محمد اویس سنبھلی(لکھنؤ)
مصاحب علی خاں معروف بہ قمر رئیس ۱۲جولائی ۱۹۳۲ء کو اترپردیش کے مردم خیز شہر شاہجہانپور کے ایک معزز پٹھان خانوادے میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں استاد شری رام سے پڑھے پھر مشن ہائی اسکول شاہجہانپور اور حسین آباد گورنمنٹ اسکول لکھنؤ میں پڑھنے کے بعد گاندھی فیض عالم کالج شاہجہانپور سے انٹر میڈیٹ اور ۱۹۵۲ء میں آگرہ یونیورسٹی سے بی۔اے کیا۔ اپنے والد عبدالعلی خاں مرحوم کی خواہش پر ۱۹۵۴ء میں LLBکی ڈگری لی اور وکالت بھی کرنے لگے۔ لیکن اس پیشے میں وہ ناکام ثابت ہوئے۔ ذہن شعر و ادب کی طرف مائل تھا، جھوٹ اور بناوٹ سے ازلی تفرت تھی۔لہٰذا اس پیشے کو ترک کرکے انہوں نے ۱۹۵۵ء میں ناگپور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ۔ ادب میں فکشن اور تنقید ان کا خاص موضوع تھا۔ دریں اثنا کمیونزم سے متاثر ہوئے اور اس کے سرگرم کارکن ہوگئے کیوں کہ ان کی زندگی میں کارل مارکس کی تصنیف ’’سرمایہ‘‘ نے انقلاب برپا کر دیا تھا۔ وہ ہندوستان کے دبے کچلے لوگوں کی کراہوں سے دلبرداشتہ تھے لہٰذا ادب میں پریم چند ان کے پسندیدہ مصنف بن گئے۔ انہوں نے ’’پریم چند بحیثیت ناول نگار‘‘ کے تنقیدی مطالعہ پر پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لی۔ ان کا یہ تحقیقی مقالہ پریم چند کے فن اور شخصیت کی تفہیم اور شناخت کا اولین وسیلہ بن گیا۔
۱۹۵۹ء میں دہلی یونیورسٹی کے شبینہ انسٹی ٹیوٹ میں لکچرر پوسٹ گریجویٹ ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں پہلی بار چار سال کے لئے اور ۱۹۸۲ء میں ایک سال کے لئے ازبیکستان یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ وہ تاشقند میں ہندوستانی کلچر ل سینٹر ، ہندوستانی سفارت خانے کے ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۱ء تک ڈائریکٹر بھی رہے۔ انہوں نے ازبیک ادب کی اہم ترین کتابوں کے اردو ترجمے کئے۔ ان کی علمی خدمات کے صلے میں تاشقند کے بابر انٹرنیشنل فاؤنڈیشن نے ان کی بابر شناسی کے اعتراف میں اعلیٰ ترین ایوارڈ سے سرفراز کیا اور تاشقند یونیورسٹی آف اورینٹل اسٹڈیز نے ڈاکٹر آف لٹریچر کی اعزازی ڈگری دی۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۶ء تک وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تھرڈ ورلڈ اسٹڈیز کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں رسائل ادیب اور علی گڑھ میگزین کے مدیر بھی رہے۔ ’’عصری آگہی‘‘ کے نام سے انہوں نے اپنا رسالہ بھی نکالا تھا جس کے دو خاص نمبر بے حد مقبول ہوئے۔ الہٰ آباد سے شائے ہونے والا ترقی پسند مجلہ ’’نیا سفر‘‘ کے وہ بانی مدیر تھے۔ جس کی ادارات اب پروفیسر علی احمد فاطمی کے ذمہ ہے۔ ۱۹۶۸ء میں جب وہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ریڈر تھے، ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’تلاش و توازن‘‘ شائع ہوا۔ یہ کتاب اردو ادبیات کے طلبا میں بے حد مقبول ہوئی۔
انہوں نے بہت سے افسانے بھی لکھے لیکن جو خصوصیت انہیں اردو کے بڑے نقادوں، اساتذہ اور دانشوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی شاعری ہے۔ ان کا مجموعہ کلام ’’شام نوروز‘‘ کو ان کی قادر الکلامی اور منفرد لب و لہجہ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ پروفیسر قمر رئیس نے اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان، جوش لٹریری سوسائٹی کناڈا ، اردو مرکز لندن، اورینٹل انٹی ٹیوٹ تاشقند اور دیگر اہم عالمی اداروں میں گرانقدر لکچرز دیئے۔ انہوں نے سوویت روس، امریکہ، کناڈا، پولینڈ، افغانستان اور متحدہ عرب امارات کے ادبی و ثقافتی دورے بھی کئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا آخری کارنامہ ’’ترقی پسند اردو ادب کے معمار‘‘ کتاب ہے جو اپنے موضوع پر ترقی پسند قلم کاروں کے انسائیکلوپیڈیا کا درجہ رکھتی ہے۔
اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے پروفیسر قمر رئیس نے اردو اکیڈمی کی طرف سے مشاعروں کے عروج و زوال ، پاپولر لٹریچر کی اہمیت اور بعض نئے موضوعات پر شاندار سیمینار منعقد کرائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مزاحیہ ادب پر بھی یادگار سیمینار منعقد کیا اور پیروڈی کے مشاعروں کی روایت بھی شروع کرائی۔ طنز و مزاح کے شعرا کے ساتھ وہ خود بھی شامل مشاعرہ ہوئے اور ’’شیخ کی تہمد‘‘ کا نام جھام کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ اکثر سامعین لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مگر کچھ لوگ ان کے اس غیر سنجیدہ رویہ سے نالاں بھی ہوئے اور بعد میں وہ تنقید کا نشانہ بھی بنائے گئے۔ اردو اکیڈمی کی جانب سے ادبی فیلوشپ کا آغاز بھی کیا اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنی ادبی، تحقیقی، تنظیمی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ ان کی اہم تصانیف میں پریم چند کا تنقیدی مطالعہ، تنقیدی تناظر، شام نوروز، سجاد ظہیر، سردار جعفری قابل ذکر ہیں۔
پروفیسر قمر رئیس کی شہرت کی سب سے اہم وجہ ان کی ’’پریم چند شناسی ‘‘ ہے، پریم چند پر ان سب سے مستند اور موقر کام اس وقت منظر عام پر آیا جب ہندی والے پریم چند پر کافی کچھ لکھ رہے تھے۔ ان پر بہت سی کتابیں ہندی میں شائع ہو چکی تھیں مگر اردو زبان میں پریم چند پر پروفیسر قمر رئیس کا تنقیدی کارنامہ اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ پروفیسر قمر رئیس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے دوران بہت سے نامور ادیبوں کے قریب آئے اور ان کے خیالات و تعلیمات سے متاثر ہوئے۔ انہیں میں سے ان کے شفیق استاد پروفیسر رشید احمد صدیقی تھے۔ رشید احمد صدیقی نے قمر رئیس کی صلاحیت سے متاثر ہوکر انہیں بہت سے مفید مشورے دیئے اور ان کی علمی اور ادبی رہنمائی میں معاون ثابت ہوئے۔ پروفیسر قمر رئیس نے ’’پریم چند کا تنقیدی مطالع :بحیثیت ناول نگار‘‘ کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ لکھا۔ اس پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا۔ یہ مقالہ پہلی بارکتاب کی شکل میں دسمبر۱۹۵۹ء میں منظر عام پر آیا۔ دوسری بار یہ کتاب نظر ثانی کے بعد نومبر ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کو کافی مقبولت حاصل ہوئی ، اترپردیش حکومت نے گراں قدر انعامات سے نوازا اور ادیبوں نے اس کی بہت پذیرائی کی۔یہ کتاب ۶۰۶صفحات پر (20×30/16) پر مشتمل ہے،جسے پہلی بار سرسید بلڈپو علی گڑھ نے ۱۹۵۹ء میں شائع کیا۔
’’پریم چند کا تنقیدی مطالعہ‘‘ میں پروفیسر قمر رئیس نے صرف نالوں کو موضوع مطالعہ بنایا ہے اور پریم چند کی فکشن پر جو وقیع خدمات ہیں انکی قدر و قیمت کا ایماندارانہ اور عالمانہ مطالعہ کیا ہے۔ ایسا محاکمہ پیش کیا ہے جس میں نہ شدت پسندی ہے اور نہ ہی جاندبداری، ایک دل نشین پیرایہ اظہار میں پریم چند کی فنی خوبیوں اور ان کی فنکارانہ اوصاف و نقائص پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔پروفیسر رشید احمد صدیقی کی اس کتاب کے متعلق رائے ہے:۔
