زینہ روحیل کے جواب پر بے ساختہ کھلکھلاتی گھر کے سامنے والے
حصے کی طرف بڑھنے لگی۔
شریفاں نے دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے باورچی خانے میں جانے کا عندیہ سنا دیا۔۔
سفر کیسا گزرا۔؟؟
بہت غمگین۔!
وہ کیوں۔؟ کیا آپ جہاز کو دھکا لگا کر گئے ہیں۔؟
جہاز کو دھکا لگانے سے اوپر کا کام تھا۔!
کیا مطلب۔؟؟
میرا جی چاہ رہا تھا کہ جہاز کی کھڑکی سے کود جاؤں۔!
استغفر اللہ۔! ہائے اللہ وہ کیوں۔؟
تم یاد آ رہی تھی۔!
آپ بھی حد کرتے ہیں۔!
اتنی چھوٹی سی بات پر کوئی کھڑکی سے کودتا ہے بھلا۔۔؟
بیوی صاحبہ تم دل نہ جلاؤ جہاز کی کھڑکی بہت چھوٹی اور موٹی ہوتی ہے۔اور میں کونسا کودنے لگا تھا ، بس کودنے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا۔!
بہت بری بات ہے۔! آپ اچھی اچھی باتیں سوچا کریں۔۔!
تمہیں ہی تو اچھی طرح سوچتا رہا ہوں۔!
آپ نے سفر میں دعائیں مانگی تھیں۔؟؟
ہاں بہت زیادہ۔!
پوچھوں گی تو بتائیں گے ۔؟
نہیں بتاؤں گا کیونکہ یہ میری ذاتی دعائیں ہیں، صرف میرے اور میرے اللہ کے درمیان ۔!
چلیں کوئی بات نہیں ہے۔
آپ کو آرام کی اشد ضرورت ہے ، آپ کی آواز بہت تھکی تھکی لگ رہی ہے۔۔
چلو میں ابھی سونے کی کوشش کرتا ہوں شاید چند گھنٹے آنکھ لگ جائے۔اور ہاں تم نے مجھے ویڈیو کال کرنی ہے۔
میں کہاں سے ویڈیو کال کروں گی ؟ امی کے سامنے مجھے شرم آتی ہے۔
اچھا میرے کمرے میں چلی جانا۔
یا اگر ابھی فارغ ہوتو جاؤ تاکہ تمہیں ایک جھلک دیکھ کر میں پرسکون نیند لے سکوں۔
اچھا چلیں پھر میں آپ کو دس منٹ بعد اپنے فون سے کال کرتی ہوں مگر زیادہ لمبی بات نہیں کروں گی۔
کیوں۔؟
وہ دوپہر کا کھانا بنانا ہے نا.!!
زینہ کھانا بنانا میرے سے زیادہ ضروری ہے کیا۔؟؟
نہیں تو۔! آپ کو پتا ہے۔؟؟ صبح سے امی مجھے سمجھانے بیٹھی ہوئی ہیں، میں نہیں چاہتی میری کسی بھی لاپرواہی سے امی پریشان ہوں۔
اور میں آپ کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتی ہوں۔
ابھی فون بند کرتی ہوں اور آپکو دوبارہ کال کرتی ہوں ان شاءاللہ۔
زینہ سامنے والے باغیچے سے پلٹ کر عقبی باغیچے کا رخ کرنے لگی تو سامنے سے جیمی باچھیں پھیلائے کھڑا تھا۔۔
بہت محبت کرتی ہو روحیل سے ۔؟؟
زینہ نے بنا جواب دیئے خاموشی سے گزر جانا چاہا مگر جیمی نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راستہ روک لیا۔۔۔
بھائی صاحب آپ اپنی حد پار کر رہے ہیں۔
تم سے ایک ادنیٰ سا سوال پوچھا ہے مگر تم مجھے نظر انداز کر کے بھاگ رہی ہو۔۔۔جیمی نے للچائی نظروں سے زینہ کو گھورنا واجب سمجھا۔۔
روحیل سے محبت نہیں کرتی ہو کیا ۔؟؟اگر کرتی ہوتی تو فوراً مجھے جواب دے دیتی۔!!
تم جیسی مفلسی کا شکار لڑکیاں ہم جیسے امیر زادوں کو اپنی ادائیں دکھا کر پھانس لیتی ہو۔!!
جہاں پر لمبے نوٹ کار کوٹھی دیکھی ، دل ہار بیٹھتی ہو۔!!
ان لبادوں میں خود کو چھپا کر روحیل کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکو۔!! جیمی ایک ہی سانس میں ملغظات بکتے ہوئے زینہ کی پاکیزہ روح چھلنی کر دیا۔۔
بھائی صاحب میں آپ کو جواب دہ نہیں ہوں ۔! زینہ نے ترش لہجے میں جواب دے کر جیمی سے دور ہٹ کر گزرنا چاہا ۔۔
تمہیں پتا ہے میری موم تمہیں رتی بھر پسند نہیں کرتی ہیں ، میرے ساتھ بنا کر رکھو گی تو تمہارا اس گھر میں گزارا آسان رہے گا۔
زینہ کو تو جیسے پاؤں سے لگی اور سر سے نکلی۔
یکدم سارا خوف بھلا کر دیدہ دلیری سے گویا ہوئی۔۔
آپ غالباً کسی بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں بھائی صاحب جو یوں اپنا قیمتی وقت میری جاسوسیوں میں ضائع کر رہے ہیں، آئندہ اگر آپ نے حد پار کرنے کی کوشش کی تو میں نے روحیل کو آپکی کارستانیوں کے بارے میں ایک پل ضائع کیے بنا بتا دینا ہے ، انہیں اپنی بیوی پر آپ سے زیادہ اعتبار ہے ۔!!
مجھے آپکو اپنی صفائی میں کچھ بھی نہیں کہنا ہے کیونکہ آپ میرے لیے ایک نامحرم کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔۔
مجھے بکاؤ مال سمجھ کر کیش کروانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے ۔ میری نظر میں غلیظ تفکیر کے لوگ گلی کے تنکے سے کم تر حیثیت رکھتے ہیں۔۔
زینہ تلخ لہجے میں بول کر جیمی کو لاجواب کر گئی اور جھٹکے سے آگے بڑھ گئی۔۔
ہونہہ بڑی آئی پاکدامن۔!! دوٹکے کی لڑکی مجھے دھونس جما رہی ہے۔ جیمی کھول کر رہ گیا۔۔
زینہ عقبی باغیچے میں سسر کو اپنا فون دے کر پلٹی تو جیمی آن دھمکا۔۔۔
زینہ بھابھی صاحبہ ایک منٹ رکو ۔!
آپ کی موجودگی میں تمام حقائق بیان کرنا پسند کروں گا۔! چونکہ میں پیٹھ پیچھے بات کرنے کا عادی نہیں ہوں لہٰذا آپ کو میری بات مکمل ہونے تک یہاں ہر بیٹھنا پڑے گا ۔!
