پاگل بنا دیا ہے تیری سیاست نے مجھے
کیا سچ ہے کیا جھوٹ،اے خدا تو ہی بتا
کب تک چلیں گی آخر یہ رنجشیں
کب ملیں گے یہ دل،اے خدا تو ہی بتا
ہوتا میرے بس میں تو مٹا دیتا سب کدورتیں
لفظ نفرت آیا کہاں سے،اے خدا تو ہی بتا
کون کس کو چاہتا ہے کتنا یہ کون جانے
میرا کون ہے جہاں میں،اے خدا تو ہی بتا
ہوں میں ہی کیوں برا دنیا کی نظر میں
حقیقت ہے میری کیا،اے خدا تو ہی بتا
جانے کب انتہا ہو جائے میرے صبر کی
کتنا برداشت کروں،اے خدا تو ہی بتا
دل کاتب نہیں مانتا سمیع سے شکوہ کرے کوئی
تجھ سے نہیں تو کس سے کروں،اے خدا تو ہی بتا
وہ بڑے انہماک سے اپنی ڈائری پہ خوبصورت سطریں لکھ رہا تھا، چہرہ اُداس تھا، دو دن سے وہ بھی خود کو نظر بند کیے ہوۓ تھا، نا کچھ کھا رہا تھا نا کسی سے بات کر رہا تھا، پیرس کی خشگوار شامیں ایک دم سے اُداسی کا لبادہ اوڑھے چلی آئی تھیں، پیرس کی ہواں میں آج بھی ہفتے بھر پہلا کا دکھ جو چھپکے سے شیری کی زندگی سے گزرا تھا ان ہواؤں میں وہ آج بھی کہیں شامل تھا۔۔۔۔اے۔جے ہر بار دروازہ ناک کرتیں اور پھر خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتیں، اس نئے انکشاف سے ان دونوں کہ رشتے میں ایک بار پھر سے دیوار کھڑی ہو گئی تھی، شیری ایک بار پھر سے ماں سے دور دور الگ تھلگ رہنے لگا تھا، نین کی کہی ہوئی باتیں شاید وہ فراموش کر بیٹھا تھا ورنہ اے۔جے کہ ساتھ ایسا رویہ کبھی روا نا رکھتا۔۔۔۔۔
پورا دکھ اور آدھا چاند
ہجر کی شب اور ایسا چاند
دن میں وحشت بہل گئی
رات ہوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہوگا
اتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند
آنسو روکے نور نہائے
دل دریا تن صحرا چاند
اتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھا
تو نے کس کو سوچا چاند
برگد کی اک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند
بادل کے ریشم جھولے میں
بھور سمے تک سویا چاند
رات کے شانے پر سر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند
سوکھے پتوں کے جھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہوگا
اس کی صورت ہجر کا چاند
صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچا چاند
رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند
وہ اُٹھ کر کھڑکی کہ پاس چلا آیا اور دونوں ہاتھوں سے کھڑکی کہ دونوں پٹ کھول دیۓ، ہوا کا تیز جھونکا اسکہ چہرے سے ٹکرایا تو اس نے نظریں اُٹھا کر چاند کو دیکھا اور پھر ڈائری کھول کر ایک خوبصورت غزل اُداس چاند کہ نام کر دی۔۔۔۔ابھی وہ کچھ اور بھی لکھنا چاہتا تھا، آج اسے چاند اپنا ہمجولی لگا تھا تو وہ بھی دل کھول کر چاند کی تعریف میں چار چاند لگا کر اپنے دکھ کو ہلکا کرنا چاہتا تھا جبھی ایک بار پھر سے اے۔جے کی آواز اُبھری شیری نے اکتاہٹ سے دروازہ کی طرف دیکھا اور پھر دائری ایک طرف رکھ کر دروازے تک گیا اور پھر کچھ سوچتے ہوۓ دروازہ کھول دیا
