حال ہی میں ماہیے کی تحریری ہیئت کے سلسلے میں بعض حلقوں کی طرف سے ڈیڑھ مصرعی ہیئت کا مسئلہ سامنے آیا ہے۔ ایک حلقے کی طرف سے ڈیڑھ مصرعی ہیئت کی تجویز اس جذبے کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ اس طرح ماہیا دوسری سہ مصرعی اصناف سے الگ طور پر پہچانا جا سکے گا۔ دوسرے حلقے کی طرف سے شدید برہمی کے ساتھ حکماً بتایا گیا ہے کہ ماہیا ہوتا ہی ڈیڑھ مصرعے کا ہے جبکہ ایک تیسرے حلقے کی طرف سے، جس نے اچانک ماہیے میں گہری دلچسپی لینی شروع کی ہے، دوسرے حلقے سے بھی زیادہ برہمی کے ساتھ حکم صادر کیا گیا ہے کہ ماہیا ڈیڑھ مصرعی ہیئت ہی میں لکھا جاتا ہے اور اگر ماہیے کو ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں لکھا جائے تو ماہیے کے وزن کے سلسلے میں سارے الجھاﺅ از خود ختم ہو جاتے ہیں۔
ان تینوں حلقوں کی طرف سے اس موقف کو اختیار کرنے کے اصل محرکات کیا ہیں اور پس منظر میں کیا کچھ کار فرما ہے؟ اس کی تفصیل ماہیے کی تاریخ میں محفوظ رکھنے کے لئے میں الگ کتاب لکھ رہا ہوں۔ یہاں مذکورہ حلقوں کی ”ذاتیات“ سے ہٹ کر صرف ادبی مسئلے کے طور پر پنجابی لوک گیت ماہیے کی تحریری ہیئت پر اپنے موقف کی وضاحت کروں گا۔ میرا یہ موقف پنجابی دانشوروں کی آراءکی روشنی میں پنجابی ماہیے کی اصل بنیادوں پر استوار ہے۔ ڈیڑھ مصرعی ہیئت کی تجویز پیش کرنے والے پہلے حلقے کا خیال ہے کہ ڈیڑھ مصرعی ہیئت کے باعث ماہیا دوسری سہ مصرعی اصناف سے الگ پہچانا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں قبل ازیں میں وضاحت سے جواب دے چکا ہوں۔ اسی جواب کا ایک حصہ یہاں دہرا دینا ہی کافی ہے۔
”ماہیے اور ثلاثی یا ہائیکو کا محض ہم شکل ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ رباعی اور قطعہ بظاہر ہمشکل ہیں لیکن دونوں کا فرق واضح ہے۔ دوہے اور دوپدے میں بسرام کی تفریق دونوں کو ہم صورت ہونے کے باوجود الگ الگ شناخت دیتی ہے۔ دِکھنے میں آزاد نظم اور نثری نظم (نثر لطیف) ایک جیسی ہیں لیکن فرق صاف ظاہر ہے“ (”ماہیے کی کہانی“ از حیدر قریشی مطبوعہ دو ماہی ”گلبن“ احمد آباد ماہیا نمبر جنوری ۱۹۹۸ءصفحہ ۴۶، ۴۷)
سو ماہیے کی اصل پہچان پنجابی لوک لَے ہے جو ماہیے کے علاوہ کسی دوسری سہ مصرعی صنف میں موجود نہیں ہوتی۔
دوسرے اور تیسرے حلقوں نے شدید برہمی کے ساتھ حکم دیا ہے کہ ماہیا صرف ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں ہوتا ہے۔ اگر پنجابی لوک گیت کی تحریری ہیئت واقعتاً ڈیڑھ مصرعی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں تو ہمیں یقیناً ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر اصرار کرنا چاہئے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر منفی رویے کو ترک کر دینا چاہئے۔ بے جا ضد کے ساتھ تحکمانہ انداز ترک کر دینا چاہئے اور اصل سچائی کو مان لینا چاہئے۔ تو آیئے دیکھتے ہیں کہ پنجابی کا لوک گیت ماہیا کس ہیئت کا حامل ہے؟……..
