ڈاکٹر شباب للتؔ
بیسویں صدی کے وسطی دہوں میں اردو تنقید نگاری میں مختلف مغربی نظریات منتقل ہو گئے اور سب مل ملا کر ایک معجون مرکب کی صورت اختیار کر گئے۔ ایسا لگنے لگا کہ اردو ادب میں سبھی تنقیدی دبستان مغربی فن و فلسفہ سے مستعار ہیں۔ ڈاکٹر مغنی تبسم کے الفاظ میں :
اس دوران ’’جو انگریزی تعلیم یافتہ تنقید نگار نمودار ہوئے وہ بالعموم اصلیت سے خالی تھے۔ ان میں سے اکثر کسی نہ کسی مغربی مکتب فکر سے وابستہ یا متاثر تھے اور اسی کے حوالے سے گفتگو کرتے تھے۔ علم کے تعطل اور ذہنی کمزوری کے سبب ان کی فکر سراسر تقلیدی تھی۔ اجتہاد یا تجدید کے متعلق ان کا دعوی بے دلیل تھا… اس غلط ماحول میں آزاد نظم اور بے ماجرا افسانوں کا چرچا ہوا جس کے نتیجے میں شاعری اور افسانہ دونوں زوال اور انتشار کا شکار ہوئے۔ کچھ لکھنے والے مغربی افکار کے حوالے سے چند فکری یا نظریاتی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں … جبکہ ان اصطلاحات کی پیچیدگیوں اور ان کے تحت پیش کیے جانے والے خیالات کی خامیوں سے وہ واقف ہیں۔ مشہور مغربی دانشوروں کی فلسفہ طرازیاں مغالطوں سے بھری ہوئی ہیں اور ان کے نام نہاد حکیمانہ تجزیے وہ بھول بھلیاں ہیں جن میں وہ خود بھی بھٹکے اور انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کر نے کا سامان کیا ہے۔‘‘
اس دور کی تنقید نگاری آج طنز و مضحکہ کا مورد بن گئی ہے۔ شین مظفر پوری اس پر یوں اظہار رائے کرتے ہیں :
’’نقاد دنیا کی ہر زبان کے ادب میں ہوں گے۔ بھلے ہی اردو ادب کے نقاد اپنی ایک جداگانہ شناخت بھی رکھتے ہیں اور یہ جداگانہ شناخت ان کی مشہور بوالعجبیوں کے طفیل ہے۔ اتنے ذہین اور روشن ضمیر نقاد غالباً دنیا کی کسی زبان کے پاس نہیں ہوں گے جو ادبی تخلیقات پر بغیر پڑھے بھی تنقید وتبصرہ کی مہارت رکھتے ہیں۔ (بالفرض محال ادھر ادھر سے کچھ سن کر یا سونگھ سانگھ کر)۔ ایسے ستم ظریف بھی ہیں جو فن کو تنقید کی کسوٹی پر نہیں اپنے چہیتے فنکار کی face vaue (عرفی حیثیت) کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ face vaue) اپنے جملہ مضمرات کے ساتھ) اور مکھی پر مکھّی مار دینے کے مشّاق نقادوں کی تو بات ہی کیا۔ تنقید نگاری کو اس قدر سہل، ارزاں اور مفید مطلب دیکھ کر بعض تخلیقی فنکاروں کو پٹری بدلتے دیکھا جا رہا ہے۔‘‘ (دو ماہی زبان و ادب پٹنہ، جنوری فروری 1991)
لیکن گذشتہ چند برسوں میں اردو تنقید میں ایک نئی آگہی در آئی ہے۔ ناول، افسانہ اور عرفانیات کی تنقید وتوزین میں یہ مستحکم تغیر ڈاکٹر شکیل الرحمن کے تنقیدی معرکوں میں صاف نظر آتا ہے۔ ان کے یہ تنقیدی جائزے روایتی انداز سے بالکل ہٹ کر ہیں۔ مغربی افکار کی نقالی انہوں نے نہیں کی بلکہ اس کے برعکس تنقید کی نئی اقدار کو انہوں نے بخوبی پرکھ کر اور ٹھونک بجا کر اپنے معیار نقد پر ڈھالا ہے۔ یوروپی تحریکوں کے تنقیدی تصورات کو اندھا دھند پیمانۂ نقد وبصر بنانے کی بجائے انہوں نے کلاسیکی پسندیدگی اور جمالیات کی جستجو کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ان کی تنقیدی آرا اور ادبی فن پاروں کی پرکھ وسیع تر جمالیاتی شعور کو شمع راہ بناتی ہے۔ ان کے جائزے معروضی جائزے ہیں۔ ان کے تنقیدی جملوں کی سلاست اور استدلال کا جادو قاری کے ذہن میں نئے چراغ جلاتے چلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن کی تازہ مطبوعہ تصنیف ’’فکشن کے فنکار پریم چند‘‘ میں ان کی تنقید ایک تخلیقی جائزہ بن کر سامنے آئی ہے۔ ناول یا افسانہ کے اہم کرداروں کی نفسیات پلاٹ کو جس حد تک اثر انداز کرتی ہیں اور جس جمالیاتی احساس کی گرہیں کھولتی ہیں اس پر شکیل صاحب کی گہری نظر اور مضبوط گرفت ان کی تنقید کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ فکر اور توازن کے ساتھ مباحث و مسائل کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنے بیانات میں پوری ذمہ داری اور دیانت برتتے ہیں۔ دلائل کے ساتھ ان کی توثیق اور ثبوت مہیا کر دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی اس تصنیف میں چند ایسے مباحث چھیڑے ہیں جو آزاد خیال تنقید کی بنیادوں کو استوار کرتے ہیں۔
شعیب شمس کے ساتھ اپنی ایک گفتگو میں ڈاکٹر شکیل الرحمن فرماتے ہیں :
