شیخ عقیل احمد
پروفیسر شکیل الرحمن ہندوستانی جمالیات کا تنقیدی استعارہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے ادب اور فنونِ لطیفہ کی جمالیاتی جہتوں سے اردو کے قارئین کو روشناس کرایا ہے۔ ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ میں ہندوستان کی ہزاروں سال پرانی تہذیبی جمالیات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ ہندوستان جمالیاتی سطح پر دیگر ممالک سے زیادہ زندہ و تابندہ نظر آتا ہے۔ ’’تصوّف کی جمالیات‘‘ ، رومی کی جمالیات اور حافظ کی جمالیات کے حوالے سے تصوّف اور روشنی کے فلسفے کی جمالیات پر محیط ہے۔ ’’غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘ میں غالب کی شاعری ہی نہیں بلکہ مغل دور کے فنونِ لطیفہ کی لطافت اور نزاکت پر عالمانہ جمالیاتی ڈسکورس ہے۔ اسی طرح منٹو اور پریم چند کو فکشن کے فنکار کی حیثیت سے جب متعارف کراتے ہوئے ان کی فنّی خوبیوں یا جمالیات کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے ہم عصر فکشن کے نقادوں کی کوتاہ قامتی عیاں ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر پریم چند کے ناولوں اور افسانوں پر تنقید کرتے ہوئے ایسے ایسے باریک پہلوؤں کو بحث کا موضوع بنایا ہے اور پریم چند کا ایک نیا چہرہ پیش کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فکشن کی تنقید یا فکشن کی جمالیات میں بھی ان کا مقام منفرد ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمن ۱۹۶۰ میں ’’فکشن کے فنکار: پریم چند‘‘ پر جب تنقید لکھ رہے تھے اس وقت ترقی پسندی کی شعبدہ بازی سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ زیادہ سے زیادہ قلم کار ترقی پسند نظریے کے زیرِ اثر فن کے بجائے موضوع کو اہمیت دے رہے تھے۔
اس دور میں ہندی اور اردو کے کئی ناقدوں نے پریم چند کے ناولوں اور افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرتے ہوئے فن کی باریکیوں کو سمجھے بغیر موضوع اور خارجی عوامل کو پیشِ نظر رکھ کر پریم چند کے متعلق یہ رائے دے دی کہ پریم چند جتنے بڑے افسانہ نگار ہیں اتنے ہی بڑے ناول نگار بھی۔ پروفیسر شکیل الرحمن نے ان تمام ناقدوں کی تنقیدی رائے کو مسترد کرتے ہوئے ان کی تنقیدی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ انہوں نے پریم چند کے ناولوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’طبقاتی مفاد، عدم تعاون، ارون گاندھی سمجھوتہ، آزادی کی تحریک اور دوسری باتوں کا ذکر کر کے عموماً ان کے ناولوں کو اُونچا اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے، نقاد عموماً یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ یہ خارجی حقائق ہیں اور فن میں خارجی سچّائیوں اور حقیقتوں کی صورتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ فنکار پریم چند نے خارجی حقائق اور معاشرتی اقدار کو کس حد تک جذب کیا ہے، کس حد تک انہیں نئی تخلیق کی صورت دی ہے اور کس طرح فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے۔‘‘ ( فکشن کے فنکار : پریم چند، ص۔ 11 )