اے اس کی عین سامنے کھڑی اسے بغور دیکھنے کہ بعد بولیں
“ہم کل شام کی فلائٹ سے پاکستان جا رہے ہیں تیاری کر لو ” کہہ کر وہ پلٹنے لگیں جبھی شیری نے انکو روک لیا وہ بے یقینی سے انہیں دیکھتے ہوۓ بولا۔
“موم آ۔۔۔ آپ سچ کہہ رہی ہیں ہم پاکستان جا رہے ہیں، اور آپ۔۔۔ آپ ماموں سے میرے اور نین کہ رشتے کی بات کریں گی نا؟ بولیں نا موم آپ بات کریں گی نا”؟
“شیری بیٹا میں وعدہ تو نہیں کرتی کہ میں تمہارے مامو کو منا پاؤں گی یاں نہیں لیکن اس بار بات میرے بیٹے کی زندگی کی ہے مجھے جو کرنا پڑا میں کروں گی،بھائی کو مناؤں گی۔ تم اپنی تیاری مکمل رکھو کل شام 6 بجے کی فلائٹ ہے” کہہ کر وہ پلٹ گئیں اور شیری کہ چہرے پہ ایک بار پھر سے خوشی کہ زنگ بکھر گۓ اور پھر جوش میں آ کر بولا تھا
“نین سکندر تیار ہو جاؤ تمہارا شہریار آ رہا ہے، اب یہ فاصلے ختم ہو کے رہیں گے، سو بی ریڈی آئی ایم کمنگ”اور پھر فوراً اپنی وارڈروب کھول کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔
****========****
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح
ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
پروین شاکر کی خوبصورت غزل چل رہی تھی اور نین سکندر آئینے کہ سامنے کھڑی بالوں میں برش کر رہی تھی لیکن انداز کھوۓ کھوۓ سے تھے وہ غزل میں بولے گۓ الفاظوں کا موازنہ اپنے دکھ کہ ساتھ کر رہی تھی۔۔۔۔ آج بڑے دنوں بعد وہ پرانی ساری باتوں کو بھلا کر ملنجھے کپڑے بدل کر فریش ہو کر تیار ہوئی تھی جب اُسے پہلے سے پتہ تھا کہ یہ سب ہونے والا ہے پھر یہ روگ کیسا اور وہ کیوں خوام خواہ گھر والوں کو پریشان کرتی اس لیے اپنی تکلیف کو چھپاتے ہوۓ نارملی بی ہیو کر رہی تھی
فریش ہو کر وہ نیچے چلی آئی ماما کیچن میں تھیں،اور کیچن سے اشتہاانگیز خوشبو باہر لائونج تک پھیلی ہوئ تھی تبھی نین کینچ میں جھانکتے ہوۓ بولی۔
“ماما بڑی خوشبو پھیلا رکھی ہے کیا بنا رہی ہیں ؟ اور اتنا سارا کھانا کس لیے کیا کوئی مہمان آ رہا ہے”۔۔ ۔۔
“ہاں بیٹا تمہارے ماموں اور مومانی آ رہے ہیں سب بچوں کہ ساتھ” وہ ہانڈیا میں چمچ چلاتے ہوۓ مصروف انداز میں بولیں
“اوے اچھا۔۔۔ مجھے بتا دیتیں میں بھی کچھ مدد کروا دیتی”، وہ ہونٹوں کو اوے میں سکیوڑتے ہوۓ بولی ۔
“ارے نہیں کوئی بات نہیں تمہیں یہ سب کہاں آتا ہے ابھی مدد کروانے کی جگہ کام بگاڑنا ہی تھا تم نے، ویسے بھی اب تو سب ریڈی ہے”وہ نین کو پیار سے دیکھتے ہوۓبولیں تو نین بھی فوراً چہک کر بولی۔۔۔۔
“ماما اب ایسی بھی کوئی بات نہیں، میں دو سال دیارے غیر میں گزار کر آئی ہوں اور ان دو سالوں میں آپکی بیٹی نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور ویسے بھی اے۔جے آپکی طرح بہت اچھا کھانا بناتی ہیں ان سے سب سیکھ کر آئی ہوں” اس دن کہ بعد سے وہ دونوں آج براہراست گفتگو کر رہی تھیں اور نین نے ایک بار ہھر اے۔جے کا زکر چھیڑ کا ماما کو چونکا دیا تھا۔۔۔۔
