مانک ٹالا
پریم چند نے اپنی مختصر سی ادبی زندگی میں تین سو کے قریب افسانے اور تقریباً پندرہ ناول تصنیف کیے۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر درجنوں مضامین، تبصرے، ڈرامے اور ترجمے بھی احاطہ تحریر میں لائے۔
پریم چند کے فکر و فن کا جائزہ لینے کے لیے ہمارے کچھ مشہور اہل قلم نے ان کی الگ الگ تصانیف پر مختلف اوقات میں چند بلند اور معیاری مقالات رقم فرمائے۔
لیکن اردو میں پریم چند کے تقریباً پورے تخلیقی ادب کا احاطہ تفصیل سے ڈاکٹر شکیل الرحمن نے اپنی بیش بہا کتاب ’’فکشن کے فن کا ر…. …. .. پریم چند‘‘ میں کیا ہے۔ یہ کتاب یوں تو ستمبر 2000 میں شائع ہوئی تھی لیکن بقول ڈاکٹر شکیل الرحمن یہ کتاب لگ بھگ چالیس سال پہلے (1960 میں ) احاطۂ تحریر میں لائی گئی تھی لیکن اس کا مسودہ ان کے کاغذات میں گم ہو گیا تھا۔
ہندی میں پریم چند کے فن و فکر پر بہت سی مفصل کتابیں وجود میں آئیں۔ تاہم اردو میں مندرجہ بالا کتاب کے علاوہ صرف دو ادیبوں کی تین کتابیں ہی شائع ہوئی ہیں۔ پہلی کتاب ’’پریم چند کا تنقیدی مطالعہ بہ حیثیت ناول نگار‘‘ 1959 میں ڈاکٹر قمر رئیس کے زور قلم کا نتیجہ ہے اور دوسری دو کتابیں ’’پریم چند…. …. .. کہانی کا رہنما‘‘ (پہلی اشاعت دسمبر 1969) اور ’’پریم چند…. …. ..فن اور تعمیر فن‘‘ (پہلی اشاعت 1977) ڈاکٹر جعفر رضا کی عرق ریزی کا نتیجہ ہیں۔ جہاں ڈاکٹر قمر رئیس نے پریم چند کے سوانحی حالات کے علاوہ ان کے مختلف ناولوں پر اپنے نقطۂ نظر سے بحث کی ہے وہاں ڈاکٹر جعفر رضا نے اپنی کتابوں میں ناولوں کے علاوہ پریم چند کی کہانیوں پر بھی مفصل بحث کی ہے۔ ان میں بھی کئی جگہوں پر ان کا ذاتی نقطۂ نظر جھلکتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر شکیل الرحمن کی مذکورہ بالا پیشکش اپنے اندر ایک علاحدہ دنیا سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ نقد و نظر زیادہ منطقی اور غیر جانبدارانہ ہے اور چالیس سال گزر جانے کے بعد بھی اس کتاب کی تر و تازگی اور افادیت میں فرق نہیں آیا۔ یہ کتاب 216 صفحات کو محیط ہے جس کے پہلے باب میں پریم چند کی ناول نگاری پر فنی نقطۂ نگاہ سے بحث کی گئی ہے۔ بعد کے آٹھ ابواب میں پریم چند کے افسانوی ادب پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ آخر میں پریم چند کی شخصیت پر تقریباً تیس صفحوں میں مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
میرے خیال میں پریم چند کی تخلیقات کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے ان کی شخصیت اور زندگی کے نشیب و فراز پر سب سے پہلے نگاہ ڈالنا بہت ضروری ہے۔
’زمانہ‘ پریم چند نمبر (ص3) میں پریم چند کی اپنی زندگی کے بارے میں ان کا خود کا کہنا ہے ’’میری زندگی ہموار میدان کی طرح ہے جس میں کہیں کہیں گڑھے تو ہیں لیکن ٹیلوں اور پہاڑوں، گہری کھائیوں اور غاروں کا پتا نہیں۔‘‘
میرے خیال میں پریم چند کی یہ تحریر مکمل حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ جب وہ تقریباً آٹھ سال کے تھے تو ان کی شفیق ماں ایک طویل بیماری کے بعد رحلت فرما گئیں۔ ان کی رحلت کے بعد سے ہی پریم چند کی زندگی نشیب و فراز کے طویل سفر پر نکل پڑی جس میں گڑھے، ٹیلے اور گہری کھائیں سب کچھ ہیں۔ ان کی زندگی کی جد وجہد اور مسلسل ناکامیوں ہی نے انہیں دھنپت رائے سے مہان کلاکار پریم چند بنایا اور ان کے اندر کا خلا ان کی کہانیوں اور ناولوں کے صفحوں پر جگہ جگہ بکھرا نظر آتا ہے۔
