زوار نے اپنی بائیک زویا کے ہاسٹل کے دروزے کے پاس لاکر روکی اور ہیلمٹ اتار کر نیچے اتر کر زویا کو اترنے میں مدد دی زویا کے سر سے ہیلمٹ اتارا ۔
”اوکے زویا اب تم اندر اپنے روم میں جا کر آرام کرو ۔“ وہ اس کے گال تھپتھپاتا ہوا بولا
زویا بنا ہلے جلے اسے خاموشی سے دیکھتی رہی ۔
”کیا ہوا ۔“ زوار نے پوچھا اس کے انداز میں عجلت تھی
”میجر سر سب ٹھیک ہے نا آپ اتنا سنجیدہ کیوں ہیں “وہ دھیرے سے اس کے قریب آکر گویا ہوئی
زوار نے ایک نظر اپنے لئیے پریشان زویا کو دیکھا
” سب ٹھیک ہے بس اچانک سے ایک کام آ پڑا ہے تم فکر مت کرو میں صبح آتا ہوں ۔“
زویا پریشانی سے زوار کو دیکھتے ہوئے ہاسٹل کی جانب بڑھ گئی زوار کھڑا اسے اندر جاتے دیکھتا رہا ۔۔پھر اس نے اپنا فون نکالا
زویا نے اپنے کمرے میں داخل ہو کر ابھی دروازہ بند ہی کیا تھا کہ اس کا سیل بجنے لگا ۔
”اندر پہنچ گئی ہو سب ٹھیک ہے کھڑکی اور دروازہ لاک ہے ۔“زوار نے اپنے مخصوص سوال کئیے
”جی سب ٹھیک ہے اور کھڑکی اور دروازہ بھی لاک ہے ۔“ زویا نے تابعداری سے جواب دیا ۔
”گڈ گرل اب آرام کرو صبح بات کرینگے ۔“
زوار نے خداحافظ کہہ کر فون رکھا اور بائیک کو اسٹارٹ کرکے روانہ ہوگیا اب اس کا رخ اپنے کاٹیج کی طرف تھا ۔۔۔
کاٹیج پہنچ کر بائیک کو گیراج میں پارک کرکے وہ تیزی سے اندر آیا اور دیوار میں نصب الماری میں سے اپنا جدید نہ ٹریس ہونے والا ٹرانسمیٹر نکال کر میز پر رکھا اور اب وہ اس کی فریکیونسی سیٹ کررہا تھا ۔۔
”آئی ڈی ٢٢٢ آن لائن “ اوور دوسری جانب سے آواز آئی۔۔
”میجر زوار ہیئر رپورٹ پلیز “ اوور
”میجر آپ کا بیک اپ تین دن بعد آپ کو رپورٹ کریگا تب تک بہتر ہے آپ استنبول سے کسی سیف جگہ شفٹ ہوجائیں ۔“ اوور
”آئی ڈی ٢٢٢ مجھے ان تصاویر کی ڈیٹیل چاہئیے “ اوور
میجر زوار سنجیدگی سے اپنے سیل میں آئی سر فورڈ اور اس کے ساتھیوں کی تصاویر دیکھتے ہوئے بولا ۔
” سر یہ آج شام ہی استنبول کیلئیے اپنے پرائیوٹ جیٹ میں روانہ ہوا ہے آپ کی ہدایات کے مطابق ہم اس پر نظر رکھے ہوئے تھے مگر اب یہ ہماری دسترس سے باہر ہے اور اطلاع کے مطابق اس کا دائیاں ہاتھ جوناتھن اس وقت استنبول میں موجود ہے ۔“اوور
”اوور اینڈ آل “ ۔۔
کہہ کر زوار نے ٹرانسمیٹر آف کیا اور اپنے سیل میں موجود فورڈ کی جیٹ کی طرف چلتے سیڑھیاں چڑھتے مختلف اوقات میں لی گئی خفیہ تصاویر بغور دیکھنے لگا ۔۔۔
زوار ابھی فورڈ سے الھجنا نہیں چاہتا تھا اس کی پہلی ترجیح پروفیسر شبیر کی بازیابی کی تھی انٹرپول کی اطلاع کے مطابق پروفیسر شبیر کی تحقیق پر کام شروع ہوچکا تھا جرمنی سے کچھ شواہد ہاتھ لگے تھے ۔
ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کیلئیے کیمیکل فارمولے کا دھشت گرد تنظیموں کے ہاتھ لگنا اور مزید اس پر کام شروع ہوجانا ایک انتہائی خطرناک بات تھی زوار اس کیس کو ایکسپٹ کرچکا تھا مگر اب اس فورڈ کی آمد نے اسے ڈسٹرب کردیا تھا اس کا ارادہ زویا کو اپنے ڈیڈ ریٹائرڈ بریگیڈیئر افتخار کے پاس چھوڑنے کا تھا مگر اب فورڈ کے منظر پر آنے کے بعد وہ یہ رسک نہیں لے سکتا تھا ۔
وقت کم تھا وہ تیزی سے اپنا لائحہ عمل طے کرتا اٹھا اور اپنے بیڈروم میں جا کر اپنا ضروری سامان سمیٹنے لگا کاٹیج سے رہائش کے سارے ثبوت مٹا کر اب اس کا رخ باہر کی طرف تھا ۔
*****************************
خاکی پینٹ شرٹ پیروں میں فوجی بوٹ پہنے پیٹھ پر چھوٹا بیگ لٹکائے وہ ایک ریتیلے ٹیلے کے اوپر دوربین آنکھوں سے لگائے پیٹ کے بل لیٹا اس ٹیلے کا ہی حصہ لگ رہا تھا ..