اصل موضوع پر بات شروع کرنے سے پہلے یہ وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ماہیے کے وزن، ماہیے کی تحریری ہیئت اور ماہیے کے معیار کے مسئلوں کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔ تینوں مسئلے الگ الگ طور پر غور طلب ہیں۔ ہاں جب ان کی تفہیم ہو جائے تو پھر انہیں مربوط کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن اگر شروع میں ہی ان تینوں مسئلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا جائے تو اس سے بحث کو خلط ملط تو کیا جا سکتا ہے لیکن نیک نیتی سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔
پنجابی لوک گیت ماہیا صدیوں سے پنجاب کے عوام کے جذبوں، امنگوں، حسرتوں، کامیابیوں، ناکامیوں، خوشیوں اور دکھوں کی کیفیات کا ترجمان رہا ہے۔ عوام کی زندگی کا تقریباً ہر پہلو ماہیے میں سمایا ہوا ہے۔ یہ لوک گیت صدیوں سے سینہ بہ سینہ عوام کے ذریعے سفر کرتا رہا ہے۔ انہیں تحریری طور پر پیش کرنے کا چلن بہت بعد کی بات ہے۔ وہ دیہاتی پنجابی معاشرہ جو ماہیے تخلیق کر رہا تھا اس کے پیش نظر اس کی لَے ہی اس کی اصل پہچان تھی۔ پروفیسر شارب اپنے مضمون ”کجھ ماہیے بارے“ میں لوک گیتوں کی صدیوں پرانی روایات کے حوالے دینے کے بعد لکھتے ہیں:”نہ تو ان لوک گیتوں کو جمع کیا گیا اور نہ ہی یہاں کے عالموں نے ان کے بارے میں کوئی تحریری نوعیت کا کام کیا“ (پنجابی سے ترجمہ) سو صدیوں سے رائج لوک گیت ماہیا اگر کسی تحریری ہیئت کے بغیر ہی اپنی لَے کی بنیاد پر زندہ موجود تھا تو اس کی تحریری ہیئت کے بارے میں ڈیڑھ مصرعی ہیئت کا حکم کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ پنجابی دیہاتیوں کی ماہیے کی لَے کے حوالے سے پروفیسر شارب لکھتے ہیں-:
”ان سیدھے سادے اور اپنے کام سے غرض رکھنے والے دیہاتیوں کے مدنظر تو یہ ہے کہ ماہیا سُر اور لَے میں ہو تو سب ٹھیک ہے۔ سُر (لَے) کو گاتے وقت وہ خود ہی ٹھیک رکھتے ہیں کیونکہ وہ نسل در نسل اسے سنتے آئے ہیں اور ان سے زیادہ سُر کی روایت کو کون جان سکتا ہے“
(پنجابی سے ترجمہ)
اور اس سے تھوڑا آگے چل کر پروفیسر شارب لکھتے ہیں کہ یہ عوامی ماہیے ”کسی کتاب کی بجائے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچے ہیں“ (مضمون ”کجھ ماہیے بارے“)
لہٰذا پنجابی لوک گیت ماہیے کی ہیئت کے بارے میں ہمیں پہلے سے موجود ساری تحریری روایات پر غور کرلینا چاہئے۔ تنویر بخاری نے اپنی کتاب ”ماہیا فن تے بنتر“ کے صفحہ نمبر ۲۷پر ماہیے کی دو ہیئتیں بطور نمونہ پیش کی ہیں۔ وہ دونوں ہیئتیں یہ ہیں-:
(۱) کوٹھے تے راہ کوئی نہیں
ملاں قاضی مسئلہ کیتا یاری لاونا گناہ کوئی نہیں
(۲) دو پتر اناراں نے ساڈے بنے آ بیٹھے کلبوتر یاراں نے
(کتاب ”ماہیا ۔ فن تے بنتر“ مطبوعہ ۱۹۷۷ء)
امین خیال نے اپنے مضمون ”پنجابی ماہیا میں بھی ماہیے کو صرف ایک ہی مصرعہ یا ایک ہی سطر میں لکھنے کی روایت کا ذکر کیا ہے۔ (بحوالہ دو ماہی ”گلبن“ احمد آباد ماہیا نمبر۔ صفحہ نمبر ۳۴) …. اور ماہیے کو بطور نمونہ یوں پیش کیا ہے-:
تھالی وچ کھنڈ ماہیا کنڈ دے کے لنگھنا ایں تیری کنڈ دی وی ٹھنڈ ماہیا
اس سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ پنجابی لوک گیت ماہیا جو صدیوں سے رائج ہے لیکن صدیوں سے ہی جس کی کوئی تحریری ہیئت نہیں تھی، جب ان ماہیوں کو جمع کرنے کا کام شروع کیا گیا تو اسے تین تحریری ہیئتوں میں لکھا گیا۔ پہلی ہیئت ایک مصرعہ میں پورا ماہیا لکھنے کی۔ دوسری ہئیت ڈیڑھ مصرعی اور تیسری ہیئت سہ مصرعی۔ بظاہر ان تینوں ہیئتوں میں سے کوئی ہیئت بھی پنجاب کے دیہاتی عوام کی ایجاد نہیں ہے کیونکہ وہ ماہیئے لکھتے ہی نہیں تھے۔ وہ تو صرف انہیں گاتے تھے۔ میرے خیال میں جب ماہیے جمع کرنے کا کام شروع ہوا تو جمع کرنے والوں نے شاید کاغذ کی بچت کے خیال سے اسے ایک ہی سطر میں لکھنا شروع کیا۔ پھر کہیں احساس ہوا کہ الگ الگ ماہیے کی شناخت نہیں ہو پاتی تو جمع کرنے والوں نے ڈیڑھ مصرعی صورت میں اسے لکھنا شروع کر دیا لیکن جب ماہیے کے تین الگ الگ مصرعوں کی پہچان ہوئی تو اسے سہ مصرعی صورت میں لکھا جانے لگا۔ ماہیے کے تین مصرعوں کی یہ الگ پہچان ماہیے کی لَے سے مخصوص ہے۔ ماہیے کی کسی بھی مقبول دھن پر غور کر کے دیکھ لیں، اس کی لَے میں تین بار اتار چڑھاﺅ کی کیفیت ملتی ہے۔ سو یوں ماہیے نے تدریجاً اپنی تحریری ہیئت کا تعین کرا لیا کیونکہ اس وقت سہ مصرعی ہیئت ہی ماہیے کی مقبول ترین ہیئت ہے۔ اردو میں بھی اور پنجابی میں بھی۔ مزید آگے بڑھنے سے پہلے پنجابی دانشوروں کے موقف پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ ماہیے کے تین مصرعوں کے سلسلے میں ان کے موقف کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
۱۔ ڈاکٹر روشن لال اہوجا
”ایہدیاں (ماہیے دیاں) تن تکاں ہوندیاں نیں“
(”لہندے دے لوک گیت“ مطبوعہ ماہنامہ ”کوتا“ امرتسر جون ۱۹۶۵ء)
ڈاکٹر روشن لال اہوجا نے اپنے اسی مضمون میں یہ ماہیا بطور نمونہ پیش کیا ہے۔
کوٹھے تے وان پیا
نکیاں نکیاں کنیاں
ڈھولا چادر تان پیا
۲۔ علامہ غلام یعقوب
تنویر بخاری نے اپنی کتاب ”ماہیا فن تے بنتر“ کے صفحہ نمبر ۲۸پر یہ روایت درج کی ہے کہ ”۱۹۶۵سے بھی پہلے کی بات ہے، میں نے ایک بار اپنے دوست اور بزرگ حضرت علامہ غلام یعقوب انور (ایڈووکیٹ) کے ساتھ ماہیے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اسے ڈیڑھ مصرعے کا کہتے ہیں جبکہ یہ پورے تین مصرعوں کا ہے۔ وہ میرے ساتھ بالکل متفق تھے“
(پنجابی سے ترجمہ)
۳۔ فارغ بخاری
فارغ بخاری نے اپنی کتاب ”سرحد کے لوک گیت“ میں جو ماہیے درج کئے ہیں وہ سہ مصرعی ہیئت میں ہیں۔
۴۔ پروفیسر شارب
پروفیسر شارب نے اگرچہ اپنے جمع کردہ ماہیے ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں شائع کئے ہیں لیکن انہوں نے دوسرے مصرعے کو دو الگ الگ یونٹ بنا کر پیش کیا ہے اور یہ اقرار بھی کیا ہے کہ ماہیے کے تین یونٹ ہوتے ہیں۔
۵۔ اسلم جدون