اس سلسلے میں شکیل صاحب فرماتے ہیں :
’’شخصیت صرف صورت نہیں معنی بھی ہے۔ محشر خیال اور شہر آرزو دونوں کی تلاش ضروری ہے۔ پریم چند کی زندگی میں کئی نشیب و فراز ہیں۔ شخصیت داخلی تصادم میں گرفتار رہی ہے اور ان کا تخلیقی ادب ’’تصویر انجمن‘‘ اور ’’جلوۂ انجمن‘‘ بن گیا ہے۔ ( اور ) کاغذی پیرہن میں نقش فریادی کو بھی دیکھنا چاہیے۔ خارجی حقیقتوں کے ساتھ داخلی تاریخ اور خارجی فضاؤں کے ساتھ داخلی اور جذباتی کیفیتوں کا جتنا بھی مطالعہ کر سکیں بہتر ہو گا۔ …پریم چند کی زندگی کو صرف صحیفۂ اخلاق تصور کرنا اور ان کی بصیرت اور ’وژن‘ کو حقیقت پسندی کے محدود دائرے میں رکھ دینا انصاف نہیں ہو گا۔ سچ تو یہ ہے کہ پریم چند کے فن کی طرح ان کی شخصیت اب بھی ایک چیلنج کی صورت سامنے ہے۔ ان کے مزاج اور رجحانات کا تجزیہ نہیں ہوا ہے۔ … شخصیت اور فن کے تعلق سے جب بھی پریم چند کا تصور کیا گیا ہے ایک سیدھی لکیر سامنے رکھ دی گئی ہے، فن میں اکہری حقیقت پسندی کی تعریف کی گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب تک صرف خارجی حقائق ہی ابھرتے رہے ہیں۔ شخصیت سیدھی لکیر نہیں ہوتی۔ یہ لکیر ٹیڑھی بھی ہوتی ہے اور لکیر کے اندر کئی سطحیں اٹھتی محسوس ہوتی ہیں۔ تجزیوں کی دنیا بہت وسیع، گہری اور تہہ دار ہوتی ہے …‘‘ (ص 186-187 اور 188)
پریم چند کی زندگی لگاتار تلخ و تند تجربوں اور مسلسل محرومیوں اور جد و جہد سے عبارت رہی ہے۔ اسی باعث ان کی مختلف تخلیقات کی ناؤ تیزی سے آگے کی طرف بڑھتی رہی ہے۔ ان میں کہیں یکسانیت نظر نہیں آتی بلکہ نو بہ نو تجربات کی ہلکی، گرم اور بہت ہی گرم آنچ کا احساس ہوتا رہتا ہے۔
’’حقیقت یہ ہے کہ ان کے تجربے گوشت پوست کے ایک ایسے انسان کے تجربے ہیں جو حساس بھی ہے، نگہہ بھی رکھتا ہے اور نفسیاتی گتھیوں کو مختلف سطحوں پر سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مجھے یہی پریم چند پسند ہیں جو اپنی خوبیوں اور کمزوریوں اور اپنی نفسیاتی کیفیتوں اور نفسیاتی عوامل سے پہچانے جاتے ہیں … سماجی ذمہ داری اور تعمیری رویہ پر بھی ان کی رومانیت کی پرچھائیاں ملتی ہیں …بار بار تلخیوں سے دو چار ہوتے ہیں، جذبات پر قابو رکھتے ہیں لیکن ان کی نفسیات متاثر ہوتی رہتی ہے۔ زندگی کی تلخیوں کو شکست دینے کی آرزو ہے جو مچلتی رہتی ہے۔ جذبات کو آسودہ کر نے کی تمنا ہے۔ کبھی کبھی تو شدید تشنگی کا احساس ہوتا ہے … پریم چند تخیل پرست اور تخیل پسند بھی رہے اور عہد جدید سے اپنی منتخب شدہ سطحوں پر رشتہ بھی استوار کیا۔ جذباتی خطابت اور جذبۂ حب الوطنی اور تحریک آزادی کے تعلق سے جو مثالیں ملتی ہیں ان میں ان کی تخیل پسندی کو بڑا دخل ہے …‘‘ (ص 189 و 195)
پریم چند کے ناولوں کے بارے میں شکیل صاحب نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا ہے :
’’منشی پریم چند ایک بڑے افسانہ نگار ہیں، بڑے ناول نگار نہیں۔‘‘ (ص11)