برائے مہربانی یہاں پر تشریف رکھیں۔!
جیمی نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔۔
زینہ کا دل تھر تھر کانپنے لگا۔ چار و ناچار کرسی کی طرف بڑھ گئی۔ جیمی زینہ کے کرسی پر بیٹھتے ہی طنز کے تیر برسانے لگا۔
ماموں جان جب میزبان یعنی گھر کے مکین مہمانوں سے اپنا چہرہ چھپاتے پھریں تو مہمانوں کے دل پہ کیا گزرتی ہے۔؟؟
کیا ہو گیا ہے جیمی یار ۔؟؟ارشاد صاحب نے لگاوٹ سے پوچھا۔
ماموں جان آپ نے دیکھا نہیں ہے کہ آپ کی نئی نویلی بہو نے گھر کا ماحول خراب کر رکھا ہے۔؟؟
ارے جیمی تم تو ایسے ہی پریشان ہو رہے ہو یار ۔!!
زینہ شروع سے ہی پردے کی پابند ہے ، اس نے ہمارے گھر آ کر پردہ تھوڑی شروع کیا ہے۔
ماموں میں تو بالکل بھی پسند نہیں کرتا ہوں کہ گھر آئے مہمانوں سے چھپا جائے ۔!! اور نا ہی میں آپ کی بہو کے پردے سے آرام دہ محسوس کرتا ہوں، مجھے تو ایسے لگتا ہے جیسے مجھے بنا بولے اشارہ دیا جا رہا ہے ایک لمحہ ضائع کیے بنا ہمارے گھر سے نکل جاؤ۔!
ماموں جان آپکی بہو صاحبہ کو اس حلیے میں دیکھ کر میرا تو دم گھٹتا ہے ، سچی پوچھیں تو آپ کی بہو کبھی کبھی ڈاکو رانی معلوم ہوتی ہے۔۔!!
ایسے لگتا ہے صحرائی قافلہ لوٹنے میں مہارت رکھتی ہے۔! جیمی نے شرعی پردے کی دھجیاں اللہ کے عذاب سے بےخوف و خطر ہو کر اڑانا شروع کر دیں۔۔اس آوارہ مزاج کے تمسخرانہ قہقہے زینہ کے تقویٰ و ایمان پر کاری ضربیں لگانے لگے۔
زینہ کو اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا، شرعی علم ہونے کے باوجود بھی کچھ لمحوں کے لئے ڈگمگا گئی۔دل خون کے آنسو رونے لگا۔
بےجوڑ شادیاں شاید اسی لیے کامیاب نہیں ہوتیں ہیں،پاکیزہ مومن مردوں کے لئے پاکیزہ مومن عورتیں ہی ہونی چاہئیں ۔۔زینہ کے دماغ میں جکڑ چلنے لگے۔۔
زبان تالوں کے ساتھ جا لگی ،جسم پر لرزا طاری ہو گیا۔۔
جیمی اور پھپھو کے بلند و بالا قہقہے زینہ کی سماعتوں میں گونجنے لگے جبکہ ارشاد صاحب شرمندگی سے زینہ کو دیکھتے رہ گئے۔۔
جیمی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ماموں کو زینہ کے پردے سے متنفر کرنا چاہا۔۔
شاید اسکی یہ کوشش کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکی تھی۔۔ مگر کچھ دیر کے توقف کے بعد ارشاد صاحب نے گلا کھنکارا اور گویا ہوئے۔
شمیم اور جیمی کیا ہو گیا ہے آپ لوگوں کو ؟؟آپ دونوں بالکل بچوں والی حرکتیں کر رہے ہو ۔!! اچانک ارشاد صاحب کی آواز بلند ہو گئی۔۔
خبردار جو کسی نے میری بہو کے بارے میں ایک لفظ بھی منہ سے نکالا ، مذاق کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔۔ ارشاد صاحب کے دفاع پر زینہ کو اپنے جسم میں زندگی لوٹتی محسوس ہونے لگی۔ سسر کا ساتھ پاکر زینہ کا دل بھر آیا۔۔
بمشکل آنسوؤں پر بندھ باندھے۔
بھائی جان آپ تو غصہ کر گئے ہیں۔! جیمی تو زینہ کے فائدے کی بات کر رہا ہے کہ کس لئے اپنی ننھی سی جان کو اس تنبو میں چھپائے پھرتی ہے؟ ، اپنی زندگی کو آسان بنائے ، ہمارا تو آنا جانا لگا رہے گا تو زینہ کتنا عرصہ جیمی سے چھپتی پھرے گی۔؟
زینہ کا جی چاہا کہ پھپھو اور جیمی کو کھری کھری سنا ڈالے مگر ماں کی نصیحتیں یاد آتے ہو ہی زبان پر قفل لگا دیئے۔۔
بحث سے خاموشی بہتر ہے ، یہ جہلاء کیا جانیں۔!
یا اللہ انہیں دین کی سمجھ بوجھ اور ہدایت دے آمین۔ زینہ نے تڑپ کر دعا مانگی ۔ دل و دماغ میں پیارے نبی کا فرمان تازہ ہونے لگا۔۔
حديث أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: “الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر”۔۔(صحیح مسلم/الزہد: 1)
ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا مومن کے لیے قید خانہ (جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے“۔
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قید خانے کا قیدی اس کے قواعد و ضوابط کا پابند ہوتا ہے اسی طرح یہ دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ کی مثل ہے، اس میں مومن شہوات و خواہشات نفس سے بچتا ہوا مومنانہ و متقیانہ زندگی گزارتا ہے، اس کے برعکس کافر ہر طرح سے آزاد رہ کر خواہشات و شہوات کی لذتوں میں مست رہتا ہے گویا دنیا اس کے لیے جنت ہے جب کہ مومن کے لیے قید خانہ ہے۔
دنیا دارالعمل اور آخرت دار الجزا ہے، تو مومنوں کو بدلہ جنت اور کافروں کو جہنم کی صورت میں ملے گا۔
تو جب “جنت” طیب اور اچھی جگہ ہے تو اس میں داخل بھی وہی ہوگا جو کہ اچھا اور طیب ہوگا اور پھر اللہ تعالی طیب اور پاک صاف ہے تو وہ قبول بھی طیب اور پاک صاف چیز ہی کرتا ہے اسی لئے اللہ تعالی کا اپنے بندوں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزمانے کےلئے مصائب اور فتنہ میں ڈالتا ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ مومن کون اور کافر کون ہے اور جھوٹے اور سچے کے درمیان تمیز ہوسکے ۔۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
“کیا لوگوں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دینگے؟ ان سے پہلوں کو بھی ہم نے خوب آزمایا تھا یقینا اللہ تعالی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی جو معلوم کرلے گا جو کہ جھوٹے ہیں۔” (العنکبوت1-2)
تو کامیابی اور نجات اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک کہ امتحان نہ ہوجائے اور طیب خبیث سے علیحدہ نہ ہوجائے اور مومن اور کافر کا پتہ نہ چل جائے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
“جس حال پر تم ہو اسی پر اللہ تعالی ایمان والوں کہ نہ چھوڑدے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک کو الگ نہ کردے اور نہ ہی اللہ تعالی ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کردے گا”(آل عمران: 179)
وہ آزمائش جس سے اللہ تعالی اپنے بندوں کو مبتلا کرتا ہے تاکہ مومن اور کافر کے درمیان تمیز ہوسکے اس کا ذکر اس فرمان میں کیا ہے:
“اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کرینگے دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے، اور ان پر صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی رحمتیں اور نوازشیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں”۔۔( البقرۃ: 155؛157)
تو اللہ تعالی بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے اور صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور انہیں جنت کی خوشخبری دے رہا ہے۔۔
چچا جان مجھے اجازت ہے ؟ کیا میں ابھی جا سکتی ہوں۔؟ زینہ نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا ۔۔
ہاں بیٹی تم جاؤ اور اپنا کام کاج کرو ۔! جیمی اور پھپھو کی باتوں کو دل پر لینے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔! سسر کا پرشفیق لب و لہجہ زینہ کے زخموں پر پھاہوں کا کام کرنے لگا۔۔
جی چچا جان۔!
