ایک پورا دن امان کا فون نہیں آیا اور نہ ہی اگلے دن…… کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن افق پریشان ہو گئی… اگر وہ فون نہیں کرتا تھا تو میسج ضرور کر دیتا تھا… تیسرا دن آ گیا… اس کا فون بند جا رہا تھا… ایسا کبھی ہوا ہی نہیں تھا… وہ چھپ چھپ کر فیکٹری میں روتی رہی…
اتنے سے ہی دنوں میں اسے لگا کہ وہ اسے چھوڑ گیا ہے… یہ خوف مسلسل اس کے اندر قائم تھا… امان پر مکمل یقین کے باوجود یہ خوف گاہے بگاہے اس میں در آتا…
چار دن گزر گئے اسے اپنے خوف پر یقین ہونے لگا….. پانچویں دن امان کی کال آئی…
“آپ کہاں تھے…” اس نے پہلا سوال یہی کیا…
“میں جیل میں تھا…… دبئی جا رہا ہوں…… وہاں سے آگے بھی جا سکتا ہوں….. کسی سے کوئی رابطہ نہیں کر سکوں گا…” جلدی جلدی کہا… اتنی ساری باتیں سن کر وہ سمجھ گئی کہ بس اب وہ جا ہی رہا ہے…
“چھوڑ رہے ہیں مجھے؟” روتے ہوئے پوچھا…
“میں جیل میں تھا افق…… ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا مجھ سے کسی کا….. کل باہر آیا ہوں ضمانت پر… آج شام کو دبئی جا رہا ہوں…” وہ چلایا….. افق سہم گئی…
“نہ جاؤ امان!” اس نے سہم کر بھی یہی کہا…
“تم پاگل ہو گئی ہو کیا؟” وہ جلدی میں تھا… فون بند کرنا چاہتا تھا…
“پاگل ہو جاؤں گی نہ جاؤ… مجھے اکیلے چھوڑ کر جا رہے ہیں…” افق باقاعدہ رونے لگی…
“میں جیل میں نہیں سڑ سکتا…… تمہیں حالات کا اندازہ ہی نہیں ہے…… حالات بہتر ہوئے تو تم سے رابطہ کر لوں
گا…”
“ایسے نا جاؤ امان…….” سب جان کر بھی اس کی ایک ہی ضد…
“تو پھانسی لگ جاؤں؟” اسے پہلی بار اس پر شدید غصہ آیا…
“کیوں ہو گی پھانسی؟” وہ ڈر گئی…
“میں جا رہا ہوں…” وہ فون بند کرنے لگا…
“نہ جاؤ….” پھر وہی بات وہی انداز…
تو مر جاؤں……؟
“میں مر جاؤں گی…..” وہ تیز آواز میں رونے لگی اب یہ جا رہا ہے نجانے کب آئے’ آئے بھی کہ نہ آئے…… “کچھ بھی نہیں ہو گا…… سب ٹھیک ہو جائے گا….. یہیں رہو…” روتے روتے بھی اس نے یہی کہا…
“تمہیں نہیں پتا….. کیسے ہو جائے گا سب ٹھیک…” امان جھنجھلا گیا ساتھ ہی ذرا سا لہجہ نرم کیا…
“میں دعا کروں گی…… میں بہت اچھی دعا کرتی ہوں… بہت دل لگا کر…….اب بھی کروں گی…”
“دعا…..!” امان کا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہا وہ’ کیا بک رہی ہو…
“جا رہا ہوں میں….” کہہ کر اس نے فون بند کر دیا… افق نے دوبارہ نمبر ملایا تو فون آف تھا… وہ خوب ہی روئی… اماں نے اس کی آنکھیں دیکھیں…
“کیا ہوا افق؟” نفی میں سر ہلا کر وہ باتھ روم میں گھس گئی… کتنی دیر باتھ روم میں ہچکیاں دباتی رہی…
“وہ جا رہا ہے…….. وہ جا رہا ہے…….. وہ جا رہا ہے…” اسے صرف یہی یاد تھا…
باقی معاملات کے بارے میں اس نے نہ سوچا نہ ہی ان پر غور کیا… حادثہ کیسے ہوا کب اور کیوں ہوا… حالات کیسے اتنے بگڑ گئے کہ اسے بھاگنا پڑ رہا ہے… ٹھیک کہتا ہے امان کے اس کے پاس عقل ہے ہی نہیں’ وہ موقع کی نزاکت کو نہیں سمجھ رہی تھی اپنی ہی بات کیے جا رہی تھی اور ایسے وقت جب امان کو جیل جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا بھلا وہ یہ سوچتا کہ افق کا کیا ہو گا….