میرا اپنا خیال ہے کہ ان کا یہ فیصلہ سو فیصدی درست نہیں ہے۔ ان کے ناولوں میں بھی کئی ایسے کردار مل جاتے ہیں جو پریم چند کی تخلیقات کو اعلا معیار پر پہنچا دیتے ہیں۔ چنانچہ انہیں ہندی والے ’’اپنیاس سمراٹ‘‘ کہہ کر لکھتے تھے۔ اس سلسلے میں پریم چند، اندر ناتھ مدان کے نام اپنے 26 دسمبر 1934 کے خط میں لکھتے ہیں :
… میرے ہرناول میں ایک معیاری کیریکٹر ہوتا ہے جس میں انسانی صفات بھی ہوتی ہیں اور کمزوریاں بھی مگر ان کا معیاری ہونا ضروری ہے۔
’’پریم آشرم‘‘ (گوشۂ عافیت) میں گیان شنکر اور ’’رنگ بھومی‘‘ (چو گان ہستی) میں سور داس ہے۔ اسی طرح کا یا کلپ (پردۂ مجاز) میں چکر دھر اور ’’کرم بھومی‘‘ (میدان عمل) میں امرکانت ہے۔‘‘
بہرحال ڈاکٹر شکیل الرحمن اپنا نظریہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :
’’بنیادی طور پر افسانے کے فنکار ہیں، پریم چند کے ساتھ اگر ان کے ناولوں کے کردار سامنے آنے لگتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک ان کے افسانوں کی اہمیت کا گہرا احساس پیدا نہیں ہوا ہے۔ اردو کے نقادوں نے عموماً ناولوں کی جانب زیادہ توجہ دی ہے … منشی پریم چند کے ناولوں میں ہندوستان کی معاشرت ملتی ہے اور اس ملک کا گاؤں ملتا ہے، اردو تنقید کے لیے یہی کافی ہے، آئینے کی تلاش شروع ہو جاتی ہے، اپنی معاشرت اور گاؤں کی زندگی کے نشیب و فراز اور تاریخی اور معاشرتی قدروں پر بحث ہونے لگتی ہے، طبقاتی مفاد، عدم تعاون، ارون گاندھی سمجھوتا، آزادی کی تحریک اور دوسری باتوں کا ذکر کر کے عموماً ان کے ناولوں کو اونچا اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہیں، نقاد عموماً یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ یہ خارجی حقائق ہیں اور فن میں خارجی سچائیوں کی صورتیں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ فنکار پریم چند نے خارجی حقائق اور معاشرتی اقدار کو کس حد تک جذب کیا ہے، کس حد تک انہیں نئی تخلیق کی صورت دی ہے اردو کس طرح فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے …‘‘ (ص 11)
اس میں شک نہیں کہ ان کے ابتدائی ناولوں میں بہت سی فنی خامیاں موجود ہیں اور بعد کے ناولوں میں بلاوجہ طوالت کھلنے لگتی ہے لیکن انہیں سرے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ وہ عصری زندگی کا آئینہ ہیں اور کئی جگہ انہوں نے یہ آئینہ بڑے فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔
بہرحال یہ ایک سچائی ہے کہ وہ افسانے کی تخلیق کے لیے پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے بہت سے افسانوں میں اپنی بہترین فن کاری کا ثبوت دیا ہے لیکن ان کی ناول نگاری کو بھی اس طرح خارج نہیں کیا جا سکتا۔
پریم چند تین سو سے اوپر افسانے معرض وجود میں لائے تھے۔ جن میں سے کم سے کم سو ڈیڑھ سو افسانے دل کو چھو جاتے ہیں اور قاری ان کے کرداروں میں طویل عرصے تک جیتا مرتا رہتا ہے۔
فروری 1934 میں نیرنگ خیال کے ایڈیٹر کے ایک خط کے جواب میں پریم چند تحریر فرماتے ہیں :