اسلم جدون کے جمع کردہ تمام ماہیے سہ مصرعی ہیئت میں ہیں۔ مجھے ان ماہیوں کے معیار پر اعتراض ہے لیکن ظاہر ہے یہ ایک الگ موضوع ہے جہاں تک ہیئت کا تعلق ہے اسلم جدون کی کتاب ”ماہیے“ سہ مصرعی ہیئت کا اثبات کرتی ہے۔
۶۔ ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری
ممتاز پنجابی دانشور ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری نے ماہیے پر جتنی بحث کی ہے اس کی سہ مصرعی ہیئت کو مدنظر رکھ کر کی ہے۔ انہوں نے ڈیڑھ مصرعی ہیئت کو سرے سے اہمیت ہی نہیں دی۔
۷۔ شفقت تنویر مرزا
پروفیسر شارب کی کتاب ”ماہیا“ پر تبصرہ کرتے ہوئے شفقت تنویر مرزا نے روزنامہ ”ڈان“ لاہور کی ۱۹اپریل ۱۹۹۵ءکی اشاعت میں سہ مصرعی ماہیوں کی دو مثالیں پیش کی ہیں اور انہیں قابل اعتراض نہیں گردانا۔
۸۔ تنویر بخاری
افضل پرویز، عبدالغفور قریشی، مقصود ناصر چوہدری، کرم حیدری اور محمد بشیر احمد ظامی کی ڈیڑھ مصرعی ہیئت کے ماہیے کے بیانات درج کرنے کے بعد تنویر بخاری لکھتے ہیں :
”مرتب (تنویر بخاری) اوپر درج کئے گئے کسی بیان سے بھی متفق نہیں۔ یہ سارے بزرگ لائق احترام ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی گہرائی میں جانے کی زحمت نہیں کی۔ ان سب کے بیانات میں مشابہت ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ان سب نے کسی کتابی بیان کی نقل کی ہے اور اپنے طور پر کچھ غور نہیں کیا۔“ (پنجابی سے ترجمہ)
۹۔ امین خیال
اردو اور پنجابی کے معروف شاعر امین خیال اپنے مضمون ”پنجابی ماہیا“ میں لکھتے ہیں۔
”ماہیا اپنی ہیئت کے اعتبار سے تین حصوں، تین ٹکڑوں، تین کلیوں، تین مکھڑوں، تین پتیوں پر ہی مشتمل ہے کیونکہ لمبے یا بڑے مصرعے کا وسرام اسے دو حصوں میں بانٹ دیتا ہے اور گاتے وقت بھی یہ تینوں برگ واضح ہو جاتے ہیں۔“
(دو ماہی ”گلبن“ احمد آباد۔ ماہیا نمبر۔ جنوری ۱۹۹۸ء)
پنجابی ادب سے متعلق اور بالخصوص پنجابی لوک گیت ماہیے سے منسلک ان ادبی شخصیات کے سہ مصرعی ہیئت کے مضبوط موقف کے ہوتے ہوئے ڈیڑھ مصرعی ہیئت کا حکم لگانا بے حد بچکانہ سی بات ہو جاتی ہے۔ اس مسئلے پر مزید گفتگو آخر میں ہوگی۔ یہاں اب مخالفت کرنے والے تیسرے حلقے کے اس موقف کا جائزہ بھی لے لیا جائے کہ ”اگر پنجابی کی طرح اردو میں بھی ماہیا ڈیڑھ مصرعہ میں لکھا جائے تو اس کے وزن کی بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔“ یہ انتہائی گمراہ کن موقف ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیڑھ مصرعی ہیئت کا شور صرف اس لئے مچایا گیا ہے کہ مساوی الوزن مصرعوں کے ثلاثی لکھنے والوں کو ”ماہیا نگار“ منوا لیا جائے۔ سیما شکیب پہلے غلط وزن کے ”ماہیے“ لکھتی رہی ہیں حال ہی میں ان کے درست وزن کے چند ماہیے شائع ہوئے ہیں۔ میں ان کی دو مثالوں سے ثابت کرتا ہوں کہ محض ڈیڑھ مصرعی ہیئت اپنانے سے کوئی چیز ماہیا نہیں ہو جائے گی اور لَے کے مطابق لکھا جانے والا ماہیا کسی ہیئت میں بھی لکھیں ماہیا ہی رہے گا۔
غلط وزن سہ مصرعی ہیئت میں درست وزن سہ مصرعی ہیئت میں
————– —————-
آنکھوں میں بھری ہے ریت دن رات کا جلنا ہے