پندرہ دن گزر گئے… رو رو کر وہ بیمار ہو گئی’ فیکٹری سے اماں نے ایک ماہ کی رخصت لے دی اماں کہتیں اسے چور بخار ہے… رات کو آتا ہے دن کو چلا جاتا ہے اسی بخار میں شاید افق مر جاتی لیکن امان کا فون آ گیا…
“کب مل رہی ہو؟”اس نے چہک کر پوچھا…
جواب دینے کے بجائے وہ رونے لگی…
“کب مل رہی ہو؟” سوال پھر کیا…
“کبھی نہیں……” رندھی آواز لیے کہا…
“واپس جیل چلا جاؤں…..؟” وہ بہت خوش تھا…
وہ خاموش رہی…
بہت چھپ کر بھیس بدل کر امان دبئی جا رہا تھا لیکن ایر پورٹ پر پکڑا گیا…… اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا… اس سے ایک بڑے بزنس مین کے چھوٹے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا’ ڈرائیونگ امان کر رہا تھا… وہ رات گئے اپنے دوستوں کے ساتھ ایک پارٹی سے واپس آ رہا تھا’ حادثہ سراسر حادثاتی تھا لیکن اسے حادثاتی مانا نہیں جا رہا…. انہیں ڈی ایچ اے سے رات گئے گرفتار کر لیا گیا… ان کا موقف تھا کہ ان سب نے ڈرنک کی ہوئی تھی…
حادثے میں لڑکے کی جان تو بچ گئی تھی لیکن وہ کافی زخمی ہو گیا تھا’ امان کے والد اور دوسرے تینوں لڑکوں کے خاندان والوں نے بہت کوشش کی کہ کیس عدالت تک نہ جائے وہ جرمانہ بھرنے کو تیار تھے… لیکن وہ مان نہیں رہے تھے… ناچار ان کے ارادے دیکھتے ہوئے ان سب کو ایک ایک کر کے مختلف ملکوں کی طرف بھگانا چاہا…. مگر یہ حربہ بھی ناکام ہو گیا……. وہ پھر جیل چلے گئے…
وہ سب مقدمہ بھی لڑ سکتے تھے اور سالوں بعد ہی سہی انہیں سزا سے بھی بچا سکتے تھے لیکن اس سب میں ان کا حال تباہ کو جاتا’ وہ ایک گھنٹہ جیل میں رکنے کے لیے تیار نہیں تھے’ کہاں سالوں گزارتے…
“اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہوتا ہے امان! اس نے میری دعا قبول کی…”
جدید صدی کے جدید بچے کے لیے دعا جیسی چیز بہت پرانی اور فرسودہ سی تھی…… جیسے اونٹوں پر سفر
کرنا…… جیسے ستاروں سے راستہ معلوم کرنا….. جیسے طبیب سے علاج کروانا…
“گھروں میں بیٹھی لڑکیاں اور کر ہی کیا سکتی ہیں سوائے رونے اور گڑگڑا کر دعائیں مانگنے کے…”
اس نے جیسے کھلا تمسخر اڑایا… جس بات پر اسے یقین نہیں ہوتا تھا… اس کا وہ مذاق ہی اڑاتا تھا’ سب ایسے ہی کرتے ہیں وہ بھی یہی کرتا تھا… دعا اس کے لیے محض ایک رسم تھی…
“ہاں! میں ضرور گھر میں بیٹھی تھی لیکن جس سے مانگا تھا اس پر ہر ممکن اعتقاد رکھ کر مانگا تھا…
امان نے اس کے فلسفے کو نہیں مانا لیکن بات اور انداز اسے یاد رہ گیا…
ایسے ہی چند لمحوں کے لیے اسے خیال آیا کہ اچانک کیسے وہ بزنس مین پیچھے ہٹ گیا… اس نے فیصلہ واپس لے لیا اور جیسے جھٹ سے سب بگڑ گیا تھا ویسے ہی سب جھٹ پٹ سنور بھی گیا…