’’اردو تنقید جنم لیتے ہی مغربی تنقید کے کمبل میں جا گھسی۔ نہ وہ کمبل چھوڑنے کو تیار ہے اور نہ کمبل اسے چھوڑرہا ہے۔ تصورات، نظریات اور خیالات کی بھیک حاصل کر نے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حالت یہ ہے کہ اردو کا ناقد بعض نپے نپائے مغربی خیالات، نظریات اور تصورات کی بنا پر ادبیات کا پروہت، پیشوا یا یہ کہئے کہ Priest بن گیا ہے اور اسے ’’پروہت‘‘ تصور بھی کیا جانے لگا جو بڑی بدنصیبی ہے … معاف کیجئے میں تمام تنقیدی مضامین لکھنے والوں کو نقاد تصور نہیں کرتا۔ تنقید ایک تخلیقی عمل ہے اور یہ سب کاروباری مضامین لکھنے والے ہیں۔ غلط باتیں کہنے اور بے ایمانیوں اور نا انصافیوں کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘
نظریے کے نقادوں کے حوالے سے شعیب کے سوال پر شکیل صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا:
’’اردو تنقید میں بقراط بہت پیدا ہوئے ہیں۔ ایک سقراط نہ پیدا ہو سکا۔ اس بقراطی سے قاری کا ذہن بہت پریشان رہا ہے اور اب بھی ہے۔ ادبی تنقید کا قاری پروہتوں کی باتیں بہت غور سے سنتا اور پڑھتا ہے لیکن مطمئن نظر نہیں آتا… میں نظریے کا مخالف نہیں۔ ناقد کا ’’وژن‘‘ بنتا ہے تو اس میں کئی نظریوں کی روشنی شامل رہتی ہے۔ کوئی بھی ایک نظریہ فنون کی روح میں اتر نہیں سکتا، اور ان کی جمالیات کو سمجھ نہیں سکتا… آج بھی کچھ تنقید لکھنے والوں نے یہ ضروری جانا کہ ان کے سر پر کسی نظریے کی ٹوکری ضرور ہو… یہ ٹوکری نہ ہو گی تو ان کی پہچان نہیں ہو گی۔‘‘
اس پر شعیب شمس نے سوال کیا:
’’آپ بھی تو جمالیاتی نظریے کے حامی ہیں۔‘‘
شکیل صاحب نے جواباً ارشاد فرمایا:
’’…جمالیات کو فلسفہ کی ایک شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک جمالیات کوئی نظریہ نہیں ہے بلکہ جمالیات فنون کی روح ہے۔ تنقید جمالیات کی تلاش ہے۔ تخلیقی فنکار کا تعلق حسن سے ہوتا ہے اور تنقید اس حسن تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے … میری تنقید جمالیاتی نہیں جمالیات کی تلاش،دریافت،بازیافت اور حسن کی نئی تخلیق کا عمل ہے۔ کسی بھی فلسفۂ جمال یا نظرئے ۂ جمال کو اوڑھا نہیں جا سکتا۔ یہ تو پھر وہی کمبل والی بات ہو جائے گی۔‘‘
شکیل صاحب نے اسی ضمن میں مزید فرمایا کہ:
’’اردو کا ناقد ابتدا ہی سے اپنی انا یا ایگو (ego) کا شکار ہے۔ پروہت بننا اس کا منصب نہیں۔‘‘
چونکہ ہم دو صدیوں تک مغربی اقوام کے غلام رہے ہیں۔ محکومیت کے اس دور میں مغربی تنقیدی نظریات سے مرعوب رہنا غیر متوقع نہیں تھا۔ محمود شیخ کی رائے میں :
’’دنیا کی ہر قوم اپنا نظام اخلاق رکھتی ہے۔ فاتح قومیں سب سے پہلے شکست خوردہ اقوام کا نظام اخلاق درہم برہم کرتی ہیں تاکہ اپنی فتح کے اثرات دائمی طور پر قائم رکھ سکیں۔ اگر کوئی فاتح قوم ایسا نہیں کرتی تو اسے ہر دم مغلوب ہونے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ جفا کش اور بہادر قوم کا اخلاق جدا ہوتا ہے اور غلام اور شکست خوردہ اقوام کا اخلاق جدا …میں سوچتا ہوں ادب ہمارا تنقید ان کی۔ معاشرہ ہمارا، ضابطے ان (یوروپ) کے، انسان ہمارا، اخلاقی قواعد ان کے، اجنتا، ایلورا اور تاج محل بنانے والے معمار اور ایفل ٹ اور بنانے والے معمار کی نظر میں کچھ تو فرق ہونا ہی چاہئے۔ ’’گؤ دان‘‘ کیا ہے، اس کے مرکزی کردار ہوری کے کرب کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس رسم کے مذہبی عوامل کو سمجھنا ہو گا۔‘‘
مجنوں گورکھ پوری اور احتشام حسین جیسے نقاد جب یہ کہتے ہیں کہ:
اردو افسانہ اور ناول مغرب کی دین ہیں تو راجندر سنگھ بیدی نے یہ کیوں کہا کہ ’’افسانہ طویل بحر میں لکھی گئی نظم ہے۔‘‘
’’جمالیات اور ہندوستانی جمالیات‘‘ (ص 20) میں قاضی عبدالستار کا کہنا ہے ’’ہر ملک اور قوم کا کلچر اپنے جغرافیائی، سیاسی اور سماجی وسیلوں اور مجبوریوں کے واسطے سے بام عروج تک پہنچتا ہے اور اس ملک اور قوم کے فنون لطیفہ اسی کے کلچر کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور اسی تہذیب کی گود میں پروان چڑھتے ہیں۔‘‘
پھر کیا کارن ہے کہ ہم اپنے تخلیقی عمل کی تنقید مغرب سے مستعار لیتے ہیں۔ اردو کے جن تنقید نگاروں نے اپنی شخصیت اور قابلیت کا سکہ جمانے کے لیے مغربی نظریات تنقید کی بیساکھی تھامنے کا رجحان عام کیا، ان کے باعث نہ صرف تنقید کا معیار ہی پست ہوا بلکہ قاری اور ناقد کے مابین کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی، اس کا حاصل محض تھا لوگوں میں تنقیدی شعور کا فقدان۔