زینہ خاموشی سے کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور گھر کے داخلی دروازے کا رخ کر گئی ۔۔
مہمان خانے میں پہنچتے ہی روحیل کا خیال آیا تو گھبرا کر رہ گئی۔!
ہائے اللہ وہ تو میری ویڈیو کال کے منتظر تھے ۔
آنکھوں میں آئے آنسو رگڑ ڈالے اور فوراً امی کے کمرے کا رخ کیا۔۔
امی وہیل چئیر پر بیٹھی اونگھ رہیں تھیں۔
امی فزیو نہیں آیا کیا ؟؟
آیا تھا مگر آج صرف آدھا گھنٹہ ورزش کروائی ہے، اسے کسی کام سے جانا پڑ گیا ہے۔۔ امی نے کمزور آواز میں جواب دیا۔
چلیں شکر ہے ۔ میں رات کو آپ کو تمام ورزش کرواؤں گی ان شاءاللہ۔
امی ابھی لیٹنا ہے ؟
ہاں مجھے بستر پر لٹا دو ،کافی تھک گئی ہوں۔۔
جی بہتر۔! زینہ ماں کی ویل چیئر گھسیٹ کر بستر کے قریب لے آئی اور شدید دقت کے ساتھ ماں کو تقریباً گرانے والے انداز میں بستر پر بٹھایا۔۔
میرے لئے کتنا مشکل ہے امی کو اٹھانا بٹھانا۔
روحیل اور ویر کس قدر آسانی سے یہ سب کر رہے تھے۔۔ یکدم روحیل کے لئے جذبہ ہمدردی نے دل میں سر اٹھایا تو لب مسکرانے لگے۔۔
امی آپا کیا کہہ رہی تھی۔؟ سب خیریت ہے۔؟
زینہ جلدی جلدی ماں سے بات کرکے روحیل کو فون ملانے کی تگ و دو میں تھی۔۔
ہاں وہ اور ذیشان ادھر آنے کا سوچ رہے ہیں ، مگر میں نے بولا ہے نا آؤ ، میں چند ہفتوں میں خود ہی میرپور لوٹ آؤں گی۔ اب ساری عمر بیٹی کے سسرال میں پڑے رہنا اچھی بات تو نہیں ہے نا۔۔
جی امی ۔! میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ پھپھو لوگ بھی ادھر موجود ہیں تو انہیں شاید پسند نہ آئے۔اور ویسے بھی ذیشان بھائی کی عادتیں بھی قابل قبول نہیں ہیں ، نجانے یہاں آکر کیا گل کھلا کر جائیں ۔؟؟
ہاں بس میں نے بھی یہی سوچ کر منع کر دیا ہے۔
تم نے دوپہر کا کھانا بنا لیا ہے ۔؟؟
ارے نہیں امی۔! ابھی کدھر ، شریفاں خالہ لہسن پیاز تیار کر رہی ہیں ،میں بس روحیل کو فون کر کے باورچی خانے میں جا رہی ہوں۔
بیٹی اتنی دیر کہاں لگا دی ہے۔؟
امی وہ پھپھو کے ساتھ باغیچے میں باتیں کر رہی تھی۔۔
اچھا چلو اس کو بھی وقت دینا ضروری ہے۔!
تم جاؤ جلدی سے اپنا کام نپٹاو اور مجھے صرف ایک گلاس پانی کا دے جاؤ۔!
جی امی۔! زینہ نے جگ سے پانی انڈیل کر ماں کو پیش کیا اور خود میز پر پڑے فون کو دیکھ کر گھبرا گئی۔
ہائے اللہ یہ تو بہت غصے میں ہیں ، پونے گھنٹے سے اوپر کا وقت گزر چکا ہے۔۔ زینہ نے روحیل کے غصیلے پیغامات پڑھ کر جھرجھری لی۔
امی آپ آرام کریں ،میں اوپر روحیل کے کمرے میں جا رہی ہوں۔۔۔
نقاب سے چہرہ ڈھکا اور سرعت سے سیڑھیاں پھلانگنے لگی۔۔
بھاگ کر کمرے کا دروازہ اندر سے کنڈی کیا اور پھولی سانسوں سے فون ملانے لگی۔۔
مسلسل گھنٹی جا رہی تھی مگر روحیل نے زینہ کی سکائپ کال نہ اٹھائی۔۔
ایک نہیں زینہ نے دس بار کال ملائی مگر روحیل نے زینہ کی کال کو نظر انداز کیا۔۔
آخر کار پیغام صوتی کی ٹھانی۔۔
“روحیل ناراض نہ ہوں پلیز وہ دراصل پھپھو نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا تھا جسکی بنا پر میں آپ کو کال نہیں کر پائی ہوں۔ زینہ دانستہ طور پر جیمی کے ذکر کو گول کر گئی وہ نہیں چاہتی تھی کہ روحیل پردیس میں پریشان ہو۔۔
میں آپ سے معافی چاہتی ہوں ، آئندہ میں ہر وقت فون اپنے پاس رکھوں گی ان شاءاللہ۔
ابھی راضی ہو جائیں ۔! ورنہ میرے سے دوپہر کا کھانا اچھا نہیں بنے گا” ۔!
اور آپ جانتے ہیں کہ پھپھو کتنا اچھا کھانا بناتی ہیں۔ کیا آپ چاہیں گے کہ آپکی بیوی آپکی ناراضگی کی وجہ سے برا کھانا پکائے۔؟؟
زینہ نے پیغام صوتی بھیج کر نیچے باورچی خانے کی راہ لی۔۔
بار بار فون دیکھتی مگر روحیل کی کوئی خیر خبر نہ تھی۔۔
شدید گھبراہٹ میں لال لوبیہ اور ابلے چاول پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ ابھی چٹنی سلاد کا سوچ رہی تھی کہ پھپھو آن دھمکیں۔
بنا بات کیے پتیلوں کے ڈھکن اٹھا کر جائزہ لینے لگیں۔
لال لوبیہ ککر میں گلایا ہے کیا۔؟
جی پھپھو۔! زینہ نے تابعداری سے جواب دیا۔۔
اچھا اب میٹھے میں گاجر کا حلوہ یا پھر شیر خورما بنا لو۔!