اس نے پہلی بار خود سے افق کو دعا کے لیے اس وقت کہا’ جب اس کے دو عدد پرچے اس کی پسند کے مطابق نہیں ہوئے تھے…
“میں دعا کروں گی کہ تم پاس ہو جاؤ…”
روایت زندہ رہی امان ٹاپ کر گیا…
“میں جانتا تھا…” اس نے اس انداز میں اطلاع دی جیسے بادشاہ تو میں ہی تھا نا…… تو تاج پوشی بھی میری ہی ہونی تھی…
افق احساس کمتری کا شکار ہو گئی… ایک وہ تھی ہر معاملے میں پیچھے تھی’ اس نے ایف اے اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا اور حقیقتاً اس نے بہت محنت کی تھی… اس نے اے گریڈ لیا تھا…
اس بار بھی اماں کو یقین تھا کہ وہ بہت اچھے نمبر لے گی الٹا وہ فیل ہو گئی’ تو یہ جو عورت ہے وہ اس مرد کو اور مرد کی محبت کو اتنا سر پر کیوں سوار کر لیتی ہے کہ فیل ہی ہو جاتی ہے….. پھر ایسی عورت تھی اور کسی کام کی نہ ہوئی نا…… یہاب سوچنے کا اس عورت کے پاس وقت نہیں ہوتا جو ناکام ہی ہوتی چلی جاتی ہے…
افق سب سے انجان ہو گئی…… جمال سے اسد سے اپنی اماں سے……. ان کے کام کر دیتی… ان سے بات کرنے کا وقت رہا نہ ڈھنگ…… کم گو پہلے ہی تھی… اتنی کم گو بھی نہیں تھی اور باتیں ہی سب کچھ نہیں ہوتیں…… خون کا تعلق رکھنے والوں کے بڑے خونی حقوق ہوتے ہیں… وہ حقوق نہیں کو کتابوں میں لکھ دیے گئے ہیں…… کچھ غیر مرئی حقوق بھی ہوتے ہیں جنہیں انسانی رشتے اور تعلق قائم کرتے ہیں…
جب وہ دونوں اسے فیکٹری تک چھوڑنے جاتے تو اتنی باتیں کرتے اور وہ ہوں ہاں بھی نہیں کرتی… چھٹی والے دن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے… افق کمرے میں ایک طرف بیٹھی رہتی… کتاب کھلی ہوتی…
اماں سوچتیں’ فیل ہونے کا صدمہ لے لیا ہے… ماموں زاد کالج جاتی ہیں’ یونیورسٹی جاتی ہیں یہ ٹیوشن بھی نہیں جا سکتی الٹا فیکٹری جاتی ہے…
“تم فیکٹری چھوڑ دو افق!” اماں نے اس کا سر سہلاتے ہوئے کہا… “تم تھک جاتی ہو اور تمہیں پڑھنے کا بھی بہت شوق ہے…”
“میں ٹھیک ہوں…. اماں!” اس نے کہہ دیا…
“گھر کے لیے تمہارے ماموں سے تھوڑا قرض لیا تھا مجھے صرف اس کے اترنے کا انتظار ہے…… تمہارے بھائی بڑے ہوتے تو میں کبھی تمہیں اتنا کام نہ کرنے دیتی…”
“میں جانتی ہوں اماں….. آپ فکر نہ کریں…”
“مجھے دکھ ہوتا ہے…”
“ایسے نہ کہیں اماں…..” وہ شرمندہ ہو گئی… اس کے رویے سے اماں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ کما کر ان پر بہت بڑا احسان کرتی ہے اور انہیں پال رہی ہے جبکہ وہ سب تو ایک ساتھ ایک دوسرے کے لیے محنت کر رہے تھے…
“تمہیں ٹیوشن رکھوا دوں…… معلوم کروں کای کوچنگ سینٹر کا…”
“اس بار میں اچھی تیاری کروں گی….. آپ فکر نہ کریں…”
“مجھے تمہاری بہت فکر ہے افق….” وہ آنکھیں صاف کرنے لگیں… ان کے بچوں نے کبھی انہیں روتے نہیں دیکھا تھا… وہ نہیں چاہتی تھیں ان کے بچے انہیں روتے دیکھ کر خود بھی روئیں…