شکیل الرحمن نے یہ سوال اٹھا کر کہ پریم چند نے خارجی حقیقتوں کو کس حد تک جذب کیا ہے، کس حد تک انہیں نئی تخلیق کی صورت دی ہے اور کس طرح فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے، فکشن کے فن کے تئیں اپنے پختہ جمالیاتی شعور کا ثبوت دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا کس قدر بامعنی ہے کہ خارجی حقیقتیں وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بدل جاتی ہیں لیکن فن ہمیشہ زندہ رہتا ہے اس لئے فن کو اہمیت دیتے ہوئے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ فنکار کے خارجی عوامل فن کے سانچے میں تحلیل ہوئے ہیں یا نہیں۔
شکیل الرحمن نے اپنے خیالات کی تائید میں پریم چند کے ناول ’’بیوہ‘‘ کے پلاٹ میں پائے جانے والے قدیم و جدید قدروں کے تصادم کو پلاٹ کی بنیادی خصوصیت قرار دے کر ناول کے ناقدین کو یہ صلاح دی ہے کہ اسی پس منظر میں کرداروں کے جذبات کے تصادم کا مطالعہ کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شکیل الرحمن کے نزدیک مختلف صورتوں میں نمایاں ہونے والی خارجی حقیقتوں سے ناول کی اہمیت میں اضافہ نہیں ہوتا ہے بلکہ کرداروں کے جذبات کے تصادم سے اہمیت بڑھتی ہے۔ پریم چند کے ناقدین نے ناول کے پس منظر مثلاً رسم و رواج، مذہب، معیشت اور معاشرہ کو ہی سب کچھ سمجھ کر انہیں بڑا ناول نگار قرار دے دیا تھا لیکن شکیل الرحمن اسے ادبی تنقید نہیں سمجھتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناول کی فنی باریکیوں پر ان کی نظر گہری ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’کسی ناول کی اہمیت محض اس بات سے نہیں بڑھ جاتی کہ اس میں عہد اور وقت کی حقیقتیں مختلف صورتوں میں نمایاں ہوئی ہیں، ’’بیوہ‘‘ میں قدیم اور جدید قدروں کے تصادم کے پس منظر میں کرداروں کے جذبات کے تصادم کا مطالعہ کرنا چاہئے، پلاٹ کی بنیادی خصوصیت جذبوں کا تصادم ہے، مذہب، رسم و رواج، معیشت اور معاشرہ سب پس منظر میں ہیں اور پس منظر ہی کو سب کچھ سمجھ لینا ادبی تنقید کا کام نہیں ہے۔‘‘
( فکشن کے فنکار : پریم چند، ص۔ 14 )
شکیل الرحمن نے پریم چند کے ناولوں میں کرداروں کے ارتقا میں غیر فطری پن، اصلاحی نقطۂ نظر کا غالب ہونا، پریشان کن طویل مکالمے، مکالموں میں تصنع اور تصنع کی وجہ سے فطری کیفیت کے ابھر نے میں کمی اور بعض سنسنی خیز واقعات کو ناول کا عیب قرار دیا ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کے ان ناقدین کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے ’’بازار حسن‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے سیاسی زندگی کا تجزیہ تو کیا لیکن اس بات کی طرف توجہ نہیں دی کہ سیاسی زندگی کی قدریں کس طرح جذباتی زندگی سے ہم آہنگ ہوتی ہیں جبکہ فن کے اعتبار سے اس کا تجزیہ کرنا زیادہ اہم تھا۔ مثلاً نقادوں نے تقسیم بنگال کی تحریک کا تجزیہ کیا لیکن اس ناول کے کردار سُمّن کے جذبات و احساسات اور اس کی جبلّتوں کا مطالعہ نہیں کیا جبکہ ان نقادوں کو تلک، گوکھلے اور آربندو گھوش کی جدوجہد اور اصلاح پسندی کو مد نظر رکھتے ہوئے سُمّن کے مزاج کو سمجھ کر تنقید کر نے کی ضرورت تھی۔ شکیل الرحمن کے مطابق بازار حسن میں پریم چند کے اصلاحی نقطۂ نظر کے حاوی ہو جانے سے فنی اور ادبی قدریں دب گئی ہیں۔ لیکن اس ناول کے کردار سُمّن کے اندر پائی جانے والی بے قراری کو انہوں نے کہانی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
