ہم خوراک میں جتنی بھی چیزیں لیتے ہیں (نمکیات، معدنیات، پانی وغیرہ وغیرہ) ان میں سے صرف تین ایسی ہیں جنہیں ہاضمے کے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہیں۔ پروٹین، کاربوہائیڈریٹ اور فیٹ۔ ان کو اب باری باری دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروٹین پیچیدہ مالیکیول ہیں۔ ہمارے وزن کا پانچواں حصہ پروٹین ہیں۔ سادہ الفاظ میں، یہ امینو ایسڈ کی زنجیر ہیں۔ ابھی تک دس لاکھ مختلف اقسام کی پروٹین کو شناخت کیا جا چکا ہے اور پتا نہیں کہ کتنے مزید موجود ہیں۔ یہ سب صرف بیس امینو ایسڈ سے بنتے ہیں۔ اگرچہ قدرتی طور پر سینکڑوں امینو ایسڈ پائے جاتے ہیں جو یہ کام کر سکتے تھے۔ آخر ایسا کیوں ہوا کہ صرف ان کی قلیل تعداد استعمال ہوئی ہے؟ یہ بائیولوجی کا بڑا اسرار ہے۔
اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود، پروٹین کی اچھی تعریف نہیں۔ اگرچہ تمام پروٹین امینو ایسڈ سے بنتے ہیں لیکن ایسی کوئی متفق تعریف نہیں جو بتائے کہ کتنے امینو ایسڈ مل کر زنجیر بنائیں تو پروٹین کہلائی جائے گی۔ صرف یہی کہ اگر تھوڑی تعداد میں ملیں تو پیپٹائیڈ کہلائے جاتے ہیں۔ دس سے بارہ ہوں تو پولی پیپٹائیڈ۔ اور اگر زیادہ بڑے ہوں تو کسی مقام پر ان کو پروٹین کہہ دیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی ایک عجیب چیز ہے کہ ہمیں پروٹین کو توڑنا پڑتا ہے تا کہ ان کے اجزا کی مدد سے اپنے لئے نئے پروٹین بنا سکیں، جیسے کہ یہ بلاک والے کھلونے ہوں۔ بیس میں آٹھ امینو ایسڈ ایسے ہیں جنہیں ہمارا جسم نہیں بنا سکتا اور یہ خوراک سے ہی لینا پڑتے ہیں۔ اگر یہ خوراک میں نہ ہوں تو کئی اہم پروٹین نہ بن سکیں گے۔ جو لوگ گوشت کھاتے ہیں ان کے لئے تو پروٹین کی کمی مسئلہ نہیں لیکن سبزی خور لوگوں کو اس بارے میں کچھ احتیاط کرنا پڑتی ہے کیونکہ ہر پودے سے یہ ضروری امینو ایسڈ نہیں ملتے۔ اور یہ دلچسپ ہے کہ دنیا میں ہر روایتی دسترخوان ایسی نباتات کے گرد ہے جو ضروری امینو ایسڈ فراہم کر دیں۔ ایشیا میں چاول اور سویابین جبکہ ریڈ انڈین کی لوبیے،سیاہ دال اور مکئی کی بنیاد پر خوراک اسی بنیاد پر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری خوراک صرف ذائقے کی نہیں بلکہ جبکہ طور پر اپنی غذائی ضروریات کو پہچاننے کی بنیاد پر رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاربوہائیڈریٹ وہ مرکبات ہیں جو کاربین، ہائیڈروجن اور آکسیجن کی بنیاد پر ہیں جو مختلف اقسام کی شوگر کے طور پر آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ شوگر، فرکٹوز، گلیکٹوز، مالٹوز، سکروز، ڈی آکسی رائبوز وغیرہ۔ کئی کیمیائی طور پر پیچیدہ ہیں اور انہیں پولی سیکرائیڈ کہا جاتا ہے۔ جبکہ کئی سادہ ہیں اور مونو سیکرائیڈ کہلاتی ہیں۔ اگرچہ یہ سب شوگر ہیں لیکن ہر کوئی میٹھا نہیں۔ آلو یا پاسٹا میں پائے جانے والے نشاستے کے مالیکیول اتنے بڑے ہیں کہ مٹھاس کے ڈیٹکٹر کو فعال نہیں کرتے۔ تقریباً تمام کاربوہائیڈریٹ نباتات سے آتے ہیں۔ ان میں ایک استثنا ہے۔ یہ لاکٹوز ہے جو دودھ سے آتا ہے۔
ہم بہت سے کاربوہائیڈریٹ کھاتے ہیں لیکن جلد ہی استعمال کر لیتے ہیں۔ ایک وقت میں عام طور پر آدھا کلوگرام سے کم کاربوہائیڈریٹ جسم میں پایا جاتا ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہضم ہونے کے بعد یہ شوگر ہی ہیں اور بہت سی۔ 150 گرام سفید چاول یا کارن فلیکس کا چھوٹا پیالہ خون میں گلوکوز کی سطح پر اتنا ہی فرق ڈالتے ہیں جتنا چینی کے نو چمچ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...