“آج آپ ایسے کیوں کہہ رہی ہیں…”
“افق! نہ جانے کیوں…… تمہارے لیے میں اندر ہی اندر ڈرتی رہتی ہوں….. کوئی وجہ بھی نہیں…… کچھ ہوا بھی نہیں…. لیکن بہت وہم آتے ہیں…”
اس کا جی چاہا کہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر انہیں امان کے بارے میں بتا دے تا کہا س کی اماں بےفکر ہو جائیں اور وہم کرنا چھوڑ دیں…
اماں اٹھیں تو وہ بھی اٹھ کر عصر کی نماز پڑھنے لگی… آج کل وہ ایک وظیفہ کر رہی تھی امان کی کامیابی اور ترقی کے لیے پھر تہجد پہ اٹھ کر ایک اور وظیفہ کرتی…
امان نے کہا کہ اس کے والد کی فیکٹری میں آگ لگ گئی
ہے… الٹا بیمہ کمپنی نے ہی مقدمہ کر دیا ہے ان پر… وہ بہت بری طرح سے پھنس گئے ہیں… بہت برے حالات سے گزر رہے ہیں…
“امان برے حالات سے گزر رہا ہے…”
افق کی نیندیں حرام ہو گئیں… رات دن وظائف کرتی رہتی’ نہ چاہتے ہوئے بھی نہ مانتے ہوئے بھی امان اسے کہہ دیتا کہ دعا کرنا…
کئی بار وہ کہتا کہ اسے اس سے ڈر لگتا ہے کہ وہ اسے بددعا نہ دے دے…
“کوئی خود کو بددعا دیتا ہے؟” افق برا مان جاتی…
“ہوٹل جا رہا ہوں دعا کرنا… ٹیبل مل جائے خالی ورنہ دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے…”
“کب سے کار بک کروائی ہے…. ابھی تک نہیں آئی…”
“ایک پریشانی ہے بتا نہیں سکتا…… پر بہت پریشان ہوں…
“ایک آرٹیکل لکھا ہے اقوام متحدہ کے لیے دعا کرنا آؤٹ اسٹینڈنگ رہے…”
آرٹیکل آؤٹ اسٹینڈنگ ہو جاتا’ ہوٹل میں جاتے ہی ٹیبل مل جاتی’ کار آ گئی… کتاب مل گئی….. مقدمے سے جان چھوٹ گئی’ ان کہی پریشانی دور ہو گئی….. یہ سب اتفاق ہو سکتا ہے لیکن افق نے یقین کر لیا کہ وہ دل سے دعا کرتی ہے اس لیے اس کی دعا فوراً قبول ہو جاتی ہے…
دوسری طرف امان اسے کہتا کہ وہ اس کے لیے اچھا سائن ہے’ جیسے نجومی کسی خاص پتھر کو پہننے کے لیے کہتے ہیں اور وہ پتھر اچھا رہتا ہے….. سب ٹھیک ہونے لگتا ہے… امان کے لیے وہ اب وہی پتھر بننے لگی تھی وہ ایسا ہی شخص تھا جو نہیں مانتا تو خدا کو بھی نہیں مانتا اور ماننے پر آتا ہے تو ہر انسان کو خدا مان لیتا…
وہ انجانی ترکیب کا عجیب انسان تھا’ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ نرالا تھا… ایسے ہزاروں لوگ ہوتے ہیں… یہ لوگ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر مختلف بلاگز پر اپنی پریشانی لکھ کر ان کا حل مانگ لیتے ہیں… اپنے مسائل کے لیے گوگل پر بار بار ٹائپ کرتے ہیں لیکن ایک بار بھی اللہ کے پاس نہیں جاتے…… اللہ تعالیٰ…… اللہ میاں بہت احترام سے کہتے ہیں مگر معلوم نہیں ہوتا کہ اتنا احترام کیوں…….
عجب اور نرالا ہونا برا نہیں ہے ہاں انجان اور لاعلم ہونا بہت ہی برا ہے…….