بنا لیتی ہو ۔؟؟
جی پھپھو۔!! میں فرج میں دودھ دیکھتی ہوں اگر مطلوبہ میٹھوں کے لیے کافی ہے تو میں بنا لیتی ہوں۔
گاجر کو چینی اور تھوڑے سے نمک میں گلا لو اور میں باہر سے خالص کھویا منگوا لیتی ہوں۔!
جی بہتر۔
زینہ نے ٹوکری میں پڑی تازہ لال گاجروں کو دیکھا جنہیں صاف کرکے دھونا اور پھر کدوکش کرنا ایک طویل مرحلہ تھا۔
اللہ جانے کدوکش کے لیے مشین موجود ہے یا پھر مولی کترے پر کام چلانا پڑے گا ۔۔
پھپھو حکم نامہ جاری کرکے باورچی خانے سے غائب ہو گئیں جبکہ زینہ عبایا کی آستینیں موڑتی گاجروں کے ساتھ زور آزمائی کرنے لگی۔۔
شریفاں زینہ کی ظہر کی ادائیگی کے بعد سے باورچی خانے سے جا چکی تھی۔۔
زینہ نے بھرپور مشقت سے تین کلو گاجروں کو پار لگایا ہی تھا کہ شریفاں خالہ ہاتھ میں اشیاء خوردونوش تھامے داخل ہوئیں۔
خالہ یہ کیا ۔؟؟
بی بی جی بڑی بیگم صاحبہ نے شام کے کھانے پر کچھ مہمانوں کو دعوت پر بلایا ہے تو اسی سلسلے میں ، میں ڈرائیور کے ساتھ خریداری کے لیے گئی تھی۔۔
اچھا چلیں ۔! میں آپکی مدد کرواتی ہوں ، ذرا گاجر کے حلوے کو فارغ کر لوں۔
بی بی جی آپ نے کھانا تیار کر لیا ہے ، آپ جا کر کھانا کھائیں ،باقی میں دیکھ لیتی ہوں۔
خالہ آپ سب کو میز پر بلاؤ۔ وہ لوگ جیسے پہنچیں مجھے آگاہ کریں تاکہ میں اسی وقت گرم گرم کھانا نکال لوں۔۔!
زینہ نے کدو کش گاجریں چولہے پر چڑھا دیں تو فون کو دوبارہ کھول کر دیکھا ۔
روحیل کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔
یقیناً ناراض ہو کر سو گئے ہیں۔تھکے ہوئے بھی تو تھے۔۔
گھر کے اہل خانہ کو کھانا پہنچا کر خود امی کو کھانا کھلانے جا پہنچی ، امی کے کھانے سے فراغت کے بعد دوبارہ کال ملانے کا سوچ کر اوپر روحیل کے کمرے کا رخ کر گئی۔۔۔
پہلے عصر ادا کر لوں پھر کال کرتی ہوں۔۔
باورچی خانے میں تین سے چار گھنٹے گزار کر سارے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا ، جی چاہا آرام سے سو جائے مگر روحیل کی ناراضگی کہاں چین لینے دے رہی تھی۔۔
میرا پیغام بھی سن لیا ہے مگر جواب پھر بھی نہیں دے رہے ہیں۔
اگر اب فون نہیں اٹھایا تو ویر کو کال کروں گی۔
عصر ادا کر لی ، بار بار فون ملانے پر بھی کوئی جواب نہ پاکر زینہ کا جی چاہا رو دے ۔ یہ کیسی محبت ہے جو چھوٹی سی غلطی پر اتنی لمبی ناراضگی اختیار کر لی ہے۔؟؟ خوب آنسو بہا کر زینہ نے عاصم کو کال ملائی۔۔
السلام علیکم۔! کیسے ہو ویر۔؟؟
میں خیریت سے ہوں۔ تم سناؤ ویر کی یاد آگئی ہے۔؟؟
یقیناً بھیا نے فون نہیں اٹھایا اسی لیے مجھے کال کی زحمت کر ڈالی ہے۔
ہاہاہاہا ہاہاہاہا ویر تم کتنے معاملہ فہم ہو ماشاءاللہ۔
جی تمہارا ویر تو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ کسی لڑکی کو نہیں پھانس پایا ہے۔۔
یہ تو بہت خوشی کی بات ہے ویر۔شرافت سے شادی کرنا۔!!
اسی شرافت سے میرے بالوں میں چاندی اتر آئے گی۔!
اللہ نہ کرے ویر۔! تم خیریت سے وآپس آؤ تو تمہیں بیوی کے بغیر نہیں جانے دوں گی ان شاءاللہ۔
چلو کہتی ہوتو مان لیتا ہوں مگر امید تو نظر نہیں آتی ہے۔
ویر میں اپنی سہیلی سامعہ کو بولوں گی اسکے سسرال میں شاید کوئی مناسب رشتہ مل جائے۔!
یعنی بات ابھی بھی “شاید” تک ہی ہے۔؟؟
اللہ جانے “یقینی” کاروائی کب ہو گی۔؟؟
ویر تم بھی نا ہتھیلی پر سرسوں جمانے پر تلے ہو۔!!
اپنی شادی پہلے کرواتے تو پھر اپنے بھیا کی کرواتے نا ؟؟
جی اور جو دن رات میں سرد آہیں سنتا رہا ہوں وہ تو مجھے پتا ہے ، بھیا صاحب مجنوں بنے پھرتے تھے۔ انکی دکھیاری حالت دیکھ کر میری حالت بھی غیر ہوتی رہتی تھی۔۔
اچھا تو ان کی اس وقت اتنی حالت غیر ہوتی تھی تو اب کیا ہو گیا ہے ۔؟؟ میری کال کیوں نہیں اٹھا رہے ہیں۔؟
کم و بیش بیس مرتبہ کال کر چکی ہوں۔۔اب تو سکائپ بھی میرے سے پناہ مانگ رہی ہے۔
ہاہاہاہا ہاہاہاہا عاصم کا قہقہہ بلند ہوا۔۔
میری بھولی بھالی بھابھی صاحبہ تمہارے میاں صاحب اس وقت دوبئی کی روشنیوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے گھر سے باہر نکلے ہیں۔! شاید سگنلز کم ہوں جسکی وجہ سے کال موصول نہیں پا رہی ہے۔
عاصم کیا وہ سوئے تھے۔؟؟
مجھے کیا خبر وہ اپنے کمرے میں تھے اور میں اپنے کمرے میں۔!
