ایسا لڑکا نہیں تھا کہ جس سے میری شادی ہو سکتی۔میں نے تو سوچ لیا تھا کہ میں نے ساری زندگی یونہی گذار دینا ہے۔۔اب یہ قسمت۔ ۔۔‘‘فرح نے کہا تو شعیب نے پوچھا۔
’’میرے خیال میں قسمت سے زیادہ یہ نادیہ کا فیصلہ ہے۔تم سوچ سکتی ہو کہ ایسا اس نے کیوں کیا؟‘‘
’’میں نہیں جانتی ۔وہ آج سے نہیں بہت پہلے سے ،کئی مہینوں سے ڈسٹرب ہے۔کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ تنہائی کا شکار ہو کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔اس لیے ایسی حرکتیں کرتی ہے جن کے بارے میں اسے خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے۔‘‘وہ کافی حد تک حوصلہ سے بات کر نے لگی تھی۔
’’اتنی تنہائی ہے حویلی میں؟‘‘ اس نے سرسراتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’تنہائی تو ہے اور یہ سب حویلی کی روایات کی وجہ سے۔۔۔اور پھر ہم تین ہی تو تھیں حویلی میں،امی ۔۔وہ تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔۔۔نہ کسی معاملے میں دلچسپی اور نہ ہی کوئی اپنی مرضی۔۔بس بابا سائیں کے حکم کی پابند ہیں۔‘‘ اس نے اعتماد سے کہا تو وہ بڑے نرم لہجے میں بولا۔
’’خیر ۔!تمہارا یہ فیصلہ اچھا ہے کہ اپنے سارے فیصلے میرے سپرد کر دیئے ہیں۔لیکن میں تم پر کوئی جبر یا ظلم نہیں کروں گا۔بلکہ میں تمہیں اپنی مرضی سے جینے کا پورا پورا حق دیتا ہوں۔۔تم جس طرح خوش رہنا چاہو ، ویسے ہی رہو۔۔۔مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں ہے۔۔‘‘
’’کہیں آپ مجھ پر ترس کھا کر تو ایسا نہیں کہہ رہے ہیں۔۔۔‘‘وہ دھیرے سے بولی۔
’’کیوں تمہیں ایسا کیوں لگا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’یہ حقیقت ہے کہ میں آپ کے لیے کوئی مانگی ہوئی دعا تو نہیں ہوں نا۔۔آپ پر مسلط کی گئی ایک شرط ہوں۔شرط تو مجبوری ہی میں پوری کی جاتی ہے نا۔۔۔آپ کی بات سے تو مجھے یوں لگا جیسے آپ کو مجھ سے کوئی رغبت نہ ہو۔اور آپ بس مجھے بنھائیں گے۔۔‘‘اس کے لہجے میں نجانے اتنا درد کہاں سے سمٹ آیا تھا۔
’’ابھی تم میری مزاج آشنا نہیں ہو۔۔اس لیے ایسا کہہ رہی ہو۔زندگی میں جب تم میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلو گی نا،تب تجھے محسوس ہو گا کہ میں ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔ابھی تو ویسے بھی میری باتوں کی سمجھ نہیں آئے گی۔اگر میں نے مجبوری میں بھی تجھے نبھایا نا تو اس میں بھی میں تجھے مان دوں گا۔۔جس طرح حویلی میں روایات کے نام پر جبر ہے۔۔انسانی رویے کی تضحیک کی جاتی ہے۔۔ویسا میں کر ہی نہیں سکتا۔۔تم نے اتنی زندگی حویلی کی چاردیواری میں گذاری ہے۔۔اس لیے تمہیں احساس نہیں ہے کہ باہر کی دنیا کتنی کھلی ہے۔اس میں کتنی روشنی ہے ۔۔جبر ہے نہیں۔۔خلوص سے دل جیتے جاتے ہیں۔۔‘‘اس نے کافی حد تک جذباتی لہجے میں کہا۔