تنقید میں مشرق کی بازیافت اور ادب پاروں میں جمالیات کی جستجو ہی میں ڈاکٹر شکیل الرحمن نے ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ ’’مولانا ر ومی کی جمالیات‘‘ ’’قرآن حکیم جمالیات کا سرچشمہ‘‘ ’’امیر خسرو کی جمالیات‘‘ جیسے تنقیدی شاہکار تصنیف کیے ہیں، اسی لیے شکیل صاحب کے مطابق ’’ادبی اور فنی تنقید گیان دھیان کا تقاضا کرتی ہے اور اس کے لیے ’’بدھیت‘‘ کی سطح تک پہنچنے کی کوشش ضروری ہے۔ گوتم بدھ جیسے مزاج سے ہم آہنگی کا مطلب ہی یہی ہے کہ masculine (مذکر) اور feminine (مؤنث) ذہن کی آمیزش ضروری ہے۔ ادبی تنقید صرف masculine ذہن سے کام لے گی تو ظاہر ہے کہ تنقید تباہ کن ہو جائے گی۔ اس کا وہی حشر ہو گا جو پروفیسر کلیم الدین اور دوسرے ایگو پرست (egoist) نقادوں کا ہوا ہے … ’’بدھیت‘‘ کی منزل حاصل ہوتے ہی ناقد محبت اور انبساط کا پیکر بن جاتا ہے۔ دوسروں کو جمالیاتی انبساط عطا کر نے لگتا ہے۔‘‘
اس کے برعکس جمالیات کی اصطلاحی تبلیغ جو انیسویں صدی کے آخر میں والٹر پیٹر اور آ سکر وائلڈ نے کی اس کے لیے انہوں نے حسن کے پیچ و خم میں اتنی مبالغہ آرائی کی کہ ادب میں فن برائے فن کی لایعنی نزاکت پیدا کر دی۔ ایڈگرایلن بو اور بودلے ئر نے اس نظریے کی اصلاح کر نے کی دھن میں جمالیات کی تشریح و تفسیر کو اور بھی الجھا دیا اور اس کا سلسلہ حسن وقبح سے جوڑ کر اخلاقیات کے ساتھ گڈمڈ کر دیا۔ ادھر کروچے کی جمالیات ’’اظہاریت‘‘ پر مرکوز رہی۔ اس کی نظر میں وجدان الفاظ کی دین ہے۔ صحیح الفاظ کے بغیر کسی روحانی تجزیے یا احساس حسن کی تشکیل ناممکن ہے۔ جمالیات کا قالب اظہار کی ترتیب کا محتاج منت ہے۔ فن اور ادب میں انبساط و نشاط بھی ترکیب و ترتیب کے عناصر سے حاصل ہوتا ہے اور دوام پاتا ہے۔ مواد کی نوعیت کے علاوہ ہے بت کے حسن میں بھی فنکار کے خون جگر کی آمیزش ہوتی ہے۔
لیکن شکیل الرحمن کی رائے میں ادب میں حسن و جمالیات کی کھوج اور نشان دہی کا لطیف تصور وہ ہے جس کی روشنی اقبال کے اس شعر میں ملتی ہے :
حسن آئینۂ حق اور دل آئینۂ حسن
دلِ انساں کو ترا حسنِ کلام آئینہ
اور وہ ادبی فن پاروں میں اسی Intrinsic Beauty(حسنِ کلام) کی تلاش و تجسس کرتے دکھائی دیتے ہیں :
’’فکشن کے فنکار پریم چند‘‘ کو ڈاکٹر شکیل الرحمن نے فلم ڈائرکٹر ستیہ جیت رے سے معنون کیا ہے ’’جنہوں نے‘‘ پریم چند کے افسانے کے فن کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ کرتے ہوئے ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ کو اپنی بے پناہ فنی صلاحیتوں کے ساتھ پردہ سیمیں پر پیش کیا۔‘‘ اسی کے ساتھ وہ کتاب کے ابتدائی صفحات ہی میں اس حقیقت کا بھی انکشاف کرتے ہیں کہ یہ کتاب ’’چالیس سال ہوئے 1960 میں لکھی گئی تھی۔ مسودہ کاغذات میں کہیں گم رہا۔‘‘
شکیل صاحب منشی پریم چند کو ایک بڑا افسانہ نگار تسلیم کرتے ہیں۔ وہ انہیں بڑا ناول نگار نہیں مانتے کیونکہ بقول ان کے پریم چند کے ناولوں کے کردار پوری طرح اپنی نفسیات کے ساتھ نہیں ابھرتے، کرداروں کی تشکیل میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ تحریک آزادی کے دور کے واقعات، طبقاتی مفاد، دیہاتی زندگی کے نشیب و فراز، عدم تعاون، گاندھی-ارون سمجھوتہ وغیرہ اور اسی نوع کے دوسرے خارجی مسائل و عوامل کا ذکر ناولوں کو اونچا اٹھانے کی دانستہ کوشش تھی مگر ہمارے نقادوں کی توجہ محض انہی خارجی عوامل پر اور اصلاحی نقطۂ نظر پر مرکوز رہی اور وہ ناولوں کی جذباتیت اور باطنی محاسن، کرداروں کی نفسیاتی کشمکش اور زیریں جمالیاتی لہر کو نظر انداز کرتے رہے۔ شکیل صاحب کی نگاہ میں کرداروں کا نفسیاتی رد عمل، ذہنی اور جذباتی تصادم، باطنی کشمکش اور اس سے جنم لینے والا طربیہ یا حزنیہ رد عمل زیادہ توجہ کے مستحق ہیں نہ کہ خارجی سچائیاں جو وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ ان کی رائے میں پریم چند کے افسانوں میں جذباتی اور تخیلی فضا ناولوں کے بمقابلہ زیادہ رچی ہوئی ہے جو انہیں عظیم فنکاروں کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔ ان کے ناولوں میں داستانیت اور اس سے پھوٹنے والی رومانیت ملتی ہے۔ لیکن پلاٹ کے لحاظ سے ان ناولوں کی تاریخی اہمیت زیادہ ہے، فنی اہمیت اتنی نہیں۔ ان کے ناول ’’جلوۂ ایثار‘‘ میں ایک واضح اصلاحی مقصد ہے لیکن شکیل صاحب کی رائے میں اصلاحی نقطۂ نظر کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے نقادوں کو اس کی اصل خوبی، بیوہ کے المیہ کے حوالے سے کرداروں کی نفسیاتی اور جذباتی کشمکش کا تجزیہ کرنا چاہئے۔