’’میرے قصے اکثر کسی نہ کسی مشاہدہ یا تجربہ پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس میں ڈرامائی کیفیت پیدا کر نے کی کوشش کرتا ہوں مگر محض واقعہ کے اظہار کے لیے میں کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں اس میں کسی فلسفیانہ یا جذباتی حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ جب تک اس قسم کی کوئی بنیاد نہیں ملتی میرا قلم ہی نہیں اٹھتا لیکن کوئی واقعہ افسانہ نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ کسی نفسیاتی حقیقت کا اظہار نہ کرے۔ (پریم چند کے خطوط، ص 301، مکتبہ جامعہ، جون 1968)
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے اس کتاب کے دوسرے حصے (’’افسانے کا فن‘‘ ) میں پریم چند کے افسانوں کی افہام وتفہیم کے لیے ایک زبردست اور اہم رول ادا کیا ہے۔ موصوف نے اس کے لیے الگ الگ باب قائم کیے ہیں (1)تیسرا آدمی، (2)عورت (1)، (3)عورت(2)، (4)بچے کا ذہن، (5)کھلاڑی پن، (6) المیہ کردار ، (7)تکنیک اور (8)اسلوب۔
(1)’’تیسرا آدمی‘‘ …. . افسانوں میں ولن کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ حیثیت بمبیّا فلموں کے وِلن کی طرح کی حیثیت نہیں ہے بلکہ افسانوں کو اور بھی بہتر بنانے کے لیے ہے۔ کہیں بھی اس ’’تیسرے آدمی‘‘ کی حیثیت بھرتی کے کردار کی نہیں ہے۔
موصوف فرماتے ہیں :
’’…’ تیسرا آدمی‘ نہ ہو تو سماجی زندگی کا اقتصادی نظام درہم برہم ہو جائے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اقتصادی حالات و مسائل کا انحصار اس کے عمل اور رد عمل پر ہے، بازار کے بھاؤ، قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، غلوں کی پیداوار اور تقسیم میں اس کا کردار بہت اہم ہے … شہر اور گاؤں کی روزانہ زندگی میں ’تیسرے آدمی‘ سے اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ یہ کارخانوں میں بھی ہے اور کھلیانوں میں بھی۔ سیاسی زندگی میں بھی ’تیسرا آدمی‘ اپنا خاص مقام رکھتا ہے … کبھی اپنی بربادی پسند کرتا ہے تو ایک گھر آباد ہو جاتا ہے اور کبھی شخصیتوں کے درمیان آتا ہے تو صرف اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے …جب اپنے اغراض و مقاصد اور صرف اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے تو اسے اس کی فکر نہیں ہوتی کہ اس کے عمل سے زندگی کے کتنے آتش کدے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ عناصر اور اقدار کو بدلتے دیکھ کر اسے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ لذت ملتی ہے۔ انتقام کے جذبے سے بھی سرشار ہو کر اکثر کسی پرامن گھر میں ’تیسرا آدمی‘ داخل ہوتا ہے اور اس کی بے چینی اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک وہ گھر ویران نہ بن جائے …‘‘ (ص 33 اور 34)
’’… افسانوی کلچر کے مطالعے میں مرکب اور پیچیدہ واقعات کا مطالعہ تیسری شخصیت کے بغیر ممکن نہیں۔ احساسات، جذبات، رویہ، مختلف ہیجانات اور جبلتوں کے اظہار اور حسیاتی کیفیتوں کے تجزیے کے لیے تیسری شخصیت کاسہارا ضروری ہے، اس لیے کہ وہی مختلف رجحانات پیدا کرتا ہے۔ جذبات کے اظہار پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کرداروں کے عمل اور رد عمل کو متاثر کرتا ہے اور واقعات اور پلاٹ میں تیزی، نوکیلا فن اور تیکھا پن پیدا کرتا ہے۔‘‘ (ص ص 35 اور 36)