’’لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے نا۔۔آپ نادیہ کو چاہتے تھے اور میں۔۔۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے کہ میرے دل میں اس کے لیے محبت ہے ،احترام ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اپنی زندگی اس لیے تج دوں کہ وہ مجھے نہیں ملی۔۔۔زندگی کی حقیقتیں کچھ اور بھی ہیں ۔ان میں بھی نبرد آزما ہونا ضروری ہے۔ایک کونہ پا کر سارے رشتوں سے ناطہ توڑ لیا جائے ۔یہ تو پاگل پن ہے ہوا نا۔۔۔اور پھر فرح یہ جان لو۔۔ہم میں لاکھ گہرا تعلق رہا ہو۔۔دوستی کی حدیں جتنی مرضی وسعت رکھتی ہوں مگر۔! ہمارے درمیان کوئی وعدہ نہیں ہوا یہاں تک کہ کوئی اظہار تک نہیں۔۔اس لیے ہم دونوں میں کوئی شرمندگی نہیں اور نہ ہی ہم ایک دوسرے کو بے وفا کہہ سکتے ہیں۔ہر رشتے اور تعلق کا مان الگ ہوتا ہے۔ اسے اس کے مقام پر رکھا جائے تو ہی زندگی سہل ہوتی ہے۔ورنہ الجھنیں اس قدر بڑھتی ہیں کہ سوچیں ہی انسان کی قاتل بن جاتی ہیں۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔میرے خیال میں نادیہ کے اندر آپ کی محبت سے زیادہ حویلی کی روایات سے نفرت کا عنصر زیادہ ہے۔۔۔اس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً کرتی رہتی ہے۔شاید آپ کے پاس جانے میں اس کی بغاوت نے اسے اکسایاہو۔‘‘فرح نے آہستگی سے کہا تو وہ بولا۔
’’تمہارے ساتھ نکاح ہونے تک میں سمجھتا رہا تھا کہ اسے مجھ سے محبت ہے،لیکن جب اس نے شرط عائد کی تو مجھے گماں ہوا یہ محبت نہیں،بغاوت ہی ہے۔ورنہ اسے اپنی محبت پا لینے کا پورا پورا اختیار تھا۔وہ جو چاہتی سو کرتی۔۔۔‘‘
’’خیر۔!میں جو بھی ہوں۔جیسی بھی ہوں۔۔۔آپ کی زندگی میں آ گئی ہوں۔۔مجھے زندگی کو برتنے کا ابھی اتنا سلیقہ نہیں ہے۔میرے لیے باہر کی دنیا کی معمولی سی چیز بھی بہت غیر معمولی ہو گی۔۔اب میں نے آپ ہی کی نگاہ سے دنیا کو دیکھنا ہے۔۔۔پلیز ۔! مجھے نہ صرف مان دیجے گا ۔۔بلکہ وہ اٹوٹ سہارا بھی جس سے میں کہیں اس حیرت کدے میں گم ہو کر نہ رہ جاؤں ۔۔‘‘ فرح نے بڑے نپے تلے لفظوں میں اپنا مدعا کہہ دیا ۔شعیب کو اس کا یہ انداز اچھا لگا۔اس لیے خوش دلی سے بولا۔
’’تم بات بڑے سلیقے سے کر لیتی ہوں۔۔اس کی کیا وجہ ہے۔؟‘‘
’’یہ شاید نادیہ ہی کی وجہ سے ۔۔اس نے بہت پڑھا ہے اور میں نے بھی۔۔۔اس کے اندر بغاوت اترتی چلی گئی اور میں اپنے آپ میں کھوکر رہ گئی۔۔میرے سپنے کچھ اور ہی طرح کے تھے۔۔میں نے اپنی دنیا تخلیق کر لی تھی اور اس میں خوش تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ اب میں نے تنہازندگی گذارنی ہے اور اپنی بنائی ہوئی دنیا میں زندہ رہنا ہے۔۔۔یہ اپنے آپ کو سہارا دینے کی کوشش تھی۔۔آپ اسے خود فریبی کہہ سکتے ہیں۔۔‘‘
’’زندگی میں ہر انسان نے اپنی دنیا بنائی ہوئی ہے فرح ۔۔جہاں وہ اپنی مرضی سے زندگی گذارنے پر مجبور ہے یہ دنیا جس قدر خوبصورت ہے نا۔۔یہ اتنی بد صورت اور کریہہ بھی ہے کہ خوف آنے لگتا ہے۔یہاں انسان کا اپنے آپ میں سمٹنا بھی بہت ضروری ہے ورنہ باہر کے حالات اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیں۔تم فکر نہیں کرو فرح۔۔تمہیں نہ صرف عزت ملے گی بلکہ وہ مان بھی جو تم چاہتی ہو۔بس ایک بات یاد رکھنا اعتماد ہی سارے رشتے ناطے اور تعلق کو مضبوط اور گہرا بناتا ہے۔یقین جیسی دولت انسان کے پاس ہو نا تو پھر کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘‘
’’میں آپ سے یہی چاہتی ہوں ۔۔جہاں کہیں قدم ڈگمگا جائیں تو آپ ہی میرا سہارا ہوں۔‘‘ اس نے جذب سے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ماتھے سے لگا لیا۔شعیب نے اس کا ہاتھ پکڑا اور تھپتپھا کر دھیرے سے چھوڑ دیا۔ان کے درمیان یقین نے تعلق کو گہرے رنگ دے دیئے تھے۔شعیب اٹھا اور ایزی ہونے کے لیے لباس تبدیل کرنے لگا۔فرح اٹھی اس نے اپنے زیور اتارے ،عروسی جوڑا اتارنے کے لیے باتھ روم میں چلی گئی ۔وہ جب ایزی ہو کرآئی تو ہلکی پھلکی سے گڑیا دکھائی دے رہی تھی۔وہ شرماتے ہوئے دوبارہ بیڈ پر آ بیٹھی جہاں شعیب اپنی ہی کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ اس کی طرف دیکھنے لگی کہ کب وہ اپنی سوچوں میں سے باہر آتا ہے۔تبھی وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرادیا۔اس کمرے سے باہر رات گہری تھی جہاں فقط رنگینیاں ہی اپنا آپ منوانے کے لیئے بے تاب تھیں۔
***
مشرقی افق سے سورج بلند ہو گیا تھا ۔نارنجی رنگ دھیرے دھیرے پیلاہٹ میں بدل گیا ۔روشنی پھیلی اور ہر طرف اجالا ہو گیا۔پر سکون زندگی میں ہلچل ہو گئی۔ایسے میں مردان خانے میں پیر سائیں اپنے کمرے خاص میں بیٹھا ہوا ،زندگی کی اس حقیقت بارے سوچ رہا تھا کہ بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی بندے کے اختیار میں بہت کچھ آ جاتاہے۔اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شدید خواہش کے باوجود ہاتھ میں کچھ نہیں آتا۔انسانی خواہشات چاہے جتنی وسعت رکھتی ہوں ان کی ایک حد ہوتی ہے ،پھر اس سے آگے کوئی ایسی طاقت ہے جس کی اپنی ویٹو پاور شروع ہو جاتی ہے۔اس نے اپنے تئیں جو کچھ بھی سوچا تھا ،لیکن ہوا وہی جو قدرت کی مرضی تھی۔انسانی نظام کے ساتھ ساتھ قدرت کا بھی ایک نظام ہے جو اپنی دسترس رکھتا ہے۔وقت کو قابو کرنے کی خواہش میں انسان اپنی عظمت اور وقعت کھو دیتا ہے۔وہ تنہا بیٹھا ہوا یہی سوچتا چلا جا رہا تھا کہ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی ۔وہ مخصوص دستک تھی جیسے وہ پہچان گیا تھا۔دستک دینے کے چند لمحوں بعد دیوان اندر آ گیا اور دونوں ہاتھ باندھ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔پیر سائیں نے اس کے چہرے پر دیکھا اور تشویش سے پوچھا۔
’’کیا بات دیوان،تھوڑاپریشان لگ رہے ہو؟‘‘
’’سرکار بات پریشانی والی ہی ہے۔۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔
’’تو پھر بولو نا۔۔۔بات کیا ہے؟ ‘‘ اس بار پیر سائیں نے قدرے اکتائے ہوئے انداز میں پوچھا۔
’’اپنے ظہیر شاہ صاحب واپس برطانیہ چلے گئے ہیں۔‘‘دیوان نے اپنے لہجے کو کافی حد تک نرم رکھتے ہوئے کہا تو پیر سائیں نے حیرت سے کہا۔
’’ظہیر شاہ لندن چلا گیا۔یہ کیا بات ہوئی،کسی کو بتایا ،نہ پوچھا۔ابھی کل شام ہی تو اس کی شادی ہوئی ہے ،یہ کیا ہے ،کون کہتا ہے۔‘‘
’’سرکار ،زنان خانے سے یہ پیغام بڑی بی بی جی نے آپ کے لیے بھیجا ہے۔ظہیر شاہ جی وہاں کوئی خط چھوڑ گئے ہیں۔وہ رات ہی کسی وقت ڈرائیور کو لے کر نکل گئے تھے۔‘‘دیوان نے وضاحت کی۔
’’خط چھوڑ گیا ہے ۔۔اور رات ہی کسی وقت نکل گیا ہے۔۔یہ کیا ماجرا ہوا ۔۔خیر،میں دیکھتا ہوں ۔۔تم کسی نہ کسی طرح اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرو۔۔میرے خیال میں وہ ابھی تک ائیر پورٹ بھی نہیں پہنچا ہو گا۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا۔
