پروفیسرمرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ)
اردو کے جلیل القدر ادیب و انشا پرداز، محقق اور ماہرِ لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں
(پروفیسر مسعود حسین خاں کی نوے ویں سال گرہ پر خصوصی تحریر )
جب تک کہ یہ سطور شائع ہوں گی، اُردو کے جید عالم، جلیل القدر ادیب و انشا پرداز، ممتاز محقق، اور نامور ماہرِ لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں بحمداللہ نوے (۹۰) سال کے ہوچکے ہوں گے۔ انھوں نے اس دوران میں طویل علمی سفر طے کیا اور اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں، نیز تحقیق و تدوین، تنقید و اسلوبیاتی تنقید، د کنیات و تاریخِ زبانِ اردو، اور لغت نویسی کے میدان میں قابلِ قدر کارنامے انجام دیے، علاوہ ازیں اردو کے لسانیاتی ادب میں بھی گراں قدر اضافے کیے۔ انھوں نے ادبی صحافت میں بھی سرگرمی سے حصہ لیا اور اردو تحریک کے بھی پر جوش حامی اور علم بردار رہے۔ اردو کے عصری مسائل سے انھیں گہری دلچسپی رہی اور اردو کے حقوق کے تحفظ کے لیے وہ ہمیشہ سینہ سپررہے۔ مسعود صاحب اگرچہ بنیادی طور پر ایک استاد ہیں، لیکن انھوں نے خود کو محض درس و تدریس تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ اردو زبان و ادب کی ہمہ جہت ترقی کے لیے بھی وہ تمام عمر کوشاں رہے۔ ادب کی گراں مایہ خدمات کے ساتھ ساتھ انھوں نے لسانیات کی جانب بھی اپنی توجہ مرکوز کی اور اردو زبان کے حوالے سے دلچسپ لسانیاتی و صوتیاتی مطالعات پیش کیے۔ وہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے بنیاد گذار بھی ہیں۔ مسعود صاحب نے کم از کم تین نسلوں کی ذہنی تربیت کی ہے۔ ان سے کسبِ فیض کرنے والے نہ صرف برِ صغیر ، بلکہ مشرقِ وسطیٰ ، یورپ اور امریکہ میں بھی اپنی بساط قائم کیے ہوئے ہیں۔
پروفیسر مسعود حسین خاں ۲۸؍جنوری ۱۹۱۹ء کواترپردیش کے ضلع فرخ آباد میں واقع پٹھانوں کی ایک قدیم بستی قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ صرف دو سال دو مہینے کے ہی تھے کہ والدِ ماجد کا سایہ سرسے اٹھ گیا۔ اس کے بعد سے ان کی پرورش وپرداخت ننہال میں ہوئی۔ تعلیم کی غرض سے انھیں دہلی جاناپڑا، چنانچہ ان کی ابتدائی تعلیم (دوسرے سے آٹھویں درجے تک) جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں ہوئی، لیکن ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات انھوں نے ڈھاکہ (اب بنگلہ دیش کا صدر مقام) میں رہ کر پاس کیے جہاں ان کے سب سے چھوٹے چچامحمود حسین خاں بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ پھر وہ دہلی آگئے اور اینگلو عربک کالج (موجودہ ذاکر حسین کالج، دہلی یونیورسٹی) سے انھوں نے بی- اے کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کارُخ کیا جہاں سے ۱۹۴۱ء میں ایم-اے (اردو)، اور ۱۹۴۵ء میں پی ایچ- ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ ان کا پی ایچ- ڈی کا مقالہ کتابی صورت میں ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ کے نام سے کئی بار چھپ کر مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ مسعود صاحب مزید تحصیلِ علم کے لیے ۱۹۵۰ء میں انگلستان گئے اور لندن کے اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز کے شعبۂ لسانیات میں داخلہ لیا۔ وہاں سے پھر وہ فرانس چلے گئے، اور ۱۹۵۳ء میں پیرس یونیورسٹی سے ڈی- لٹ (دکتور دُیونیورستے) کی سند حاصل کی۔ ان کا ڈی – لٹ کا مقالہ A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urduکے نام سے کئی بار شائع ہوچکا ہے۔ راقم الحروف نے اس کا اردو میں ترجمہ’ اردو لفظ کا صوتیاتی و تجزصوتیاتی مطالعہ‘ کے نام سے کیا جو شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے ۱۹۸۶ء میں شائع ہوچکا ہے۔ مسعود صاحب کے اساتذہ میں پروفیسر رشید احمد صدیقی (علی گڑھ)، پروفیسر جے- آر- فرتھ (لندن) اور پروفیسر پیر فوشے (پیرس) کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ مسعود صاحب امریکہ بھی گئے۔ وہاں اپنے قیام کے دوران (۶۰-۱۹۵۹ء)، انھوں نے مشہور ماہرِ لسانیات آر کی بالڈ اے- ہل (ٹیکسس یونیورسٹی، آسٹن) کے لکچرز میں شرکت کی اور ان کے اسلوبیاتی نظریات و افکار سے خاطر خواہ استفادہ کیا۔