اس ریت کے ٹیلوں اور چھوٹی چھوٹی چٹانوں سے گھرے اس گاؤں پر دھشت گردوں کی حکومت تھی اندر چٹانوں کے درمیان ایک بڑی عمارت تھی جس کے وسیع احاطے میں گنیں سر پر اٹھائے کئی سو افراد ایکسرسائز اور مشقیں کرنے میں مشغول تھے بلال جو ٹیلے پر چھپا ان پر نظر رکھے ہوئے تھا اپنے حلیہ سے انہیں میں سے ایک لگ رہا تھا دن بڑھتا جا رہا تھا جب بلال نے ہتھیاروں کی ترسیل کے ٹرک آتے دیکھے وہ تیزی سے ٹیلے سے اتر کر مٹی میں رینگتا ہوا ان ٹرک کے راستے میں آکر مٹی کے اندر لیٹ گیا دور سے وہاں کوئی مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیر لگ رہا تھا اب بس ٹرک کے اس پر سے گزرنے کا انتظار تھا ذرا سی بےاحتیاطی اس کی جان لےسکتی تھی پر وہ موت کے خوف سے مبرا نڈر انداز میں ریت میں ڈھکا ہوا تھا جب ٹرک کی آوازیں قریب سے آنے لگیں جیسے ہی پہلا ٹرک اس کے اوپر سے گزرا اس نے تیزی سے دونوں ہاتھ اٹھا کر ٹرک کے نیچے موجود پائپ نما لائن کو پکڑ لیا اور ٹرک کی سطح سے سختی سے چمٹ گیا ۔۔
سارے ٹرک ایک ایک کرکے اس عمارت میں چیکنگ کے بعد داخل ہوگئے اب ان میں سے ترسیل کا سامان اتارا جا رہاتھا موقع دیکھتے ہی بلال نے خود کو ٹرک کے نیچے سے نکالا اور سامان اٹھانے والوں میں شامل ہو کر اندر گودام میں چلا گیا ۔۔
گودام کیا تھا ایک انتہائی بڑے چٹیل میدان جیسا جس میں چاروں طرف ماؤزر جدید مشین گنیں راکٹ لانچر اور ہینڈ گرینڈ کے انبار کے انبار لگے تھے اس نے سامان رکھتے ہوئے نظر دوڑا کرسیکیورٹی کیمروں کا جائزہ لیا اور پھر باہر جاتے ہوئے کیمرے کی حدود سے دور کھسک کر راکٹ لانچرز کے انبار کے نیچے ہوگیا اب اسے وقت گزرنے اندھیرا چھا جانے کا انتظار تھا وہ تنظیم کے سب سے حساس ہتھیاروں والے علاقے میں آچکا تھا یقیناً لیبارٹری بھی قریب ہی تھی ۔۔
*****************************
اندھیرا گہرا ہوچکا تھا اس نے خاصی دور جا کر ٹیکسی لی اور گرلز ہاسٹل سے تھوڑے فاصلے پر اتر گیا ٹیکسی کو فارغ کرکے چاروں جانب اچھی طرح سے جانچ پڑتال کرنے کے بعد وہ تیزی سے ہاسٹل کی پچھلی جانب بڑھا پورا ہاسٹل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اس نے کمرے کا اندازہ کرکے پائپ لائن کے ذریعے اوپر چڑھنا شروع کیا مطلوبہ فلور کے پاس پہنچ کر اس نے آہستگی سے ایک کھڑکی کے پٹ کو پکڑا اور پھر کگر پر احتیاط سے چلتا زویا کی کھڑکی تک پہنچا کھڑکی بند تھی اس نے اپنے جوتے میں اڑسا تیز دھار والا مخصوص چاقو نکالا اور پرسکون انداز میں کھڑکی کی جھری سے اس کے آٹومیٹک لاک کو کھولنے لگا چند منٹ بعد ہی ہلکے سے کلک کی آواز آئی اور کھڑکی کھل گئی ۔
وہ بڑے اطمینان سے اندر داخل ہوا کھڑکی بند کی پورے کمرے میں ہلکی ہلکی نیلگوں سی نائیٹ بلب کی روشنی چھائی ہوئی تھی اےسی کی خنکی ماحول کو اور خوابناک بنا رہی تھی سامنے پلنگ پر کمفرٹر اوڑھے زویا سو رہی تھی اس کے گھنے سنہری آبشار جیسے بال تکیہ پہ پھیلے ہوئے تھے سرخ گالوں پہ سنہری گھنی پلکیں سایہ فگن تھی چہرے پہ سکون تھا اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں ٹائم دیکھا رات کے بارہ بج رہے تھےوہ اطمینان سے کرسی گھسیٹ کر اس کے پاس بیٹھ گیا اس کا ارادہ منہ اندھیرے صبح چار بجے زویا کو لیکر پہلی فیری کے ذریعے استنبول سے نکل جانے کا تھا ۔