“اچھا اور کیا کیا سیکھایا ہے تمہاری اے۔جے نے”وہ مسکرا کر بولیں
“بہت کچھ ماما آپ کو یاد ہے آپ مجھے کتنا کہتیں تھیں کہ کھانا بنانا سیکھ لو یہ کر لو وہ کر لو لیکن میں نے کبھی آپکی بات نہیں مانی تھی، لیکن باہر جا کر جب کچھ بنانا نہیں آیا اور کافی پریشانی اُٹھانی پڑی پھر خیال آیا کہ آپ ٹھیک کہتی تھیں اور پھر اے۔جے نے میری ہلپ کی جب جب میں ان کہ پاس جاتی وہ کچھ نا کچھ سیکھانے کھڑی ہو جاتیں اور آج میں اگر اچھا کھانا بنانا سیکھی ہوں تو صرف ان کی وجہ سے” نین پیار سے ماما کہ گرد باہیں حمائل کرتے ہوۓ بولی
“اچھا چلو آج تو تمہاری چھٹی ہوئی لیکن ریڈی ہو جاؤ اب تمہارے ہاتھ کا کھانا ہم سب ضرور کھائیں گے”وہ بھی بیٹی کہ سر پہ پیار دیتے ہوۓ بولی تھیں۔
گاڑی کا ہرن بجا تو نین فوراً باہر کو بھاگی
بالوں کو پیچھیے کی طرف کرتے راہداری سے ہوتے ہوۓ وہ ہرن کی آواز سن کر باہر آ گئی لیکن باہر گیرج میں آتے ہی اس کہ قدم منجمند ہو گے وہ ٹھٹھک کر رک گیی اور پھٹی پھٹی خیران نظروں سے سامنے دیکھنے لگی جہاں اے۔جے شیری اور لنڈا کہ ساتھ گاڑی سے اتر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
“نین۔۔۔۔۔ او نین تم نہیں جانتی تمہیں کتنا مس کیا میں نے، دیکھ لو تمہاری یاد اتنی آئی کہ میں بھی اے۔جے کہ ساتھ چلی آئی، مجھے کل رات کو ہی اے۔جے نے خبر کی اور پھر جس طرح افرا تفری میں یہ سب کام ہوا بتانا مشکل ہے”۔۔۔۔لنڈا نین کو گلے لگاتے ہوۓ خوشی سے بولی تھی پر نین کی نظریں شیری پہ ہی ٹکی تھیں جسے دیکھنے کہ لیے وہ بےقرار تھی وہ آج اسکہ روبروح تھا، انجانا سا خواب حقیقت بن کر آیا تھا، نین کی آنکھیں پانی سے بھر گئیں تو اسنے بھی لنڈا کو گلے لگا کر آنسوؤں کا جھرنا اندر ہی اتارا۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ آگے بھڑ کر اے۔جے سے ملی نظریں شیری سے ہٹ کہ ہی نہیں دے رہی تھیں اور وہ تو نین کو دیواناوار دیکھ رہا تھا جیسے سدیوں کی پیاس بجھا رہا ہو، جیسے اس پل کو اپنی آنکھوں میں قید کر لینا چاہتا ہو۔۔۔۔
“نین۔۔۔ بیٹا کون آیا ہے؟ نگین بیگم خود ہی باہر آ کر پوچھنے لگیں۔۔۔۔ علینا کو دیکھ کر وہ بھی ٹھٹھک کر رُک گئیں پچس برس بعد وہ علینا کو دیکھ رہی تھیں،،، جب وہ یہاں سے گئی تھیں تو کتنی دُبلی پتلی سی تھی اور اب کی علینا بھاری برکم جسامت والی پرانی علینا سے محبت محتلف تھی۔۔۔۔۔
بھا۔۔۔ بھابھی۔۔۔۔ نگین بیگم کو حیران دیکھ کر اے۔جے فوراً آگے بھڑ گئیں اور نگیں سے لپٹ کر رو دئیں تو نگیں بیگم کا بھی سکتا ٹوٹا برسوں بعد ایک ہی گھر کہ دو مکین ملے تھے تو آنسوؤں کا چھپکے سے چلے آنا تو بنتا تھا آنسوؤں کا تو انسانی روح سے ویسے بھی بہت گہرا رشتہ ہے یہ کبھی بھی چلے آتے ہیں خوشی کا موقع ہو تب بھی اور دُکھ کا موقع ہو تب بھی۔