اس باب میں موصوف نے تفصیل کے لیے چند ذیلی عنوانات کے تحت ’’گھاس والی‘‘ میں چین سنگھ، ’’دو سکھیاں‘‘ میں بھون داس گپتا ’’حقیقت‘‘ میں ایک ادھیڑ، مغرور اور بدمزاج شخص کا ذکر بڑے معنی خیز الفاظ میں کیا ہے اور ان کہانیوں کے آگے بڑھانے میں پریم چند کی پیش کی گئی تفصیلات دے کر ان کی تعریف کی ہے۔ ان کے علاوہ موصوف پریم چند کی چند دیگر کہانیوں کا جائزہ لینے کے بعد فرماتے ہیں :
’’پریم چند کا تیسرا آدمی بنیادی حقیقتوں کی جانب اشارہ کرتا ہے …اس کے ذریعہ انسانی نفسیات کے کئی پہلو اور گوشے نمایاں ہوئے ہیں۔ فطرت انسانی کی کوئی نہ کوئی سچائی ظاہر ضرور ہوتی ہے جس سے فنکار کے مشاہدے کی باریکیوں کا اندازہ ہوتا ہے …‘‘ (ص 56)
(2)عورت(1) اور عورت (2) میں دو مختلف ذہنیت کی عورتوں کی ذہنی پیچیدگیوں اور ذہنی تضادات کا گہرائی سے مطالعہ کیا گیا ہے۔
(1نو) عورت (1) میں پریم چند کی کچھ کہانیوں میں عورت کی نرگسیت اور خود پسندی کی مثالیں پیش کرتے ہوئے شکیل صاحب فرماتے ہیں :
’’پریم چند نے پہلی بار نفسیاتی کرداروں کی تخلیق کرتے ہوئے شعور کے بہاؤ کو نمایاں کیا ہے (ص 86)…‘‘ عمر کی رفتار کے ساتھ پریم چند عورتوں کے جذبات اور احساسات کی تبدیلی کو بھی دیکھتے ہیں۔ بنیادی جبلتوں کے اظہار کے فرق پر ان کی گہری نظر رہتی ہے …ان کے علاوہ مختلف عورتوں کے انداز گفتگو کو ان کی شخصیت و کردار کے مطابق پیش کیا ہے۔ آوازوں کے آہنگ کے تئیں بھی پریم چند بیدار نظر آتے ہیں۔‘‘ (ص 94)
(ب)عورت(2)میں شکیل صاحب نے پریم چند کی کئی کہانیوں کی ایسی عورتوں کا ذکر کیا ہے جو شفقت و قربانی کی سراپامورتیں ہیں۔ یہ ایسے کردار ہیں جن کے باعث عورتوں کے سامنے آدمی کا سر جھک جاتا ہے۔ اس سلسلے میں شکیل صاحب فرماتے ہیں ’’پریم چند کے افسانوں میں عورتوں کے جو دوسرے کردار ملتے ہیں۔ وہ پریم چند کے بنیادی نظریات کا پیکر ہیں۔ فنکار کی اصلاح پسندی کے تصور کے تناظر میں ابھرتے ہیں اور معاشی مسائل، اقدار اور طبقاتی زندگی کے ہنگامی لمحات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عورتوں کے ایسے کردار کی کہانیوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ (چند ایک کہانیوں کے کرداروں کی تفصیل پیش کر نے کے بعد موصوف فرماتے ہیں ):
’’…پریم چند نے ان عورتوں کے کردار پیش کرتے ہوئے ماحول اور کردار کی ذہنی کیفیتوں کو بھی پیش کیا ہے۔ حیات انسانی کا کوئی واقعہ یا انسانی تجربوں کا کوئی نکتہ پیش کرتے ہوئے بنیادی سچائیوں پر بھی غور کرتے ہیں۔ پریم چند عورتوں کے جسمانی، اخلاقی اور نفسیاتی وجود کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ گوشت پوست کی عورتیں اپنے حسن، اپنی بدصورتی اور اپنے کردار کی خوبیوں اور خامیوں سے پہچانی جاتی ہیں …ان کے کرداروں کے ذریعہ پریم چند کی رومانیت اور تخلیقیت، جذباتیت اور حقیقت پسندی کا بہتر مطالعہ ہو سکتا ہے۔‘‘ (ص 100)
(3)بچے کا ذہن…. . بچے کے ذہن کے اندر ایک ساتھ کئی کردار گھومتے رہتے ہیں۔ اپنے گرد و پیش کے حالات سے متاثر ہو کر اس کے ذہن میں کبھی کبھی کھلبلی بھی مچ جاتی ہے۔ اس کے مشاہدے میں آنے والے کچھ کردار زندگی بھر اس کے دل کے دروازے پر دستک دیتے رہتے ہیں۔