اب وہ بڑے اطمینان سے زویا کو دیکھ رہا تھا یہ لڑکی اس کی شہ رگ بن چکی تھی رگ رگ میں اتر چکی تھی زویا کو اپنے ساتھ رکھنے کی ، اسے محسوس کرنے کی خواہش زور پکڑتی جارہی تھی اس دلربا سے دور رہنا بہت مشکل تھا پر وہ اسے قول دے چکا تھا کہ شیری چاچو کو ڈھونڈنے کے بعد ہی وہ اپنی میرڈ لائف کو شروع کرے گا اسے پورا یقین تھا کہ شیری چاچو زندہ ہیں اور ایجنٹ دلاور کو انہوں نے ہی قطر بھیجا تھا پر سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ انہیں یا ایجنٹ دلاور کو زویا اور زورا کی قطر میں موجودگی کا پتہ کس طرح چلا اس دن کے بعد سے ایجنٹ دلاور بھی غائب تھا ۔۔
چند لمحوں بعد دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ زویا کے پاس جگہ بناتا اس کے سنہری گھنے ریشم کے لچھوں جیسی زلفوں کو اپنے ہاتھ میں لپیٹتا کچھ گھنٹے آرام کی نیت سے لیٹ گیا ۔
**************************
میجر زوار کا فون بند کرنے کے بعد زویا نے ایک دفعہ پھر کھڑکی اور دروازے چیک کئیے اور اپنا نائٹ ڈریس نکال کر چینج کرنے چلی گئی ۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ سفید اور گلابی ٹراؤزر شرٹ پہنے باہر آئی اور سنگھار میز کے پاس کھڑی ہو کر اپنے بالوں میں برش کرنے لگی اس کے خوبصورت چہرے پہ سوچ کی پرچھائیاں تھی کچھ تو تھا جو زوار نے اسے نہیں بتایا تھا وہ اسقدر الجھا ہوا تھا کہ اس کے میجر سر کہنے پر بھی کچھ نہیں بولا تھا کوئی شرارت نہیں کی تھی سوچتے سوچتے تھوڑی دیر بعد زویا کی دیوار میں نصب گھڑی پر نظر پڑی جو گیارہ بجا رہی تھی وہ لائیٹیں بند کرتی زیرو بلب جلا کر سونے لیٹ گئی ۔
ابھی اسے سوئے گھنٹہ ہی ہوا تھا جب اس نے نیند میں کروٹ لی اور اسکا ہاتھ زوار کے اوپر آکر ٹہر گیا ۔
بند کمرے میں زویا کو بستر پر کسی کی موجودگی کے احساس نے جگا دیا تھا اس کے روئيں روئيں میں خوف کی لہر دوڑ رہی تھی وہ ایک چیخ مار کر اٹھ بیٹھی اس کے بیٹھتے ہی زوار کے ہاتھوں میں لپٹے اس کے بال زور سے کھنچے اور تکلیف کے مارے اس کی آنکھوں میں پانی آگیا ۔۔
زوار جو زویا کی موجوگی کو محسوس کرتے اپنے دماغ میں تین بجے اٹھنے کا سوچ کر لیٹا تھا زویا کے چیخ مارتے ہی اٹھ بیٹھا اور تیزی سے زویا کے لبوں پر ہاتھ رکھا ۔۔
”خدا کی قسم مسز زی تم نے تو مجھے دیکھ کر چیخ مارنا اپنا ٹریڈمارک بنا لیا ہے ۔“ زوار نے اس کی نم آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرگوشی کی
” آپ ” وہ حیران ہوئی
”آپ ادھر کیسے آئے ، سب ٹھیک تو ہے نا ۔“ وہ پریشان ہوئی
زوار نے دھیرے سے اپنے ہاتھ میں لپٹی سنہری مشکبوں زلفوں کو آزاد کیا اور بڑے پیار سے گھبرائی ہوئی زویا کے چہرے پہ بکھرے بال ہٹائے ۔۔۔
