“ریگستان کانپ اٹھا،” حکومتِ ہندوستان نے ہمیں (اپنے عوام کو) بتایا۔
“پورا پہاڑ سفید ہو گیا،” حکومتِ پاکستان نے جواب دیا۔
***
سہ پہر تک پوکھرَن کی ہوا خاموش ہو چکی تھی۔ تین بج کر پینتالیس منٹ پر ٹائمر نے تینوں ایٹمی ڈیوائس چلا دیں۔ زمین میں ۳۰۰سے ۴۰۰میٹر تک کی گہرائی میں جو حرارت پیدا ہوئی وہ دس لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ کے برابر تھی __ یعنی اُس درجۂ حرارت کے برابر جو سورج پر پایا جاتا ہے۔ ایک چشم زدن میں ہزاروں ٹن وزنی چٹانیں، گویا سطحِ زمین سے نیچے ایک پوری پہاڑی کے برابر، بخارات میں تبدیل ہو گئیں… دھماکے سے اٹھنے والی زلزلے کی لہروں نے فٹ بال کے میدان کے برابر وسیع ریت کے ٹیلے کو کئی میٹر اوپر اٹھا دیا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک سائنس داں نے کہا: “اب مجھے ان کہانیوں پر یقین آ گیا جن میں بتایا جاتا تھا کہ بھگوان کرشن نے پہاڑی کو اٹھا لیا تھا۔”
(“انڈیا ٹوڈے”)
مئی ۱۹۹۸۔ اس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں آئے گا، بشرطے کہ تاریخ کی کتابیں ہوئیں۔ بشرطے کہ ہمارا کوئی مستقبل ہوا۔
نیوکلیئر اسلحے کے بارے میں کہنے کو کوئی نئی یا اوریجنل بات باقی نہیں رہی ہے۔ کسی فکشن نگار کے لیے اس سے زیادہ ذلّت آمیز بات کوئی نہیں ہو سکتی کہ اسے وہ باتیں دُہرانی پڑیں جو دوسرے لوگ دنیا کے دوسرے حصوں میں نہایت جذبے سے، بڑی وضاحت سے اور اپنے علم کی بنیاد پر برسوں سے کہتے آ رہے ہیں۔
میں یہ ذلّت اُٹھانے کو تیار ہوں۔ خود کو عاجزی کے ساتھ سرنگوں کرنے کو تیار ہوں، کیوں کہ ان حالات میں خاموشی ناقابلِ مدافعت ہو گی۔ آپ میں سے بھی جو لوگ اس کے لیے تیار ہوں: آئیے ہم اپنے اپنے کردار اٹھائیں، اپنے رد کردہ لباس پہنیں اور اس المناک سیکنڈ ہینڈ کھیل میں اپنے سیکنڈ ہینڈ مکالمے ادا کریں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کھیل پر لگا ہوا داؤ بہت بڑا ہے۔ خود پر تھکن یا شرم طاری کر لینے کا مطلب ہمارا خاتمہ ہو گا۔ ہمارے بچوں کا اور بچوں کے بچوں کا خاتمہ۔ ہر اُس چیز کا خاتمہ جس سے ہمیں محبت ہے۔ ہمیں اپنے اندر رسائی پا کر سوچنے کی قوّت حاصل کرنی ہو گی۔ اور لڑنے کی۔
ایک بار پھر ہم وقت سے بہت پیچھے ہیں __ نہ صرف سائنس اور ٹیکنولوجی کے اعتبار سے (اس بارے میں کیے جانے والے دعوے بالکل لغو ہیں) بلکہ زیادہ اہم بات یہ کہ ایٹمی اسلحے کی اصل نوعیت کو سمجھ پانے کی نااہلیت کے اعتبار سے۔ ہارر ڈپارٹمنٹ کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ افسوسناک طور پر از کار رفتہ ہے۔ ہم لوگ __ ہندوستان اور پاکستان کے رہنے والے تمام لوگ __ سیاست اور خارجہ پالیسی کے باریک نکات پر یوں بحث کر رہے ہیں گویا ہماری حکومتوں نے محض ایک نئی قسم کا، پہلے سے زیادہ بڑا، بم تیار کیا ہے، ایک طرح کا بہت بڑا دستی بم جس کی مدد سے وہ اپنے دشمن کو (یعنی ایک دوسرے کو) نیست و نابود کر دیں گی اور ہمیں ہر قسم کے ضرر سے بچا لے جائیں گی۔ ہم کس قدر بےتابی سے اس بات پر یقین کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کس قدر قابلِ تعریف، سدھائی ہوئی اور احمق رعایا ثابت ہوے ہیں۔ باقی بنی نوع انسان (ہاں، ہاں، مجھے معلوم ہے، مجھے معلوم ہے، مگر فی الحال ہمیں “اُن” کو بھول جانا چاہیے۔ وہ اپنا ووٹ کا حق بہت پہلے گنوا چکے ہیں)، بنی نوع انسان کا بقیہ حصہ شاید ہمیں معاف نہ کرے، مگر بنی نوع انسان کے بقیہ حصے کو شاید علم ہی نہیں کہ ہم کس قدر دل شکستہ اور مایوس لوگ ہیں۔ اسے شاید اندازہ ہی نہیں کہ ہمیں کسی معجزے کی کس قدر شدید اور فوری ضرورت ہے؛ ہمیں طلسم کی کس قدر سخت آرزو ہے۔
کاش ایسا ہوتا کہ ایٹمی جنگ محض جنگ کی ایک اور قسم ہوتی۔ کاش اس کا تعلق اُنھیں عام طرح کی چیزوں سے ہوتا __ قوموں اور ملکوں سے، دیوتاؤں اور تاریخ سے۔ کاش ایسا ہوتا کہ ہم میں سے جو لوگ اس سے دہشت زدہ ہیں وہ محض اخلاقی جرأت سے محروم، بزدل اور نکمے لوگ ہوتے جو اپنے اعتقادات کے دفاع میں جان قربان کرنے کو تیار نہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو ہمارا سامنا چین یا امریکا سے، یا حتی کہ ایک دوسرے سے بھی، نہیں ہو گا۔ ہماری دشمنی خود کرۂ ارض سے ہو گی۔ فطرت کے عناصر __ آسمان، فضا، زمین، ہوا اور پانی __ ہمارے خلاف صف آرا ہو جائیں گے۔ اور ان کا غضب نہایت ہولناک ہو گا۔
ہمارے شہر اور جنگل، ہمارے کھیت اور گاؤں کئی دن تک متواتر جلتے رہیں گے۔ دریا زہر میں تبدیل ہو جائیں گے۔ فضا آگ میں بدل جائے گی۔ ہوا اس آگ کے شعلوں کو دور دور تک پھیلا دے گی۔ جب جلنے کے قابل ہر شے جل چکی ہو گی اور آگ بجھ جائے گی تو دھواں اٹھ کر سورج کو ڈھانپ لے گا۔ زمین پر تاریکی چھا جائے گی۔ پھر دن نہیں نکلے گا۔ کبھی نہ ختم ہونے والی رات شروع ہو گی۔ درجۂ حرارت گر کر نقطۂ انجماد سے نیچے چلا جائے گا اور ایٹمی موسمِ سرما کا آغاز ہو جائے گا۔ پانی زہریلی برف میں تبدیل ہو جائے گا۔ ریڈیو ایکٹو اثرات زمین کی تہوں میں اُتر کر سطح کے نیچے پانی کے ذخیروں کو آلودہ کر دیں گے۔ بیشتر زندہ چیزیں __ جانور اور نباتات، سمندری اور گھریلو جاندار __ مر جائیں گی۔ صرف چوہے اور کاکروچ اپنی نسل بڑھائیں گے اور باقی ماندہ خوراک حاصل کرنے کے لیے باقی ماندہ انسانوں سے مقابلہ کریں گے۔
تب ہم کیا کریں گے __ یعنی ہم میں سے وہ لوگ جو اُس وقت تک زندہ رہے؟ کھال جلی ہوئی، آنکھیں بینائی سے محروم، بال جھڑے ہوے اور جسم شدید بیمار، اپنے بچوں کے کینسرز دہ ڈھانچوں کو بازوؤں میں سنبھالے، ہم لوگ کہاں جائیں گے؟ کیا کھائیں گے؟ کیا پیئں گے؟ کس ہوا میں سانس لیں گے؟