انہیں صرف ٹپ ٹاپ حلیے میں باہر جاتے دیکھا ہے وہ بھی جب میں اپنے کمرے سے باہر نکلا ہوں۔۔۔
زینہ کا دل بیٹھنے لگا۔
اچھا کوئی بات نہیں ویر تم آرام کرو ۔ میں بعد میں بات کر لوں گی ان شاءاللہ۔۔
زینہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے فون کو بستر پر پھینکا۔۔۔
دبئی تو ویسے بھی بدکاری کے اڈوں کی وجہ سے مشہور ہے ، کہیں روحیل بن ٹھن کر ادھر نا چلے گئے ہوں ۔؟ شیطان ہر وقت ساتھ رہتا ہے ، کہیں دوبارہ سے بہک نہ جائیں۔
جس شخص کا ماضی اس قدر آلودہ گزرا ہو اس شخص کے لئے دوبارہ اس غلاظت کو اپنا لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔۔
زینہ کے آنسو لڑیوں کی صورت میں لڑھکنے لگے۔ بےموسم برسات کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔۔
یا اللہ۔! تو ہی ہے میرے دل میں اطمینان بھر دے ۔۔۔میں کیسے اس شخص کے ساتھ اپنی زندگی گزاروں گی۔؟! بےاعتباری کی جنگ چھڑ گئی۔
رہ رہ کر روحیل کے آلودہ ماضی کی غلاظت ستانے لگی۔۔
چہرہ رگڑ کر نقاب اوڑھ کر کمرے سے باہر نکل آئی تو چند قدم کے فاصلے پر جیمی شیطانی مسکراہٹ سجائے زینہ کے قریب بڑھنے لگا۔۔۔
زینہ کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہونے لگا ، ایسے لگا جیسے وہ خاردار جھاڑیوں میں پھنس چکی ہے۔۔
جیمی نے آگے بڑھ کر زینہ کی کلائی مضبوطی سے تھام لی۔
اس سے پہلے زینہ شور مچاتی کسی نے جیمی کے چہرے پر زور دار تھپڑ جڑ دیا۔۔
جیمی ہکا بقا اچانک اس افتاد پر بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا ، بائیں گال پر پڑنے والا تھپڑ اس قدر جاندار تھا کہ کان بھی زد میں آ گیا ، زوردار تھپڑ جیمی کے دودھیا گال پر انگلیوں کے نشانات چھوڑ گیا خوبرو جوان اپنی اس گھٹیا کارستانی پر شرمندہ نظر آنے لگا۔۔
میں نے تمہارے اوپر ساری زندگی ہاتھ نہیں اٹھایا ہے مگر آج تمہاری اس کمینگی نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں تمہیں حدبندی سکھاؤں ۔! تم نے میری کمزوری کو للکارا ہے جیمی ۔!! میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اس قدر گر جاؤ گے۔؟
زینہ بذات خود مجسمہ بنی پاس کھڑی پھپھو کو چور نظروں سے دیکھ کر رہ گئی۔۔
بےقصور ہوتے ہوئے بھی دل میں خوف جڑ پکڑنے لگا ۔کپکپاتا وجود پسینے سے شرابور ہونے لگا۔۔
جیمی تمہاری جرآت کیسے ہوئی میرے بھتیجے کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی ۔؟؟ پھپھو کی شعلے برساتی نظریں اور گرج دار لب و لہجہ جیمی کو گردن جھکانے پر مجبور کر گیا۔۔
جمشید میں نے کچھ پوچھا ہے ، مجھے فوراً سے پہلے جواب دو ۔!!
جیمی نے ہکلاتے ہوئے لرزتی آواز میں بولنا شروع کیا ، موم آپ نے خود ہی بولا تھا کہ میں روحیل کی بیوی کو اچھے طریقے سے پرکھوں گی کہ وہ اسکے قابل ہے بھی ہے یا نہیں ، تو بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بھی سوچا کیوں نا میں بھی بھیا کی بیوی کو اچھی طرح پرکھ لوں۔۔
میں نے صرف کلائی ہی تھامی تھی موم۔!
اور تو کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔!!
چھن سے زینہ کے اندر کچھ ٹوٹ کر بےمول ہو گیا۔۔
شاید مان تھا جو پھپھو کی آمد سے لے کر اب تک مسلسل کچوکوں کی بوچھاڑ سہہ رہا تھا۔
زینہ کا جی چاہا دھاڑیں مار مار کر روئے۔۔۔
پھپھو کو اپنے بھتیجے کے ماضی کی خبر کبھی بھی نہیں رہی ہے یا پھر انکی نظر میں وہ سب جائز تھا ، یا یہی ہے کہ جوانی میں لڑکے اس طرح کے شغل میلے میں مبتلاء رہتے ہیں۔۔؟؟
زینہ کا فریادی دل و دماغ موجودہ تذلیل برداشت کرنے سے عاری تھا۔۔ جی چاہا پھپھو اور جیمی کو کھری کھری سنا ڈالے مگر ماں کی آئے دن کی نصیحتیں پاؤں کی زنجیر بن گئیں۔۔
زینہ ابھی بولنا مناسب نہیں ہے۔ زینہ تیرا صبر انکے کھلے ہوئے ہاتھ اور کھلی ہوئی زبانوں کو لگام ڈالے گا ان شاءاللہ۔
زینہ نے اپنے جذبات کو تھپک کر ہمیشہ کی طرح سلانا چاہا مگر شاید زخمی دل سہہ نہ پایا اور ہچکیاں بندھ گئیں۔۔
پھپھو نے نازک صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے ترش لہجے میں جیمی کو کوریڈور سے دفع ہو جانے کا اشارہ کیا اور خود زینہ کو اپنی باہوں کے حلقے میں لے کر روحیل کے کمرے میں لوٹ آئیں۔۔
زینہ اس اچانک مہربانی پر حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔۔
زینہ کو شانوں سے تھامے ہوئے بستر پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ ٹک گئیں۔۔۔
زینہ جیمی کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔ مجھے معاف کر دو۔!
روتی بلکتی زینہ نے چہرے سے نقاب ہٹا کر پھپھو کو زخمی نظروں سے دیکھا۔۔
پھپھو کی کھوجتی نظریں زینہ کی فریاد رسی سمجھ سکتیں تھیں۔۔
زینہ نے بولنے کے لیے لب کھولنا چاہے مگر پھر خالی نظروں سے فرش کو گھورنے لگی۔۔۔
زینہ میری طرف دیکھو۔!