پریم چند کے ناول ’’نرملا‘‘ میں شکیل صاحب اس کی رومانیت اور فکر کو ناول کی ٹریجڈی میں نمایاں دیکھتے ہیں۔ اس میں عام سیاسی اور اجتماعی مسائل سے گریز اور ایک روحانی المیہ کو سماجی عمل کی صورت میں دیکھنے کی کوشش ہے۔ ماحول کے ایک خاص پہلو اور نفسیات کے ایک خاص رخ سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہاں محسوس ہوتا ہے کہ تمدن اور معاشرت محض خارجی زندگی کا نام نہیں بلکہ داخلی زندگی کا بھی نام ہے۔ طوطا رام اور نرملا کے ذہنی تصادم سے اور کشمکش سے المیہ پیدا ہوتا ہے جو متاثر کرتا ہے۔
پریم چند پر تحقیق کر نے والے ڈاکٹر قمر رئیس کی رائے سے شکیل صاحب متفق نہیں کیونکہ قمر رئیس اپنے اشتراکی ذہن کے باعث پریم چند کے ہر ناول میں اجتماعی زندگی کے اہم مسائل ہی ڈھونڈتے رہے اور انہوں نے ’’نرملا‘‘ کو ہلکا پھلکا اصلاحی ناول قرار دیا۔ اس ناول میں سیاسی اور اجتماعی مسائل سے پریم چند کے گریز کا سبب وہ یہ قیاس کرتے ہیں کہ:
’’ملک کی سیاسی سرگرمیوں کو غیر معین عرصہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ ہزاروں سیاسی کارکن اور قومی رہنما جیل کی آہنی دیواروں میں قید تھے جو باہر تھے ان پر حکومت کی کڑی نگرانی تھی۔ ان حالات میں پریم چند نے بھی چند معاشرتی مسائل کو اپنا کر ملک کے سیاسی امور پر سوچنے سے گریز کیا۔‘‘ (قمر رئیس، پریم چند بحیثیت ناول نگار، صفحہ 252)
آگے بھی قمر رئیس نے اسی نوع کے مفروضات سے کام لیا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر وہ ایک مستقل ذریعۂ معاش سے محروم ہو گئے تھے۔ معاشی دقتوں کے ساتھ اسی زمانہ میں پیچش کا مرض بھی زور پکڑگیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس زمانے میں زیادہ تر مختصر افسانے لکھتے رہے۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ پریم چند کے اس دور کے افسانے تخلیقی نہیں تھے۔ شکیل الرحمن کی رائے میں ’’اردو تنقید میں ایسی مصنوعی تخم ریزی کے نتائج اچھے نہیں نکلے ہیں۔ وہ ’’نرملا‘‘ کو ایک ’’مکمل اچھا مختصر ناول‘‘ تسلیم کرتے ہیں۔
ناول ’’ہم خرما وہم ثواب‘‘ میں آریہ سماجی خیالات، مندروں کے تماشوں، قدامت اور جدت پسندی کے ٹکراؤ کے بمقابلہ پربھا کی خاموش محبت اور دان ناتھ کی رقابت کی فنکارانہ عکاسی اسی ناول میں زیادہ قابل توجہ فنی عنصر ہے کیونکہ اس کے پلاٹ کی بنیادی خصوصیت جذبوں کا تصادم ہے نہ کہ مذہب، رسم و رواج، معیشت اور معاشرہ جو کہ پس منظر میں ہیں۔ امرت رائے کا ذہنی خلفشار، بیوی اور بچے کی موت، گہری سنجیدگی اور جذبوں کا تصادم، بیوہ پریما کی نفسیاتی کشمکش، اندرونی ویرانی کا احساس زیادہ قابل توجہ ہیں لیکن ناول کے پلاٹ اور اس کے کرداروں پر اصلاحی نقطۂ نظر زیادہ حاوی ہو گیا ہے۔
بازار حسن پر بیشتر ناقدوں نے تنقید کرتے ہوئے ملک کی سیاسی زندگی کا تجزیہ کیا ہے جو دراصل محض پس منظر ہے۔ اس کے مرکزی کردار سمن کے جذبات و احساسات کے مطالعہ کو فوقیت ملنی چاہئے نہ کہ تقسیم بنگال کی تحریک اور تلک اور گوکھلے کی جد وجہد کو۔ مرکزی کردار کی تشکیل میں ناول نگار کے فنکارانہ شعور کو کس قدر دخل ہے، یہ زیادہ ضروری ہے۔ سمن کی ناکام شادی کا المیہ اور تلملاہٹ اور آزاد بازاری زندگی میں نفسیاتی سکون ڈھونڈنا ان سب کے بیان میں پریم چند کی فنکاری کی خوبیاں سامنے آتی ہیں لیکن اصلاحی نظریہ یک لخت غالب آ جاتا ہے اور فنکاری دب جاتی ہے۔
شکیل صاحب مانتے ہیں کہ ’’پردۂ مجاز‘‘ میں پریم چند کی رومانیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اس میں مقصد فن پر غالب نہیں آتا۔ سیاسی واقعات پریشان نہیں کرتے، فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ یہ ناول نئی رومانیت کی اچھی تصویر ہے۔ خارجی واقعات آزادی کی جد و جہد، فرقہ وارانہ فسادات، اتحادی مسئلہ وغیرہ سب پس منظر میں ہیں۔ ان سے کرداروں کے ارتقا پر اثر نہیں پڑتا۔ شکیل اس ناول کے اسلوب کی رومانیت کو پرکشش مانتے ہیں۔
’’گوشۂ عافیت‘‘ میں پریم چند کی فنکاری عروج پر ہے۔ شکیل الرحمن اسے تکنیکی اعتبار سے ایک کامیاب ناول ٹھہراتے ہیں۔ اس میں رزمیہ اور المیہ کا متوازن امتزاج ہے۔ اس کے کردار معاشرے کے مختلف طبقوں کے نمائندہ ہیں۔ بلراج نمائندہ طبقاتی کردار ہے۔ پریم چند کے رومانی ذہن نے اس کردار کی تشکیل میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اس میں وہ خصوصیات ہیں جو پریم چند نئے دور کے کسان میں دیکھنا چاہتے تھے۔