بھابھا ایٹمی ریسرچ سینٹر، بمبئی، کے صحت، ماحول اور تحفظ کے گروپ کے سربراہ کے پاس اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ایک منصوبہ موجود ہے۔ اس نے ایک انٹرویو (“دی پائنیر”، ۲۴اپریل ۱۹۹۸) میں اعلان کیا کہ ہندوستان ایٹمی جنگ سے گزر کر بچ سکتا ہے۔ اس کا مشورہ ہے کہ ایٹمی جنگ ہونے کی صورت میں ہمیں تحفظ کے انھیں اقدامات پر عمل کرنا چاہیے جو سائنس دانوں نے ایٹمی پلانٹ پر کسی حادثے کی صورت میں تجویز کیے ہیں۔
آیوڈین کی گولیاں کھائیں __ یہ اس کا مشورہ ہے __ اور دوسری احتیاطیں کریں، مثلاً باہر نہ نکلیں، کھانے پینے کے لیے صرف ذخیرہ کی ہوئی اشیا استعمال کریں اور دودھ سے پرہیز کریں۔ شیرخوار بچوں کو پاؤڈر کا دودھ دیں۔ “خطرے کے زون میں موجود لوگوں کو چاہیے کہ فوراً گراؤنڈ فلور پر، اور اگر ممکن ہو تو تہہ خانے میں، چلے جائیں۔”
عقل کے فتور کی ایسی منزلوں کے سلسلے میں آپ کیا کر سکتے ہیں؟ ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے جب آپ کسی دماغی شفا خانے میں قید ہوں اور ڈاکٹر تمام خطرناک ذہنی مریض ہوں؟
ان باتوں کو نظرانداز کر دیجیے، یہ محض ایک ناول نگار کے جاہلانہ خیالات ہیں __ وہ لوگ آپ سے کہیں گے __ محض ایک یاسیت پسند ذہن کی مبالغہ آرائی۔ ایسی صورتِ حال کبھی رونما نہیں ہو گی۔ ایٹمی اسلحے کا تعلق جنگ سے نہیں بلکہ امن سے ہے۔ DETERRENCEاُن لوگوں کا پسندیدہ لفظ ہے جو خود کو عقاب (hawks) سمجھنا پسند کرتے ہیں۔ (عقاب بڑا شاندار پرندہ ہے۔ خنک مزاج۔ اسٹائلش۔ شکار کرنے والا۔ افسوس کہ جنگ کے بعد ان میں سے بیشتر ہلاک ہو چکے ہوں گے۔ EXTINCTIONوہ لفظ ہے جس کا ہمیں خود کو کوشش کر کے عادی بنانا ہو گا۔) اس پرانے نظریے کو، کہ ایٹمی اسلحہ جنگ کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے، دوبارہ زندہ کیا گیا ہے اور اس میں مقامی رنگ شامل کر کے نئی شکل دی گئی ہے۔ سرد جنگ کو تیسری عالمی جنگ میں بدلنے سے بچانے کا سہرا اس نظریے نے اپنے سر باندھ لیا ہے۔ حالاں کہ تیسری عالمی جنگ کے بارے میں صرف ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے: کہ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد لڑی جانی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اس کا کوئی وقت معیّن نہیں ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس اب بھی وقت ہے۔ اور تیسری عالمی جنگ (تھرڈ ورلڈ وار) کی اصطلاح میں “تیسری دنیا” کے لیے جو اشارہ ہے اسے پیش گوئی سمجھنا چاہیے۔ درست، کہ سرد جنگ ختم ہو چکی ہے، لیکن ہمیں ایٹمی اسلحے کے سلسلے میں دس برس کی خاموشی سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ یہ محض ایک ظالمانہ مذاق تھا۔ اس بیماری میں صرف ذرا سا وقفہ آیا تھا؛ اس کا علاج نہیں ہوا تھا۔ دس برس کا یہ وقفہ کسی نظریے کو درست ثابت نہیں کرتا۔ دنیا کی تاریخ میں دس برس کے عرصے کی کیا اہمیت ہے؟ یہ دیکھیے، یہ بیماری پھر ظاہر ہوئی۔ پہلے سے زیادہ وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی، اور علاج کو پہلے سے کہیں زیادہ بے اثر ثابت کرنے والی۔ نہیں، اس نظریے میں کہ ایٹمی اسلحہ جنگ کے خلاف رکاوٹ ہے، کچھ بنیادی نقائص موجود ہیں۔
نقص نمبر ایک یہ ہے کہ اس میں فرض کیا گیا ہے کہ ہمیں اپنے دشمن کی نفسیات کے بارے میں مکمل اور تفصیلی آگہی حاصل ہے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ جو چیز (اپنے نیست و نابود ہو جانے کی دہشت) ہمیں جنگ سے باز رکھتی ہے وہ ہمارے دشمن کو بھی جنگ سے باز رکھے گی۔ لیکن اُن لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنھیں اس خیال سے دہشت محسوس نہیں ہوتی؟ خود کُش بمبار کی سائیکی __ یعنی “تم کو ساتھ لے کر مروں گا” والا مکتبِ فکر __ کیا کوئی ایسی انوکھی انہونی چیز ہے؟ یاد نہیں راجیو گاندھی کیسے قتل ہوا تھا؟
پھر یہ بھی سوچیے کہ “ہم” کون ہیں اور “دشمن” کون ہے۔ یہ دونوں حکومتیں ہیں۔ حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ وہ نقابوں کے اندر نقابیں پہنتی ہیں۔ وہ کینچلیاں بدلتی اور خود کو نئی صورت دیتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر اِس وقت ہماری جو حکومت ہے اس کے پاس پارلیمنٹ میں اتنی سیٹیں بھی نہیں ہیں کہ وہ اقتدار کا پورا عرصہ گزار سکے، لیکن اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم اسے ایٹمی اسلحے سے کھیلنے اور کرتب دکھانے کا اختیار دے دیں جبکہ وہ پارلیمنٹ میں محض پیر کا انگوٹھا ٹکائے رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہو۔
نقص نمبر دو یہ ہے کہ اس نظریے کی بنیاد خوف پر ہے۔ لیکن خوف کی بنیاد علم پر ہوتی ہے۔ یعنی ایٹمی جنگ سے باز رہنے کا خوف اس بات پر منحصر ہو گا کہ اس جنگ سے ہونے والی تباہی اور بربادی کی سطح اور وسعت کا درست علم پایا جاتا ہو۔ یہ ایٹمی اسلحے کی کوئی باطنی، پراسرار خصوصیت نہیں ہے کہ اس سے امن کے خیالات پیدا ہوتے ہوں۔ حکومتوں کو جنگ سے باز رکھنے والی شے ایٹمی اسلحے کا وجود نہیں بلکہ اُن لوگوں کی مسلسل، انتھک اور مردانہ وار جدوجہد ہوتی ہے جو ایٹمی اسلحے کی بر سرِ عام مخالفت کرتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں، مظاہرے کرتے ہیں، فلمیں بناتے ہیں اور اپنے طیش کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی جدوجہد تھی جس نے ایٹمی جنگ کو روکا، یا عارضی طور پر ٹالا۔ اس جہالت اور بے علمی کی موجودگی میں جو ہمارے دونوں ملکوں پر ایک گاڑھے، ٹھوس کہُرے کی طرح چھائی ہوئی ہے، ایٹمی اسلحہ جنگ کو روکنے کا ذریعہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ (آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح وِشو ہندو پریشد پوکھرَن کے صحرا کی ریڈیو ایکٹو ریت ہندوستان بھر میں پرساد کی طرح بانٹنا چاہ رہی تھی۔ شاید اسے “کینسر یاترا” کا نام دیا جاتا!) ایسی دنیا میں جہاں ایٹمی جنگ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے مقابلے کے لیے آیوڈین کی گولیاں تجویز کی جا رہی ہوں، یہ نظریہ، کہ ایٹمی اسلحہ جنگ کو روکتا ہے، ایک خطرناک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ہندوستان اور پاکستان دونوں کے پاس اب ایٹم بم موجود ہیں، اور دونوں کے پاس انھیں رکھنے کا جواز بھی موجود ہے۔ بہت جلد اسرائیل، ایران، عراق، سعودی عرب، ناروے، نیپال، (میں ہر طرف سے مثالیں جمع کر رہی ہوں) ڈنمارک، جرمنی، بھوٹان، میکسیکو، لبنان، سری لنکا، برما، بوسنیا، سنگاپور، شمالی کوریا، سویڈن، جنوبی کوریا، ویت نام، کیوبا، افغانستان، ازبکستان… سب کے پاس یہ دونوں چیزیں موجود ہوں گی۔ اور کیوں نہ ہوں؟ دنیا کا ہر ملک اپنا منفرد مقدمہ تیار کر سکتا ہے۔ ہر ملک سرحدیں اور اعتقادات رکھتا ہے۔ اور جس وقت ہم سب ملکوں کے توشہ خانے چمکتے ہوے بموں سے بھرے ہوں گے اور ہمارے پیٹ خالی ہوں گے، ہم ان بموں کا سودا کر کے ان کے بدلے میں خوراک حاصل کر سکیں گے۔ اور جب ایٹمی ٹیکنولوجی بازار میں بکنے والی شے بن جائے گی، جب کاروباری مسابقت کے زیرِ اثر اس کی قیمتیں گر جائیں گی، تب یہ محض حکومتوں کی ملکیت نہیں رہے گی بلکہ کوئی بھی شخص یا گروہ جو قیمت ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو __ تاجر، دہشت گرد، شاید کبھی کبھی مال دار ہو جانے والا کوئی ادیب بھی (جیسے مَیں) __ اپنا ذاتی اسلحہ خانہ تیار کر سکے گا۔ ہماری پوری زمین خوب صورت میزائلوں سے جگمگانے لگے گی۔ یہ ایک نیا عالمی نظام ہو گا __ نیوک (nuke) نواز طبقے کی آمریت۔ ہم ایک دوسرے کو دھمکا کر خود کو تسکین دے سکیں گے۔ یہ بالکل بَنگی جمپنگ کی طرح ہو گا، جبکہ آپ کو رسّی کی مضبوطی کا اطمینان بھی نہ ہو، یا دن بھر رَشین رُولیٹ کھیلنے کی طرح۔ ایک اضافی فائدہ یہ ہو گا کہ ہمیں کچھ نہیں معلوم ہو گا کہ کس بات پر یقین کیا جائے۔ ہم گرین کارڈ حاصل کرنے کے متمنی کسی بھی نوسر باز کے وحشیانہ تخیل کا شکار ہو سکیں گے جو مغرب میں پہنچ کر اعلان کر دے کہ میزائلوں کا حملہ ہونے ہی کو ہے۔ ہم اس امکان پر بھی مسرور ہو سکتے ہیں کہ ہم ہر حقیر ہنگامہ باز یا افواہ طراز کے ہاتھوں میں یرغمال رہیں گے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی بہتر ہو گا کیوں کہ اس سے ہمیں اَور زیادہ تعداد میں بم تیار کرنے کا بہانہ مل سکے گا۔ تو آپ نے دیکھا، کہ اگر جنگ نہ بھی ہو تو ہماری تواضع کے لیے کیسے کیسے امکانات موجود ہیں۔