’’ڈاکٹر قمر رئیس نے پریم چند کے ناولوں کا مطالعہ مختلف زاویوں سے کیا ہے اور اس فریضہ کو محنت ، دیانت اور خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ انہوں نے ان دستاویزات سے استفادہ کیاہے جو اس مطالعہ میں بیش از بیش قدر و قیمت رکھتی تھیں اور ان کو مل سکتی تھیں، ان سے جو ہندی کے ممتاز اور مستند لکھنے والوں نے پریم چند اور ان کی تخلیقات سے متعلق سپرد قلم کی ہیں، جن تک اردو داں طبقہ کی رسائی کم ہے‘‘ ۔ (تعارف: پریم چند کا تنقیدی مطالعہ، صفحہ ۱۶)
پروفیسر قمررئیس کے سامنے ہندی زبان میں پریم چند پر اچھا خاصا ادبی سرمایہ موجاد تھا جس سے انہوں نے استفادہ کیا۔ ہندی زبان میں پریم چند کی سوانح عمری ان کے صاحبزادے امرد رائے نے لکھی تھی اور دوسری کتاب مدن گوپال کی بیس سالہ تحقیق کا نتیجہ تھی جسے مدن گوپال نے انگریزی میں سپردقلم کیا تھا۔ ان دونوں حضرات کے مسودات سے پروفیسر قمر رئیس نے استفادہ کیا۔ اردو زبان میں پریم چند کے متعلق جن ادیبوں نے سب سے پہلے سنجیدہ کوشش کی تھی ان میں کشن پرشاد کول، ہنسراج رہبر، سید احتشام حسین، راجندر ناتھ شیدا اور ممتاز حسین کے نام خصوصیت کے حامل ہیں۔ علاوہ ازیں علی سردار جعفری اور علی عباس حسینی کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ جن میں ان لوگوں نے پریم چند کی ناول نگاری کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا تھا۔ پریم چند ہر اردو میں سب سے پہلے جس رسالے نے نمبر شائع کیا وہ کانپور سے شائع ہونے والا مقبول ترین رسالہ ’’زمانہ ‘‘ تھا۔ ’’زمانہ‘‘ نے ۱۹۳۶ء میں سب سے پہلا ’’پریم چند نمبر‘‘ شائع کرکے پریم چند کی ادبی کاوشوں کی تنقیدی قدر و قیمت کا تعین کرنے کی ہمت جٹائی۔
پروفیسر قمر رئیس نے پریم چند پر اردو میں پہلی جامع کتاب لکھی۔ اس سے قبل بہت سے لکھنے والے ادباء پریم چند کے فن کے مختلف گوشوں پرقلم فرسائی کرتے رہے لیکن یہ قمر رئیس کی پہلی کوشش ہے کہ انہوں نے پریم چند کو اردو دنیا کے منظر نامے پر ناقدانہ انداز میں پیش کیا اور کم و بیش ان کے تمام ناولوں کا احاطہ کیا اور ان پر اپنی تنقیدی رائے ثبت کی۔
قمر رئیس نے پریم چند کے ناولوں کا احاطہ کرتے ہوئے سب سے پہلے ’’اسرار معابد‘‘ کو موضوع مطالع قرار دیا ہے اور اس کے بعد ’’جلوہ ایثار ‘‘ اور بیوہ کو دوسرے باب میں رکھا ہے۔ دوسرے دور کے ناولوں میں ’’بازار حسن‘‘ اور ’’ گوشہ عافیت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔’’بازار حسن‘‘ کی اشاعت کے مسئلے کو لے کر پریم چند کافی فکر مند تھے۔ اس کے متعلق پروفیسر قمر رئیس کہتے ہیں:
’’بازار حسن‘‘ پریم چند کا پہلا ضخیم ناول ہے جو ۱۹۱۶ء میں مکمل ہوا۔ اس وقت اس کی اشاعت کے لئے اردو میں انہیں کوئی اچھا پبلشر نہ مل سکا۔ اس لئے ’’سیوا سدن‘‘ کے نام سے اس کا ہندی میں ترجمہ کیا پہلے ہندی ایڈیشن کے لئے کلکتہ پستک ایجنسی نے انہیں یک مشت چار سو روپے پیش کئے۔ اتنا معاوضہ ابھی تک انہیں کسی کتاب پر نہیں ملا تھا اور کچھ اس غیر معمولی شہرت اور مقبولیت نے جو اس ناول کی اشاعت سے ہندیداں حلقہ میں پریم چند کو ملی، انہیں ہندی میں لکھنے کی طرف متوجہ کیا․․․․․․․․․․․‘‘(پریم چند کا تنقیدی مطالعہ صفحہ ۲۲)