پروفیسر مسعود حسین خاں کا تعلق قائم گنج (یو-پی) کے ایک نہایت معزز پٹھان گھرانے سے ہے۔ ان کا سلسلۂ نسب آفریدی پٹھانوں سے ملتا ہے جو اٹھارویں صدی کے نصفِ اول میں صوبہ سرحد کے آزاد قبائلی علاقے تیراہ (بنوں کو ہاٹ کے شمال میں واقع آفریدی پٹھانوں کا علاقہ) سے ترکِ وطن کرکے قائم گنج میں آباد ہوگئے تھے۔ مسعود صاحب کے پردادا غلام حسین خاں نے خاندانی روایت کے مطابق پیشۂ سپہ گری اختیار کیا اور حیدر آباد جاکر فوج میں ملازم ہوگئے۔ ان کے دادا فدا حسین خاں بھی طالع آزمائی کے لیے حیدر آباد پہنچے، لیکن فوجی ملازمت کے بجائے انھوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ یہ پیشہ انھیں بہت راس آیا اور کچھ ہی برسوں میں ان کا شمار حیدر آباد کے چوٹی کے وکیلوں میں ہونے لگا۔ انھوں نے وہاں رہ کر خوب دولت کمائی اور شہر کے بیگم بازار میں ایک نہایت شاندار دو منزلہ کوٹھی تعمیر کرائی۔ ان کی کمائی ہوئی دولت سے قائم گنج میں بھی ایک عظیم الشان حویلی کی تعمیر عمل میں آئی جو ’محل‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ مسعود حسین خاں ۲۸؍جنوری ۱۹۱۹ء کو اسی ’محل‘ کے ایک گوشے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مظفر حسین خاں ایم – اے – او کالج، علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ انھوں نے یہاں سے ایل ایل- بی کا امتحان بھی پاس کیا تھا اور ضلع وارنگل (ریاستِ حیدر آباد) کی عدالت میں مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھے، لیکن عمر نے وفانہ کی اور دِق کے موذی مرض میں مبتلا ہوکر محض ۲۸سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ مسعود صاحب کے بڑے چچا ذاکر حسین خاں (ڈاکٹر ذاکر حسین ) نے جرمنی جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کی، پھر ملک کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینے لگے اور اتنی ترقی کی کہ ایک دن صدرِ جمہوریۂ ہند کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ وہ ایک ممتاز ماہرِ تعلیم بھی تھے اور گاندھی جی کے نظریۂ تعلیم سے بیحد متاثر تھے۔ انھوں نے گاندھی جی کی ’بنیادی تعلیم‘ کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تعلیمی خطبات کے علاوہ بشمولِ ’ریاست ‘ (افلاطون کی Republicکا اردو ترجمہ) کئی کتابیں ان کی یاد گارہیں۔ مسعود صاحب کے دوسرے چچا یوسف حسین خاں نے فرانس میں اعلیٰ تعلیم پائی۔ وہ ایک ممتاز مورخ تھے اور عثمانیہ یونیورسٹی (حیدر آباد) میں کافی عرصے تک تاریخ کے پروفیسر رہے تھے۔ وہاں سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوگئے تھے۔ انھیں اُردو ادب سے والہانہ لگاؤ تھا۔ وہ فرانسیسی زبان سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے، چنانچہ انھوں نے مولوی عبدالحق کی تحریک پر گارساں دتاسی کے خطبات کا فرانسیسی سے اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ ’یادوں کی دنیا‘ یوسف حسین خاں کی دلچسپ خود نوشت ہے۔ اس کے علاوہ ’فرانسیسی ادب ‘ ، ’اردو غزل‘ اور ’کاروانِ فکر‘ ان کی چند دیگر قابلِ ذکر تصانیف ہیں۔ مسعود صاحب کے سب سے چھوٹے چچا محمود حسین خاں بھی معروف شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے ہائیڈل برگ (جرمنی) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ جرمنی سے واپسی پر وہ ایک عرصے تک ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ وہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ تعلیمی مسائل اور تعلیم کے فروغ سے انھیں خصوصی دلچسپی تھی، چنانچہ انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کی طرز پر کراچی کے ملیر کے علاقے میں ایک درسگاہ قائم کی جو آج بھی قائم ہے۔
پروفیسر مسعود حسین خاں کا ننہال بھی پٹھانوں کا ایک بھرا پرُا، معزز اور خوش حال خاندان تھا۔ ان کے نانا جان عالم خاں کا شمار پتورہ (قائم گنج کی ایک بستی) کی ثروت مند شخصیات میں ہوتا تھا۔ مسعود صاحب کے چار ماموں تھے جن میں سب سے بڑے ماموں سلطان عالم خاں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ یہاں تک کہ جب کانگریسی رہنما سمپورنانند یو-پی کے وزیرِ اعلیٰ بنے تو ان کی وزارت میں سلطان عالم خاں نائب وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ دوسرے ماموں قدوس عالم خاں (جو مسعود حسین خاں کے خسر بنے) خاندانی جائداد اور باغات وغیرہ کی دیکھ بھال پر مامور کیے گئے۔ مسعود صاحب کے تیسرے ماموں غلام ربانی تاباںؔ مشہور ترقی پسند شاعر تھے۔ انھوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیاتھا، لیکن اس میں زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔ چوتھے ماموں خورشید عالم خاں بحمد اللہ حیات ہیں اور مسعود صاحب کے ہی ہم عمر ہیں۔ ان کی اہلیہ سعیدہ ،مسعود صاحب کے چچا ڈاکٹر ذاکر حسین کی بیٹی ہیں۔ اپنے بڑے بھائی سلطان عالم خاں کی طرح، خورشید عالم خاں نے بھی عملی سیاست میں حصہ لیا اور خوب ترقی کی۔ اپنے طویل سیاسی کیریر میں وہ پارلیمنٹ کے رکن کے علاوہ مرکزی کابینہ میں بھی کئی اہم عہدوں پر فائز ہوئے اور بعض ریاستوں کے گورنر بھی بنے۔