شیری نے آہستہ سے نین کا ہاتھ پکڑا تو نین نے فورا اسکی آنکھوں میں دیکھا، وہ قریب ہو کر سرگوشی میں بولا۔۔۔۔۔ “دیکھ لو نین سکندر میں آ گیا اب جب تک سب ٹھیک نہیں ہو جاتا ماموں خود اپنی راضامندی سے تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں نہیں دے دیتے میں کہیں نہیں جانے والا،، تم تیار ہو جاؤ شہریار ملِک کی دُلہن بننے کہ لیے”،، وہ شرارت ست بولا تو نین کہ چہرے پہ حیا کہ رنگ بکھر گۓ اور پھر ہاتھ چھڑوا کر شرارت سے بولی۔۔۔۔۔ ویٹ کرو شہریار ملِک فیصلہ تم نہیں پاپا کریں گے، پہلے ان سے تو نپٹ لو۔۔۔۔۔۔
علینا تم کہاں چلی گئی تھی، مانا تمہارے بھائی تمسے ناراض تھے پر اتنی بھی کیا ناراضگی کہ تم ایسی گئی کہ پھر لوٹ کر کبھی نہیں آئی ایک بار کوشش تو کرتی تمہیں پتہ ہے تمہارے بھائی تم سے بہت محبت کرتے ہیں وہ تمہیں تھوڑی ڈانٹ پلا کر معاف کر دیتے، کم از کم روشتوں میں اتنے برسوں کی دوری تو نا آتی،،،، نگین بیگم علینا کو خود سے الگ کرتے ہوۓ ڈبٹ کر بولی تھیں اور پھر شہریار پہ نظر پڑتے ہی بولیں
“یہ۔۔۔ یہ کون ہے”۔۔۔
“بھابھی یہ میرا بیٹا ہے شہریار”اے۔جے آنسو صاف کرتے ہو۔ مسکرا کر بولیں۔
“کیا۔۔؟؟؟ تمہارا بیٹا ۔۔۔؟؟سچ میں یہ اتنا پیارا سا لڑکا تمہارا بیٹا ہے”؟؟؟ نگین بیگم محبت سے آگے بڑھیں اور شیری کہ سر پہ پیار دیتے ہوۓ بولی تھیں
اور اسے پہلے کہ وہ اُن سب کو لے کر اندر بھڑتیں۔۔۔۔۔ سکندر علیم کی کرہت آواز سن کر وہ سب بھونچال رہ گیۓ۔۔۔
“رک جائیے نگین بیگم خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو،،،،، اسے کہو چلی جاۓ یہاں سے یہاں اسکا کوئی نہیں رہتا، جیسے بابا مر گۓ ویسے یہ، یہ بھی سمجھ لے کہ اس کا بھائی بھی مر گیا”۔۔۔۔۔ بھائی کہ الفاظوں پہ جہاں علینا تلملا اُٹھیں وہیں نگین بیگم بھی بول پڑیں۔۔۔۔۔۔
“سکندر بس کر دیں کیا ہو گیا ہے آپ کو علینا سے جو غلطی ہو گئی ہے اب اس پرانی بات کو دوبارہ اُٹھانے کا کیا فائدہ، کیا اسے بابا لوٹ آئیں گے؟پلیز سکندر خُدارا بس کر دیں علینا کو اسکی غلطی کی سزا مل چکی ہے اب وہ مزید سزا کی حقدار نہیں ہے، آپ اسے مزید سزا دے کر غلط کر رہے ہیں، اتنے میں تو خدا بھی معاف کر دیتا ہے پھر آپکا دل اتنا سخت اتنا کٹھور کیسے ہو گیا کہ آپ اپنے خون کو ہی معاف نہیں کر پا رہے۔۔۔غور سے دیکھیں اسکا چہرہ کہیں کو خوشی یاں اچھی زندگی گزارنے کا کو تاثر نظر آ رہا ہے آپکو؟؟ نہیں نا؟ کیوں کہ ہمیں نا خوش کر کہ وہ خود بھی کبھی خوش نہیں رہی، پلیز بھول جائیں پرانی باتوں کو آپکی بہن آپکہ سامنے شرمندہ ہے مزید ظلم نا کریں میری خاطر ان بچوں کی خاطر معاف کر دیں بہت ارسے بعد خوشیاں دوبارہ دستک دے رہی ہیں انہیں ہاتھ پکڑ کر روکنے کی بجاۓ آپ واپس لوٹا رہے ہیں نا کریں سکندر پلیز مان جائیں” شادی کہ 30 سالوں میں آج پہلی بار نگین بیگم ایسے انچی آواز میں بولی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