رشید احمد صدیقی نے پروفیسر قمر رئیس کی علمی اور ادبی صلاحیت خصوصاً پریم چند پر ان کی تحقیقی کاوشوں کو سرہاتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’اردومیں شاید یہ پہلا مقالہ ہے جس میں پریم چند کے تصورات اور ان کی تخلیقات کا اس تفصیل سے مطالعہ کیا گیا ہے اور ان کے محرکات بعض ناولوں اور کرداروں کے ماخذوں، موضوعات اور ناول کی فنی ساخت و پرداخت کو تنقید ی زاوئیے سے پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ (تعارف ․․․․․پریم چند کا تنقیدی مطالعہ صفحہ ۱۷)
پروفیسر قمر رئیس کو افسانہ نگاری اور ناول نویسی کے فن پر کتنی دسترس تھی اس کا اندازہ پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رائے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ناول کی تکنیک سے عمدہ بحث کی ہے اور پریم چند کے ناولوں کے محاکمے میں انہوں نے تکنیکی خوبیوں اور خامیوں سے بھی سیر حاصل بحث کی ہے، ’’گوشۂ عافیت‘‘کی فنی اور تکنیکی اعتبار سے عیوب و خصائص کا ذکر کرتے ہوئے قمر رئیس رقمطراز ہیں:
’’فنی تکمیل تکنیک موضوع اور مقصد کے اعتبار سے پریم چند کے اس ناول (گوشۂ عافیت) کو ان کے بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔اس میں پہلی بار ایک ناول نگار کی حیثیت سے ان کی تخلیقی قوتیں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ ان کی انسان دوستی نے ایک صحیح اور صحت مند راستہ اختیار کیا ہے۔ اس ناول میں زندگی کی اس تخیئلی باز آفرینی کا احساس ہوتا ہے جو ناول نگاری کا منصب اور معیار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں تک گاؤں کی معاشرت کی مصوری محنت کش طبقہ کے مسائل کی نمائندگی کا تعلق ہے یہ ناول ’’گؤدان‘‘ کے بعد مصنف کا بہترین ناول ہے لیکن پلاٹ کی فنکارانہ ترتیب کے اعتبار سے ’’میدان عمل‘‘ ، ’’گوشۂ عافیت ‘‘ سے زیادہ کامیاب ہے۔ـــ‘‘
پروفیسر قمر رئیس مارکسی تنقید سے وابستہ رہے۔ ترقی پسندوں کی جماعت میں شامل تھے، شاعری میں طبع آزمائی کی، ترجمے کئے ، روزنامچے اور سفر نامے لکھے، تنقیدی کتابوں کے مصنف ہوئے اور ۳۰سے زائد تصنیفات ، تالیفات اور تراجم کے خالق تصور کئے جاتے ہیں۔ تاشقند میں اردو کی خدمات پر مامور ہوئے اور ازبیکی زبان سیکھ کر اردو ادب کے سرمائے کو ازبیکی زبان میں منتقل کیا۔ کئی رسائل و جرائد کے مدیر رہے۔ دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین رہے، انجمن ترقی اردو دہلی سے کئی سالوں تک وابستہ رہے، دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ بالآخر ان تمام خدمات کو انجام دیتے ہوئے ۲۹اپریل ۲۰۰۹ء کو اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
تاشقندکے انڈین کلچر سینٹر کی کتھک رقاصہ منگلاؔ کے رخصت ہونے پر پروفیسر قمر رئیس نے ’’ایک آرزو‘‘ کے عنوان سے نظم کہی تھی، ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔
جس درپن کے سامنے، اکثر دلہن بن کر تم سجتی ہو
جس آسن پر بیٹھ کے، پیروں، گھنگرو بن کر تم بجتی ہو
جس آنگن میں، اپنے چنچل پیروں کی مہندی رچتی ہو
اس درپن پر
اس آسن پر
اس آنگن میں
اپنے ہونٹوں کی لالی سے
تن کی جھومتی ہریالی سے
ہاتھوں کی نازک ڈالی سے
نام اپنا ایسے لکھ جاؤ
موسم بدلیںبرف پڑے، یا بادل برسیں
صدیاں گزریں، یا جگ بیتیں
کوئی اس کو مٹا نہ پائے
انجانے میںچپکے چپکے
جیسے تم نے
کالے کیسوں کی کالک سے
جلتے ہونٹووں کی رنگت سے
پینی پلکوں کے خنجر سے
اک بوڑھے چھتنار پیڑ کے
ہرے بھرے تن پر لکھا ہے
البیلے من پر لکا ہے
اپنا نام