” مائی ڈئیر مسز سب ٹھیک ہے بس صبح سویرے فیری کے ذریعے تمہارے ساتھ آئیرلینڈ شیری چاچو کی اسٹیٹ میں جانے کا ارادہ ہے اسی لئیے تمہیں ساتھ لیجانے کیلئیے آگیا تھا ۔“
”مگر آپ اندر کیسے آئے دروزاہ اور کھڑکی تو لاک ہیں ۔“ وہ الجھی
” مائی ڈئیر مسز زی میری تعلق پاک فورسز سے ہے ہمیں چٹانوں کو توڑ کر راستہ بنانا سکھایا جاتا ہے یہ تو پھر ایک معمولی سی کھڑکی تھی ۔“ زوار نے ایک گہرا سانس بھرا
”اندر آیا تو محترمہ میرے ہوش اڑا کر خود پرسکون نیند لے رہی تھیں سوچا ابھی چند گھنٹے باقی ہیں میں بھی اپنی نازک سی بیوی کے پہلو میں چند گھڑی آرام کر لوں ۔
یہ کہہ کر زوار نے شرمندہ بیٹھی زویا کا منہ اوپر اٹھایا اور اس کی گہری سبز آنکھوں میں جھانکتے ہوئے دوبارہ گویا ہوا ۔۔
”مگر سیریسلی میں بھول گیا تھا کہ میری موجودگی تمہیں ایسا کرنٹ مارتی ہے مسز زی کہ تمہاری چیخ نکل جاتی ہے ۔“
ابھی زوار زویا سے بات کرہی رہا تھا کہ اس کے حساس کانوں میں کمرے کے اکلوتے دروازے کے ناب کے گھومنے کی آواز آئی ۔
زوار نے تیزی سے زویا کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش رہنے کی ہدایت دی اور خود دبے قدموں دروازے کی جانب بڑھا ۔۔۔آئی ہول سے باہر دیکھا تو دو نقاب پوش چاک و چوبند کھڑے نظر آئے اور ایک لاک پر جھکا ہوا تھا ۔۔
******************************
بغداد ائیر پورٹ سے چلی فلائٹ تقریباً تین گھنٹوں کے سفر کے بعد استنبول انٹرنیشنل اتاترک ائیرپورٹ پر لینڈ کر چکی تھی ۔۔۔
فرسٹ کلاس میں سوار اس مغرور حسینہ نے اپنا مختصر سا ہینڈ کیری سامان اٹھایا اور آنکھوں پہ سن گلاسس لگا کر پلین سے باہر نکل گئی اس کی بےنیازی اس کی مغروریت اسے سب سے الگ دکھا رہی تھی کئی منچلے اسے اکیلا دیکھ کر آگے بڑھنا چاہ رہے تھے پر اس کے حسین چہرے پہ پھیلی سنجیدگی ان سب کی ہمت توڑ رہی تھی ۔۔
رات کی تاریکیوں میں روشنی سے جگمگاتا استنبول ۔۔اس نے ایک گہری سانس لی اور نازک کلائی پر بندھی گھڑی میں ٹائم دیکھا رات کے تقریباً بارہ بجنے ہی والے تھے ۔
ائیرپورٹ کے احاطے سے باہر نکل کر وہ ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف بڑھی اور ایک پوش علاقہ کا پتا بتا کر بیٹھ گئی ۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں ٹیکسی اس کے مطلوبہ پتے پر رک گئی ڈرائیور کو فارغ کرکے چند لمحے وہ کھڑی رہی پھر رات کے سناٹے میں اگلی گلی میں موجود سیف ہاؤس کی طرف تیز قدموں سے بڑھنے لگی
وہ سر سے پیر تک سیاہ چست لباس اور نقاب میں ملبوس ایک غار نما ٹیلے کے اندر بیٹھی اپنے ہاتھ میں موجود ڈیوائس سے عمارت میں موجود سیکیورٹی سیسٹم کو ہیک کرنے میں لگی ہوئی تھی چند گھنٹوں کی محنت کے بعد وہ سیسٹم ہیک کرنے میں کامیاب ہوچکی تھی اب سارے کیمروں میں ایک ہی وڈیو کلپ بار بار چل رہا تھا اپنی ڈیوائس کو پشت پر لٹکے بیگ میں ڈال کر وہ کھڑی ہوئی رات گہری ہوچکی تھی وہ لومڑی کی طرح چاروں طرف نظر رکھتی آگے بڑھتی جا رہی تھی عمارت کے نزدیک پہنچ کر اوپر تعینات گارڈز کے مڑتے ہی اس نے ایک جمپ لگائی اور دیوار پھلانگ کر چھپکلی کی طرح رینگتی ہوئی لیبارٹری سے ملحقہ برآمدے کی جانب بڑھنے لگی آگے جا کر لیبارٹری کا بڑا لوہے کا دروازہ تھا جس کے آگے دو مسلح گارڈ چوکس کھڑے تھے۔۔