لیکن یہاں ہمیں ایک لمحہ رک کر سوچنا چاہیے کہ اس صورتِ حال کا سہرا کس کے سر باندھا جائے۔ ان امکانات کے لیے ہمیں کس کا شکرگزار ہونا چاہیے؟
اُن افراد کا جنھوں نے اس واقعے کو ممکن بنایا۔ جو کائنات کے حکمراں بن بیٹھے ہیں۔ خواتین و حضرات، ریاست ہائے متحدہ امریکا! اِدھر اوپر اسٹیج پر چلے آؤ اور جھک کر حاضرین کو آداب کرو۔ دنیا کے ساتھ یہ سلوک کرنے کا شکریہ۔ اپنی اہمیت منوانے کا شکریہ۔ ہمیں یہ راستا دکھانے کا شکریہ۔ زندگی کے معنی تک بدل ڈالنے کا شکریہ۔
آئندہ سے ہمیں موت سے نہیں زندگی سے خوف زدہ رہنا ہو گا۔
یہ سوچنا نہایت فاترالعقل لوگوں کا کام ہے کہ ایٹمی اسلحہ صرف اُس وقت ملک ثابت ہوتا ہے جب اس کا استعمال کیا جائے۔ صرف اس کے ہونے کی حقیقت، ہماری زندگی میں اس کی موجودگی ایسی قیامتیں برپا کرنے والی ہے جن کا ہمیں ابھی گمان تک نہیں ہوا۔ ایٹمی اسلحہ ہمارے سوچنے کے انداز میں داخل ہو جاتا ہے، ہمارے طرزِ عمل کو کنٹرول کرنے لگتا ہے، ہمارے معاشروں کے خدوخال متعین کرنے لگتا ہے، ہمارے خوابوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ ایٹمی ہتھیار گوشت لٹکانے والے آنکڑوں کی طرح ہمارے دماغوں میں گہرے اُتر جاتے ہیں۔ ایٹمی ہتھیار پاگل پن کے پیغامبر ہیں۔ دنیا کے کامیاب ترین نوآبادیات قائم کرنے والے ہیں۔ کسی بھی سفید فام شخص سے کہیں زیادہ۔ سفید پن کا قلبِ ظلمات۔
یہاں ہندوستان میں __ اور یہاں سے تھوڑی سی دور پاکستان میں __ ہر مرد، عورت اور سائنس داں بچے سے میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں: اسے اپنا ذاتی مسئلہ سمجھیے۔ آپ جو کوئی بھی ہوں __ ہندو، مسلمان، شہری، دیہاتی __ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ایٹمی اسلحے کے بارے میں جو واحد اچھی بات کہی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ یہ انسان کے ذہن میں آنے والا ایسا خیال ہے جو اس قسم کے ہر فرق کو مسمار کر دیتا ہے۔ جب وہ دن آئے گا تو آپ سے آپ کے ذاتی کوائف نہیں پوچھے جائیں گے۔ تباہی ہر ایک کے لیے یکساں ہو گی۔ اور ایٹم بم آپ کے گھر کے پچھواڑے رکھا ہوا نہیں ہے __ وہ آپ کے جسم کے اندر موجود ہے۔ اور میرے۔ کسی کو، کسی قوم، کسی حکومت، کسی انسان، کسی خدا کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہمارے جسموں کے اندر بم رکھ دے۔ ہم اس بم کے اثر سے ریڈیو ایکٹو ہو چکے ہیں، اور جنگ ابھی شروع بھی نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے آپ کو کھڑے ہو کر کچھ نہ کچھ کہنا ہو گا۔ اگر یہ بات پہلے کہی جا چکی ہے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ آپ کو اپنی جانب سے یہ بات کہنی ہے۔ یہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔
***