امجد علی فیض
شب کے ٹھیک گیارہ بجے کا عمل ہوگا میں آرام کرسی کی پشت پر سرٹکائے لایخل مسائل میں کھویا بے نام خوابوں کے جزیرے میں بھٹک رہا ہوں، ٹکڑوں میں بٹی ایک تصویرکو جوڑ رہا ہوں اجنبی کینوس سے جانی پہچانی شبیہہ اُبھرتی ہے اب میرے اطراف سناٹا گہرا اور پُر اسرار ہوتا جارہا ہے کہ سرگوشیاں بھی صاف سُنائی دئے جاتی ہیں:
’’ایک صاف کاغذ لو پھر ایسا پن لو جس میں سیاہی کے آخری قطرے جی رہے ہوں بناؤ ایک تصویر جس میں ہم سب کی تصویر نظر آئے تصویر ہماری تمہاری سبھی کی ایک ہی ہے ہم بہ ظاہر علاحدہ ہوتے ہوئے بھی اپنے وجود کے اندر ایک ہی تصویر رکھتے ہیں‘‘۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب افسانہ حقیقت اور حقیقت خواب معلوم ہوتی تھی۔ آل انڈیا ریڈیو گلبرگہ نے اپنے پروگرام شیرازہ گل میں حمید سہروردی صاحب کا ایک افسانہ نشر کیاتھا جس کی خوبی یہ تھی کہ اس افسانہ میں نہیں نہیں اور ہاں ہاں کے سوائے کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آئی میں نے اس مسئلہ کو ایک دوست سے رجوع کیا انہوں نے جو اباً کہا تم ایک افسانہ سن کر تلملا رہے ہو میں تو ان کے افسانوی مجموعے سونے سے قبل ایک مرتبہ ضرور پڑھتا ہوں جہاں تک عدم ترسیلیت کی بات ہے میں تمہارا ہم نواہوں اور شاید وہ امریکی دولت مند خاتون بھی اس معاملہ میں ہمارا ساتھ دے گی جس نے پابلو پکاسو کی تصویر پچاس ہزار امریکی ڈالر میں خریدی تصویر خریدنے کے بعد اس نے پکاسو سے پوچھا ’’تمہاری اس تصویر کا کیا مطلب ہے‘‘ پکاسونے بڑے تمسخرانہ اندازمیں جواب دیا’’مادام اس کا مطلب ہے پچاس ہزار ڈالر‘‘
اس کے بعد پکا سو بھی میرے مطالعہ میں رہا نہ پکا سو سمجھ میں آیا اور نہ حمید سہروردی البتہ میری اپنی حیثیت سمجھ میں آگئی۔
یہ اپنے افسانوں میں جتنے گنجلک اور پیچیدہ نظر آتے ہیں فطرتا آئینے سے لگتے ہیں غیروں کا توپتہ نہیں میں تو اپنے سارے عیب و ہنراسی میں دیکھتا ہوں۔ پہروں ساتھ گذاریئے، گھنٹوں سماعت فرمایئے ان کی باتیں الف لیلوی ہزار داستان ہر بات ایک دوسرے میں پیوست اور مدغم درمیان میں کہیں ترسیل اور ابلاغ حائل نہیں گویا فصاحت کا دریا رواں دواں۔۔
شہرِ گل و برگ کا ایک گنجان اور قدیم علاقہ مومن پورہ ان کا مولد و مسکن رہا یہاں کی دیواروں نے ان کی غوں غاں سنیں ان ہی گلیاروں میں جوانی کی راتیں مرادوں کے دن بسرہوئے آخری وقت میں اپنے دکھ سکھ کے ساتھیوں کو یکا و تنہا روتا بلکتا چھوڑ ان جان علاقے میں ’’سائبان‘‘ بنایا انہوں نے مکان کیا بنایا بار بار بناتے رہے کبھی گتہ دار کی شکل میں کبھی دوستی کی آڑ میں ایک کو تو جگری دوست ہونے کا دعویٰ بھی تھاوار بھی اس نے جگر پر ہی کیا لیکن روح زخمی ہوئی اب یہ وضو کے پانی سے ان زخموں کو دھو رہے ہیں!
کچھ عرصہ مجھے ان کے پڑوس میں رہنے کا بھی اتفاق ہوا پڑوس میں ان کا آبائی مکان تھا۔ مکین تھے، شور و غل، رنجشیں، رفاقتیں ، سسکیاں ، کلکاریاں اور قہقہے غرض زندگی کے سب رنگ موجود تھے یہ نہیں تھے معلوم ہوا بیڑ میں پڑھاتے اور وہیں فروکش ہیں تعطیلات میں مہاجر پرندوں کی طرح آتے اور ہنس بول کر لوٹتے ہیں۔ میں پڑوسی ہونے کے ناطے ہمیشہ ان سے جھگڑنے کے نت نئے منصوبے بناتا رہا لیکن ہر بار ان کی وضع داری نے مجھے مات دیدی یعنی بنا کھیلے ہی بازی ہاردی!