سامنے سے ایک سایہ سا محتاط انداز میں چلتا ہوا ان گارڈز کی پشت پر آرہا تھا وہ دم سادھے وہی رک گئی ۔۔
*****************************
بلال کئی گھنٹوں تک دم سادھے وہی بیٹھا اس عمارت کے نقشے کو اپنے فون نما آلہ میں دیکھ رہا تھا اسے رات گہری ہونے کا انتظار تھا اس کا ارادہ لیبارٹری ریکارڈ چرانے کا تھا تاکہ اگر پروفیسر شبیر زندہ ہیں یا کسی مخصوص فارمولے پر کام ہو رہا ہے تو ریکارڈ سے پتہ چل سکے ۔۔
رات گہری ہوتے ہی باہر سے آتے انگنت قدموں کی چہل پہل کی آوازیں بند ہوگئی تھیں وہ آہستگی سے رینگتا ہوا نیچے سے نکل کر گودام کے دروازے کی جانب بڑھا کیمروں کی حرکت پر وہ حرکت کررہا تھا تاکہ سیکیورٹی الارم نہ بجے جیسے ہی کیمرہ گھوما بلال بجلی کی تیزی سے گودام کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔۔
وہ احاطے میں دیواروں کی آڑ لیکر نقشے کے مطابق آگے بڑھ رہا تھا جلد ہی لیبارٹری اسے نظر آگئی اور اس کے باہر تعینات گارڈ بھی ۔۔۔
وہ گارڈز کی پشت کی جانب سے بنا آواز کئیے ان کی جانب بڑھا اور قریب پہنچتے ہی اچھل کر ایک گارڈ کی گردن کڑک سے توڑ دی اور دوسرے کو فلائنگ کک مار کر گرادیا دوسرا گارڈ بہت مزاحمت کررہا تھا بلال نے ایک ہاتھ سے اس کا منہ بند کیا ہوا تھا اور دوسرے سے اس کا گلا دبایا رہا تھا ۔۔
وہ اطمینان سے دیوار سے چپک کر چلتے ہوئے بلال کو ان گارڈز سے بھڑا چھوڑ کر نظروں میں آئے بغیر خاموشی سے لیب کے اندر داخل ہو چکی تھی ۔۔
یہ ایک جدید نیوکلئیر لیب تھی دیواروں پہ نصب بڑے بڑے مانیٹر جن پر مختلف میزائل کی ساخت کے ڈائیاگرام تھری ڈی میں چل رہے تھے نیچے ان کے کیمیائی فارمولے اسپیڈ اور ٹارگٹ کلومیٹر لکھے آرہے تھے ۔
وہ احتیاط سے آگے بڑھ رہی تھی اس کی شاطر نظریں ماسٹر کمپیوٹر کو ڈھونڈنے میں لگی تھیں جلد ہی اسکی رسائی کمپیوٹر تک ہوگئی اس نے اپنے بیگ سے یو ایس بی نکالی اور کمپیوٹر میں لگا کر اس کمپیوٹر سے ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کی کوشش میں لگ گئی ابھی وہ کمپیوٹر کو کمانڈ دینے میں مصروف تھی جب کسی نے اس کے کندھے پر بھاری ہاتھ رکھا ۔
********************************
بلال اس گارڈ کو موت کی نیند سلا کر لیب کا آہنی دروزاہ کھول کے اندر پہنچا پھر پلٹ کر دروازے کو لاک کر کے آگے بڑھا ابھی وہ احتیاط سے قدم بڑھاتا آگے بڑھ رہا تھا جب اسے ایک بڑی شیشہ نما ٹیبل پر ایک نقاب پوش کمپیوٹر پر جھکا نظر آیا اس کے جسمانی خدوخال سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ کوئی نسوانی وجود ہے وہ دبے قدموں اس کی جانب بڑھا اور قریب جاکر اس لڑکی کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔
کوئی برق سی گری تھی وہ لڑکی تیزی سے مڑی اور بلال کو بازو سے پکڑ کر لمحوں میں پٹخ دیا تھا ۔وہ ہاتھ جھاڑتا ہوا اٹھا اور اس سے پہلے کہ وہ لڑکی اپنی یو ایس بی نکال کر رفوچکر ہوتی تیزی سے اس لڑکی کو دونوں بازوؤں سے جکڑا پر وہ مچھلی کی طرح پھسل کر اس کے نرغے سے نکلی تیزی سے یو ایس بی نکالی اور باہر کی طرف لپکی ۔۔
سیکیورٹی کیمرے کام کرنا شروع ہوگئے تھے لیب کے باہر سے دوڑتے ہوئے قدموں کی آوازیں نزدیک آرہی تھیں وہ بجلی کی رفتار سے پلٹ کر بلال کے پاس آئی ۔۔
”کیپٹن بلال آپس میں بعد میں لڑ لینگے ابھی مل کر یہاں سے نکلنے کی سوچو۔“
بلال اسے گھورتی نظروں سے دیکھ رہا تھا جو بھی تھا یہ لڑکی مانوس سی لگ رہی تھی پر اس کی آنکھیں ۔۔۔
”کیپٹن بلال تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے کہ کسی بھی مشن میں اپنا منہ ماسک میں چھپا کر آتے ہیں ۔۔۔“ بلال کو ساکت دیکھ کر وہ دوبارہ بول اٹھی تھی
بلال نے اس پٹاخہ کو بغور دیکھا وہ یہاں ایک دھشت گرد کے روپ میں آیا تھا مگر اب اپنا آپ چھپانا بہت ضروری ہوگیا تھا اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سیاہ ماسک نکال کر پہن لیا اور اس پٹاخہ کی طرف مڑا ۔۔
”کون ہو تم ۔“بلال نےاس لڑکی کی نقاب سے جھانکتی نیلی آنکھوں میں گھورا
”جو بھی ہوں ابھی تو ہمارامشن ایک ہی ہے یہاں سے زندہ نکلنا اور اس لیب کو تباہ کرنا ہے بولو ہے ہمت ۔“ نیلی آنکھوں میں چیلنج تھا
” اس لیب کو تباہ کرنا تو بہت آسان ہے مگر میں جسے ڈھونڈ رہا ہوں اس کی زندگی کا رسک نہیں لے سکتا ۔“ وہ سنجیدگی سے بولا
”اگر تم پروفیسر شبیر کی تلاش میں ہو تو وہ یہاں نہیں ہیں ۔“ وہ سنجیدگی سے بولی اور اپنے بیگ سے ماؤذر گن نکالنے لگی
پروفیسر شبیر کا نام سن کر وہ چونک گیا تھا اس نے گہری نظر نقاب پوش لڑکی پر ڈالی جس کا لہجہ مانوس تھا پر آواز اور آنکھیں جدا تھیں
”یہ نھنی سی جان ان ہزاروں کی تعداد میں دھشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔“ وہ اس کی گن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
”وہ دیکھو اوپر روشن دان وہاں سے نکلو اور چھت کے راستے فرار ہوجاؤ ۔“ یہ کہہ کر بلال نے کمپیوٹر کو توڑ کر اس کی ہارڈ ڈسک نکال لی ۔
”اور تم “ نیلی آنکھوں میں الجھن تھی
”بچ گیا تو غازی مر گیا تو شہید ۔“ وہ بلا کی سنجیدگی سے بولا
بلال نے اپنے بیگ سے ٹائم بم نکالے اور لیب میں جگہ جگہ انسٹال کرنے لگا ۔لیب کے آہنی دروزاے پر ٹکریں ماری جارہی تھی کسی بھی لمحے دروازہ گرنے والا تھا فوکسی نے ایک نظر بلال کو دیکھا اور اپنے بیگ سے دھواں بم نکال کر بلال کے پاس آئی ۔۔
”کیپٹن ۔۔۔وقت کم ہے نکلو۔۔ “
بلال تیزی سے چھلانگ لگاتا میز پر چڑھ کر اچھلا اور سیدھا روشن دان میں جا کر رکا ۔۔
” تم جو کوئی بھی ہو سن لو ٹائم بم بلاسٹ ہونے میں صرف پانچ منٹ ہیں گڈ لک ۔“یہ کہتے ہی وہ روشن دان کے راستے چھت کی طرف چلا گیا .
