دھپ دھپ دھپ باہر کوئی دروازہ پیٹ رہا تھا۔
رات گہری اور تاریک تھی اور فضا میں دھوئیں کے بادل منڈلا رہے تھے۔
’ کون ہے؟‘ لحاف کے اندر سے ایک کپکپاتی آواز اس طرح گُونجی جیسے دُور کوئی گہرے کنویں سے بول رہا ہو۔
دھپ دھپ
’ ارے بھئی کون ہے ؟ اتنی رات گئے کیا کام ہے؟‘
’ میں ہوں قاسم‘۔
’ کون قاسم بھئی‘؟
’ قاسم ، تمہارا دوست ‘
’ میرا دوست؟ ‘ اس نے حیرانی سے مُنہ میں بڑبڑاتے ہوے کہا:
’ تم موہن داس ہونا؟‘
’ ہاں ہاں میں موہن داس ہی ہوں۔‘ اجنبی کی زبان سے اپنا نام سُن کر اس نے بغیر سوچے سمجھے جی کڑا کر کے دروازہ کھول دیا۔
اب اس کے سامنے ایک اُونچے پورے قد کا آدمی کھڑا تھا۔ گلے میں میلا کچیلا مفلر لپیٹا وہ کسی اور دُنیا کا باشندہ رہا تھا۔
رات کے گھُپ اندھیرے میں اُسے چہرہ پہچاننے میں دِقّت ہو رہی تھی۔
’ یہاں اندھیرا کیوں ہے؟‘ اس نے سانپ کی طرح لٹکتے ہوے مفلر کو اپنے گلے کے گرد لپیٹتے ہوے کہا۔
’ لائٹ بند ہے بھائی‘۔ اس کی آواز میں نرمی اور کپکپا ہٹ پیدا ہو گئی تھی۔ شاید یہ سر پر منڈلاتے ہوے انجان خوف کا اثر تھا۔
’ یہاں کی لائٹ آج بند کیوں ہے‘؟
’ یہاں کا بجلی گھر کمزور ہے۔‘ اس نے نرم لہجے میں کہا
’ بجلی گھر ۔ بجلی گھر سے لگا کسی وقت میرا ایک چھوٹا موٹا سا گھر تھا جس میں امرود کا ایک بوڑھا درخت بھی تھا اور اُس پَرے ایک کنواں جس میں بوڑھے حافظ جی نے چھلانگ لگا کر جان دے دی تھی۔‘ جیسے وہ ماضی کے چہرے سے نقاب اُٹھا رہا تھا۔
اچانک اس کے ذہن کی سلیٹ پر بہت سے چہرے اُبھرے۔ دھُندلے۔ ۔ دھُندلے ۔۔ مٹیالے مٹیالے ۔۔۔ ان ہی میں قاسم نامی ایک لڑکا بھی تھا جو اس کا دوست تھا۔
پھُولے پھُولے گالوں والا گورا چٹا قاسم۔ مگر اب اس کے سامنے جو آدمی کھڑا تھا وہ قاسم کیسے ہو سکتا تھا۔ کیا آدمی بیس بائیس برس میں گورے سے کالا بھی ہو سکتا ہے۔
’ کیا تم مجھے اندر نہیں بُلاؤ گے؟‘
’ اندر تو کھاٹ بھی نہیں ہے۔‘
’ سِیلی زمین تو ہے جو ہمارا مقدّر ہے۔‘
پھر اچانک کمرے میں روشنی پھیل گئی تو اُس نے تیزی سے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ لیئے۔
’ یہ تم نے اپنا چہرہ کیوں چھُپا لیا ہے؟‘
’ مجھے روشنی اچھی نہیں لگتی۔‘
’ روشنی کے لئے تو آدمی جِیتا ہے۔‘
’ مگر میں اندھیرے کا پرستار ہوں۔ اس لئے میں نے تم سے ملنے کے لئے اماوس کی یہ رات چُنی ہے۔‘ یہ کہہ کر وہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
’ اتنی رات گئے، کس سے باتیں کر رہا ہے بیٹے؟‘ قریب کے کمرے سے ایک بوڑھی بیمار آواز آئی
’ کوئی بھی نہیں ہے ماں تو اب سوجا ، رات ڈھل چکی ہے۔‘
میں اس آواز سے آشنا ہوں۔ یہ دھرتی کی کوکھ سے جنم لینے والی ممتا بھری آواز ہے۔ مجھے یہ آواز بڑی بھلی لگتی ہے۔ لیکن میں اس آواز سے ڈرتا بھی ہوں۔ یہ آواز سائے کی طرح میرا پیچھا کرتی ہے۔ اس گاوں میں اب میرا کوئی بھی شناسا باقی نہیں رہا۔ سُنا ہے کہ سب لوگ یہاں سے کبھی کے جا چکے ہیں۔‘
’ یہی کیا غنیمت ہے کہ ابھی کچھ لوگ اس نے رُکتے رُکتے جواباً کہا ’ کیا تم مجھے ان لوگوں سے مِلاسکتے ہو؟‘