زینہ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پھپھو کو اجڑی نظروں سے دیکھا۔۔۔
زینہ سارا قصور میرا ہے جو پہلے دن سے میں نے حسنِ ظن سے کام نہیں لیا، میں تمہاری طرف سے بدگمان تھی کہ روحیل تمہارے ساتھ شادی کے لیے کیوں مرا جا رہا ہے۔؟؟
شاید تم نے اسے پارسائی کا ڈرامہ رچا کر پھانس لیا ہے۔۔۔
مجھے اپنے بھتیجوں سے بےحد محبّت ہے ، میں نے انہیں ایک ماں بن کر پروان چڑھایا ہے ۔۔
جمشید تو بعد میں پیدا ہوا ہے جبکہ میرے دو بھتیجے تو میری ہتھیلی کا چھالا تھے۔میری تربیت میں پروان چڑھنے والے ہونہار بچے ، میری ہر بات کو سر آنکھوں پر رکھنے والے بھتیجے مجھے بہت عزیز ہیں ، میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی ایسی لڑکی جو مال و دولت کی پجارن بن کر آئے اور اس مختصر سے کنبے کو بکھیر ڈالے۔۔
زینہ میں نے تمہیں گزشتہ ایک ہفتے سے اچھی طرح جانچ پرکھ لیا ہے اور تم میں سے نمبر لے کر پاس ہو چکی ہو۔۔!!
تمہیں میرے کڑوے کسیلے الفاظ سہنے پڑے ہیں جنکو تم نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے۔۔۔ شاید روحیل کو تم سے بہتر لڑکی نا ملتی۔۔میں نے تمہارا دل دکھایا ہے جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔۔!!
پھپھو نے زینہ کا ہاتھ تھام کر دبایا جبکہ زینہ کا چھلنی دل اور اشکبار آنکھیں ان انکشافات کو ماننے پر راضی نہ تھیں۔۔۔
جیمی کی اس حرکت کو بھول جاؤ ۔!! وہ آئندہ کبھی بھی ایسی جرآت نہیں کرے گا ۔!! اور ویسے بھی اسے کل کی فلائٹ سے واپس جانا ہے۔
زینہ اثبات میں صرف گردن جھٹک کر رہ گئی۔۔
کاش پھپھو آپ آزمائش کا یہ اذیت ناک ہتھکنڈہ استعمال نہ کرتیں ، میں آپکی باتوں سے کس قدر اذیت سے گزرتی رہی ہوں یہ تو صرف میں ہی جانتی ہوں ۔۔زینہ کا دل دبی دبی دہائیاں دینے لگا۔۔
پھپھو نے کچھ دیر بعد دوبارہ بات کا آغاز کیا ۔دیکھو زینہ تمہارا طریقہ کار ہم سب کے لیے نیا اور انوکھا ہے ۔ اگر تم صرف اس اسلام آباد کو ہی دیکھ لو تو بہت کم لوگ ہیں جو تم جیسے شرعی پردے کو اپناتے ہیں۔۔۔ میں سے شاید ایک گھر ایسا ہو گا جو اس بات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے ۔
تم میری بات سمجھ رہی ہونا ۔؟؟
زینہ نے گال رگڑتے ہوئے اثبات میں گردن جھٹکی۔۔
زینہ تمہیں پتا ہے تم بہت پیاری ہو ۔!! مجھے روحیل کے حوالے سے تم بہت عزیز ہو۔!
ججججی۔! زینہ کو ایک اور سو وولٹ کا جھٹکا لگا ، فوراً پھپھو کو حیرت سے گردن اٹھا کر دیکھا۔۔
ہاں شاید تمہارے پاکیزہ باطن کا نور تمہارے معصوم چہرے پر جھلکتا ہے۔۔
غمزدہ زینہ ان حقائق کو ماننے سے گریزاں تھی۔۔
تمہارا تو کچھ کہہ نہیں سکتی مگر میرے بھتیجے نے تمہیں پانے کے لیے ضرور کوئی ایسی ویسی حرکت کی ہوگی جو ناقابل برداشت ہو گی۔ خیر مجھے آہستہ آہستہ پتا تو چل جائے گا ، وہ زیادہ عرصہ میرے سے اپنا حال دل چھپا نہیں پائے گا۔۔!
زینہ روحیل دل کا بہت اچھا ہے ، وہ بہت نرم دل انسان ہے ، اسے کبھی کوئی دکھ نہ دینا ۔۔!!
تم اس گھر کی بڑی بہو ہو اور یہ سب تمہارا ہے اور تمہیں ہی احسن طریقے سے لے کر چلنا ہے ۔!!!
اور ہاں رات کو میں نے کچھ اپنی پرانی قریبی سہیلیوں کو مدعو کیا ہے۔
گھبراؤ نہیں صرف عورتیں ہی ہوں گی۔!
اور جہاں پر تم موجود ہو گی وہاں پر جیمی کو جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔۔
آخر میں پھر یہی بولوں گی تم پردے کے معاملے میں کچھ شدت پسند واقع ہوئی ہو۔
بہرحال اگر میرا بھتیجا راضی اور خوش ہے تو مجھے کوئی عار نہیں ہے جبکہ حقیقتاً مجھے تمہیں اس حلیے میں دیکھ کر گھٹن کا احساس ضرور ہوتا یے۔۔۔
فرش کو گھورتی زینہ نے چہرہ اوپر اٹھا کر پھپھو کو دیکھا اور گویا ہوئی۔۔
پھپھو آپکی تمام باتیں سر آنکھوں پر مگر خالق کے حکم کے سامنے مخلوق کی اطاعت نہیں کروں گی۔۔
دنیاوی گھٹن قابل برداشت ہے مگر جہنم کی گھٹن ناقابل برداشت ہو گی جو زانیہ عورتوں کو ملتی رہے گی۔۔۔
زینہ نے دھیمے لہجے میں پھپھو کو چند جملے بول کر لاجواب کر دیا۔۔۔
اچھا چلو بھئی تمہاری مرضی اور تمہاری زندگی ہے جو جی چاہے وہ کرو۔!!
ابھی شام کے لئے اچھے سے تیار رہنا۔!
مجھے اپنے کپڑے تو دکھاؤ ذرا ۔!
جی پھپھو۔!
زینہ نے فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوئے الماری میں لٹکے کپڑوں کو پھپھو کی آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگرے لہرانا شروع کر دیا۔۔۔
پانچ سے سات جوڑے دیکھنے کے باوجود بھی پھپھو کو کوئی جوڑا پسند نہیں آ رہا تھا۔۔
خود بستر سے اٹھ کر الماری کھنگالنے لگیں۔
یہ ہلکی فیروزی قمیض اور گہرے نیلے امتزاج میں بہت جچو گی ، جالی دار دوپٹہ کے ساتھ نگینوں کا کام بھی کافی نفیس لگ رہا ہے۔۔
روحیل لایا ہے کیا۔؟؟
جی پھپھو۔!
میرے بھتیجے کی پسند تو بہت اچھی ہے۔ پھپھو کی باتوں میں مامتا ٹھاٹھیں مارنے لگی۔
ابھی جلدی سے نہا لو اور اچھے سے تیار ہو جاؤ ۔!
جی بہتر ۔!
مجھے اپنے بال دکھاؤ۔!
جی پھپھو۔ زینہ نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور سر پر جمے حجاب کو اتار کر کرسی پر رکھا۔۔
ہاں بال تو تمہارے بہت پیارے ہیں، شیمپو کنڈیشنر لازمی کرنا ۔!!