“نگین بیگم اگر میرے اور اہنے رشتے کا زرا بھی لیخاظ ہے آپکو تو اسے یہاں سے واپس بھیج دیں”کہہ کر وہ اندر چلے گۓ تھے
نین کی آنکھوں میں ایک بار پھر سے فکرمندی کہ تاثرات اُمڈ آۓ، آنسو چھلکنے کو تیار تھے۔۔
اسے پہلے اس کہ آنسو بے قابو ہو کر اسکا گلابی گال بھیگوتے، نگین بیگم کی آواز پہ وہ سنبھل گی
علینا ہمت رکھو اتنے سالوں کی کرواہٹ اتنی آسانی سے نہیں جاۓ گی کچھ ٹائم لگے گا لیکن مجھے اُمید ہے سب ٹھیک ہو جاۓ گا، سکندر تمہیں معاف کر دیں گے”کہہ کر وہ علینا کا ہاتھ پکڑ کر اندر کی جاند مڑ گئیں۔۔۔۔۔
******=========*******
“نین تمہارا گھر بہت خوبصورت ہے کتنی خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا ہوا ہے” لنڈا فریش ہونے کہ بعد نین کا گھر ستائش بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولی تھی
“نین۔۔۔ ہیلو نین کہاں کھوئی ہوئی ہو یار تم سے بات کر رہی ہوں” نین کو مسلسل کھویا کھویا دیکھ کر وہ بول پڑی۔
“ہاں کیا۔۔۔ کیا کہہ رہی ہو؟ مجھ سے کچھ کہا”؟ نین ایک دم سے ہوش میں آ کر بولی
“ہاں بلکل تم سے ہی بات کر رہی ہو، ان دیواروں سے اب بھلا میں کیا بات کروں””؟
شرارت سے بولی تو نین بھی ہلکا سا مسکرا دی
“یہ ہوئی نا بات دیکھو فضول لڑکی میری بات سنو تم ایسے ہستی ہوئی بہت اچھی لگتی ہو، تو پلیز ہر وقت منہ پہ باراں کیوں بجاۓ رکھتی ہو، ہاں ہاں پتہ ہے تمہیں اُس کمینے شیری سے محبت ہو گئی ہے، پر اب ایسا بھی کیا روگ کہ بندہ مسکرانا ہی بھول جاۓ۔۔۔۔
“ہاں بلکل میں بھی تو یہی کہنا چاہ رہا تھا”،،، لنڈا کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی شیری بول پڑا،،، نین نے اسے دیکھا دو پل کہ لیے نظریں ملی تو وہ سارے ارمان پھر سے جاگ اُٹھے جو کہیں جا سوۓ تھے، محبت کی آندھیاں پھر سے چل اُٹھی تھیں، وہ محبت ہی کیا جو سامنے ہو اور دل بنا دھڑکے خاموشی احتیار کیے رھے، نظریں بھی ایسی ملی تھیں کہ جس کہ سامنے ہر منظر دندھلا پڑ رہا تھا، سانسیں بھی مدھم مدھم چلنے لگیں کہ دو پل کی یہ گھڑی کہیں طویل مصافتوں کی مسافر نا بن جاۓ۔۔۔۔۔
“آہم آہم آہم۔۔۔۔۔ کچھ تو شرم کرو تم دونوں میں سامنے کھڑی ہوں اور تم دونوں کا رومانس ہی ختم نہیں ہو رہا، ارے بھئ رومانس کہ لیے ساری زندگی پڑی ہے ابھی میرے سامنے تھوڑا۔۔۔۔ آگے بات ادھوری چھوڑ کر وہ ان دونوں کی طرف دیکھنے لگی جو اسے کھانستا دیکھ کر ہی گڑبڑا کر سیدھے ہوۓ تھے۔۔۔۔
“نین یقین مانو مامو سے زیادہ تو تمہاری سب سے بڑی دُشمن یہ۔۔۔ یہ تمہاری سو کال بیسٹ فرینڈ ہی ہے”شیری ناک منہ چڑھا کر انگلی لنڈا کی طرف کرتے ہوۓ احتجاجاً بولا۔۔۔۔۔ تو لنڈا نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔۔ اسکی گھورنے کو نظر انداز کر کہ پھر بولا۔۔۔۔۔ “دو پل ملے ہیں دو محبت کرنے والوں کو ایک دوسرے کی قربت میں گزارنے کہ لیے اور یہ کباب میں ہڈی بن کر گھسی ہوئی بیچ میں بنٹی پتہ نہیں کیسے جھیلتا ہو گا اسے مجھے سمپتھی ہے بےچارے بنٹی سے اگر جو اسے کسی کام کہ سلسلے میں امریکا نا جانا پڑتا تو یقیناً یہ ہمارے ساتھ نا آتی” وہ جل بھن کر بولا تھا۔۔۔۔۔