فوکسی جو حیرت سے بلال کو دیکھ رہی تھی۔
” کمینہ “زیر لب بڑبڑائی۔
بلال پر دو حروف مار کر تیزی سے اسپرنگ کی طرح اچھلی اور بلال ہی کی طرح روشن دان کے ذریعے باہر نکل گئی اب اس کا رخ چھت کے راستے ہی اس عمارت سے باہر نکلنے کا تھا ۔
کئی لوگوں کو چکمہ دے کر وہ عمارت کی دیوار پھلانگ کر تیزی سے دوڑ رہی تھی چند میل کے فاصلے پر درختوں کے جھنڈ میں اس کی گاڑی چھپی ہوئی تھی وہ اس عمارت سے بہت دور نکل آئی تھی ادھر ادھر دیکھتے وہ ہاتھ بڑھا کر اپنا نقاب اتارنے ہی والی تھی جب اسے اپنی پشت پر گن کی نالی چبھتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
********************************
زوار کمرے کے باہر نقاب پوشوں کو دیکھ چکا تھا ابھی زویا کو لیکر وہ کوئی رسک لینا نہیں چاہتا تھا اسی لئیے وہ تیزی سے کھڑکی کی جانب بڑھا کھڑکی کے دونوں پٹ کھول کر اس نے پریشان کھڑی زویا کو اپنی پیٹھ پر لادا اور اپنا چھوٹا سفری بیگ کاندھے پر لٹکا کر کھڑکی سے باہر نکلا ۔
”میجر سر “ زویا کی کپکپاتی آواز نکلی
”ًزویا چپ بالکل آواز نہ نکلے ۔“وہ سرگوشی میں پھنکارا
زویا نے سختی سے آنکھیں میچ کر زوار کے چٹان سے وجود کو کس کر پکڑ لیا تھا
ہاسٹل کے سامنے بھی چند مسلح افراد کھڑے نظر آرہے تھے زوار پائپ لائن کے ذریعے ہاسٹل کی پچھلی طرف اترا اور زویا کو اپنی پیٹھ سے اتار کر اسکا ہاتھ پکڑ کر دوڑنے لگا ۔
”میجر سر پلیز آپ بہت تیز بھاگ رہے ہیں ۔“زویا ہانپتے ہوئے بولی
زوار نے ایک لمحے کو رک کر اسکا سرخ ہانپتا ہوا چہرا اور ننگے پیر دیکھے اور تیزی سے اس نازک سئ گڑیا کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آگے بڑھنے لگا تبھی ایک کار کی ہیڈلائٹ ان کے بالکل سامنے آکر رکی ۔
******************************
وہ سیف ہاؤس پہنچ چکی تھی اب وہ جی پی ایس میں ہاسٹل کا پتہ دیکھ رہی تھی رات کا ایک بج رہا تھا زویا کو خاموشی سے اغوا کرنے کیلئیے یہ وقت بہترین تھا وہ تیزی سے اٹھی اپنے لمبے بال سمیٹ کر نقاب پہنا اور گاڑی کی چابی لیکر باہر نکلی۔۔۔
ہاسٹل کے قریب پہنچتے ہی اس کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کردی ہاسٹل کو گھیرے میں لئیے جوناتھن اور اس کے آدمی اس کی نظر میں آچکے تھے وہ گاڑی کو گھما کر ہاسٹل کے پیچھے لے گئی اسکا اردہ بیک سائیڈ سے اندر جانے کا تھا ابھی وہ گاڑی سے اتری ہی تھی کہ اسے ایک آدمی اپنی پشت پر کسی کو اٹھائے اترتا ہوا نظر آیا اس نے پلٹ کر گاڑی سے انفرا ریڈ نائیٹ دوربین نکالی اور اس آدمی کو فوکس کرنے لگی ۔۔
”میجر زوار پاکستانی سپائی ۔“ وہ بڑبڑائی
اور پلٹ کر گاڑی میں بیٹھ کر اپنا ٹرانسمیٹر آن کیا اور اپنی آئی ڈی بتا کر استنبول میں مقیم تنظیم کے انچارج سے بات کرانے کو کہا ساتھ ہی ساتھ وہ میجر زوار پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھی ۔
انچارچ کے لائن پر آتے ہی وہ ہدایات دینا شروع ہوگئی