جی۔! زینہ نے فرمانبرداری سے بولا اور ہینگر میں لٹکے کپڑے نکالنے لگی۔۔۔
اور ہاں یہ جیمی کے پاگل پنے کا تذکرہ کسی سے بھی نہ کرنا ۔!! ایسے ہی بھائی جان کا دل دکھے گا۔
جی بہتر۔!
اس جیمی نالائق نے متجسس ہو کر یہ حرکت کی ہے وگرنہ میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔
پھپھو نے زینہ کو تنبیہ کی اور کمرے سے نکل گئیں۔۔۔
زینہ نے پہلی فرصت میں لپک کر کمرے کا دروازہ بند کیا اور سوچوں کے بھنور میں ڈوب گئی۔۔ پھپھو اچانک اتنی اچھی کیسے ہو گئیں ہیں۔؟ شاید واقعی میں انہیں روحیل کے حوالے سے عزیز تر ہو گئیں ہوں اور مجھے انکا آزمانے کا طریقہ بالکل بھی پسند نہیں آیا۔ میں اتنی گئی گزری ہوں جو ہر دوسرا تیسرا شخص مجھے آزماتا پھرے ۔۔۔ چند آنسو لڑھک کر گال بھگو گئے۔۔
روحیل آپ نے مجھے حقیقتاً کڑے امتحانوں میں ڈال دیا ہے۔۔
خود پتا نہیں وہاں دبئی میں کیا کر رہے ہوں گے۔؟
روحیل کے حوالے سے دل و دماغ میں دوبارہ جنگ چھڑ گئی۔۔ زینہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔
ایک مرتبہ پھر بے اعتباری کا طوفان سر اٹھانے لگا۔۔
******************************************
مہمانوں سے فراغت کے بعد سب کام نپٹا کر تھکی ہاری زینہ نے عشاء ادا کی اور ماں کے بستر پر نیم دراز ہو گئی۔۔۔
تھک گئی ہو زینہ۔؟؟
امی آپ ابھی تک سوئی نہیں ہیں کیا۔؟؟
تمہارا انتظار کر رہی تھی کہ آؤ تو چار باتیں کر لوں گی۔۔
جی امی بس پھپھو کی سہیلیاں مجھ سے ملنے کی متمنی تھیں۔۔
اچھی خاطر مدارت کی ہے نا زینہ۔؟؟
جی امی اپنی طرف سے بھرپور کوشش کی ہے بظاہر تو سب خوش نظر آ رہیں تھیں۔۔
بس بیٹی بظاہر پر اکتفا کیا کرو باطن کو کھنگالنے سے تعلق بدگمان ہو جاتے ہیں۔۔!
جی امی ہر وقت یہی کوشش کرتی ہوں کہ ہمارے تعلقات میں بدگمانی نہ آئے۔۔
روحیل سے دوبارہ بات ہوئی ہے کیا۔؟
امی میں نے بارہا کال کی ہے مگر شاید وہ کہیں باہر مصروف تھے۔۔زینہ کے دل میں ٹھیس اٹھی۔۔۔
امی آپ آرام کریں۔! میں بس کمر سیدھی کرنے کے لیے کچھ دیر کے لئے لیٹ گئی ہوں وگرنہ ابھی یہ کامدار لباس بھی تبدیل کرنا ہے۔۔
زینہ تمہیں یہ جوڑا بہت جچا ہے ماشاءاللہ۔۔
جی امی۔ زینہ نے بند آنکھوں سے جواب دیا۔۔۔
لمبے دن کے اتنے سارے کربناک لمحات آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔۔
امی آپ سو جائیں ، میں کپڑے تبدیل کر لوں پھر آتی ہوں۔۔
غسل خانے سے نکل کر جوڑے کو ہینگر میں ڈال کر امی کی الماری میں لٹکا دیا ، یہی سوچا صبح روحیل کے کمرے میں لے جائے گی۔۔
منتشر سوچیں دوبارہ روحیل کی ڈائری کی طرف کھینچنے لگیں۔۔
امی میں کچھ دیر بعد سوتی ہوں ، لہٰذا زیرہ کا بلب جلا دیتی ہوں۔
زینہ تم بھی آرام کرو بیٹی۔!
جی امی بس پندرہ منٹ میں سوتی ہوں۔!
زینہ نے کمرے کی بڑی بتی گل کرکے شب خوابی کی بتی جلا دی۔۔۔
ڈائری نکال کر کرسی پر بیٹھ گئی اور چھوٹا ٹیبل لیمپ جلا لیا۔۔ کچھ دیر کےلئے ذہن اپنے میرپور والے گھر کی طرف چلا گیا جہاں پر وہ بجلی کی بندش پر موم بتی جلا لیتی تھی یا پھر مجبور ہو کر بستر میں گھس جاتی تھی۔ آج ہر طرح کی سہولت میسر ہیں مگر دل کا قرار کہیں کھو گیا ہے۔۔ لرزتے ہاتھوں سے ڈائری کھول کر مطلوبہ صفحے پر نظریں جما لیں۔۔
“”بہت دنوں کی گریہ زاری اور محنت مجھے اس قابل بنا گئی کہ آج میں اس سے بات کرنے کے قابل ہو سکا ہوں۔۔
شاید میرا ظاہری حلیہ اس کے دل میں کوئی جگہ بنا سکے ، میری اجڑی حالت ، میری آنکھوں میں پڑے سیاہ گڑھے شاید اس کا دل پگلا دیں ۔۔
میں بھی پاگل ہو گیا ہوں۔ وہ بھلا میرے لئے رحم کیوں کرے گی۔؟؟
بہت ساری ہمت جمع کر کے آخر اسکا سامنا کرنے کے لیے آگے بڑھا مگر اس کی سہیلی نے تو مجھے دھو ڈالا۔۔
معافی تلافی کے باوجود بھی سود مند نتائج نہ ملے۔۔ روزانہ اسی انتظار میں رہتا ہوں کہ شاید کسی دن اکیلی مل جائے ، اور آخر میری شنوائی ہو گئی۔۔
موقع ملتے ہی میں اسے اپنا حال دل بتانے دوڑ بھاگا ۔۔
مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک ہے ۔ مجال ہے جو اس نے ذرا سی نرمی دکھائی ہو ۔اللہ جانے گھمنڈی لڑکی ہے یا پھر بہت بہادر ہے ۔۔ کونسی ایسی چیز ہے جو اسے میری طرف مائل نہیں ہونے دیتی۔۔
میرے تو ایک اشارے پر لڑکیاں لٹو ہو جاتی ہیں کجا کہ میں انکے پیچھے ہفتوں لگا رہوں، میں بھی شاید دیوانہ ہو گیا ہوں، ہزار کوشش کے باوجود بھی خود کو روک نہیں سکتا ہوں۔
اسکے بھائی کے کام کاج کا اتا پتا لے کر اب مجھے اگلا قدم اٹھانا ہے۔۔
اپنے خیالوں میں گم جاتی ہے ، اسے تو یہ خبر بھی نہیں ہوتی ہے کہ میں روزانہ اسے صبح اور واپس چھٹی تک اسکے پیچھے پیچھے گاڑی دوڑاتا رہتا ہوں، ایک دن اسکے بھائی کی موٹر سائیکل کی خرابی میرے لیے باعث رحمت بن گئی مگر میری خوشی اس وقت ہوا ہو گئی جب اسنے اپنی موٹر سائیکل کو چند لمحوں میں دوبارہ چلانا شروع کر دیا۔۔
ہائے میری مجبور سی محبت۔!