’’ جی سرکار ۔!میں نے رابطہ کیا ہے،لیکن ان کا فون ادھر حویلی میں ہے۔۔وہ ساتھ لے کر نہیں گئے۔ڈرائیور کا فون بھی بند ہے۔۔‘‘دیوان نے اپنی کار گذاری سنا دی۔
’’ٹھیک ہے ،میں دیکھتا ہوں۔‘‘پیر سائیں نے کہا اور اپنے خاص کمرے سے نکلتا چلا گیا۔اگرچہ وہ اپنی معمول کے مطابق دھیمی چال ہی چل رہا تھا مگر اس میں تیزی واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔
حویلی کی دوسری منزل پر کاریڈور کے پاس کھلی جگہ میں بڑی بی بی جی کے پاس زہرہ بی دونوں بیٹھی ہوئی تھیں۔ان دونوں کے چہرے افسردہ تھے۔یوں جیسے کہ بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو۔پیر سائیں ان کے پاس آیا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’ کب گیا وہ۔؟‘‘ اس نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو بڑی اماں نے بتایا۔
’’پتہ نہیں ،صبح اس کا انتظار کیا لیکن وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں آیا۔تو پتہ کروایا۔دروازہ بند تھا اور دروازے کے باہر یہ کاغذ ٹنگا ہوا تھا۔‘‘یہ کہتے ہوئے انہوں نے کاغذ کا ایک پرزہ پیر سائیں کی طرف بڑھا دیا۔ جسے اس نے پکڑلیا اور پڑھنے لگا۔اس میں انتہائی مختصر انداز میں یہی لکھا ہوا تھا کہ وہ برطانیہ واپس جا رہا ہے۔وہاں جا کر فون کر کے تفصیل سے بتائے گا کہ وہ کیوں فوراً واپس چلا گیا ہے۔لہذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔پیر سائیں نے پڑھا اور پھر دونوں سے پوچھا۔
’’اس نے تو کوئی وجہ نہیں لکھی۔۔کیا اس کے کمرے میں نادیہ نہیں ہے۔۔اس سے نہیں پوچھا؟‘‘
’’نادیہ نے تو یہی بتایا ہے کہ رات کے پہلے پہر وہ اس کمرے میں گیا تھا ،کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلا گیا۔کافی دیر انتظار کر کے وہ تو سو گئی لیکن یہ کمرے میں نہیں پلٹا۔‘‘زہرہ بی نے دھیمے سے لہجے میں بتایاتو وہ تیزی سے بولا۔
’’صاف ظاہر ہے ،ان دونوں میں کوئی بات ہوئی ہو گی۔اور بات بھی کوئی بہت اہم ،ورنہ وہ اتنا بڑا فیصلہ نہ کرتا۔آپ نے معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی؟‘‘
’’میں نے نادیہ سے پوچھا تھا ۔۔وہ تو کہہ رہی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جھگڑے والی۔۔وہ کچھ دیر آیا،باتیں کیں اور اٹھ کر چلا گیا۔۔۔‘‘زہرہ بی نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا۔
’’وہ باتیں کیا تھیں۔۔اصل میں انہی باتوں میں۔۔۔۔‘‘پیر سائیں کہتے کہتے رک گئے ،پھر چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد اپنی والدہ کی طرف دیکھ کر بولا۔’’آپ ۔!اماں بی آپ نادیہ سے پوچھیں۔اس نے کوئی ایسی بات کی ہو گی۔جیسے ظہیر شاہ نے اپنی توہین سمجھا ہو گا۔۔پتہ کریں آپ۔۔۔‘‘
’’مان لیا دلاور شاہ کہ نادیہ نے کوئی توہین آمیز رویہ رکھا ہو گا۔۔مگر یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ظہیر شاہ حویلی چھوڑ کر لندن کو سدھار جائے۔۔اسے اگر حویلی کے کسی فرد پر اعتبار ہوتا تو وہ ضرور کوئی بات کرتا۔۔ایسے بنا بتائے چلے جانا کوئی دانش مندی تو نہیں ہے۔‘‘لا شعوری طور پر اماں بی نے نادیہ کی وکالت کر ڈالی۔