مسعود صاحب پانچ بھائی بہن تھے — تین بھائی اور دو بہنیں۔ بڑے بھائی امتیاز حسین خاں تھے۔ ان سے چھوٹی خدیجہ بیگم تھیں، پھر ایک اور بہن رفیعہ بیگم تھیں، پھر مسعود حسین خاں تھے، اور سب سے آخر میں ایک اور بھائی شاہد حسین خاں تھے۔ رفیعہ بیگم اور شاہد حسین خاں کا انتقال تو عہدِ طفلی ہی میں ہوگیا تھا، البتہ امتیاز حسین خاں ادھیڑ عمر کو پہنچ کر فوت ہوئے۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدر آباد) کے کامرس کے شعبے کے صدر تھے۔ بعد ازاں سکندر آباد کالج کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوگئے تھے۔ خدیجہ بیگم نے عمرِ طبعی پائی اور چند سال قبل اللہ کو پیاری ہوئیں۔ مسعود حسین خاں بحمداللہ حیات ہیں اور انشاء اللہ العزیز ۲۸؍جنوری ۲۰۰۹ء کو اپنی عمرِ عزیز کے نوے (۹۰) سال پورے کرلیں گے۔ مسعود صاحب نے نہایت خوشگوار متاہل زندگی گذاری۔ ان کی شریکِحیات نجمہ بیگم (قدوس عالم خاں کی بڑی بیٹی)، جو مسعود صاحب کی ماموں زاد بہن بھی ہیں، زندگی کے سفر میں آج بھی ان کی شریکِرنج وراحت ہیں، گویا ساٹھ سال پہلے’’ کہ چراغ راہ کے جل گئے‘‘ تھے، آج بھی روشن ہیں (۲؍فروری ۲۰۰۸ء کو پروفیسر مسعود حسین خاں کی شادی کی ساٹھویں سال گرہ تھی!)۔
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد، جیسا کہ دستور ہے، مسعود حسین خاں کو بھی روز گار کی تلاش ہوئی، چنانچہ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں پروگرام اسسٹنٹ (انچارج اردو اور ہندی ٹاکس) کی ملازمت اختیار کرلی۔ وہاں ان کی ملاقات اردو ادب کی تین نامور شخصیات پطرس بخاری، ن – م- راشد اور میراجی سے ہوئی۔ لیکن یہ سرکاری نوکری انھیں ہرگز راس نہ آئی اور محض چھے ماہ کے اندر وہ وہاں سے مستعفی ہوکر گھر واپس آگئے۔ یہ ۱۹۴۳ء کا ذکر ہے۔ اسی سال پروفیسر رشید احمد صدیقی کے لطفِ خاص سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر کی پوسٹ پر ان کا عارضی تقرر ہوگیا۔ گیارہ سال تک لکچرر رہنے کے بعد ۱۹۵۴ء میں وہ اسی شعبے میں ریڈر ہوگئے۔ لیکن ۱۹۶۲ء میں انھیں علی گڑھ چھوڑ کر حیدر آباد جانا پڑا، جہاں عثمانیہ یونیورسٹی میں ان کا تقرر بہ حیثیت پروفیسر وصدرِ شعبہ اُردو ہوگیا۔ یہاں انھوں نے چھے سال گذارے۔ ۱۹۶۸ء میں پھر ان کی علی گڑھ مراجعت ہوئی۔ اس بارانھیں لسانیات کے نئے شعبے کے پروفیسر و صدر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہاں سے وہ ۱۹۷۷ء میں حسنِ خدمت پر سبک دوش ہوگئے۔ مسعود حسین خاں ۱۹۷۳تا ۱۹۷۸ء جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے وائس چانسلر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ علاوہ ازیں وہ ۸۲-۱۹۸۱ء کے دوران اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیریونیورسٹی (سری نگر) میں وزٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ مسعود حسین خاں کی غیر معمولی علمی و لسانی خدمات کے پیشِ نظر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ۱۹۷۷ء میں شعبۂ لسانیات کے پروفیسر ایمی ریٹس (تاحیات) کے اعزاز سے نوازا۔
علاوہ ازیں پروفیسر مسعود حسین خاں کو اپنے علمی کیریر میں اور بھی کئی اعزازات حاصل ہوئے، مثلاً وہ ایسوسی ایشن آف ایشین اسٹڈیز، مشی گن (امریکہ) کے سینیر فیلوشب سے سرفراز ہوئے، ڈپارٹمنٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے (امریکہ) میں وزٹنگ ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر ہوئے، انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے قائم مقام سکریٹری رہے، ایک طویل عرصے تک جامعۂ اردو ، علی گڑھ کے شیخ الجامعہ کے عہدے پر فائز رہے، ترقی اردو بیورو (وزارتِ تعلیم، حکومتِہند) کے وائس چیرمین مقرر ہوئے، اردو-اردو لغت (ترقیِ اردو بیورو) کے چیف ایڈیٹر کے فرائض انجام دیے اور اصطلاحات کمیٹی برائے لسانیات (ترقی اردو بیورو) کے صدر کی حیثیت سے کام کیا۔مسعود صاحب ان دنوں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے صدرکے عہدے پر فائز ہیں۔ انھوں نے ادارتی ذمہ داریاں بھی بہ خوبی سنبھالیں، مثلاً عثمانیہ یونیورسٹی، حیدر آباد کے تحقیقی مجلے ’قدیم اردو‘ کے ایک عرصے تک مدیر رہے، نیر انجمن ترقی اردو (ہند) کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے مجلے سہ ماہی ’اردو ادب ‘ اور ہفتہ وار اخبار’ ہماری زبان‘کے مدیر کے فرائض بھی انجام دیے۔ علاوہ ازیں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علمی مجلے ’فکرو نظر‘ کے بھی مدیر رہے۔ مسعود صاحب کو ان کی مجموعی علمی و ادبی خدمات پر ۱۹۸۲ء میں اترپردیش اردو اکادمی کا خصوصی انعام پیش کیا گیا۔ وہ ۱۹۸۴ء میں اپنی گراں قدر تصنیف’اقبال کی نظری و عملی شعریات ‘ پر ساہتیہ اکادمی (نئی دہلی) کے اردو ایوارڈ سے بھی سرفراز ہوئے۔ علاوہ ازیں ۱۹۸۶ء میں انھیں کراچی (پاکستان) کا نیاز فتح پوری ایوارڈ بھی ملا۔ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی کے غالب انعام سے بھی نوازے گئے۔
پروفیسر مسعود حسین خاں کی علمی، ادبی، تنقیدی، لسانی، تحقیقی اور تدوینی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ ایک خوش فکرشاعر بھی ہیں اور اپنے مجموعۂ کلام ’دونیم‘کی وجہ سے ادبی حلقوں میں ایک زمانے میں خاصے مشہور بھی ہوئے، لیکن بنیادی طور پر وہ لسانیات اور لسانیاتی تحقیق کے مردِ میدان ہیں۔ ہندآریائی لسانیات پر انھیں کامل عبور حاصل ہے۔ علاوہ ازیں تاریخی لسانیات، صوتیات، اسلوبیات، دکنیات اور اقبالیات، نیز لغت نویسی اور زبان کے مسائل سے انھیں خصوصی دلچسپی رہی ہے، اور انھی علمی میدانوں میں انھوں نے قابلِ قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ مسعود حسین خاں کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے ماہرینِ لسانیات میں ہوتا ہے جن میں سنیتی کمار چٹرجی، سیدمحی الدین قادری زورؔ، سکمارسین،ایس- ایم- کترے، دھیریندر ورما، بی ایچ- کرشنا مورتی، وی -آئی- سبرامنیم، پی-بی- پنڈت اور اشوک آر-کیلکر کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ مسعود صاحب اُن ممتاز اسکالرز میں ہیں جنھوں نے یورپ اور امریکہ میں رہ کرلسانیات کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور بیسویں صدی کے نصفِ دوم میں ہندوستان میں لسانیاتِ جدید کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب ہندوستانی اسکالرز کو لسانیات بالخصوص توضیحی لسانیات (Descriptive Linguistics) کی تربیت دینے کے لیے راک فیلرفاؤ نڈیشن (امریکہ) کی مالی امداد سے پونا کے دکن کالج میں ۱۹۵۵ء میں مختصر مدتی سرما اور طویل مدتی گرمااسکولوں کا انعقاد ہوا تو مسعود صاحب ان کے اساتذہ میں شامل کیے گئے جن میں کئی امریکی ماہرینِ لسانیات بھی تھے، مثلاً فیربینکس، ایچ – اے – گلیسن (جونیر)، جان جے- گمپرز، وغیرہ۔ لسانیات کا یہ تربیتی پروگرام پانچ سال تک جاری رہا۔ اس دوران میں کل ہند سطح پر یونیورسٹی کے جونیر اساتذہ اور نوجوان تحقیق کاروں کی کھیپ کی کھیپ تیار ہوگئی۔ انھی تربیت یافتہ ماہرینِ لسانیات کی کاوشوں سے ہندوستانی دانش گاہوں میں لسانیاتِ جدید کافروغ عمل میں آیا۔
لسانیات کے میدان میں پروفیسر مسعود حسین خاں کا سب سے بڑا اور قابلِ قدر کارنامہ ’مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو‘ کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۹۴۸ء میں شائع ہوئی تھی، لیکن اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اُس وقت سے لے کر اب تک اس کے صرف ہندوستان میں ایک درجن سے زائد ایڈیشنز نکل چکے ہیں۔ اس کتاب میں اردو زبان کے آغاز اور اس کے ارتقا کی مکمل و مربوط تاریخ بیان کی گئی ہے اور ایک ایسے نظریے کی تشکیل کی گئی ہے جو اردو کے آغاز کا سب سے قابلِ قبول نظریہ (Most acceptable theory) ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں نہ صرف ٹھوس لسانی دلائل اور مستند تاریخی حوالے پیش کیے گئے ہیں، نیز مواد کی صحت کا پوری طرح خیال رکھا گیا ہے بلکہ قدیم مآخذ کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ مزید برآں ہندآریائی لسانیاتی تحقیق سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے اور تاریخی لسانیات کے اصولوں کو مکمل طور پر برتاگیا ہے، تب کہیں جاکر ایک نئے اور مستند لسانی نظریے کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔ مسعود صاحب کے اس نظریے کی رو سے اردو دہلی و نواحِ دہلی میں پیدا ہوئی۔ اس پر مختلف اوقات میں دہلی کے آس پاس کی چار بولیوں کے اثرات مرتسم ہوئے جن میں کھڑی بولی اور ہریانوی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اردو نے ابتدا میں اگرچہ کھڑی بولی کا ڈھانچا اختیار کیا، لیکن اس میں ہریانوی کے اثرات بھی نفوذ کرگئے۔ یہی زبان علائی حملے (۱۲۹۴ء) اور اس کے بعد محمدبن تعلق کے عہد میں انتقالِ آبادی (۱۳۲۷ء) کے ساتھ دکن پہنچی جہاں اس نے ادبی اعتبار سے خوب ترقی کی۔ جیسے جیسے ہریانوی اور دیگر مقامی لسانی اثرات زائل ہوتے گئے، اردو ایک ترقی یافتہ اور معیاری زبان کے سانچے میں ڈھلتی چلی گئی۔ مسعود صاحب سے پہلے اردو کے کسی عالم یا محقق نے اردو کے آغاز کا اتنا جامع، مفصل و مدلل اور لسانیاتی اعتبار سے مستنداور ٹھوس نظریہ پیش نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نصف صدی گذرجانے کے بعد بھی مسعود صاحب کے اس نظریے کو چیلنج نہیں کیا جاسکا ہے اور آج بھی یہ اردو کاسب سے قابلِ قبول نظریہ ہے۔ مسعود صاحب نے اپنے اس لسانی نظریے کی تشکیل، قبلاً پیش کیے گئے نظریات پر لسانیات کی روشنی میں خطِ تنسیخ کھینچنے کے بعد کی ہے۔ محمد حسین آزادؔ، حافظ محمود خاں شیرانی ، سید شمس اللہ قادری، سید محی الدین قادری زورؔ، سید سلیمان ندوی اور گراہم بیلی وہ اہلِ علم ہیں جو مسعود صاحب سے پہلے اردو کے آغاز کے بارے میں اپنے اپنے نظریات پیش کرچکے تھے، لیکن ان میں سے کسی بھی عالم کا نظریۂ آغازِ زبانِ اردو مسعود صاحب کے نزدیک لائق ِ اعتنانہ تھا، کیوں کہ یہ تمام تر نظریات دہلی و نواحِ دہلی کی بولیوں اور ان کے باہمی رشتوں سے صرفِ نظرکرتے ہوئے تشکیل دیے گئے تھے، نیز ہندآریائی کے ارتقا پر ان عالموں کی نظر گہری نہ تھی اور نہ وہ شور سینی اپ بھرنش کی اہمیت کو سمجھتے تھے جس سے ۱۰۰۰سنہِ عیسوی کے بعد دہلی ونواحِ دہلی کی بولیاں معرضِ وجود میں آئیں۔ چنانچہ ان تمام نظریوں کو مسعود صاحب نے باطل قرار دے کر اردو کے آغاز کے ایک نئے نظریے کی تشکیل کی جس کی روسے’’ زبانِ دہلی و پیرامنش اردو کا اصل منبع اور سرچشمہ ہے اور حضرتِ دہلی اس کا حقیقی مولدو منشا۔‘‘ (’مقدمۂ تاریخ زبانِ اردو‘ ]۱۹۸۷ء ایڈیشن[، ص ۲۶۲)۔
لسانیات سے متعلق پروفیسر مسعود حسین خاں کا دوسرا علمی میدان صوتیات ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے اردو کے حوالے سے قابلِ قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔انھوں نے پہلی بار ’عروضی‘ (Prosodic) نقطۂ نظرسے اردو لفظ کا صوتیاتی مطالعہ و تجز یہ پیش کیا ہے۔ عروضی صوتیات (Prosodic Phonology) کا تصورسب سے پہلے برطانوی ماہرِ لسانیات پروفیسر جے- آر- فرتھ نے پیش کیا تھا جن کا تعلق لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈایفریکن اسٹڈیز کے شعبۂ لسانیات سے تھا۔ مسعود صاحب کو قیامِ لندن کے دوران پروفیسر فرتھ سے استفادے کا کافی موقع ملا، چنانچہ انھوں نے اپنے ڈی -لٹ کے مقالے A Phonetic and Phonological Study of the Word in Urduکی بنیاد فرتھ کے اسی صوتیاتی نظریے پر رکھی اور اردو کے حوالے سے عروضی صوتیات پر قابلِ قدر تحقیقی کام کیا۔ ان کا یہ مقالہ پہلی بار ۱۹۵۴ء میں شائع ہوا۔ اس کے تیس سال بعد اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا (مترجم: مرزا خلیل احمد بیگ) جو اردو کے لسانیاتی ادب میں گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہاں ’عروض‘ (Prosody) سے مراد شاعری کا علمِ عروض نہیں ہے، بلکہ یہ ایک صوتیاتی اصطلاح ہے جس سے ماہرینِ لسانیات وہ ’’صوتیاتی قوس‘‘ مراد لیتے ہیں جو صوت رکن (Syllable)، لفظ یا جملے پر پھیلی ہوتی ہے۔ عروضی صوتیات دو طرح کے عناصر کے مجموعے کا نام ہے۔ اول صوتی اکائیاں، یعنی مصوتے (Vowels) اور مصمتے (Consonants)؛ دوم عروضیات (Prosodies)، یعنی وہ خصوصیات (مثلاً سرلہر، تان، طول، زور، نیز معکوسیت، مسموعیت، انفیت، وغیرہ) جو صوتی اکائیوں (مصوتوں اور مصمتوں) پر بہ صورتِ ’قوس‘پھیلی ہوتی ہیں۔ صوتی اکائیوں سے ہی صوت رکن (Syllable) اور لفظ بنتے ہیں اور لفظوں سے جملے۔ یہی وجہ ہے کہ عروضیات یا عروضی خصوصیات (Prosodic features) صوت رکن، لفظ اور جملے تینوں پر محیط ہوتی ہیں۔ مسعود صاحب نے اپنے متذکرہ مقالے میں عروضی صوتیات کا نہایت جامعیت اور قطعیت کے ساتھ مطالعہ پیش کیا ہے جو اردو کے حوالے سے توضیحی لسانیات کا فقیدا لمثال کارنامہ ہے۔ صوتیات سے متعلق مسعود صاحب کا دوسرا اہم تحقیقی کارنامہ ان کا مقالہ ’’اردو صوتیات کا خاکہ‘‘ ہے جو اردو کی ممیز آوازوں (Phonemes) کا اولین توضیحی مطالعہ ہے۔ اس مطالعے میں مسعود صاحب نے نہ صرف معیاری اردو کے مصوتوں اور مصمتوں کا تعین کردیا ہے اور ان کی تعداد مقرر کردی ہے، بلکہ انفی آوازوں کی خصوصیات، کوزی اور ہائیہ آوازوں کی تقسیم (Distribution)، نیز مصوتوں اور مصمتوں کی کمیت (Quantity) کا بھی توضیحی نقطہ ٔ نظر سے محاکمہ کیاہے۔
