یہ پرانا انگرکھا دہلی کے آخری دور تک جاری رہا تھا۔ انگرکھے کی ایجاد کے بعد نیمہ چھوٹ گیا تھا اور شہزادوں اور نواب زادوں نے ایک کمر توئی کے عوض جو چولی کے نیچے بند لگانے کی جگہ پر ہوتی تھی، پلیٹوں کی وضع سے تین تین کمر توئیاں لگائی تھیں۔ جا بجا گوٹ اور کمر توئیوں کے پاس کٹاؤ کا کام بنایا جاتا تھا۔
درمیانی حصۂ جسم کے لباس کے حال کے بعد میں اس جزوِ لباس کی طرف توجہ کرتا ہوں جو سر کے لیے مخصوص ہے اور اسی لباس کی ہندوستان میں زیادہ عزت و حرمت کی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس طرح سر سارے جسم میں ممتاز ہے، اسی طرح اس کے لباس کو بھی زیادہ ممتاز ہونا چاہیے۔ قدیم الایام سے ہندوستان میں پگڑی باندھنے کا رواج چلا آتا ہے۔ اگرچہ عربی و عجمی بھی عمامے باندھے ہوئے یہاں آئے اور ان کی حکومت قائم ہوجانے کی وجہ سے یہاں کی پگڑیوں میں بہت کچھ تغیر ہو گیا؛ لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمانوں کے آنے سے پہلے یہاں پگڑی نہ تھی۔
ابتدائی دور کے مسلمان فرمانرواؤں کے عمامے بڑے بڑے تھے، جن کے نیچے قدیم ترکی وضع کی نوک دار مخروطی ٹوپیاں ہوتی تھی جو آج کل افغانستان میں مروّج ہیں اور ہماری ہندوستانی فوج کی وردیوں میں شامل ہوگئی ہیں۔
سلطنت مغلیہ کے عہد میں پگڑیاں روزبروز چھوٹی ہونے لگیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سرد ممالک میں جس طرح سردی کی مضرت سے بچنے کے لیے جوں جوں زمانہ گزرتا ہے، لباس وزنی اور میلا ہوتا جاتا ہے؛ ویسے ہی گرم ملکوں میں سبک، ہلکا اور مختصر ہوتا رہتا ہے۔ اسی اصول کے مطابق یہاں پگڑیاں روز بروز ہلکی اور چھوٹی ہوتی گئیں اور ملک کا یہ رجحان دربار کی وضع پر بھی اثر کرتا گیا۔ دربار مغلیہ کے آخری عہد میں امرا اور منصب داروں کی پگڑیاں بہت ہلکی ہو گئی تھیں اور اسی اختصار پسندی نے یہ بات پیدا کی کہ پگڑیاں صدہا قطع کی ہوگئیں اور اکثر بادشاہوں اور امرا نے اپنے لیے خاص بندشیں اور خاص وضع کی چھوٹی چھوٹی پگڑیاں ایجاد کر لیں۔
حکمرانوں کے سروں پر پرانی دستار نواب سعادت علی خاں کے زمانے تک رہی۔ نواب برہان الملک، نواب شجاع الدولہ اور نواب آصف الدولہ کے سروں پر وہی دستار تھی۔ دہلی کے عہدہ داران سلطنت کی سفید دستار ہوا کرتی تھی، جس پر بڑے درباروں کے موقعوں پر جواہرات کی کلغیاں، مرصع جیغے اور سرپیچ لگا لیے جاتے تھے، مگر فی نفسہٖ وہ دستاریں سادی اور سفید ہوتی تھیں۔ البتہ نواب سعادت علی خاں کے سر پر ہمیں ایک نئی قسم کی پگڑی نظر آتی ہے جس کو اہل لکھنؤ اپنی زبان میں شملہ کہتے تھے۔ یہ شملہ اس طرح بنایا جاتا کہ بھراؤ میں کپڑے کا ایک چوڑا اور پتلا گلدار حلقہ سرکی ناپ کے برابر بنایا جاتا، جو بیچ میں خالی اور کھلا رہتا۔ پھر کسی نفیس ریشمی یا شالی کپڑے کی پتلی پتلی بہت لمبی بتی بنا کے اس کے بیچوں بیچ اس کپڑے کے حلقے پر نیچے اور اوپر برابر برابر لپیٹ کے ٹانک دی جاتی تھی۔ اس حلقے میں اوپر کی جانب ایک چوڑی پٹی ویسے ہی ریشمی یا شالی کپڑے کی جوڑ دی جاتی تھی تاکہ وہ اس حلقے کو نیچے اترنے سے روکے رہے، مگر اس سے پوری چندیا ڈھک نہ سکتی تھی۔ یہ تھا لکھنؤ کا اصلی شملہ جس کو پہلے پہل نواب سعادت علی خاں نے پہنا۔
سر اور درمیانی حصہ جسم کے لباس کا حال میں نے تفصیل و وضاحت سے بیان کردیا۔ اب اسفل جسم کے لباس کی طرف توجہ کرتا ہوں۔ نشیبی حصہ جسم کے لیے عربوں میں سوائے تہمت کے کچھ نہ تھا۔ عربی تہمت اور ہندوؤں کی دھوتی دونوں بے سی ہوئی پتلی چادریں ہوتی ہیں، فرق یہ ہے کہ تہمت صرف کمر میں لپیٹ کے اٹکا لیا جاتا ہے۔ دھوتی ہندوستان کی مختلف قوموں میں خاص خاص بندشوں سے باندھی جاتی ہے۔ ظہور اسلام کے وقت اور اس سے مدتوں پیشتر عربوں کا قومی لباس زیریں یہی تھا، امیر و غریب، بادشاہ و وزیر سب تہمت باندھتے تھے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں پائجامہ دیگر ممالک و اقوام سے عرب میں پہنچ گیا تھا اور بعد کے زمانے میں بغداد کے دربار کا اور ان عربوں کا جو عرب سے نکل کر دیگر ممالک میں متوطن ہوگئے تھے، قومی لباس بن گیا تھا۔ ہندوستان میں مسلمانوں سے پہلے دھوتی کے سوا پائجامہ نہ تھا، مسلمان فاتح اسے اپنے ساتھ لائے۔ یہ پائجامہ تنگ مہری کا اٹنگی وضع کا تھا، جو بغداد میں مروج تھا اور اسی کا رواج ایران اور ترکستان میں ہوا اور اسی کو پہنے ہوئے مسلمان ہندوستان میں آئے اور شاہان ہند اسی کو پہنے رہے۔
ہندوستان کے آخر عہد میں اس کی قطع میں اتنا تغير ہوا کہ پائنچے یا مہری پنڈلی سے لپٹی رہتی، مگر اوپر کا گھیر قریب قریب اتنا ہی ہوتا جتنا کہ پرانے پائجامہ کا تھا۔ دہلی کے آخر بادشاہ تک اور سارے ہندوستان میں مسلمانوں کا یہی پائجامہ تھا۔
لباس میں سب سے آخری اور بڑی اہم چیز جوتا ہے۔ مسلمانوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں جوتے کا مطلق رواج نہ تھا، اس لیے کہ چمڑے کے استعمال سے ہندو مذہباً احتراز کرتے تھے، بلکہ جوتے کے عوض یہاں لکڑی کی کھڑاویں پہنی جاتی تھیں جو اس وقت کے بعض فقیروں اور رشیوں کے علاوہ قدیم راجاؤں میں بھی مروج تھیں۔ مسلمان اپنے ساتھ یہاں محیط لباس کے ساتھ چمڑے کے جوتے بھی لائے۔