……… ……………… ………
اچانک بیٹھے بٹھائے افق کو جو خوف گھیر لیتے تھے ان کے زیراثر ایک دن اس نے خوفزدہ ہو کر امان سے پوچھ ہی لیا…
“کیا کبھی مجھے چھوڑ کر جانے کے بارے میں سوچا…” جواب میں اس مے ایک بلند بانگ قہقہہ لگایا…
“میں مر جاؤں گی…….. ایسے سوچنا بھی مت خدا کے
لیے…”
“کوئی نہیں مرتا….. خدا کے لیے تو مر بھی جاتے ہیں انسان کے لیے بالکل بھی نہیں…”
“میں مر کر دکھاؤں گی……”
“میں دیکھوں گا……”
“میں مذاق نہیں کر رہی…”
“میں بھی مذاق نہیں سمجھ رہا…”
“اور میں مر جاؤں تو کوئی فکر نہیں؟”
“یہ میں نہیں جانتا…. یہ تو بعدکی باتیں ہیں…”
“بعد کی……. میرے مرنے کے بعد کی؟” یہ کہتے ہوئے ہی وہ مرنے والی ہو گئی… دوسری طرف لوٹ پوٹ ہوتا قہقہہ بلند ہوا…
“افق! ایسی باتیں کرو گی تو میں تمہیں اٹھا لاؤں گا اسی وقت…”
سارا مرنا مارنا اڑنچھو ہو گیا… ڈر’ خوف دائیں بائیں نکل گیا… افق چپ ہو گئی…
“اب بولو نا……. اب بولتی بند…….. تو میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں… آہم! بابا جی کو یہ بھی معلوم ہو گا کب…….؟ بولیے بابا جی……!”
“میری باتیں مذاق لگ رہی ہیں…” رونے کی تیاری ہونے
لگی…
“مذاق نہیں ہیں امان کی جان…… مختلف ہیں’ بونگی ہیں’ عجیب تر ہیں’ پرمذاق نہیں ہیں’ مجھے یقین نہیں آتا لیکن جھوٹ بھی نہیں سمجھتا…”
“پھر ایک بات سن لو امان…. اگر افق کو چھوڑنا ہی پڑے تو عزت سےچھوڑنا امان! مجھ سی بےکار لڑکی کی محبت بےکار نہیں ہے… اسے اتنا رتبہ تو ملنا چاہیے کہ عزت سے رکھا اور چھوڑا جائے…”
“تم یہ سب باتیں کیوں سوچتی ہو؟”
“کیوں کہ میں غریب ہوں یتیم ہوں… چھوٹے سے ایک گھر میں رہتی ہوں… پڑھی لکھی بھی نہیں ہوں… کیا ہے میرے پاس… سب کچھ تو تمہارے پاس ہے…”
“اور جس دن تمہیں معلوم ہو گیا کہ تمہارے پاس کیا کچھ ہے تو مجھ سے انسان کو تم اپنے قدموں پر گرا لو گی…”
“ہر بات مذاق….” اتنی سنجیدہ بات پر بھی ایسا جواب وہ چڑ گئی…
“میں یہ سب نہیں جانتا افق! نہ ہی میں اتنی گہرائی میں جا کر سوچتا ہوں… بس ایک بات معلوم ہے کہ تم مجھے پسند ہو اور رہو گی… آج بھی زندگی میں ہو’ کل بھی رہو گی… دوبارہ ایسی فضول باتیں نہ کرنا…
اور اس نے دوبارہ ایسی فضول باتیں کی ہی نہیں… وہ جانتی تھی وہ ہمیشہ اسے عزت ہی دے گا….. شادی کا وعدہ بھی اسی نے کیا تھا… اگر یہ وعدہ نبھا نہ سکا تو وہ دبنگ سچ بولنے والا اسے صاف صاف کہہ دے گا……. اور وہ جانتی تھی کہ اگر وہ اتنا سچا ہے تو وعدے کا پکا بھی ہو گا…… امان اسے کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گا……