پروفیسر مسعود حسین خاں کو ادبی تنقید سے بھی خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ ابتدا میں انھوں نے مصحفی، اقبال، اصغر گونڈوی، جوش ملیح آبادی، اور بعض دیگر ادبی موضوعات پر تنقیدی مضامین لکھے جو تاثراتی تنقید کے ذیل میں آتے ہیں، لیکن تنقید کے اس انداز سے وہ مطمئن نہ تھے۔ بہ حیثیت ِ مجموعی وہ ادبی یا تاثراتی تنقید کو ’’فقرے بازی ‘‘ اور ’’قولِ محال‘‘ سمجھتے تھے اور اس سے ’’بیزار‘‘ ہوچکے تھے۔ جن تنقیدی فقروں (مثلاً ’’ہندوستان کو الہامی کتابیں دوہیں – — مقدس وید اور دیوانِ غالب‘‘ یا ’’غزل ار دو شاعری کی آبرو ہے‘‘، وغیرہ) پر لوگ سر دھنتے تھے، مسعود صاحب کی سمجھ میں ان کا مفہوم نہ آتاتھا۔ وہ انھیں محض ’’انشا پردازی ‘‘ تصورکرتے تھے، تنقید نہیں۔ چنانچہ انھیں تنقید کے کسی نئے نظریے کی تلاش تھی جس میں داخلی و تاثراتی انداز کے بجائے معروضیت اور قطعیت پائی جاتی ہو۔ امریکہ میں اپنے قیام کے دوران انھیں جب پروفیسر آر کی بالڈ اے – ہل ، جن کا شمار تفہیم ِادب پر لسانیات کا اطلاق کرنے والوں میں ہوتا تھا، کی درسیاست سے خاطر خواہ استفادے کا موقع ملا، تب انھیں یہ محسوس ہوا کہ انھوں نے وہی پایا جس کی انھیں تلاش تھی، ’’یعنی لسانیات اور ادب کو کس طرح ہم دگر کیا جاسکتا ہے۔‘‘ مسعود صاحب کو لسانیات کاادب پر اطلاق کرنے کی تحریک گویایہیں سے ملی۔ ادب کی تنقید کے اس نئے نظریے کو ’اسلوبیات‘ (Stylistics) کا نام دیا گیا تھا جو اطلاقی لسانیات کا ایک اہم شعبہ ہے۔ اہلِ ادب نے اسے ’اسلوبیاتی تنقید‘ کے نام سے موسوم کیا۔ ۱۹۶۰ء میں امریکہ سے واپسی پر مسعود صاحب نے اسلوبیاتی مضامین لکھنے کا کام شروع کیا۔ اس سلسلے کا ان کا سب سے پہلا مضمون ’’مطالعۂ شعر (صوتیاتی نقطۂ نظرسے)‘‘ ہے۔ مسعود صاحب نے اسلوبیات کی نہ صرف نظری بنیادیں فراہم کیں، بلکہ اس کے اطلاقی نمونے بھی پیش کیے۔ اس ضمن میں انھوں نے غالب، اقبال اور فانی بدایونی کے کلام کے حوالوں سے جو اسلوبیاتی مضامین تحریر کیے ہیں وہ ہیئتی ولسانیاتی تنقید کے بہترین نمونے کہے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے خواجہ حسن نظامی اور نیاز فتح پوری کے نثری اسلوب کا بھی لسانیاتی تجزیہ پیش کیاہے جو اردو کے انتقادی ادب میں گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسعود صاحب ہی سے تحریک پاکر گوپی چند نارنگ، مغنی تبسم اور راقم الحروف نے اردو میں اسلوبیاتی مضامین لکھے اور کتابیں تصنیف کیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کے بنیاد گذار کی حیثیت سے مسعود حسین خاں کا نام ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔
پروفیسر مسعود حسین خاں ادبی تحقیق و تدوین کے بھی مردِ میدان ہیں۔ ان کی ادبی تحقیق قدیم مصنفین مثلاً محمد افضل افضلؔ، فیروز بیدری، روشن علی، عبدل دہلوی اور عیسوی خاں بہادروغیرہ کے حالاتِ زندگی ، وطن اور ان کے ادبی کار ناموں کی چھان بین سے متعلق ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے پریم چند کے ناول ’گؤدان‘ سے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ بھی ادبی تحقیق کا ایک اہم حصہ ہے۔ مسعود صاحب نے یہ سوال اٹھایاہے کہ ’گؤدان‘ تصنیف ہے یا ترجمہ؟ وہ برسوں کی چھان بین اور تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو ناول ’گؤدان‘ پریم چند کا لکھا ہوا نہیں ہے، بلکہ یہ ان کے ہندی ناول ’گودان‘ کا اردو ترجمہ ہے جسے اقبال بہادرورما سحرؔ ہتگامی نے پریم چند کی وفات کے بعد کیا، لہٰذا ’گؤدان‘ کو اردو کے طبع زاد ناولوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاسکتا، نیز اس کا اردو ناول نگاری کی تاریخ میں کوئی مقام نہیں۔ مسعود صاحب کی اس ادبی تحقیق نے اردو دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اردو کے ادیب یہ بات تسلیم کرنے کو ہر گز تیار نہ تھے کہ ’گؤدان‘ اردو ناول نہیں۔ بعض اہلِ علم نے تو مسعود صاحب کی نیت پر ہی شک کرنا شروع کردیا۔ گیان چند جین نے تو یہ تک کہہ دیا کہ یہ مسعود صاحب کا ’’پریم چند کے خلاف ․․․ادبی جہاد ‘‘ ہے (ملاحظہ ہو ’نذرِ مسعود‘، مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ ، ص ۱۲۰)۔ پریم چند کے ایک محقق مانک ٹالا نے بھی مسعود صاحب پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ ’’پریم چند کو بہ طورِ اردو ادیب Disownکرنے کے درپے ہیں‘‘ (بہ حوالۂ سابق، ص ۱۵۶)۔ لیکن اس سلسلے میں مسعود صاحب کی داخلی و خارجی شہادتیں اور دلیلیں اتنی درست، معقول اور ٹھوس تھیں کہ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہ تھا کہ ہندی ’گودان‘ کے اردو میں ترجمے کا کام سحرؔ ہتگامی نے پریم چند کے انتقال کے بعد شروع کیا۔ مسعود صاحب کی اس ادبی تحقیق کا سلسلہ ۱۹۷۰سے ۱۹۸۴ء تک جاری رہا جب ’مقالاتِ یومِ پریم چند‘ (لکھنؤ: اترپردیش اردو اکادمی، ۱۹۸۴ء) میں شائع شدہ اپنے مقالے ’’گودان تاگؤدان‘‘ میں مسعود صاحب نے اس تحقیق کا خلاصہ پیش کیا۔
مسعود صاحب کی تدوینی خدمات بھی لائقِ تحسین ہیں۔ انھیں تدوینِ متن سے دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب وہ ۱۹۶۲ء میں عثمانیہ یونیورسٹی (حیدر آباد) کے شعبۂ اردو میں پروفیسر اور صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ۱۹۶۵ء میں انھوں نے ’قدیم اردو‘ کے نام سے ایک تحقیقی مجلہ جاری کیا جس میں قدیم متوں کو تدوینِمتن کے اصولوں کے مطابق مرتب کرکے شائع کیا جاتا تھا۔ ’قدیم اردو‘ کی اشاعت کا سلسلہ ۱۹۷۲ء تک جاری رہا جس میں مسعود صاحب کے مرتب کردہ چار قدیم متون شائع ہوئے: ’پرت نامہ‘ (فیروز بیدری)، ’بکٹ کہانی‘ (محمد افضل افضلؔ) ، ’ابراہیم نامہ‘ (عبدل دہلوی)، اور ’عاشور نامہ‘ (روشن علی)۔ یہ چاروں قدیم مثنویاں ہیں۔ ان کے علاوہ مسعود صاحب نے ایک داستان’ قصۂ مہر افروز ودلبر‘ (عیسوی خاں بہادر) بھی مدون کرکے شائع کی ہے۔ ان تمام متون کی تدوین میں مسعود صاحب نے اصولِ تدوین کا پوری طرح خیال رکھا ہے اور انھیں اپنے تعارفی تحقیقی مقدموں کے ساتھ شائع کیا ہے۔ تدوینِ متن کے سلسلے میں مسعود صاحب کا طریقۂ کار یہ رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے مصنف کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں اور قدیم تذکروں اور دستاویزات سے جو بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں انھیں وہ تحقیقی نقطۂ نظر سے پرکھنے کے بعد یکجا کردیتے ہیں۔ پھر وہ دریافت شدہ نسخے کا تعارف پیش کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ کہاں سے اور کیسے دستیاب ہوا ، اور اگر دویا دو سے زیادہ نسخے دریافت ہوئے ہیں تو وہ اختلافِ نسخ بھی دیتے ہیں نیز متن کی ادبی قدروقیمت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور لسانیاتی خصوصیات کا جائزہ بھی پیش کرتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ وہ فرہنگیں بھی دیتے ہیں۔ تدوینِ متن کی راہ میں حائل سب سے بڑی دشواری قلمی نسخوں کی صحت کے ساتھ قرأت ہے۔ مسعود صاحب اس مشکل مرحلے سے بہ آسانی عہدہ برآہوجاتے ہیں اور مصنف کے متن تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔
پروفیسر مسعود حسین خاں کی دکنیات سے بھی خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ دکنی زبان و ادب کا ذکر ان کی تحقیقی تصنیف ’مقدمہ تاریخِ زبانِ اردو‘ میں کثرت سے ملتا ہے۔ انھوں نے تشکیلی نقطۂ نظرسے اردو زبان کے ارتقا کو چار ’’واضح ادوار‘‘ میں تقسیم کیا ہے جن میں سے دورِ اول و دوم کا تعلق قدیم اردو سے ہے۔ مسعود صاحب دورِ اول میں قدیم اردو کا ارتقا شمالی ہند میں ۱۲۰۰تا ۱۴۰۰ء دکھلاتے ہیں اور دورِ دوم میں قدیم اردو کا ارتقا دکن میں ۱۴۰۰تا ۱۷۰۰ء بتاتے ہیں۔ بہ قولِ مسعود حسین خاں، ’’قدیم اردو کے دوسرے یعنی دکنی دور تک آتے آتے اردو کی قواعدی شکلوں اور رسمِ خط دونوں میں استقامت آجاتی ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’تین سو سال کے اس ]دکنی[دور میں تصانیف کی اس قدر بہتات ہے کہ ہم ان کی بنیاد پر قطعی لسانی فیصلے کرسکتے ہیں۔ ‘‘ (’اردو زبان: تاریخ ،تشکیل، تقدیر‘، ص۱۲تا ۲۰)۔ مسعود صاحب ’دکنی‘ کو اردوئے قدیم یا قدیم اردو کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے دو مضامین قابلِ توجہ ہیں: ’’دکنی یا اردوئے قدیم؟ ‘‘ ، اور ’’قدیم وجدید اردو کی کشمکش سرزمینِ دکن میں ‘‘۔ مسعود صاحب نے دو دکنی متون ’پرت نامہ‘ اور ’ابراہیم نامہ‘ کو بھی ایڈٹ کرکے اپنے تحقیقی اور سیرحال مقدموں کے ساتھ شائع کیاہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ’دکنی اردو کی لغت‘ کی ترتیب کا کام بھی انجام دیا ہے۔ یہ ۲۶۷شعری و نثری تصانیف کی سندوں پر مشتمل لغت ہے جن میں سے بہت سے قلمی نسخے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی لغت ہے جسے ایک غیر دکنی اہلِ علم نے ترتیب دیا ہے۔ اس میں لغت نویسی کے اصولوں کی سختی کے ساتھ پابندی کی گئی ہے۔