’’اس ناول میں ہندوستانی عورت کی مظلومی کو دیکھنے سے زیادہ اس مظلومی کی فنکارانہ پیش کش کو دیکھنا ہو گا۔ المیہ کے داخلی حسن کی تلاش بھی ضروری ہے، شوہر کے ساتھ دو سال گزار نے کے بعد بھی سُمّن بے قرار ہے، اس جبلّی اور نفسیاتی سچائی کو کسی لمحہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پوری کہانی کی بنیاد یہی بے قراری ہے۔‘‘ (فکشن کے فنکار : پریم چند، ص۔ 15)
اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شکیل الرحمن ادب میں فن اور فنکارانہ پیش کش کو اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے المیہ کے داخلی حسن کی تلاش کو ضروری قرار دے کر فن کے کلاسیکل جمالیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شکیل الرحمان نے اس بات کی طرف اشا ر ہ کر کے کہ معاشرے کی اصلاح کا کام فکشن کے فنکار کا نہیں ہے بلکہ فنکار کو تو ادب میں زندگی کو پیش کرنا چاہئے تاکہ قاری اس کشمکش میں خود کو گرفتار محسوس کرے، سنسکرت جمالیات کے اس نکتے یعنی ’’رَس‘‘ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ناظرین جب خود کو کردار سمجھنے لگیں تو یہ فنکار کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
پروفیسر شکیل الرحمن کے نزدیک ناول میں مقصدیت مثلاً شخصی اصلاح، گنا ہوں پر نادم ہونے کی باتیں کرنا ناول نگار کی کمزوریاں ہیں جو فنی اقدار کو مجروح کرتی ہیں۔ پریم چند کے ناول ’’گوشۂ عافیت‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس ناول میں ’’مقصدیت کی لہر کہیں تیز ہو گئی ہے اور کہیں خاموش اور منجمد!‘‘ جس کی وجہ سے کہیں کہیں فنی گرفت کمزور پڑ گئی ہے تاہم اس ناول میں مسائل سے زیادہ ردّ عمل کی جو تصویریں ابھری ہیں انہیں شکیل الرحمن نے ناول کا حسن قرار دیا ہے۔ مثلاً اس ناول کے اہم کردار گیان شنکر، میں جو ہوس پرستی اور بو ا لہوسی اور اس کا خوف، اداسی، عیاری اور مکّاری وغیرہ پائی جاتی ہے اس سے اس کردار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ شکیل الرحمن نے اسی لئے اس کردار کو ناول کی روح قرار دیا ہے۔ ان تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ناول میں مقصدیت اور مثالیت پسندی کے خلاف ہیں۔ اسی لئے میدان عمل کو وہ ایک کمزور ناول مانتے ہیں۔ کیوں کہ اس ناول میں امر کانت، سکھوا، سکینہ، رانا دیوی، پٹھانی، کالے خان اور سلیم وغیرہ مثالی کردار ہیں۔ اور اس ناول میں مقصد فن پر غالب ہے۔
شکیل الرحمن نے حقیقت نگاری کے تصوّر پر بھی تیکھی تنقید کی ہے۔ انہوں نے ’’ٹائپ کرداروں کے سیاسی کرن پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ٹائپ کردار دراصل تخلیقی شعور کی پیداوار ہیں اور نفسیاتی قدروں کے پیکر ہیں لیکن ادب کی اس بدنصیبی کو کیا کہئے کہ ٹائپ حقیقت نگاری اور حقیقت پسندی ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ تاریخی حقیقت نگاری کے دباؤ سے تخلیقی شعور کی اہمیت ہی جاتی رہی ہے۔‘‘ ( ص۔ ۲۷)