والدہ کی رحلت تک دھنپت (پریم چند) بہت نٹ کھٹ اور کھلنڈرا بچہ تھا۔ اپنے ہمجولیوں کا رِنگ لیڈر (RING EADER) بن کر کھیتوں میں گھس جاتا۔ کسی کھیت سے مٹر، کسی سے گنے چرائے جاتے۔ امرودوں کے موسم میں امرودوں کی شامت آ جاتی اور آم کا موسم تو ان کے لیے پک نک کی نوید لاتا۔ کچے پکے آم درختوں سے چرائے جاتے اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر کھائے جاتے۔ ایک روز اپنے ہمجولیوں کے ساتھ نائی نائی کا کھیل کھیلنا شروع کیا۔ بانس کی کھپچیوں سے استرے بنائے گئے۔ ایک تیز ’استرے ‘ سے اپنے ایک ساتھی کی ایسی حجامت بنائی کہ اس کا کان لہولہان ہو گیا۔ دھنپت کی ماں کو پتا چلا تو اس نے اس کی مرمت کر دی لیکن اس مار کے پس پردہ دلار بھی چھپا تھا۔ دھنپت کو اس کا احساس تھا۔ تبھی تو ماں کی بے وقت موت نے اسے خون کے آنسو رلا دیا۔
شفیق ماں کی موت، باپ کی دوسری شادی، سوتیلی ماں کی بدسلوکیوں اور پھر بدصورت اور بدتمیز لڑکی سے شادی اور باپ کی رحلت نے دھنپت کو عمر سے پہلے جوان کر دیا۔ گھر بار چلانے کی ذمہ داری اس کے ناتواں کندھوں پر آ پڑی۔ اس کے بعد عسرت اور مسلسل جد و جہد کا دور شروع ہوتا ہے۔ قزاقی نامی ہرکارے کا پُر شفقت کندھا اور ’’رام لیلا‘‘ کے رام، لکشمن اور سیتا سب کو گویا بھلا سا دیا اور محنت کے کولہو میں جت گیا۔
شکیل صاحب فرماتے ہیں :
’’پریم چند کے افسانوں میں مختلف عمر کے بچے اپنے ماحول، حالات اور جذباتی زندگی کے ساتھ ملتے ہیں، پیدا ہوتے ہوئے اور مرتے ہوئے، بلکتے ہنستے ہوئے، ہوائی قلعے بناتے ہوئے، منہ چڑھاتے ہوئے، بڑی عمر کے لوگوں کا مذاق اڑاتے ہوئے، نفسیاتی شعاعیں ڈالتے ہوئے اور حالات کے نفسیاتی رد عمل کے اثرات قبول کرتے ہوئے، ہیرو پسند اور ہیرو پرست، دوسروں کی نقل کرتے ہوئے، پیار کر نے والوں کو پہچانتے اور اپنی علامتیں خلق کر نے والے بچے ملتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو بڑوں کی نازیبا حرکتوں پر شرماتے ہیں اور کبھی کبھی دکھی، بہت دکھی ہوتے ہیں …‘‘
’قزاقی‘ اور ’رام لیلا‘ کے علاوہ موصوف نے لگ بھگ دس پندرہ ایسی کہانیوں کا ذکر کیا ہے جن میں بچوں کی عقیدت، ہیرو پسندی، الجھن، صدمہ، نفسیاتی رد عمل، ہمدردی، غرور اور کئی غیر محسوس متحرک قوتوں کی تفصیل دے کر بچوں کی نفسیاتی زندگی کی بڑے فنکارانہ انداز سے نقاب کشائی کی ہے۔
(4)کھلاڑی پن…. . یہ چار صفحے کا مختصر باب ہے۔ موصوف نگم صاحب کے نام پریم چند کے ایک خط کاذکر کر نے کے بعد فرماتے ہیں :
’’شیکسپئر نے دنیا کو اسٹیج اور انسان کو ادا کار کہا ہے۔ سب اپنا اپنا کھیل دکھا کر چلے جاتے ہیں۔ پریم چند زندگی اور دنیا کو کھیل کا میدان تصور کرتے ہیں جہاں جیتنے اور ہار نے کا سلسلہ جاری رہتا ہے … شکست کو قبول نہ کر نے کا ایک بنیادی رجحان واضح ہے …پریم چند کے تجربوں اور ان کی آرزو مندی سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے۔ یہ کوئی حکیمانہ نظریہ یا تصور نہیں ہے بلکہ ایک سچا اور حقیقی تصور یقیناً ہے … اس تصور کے پس پردہ شکست کی آواز بھی سنائی دے گی۔‘‘ (ص 129)