“بس کرو تم، اگر میں نا آتی تو تم یہاں کیسے آتے بھلا، میرا شکریہ ادا کرو میرا، جس نے تمہاری اُداس صورت دیکھ کر نین کہ گھر کا اڈریس دے دیا ورنہ تم دیوداس بن کر وہیں سڑتے رہتے۔۔۔۔ نہوں” وہ بھی لنڈا تھی خاضر جواب۔۔۔۔ کہہ تو وہ ٹھیک رہی تھی، سواۓ لنڈا کہ نین نے کبھی کسی کو اپنا پرسنل اڈریس نہیں دیا تھا، کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی، لیکن لنڈا نے اسے اڈریس لے لیا تھا،کہ کبھی جو اسکا دل مانا تو وہ پاکستان ملنے چلی آۓ گی اور پاکستان آنے پہ اسے کوئی مشکل نا پیش آۓ اس لیے اس نے اڈریس لے کر سنمبھال لیا تھا اور آج وہی کام آیا تھا۔۔۔۔ ورنہ اے۔جے اور شیری کا یہاں پہنچنا بہت مشکل تھا۔
“اچھا بس کرو کیا تم دونوں بچوں کی طرح لڑنے لگ گے ہو” اسے پہلے کہ شیری کچھ بولتا اور پھر لنڈا اسے چار باتیں اور سناتی نین دونوں کہ بیچ حائل ہو گئی اور دونوں کو مزید لڑنے سے باز رکھا۔۔۔۔ ابھی وہ بول رہی تھی جب باہر سے ہرن کی آواز آئی سب نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا،۔۔۔۔ وجی اندر سے شور مچاتا ہوا باہر آیا، “مامو آ گے قاسم بھائی آگے” وہ بھاگتا ہوا دروازے کی طرف گیا جب تک واچ مین دروازہ کھول چکا تھا، سفید مڑسڈیز زن سے اندر داخل ہوئی۔
نین ان دونوں کو چھوڑ کر آگے بھڑی اور فوراً مامو سے لپٹ گئی۔
“ارے نین مامو کی جان، کتنا ستایا ہے تم نے دو سال کی دوری برداشت کرنا کتنا مشکل تھا” مامو ستار نین کو سینے سے لگاۓ ہوۓ بولے تھے۔۔۔ جبھی چھوٹا بیٹا قسم جو انہماک سے نین کو دیکھ رہا تھا بولا۔۔۔۔۔ ” پاپا بس کریں باقی بعد میں مل لیجۓ گا، پیچھے دیکھیں محترمہ کو ملنے کہ لیے لائن لگی ہوئی ہے” قاسم کی بات پہ سب ہنسنے لگے تھے، سب کزنز میں بچپن سے ہی بہت پیار رہا تھا، کبھی کوئی اتنی دور گیا ہی نہیں کبھی لیکن نین کی ضد کہ آگے سب کو ہار ماننا پڑی قاسم نے بھی بھرپور کوشش کی تھی نین کو روکنے کی پر وہ نا مانی اپنے ننھیالی خاندان میں ایک وہ تھی اور ایک حالہ کی بیٹی زینب تھی باقی سب کہ بیٹے تھے، چونکہ نین بڑی تھی اسلیے سب کی نین سے ہی بنتی تھی زینب چھوٹی تھی۔قاسم کی محبت بھری نظریں شیری نے دور سے نوٹ کی تھیں لیکن صبر کرنا مجبوری تھی ورنہ بنتی بات بگڑ بھی سکتی تھی۔۔۔۔۔ ملنے ملانے کہ بعد وہ سب کو لے کر اندر چلی آئی۔۔۔۔۔۔۔۔
******=====******
کھانے کہ بعد چاۓ کا دور چل اُٹھا سب لائونج میں بیٹھے چاۓ پی رہے تھے سب ستار مامو کو علینا کی واپسی کا پتہ چلا اور پھر ان کی نظر کیچن سے جھانکتی علینا پہ پڑی تو فوراً بول اُتھے۔۔
“علینا تم غیروں کی طرح یوں دور کیوں کھڑی ہو آؤ یہاں ہم سب کہ ساتھ بیٹھو چاۓ ہمارے ساتھ پیو”