’’وجہ تنازعہ تو پھر بھی یہیں کہیں ہے نا۔۔۔‘‘ پیر سائیں نے اپنے بیٹے کے طرز عمل کر یکسر نظر انداز کر دیاتودادی اماں چند لمحے خاموش رہی ۔پھر دھیمے سے لہجے میں بولیں۔
’’چلیں۔!میں پوچھتی ہوں نادیہ سے کہ اصل معاملہ کیا ہوا ہے۔۔لیکن مجھے نہیں یقین کہ وہ کچھ ایسا بتائے گی۔جواب تک اس نے بتایا ہے اس سے زیادہ ہو۔۔یہ تو ظہیر کے فون آنے پر ہی معلوم ہو گا کہ وہ کیا کہتا ہے۔‘‘اماں بی نے واضح لفظوں میں پیر سائیں کو باور کرا دیا کہ وہ مزید کی کوئی توقع نہ رکھے۔
’’خیر۔! میں کوشش کرتا ہوں کہ ابھی وہ ملک سے باہر نہ جا سکے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھنے لگا تودادی اماں نے کہا۔
’’بیٹے کی پریشانی تو ہو گئی۔لیکن کیا بیٹی فرح کا بھی خیال ہے کہ نہیں ۔اب اس کی طرف کون جائے گا۔آپ جائیں گے یا ہم سے کوئی۔۔۔‘‘
اماں بی نے جب توجہ اس طرف مبذول کرائی تو پیر سائیں چونک گیا۔یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ بیٹی کو بھی لینے جانا ہے ۔بیٹی کولانے کی بات اپنے اندر بہت سارے سوال چھپائے ہوئے تھا۔یہ پیر سائیں کی شان کے خلاف تھاکہ وہ کسی کے گھر میں جاتا۔۔۔ چاہے وہ کسی کا بھی ہو۔اور پھر بیٹی کے گھر میں،اس شعیب کے گھر میں جس سے اس کی مخالفت رہی ہو۔نجانے وہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرے۔۔پتہ نہیں فرح کے ساتھ اس نے کیا سلوک کیا ہو گا۔شرط کے ساتھ جو مجبوری بندھی ہوئی ہوتی ہے کیا اس کے اثرات فرح پر نہ پڑے ہوں گے۔؟ ا س نے تو اپنی بات منوا کر نادیہ کو ظہیر شاہ سے بیاہ دیا تھا ،لیکن کیا اب فرح کی زندگی میں اپنی مرضی سے خوشیاں دے پائے گا۔اگر شعیب نے اپنا رنج و دکھ فرح کی ذات میں سے نکالنا چاہا تو وہ انہیں روک پائے گا۔کیا شعیب کے ساتھ فرح کو بیاہ کر اس نے کوئی غلطی تو نہیں کی؟ کیا یہ کوئی نادیہ ہی کی چال تھی کہ اس طرح وہ پیر سائیں کو نیچا دکھا سکے گی۔۔کیا اس کی پلاننگ میں زبیدہ پوری طرح ساتھ دے رہی ہے؟ کیا اسے گھیرنے کا پورا پورا منصوبہ بنا لیا گیا ہے؟ یہ سوچتے ہی وہ ایک دم سے پسینے میں نہا گیا۔اپنی ضد اور انا کی خاطر اس نے کچھ بھی نہیں سوچا تھا اور ایک بہت بڑا نقصان کر لیا۔
’’پیر سائیں۔!کیا ہو گیا آپ کو طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟‘‘زہرہ نے اس کی حالت دیکھ کر تیزی سے پوچھا تو وہ آہستگی سے بولا۔
’’نہیں ۔میں ٹھیک ہوں۔‘‘
’’تو پھر یہ۔۔۔؟‘‘ اس نے پھر آہستگی ہی سے پوچھاتھا لیکن اس کے لہجے میں فکر مندی در آئی تھی۔
’’کچھ نہیں۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھنے لگا ۔پھر کچھ سوچ کر بولا۔’’ابھی ظہیر شاہ کا معاملہ ختم ہو جائے تو پھر سوچتے ہیں کہ فرح کی طرف کون جاتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کارویڈر میں نیچے جانے کے لیے چل پڑا۔فرح کا خیال آتے ہی ظہیر شاہ والا معاملہ بالکل ہی معمولی لگ رہا تھا۔وہ عجیب کشمکش میں آ گیا تھا۔وہ خود اگر جاتا ہے تو نجانے شعیب کا رویہ کیا ہو اور اگر حویلی کی خواتین کو اس کے گھر بھجواتا ہے تو پرکھوں کی روایات ٹوٹ جاتیں۔