’ کیوں نہیں ضرور‘
’ یہ لوگ وہی ہیں نا ، جنھوں نے آخر دم تک ‘ ابھی اس نے اپنا ادھورا جُملہ مکمل بھی نہ کیا تھا کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا سَنسناتا ہوا آیا اور چوبی دروازے کے کھلے ہوے پَٹ اچانک بند ہو گئے۔
اس کے ہونٹوں کے کنارے پر طنز آمیز مسکراہٹ رقصاں تھی۔ پھر اس نے کہا:
’ میں نے کسی وقت بہتے پانی کی چادر پر ایک بند بندھا تھا لیکن طوفانی ہوائیں سیلاب اور دریاؤں میں بہتا ہوا سُنہرا پانی مجھے بہت دُور بہا لے گیا۔
اس مِٹی سے میری کچھ یادیں وابستہ ہیں جو میرا شخصی سرمایہ ہے۔ میں میلوں چل کر یہاں اس لئے آیا ہوں کہ انھیں ٹٹول ٹٹول کر دیکھ سکوں۔‘
’ مگر اتنی رات گئے یہ سب کچھ کیسے ہو گا۔ یہ اماوس کی رات ہے۔‘
’ یہ رات میری زندگی کی سب سے اہم رات ہے۔ میں اس پُل صراط سے آج ہی گُذرجانا چاہتا ہوں۔‘
’ یہ کام تو دن کے اُجالے کا محتاج ہے، ارے لائٹ پھر بند ہو گئی۔ یہ بجلی گھر بھی عجیب شَے ہے۔‘
’ مجھے یہاں سے فوراً اس قبرستان لے چلو جہاں میرا باپ مَنوں مِٹّی کے ڈھیر کے نیچے پڑا سورہا ہے۔ میں اُسے چلتے چلتے جگانا چاہتا ہوں۔ صبح سویرے مجھے یہاں سے چلا جانا ہے۔ وقت بہت کم ہے تم ڈر اور خوف کو اپنے دل سے نکال کر میرے ساتھ ہو جاؤ ۔‘
’ قبرستان ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں آدمی کو سکون مِلتا ہے۔ پھر یہاں تو میرا عظیم باپ دفن ہے‘۔ اس کے اصرار میں نمناک ہواؤں کا بہاؤ تھا اور وہ اس بہاؤ میں دُور دُور تک خس و خاشاک طرح بہتا چلا گیا۔
اب وہ قاسم کے ساتھ اس ویران قبرستان میں کھڑا تھا۔ فضا پر موت کی سی خاموشی مُحیط تھی اور رات کی خُمار آلود آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسُو گِر رہے تھے۔
اس قبر کو دیکھ رہے ہو ؟ قاسم نے ایک بوسیدہ مٹیالی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا جو دُور سے اُلٹی نظر آ رہی تھی۔
’ یہ قبر تو گاوں کے زمیندار کی ہے یہاں کے لوگ تو یہی کہتے ہیں‘۔
’ یہاں کے لوگ جھوٹے ہیں۔ یہ قبر اس وقت بھی ٹیڑھی تھی اور آج بھی ہے‘۔
یہہ کہ کر وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے باپ کی قبر کے قریب آ کر ٹھہر گیا۔
اس نے لرزتی آواز میں آہستہ آہستہ دُعا پڑھی۔ اس کے پیچھے وہ بھی ہاتھ باندھے چُپ چاپ کھڑا تھا۔
صبح ہونے میں صرف دو گھنٹے باقی ہیں اور صبح سے پہلے مجھے یہ سرحد پار کر لینی ہے۔ آؤ اب تمہارے گھر چلیں تمہارے گھر کی سیلی مِٹی مجھے پیار سے بُلا رہی ہے۔صبح ہونے میں صرف دو گھنٹے باقی رہ گئے ہیں صرف دو گھنٹے جیسے ہوا بھی چیختی چِلّاتی یہی کہہ رہی تھی۔
قاسم چُپ تھا۔ اس کی بڑی بڑی نڈھال آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے وہ دونوں قبرستان سے نِکل کر لمبی سڑک پر چلنے لگے۔ اُس نے پلٹ کر پھیلے پھیلے نیلگوں آسمان کی طرف دیکھا۔ وہ بڑی اضطراری کیفیت سے دو چار تھا۔
پھر اس کی نیند سے بوجھل آنکھوں نے دیکھا ، صبح ہو رہی تھی اور قاسم بڑے بڑے ڈگ پھرتا ہوا تیزی سے سرحد پار کر رہا تھا۔