”بازید بن کرم میں اریانا ہوں ۔“
” سلام یاحبیبی “ بازید بن کریم بولا
”یہ پتہ نوٹ کرو یہاں تقریباً دس سے بارہ یہودی ایجنٹ موجود ہیں اور عمارت کو گھیرے میں لئیے ہوئے ہیں ان کا اور میرا ٹارگٹ ایک ہے تم اپنے آدمیوں کے ساتھ جلد از جلد پہنچ جاؤ اور کوشش کرو کے سب کو راستے سے اڑا دو ۔“ وہ سفاکی سے بولی
اب وہ فاصلہ رکھتے ہوئے زوار کا پیچھا کررہی تھی اس کا اردہ میجر زوار کے ٹھکانے کا پتہ چلانے کا تھا ۔۔
*****************************
گاڑی کی ہیڈلائٹس آن تھی ایک ترک امیرزادہ تیزی سے اتر کر زوار کے پاس آیا
” برادر سب ٹھیک تو ہے کیا آپ کو کسی مدد کی ضرورت ہے ۔“ وہ زویا کو نظروں میں رکھ کر بولا
زوار نے ایک نظر اس کو دیکھا جو مسلسل زویا کو دیکھے جارہا تھا ۔۔۔۔نائیٹ ڈریس میں ملبوس بلا کا دلکش چہرہ سانچے میں ڈھلا زویا کا سراپا اور سنہرے کھلے بال وہ ترک زویا کے حسن و جمال سے مسمرائز ہو کر زویا کی طرف بڑھا ۔۔
زوار کی رگ رگ میں خون ابلنے لگا تھا اس نے بجلی کی تیزی سے آگے بڑھ کر اس ترک کو سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر اس کی گردن پہ کاری وار کیا اور اس کے بیہوش وجود کو اٹھا کر اسی کی گاڑی کی ڈگی میں بند کر کے ہاتھ جھاڑے اور زویا کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ۔
”زویا اپنے بال سمیٹو اپنے آپ کو ڈھک لو حجاب کرو میں نہیں چاہتا کوئی بھی تمہاری طرف متوجہ ہو ۔“ وہ انتہائی سنجیدگی سے بولا
زویا نے حیرت سے زوار کو دیکھا
”میجر سر میرا دوپٹہ اور اسکارف سب کچھ تو ہاسٹل میں ہے میں کیسے ۔۔۔“ ابھی اس کی بات درمیان میں ہی تھی جب زوار نے ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنی شرٹ اتار کر زویا کی طرف اچھالی
”یہ لو اسے اسکارف بنا لو ۔“
چھ فٹ سے نکلتے قد کے مالک زوار کی ٹی شرٹ خاصی لمبی تھی زویا نے اسے اسکارف کی طرح اپنے سر پر لپیٹ لیا زوار کی خوشبو نے اسے اپنے گھیرے میں لےلیا تھا ۔۔
زوار نے ایک نظر اپنی شرٹ میں لپٹی زویا کو دیکھا اور دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر اس کے سرخ انار سے رخسار کو چھوتا ہوا گویا ہوا
”اب ٹھیک ہے ۔“
ابھی فیری چلنے میں چار گھنٹے باقی تھے وہ زویا کو لیکر شپ یارڈ کی جانب روانہ ہوا تھوڑی دور ڈرائیو کرتے ہی اسے تعاقب کا اندازہ ہوا ایک لال گاڑی ان کا پیچھا کررہی تھی زوار نے ایک گہری سانس بھری اور گاڑی کا رخ اپنے کاٹیج کی طرف کردیا ۔۔
کاٹیج پہنچ کر اس نے گاڑی ڈرائیو وے میں کھڑی کی وہ لال گاڑی فاصلے پر رک گئی تھی زوار کی عقابی نظریں گاڑی میں بیٹھے نسوانی وجود کو دیکھ چکیں تھی وہ اطمینان سے زویا کو لیکر لاک کھولتا کاٹیج کے اندر داخل ہوا ۔۔۔
”مسز زی سامنے بیڈروم ہے تم اندر جا کر اپنا حلیہ درست کرو میں ابھی آیا ۔“ زویا کو اپنا بیڈروم دکھا کر وہ کاٹیج کے پچھلے دروازے کی طرف بڑھا اس کی آنکھیں شکاری کی طرح چمک رہی تھیں ۔