طوفان کے ہاتھوں سے تیرے بنا جینا
پامال ہوئے مرے کھیت تلوار پہ چلنا ہے
غلط وزن ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں درست وزن ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں
————– —————-
آنکھوں میں بھری ہے ریت دن رات کا جلنا ہے
طوفان کے ہاتھوں سے پامال ہوئے مرے کھیت تیرے بنا جینا تلوار پہ چلنا ہے
(سیما شکیب) (سیما شکیب)
سیما شکیب کا درست وزن کو اختیار کرلینا خوش آئند ہے۔ یہاں درست اور غلط وزن کے چند ”ماہیوں“ کی مزید مثالیں پیش کرنا بھی مناسب ہوگا۔
غلط وزن سہ مصرعی ہیئت میں درست وزن سہ مصرعی ہیئت میں
————– —————-
اگرچہ اب قفس میں بھی نہیں ہوں دل اپنے کشادہ تھے
میں نیلے پانیوں پر کیا اڑوں گا اس لئے رونا پڑا
کہ اپنی دسترس میں بھی نہیں ہوں ہم ہنستے زیادہ تھے
(حسن عباس رضا) (حسن عباس رضا)
غلط وزن ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں
————–
اگرچہ اب قفس میں بھی نہیں ہوں
میں نیلے پانیوں پر کیا اڑوں گا کہ اپنی دسترس میں بھی نہیں ہوں
(حسن عباس رضا)
درست وزن ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں
—————-
دل اپنے کشادہ تھے
اس لئے رونا پڑا ہم ہنستے زیادہ تھے
(حسن عباس رضا)
غلط وزن سہ مصرعی ہیئت میں درست وزن سہ مصرعی ہیئت میں
————– —————-
دیمک لگی الماری گندم کا ہے اک دانہ
اب اس میں رکھا کیا ہے وصل کا موسم ہے
بیمار ہے بے چاری دل توڑ کے مت جانا
غلط وزن ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں درست وزن ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں
————– —————-
دیمک لگی الماری گندم کا ہے اک دانہ
اب اس میں رکھا کیا ہے بیمار ہے بے چاری وصل کا موسم ہے دل توڑ کے مت جانا
(سیدہ حنا) (کوثر بلوچ)
ان تینوں مثالوں سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ غلط وزن کو ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں لکھ لینے سے درست وزن کا ماہیا نہیں کہا جاسکتا۔ ماہیے کی لوک لَے کی بنیاد پر ماہیے کے وزن کی تلاش کا اصول آج پنجابی میں بھی اور اردو میں بھی ماہیے کی بنیادی شناخت بن چکا ہے۔ لہٰذا وزن کی بحث میں ایمانداری سے بنیادی سچائی کا اعتراف کرلینا ہی مناسب ہے۔ اسے بے سروپا بحث قرار دینے سے اس بحث کی علمی و ادبی قدر و قیمت کم نہیں ہو جائے گی کیونکہ اس بحث کو پرکھنے کا اصل معیار تو علمی، ادبی سطح ہی ہے۔
جس طرح ماہیے کا وزن اس کی لَے میں محفوظ ہے ویسے ہی ماہیے کی لَے سے اس کی تحریری ہیئت کے تعین میں مدد لی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر روشن لال آہوجا، علامہ غلام یعقوب انور، فارغ بخاری، پروفیسر شارب، اسلم جدون، ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری، شفقت تنویر مرزا، تنویر بخاری اور امین خیال کے موقف اوپر بیان ہو چکے ہیں۔ پنجابی ادبی بورڈ اور لوک ورثہ کے قومی ادارہ کا موقف بھی ایک طرح سے سہ مصرعی ہیئت کے حق میں ہے۔ امین خیال کے اس موقف میں بڑی جان ہے کہ گاتے وقت بھی ماہیے کے تینوں حصے واضح ہو جاتے ہیں۔ اختلاف رکھنے والے دوستوں کو اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہیے کی تحریری ہیئت کے حوالے سے میں اپنے مضمون ”اردو ماہیے کی تحریک“ میں یہ لکھ چکا ہوں۔
