ماہیا سرزمینِ پنجاب کا عوامی گیت ہے۔ ماہیا کا لفظ ماہی سے نکلا ہے لیکن یہ اردو والا ماہی نہیں ہے۔ ویسے ماہیا میں محب اپنے محبوب کی جدائی میں ماہیٔ بے آب کی طرح بھی تڑپتا دکھائی دیتا ہے۔ پنجابی میں بھینس کو مہیں کہتے ہیں۔ بھینسیں چرانے والوں کو اسی نسبت سے ماہی کہا جاتا تھا۔ ان چرواہوں کو بھینسوں پر نظر رکھنے کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا تھا اس لئے دیہاتی ماحول کے مطابق انہوں نے کسی مشغلے کے ذریعے وقت گزاری کا راستہ نکالا۔ بانسری بجانے اور گیت گانے کا مشغلہ ایسا تھا کہ بیک وقت چرواہے کا فرض بھی ادا کیا جا سکتا تھا اور اپنے دل کو بھی بہلایا جا سکتا تھا۔ بانسری اور اچھی آوازوں کے جادو نے بھی بعض چرواہوں کو اپنے اپنے دیہاتوں میں مقبولیت عطا کی ہو گی لیکن جب محبت کے قصوں میں رانجھے اور مہینوال کو اپنے اپنے محبوب تک رسائی حاصل کرنے کے لئے چرواہا بننا پڑا تو پھر ان کرداروں کی رومانوی کشش نے لفظ ماہی کو چرواہے کی سطح سے اٹھا کر نہ صرف ہیر اور سوہنی کا محبوب بنا دیا بلکہ ہر محبت کرنے والی مٹیار کا محبوب ماہی قرار پایا۔ اسی ماہی کے ساتھ اپنے پیار کے اظہار کے لئے ماہیا عوامی گیت بن کر سامنے آیا۔
ماہیے میں پنجاب کے عوام کے جذبات، احساسات اور خواہشات کا خوبصورت اور براہ ِراست اظہار ملتا ہے۔ عوام نے اپنی امنگوں، آرزﺅں اور دعاﺅں کو اس شاعری کے ذریعے سینہ بہ سینہ آگے بڑھایا اورزندہ رکھا۔ اسی لئے یہ عوامی گیت اپنی ظاہری صورت میں انفرادی ہونے کے باوجود اپنی سوسائٹی کی ترجمانی کرتا ہے۔ ماہیا فکر و خیال سے تہی نہیں ہوتا لیکن گہرے فلسفیانہ خیالات کے برعکس سیدھے سبھاﺅعوام کے دل میں اتر جانے والا انداز ہی اس کے مزاج کا اہم حصہ ہے ۔ عوام کے دل میں سما جانے والے مزاج کے باعث ماہیا فکر سے زیادہ جذبے کو اہمیت دیتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس میں رمزوکنایہ سے کام نہیں لیا جاتا۔ ماہیے میں جذبوں کا رس رمز و کنایہ کی مٹھاس سے مل کر انوکھی لذت پیدا کر دیتا ہے۔
منجی دھپے چھانویں ڈائی ہوئی اے
غم ساہنوں سجناں دا
لوکاں مرض بنائی ہوئی اے
چٹے رنگ دا بدام ہوسی
جیندیاں وی تیری آں
مویاں مٹی وی غلام ہوسی
پہلے ماہیے میں عورت کہہ رہی ہے کہ میں نے اپنی چارپائی آدھی دھوپ اور آدھی چھاﺅں میں ڈال رکھی ہے ۔ مجھے غم تو اپنے ماہی کی جدائی کا ہے لیکن یہ لوگ میرے دکھ کو نہیں سمجھ رہے۔ قیاس کر رہے ہیں کہ میں بیمار ہوں۔ دھوپ چھاﺅں کے الفاظ ایک طرف بہار کے موسم کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ جب چھاﺅں میں زیادہ دیر بیٹھے رہیں تو ٹھنڈ کا احساس ہونے لگتا ہے اور دھوپ میں زیادہ دیر بیٹھیں تو دھوپ چبھنے لگتی ہے۔ یوں بہار کے موسم میں ماہی کی جدائی کا دکھ بیان کیا ہے۔ پھر کبھی دھوپ اور کبھی چھاﺅں کے الفاظ محبت میں لحظہ بہ لحظہ بدلتے ہوئے حالات کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔
دوسرے ماہیے میں عورت براہ راست اپنے ماہی سے مخاطب ہے ۔ کاغذی بادام کا اوپر والا چھلکا بڑی حد تک سفید ہوتا ہے۔ سو عورت اپنے پیار کو یوں چھپاتی اور بتاتی ہے کہ جس طرح کاغذی بادام کا چھلکا بظاہر سخت نظر آتا ہے لیکن انگلیوں کے معمولی سے دباﺅکے ساتھ چھلکا ٹوٹ جاتا ہے اور اندر سے گری نکل آتی ہے۔ بالکل ایسے ہی تم میری ظاہری ناراضگی یا سختی پر مت جانا۔ میں تو اندر سے تم پر فدا ہو چکی ہوں۔ یہاں تک کہ جیتے جی بھی تمہاری ہوں اور مرنے کے بعد بھی نہ صرف تمہاری رہوں گی بلکہ میری مٹی بھی تمہاری غلام رہے گی۔ سفید رنگ کے بادام سے ایک اور معنی بھی نکلتے ہیں۔ بادام کی گری کا چھلکا اتر جائے تو اندر سے سفید گری نکلتی ہے۔ یوں بے لباسی کو لطیف پیرائے میں بیان کر کے خود سپردگی کا اظہارکیاگیاہے۔ محبت کا یہ والہانہ انداز جسم سے روح تک کا سفربن جاتا ہے۔ ان دو مثالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ گہرے فلسفیانہ افکار سے گریز اور براہ راست اظہار کے باوجود ماہیے میں رمز و کنایہ کی مٹھاس ماہیے کو تہہ دار معانی کی حامل بنا دیتی ہے۔
ماہیا بظاہر عورت کی زبان میں مرد سے محبت کا اظہار ہے۔ اس حوالے سے ماہیے کو قدیم ہندوستانی گیت کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ صوفی شعراءکا بالواسطہ اثر بھی محسوس ہوتا ہے کہ صوفیانہ شاعری میں محبوب ہمیشہ مذکر کے صیغہ میں آیا ہے۔ ریختی سے بھی اس کے سر ے ملائے جا سکتے ہیں کہ ریختی میں عورت کی زبان سے جذبات کا بے محابا اظہار کیا جاتا ہے۔
بے شک ماہیے میں عام طور پر عورت ہی بولتی سنائی دیتی ہے لیکن مردانہ زبان کے ماہیے بھی شروع سے چلے آ رہے ہیں۔ مکالماتی صورت کے ماہیوں میں عموماََ مرد اور عورت شوخی اور شرارت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ مکالماتی ماہیے دیکھیں جو چھیڑ چھاڑ کی حد سے آگے جا رہے ہیں:
عورت
مرد
سڑکے تے روڑی اے
سڑکے تے روڑی اے
نالے میرا چھلا لالیا
کیہڑا تیرا چھلا لالیا
نالے انگل مروڑی اے
کیہڑی انگل مروڑی اے
عورت
مرد
سڑکے تے روڑی اے
باغے وچ آنواں گا
سجا میرا چھلا لا لیا
نالے تیرا چھلا دیاں گا
کھبی انگل مروڑی اے
نالے انگل چڑھاواں گا
اس مثال سے ظاہر ہے کہ ماہیا محض عورت ہی کے جذبات کی نہیں، مرد کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ گوکہ پنجابی میں ماہیا مرد کی زبان میں بھی ریختی کے مزاج سے آگے نہیں بڑھ سکا لیکن خوشی کی بات ہے کہ اردو کے ماہیا نگاروں نے اسے ریختی سے اُٹھا کر ریختہ کی سطح تک پہنچا دیا ہے۔
محبوب کے ساتھ محبت کا اظہار، والہانہ پن، معاملہ بندی، چھیڑ چھاڑ، ہجر، وصال، شکوے شکایتیں ماہیے کے ابتدائی موضوعات تھے۔ ماہیے کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوئی تو رشتہ داریاں، میلے ٹھیلے، شادی بیاہ اور روزمرہ زندگی کے معاملات اور تقریبات بھی ماہیے میں اپنا رنگ جمانے لگیں۔ حمد و نعت اور دعا کے دینی جذبات ماہیے کا موضوع بننے لگے، زندگی کے مسائل بھی ماہیے میں بیان ہونے لگے۔ یوں ماہیا پنجابی معاشرے کے جذبات کا ترجمان بنتا گیا۔ اگرچہ زندگی کے مسائل اور ان سے جڑے ہوئے مختلف انسانی جذبات کا اظہار ماہیے کے موضوعات میں وسعت اور تنوع پیدا کرتا ہے تاہم پنجابی ماہیے کا غالب موضوع اپنے ما ہی سے باتیں کرنا اور اپنے ماہی کی باتیں کرنا ہے۔ ماہیے کے اسی غالب موضوع سے ماہیے کا مزاج مرتب ہوتا ہے اور اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ماہیا غزل کی اس ابتدائی اور بنیادی تعریف سے قریب ہے جس کے مطابق غزل کا مطلب محبوب عورتوں کی باتیں کرنا تھا۔
٭٭٭٭