ناول ’’غبن‘‘ میں شکیل صاحب متوسط طبقے کی ذہنیت اور کھوکھلی زندگی کی عکاسی دیکھتے ہیں۔ اس کے پلاٹ کی تشکیل مغربی ناولوں کی تکنیک کے مطابق ہوئی ہے لیکن تکنیک کے لحاظ سے وہ اسے کمزور ناول قرار دیتے ہیں۔ پلاٹ کے غیر ضروری پھیلاؤ، طویل غیر فطری مکالموں کے باعث رومانیت خارجی حقیقتوں میں دب کر رہ گئی ہے۔ محنت کش طبقے کے مسائل، مزدوروں اور کسانوں کو جبر و استحصال کی قوتوں کے خلاف متحد کر نے کی کوشش، اچھوتوں کی بدحالی اہم موضوعات ہیں لیکن ان خارجی حقیقتوں کا تفصیلی بیان فن تو نہیں۔
’’چو گان ہستی‘‘ کو شکیل صاحب ’’گؤ دان‘‘ سے عمدہ تر ناول مانتے ہیں۔ اس میں تجربوں کو پیش کر نے کا انداز زیادہ فنکارانہ ہے۔ جذبات اور احساسات کی اہمیت زیادہ ہے۔ سور داس اور صوفیہ دونوں مثالی کردار ہیں اور رومانی پیکر۔ مثالیت پسندی اور آئیڈیل ازم کی علامتیں۔ صوفیہ اور وِنے کی رومانیت، ان دونوں کرداروں کے ساتھ ایک پورا معاشرہ ملتا ہے جو اپنی وسعت اور تضادات کے ساتھ مختلف طبقوں کے مسائل کو فنی سطح پر نمایاں کرتا ہے۔
’’گؤ دان‘‘ میں ہوری ایک علامتی کردار بن کر ابھرتا ہے۔ یہ ناول شکیل الرحمن کی رائے میں اردو فکشن میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے۔ وہ خارجی اور داخلی تصادم کو اس ناول کا بنیادی حسن مانتے ہیں۔ ’’گؤ دان‘‘ کے ذریعہ اردو فکشن میں ’’کتھار سیس‘‘ ہوئی ہے جس کی حیثیت مسلّم ہے۔ چھوٹی سی آرزو مرکزی کردار کے جذبات کے کئی رنگ سامنے لاتی ہے۔ ہوری پرانی روایات کے ساتھ گاؤں کی معصوم زندگی کی علامت بن جاتا ہے۔
ناول اور افسانے کو آگے بڑھانے کے لیے شکیل الرحمن ’’تیسرے آدمی‘‘ اور ’’تیسری طاقت‘‘ کو لازمی عنصر قرار دیتے ہیں۔ ’’تیسرا آدمی‘‘ شہر اور گاؤں کی زندگی میں کارخانوں میں، کھلیانوں میں، سیاست کے گلیاروں میں بھی ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ وہ کہیں مددگار کا رول ادا کرتا ہے تو کہیں ویلن کا شیطانی رول۔ وہ صرف اپنے مفاد پر نظر رکھتا ہے۔ اس کی دوستی یا رقابت دونوں افسانے یا ناول کے قصے کو دلچسپ اور سسپنس بھرا بناتے ہیں۔ شکیل صاحب کی نگاہ میں افسانے کا اصل ہیرو یہی ہوتا ہے حالانکہ ہم اسے ہیرو سمجھنا نہیں چاہتے۔ پریم چند نے اپنے فکشن میں اس تیسرے شخص کو بڑی کامیابی سے برتا ہے اور قصے کو کامیاب بنانے کے لیے حسب منشا کام لیا ہے۔
اس تیسری شخصیت کے بغیر ناول اور افسانہ میں داخلی اور خارجی اقدار کی نقاب کشائی نہیں ہوتی۔ پلاٹ کے پھیلاؤ اور واقعات کی گوناگونی میں اس کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ یہ تیسری شخصیت کرداروں کے عمل اور رد عمل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ پلاٹ میں تیزی، نوکیلا پن اور تیکھا پن لاتی ہے جس کی وضاحت اور تجزیہ شکیل صاحب نے اپنی اس تصنیف کے تیسرے باب میں بہت باریکی سے کیا ہے۔ پریم چند کے افسانہ ’’گھاس والی‘‘ میں چین سنگھ، ’’دو سکھیاں‘‘ میں بھون داس گپتا، ’’حقیقت‘‘ میں پورنیما سے شادی کر نے والا ادھیڑ عمر کا مغرور آدمی’ ’’نئی بیوی‘‘ میں ایک نوعمر لڑکا جگل، ’’نگاہ ناز‘‘ میں گوپال کی بیوی کامنی سے چھپ چھپ کر ملنے والا ٹیچر روپ چند اس تیسری شخصیت کی چند مثالیں ہیں۔ اس تیسرے آدمی کی کردار نگاری میں پریم چند نے اس انسان کی جبلت اور نفسیات کو گہرائیوں تک ٹٹولا ہے جو شکیل صاحب کی نگاہ میں پریم چند کے فن کی بلندی کا غماز ہے۔
اسی طرح کچھ لوگ ایک ساتھ مل کر تیسری طاقت بن جاتے ہیں اور ان کے عمل سے واقعات میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ کہانی میں کشمکش اور المیہ کے عناصر پیدا ہوتے ہیں۔ مذہب اور برادری کے نام پر یہ انتشار پیدا کرتی ہے۔ کہیں رحمت بن کر آتی ہے تو کہیں عذاب۔ مذہبی زندگی میں دیوتاؤں اور انسانوں کے درمیان پجاریوں کے روپ میں، کھیت اور کاشتکار کے بیچ زمیندار کی حیثیت میں، گھریلو زندگی میں شوہر اور بیوی کے درمیان نوکرانی یا کسی غیر عورت کی شکل میں اس تیسری شخصیت کو پریم چند بقول ڈاکٹر شکیل الرحمن متعارف کرانے میں بہت محتاط رہتے ہیں۔