امان نے کہا کہ اچھے نمبروں سے امتحان پاس کرے تو اس نے بھی اچھے نمبروں سے ایف اے پاس کر لیا… خبر سنتے ہی اس نے ضد پکڑ لی کہ اب تو اسے اس سے ملنا ہی ہو گا… ساری رات شش و پنج میں گزار کر صبح نماز کے بعد دعا مانگ کر امان پر مکمل یقین رکھ کر وہ فیکٹری سے دو گھنٹے پہلے ہی نکل آئی اور امان کے ساتھ گاڑی میں آ بیٹھی… اسے معلوم ہوا کہ دنیا کا ہر کام آسان ہے اس طرح امان کے ساتھ بیٹھنے سے….. وہ بیٹھ گئی اور گود میں رکھے اپنے ہاتھوں کو ہی دیکھتی رہی امان نے کئی بار گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا لیکن وہ گود میں رکھے ہاتھوں سے نظریں بھی اٹھانے کے لیے تیار نہ تھی اور امان یہی چاہتا تھا کہ وہ ایسے ہی بیٹھی رہے اور وہ اسے دیکھتا
رہے…
“کیا ہوا؟” اس نے سرگوشی میں پوچھا…
مشکل سے اس نے صرف نہ میں سر ہلایا…
“آنا نہیں چاہتی تھیں……؟”
سر ناں میں ہلا نا ہاں میں……. نظر اٹھا کر نہ دی…
جو لالی گالوں پر آجا رہی تھی وہ شرم بھی تھی اور شرمندگی بھی….. خوشی بھی اور پچھتاوا بھی…. من چاہا بھی اور زبردستی بھی….
یہ ملاقات اس نے امان کی ضد پر کی تھی اور اب اس کا جی چاہ رہا تھا کہ زندگی بھر ایسی ملاقات دوبارہ نہ
کرے…
“تمہیں مجھ سے ڈر لگ رہا ہے افق؟” امان نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا… وہ برف کا بت بن گئی… ہمت جاتی رہی اور جی چاہا کہ چلّا کر کہے کہ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے’ مجھے جانے دو خدا کے لیے…
ہاتھ وہیں رہا….. چیخ بھی اندر ہی رہی…
اس نے امان کہ طرف نظر اٹھا کر دیکھا جیسے فاختہ ڈار سے بچھڑ کر سر بارش میں بھیگ گئی ہو…
کشمیری حسن کے اس طرح بیٹھے رہنے پر اور نظر اٹھا کر ایسے دیکھنے پر ہر رنگ و نسل کی عورت کو دیکھ چکے’ پرکھ چکے’ مل چکے’ جانچ چکے’ ڈانس فلور کے شہزادے کو اس ادا پر کمال کا پیار آیا…
جن کے ساتھ وہ دوسری کے نام پر فلرٹ کرتا تھا… وہ تو اس کے گلے میں جھول جاتی تھیں یہ تو محبت کی فہرست کی لڑکی تھی… شادی کے خانے میں نام درج…….
“چلو میں تمہیں واپس چھوڑ دیتا ہوں…”
اس بار اس نے تائید میں سر ہلایا… کہیں وہ یہ ہی نہ سمجھ بیٹھے کہ وہ واپس جانا نہیں چاہتی…
“میں یہاں رہتا ہوں افق!” امان نے گاڑی روک کر ایک بنگلے کی طرف اشارہ کیا… افق نے ذرا کی ذرا نظر الٹا کر اس طرف دیکھا… لایا تو وہ اسے اندر لے جانے کے لیے تھا لیکن مشکل ہی تھا…
وہ اسے اس کے گھر پر چھوڑ گیا…… وہ اس کے لیے چند تحائف لایا تھا اس کے پاس ہونے پر……. پہلی بار ملنے
پر……. اماں سے اس نے بہانہ بنا دیا کہ فیکٹری کہ ایک سہیلی اس کے ساتھ انارکلی بازار خریداری کرنے آئی تھی… سامان زیادہ تھا تو کچھ شاپرز اسے رکھنے کے لیے دے دیے… اماں نے لمحے کے ہزارویں حصے پر بھی اس کی طرف ایسے نہ دیکھا کہ تم کیا کہہ رہی ہو…….. سچ کہ جھوٹ….