مسلمانوں کا پہلا جوتا عربوں میں فقط ایک چمڑے کا تلا تھا جو پٹے یا بندھنوں کے ذریعہ سے پاؤں میں اٹکا لیا جاتا تھا۔ عجمیوں اور رومیوں کا چمڑے کا موزہ جوتے سے پہلے عرب میں پہنچ گیا تھا، پھر جب عربی دربار، شام و عراق یعنی روم کے آغوش میں قائم ہوئے تو چمڑے کے جوتوں کا رواج شروع ہوا، مگر وہ پہلے جوتے بظاہر سیدھی سادی زیرپائیاں تھے، انہیں کو پہنے ہوئے مسلمان ہندوستان میں آئے۔
دہلی کے بادشاہ اور امرا اپنی تصویروں میں اونچی ایڑی کی کفش نما جوتیاں پہنے نظر آتے ہیں۔ دہلی کے آخر عہد میں چڑھوّاں جوتا ایجاد ہوا، جس کی ابتدائی وضع یہ تھی کہ آدھا پنجہ اور گٹے سے نیچے تک پاؤں اس میں چھپ جاتا تھا، اس کے سر پر چوڑی نوک پنجے پر جھکاکے بٹھا دی جاتی تھی۔ یہ پہلا دلّی کا جوتا تھا جس کا پچاس سال پہلے زیادہ رواج تھا۔ اس کے بعد سلیم شاہی جوتا نکلا، جو غالباً جہانگیر کے زمانے میں ایجاد ہوا۔ اس کی نوک آگے نکلی اور اٹھی ہوئی ہوتی تھی اور نوک کا تھوڑا سا باریک سرا اوپر موڑ دیا جاتا تھا۔ ایجاد کے بعد اس پر کلا بتون کا مضبوط کام بننے لگا، جو بالکل سچا اور قیمتی ہوتا تھا۔ اگر چہ یہ کام دلی دال اور سلیم شاہی دونوں وضع کے جوتوں پر بنایا جاتا تھا، مگر سلیم شاہی جوتے کا بہت زیادہ رواج ہوا۔ لکھنؤ میں بعہد شاہی ایک نئی قطع کا خورد نوکا جوتا ایجاد ہوا۔ اس میں نوک بالکل نہ ہوتی تھی، نوک کے پاس فقط ایک ذرا سا ابھار رہتا تھا۔ یہ جوتے لال نری کے نہایت ہی سبک اور صاف بنائے جاتے اور نفاست وسبکباری کے مذاق نے اس کو یہاں تک سبک کردیا تھا کہ بعض موچیوں کے ہاتھ کا جوڑا چار پانچ پیسوں سے زیادہ وزنی نہ ہوتا تھا۔ چند روز بعد جوتوں کی آرائش میں اور ترقی ہوئی اور سلمے ستارے کے کارچوبی کام کے جوتے بننے شروع ہوئے؛ لیکن چڑھوّیں کے ساتھ ہی ساتھ یہاں ایک گھیتلا جوتا مروج تھا، جو دراصل پرانے کفش نما جوتوں سے ماخوذ تھا۔ دراصل یہی ہندوستان کا پرانا قومی جوتا تھا اور یہی اگلے اہل دربار اور وطنی بزرگان سلف کے پاؤں میں نظر آتا ہے۔ گھیتلے میں اتنی ترقی ہوئی کہ اس کی نوک بجائے مختصر رہنے کے ہاتھی کے سونڈ کی طرح بہت بڑھا کے اور پھیلا کے پنجے کے اوپر ایک بڑے حلقے کی صورت میں لپیٹ دی گئی۔ یہ جوتا اودھ کے اگلے بادشاہوں اور وزرا اور امرا کے پاؤں کی زینت ہوا کرتا تھا۔
یہ ہے دربار مغلیہ اور ہندوستان کے لباس کی مختصر سی تاریخ۔ اس کے بعد لباس میں تراش و خراش اور کپڑوں کی نوعیت میں روز بروز ترقی ہوتی رہی جو ہوتے ہوتے اس نوبت پر آگئی جو آج ہمارے مہذب ہندوستان کی زیبائش اور زینت کا اولین سامان ہے جس سے ہم سب ملبوس ہیں۔
(ادیب، دہلی ستمبر ١٩٤١ء)