پریم چند کے افسانوں میں عورت کرداروں کا بھی ڈاکٹر شکیل الرحمن بغور مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ان کرداروں میں نرگسیت میں مبتلا عورتیں بھی ہیں اور شاداب محبت سے سرشار لڑکیاں بھی، شادی شدہ عورتوں کی شوہر پرستی بھی ہے اور بیوہ عورتوں کی ویران زندگی بھی۔ طوائفیں بھی ہیں اور نفسیاتی کشمکش میں گرفتار لڑکیاں بھی، خود فریبی میں مبتلا عورتیں بھی۔ شوہر، بیوی، ماں بیٹے کے رشتوں کے مختلف پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ ’’دو بہنیں‘‘ کی روپ کماری، ’’بازیافت‘‘ کی عورت، ’’نئی بیوی‘‘ ، ’’سہاگ کا جنازہ‘‘ ، ’’دیوی‘‘ ، ’’دو سکھیاں‘‘ وغیرہ کہانیوں کے مرکزی نسوانی کردار نرگسیت کی پیکر ہیں۔ عورت کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور جنسی جبلت کا تحرک، ’’زاد راہ‘‘ کی مس پدما کے مطالعہ میں نفسیاتی بوالعجبیوں کو بھی پریم چند نے نمایاں کیا ہے۔
شکیل صاحب کی رائے میں عورتوں کی کردار نگاری میں ’’پریم چند کا مطالعۂ قوت نفسی، شعور و لا شعور کی کشمکش، مختلف خواہشات کے انوکھے اظہار، نرگسیت، اعصابی خلل، زندگی کو نمونہ بنانے کی تمنا، نفسیاتی دباؤ، محبت، نفرت اور حسد کا اظہار، ذات کو توجہ کا مرکز بنانے کی خواہش، نرگسی چھیڑ، فکری اور عقلی الجھاؤ، احساس کمتری، واہمے اور خواب، جنسی جبلت کی دلفریبی، نفسیاتی تعصب، فریب نظر، تحفظ ذات، شناخت ذات، اشاعت ذات، احساس شکست، شکست کے بعد پہلی حالت میں مراجعت کی آرزو‘‘ وغیرہ ان سب کا مشاہدہ اور عکاسی قابل ستائش ہے۔
’’رام لیلا‘‘ ، ’’قزاقی‘‘ ، ’’عید گاہ‘‘ ، ’’سوتیلی ماں‘‘ ، ’’بوڑھی کاکی‘‘ ، ’’تیور‘‘ ، ’’ماں کا دل‘‘ ، ’’مہاتیرتھ‘‘ (حج اکبر)، ’’گلی ڈنڈا‘‘ ، ’’دو بیل‘‘ ، ’’مندر‘‘ ، ’’چوری‘‘ ، ’’بڑے بھائی صاحب‘‘ ، ’’دودھ کی قیمت‘‘ وغیرہ بچوں کے کردار کی اچھی کہانیاں ہیں۔ لیکن بقول شکیل الرحمن بچوں کی جذباتی زندگی کے ارتقا کی بہت اچھی کہانیاں پریم چند نہیں سناتے۔ ان کہانیوں میں بچوں کے جذبۂ عقیدت، ہیرو پرستی، نفسیاتی الجھن، حیرت و استعجاب، معصومیت، اذیت ناک صدموں، نفسیاتی رد عمل، نفسیاتی آسودگی، آرزومندی، اداسی، المیہ اور احتجاج وغیرہ کی عکاسی ہے۔ مثال کے طور پر ’’رام لیلا‘‘ میں پریم چند نے اپنے بچپن کے جذبۂ عقیدت اور ہیرو پرستی کی چھاپ چھوڑی ہے۔ ایک طرف ہیرو رام ہیں تو دوسری طرف چودہری صاحب وِلن کی طرح سامنے آتے ہیں اور ان کے والد بھی۔ جب وہ رام چندر کو ایک پیسہ تک نہیں دیتے لیکن آبادی جان طوائف کو جھٹ سونے کی اشرفی نکال کر دے دیتے ہیں تو پریم چند اس بیٹے کے نفسیاتی رد عمل کو یوں بیان کرتے ہیں :
’’اسی روز سے والد صاحب پر سے میرا اعتماد اٹھ گیا۔ میں نے پھر کبھی ان کی ڈانٹ ڈپٹ کی پروا نہیں کی۔‘‘
’’میرا دل کہتا ہے کہ آپ کو مجھے نصیحت کر نے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ مجھے ان کی صورت سے نفرت ہو گئی۔ وہ جو کہتے ہیں میں ٹھیک اس کے برعکس کرتا۔‘‘
پریم چند کی تیز نگاہ بچوں کی نفسیات پر کتنی گہری ہے۔ بچے کی نفسیات، ذہنی الجھن، دوستی اور محبت، عقیدت اور اندیشہ جو افسانہ ’’سوتیلی ماں‘‘ کا مرکزی خیال ہے، ملاحظہ ہو۔ سوتیلی ماں بچے کو بے حد پیار کرتی ہے لیکن وہ خوف زدہ ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں یہ ماں بھی اسے چھوڑ کر نہ چلی جائے۔ بقول شکیل صاحب یہ ایک دلچسپ نفسیاتی نکتہ ہے۔
کہانی ’’بوڑھی کاکی‘‘ میں بچی لاڈلی ایک غیر محسوس قوت ہے جو بڑوں کی بنائی ہوئی دنیا پر عملی طور پر معصومانہ تنقید کرتی ہے جب وہ رات کو چوری چوری اپنے حصے کی پوریاں بوڑھی کاکی کو جا کر کھلاتی ہے۔
اسی طرح ’’عیدگاہ‘‘ ، ’’دو بھائی‘‘ ، ’’خواب راحت‘‘ ، ’’ناداں دوست‘‘ ، ’’اناتھ لڑکی‘‘ وغیرہ میں بقول شکیل صاحب پریم چند نے بچوں کے معصوم ذہنوں کی کشمکش کو نزاکتوں کے ساتھ ابھارا ہے، جہاں کہیں چھوٹے لڑکوں کے خوف کی عکاسی بھی کی تو اس خوف کو ’’فوبیا‘‘ Phobia نہیں بنایا۔ پریم چند بچوں کے ذہن اور ان کی نفسیات کے بھی ایک بڑے فنکار ہیں۔
پریم چند کے فکشن میں ایک غالب عنصر کھلاڑی پن بھی ہے جس کا شکیل الرحمن نے غائر مطالعہ کیا ہے۔ منشی دیا نرائن نگم ایڈیٹر ’’زمانہ‘‘ کانپور کو ایک خط میں پریم چند لکھتے ہیں :
’’دنیا کو ایک تماشا گاہ یا کھیل کا میدان سمجھ لیا جائے۔ کھیل کے میدان میں وہی شخص تعریف کا مستحق ہوتا ہے جو جیت سے پھولتا نہیں، ہار سے روتا نہیں۔ جیتے تب بھی کھیلتا ہے اور ہارے تب بھی کھیلتا ہے۔ جیت کے بعد یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہار یں نہیں۔ ہار کے بعد جیت کی آرزو ہوتی ہے۔ ہم سب کے سب کھلاڑی ہیں …‘‘ (زمانہ، پریم چند نمبر، ص 9)
شکیل صاحب فرماتے ہیں :