تہذیب ، شرافت اور شائستگی کا اعلیٰ نمونہ ہیں اسی شرافت اور شائستگی نے چائے خانے اور مئے خانے سے دور رکھا جب کہ ادب میں اکثریت یک گونا بے خودی مجھے دن رات چاہئے کے ذیل میں آتی ہے تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ معیاری اور تخلیقی ادب میں بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر آپ نے اس کلیہ کو مفروضہ ثابت کردیا۔
مومن پورہ کی گلیوں میں اکثر پیدل ہی نظر آتے، کبھی ملاقات ہوتی میری تخلیقات اور یہاں کی ادبی سرگرمیوں کا حال ضرور پوچھتے اس دوران کوئی مضمون نظر سے گذرتا تو بلاتا مّل توصیفی کلمات سے نوازتے اور حوصلہ افزائی فرماتے۔
ادبی سیاسی، اور مذہبی بصیرت میں اپنی نظیر آپ ہیں لیکن موٹر سیکل کے کل پُر زوں کے بارے میں کوئی غلطی سے بھی پوچھ لے تو ان کی وہی حالت ہوتی جو عام مسلمانوں کی الجبراء کا سوال پوچھتے جانے پر ہوتی ہے۔
جب سے شہر میں فاصلہ بڑھ گئے ہیں اور یاروں نے بہت دور بسالیں بستیاں اپنی ۔۔۔ انہوں نے بھی ایک موٹر سیکل خریدی فرماں بردار فرزندان نہ ہوتے تو انہیں اخبارات میں ایک اشتہار بھی جاری کرنا پڑتا:
ضرورت ہے!
ایک ایماندار اور محنتی ڈرائیور کی
جوبیل گاڑی کی رفتار سے
موٹر سیکل چلا سکے!
سانولارنگ، ستواں ناک، ہونٹوں پر مہر سکوت، آنکھوں میں فکر اور سرپر پریشانی پھیلی ہوئی۔ مونچھیں کبھی غنی کے دل کی طرح وسیع اور گھنی ہوا کرتی تھیں آج ہندوستان میں اردو کی حالت جیسی پتلی ہو گئی ہیں۔ مکان پر نہرو شرٹ پاجامہ، یونیورسٹی کے لئے سفاری، ادبی سمینار اور سمپوزیم کے لئے سوٹ، اور شادی بیاہ جیسی تقاریب کے لئے شیروانی مختص ہے۔ پان شوق سے کھاتے ہیں بیگم کے ہاتھوں بنی گلوریاں میسر آجائیں تو طبیعت کھل اٹھتی ہیں ہونٹوں کی سرخی گالوں پر چھا جاتی اور فضایکلخت رومانی ہوجاتی ہے احباب کی دل جوئی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے سوچتے ہیں تقریب کچھ تو بہرملاقات چاہئے پھر کیا دیکھتے ہی دیکھتے ’’سائبان‘‘ اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتا اور یہ دوست داری اور مہمان نوازی جیسی عظیم روایات کی پاسداری میں ہمہ تن مصروف ہوجاتے تاہم اہل چمن نے ان کی کفایت شعاری پر بخالت کا لیبل چسپاں کیا ہے جو سراسر بہتان طرازی کے سوا کچھ نہیں!
اپنے آپ سے زیادہ کتابوں پر خرچتے ہیں فرزندان اور بیگم نے بھی ادب پرور ماحول بنائے رکھنے میں ان کا ساتھ دیا کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ دولت فرعون اور علم پیغمبروں کی میراث ہے۔
حلقہ ء احباب گلی سے دلی ، دلی سے پنڈی اور پنڈی سے جرمنی تک پھیلا ہوا ہے شب و روز بڑے مصروف رہتے ہیں تاہم دوست داریاں نبھانا نہیں بھولتے۔ لاکھ طوفان آئے جان پر بن آئے لیکن پابندی سے دوستوں کی خیریت کبھی فون پر کبھی خطوط کے حوالے سے ضرور پوچھ لیتے ہیں کچھ نہیں تو ہر سال عید کارڈ ہی بھیج دیا باوثوق ذرائع سے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ ان کی روزانہ کی ڈاک اتنی وزنی ہوتی ہے کہ محکمۂ ڈاک محض ان کے گھر ایک علاحدہ ڈاکیہ کے تقرر کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہا ہے کیونکہ ان کی ڈاک پہنچانے کے بعد بے چارہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ دوسروں کی ڈاک پہنچا سکے!
ہمارے ادب کاایک بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ادب کی موت کے دوسرے دن ہی اس کی ذاتی لائبریری کی ساری کتابیں کباڑیئے کے ہاتھوں ردّی کے مول فروخت کردی جاتی ہیں بیش ترادیبوں کے ساتھ یہی ہوا ہے اور یہی ہوگا قصور بھی تو ان ہی کا ہے لیکن حمید سہروردی صاحب کو فکر مند ہونے کی چنداں ضرورت نہیں غضنفراقبال کی صورت انہیں ایک ایسا حقیقی وارث مل گیا ہے جو ان کے قیمتی ورثہ کی نہ صرف حفاظت کرے گا بلکہ ایک نیا جہاں آباد کرے گا اور قوی امید ہے کہ اس چراغ سے کئی اور چراغ جلیں گے نیز بزم آرائیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