اس نے سب کچھ اٹھا کر الماری میں رکھ دیا……. دیکھا بھی نہیں…
امان نے کہا کہ وہ اسے کالج میں داخلہ دلا دیتا ہے لیکن اس نے انکار کر دیا….. اگر وہ کالج جائے گی تو فیکٹری کون جائے گا اور پھر گھر کیسے چلے گا…
“میں تمہیں اتنے پیسے دے سکتا ہوں…”
“میں اماں سے اتنے جھوٹ بولنا نہیں چاہتی…”
“میں چاہتا ہوں افق! تمہارے پاس ایک اچھی ڈگری تو ہو…”
“بی اے کے بعد میں یونیورسٹی ضرور جاؤں گی…”
“اگر نہ گئیں……” وہ مذاق نہیں کر رہا تھا…
“میں جاؤں گی…”
“تم نہیں جاؤ گی……” بے انتہا سنجیدگی سے کہا گیا…
“تم ایسے کیسے…….” اسے دکھ ہو رہا تھا…
“دیکھ لینا……. تم زندگی میں کبھی کچھ نہیں کر
سکتیں…… لوگ ناکام ہوتے ہیں یا آخری نمبروں پر آتے ہیں… تم وہاں تک بھی نہیں جا سکتیں… تم جیسی لڑکیاں افق گھروں میں ہی رہ سکتی ہیں……. اچھا ہے گھر میں ہی رہو لیکن اگر ضرورت پڑے اور مستقبل بنانا ہو تو تم جیسی لڑکیاں بےکار ہیں… ہر سال میرا ایک لڑکی کے ساتھ ہی مقابلہ ہوتا ہے اور میں ہر بار اسے ہرا کر ٹاپ کر جاتا ہوں پر اس لڑکی کی محنت کی داد دیتا ہوں……. کمال کی لڑکی ہے’ اگر میں اس کی ٹکر پر نہ ہوتا تو اسی کے نام کے ڈنکے بجتے اور اگر تم اس لڑکی کی جگہ ہوتیں…… فرض کیا صرف……. نہیں یہ فرض بھی نہیں کیا جا سکتا…”
امان دبنگ سچ بولتا تھا… وہ یہ جانتی تھی لیکن اس سچ نے اس کی آنکھیں نم کر دیں… چار سال کو اس نے دن رات محنت کر کے فرما بنایا اور چھ گھنٹے جو وہ فیکٹری میں کھڑے ہو کر کام کرتی ہے… ایک دن بھی کسی کو اس کے کام سے شکایت نہیں ہوئی تھی… فیکٹری کے چھ گھنٹے اور فرما بنانے کے سولہ گھنٹے اگر وہ کتاب پر لگاتی تو پاکستان بھر کے طلبا کو پیچھے چھوڑ دیتی… جو شخص سیکنڈ ہینڈ کتابیں خریدتا ہے اور جن کتابوں میں بہت سے صفحے پھٹے ہوئے ملتے ہیں اور انہیں صفحوں سے کوئی سوال آجاتا ہے تو ایسے شخص کے گریڈ گنتے ہوئے اس کی مشکلات بھی ضرور گننی چاہئیں… اگر وہ کالج جائے اور گھر آتے ہی اسے تین وقت کا کھانا ملے تو وہ بھی امان جیسے ہر طالب علم سے ٹکر لے سکتی ہے… جو بھی ہو’ اسے خود پر شرمندگی ہوئی…
پہلی بار اس نے اپنی زندگی کو شکوے کی نظر سے دیکھا… اس نے غصے میں گلاس زمین پر دے مارا… اسے غصہ آیا کے اس کے پاس وسائل کیوں نہیں ہیں…….. وہ ہی کیوں غریب ہے….. فیکٹری گئی تو سارا کام الٹا پلٹا ہو گیا…… کہتے ہیں جس اناج میں’ حرام کا ایک دانہ آ جائے وہ سارے اناج کو تباہ کر دیتا ہے… پہلے افق کے مزاج بدلے’ وہ ہر وقت چڑچڑی رہنے لگی’ بات بات پر غصہ کرتی’ اماں حیران ہوتیں پھر پریشان رہنے لگیں ایک دو بار پوچھا پر اس نے ایک لفظ نہ کہا…….. اماں انجانی سوچوں سےشرمندہ ہوتی رہیں…
ابھی پچھلوں دنوں ماموں کے چھوٹے بیٹے کی منگنی کی خبر آئی تھی… کبھی ماضی میں ماموں نے کہا تھا کہ وہ کشمیر کی کلی کو اپنے اس بیٹے کے ساتھ باندھ دیں گے… اماں سمجھیں شاید اندر ہی اندر اس کی آس تناور درخت بن گئی… اب کاٹے نہیں کٹ رہی’ کیا معلوم پسند کرتی ہو اسے…بچپن تک اچھی ہی دوستی تھی دونوں میں…..