’’وہ کھیلنے میں کوتاہی کے قائل نہیں۔ ان کی زندگی کا بنیادی تصور ہے۔ یہ کوئی حکیمانہ نظریہ یا تصور نہیں۔ پریم چند کے تجربوں اور ان کی آرزو مندی سے یہ حقیقی تصور پیدا ہوا ہے۔ ان کے فکشن کے بعض کردار بھی زندگی کو کھیل کا میدان سمجھتے ہیں۔ چو گان ہستی کا سور داس بھی ایک کھلاڑی ہے۔ وہ ایک مثالی کردار ہے۔ ’’گؤدان‘‘ کے مسٹر مہتہ کہتے ہیں : ’’زندگی میرے لیے خوشی سے بھرا کھیل ہے۔‘‘ کھیل زندگی کو ایک عبادت بنا دیتا ہے۔ عمل اور مسلسل عمل کی ترغیب سے کھیل کے تصور میں وسعت بھی آتی ہے اور گہرائی بھی۔ کھیل کے میدان میں کھلاڑی مختلف انداز سے عمل پیرا ہوتے ہیں۔ یہاں کشمکش ہے تصادم ہے۔ سازش، نفرت، گھٹن، آزادی، شخصیتوں کا سادہ عمل بھی، پیچیدہ عمل بھی، شکست بھی اور فتح بھی۔ ’’چو گان ہستی‘‘ کے سور داس اور مہتہ جیسے کھلاڑی کھیل کو معمولی سے غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔‘‘
شکیل الرحمن پریم چند کے المیہ کرداروں کی حقیقی اور فطری کردار نگاری کے قائل ہیں۔ ’’کفن‘‘ کے گھیسو اور مادھو قابل ذکر المیہ کردار ہیں۔ نفسیاتی تصادم، متضاد نقطۂ نگاہ کی کشمکش سے ذہنی تصادم پیدا ہوتا ہے اور ٹریجڈی کو جنم دیتا ہے۔ بدھیا جو مادھو کی جوان بیوی ہے درد زہ میں جان دے دیتی ہے۔ لاش کی تکفین کے لیے ان کنگالوں کے پاس پیسہ نہیں۔ لوگ چندہ کر کے کفن کے لیے پانچ روپے جمع کر دیتے ہیں۔ باپ بیٹے اسی بہو کی مشقت کے سہارے جیتے ہیں لیکن اب چندے کے پانچ روپیوں کو گھیسو للچائی نظروں سے دیکھتا ہے اور دلیل دیتا ہے کہ ’’جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑے بھی نہ ملے اسے مر نے پر نیا کفن چاہئے کفن تو لاش کے ساتھ جل ہی جاتا ہے‘‘ پھر وہ چندے کے روپیوں سے شراب پیتے ہیں، مچھلی کھاتے ہیں۔
شکیل فرماتے ہیں :
’’پریم چند کے فن کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے طبقاتی زندگی کے المیہ کرداروں کی ٹریجڈی پر اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ اردو افسانوں کے المیات پر تیز اور گہری روشنائی سے دستخط کر کے پریم چند نے پہلی بار المیہ کے حسن کا شعور بخشا ہے۔ ’’حقیقت‘‘ کا امرت، ’’کفارہ‘‘ کا مراری لال، ’’گھاس والی‘‘ کا چین سنگھ، ’’دو سکھیاں‘‘ کا ونو، ’’پوس کی رات‘‘ کا ہلکو، ’’دست غیب‘‘ کا جیون داس، ’’شطرنج کی بازی‘‘ کے میر اور مرزا اسی طرح کے المیہ کردار ہیں۔‘‘
فضا نگاری میں بھی پریم چند نے اپنی فنکاری کا ثبوت دیا ہے۔ ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ میں میر اور مرزا کی موت لکھنؤ کے جاگیرداری نظام کی موت ہے۔ ڈرامائی کشمکش اور تصادم، شخصیت کے داخلی دباؤ دفاعی میکانکیت سے المیہ کرداروں نے ایک معیار قائم کیا ہے۔
پریم چند کے افسانوں کی تکنیک بھی تنقید نگاروں کی خاص توجہ اور مشاہدہ کی مستحق ہے۔ شکیل الرحمن رقم طراز ہیں :
’’پریم چند کی تکنیک کا حسن و جمال، مرکزی خیال اور واقعات کی پیشکش میں ہے۔ نفسیاتی مشاہدوں سے تکنیک کے حسن میں اضافہ ہوا ہے اور جمال نکھرا ہے …بنیادی جبلتوں کے اظہار، شعور و لا شعور کی کشمکش، حسّی کیفیات، جذباتی ہیجانات، نفسیاتی محرکات، نفسیاتی عمل اور رد عمل، شخصیت کی نفسیاتی تشکیل، نرگسیت، الجھاؤ، جنسی برتاؤ اور حسی تصورات و علامات سے موضوعات کی شگفتگی اور کرداروں کا جمال و جلال تکنیک کے جمالیاتی پہلو بن گئے ہیں …افسانوں کی فنی ترتیب سے تناسب اور فنی باریکیوں کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔‘‘
شکیل صاحب کی رائے میں پریم چند کے فکشن کا اسلوب تجربے کے بطن سے پھوٹا ہے۔ کرداروں کے عمل اور رد عمل سے جو نفسی کیفیتیں پیدا ہوئیں اور ان کا جو نفسیاتی ارتقا ہوا ہے ان سے اسلوب تیکھا اور نوکیلا بنا ہے۔ اس میں شدت اور رفعت بھی پیدا ہوئی ہے، منطقی اور متوازی انداز بیان، عبارتوں میں صفائی، نفاست، بہاؤ اور تیزی، صوتی دلآویزی اور سحر طرازی، حسی پیکر اور عام محاوروں کا استعمال پریم چند کے اسلوب کو اور جان پرور بناتے ہیں۔ منظر نگاری، عربی اور فارسی الفاظ، تراکیب اور ضرب الامثال سے بڑی مدد لی گئی ہے۔ تشبیہات میں فکری رنگ آمیزی، مکالموں کی بے ساختگی، طبقاتی لب و لہجہ پر کڑی نظر فضا نگاری اور منظر نگاری کے وسیلے سے اپنا منفرد اسلوب خلق کرتے ہوئے فنکار نے اپنی عمدہ روایات سے روشنی حاصل کی ہے۔
شکیل الرحمن کے بقول پریم چند کے فکشن کی نکھری ستھری زبان اور بنیادی لہجے کی تراش خراش سے نئے رنگ و آہنگ پیدا ہوئے ہیں، مانوس اور عام مستعمل فارسی تراکیب کا استعمال کھٹکتا نہیں بلکہ عبارتوں میں اس سے کشش پیدا ہوتی ہے۔ جہاں میناکاری اور رمزیت ہے، وہاں افسانوں کی زبان اسلوب کو مزید نکھار دیتی ہے۔ جہاں جہاں عام فہم ہندی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ فطری نظر آتے ہیں اور بھلے لگتے ہیں۔ مجموعی طور پر پریم چند کی زبان اور اسلوب عجمی اور ہندی روایات کا خوبصورت امتزاج پیش کرتے ہیں۔