ستار مامو کی آواز پہ سب نے خاص کر سکندر علیم نے چونک کر دیکھا، علینا آہستہ سے چلتی ہوئی آئی اور ایک طرف ٹک گئیں، علینا کو دیکھتے ساتھ سکندر علیم اُٹھ کھڑے ہوۓ۔۔۔۔ میں سٹڈی میں جا رہا ہوں میری چاۓ وہیں بجوا دیں کہہ کر چلے گے۔ ستار مامو نے بولنے کہ لیے لب وا کیے لکین نگین نے آنکھوں کہ اشارے سے انہیں خاموش کروا دیا کیونکہ وہ نہین چاہتی تھین کہ خوشی کہ ماحول میں بدمزگی پیدا ہو اور ویسے بھی یہ ان کہ گھر کا مسئلہ تھا وہ اسے گھر کہ مکینوں میں ہی نبٹانا چاہتی تھیں۔۔۔۔۔۔ نگین بیگم مامو ستار ان کی بیگم سفینا بیگم اور بڑا بیٹا نوشیرواں اسکی بیگم کرن سب اندر چاۓ سے لطف اندوز ہو رہے تھے، جب کہ باقی سب نین قاسم لنڈا وجی اور شیری باہر لان میں موجود تھے۔۔۔۔
“ہاۓ می قاسم نین کا کزن” ۔۔۔۔ کزن پہ زور دیتے ہوۓ شیری کی طرف ہاتھ بڑھا کر بغور اسے دیکھاتے ہوۓ بولا۔۔۔۔ تو شری کون سا کسی سے کم ہے انٹ کا جواب پتھر سے دینا اسے بحوبی آتا تھا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر فوراً بولا
“ہیلو می شہریار ملِک نین کا کزن”مصافہ کرتے ہوۓ اسنے قاسم کا ہاتھ گرمجوشی سے دباتے ہوۓ باور کروایا کہ میں بھی نین کا ہی کزن ہوں کوئی پڑوسی نہیں۔۔۔۔۔
تبھی قاسم ہاتھ چھڑوا کر نین کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔۔۔
“بڑی بے مروت ہو ویسے باہر جا کر بھول ہی گئی کہ کوئی ہپیچھے بھی تمہارے کچھ لگتے ہیں پاکستان میں، قسم سے یہاں آنے سے پہکے سوچ کر آیا تھا کہ بات نہیں کروں گا سخت ناراض تھا میں” وہ مصنوعی غصہ دیکھا کر بولا۔
“اچھا جب ارادہ کر لیا تھا پھر بدلا کیسے کیوں بات کر رہے ہو” وہ فوراً بولی
“بس کیا کروں تمہاری معصوم سی شکل دیکھ کر رحم سا آ گیا تو سوچا جانے دو کیا یاد کرے کی کہ کس سحھی بندے سے پالا پڑا ہے”۔۔
قاسم کی بات پہ جہاں نین کھلکھلا کر ہنس دی وہیں شیری نے غصے سے پہلو بدلا تھا اور شیری کی یہ جلن نین نے بحوبی نوٹ کی تھی جبھی جان بوجھ کر وہ اسے جلا رہی تھی، ارے بھی شیری نے اسے جلانے کہ لیے کوئی کم حرکتیں کی تھین کبھی پائل کبھی مایا تو کبھی کوئی اور اب شیری کی باری تھی گو کہ نین ایسی کبھی نہیں تھی لیکن شیری کی خالت دیکھ کر وہ اندر ہی اندر خوب مخظوظ ہو رہی تھی جیسے اُسکی خالت دیکھ کر انجواۓ کر رہی ہو۔۔۔۔۔
“قاسم تمہیں یاد ہے لاسٹ ٹائم مجھے ایک شاپ پر ایک فیری ٹیل ہاؤں پسند آ گیا تھا لیکن میں نے دیر کر دی اور وہ سیل ہو گیا اور پھر تم نے کیسےمنتیں کر کر کہ حریدار سے وہ فیریٹیل ہاؤس میرے لیے لیا تھا زیادہ رقم ادا کر کہ”بالوں کو جھٹکتے ہوۓ اد سے بولی تھی۔ “ہاں ہاں بلکل یاد ہے وہ کیسے بھول سکتا ہوں اور پتہ ہے نا کتنی باتیں سنائی تھیں اس موٹی آنٹی نے اسکی بیٹی کی شادی تھی اور وہ اسے گفٹ دینا چاہتی تھیں لیکن میرے اصرار پہ گھنٹے کی بہس کہ بعد وہ مان ہی گئیں تھیں، لیکن میری نظر میں اس فیری ٹیل کی کوئی ویلیو نہیں لیکن تمہارا اُترا ہوا چہرہ کہاں دیکھ سکتا ہوں تو بس کرنا پڑا”۔۔۔۔۔ زیادہ بولنے والا قاسم بولنا شروع ہوا تو چپ ہی نا ہوا۔۔۔۔ چُپ تب ہوا جب شیری نین کا ہاتھ پکڑ کر اُس کھیچنتا ہوا وہاں سے لے گیا اور قاسم دیکھتا رہ گیا۔