یہ لڑکی مانتی بھی نہیں ہے وگرنہ میں تو اسے چند دنوں میں اپنی دلہن بنا کر اپنے گھر لے آؤں۔
یہ بات تو طے ہے زینہ میری اور صرف میری ہے۔
جب یہ میری بن جائے گی تو میں اسے یہ ڈائری پڑھنے کے لیے ضرور دوں گا تاکہ اسے میری باتوں پر یقین آ سکے پر پھر یہ نا ہو وہ میرے سر چڑھ جائے ، کوئی بات نہیں چڑھتی ہے تو چڑھ جائے ،محبت میں سب چلتا ہے ، آخر کو میری بیوی ہو گی “”۔۔
زینہ صفحات پلٹتی جا رہی تھی مگر ساتھ ساتھ آنکھیں بھی دغا بازی کر رہی تھیں۔۔
چند لمحوں کے لیے ڈائری سے توجہ ہٹا کر زینہ دل ہی دل میں خود کلامی کرنے لگی۔۔۔
روحیل جب میرے ساتھ اتنی محبت کرتے ہیں تو پھر میرے ساتھ دھوکا دہی کیسی۔؟؟ آپ آج دبئی کی روشنیوں میں کیوں کھو گئے ہیں ؟؟ کیوں اپنی زینہ کو نظر انداز کیے بیٹھے ہیں ؟ شاید آپ کسی نئی دوشیزہ کی باہوں میں جھول رہے ہیں۔؟؟ سوچتے ہی زینہ کا دل ڈوبنے لگا۔
نہیں روحیل آپ ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے۔! میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی۔ آپ کی سچی توبہ کی بدولت میں نے آپ سے نکاح کی حامی بھری تھی وگرنہ تو پاک مردوں کے لئے پاک عورتیں ہیں۔
زینہ نے لرزتے ہاتھوں سے ڈائری کا اگلا صفحہ پلٹا جبکہ امی کی بھاری سانسیں انکی گہری نیند کی شاہد تھیں، چند لمحوں کے لیے زینہ نے پلٹ کر ماں کو دیکھا اور دوبارہ مطالعے میں غرق ہو گئی۔۔۔
عاصم کی واپسی میرے لیے باعث رحمت ہے ، اسے تمام حقائق سے آگاہ کر چکا ہوں ، صبح سے ایک ایک لمحہ گن رہا ہوں کہ کب اس ظالم محبوبہ کے گھر پہنچوں۔۔
اسکی کالج سے واپسی پر اسکا عاصم سے گرمجوشی سے استقبال کرنا اور اسکی کھنکتی آواز کا میرے کانوں میں رس گھولنا بہت ہی دلفریب تھا۔۔
کاش میں اسے ایک جھلک دیکھ سکوں یا پھر اسے قائل کر سکوں۔۔
کتنے تو نمبر بدل چکا ہوں مگر اس پتھر دل پر کوئی چیز اثر ہی نہیں کرتی ہے۔
لڑکیاں تو اپنی تعریفیں سن کر دل ہار بیٹھتی ہیں مگر یہ زینہ نجانے کونسے سیارے کی مخلوق ہے ۔؟
میرے خیال میں اسے خشک مزاج محبوبہ کا نام دینا زیادہ مناسب رہے گا۔۔۔
میری کسی بات کا کوئی جواب ہی نہیں دیتی ہے جیسے میں کوئی گیا گزرا بدصورت انسان ہوں۔۔۔
میں اسے کیسے قائل کروں کہ میں اسے دھوکہ نہیں دے رہا ہوں بلکہ میں حقیقی طور پر اسے اپنانا چاہتا ہوں۔۔؟
زینہ صفحات پلٹتی جا رہی تھی اور ہر صفحہ نئی داستان سنا رہا تھا۔۔۔
ہسپتال میں گزاری گئی رات میرے لئے بہت کٹھن تھی ، وہ پگلی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی، عاصم اور زید سے نظر بچا کر بارہا میں نے زنانہ انتظار گاہ کے چکر کاٹے ، نیند تو گویا کوسوں دور تھی۔ وہ نازک اندام شاید رو رو کر اور دعائیں مانگتے مانگتے شدید تھک چکی تھی اور ادھر ہی فرش پر بچھے مصلے پر ڈھیر ہو گئی۔۔
آج جب وہ ہسپتال میں بیہوش ہوئی تو میرا ضمیر گوارا ہی نہیں کیا کہ اسے میرے علاوہ کوئی چھوئے۔ وہ میری باہوں میں کسی پھول کی طرح جھول رہی تھی۔۔ شکر ہے بیہوش تھی ورنہ مجھے اپنی سخت مزاجی سے قتل کر دیتی۔۔
ویسے اس کی نامحرم کے لئے سخت مزاجی مجھے بہت بھاتی ہے۔
شاید اسی لیے وہ مجھے اور اچھی لگنے لگی ہے۔۔
اور پتا ہے میں نے اس سے معافی تلافی کے بعد ایک مرتبہ بھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا ہے، جی تو بہت چاہتا ہے مگر مجھے اس کی غیرت بہت عزیز ہے۔۔ دل سے پکا عہد کیا ہے کہ نکاح کے بعد ایک ہی مرتبہ اسے دیکھوں گا ان شاءاللہ۔۔
یا اللہ کوئی ایسا ذریعہ پیدا فرما دے کہ وہ مجھے اپنا لے ، میرے ساتھ نکاح کے لئے حامی بھر دے۔۔
اسکی ایک ہاں میری زندگی کا سرمایہ ہے۔۔۔
یا اللہ میری اس پارسا زینہ کو میرا بنا دے آمین۔
ڈائری لکھ کر دل کی بھڑاس نکال لی ہے اب مجھے قرآن مجید کے آخری پارے کی ایک سورت حفظ کرنی ہے ، وہ جب آئے گی تو میں روزانہ اسے ایک سورت سنایا کروں گا ان شاءاللہ۔۔
اسے نہیں خبر وہ میری تہجد میں مانگی جانے والی عزیز ترین ہستی ہے ، وہ میری دعاؤں کا حسن ہے، صرف اس ایک لڑکی کی بدولت میرے یہ گناہ گار ہاتھ اپنے رب کے سامنے اٹھنے لگے ہیں۔ مجھے صراط مستقیم کی طرف رغبت دلانے والی جلدی سے میری بن جاؤ۔!! زینہ حیات میری محبت میرا مان صرف تم ہو ۔!!