(Last Updated On: )
دھڑکتے دل کے ساتھ چارنمبرویگن سے 14نمبر کے سٹاپ پر اترا اور تیز تیز قدم اٹھاتا شعبہ صحافت کی نو تعمیر شدہ عمارت کی طرف چل پڑا۔
یہ اکتوبر کی دھوپ میںنکھری ایک خوبصورت صبح تھی۔ سرسبز نیوکیمپس ویساخوب صورت دکھائی دے رہا تھا جیسا ایسی کسی بھی صبح وہ دکھائی دے سکتاہے۔
اکادکا لوگ ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ لگ بھگ آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میرٹ لسٹ دیکھنے کے لیے شائد میںہی سب سے پہلا پہنچا تھا۔
پچھلے سال کی لسٹ کے مطابق میرا داخلہ ممکن تھامگر میرے نمبر اسی قدر تھے کے پچاس کی لسٹ میں میرا نام آخری ہی ہوسکتاتھالہذا میں نے لسٹ اوپرکی بجائے نیچے سے دیکھنی شروع کی۔
پچاسویں نمبرپرموجود نام کے ہجے میرے نام سے زیادہ میل نہیںکھاتے تھے۔ زیادہ غور کرنے پرمعلوم ہوا کہ یہ نام میرا نہیں۔ میںدل ہی دل میںخوش ہوا کہ چلو کوئی تو مجھ سے نالائق کلاس میں موجود ہوگا۔ خوشی خوشی میں نے49ویں نمبرپر نظر دوڑائی تویہاں بھی میرا نام موجود نہ تھا۔ میری خوشی بے چینی میں بدلنا شروع ہوگئی۔ 48 ویں نمبرپربھی جب میرا نام نہ ملا تو میں باقاعدہ پریشان ہونا شرو ع ہوگیا۔47 ویں نمبرکے بعد میں نے لسٹ دیکھنے کی ہمت نہ کی۔مجھے یقین تھا میں اتنا لائق ہرگز نہیںہوں۔ دل میں سوچ ہی رہا تھا لوٹ چلوں کہ قریب سے ایک مسحور کن آواز سنائی دی۔
’’آپ کا داخلہ ہوگیا‘‘؟قریب کھڑی ایک خاتون نے پوچھا۔
میں جھینپ کررہ گیا۔
ایک خاتون جوکسی حدتک خوبصورت بھی تھی ،کے سامنے اپنی نالائقی تسلیم کرناکسی طرح مجھے اپنے شایان شان نہ لگا۔
’’نہیں۔ ہاں۔ درا صل میںاپنی بہن کانام لسٹ میںدیکھنے آیاتھا‘‘۔ میںنے فوراً بہانہ بنایا۔
مجھے اچانک خیال آیا: میں پانچ بھائیوں کااکلوتا بھائی ہوں۔ اگر اس نے بہن کا نام پوچھا توکیا بتائوںگا۔ نام بھی وہ جولسٹ میںموجود ہو۔ میں نے فورا میرٹ لسٹ کی طرف نظردوڑائی کہ کوئی نام تلاش کروں مگربھلا ہو اس خاتون کااس نے نام نہیںپوچھا ورنہ پہلے دن ہی کسی کوبہن بنانا پڑ جاتا۔
اتفاق سے ان محترمہ کانام بھی لسٹ میں موجود نہ تھا جس پرمیں نے ان سے اظہارِہمدردی کرتے ہوئے یقین دلایا کہ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کوئی ایسا ڈیپارٹمنٹ نہیں جس میں داخلہ نہ ہونے پرپریشان ہواجائے۔
اس کی موجودگی میں میں ویٹنگ لسٹ بھی نہیںدیکھ سکتا تھاوہ سوچتی کہ’’بہن‘‘کاداخلہ توہوچکایہ اب ویٹنگ لسٹ کیوں دیکھ رہا ہے۔ میںبے چین ساہوکرباہر نکل گیا اوربوجھل قدموں سے کینٹین کی طرف چل پڑا۔یہاں پہلی دفعہ اشرف سے ملاقات ہوئی۔ ان دنوں کینٹین ایک کھوکھے کی صورت میں ڈیپارٹمنٹ کے سامنے جرنلزم اورایم بی اے کے عین درمیان میں اس سڑک کے کنارے تھی جو کینال روڈ سے نیچے اترتی ہے۔
کینٹین کے ارد گرد چند ٹوٹے پھوٹے بنچ پڑے تھے جن پر اگلے دوسال گزرنے تھے مگر کینٹین سے چائے کاکپ لے کر ان بنچوں پربیٹھا میں سوچ رہا تھا کیا ان بنچوں پربیٹھنا نصیب ہوگا؟
تھوڑی دیر کے بعد وہ خاتون نہرکی طرف جاتی ہوئی دکھائی دیں۔میں نے چائے کا کپ وہیں چھوڑا اورویٹنگ لسٹ کی طرف لپکا۔ اب کے میں نے لسٹ اوپر سے دیکھنا شروع کی۔ ٹھیک سے یادنہیں البتہ پانچویں یاچھٹے نمبر پراپنا خوب صورت نام جلی حروف میںپاکر تھوڑا سا فخر کااحساس ہوا۔
نام کو دوتین دفعہ غور سے پڑھنے کے بعد میں چاچا شریف کے کمرے میں پہنچا۔
’’دوسری لسٹ کب لگے گی‘‘؟ میںنے چاچا شریف سے پوچھا۔ مجھے اس وقت چاچا شریف کاسٹیٹس معلوم نہ تھاوہ تو کچھ عرصہ بعدمیں پتہ چلا کہ چاچاشریف سے براہ ِراست بات نہیں کی جاسکتی، ان تک تھروپراپرچینل اپروچ کیاجاسکتاہے۔ چاچا شریف نے امتیاز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:’’ایہناں نوں دس دیئو دوسری لسٹ اٹھ دن بعدلگے گی‘‘۔
اگلے آٹھ دن میں مسلسل دعائیں کرتارہا۔ پہلے دن کی دعا یہ تھی کہ پہلی لسٹ کے کم ازکم آٹھ لوگ بیمار پڑجائیں اورفیس جمع کروانے نہ آسکیں۔ دوسرے دن خیال آیا فیس توکوئی دوسرا بھی جمع کروا سکتاہے۔ لہٰذادوسرے دن میں نے دعا میںتھوڑی شدت پیداکی اوراللہ کی بجائے ملک الموت سے مدد مانگنے لگا۔ خداخدا کرکے آٹھ دن گذرے۔
سیکنڈلسٹ میں میرانام موجودتھا۔
پنجاب یونیورسٹی نے ہاں کہہ دی تھی۔