“شیری چھوڑو میرا ہاتھ کیا کر رہے ہو”
“شششش” اسکہ منہ پہ انگلی رکھ کر اسے بولنے سے روکا اور پھر بولا۔۔۔ “یہ سب کیا ہو رہا ہے میں سامنے کھڑا ہوں اور وہ میرے سامنے عاشقی جھاڑ رہا ہے، تمہیں پتہ ہے نا تمہارا کسی اور سے یوں بات کرنا مجھے ڈرا دیتا ہے کہ کوئی تمہیں مجھ سے چھین نا لے نین کی کمر میں بازو حمائل کر اسے قریب کرتے ہوۓ بولا ۔ شیری کی آنکھوں میں اپنے لیے اتنی محبت دیکھ کر نین کی آنکھیں روشن ہو گئیں۔ ۔۔اس نے پھر سے بولنے کہ لیے لب کھولے لیکن شیری نے روک دیا۔
“شش میری بات ختم نہیں ہوئی، نین محبت کرتی ہو نا مجھ سے”۔۔۔۔ نجانے کیسی بےاعتباری تھی جو وہ ہر پل ایک ہی بات پوچھتا تھا۔۔۔ “میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں شیری بہت تمہارے علاوہ اب کسی اور کہ بارے سوچنے کا خیال تک مجھے خوفزدا کر دیتا ہے لیکن میں مجبور ہوں یہ ن
بات میں ماما پاپا سے نہیں کہہ سکتی تم جانتے ہو نا پاپا نے اب تک اے۔ جے کو معاف نہیں کیا، پھر اگر جو انہیں ہمارے بارے میں ہتہ چلا تو وہ اور سخت دل ہو جائیں گے اور میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ اعتماد سے بولی تو شیری کہ ہونٹوں پہ اطمینان کی لہر دوڑ گئی،پھر وہ جھکا اور اپنے ہونٹ نین کی پیشانی پہ رکھتے ہوۓ پیار کی پہلی مور ثبت کی تھی۔نین کہ چہرے پہ حیا کہ سیکڑوں رنگ بکھر گۓ پھر وہ وہاں رکی نہیں ہاتھ چھڑوا کر اندر کو لپکی جہاں ان دونوں کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔ ستار مامو آج ایک حاض مقصد کہ تحت آۓ تھے، جب انہیں پتہ چلا کہ ان کہ چھوٹے صاحبزادے نین کو پسند کرتے ہیں تو انہیں نے نین کہ لوٹنے تک کا ویٹ کیا اور آج وہ صاف صاف اپنی بہن سے اپنی چھوئی موئی سی نین کو ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے مانگنے آۓ تھے، نگین بیگم نین کی کیفیت سے بےنیاز بھائی کو ہاں کر بیٹھیں اکلوتی بیٹی کہ لیے بھائی کہ گھر جیسی اچھی چھت انہین اور کہاں ملنی تھی جبھی سلندر علیم اور نگین بیگم نے فوراً ہاں کر دی لیکن یہ بات ابھی تک کسی کوئی نہیں بتائی گئی۔۔۔۔ منگنی کو باقاعدہ رسم ادا کرنے کہ لیے مامو ستار دن اور ٹائم تہہ کر کہ چلے گۓ تھے۔۔۔۔۔۔ نین اور شیری دونوں اس بات سے بےخبر مطمعن تھے کہ جلد یاں بدیر وہ دونوں ایک ہو ہی جائیں لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ بازاقعات قسمت بڑے ظالم فیصلے کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔
******=========*******
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...