کتاب کے آخری باب میں شکیل الرحمن صاحب نے پریم چند کی شخصیت کا بہت خوبصورت اور حقیقت پسندانہ جائزہ پیش کیا ہے۔ 31جولائی 1880 کی اتر پردیش کے گاؤں لمہی (ضلع بنارس) کے ایک سریواستو (کائستھ) گھرانے میں جنم لینے والے دھنپت رائے (ادبی نام منشی پریم چند) جو دنیائے ادب میں اپنے دوامی نقوش ثبت کر کے 8 اکتوبر 1936 کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے، خود میں ایک محشر خیال تھے۔ شکیل الرحمن ان کی شخصیت کی توزین کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’شخصیت صرف صورت نہیں معنی بھی ہے۔ محشر خیال اور شہر آرزو دونوں کی تلاش ضروری ہے۔‘‘ بیشتر نقادوں کی نگاہ میں پریم چند کی سادگی، خلوص، دیانت داری، انسانی دردمندی ان کی شخصیت کے مطالعہ میں مقدم رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر اندرناتھ مدان، ڈاکٹر رام بلاس شرما،ڈاکٹر رام رتن بھٹناگر اور ہنس راج رہبر سماجی اور اصلاحی نقطۂ نظر سے ان محاسن کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لہٰذا پریم چند کی زندگی ایک سیدھی لکیر کی طرح سامنے آتی رہی ہے۔
پریم چند نے ایک بار لکھا تھا:
’’میری زندگی ہموار میدان کی طرح ہے جس میں کہیں کہیں گڑھے تو ہیں لیکن ٹیلوں اور پہاڑوں، گہری کھائیوں اور غاروں کا پتہ نہیں۔‘‘ (زمانہ پریم چند نمبر صفحہ 3)
لیکن شکیل صاحب کا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ:
’’شخصیت کبھی سیدھی لکیر نہیں ہوتی۔ یہ لکیر ٹیڑھی ہوتی ہے اور یہ لکیر کئی سطحیں اور گہری تہیں رکھتی ہے۔‘‘
پریم چند کی دوسری بیوی شریمتی شیورانی دیوی کی تصنیف ’’پریم چند گھر میں‘‘ پریم چند کی شخصیت کے کئی عقدے وا کرتی ہے اس میں بقول شکیل الرحمن:
’’پریم چند گوشت پوست کے انسان اور روح کی بیداری کے ایک پیکر نظر آتے ہیں۔‘‘
پریم چند کے تجربے بڑے تلخ تھے۔ زندگی کا بیشتر حصہ پریشانیوں سے جوجھتے گزرا۔ آٹھ برس کی عمر میں ان کی والدہ کی موت، سوتیلی ماں کی آمد، ممتا کی پیاس، تنہائی، ایک بدصورت عورت کے ساتھ پہلی مایوس کن شادی، معاشی الجھنیں اور تنگ دستی، تعلیم کا ادھورا رہ جانا، پہلی بیوی سے علیحدگی، ملازمت کی مشکلات اور نا انصافیاں، آفاقی نا انصافیاں اور ان سے پھوٹتا جذبۂ احتجاج، ’’سوز وطن‘‘ کی اشاعت پر فرنگی حکومت کا عتاب اور زمانہ پریس سے شائع شدہ اس کتاب کا ضبط ہونا اور نذر آتش کر دیا جانا، فلمی دنیا سے اپنی انفرادیت اور انا کے باعث بے نیل ومرام واپسی، آخری دنوں میں اپنے جاری کردہ ہندی رسالہ ’’ہنس‘‘ کو زندہ رکھنے کی تشویش و خدشات، ان سب عوامل کو شکیل الرحمن پریم چند کی تخلیقات اور شخصیت کے رد عمل میں نمایاں دیکھتے ہیں۔ مشکل وقت میں اردو زبان نے بھی انہیں معاشی سہارا نہ دیا جس کے باعث وہ اس سے بدگمان بھی ہوئے۔ ان سب حقائق کے مرتب کردہ اثرات کو پریم چند کی شخصیت کے مطالعہ میں ڈاکٹر شکیل الرحمن پیش نظر رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ فرماتے ہیں :
’’پریم چند کی زندگی ایک انسان کی زندگی تھی لہٰذا اس میں قوسین، علامات، اقتباس، نقاط، خطوط وحدانی، استفہام، تعجب اور وقف خفیف اور وقفہ سب موجود ہیں۔ اس کی پاکیزگی انسان کی پاکیزگی ہے جو فرشتوں کی نہیں ہو سکتی۔‘‘
شکیل صاحب کی رائے میں : ’’حقیقت یہ ہے کہ پریم چند کے تجربے گوشت پوست کے ایک ایسے انسان کے تجربے ہیں جو حساس بھی ہے، اپنی نگہہ بھی رکھتا ہے اور نفسیاتی گتھیوں کو خود مختلف سطحوں پر سلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مجھے یہی پریم چند پسند ہیں جو اپنی خوبیوں اور کمزوریوں اور اپنی نفسیاتی کیفیتوں اور نفسیاتی عوامل سے پہچانے جاتے ہیں …جن کی سماجی ذمہ داری اور تعمیری رویہ پر ان کی رومانیت کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ نفسیاتی احتیاط اور ضبط و تحمل کے باوجود جن کے یہاں جذبات کی فراوانی اور وجدان کی افراط ہے۔ بار بار تلخیوں سے دو چار ہوتے ہیں۔ جذبات پر قابو رکھتے ہیں لیکن ان کی نفسیات متاثر ہوتی رہتی ہے۔‘‘ لیکن نفسیاتی احتیاط و ضبط سے کام لیتے ہیں جو مشرقی روایات اور ہندوستانی معاشرے کی قدروں سے مرتب ہوتا ہے۔‘‘