پروفیسر مسعود حسین خاں نے ادبی صحافت میں بھی سرگرمی سے حصہ لیا ہے اور اردو تحریک کے بھی فعال قلم کاررہے ہیں۔ وہ ۷۰-۱۹۶۹ء کے دوران انجمن ترقیِ اردو (ہند) کے قائم مقام سکریٹری رہے اور اس حیثیت سے انھوں نے انجمن کے ہفت روزہ ترجمان ’ہماری زبان‘ اور سہ ماہی رسالے ’اردو ادب ‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔ علاوہ ازیں انھوں نے ۱۹۷۱تا ۱۹۷۳ء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علمی و تحقیقی مجلے ’فکرو نظر‘ کی ادارت کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ ’ہماری زبان‘ میں انھوں نے جو اداریے قلم بند کیے وہ راقم الحروف نے ’اردو کا المیہ‘ کے نام سے مرتب کرکے کتابی صورت میں شائع کردیے ہیں۔ یہ اداریے نہ صرف اردو کی لسانی صورتِ حال اور ارد کے مسائل و مطالبات کی ترجمانی کرتے ہیں، بلکہ اردو تحریک کو جلا بخشنے میں بھی ان کا اہم کردار رہاہے۔ ان اداریوں سے اردو کے بارے میں مسعود صاحب کے موقف کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ ’اردو ادب‘ اور ’فکر و نظر‘ کے مدیر کی حیثیت سے انھوں نے اردو کی ادبی صحافت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کی ان خدمات کو اہلِ اردو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ مسعود صاحب ایک کامیاب آپ بیتی نگار بھی ہیں۔ ان کی خود نوشت سوانح حیات ’ورودِ مسعود‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔ اس میں انھوں نے اپنی پیدائش (۱۹۱۹ء) سے لے کر خودنوشت کی تصنیف (۱۹۸۸ء) تک کے حالات وواقعات نہایت کھرے اور دوٹوک انداز میں قلم بند کردیے ہیں، اور سچائی اور صدق گوئی کادامن کہیں بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پایا ہے۔ ’ورودِ مسعود‘ کو اردو کی ’’بہترین‘‘ خودنوشت کہا گیاہے۔ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی پریس کے لیے تیار ہے۔
میں راقم الحروف، شفیقِ محترم پروفیسر مسعود حسین خاں کی نوے ویں (۹۰ویں) سال گرہ پراپنی اور تمام اہلِ اردو کی جانب سے ان کی خدمت میں پرُ خلوص ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور خدائے عزوجل سے ان کی صحت و تندرستی اور مزید درازیِ عمر کے لیے دعا کرتا ہوں۔ ان دنوں اُن کی عام صحت اگرچہ بہت گرچکی ہے، لیکن ان کا ذہن اب بھی چاق و چوبند اور حافظہ رواں دواں ہے۔ وہ اپنے گردو پیش کے حالات سے باخبر رہتے ہیں اور اپنی زندگی حتی المقدور معمول کے مطابق گذارتے ہیں، یہ ضرور ہے کہ ضعفِبینائی نے ان کے سارے حوصلے پست کردیے ہیں اور ان کے تمام علمی منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے، اور وہ یاس و حرماں نصیبی کے احساس سے شدید طور پر دو چار ہیں۔ ان کی حالیہ نظم ’’سخنِ واپسیں ‘‘ ان کے حزن و ملال اور داخلی کیفیات کی مکمل ترجمانی کرتی ہے۔ اس کے چند اشعاریہ ہیں:
دوا سے کچھ نہ ہوا، اور دعا سے کچھ نہ ملا بشرنے کچھ نہ دیا اور خدا سے کچھ نہ ملا
زوال میرا مقدر بنا کے چھوڑ دیا مجھے خیال و حدیثِ بقا سے کچھ نہ ملا
یہ تو نے دیدۂ بینا کی روشنی لے لی! کہوں میں کس سے، تری اس ادا سے کچھ نہ ملا
میں خالی ہاتھ چلا آرہا ہوں تیری طرف تجھے بتانے کہ تیری عطا سے کچھ نہ ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتابیات :
۱-اکبر رحمانی ، ’گفتگو‘ (جلگاؤں: ایجوکیشنل اکادمی، ۲۰۰۱ء)، ]پروفیسر مسعود حسین خاں سے اکبر رحمانی کی بات چیت[
۲-خلیق انجم، ’پروفیسر مسعود حسین خاں: ایک جامع حیثیات شخصیت‘ (نئی دہلی: انجمن ترقی اردو ]ہند[، ۱۹۹۶ء)۔
۳-ریحانہ سلطانہ، ’پروفیسر مسعود حسین خاں کی ادبی خدمات‘ (حیدر آباد: دکن پبلشرز، ۱۹۹۵ء)۔
۴-ماہنامہ ’کتاب نما‘ (نئی دہلی)، ’’گوشۂ مسعود حسین خاں‘‘ مرتبہ ایم-حبیب خاں (اکتوبر ۱۹۹۲ء)۔
۵-مرزا خلیل احمد بیگ ، ’نذرِ مسعود‘ ]مجموعۂ نگارشات جو پروفیسر مسعود حسین خاں کو ان کی سترویں سال گرہ پر پیش کیا گیا[، (علی گڑھ : تعلیمی مرکز، ۱۹۸۹ء)۔
۶-مسعود حسین خاں’ ورودِ مسعود‘ ]خود نوشت سوانح حیات[، (پٹنہ: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، ۱۹۸۸ء)۔