اگرچہ انہوں نے اپنے ہی رشتے داروں کے ہاں جانا تھا۔پہلے کبھی ایسا ہوا ہی نہیں تھا کہ حویلی سے باہر جانے کی ضرورت محسو س ہوئی۔ کیا شعیب اور زبیدہ کو حویلی میں لانا ہو گا؟ کیا وہ مان جائیں گے ؟ اگر وہمان گئے اور حویلی میںآ گئے تو کیا وہ پھر بھی حویلی کی روایات کو برقرار رکھ پائے گا؟ شعیب اگر اپنی بیوی کو کہیں لے جانا چاہئے تو کیا وہ اسے روک پائے گا؟ کیا اس طرح اس کی اپنے داماد کے ساتھ براہ راست مخالفت نہ شروع ہو جائے گی۔۔یا پھر اسے اپنا آپ تج کر شعیب کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔کیسی غلطی کر گیا وہ؟ اگر وہ حویلی میں آنے کے بارے میں نہ مانا تو پھر؟ فرح اب اس کی بیٹی ہی نہیں شعیب کی بیوی بھی ہے۔وہ دسترس جو کل دوپہر سے پہلے اسے حاصل تھی اب نہیں ہے۔اسے زبیدہ اور شعیب کے سامنے ہر حال میں سرنگوں ہونا پڑے گا۔اگر نہیں ہوتا تو پھر معاملات زیادہ خراب ہونے کا قوی امکان تھا۔لیکن یہ ظہیرشاہ نے بھی تو حویلی سے جا کر اچھا نہیں کیا۔۔۔یہ تو سیدھے سیدھے فرار کا راستہ ہے۔۔اس کی ضد اور انا ہار گئی اور نادیہ کا صبر جیت گیا۔پہلے تو وہ فقط اس کی بھتیجی ہی تھی اور اسے اپنی گرفت میں رکھنے کے لیئے ظہیر شاہ سے شادی کے بندھن میں باندھنا چاہتا تھا ۔اب جبکہ وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئی تھی تو اسے حاصل کچھ بھی نہ ہوا۔وہ خالی ہاتھ رہ گیا۔نادیہ زیادہ مضبوط ہو گئی بظاہر اس کا سب کچھ کھو گیا تھا لیکن اس کا ذرا نقصان نہیں ہوا اور وہ زیادہ مضبوط ہو گئی۔پیر سائیں اپنی سوچوں میں گھیرا ہوا مردان خانے میں اپنے مخصوص کمرہ خاص میں جا پہنچا۔صحن میں مریدین کی آمد شروع ہو گئی تھی۔دیوان پوری طرح جانتا تھا کہ پیر سائیں کس حال میں ہیں۔وہ اس کے پاس جا پہنچا۔
’’سرکار۔!ہنوز وہی حال ہے۔۔۔ڈرائیور کا فون بند ہے۔۔اور وہ پتہ نہیں کہاں پر ہیں؟‘‘
’’اب کیا ہو سکتا ہے۔؟‘‘ پیر سائیں نے کہا تو اس کے لہجے میں شکستہ پن نمایاں تھا ۔دیوان چونک گیا اور بولا۔
’’سرکار۔! لاہور ائیرپورٹ سے لندن جانے والی فلائیٹ کو روکا جا سکتا ہے۔ظہیر شاہ کو ملک سے باہر جانے سے بھی روکا جا سکتا ہے۔اتنے تعلقات تو ہیں کہ۔۔۔‘‘
’’نہیں۔!دیوان ،میں بازی ہار گیا ہوں۔جو کچھ میں نے سوچا تھا ،وہ نہیں ہو پایا۔ظہیر شاہ نے یوں حویلی سے جا کر بہت کچھ غلط کر دیا ہے۔۔آج شام تک اگر وہ واپس نہیں آتا تو پھر ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں آئے گا۔۔‘‘
’’آپ ایسی مایوسی والی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔میں کسی سے کہتا ہوں ۔وہ ائیر پورٹ سے ظہیر کو نہیں جانے دیں گے۔۔‘‘دیوان نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر جو کچھ کرنا ہے جلدی کرو۔۔شام تک ظہیر شاہ کو یہاں ہونا چاہئے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے گاؤ تکیے سے ٹیک لگا دی۔
’’سرکار،میں پوری کوشش کرتا ہوں۔‘‘دیوان نے کہا اور الٹے قدموں باہر کی جانب چلا گیا ۔جبکہ پیر سائیں اپنی سوچوں میں کھو گیا۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...