(5)المیہ کردار …. . پریم چند بچپن ہی سے افلاس اور محرومیوں کا شکار رہے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ان کا مشاہدہ بہت گہرا ہے اور اس مشاہدے کو تخیل کے سہارے پریم چند نے اپنی تخلیقات میں کئی ایسے زندہ جاوید کردار تخلیق کئے ہیں جن کی محرومی اور حرماں نصیبی کی تصویر دل کی گہرائیوں کو چھو جاتی ہے۔
شکیل صاحب نے ایک مثال ان کی مشہور کہانی ’کفن‘ کے گھیسو اور مادھو کی دی ہے اور فرماتے ہیں :
’’یہ دونوں کردار طبقاتی زندگی کے المیہ کو لیے اور اپنی نفسیاتی کیفیتوں کے ساتھ ’کریکٹر‘ بن گئے ہیں۔ اس لیے کہ اپنے کردار کی نہیں بلکہ اپنی شخصیتوں کو شدت سے محسوس بناتے ہیں …ایسے المیہ کرداروں کی اندرونی ویرانی غیر معمولی ہے … کرداروں کے عمل سے اندرونی ویرانی (HAVOC) کا جھٹکا غیر معمولی ہے۔ یہ اردو کا شاہکار ہے۔ پریم چند نے انسانی فطرت کی جس طرح نقاب کشائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی… ’کفن‘ فنکار کے ’وژن‘ اور فنکارانہ درون بینی کا ایک ناقابل فراموش نمونہ ہے …‘‘ (ص 133 اور 134)
شکیل صاحب نے دوسری کئی کہانیوں کے المیہ کرداروں کو پیش کرتے ہوئے اپنے درج بالا بیان کی تصدیق کی ہے۔ قاری ’’نیور‘‘ ، ’’حقیقت‘‘ ، ’’کفارہ‘‘ ، ’’پوس کی رات‘‘ وغیرہ پڑھ کر ان کرداروں کی ٹریجڈی کو شدت سے محسوس کر سکتا ہے۔
(6)تکنیک اور اسلوب…. …. .. ایک اچھی اور کامیاب تخلیق کا دار و مدار تکنیک اور اسلوب کا مرہون منت ہوتا ہے۔ پریم چند کی بہت سی کامیاب کہانیوں میں ان کا بڑے فنکارانہ طریقے سے استعمال کیا گیا ہے۔ پریم چند نے مختلف کہانیوں میں موضوع کی ضرورت کے مطابق الگ الگ تکنیک کا استعمال بڑے کامیاب طریقے سے کیا ہے۔
(1)تکنیک کے سلسلے میں شکیل صاحب فرماتے ہیں :
’’پریم چند کے تعارف ہی سے بعض افسانوں کے واقعات کا علم ہو جاتا ہے۔ ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ عمدہ مثال ہے۔ ابتدا ہی سے افسانے کی روح سے ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ ’’نمک کا داروغہ‘‘ (بھی ایک عمدہ) مثال ہے۔ بعض افسانوں میں کرداروں کا تعارف بہت ہی مختصر ہے … بعض افسانوں میں قدرے تفصیل ملتی ہے۔ مثلاً پنچایت، بانکا زمیندار، مشعل راہ، بانگ سحر، وفا کی دیوی، زیور کا ڈبہ… وغیرہ فنی اعتبار سے پریم چند کے مختصر افسانے بنگلہ اور مغربی افسانوں کے فارم کے نزدیک ہیں۔ موضوع کی پیچیدگی اور سادی دونوں مثالیں ملتی ہیں لہٰذا تکنیک بھی اسی نوعیت کی ہے …فنی نمائش نہیں ملتی، فضا آفرینی ایسی ہے کہ محسوس ہوتا ہے قصے کی روح اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔ انداز میں بے تکلفی ہے، تمہید ناگوار نہیں گزرتی۔‘‘ (ص ص 141 اور 142)
کچھ اشاراتی اور علامتی رنگ کے افسانوں کا ذکر کر نے کے بعد فرماتے ہیں :
’’واحد متکلم کی تکنیک بھی توجہ طلب ہے۔ ’میں ‘ کا بیانیہ بعض افسانوں کا معیار بلند کر دیتا ہے …پریم چند نے ڈائری کی تکنیک میں بھی افسانے لکھے ہیں اور مکتوب نگاری کے فن کو بھی کہانیوں میں شامل کیا ہے …پریم چند کبھی کرداروں کی تشکیل اور ان کے ارتقا کے مطابق واقعات اور فضاؤں کو تخلیق کرتے ہیں اور کبھی کرداروں پر واقعات اور فضاؤں کے اثرات دکھانا پسند کرتے ہیں …کرداروں کے عمل سے فضا متاثر ہوتی ہے۔ منظر نگاری، جزئیات نگاری اور تخیل کی کارفرمائی سے پلاٹ اور کردار دونوں میں پہلو اور جہتیں پیدا ہوتی ہیں۔ وحدت اثر ہی سب سے بڑی وحدت نظر آتی ہے۔ ’ایتھوس‘ (ETHOS) کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ لہٰذا تجربہ، مشاہدہ، پیکر تراشی، علامت پسندی اور تجزیاتی عمل کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ پلاٹ کا انحصار ان پر نظر آتا ہے۔‘‘ (ص 155)