شاید……. شاید……. کچھ اور بھی ہو…
اس نے صرف اماں کی گود میں سر رکھ دیا…
“میرے لیے دعا کیا کریں اماں…….! مجھے بہت ڈر لگتا ہے…”
اس دوران ایک اور واقع ہوا… جس فیکٹری میں افق جاتی تھی ان کے پارٹنرز کے درمیان لیبر کی کٹوتی کو لے کر جھگڑا ہوا…… کبھی کسی کو فارغ کر دیا جاتا کبھی واپس بلا لیا جاتا… جھگڑا بڑھا اور فیکٹری غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی گئی… افق حقیقتاً بہت پریشان ہو گئی… باقی کاموں میں اتنے پیسے نہیں بنتے تھے اور کوئی کام وہ کر نہیں سکتی تھی… کسی پرائیویٹ اسکول میں نوکری کرتی تو بمشکل ہی دو ڈھائی ہزار ملتے… اس نے اماں کو آرام کرنے اور خود ان کہ جگہ جانے کے لیے کہا پر وہ نہیں
مانیں…
امان اپنے شہر گیا ہوا تھا’ کبھی کبھار ہی اس سے بات ہوتی… اس کا کہنا تھا کہ وہ اس بار پاپا سے افق کی بات کرنے جا رہا ہے…
“وہ نہیں مانیں گے…” وہ افسردہ ہو گئی…
“ہے تو ایسا ہی…..” اس نے بھی تسلی نہیں دی…
“پھر؟” اب وہ یہی سوال پوچھ سکتی تھی…
“وہ مانیں گے نہیں’ یہ سچ ہے پھر ظاہر ہے کہ مجھے خود ہی اسٹینڈ لینا ہو گا اکیلے ہی…”
“اکیلے کیسے……”
“پاگل لڑکی! تم اور میں…….. میرے اکاؤنٹ میں پیسے ہیں اور میرا مستقبل روشن ہے….. مجھے کوئی مسئلہ نہیں…”
“وہ مان جائیں تو کتنا اچھا ہو…” ایک طرف افق کو یہ سن کر خوشی ہوئی کہ امان اسے اپنے بل بوتے پر پالے گا چھوڑے گا نہیں… اپنے خاندان کو جانتا ہے اسی لیے فیصلہ کر چکا ہے… دوسری طرف وہ اسی فیصلے سے گھبرا گئی…
“تم فکر نہ کرو… میں نے سب کچھ پلان کر لیا ہے…” وہ ایسے ہی آرام سے’ اطمینان سے انتہائی سنجیدہ باتیں کیا کرتا تھا’ جیسے چیونگم چبا رہا ہو یا مووی دیکھ رہا ہو اور اپنے ملازم سے کہہ رہا ہو “ہاں ہاں اورنج جوس ہی…”
“امان کا مستقبل روشن ہے…” افق بےفکر ہو گئی خاندان کی مخالفت اپنی جگہ… امان کی حمایت…
“پاپا سے’ ماما سے بات کروں گا……. ہر طرح سے انہیں راضی کروں گا… وہ مان جائیں گے… میری مان ہی جاتے ہیں… تمہیں دیکھیں گے تو اور مان جائیں گے…”
“مجھ میں ایسا کیا ہے کہ وہ مجھے دیکھ کر مان جائیں…” افق کے آگے اس کا چھوٹا سا گھر گھوم گیا…
“دیکھیں گے تو ان ہی سے پوچھ لینا… جب وہ اپنی پلکیں بھی نہیں جھپک سکیں گے……. بت بن جائیں گے…” افق مسکرا اٹھی…
“ایسی بھی بات نہیں ہے…”
“مجھے تو لگتا ہے کہ تم انہیں مجھ سے زیادہ اچھی لگو گی…”
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...