”پنجابی ماہیے کا بطور لوک گیت مجموعی وزن یہی بنتا ہے۔ فعلن فعلن فعلن/فعلن فعلن فع/فعلن فعلن فعلن (دوسرے متبادل اوزان میں بھی اسی طرح ایک سبب کی کمی رہے گی) اب اسے چاہے ایک مصرعہ بنا کر لکھ لیں، ڈیڑھ مصرعہ بنا کر لکھ لیں یا تین مصرعوں کی مقبول صورت کو اپنا لیں، ماہیے کا مجموعی وزن بہرحال وہی رہے گا جو ماہیے کی لَے کے مطابق ہے۔ مجھے ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم اب بصری لحاظ سے سہ مصرعی ماہیا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ ایک دفعہ توتا اور طوطا کے درست املا کی بحث چل نکلی تھی۔ محققین نے ”ت“ سے توتا ثابت کر دیا، تب ایک ادیب نے یہ مزے کی بات لکھی کہ قدیم اردو میں توتا بے شک ”ت“ سے ہی ہو لیکن ”ط“ سے لکھا ہوا طوطا زیادہ ہرا ہرا لگتا ہے۔ سو اب ماہیے کی تحریک جس مقام پر آ گئی ہے، یہاں ڈیڑھ مصرعی ہیئت کو غلط کہے بغیر میں یہ ضرور کہوں گا کہ سہ مصرعی صورت میں ماہیا زیادہ ہرا بھرا لگتا ہے۔“ (مطبوعہ ”سخنور“ کراچی نومبر ۱۹۹۸ء)
میں اپنے اسی بیان پر قائم ہوں۔ پنجابی لوک گیت ماہیا صدیوں سے سینہ بہ سینہ رائج چلا آ رہا تھا۔ اسے لکھنے کی کوئی روایت تھی ہی نہیں۔ تحریری طور پر جب لوک سرمائے کو جمع کرنے کا خیال آیا تب اسے تحریری ہیئت دی گئی۔ یک مصرعی، ڈیڑھ مصرعی اور سہ مصرعی تینوں ہیئتیں مختلف اوقات میں اپنائی گئیں اس لئے کسی ایک کو قبول کر کے باقیوں کو رد کرنے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ سہ مصرعی تحریری ہیئت کے بارے میں یہ ضرور کہوں گا کہ اب ماہیے کی لَے سے اس کے اتار چڑھاﺅ کی تین حالتوں کی نشاندہی کے بعد شواہد اس ہیئت کے حق میں زیادہ ہوگئے ہیں۔ گویا (۱) لَے کی تین حالتوں کی بنیاد پر، (۲) سہ مصرعی ہیئت میں زیادہ ہرا بھرا دِکھنے کی بنیاد پر (۳) پنجابی میں سہ مصرعی ہیئت کے بیشتر نمونوں کی بنیاد پر اور (۴) اردو میں مقبولیت کی بنیاد پر ماہیے کی سہ مصرعی تحریری ہیئت ہی مروج ہیئت بنتی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی ماہیا نگار اصل وزن کو ملحوظ رکھتے ہوئے ماہیے کو ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں لکھے، چاہے ایک ہی لمبے مصرعہ کی ہیئت میں لکھے، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ماہیا نے جس طرح اپنی لَے کے ذریعے اپنے وزن کا تعین خود کیا ہے ویسے ہی اس کی تحریری ہیئت بھی اس کی لَے کے ذریعے سے خود بخود رائج ہوتی جائے گی جو ہیئت اسے مناسب نہیں لگے گی از خود قصہ ءپارینہ بن جائے گی۔
ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر بے جا اصرار کرنے والوں کو بھی اس کا یقین ہونا چاہئے۔
(مطبوعہ : ماہنامہ ”سخنور“ کراچی، شمارہ اپریل ۱۹۹۹ء)
٭٭٭٭٭٭