(ب) اسلوب…. . پریم چند کے اسلوب کے بارے میں شکیل صاحب فرماتے ہیں :
’’پریم چند کے فن میں تصادم کی مختلف صورتیں اور سطحیں ملتی ہیں جن سے اسلوب متاثر ہوا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تجربہ اور تکنیک کی ہم آہنگی اور جذبی کیفیت نے اسلوب خلق کیا ہے۔ اسی کے بطن سے اسلوب کی شدت اور تیکھا پن اور نوکیلاپن، اس کی آنچ اور آہنگ اور رفعت (SUBIMITY) اور بلندی کا جنم ہوا ہے۔ دودھ کی قیمت، عیدگاہ، دو بہنیں، حسرت، بوڑھی کاکی، رام لیلا وغیرہ میں ’’علامتی سطحوں‘‘ کے تصادم کی وجہ سے اگر اسلوب کی ایک جہت ملتی ہے تو دو سکھیاں،ماں، گھاس والی، بازیافت، مس پدما اور کسم وغیرہ میں ’’علامتی سطحوں‘‘ کے تصادم سے اسلوب کی دوسری جہت پیدا ہوئی ہے۔ اسلوب کی ایک جہت شطرنج کی بازی، ستیہ گرہ، شکست کی فتح، الزام، انتقام اور رام لیلا میں ملتی ہے۔ ’’نقطۂ نگاہ کے تصادم‘‘ سے اسلوب میں اشاریت بھی شامل ہوئی ہے کہ جس سے طرز بیان متاثر ہوا ہے …(ص158)
اشاریت، مقولوں اور محاوروں کے با موقعہ استعمال سے جہاں اسلوب کے حسن میں اضافہ ہوا ہے وہاں جملوں کے اختصار کے باعث بہت اچھی فضا آفرینی بھی ہوئی ہے۔ اشاریت اور مقولوں کی مختلف کہانیوں سے مثالیں پیش کر نے کے بعد شکیل صاحب فرماتے ہیں :
’’… ان کے محاوروں سے نثر ی اسلوب میں بے ساختگی کا حسن بھی پیدا ہوا ہے اور خیالات کے اظہار میں کم سے کم لفظوں کی مدد سے باتیں کی گئی ہیں۔ عربی اور فارسی الفاظ اور ترکیبیں، اضافتیں اور محاورے اردو کے بنیادی نثر ی اسالیب کی عمدہ روایات سے پریم چند کی ذہنی اور فکری وابستگی کو حد درجہ محسوس بناتے ہیں …مجموعی طور پر پریم چند کا اسلوب عجمی اور ہندی روایات کے خوبصورت امتزاج کو پیش کرتا ہے …‘‘ (ص 181)
اس کے بعد موصوف پریم چند کی کہانیوں میں مندرج کئی محاوروں کو پیش کر نے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں :
’’محاوروں کا استعمال بڑا صاف اور بے ساختہ ہوا ہے، محاورے افسانوں کی روح تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں۔ اسلوب میں یہ نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں …‘‘
’’پریم چند کا اسلوب اردو اسالیب کی عمدہ روایتوں سے متاثر خود ان روایات کی ایک مضبوط کڑی بن گیا ہے۔ یہ اسلوب نئی وسعتیں پیدا کرتا ہے۔ تخلیقی تجربوں کے بطن سے جنم لے کر تجربہ اور ہے ئت کی ایک عمدہ وحدت کا احساس بخشتا ہے۔ منفرد آنچ TEMPO اور آہنگ سے جو پُرکاری اور سادگی پیدا ہوئی ہے اس میں ہلکی شراب کا نشہ سا ہے۔‘‘ (ص 184)
ڈاکٹر شکیل الرحمن نے بڑے عالمانہ استدلال اور ژرف بینی کے ساتھ پریم چند کی تخلیقات کا مطالعہ کر نے میں صحیح معنی میں آنکھوں کا تیل ٹپکایا ہے،اس کے لیے موصوف مبارک باد کے مستحق ہیں۔