شکیل الرحمن پریم چند کی حقیقت نگاری سے مرعوب ہونے اور پریم چند کے کرداروں کو سیاسی مسئلہ بنا دیے جانے کے بھی خلاف ہیں۔ ناول میں غیر ضروری طوالت اور غیر منطقی اور غیر نفسیاتی ارتقا کو بھی انہوں نے فنّی عیب قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے عزیز احمد کے خیالات سے اتفاق کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’فنی اور تعمیری نقائص پریم چند کے ناولوں میں موجود ہیں۔ طوالت اور غیر منطقی اور غیر نفسیاتی ارتقا سے ان کے بعض ناول بہت اچھے بننے سے محروم ہو گئے ہیں۔ واقعات میں کسی قسم کی کوئی طلسمی گرفت محسوس نہیں ہوتی، غیر ضروری نفسیات اور پیچیدگیوں سے تعمیرِ ماجرا کو صدمہ پہنچتا ہے۔ عزیز احمد نے درست کہا تھا کہ ’’پریم چند اخلاقی، معاشی، ذہنی، نفسیاتی، ہر قسم کی اصلاح ہر فرد اور ہر کردار پر اس طرح زبردستی عائد کرتے ہیں کہ نفسیات اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘‘ (فکشن کے فنکار:پریم چند، ص۔ ۲۹)
شکیل الرحمن فکشن میں فنی جمالیات کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک فکشن میں موضوع سے زیادہ اہم فن ہے۔ فن کو نقطۂ عروج تک پہنچانے میں جن چیزوں کا اہم رول ہوتا ہے ان میں مختلف کرداروں کے حرکات و سکنات، عمل اور ردّ عمل سے پیدا ہونے والی کشمکش، تصادم اور ہیجانات ہیں۔ فکشن کے انہیں کرداروں کی شخصیت میں قاری اپنے بعض جبلتوں، ہیجانات اور جذبات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ شکیل الرحمن نے ان کرداروں کو مرکزی کرداروں سے الگ ایک تیسرے کردار کے روپ میں دریافت کیا ہے۔ یہ تیسرا آدمی مرکزی کرداروں کی طرح مثالی نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ بے ہنگم ہوتا ہے جو اپنی موجودگی کا احساس ہر جگہ دلاتا رہتا ہے۔ یہ کردار اپنے حرکات و سکنات اور اعمال سے مرکزی کرداروں کی پُر سکون زندگی میں کشیدگی پیدا کر دیتا ہے لیکن کبھی کبھی اپنے اندر خوش گوار تبدیلی پیدا کر کے مرکزی کرداروں کی زندگی کی ہیجانی کیفیت اور کشمکش کو دور بھی کر دیتا ہے۔ شکیل الرحمن کے مطابق یہ تیسرا آدمی مرکزی کرداروں سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ کیوں کہ ناظر یا قاری اس تیسرے آدمی سے اپنے آپ کو زیادہ قریب پاتا ہے بلکہ بعض دفعہ قاری اپنے آپ کو تیسرا آدمی بھی سمجھنے لگتا ہے۔ شکیل الرحمن کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسرا آدمی قاری پر اپنے اعمال کا گہرا اثر ڈالتا ہے۔ شکیل الرحمن نے تیسرے آدمی کی پہچان کے لئے انگریزی کے مشہور و معروف ڈرامہ نگار شیکسپیئر کی لاثانی تخلیقات ’’رومیو اور جیولیٹ‘‘ میں ’پیرس‘ اور ’’جولیس سیزر‘‘ میں مارکس انٹونی یا بروٹس کی مثال د ی ہے کیوں کہ یہ وہ کردار ہیں جو علامت بن گئے ہیں۔ چونکہ یہ کردار قاری کے دل و دماغ پرپہلے سے چھائے ہوئے ہیں اس لئے انہیں تیسرے آدمی کے طور پر پیش کر کے پریم چند کے افسانوں میں تیسرے آدمی کی شناخت بہتر طریقے سے کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے پریم چند کے افسانہ ’’گھاس والی‘‘ میں چین سنگھ، دو سکھیاں میں بھون داس گپتا اور حقیقت میں پورنما کا بوڑھا شوہر اور بعد میں اس کے پرانے عاشق امرت کوتیسرے آدمی سے تعبیر کیا ہے۔ یہ تینوں کردار ’پیرس‘ اور ’ بروٹس‘ کی طرح اپنی زندگی اور شخصیت کے نشیب و فراز اور مختلف موڑ پر اپنے خاص تعمیری اور تخریبی حرکات و سکنات سے مرکزی کرداروں کی زندگی اور افسانے کی فضا میں عجیب و غریب کیفیت پیدا کرتے ہیں، مثلاً چین سنگھ ملیا اور اس کے شوہر مہا بیر،بھون داس گپتا، پدما اور اس کے شوہر ونود اور امرت اپنی پرانی محبوبہ پورنما کی زندگیوں میں اس طرح ہلچل اور کشیدگی پیدا کر دیتے ہیں کہ افسانے کا فن اپنی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔ تیسرے آدمی کی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے لکھا ہے کہ:
’’اس تیسرے آدمی کی شخصیت کے چڑھاؤ اور اتار، کردار کی نفسیاتی الجھن اور اس کی جذباتی زندگی کی تکمیل کی خواہش پریم چند کے فن کی عظمت کا ثبوت ہے۔ چین سنگھ میں جو تبدیلی آتی ہے وہ اچانک ضرور ہے لیکن میکانکی نہیں، کسی تیز چوٹ کا ایسا ردّ عمل ہوتا ہے، نفسیات کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں تو جبلتوں کا اظہار اس طرح بھی ہوتا ہے، اچانک شاک(Shock ) لگنے اور حسن کی چاہت کے دل میں بیٹھ جانے کی وجہ سے یہ ردّ عمل فطری ہے، جنس بیدار تو ہوتا ہے لیکن ایک پیاری سی آرزو میں تبدیل ہو کر لا شعور میں بیٹھ جاتا ہے۔ انسان کی نفسیات کا یہ پہلو جاذبِ نظر بن گیا ہے۔ اس تیسرے آدمی کے ردّ عمل کے پیش نظر کئی سوالیہ نشان ابھرتے ہیں اور یہی اس مختصر افسانے کا حسن ہے۔‘‘
(فکشن کے فنکار: پریم چند، ص۔ ۴۰)
شکیل الرحمن نے تیسرے آدمی کی کردار نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے اُن جملوں کو خاص اہمیت دی ہے جن کی بدولت یہ کردار مرکزی کرداروں کی زندگی میں زہر گھولنے اور کشیدگی پیدا کرتے ہیں۔ ایسے جملوں کو شکیل الرحمن نے ’’الفاظ کی زنجیر‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اسے بطور عنوان استعمال کر کے افسانے میں موجود ایسی عبارتوں کو جگہ جگہ کوٹ کیا ہے اور ان کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لفظوں سے کھیلنے کے ہنر کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ مثلاً افسانہ ’’دو سکھیاں ‘‘ میں پدما اور ونود کے درمیان بگڑتے ہوئے رشتوں کو بھانپ کر اور پدما کو روتے ہوئے دیکھ کر ہمدردی کے جو جملے استعمال کرتا ہے وہ کسی بھی عورت کو اپنے دام میں پھانسنے کے لئے کافی ہے۔ جملے ملاحظہ کیجئے :
’’آپ ناحق اس قدر غم کرتی ہیں، مسٹر ونود خواہ آپ کی قدر نہ کریں مگر دنیا میں کم از کم ایک ایسی ہستی بھی ہے جو آپ کے اشارے پر جان تک نثار کر سکتی ہے۔ آپ جیسا گراں بہار تن پا کر دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو اپنی قسمت پر نازاں نہ ہو گا، آپ قطعی فکر نہ کریں۔‘‘
(فکشن کے فنکار: پریم چند، ص۔ ۴۳۔ ۴۲)
شکیل الرحمن نے تیسرے آدمی کی نفسیات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اس کے بعض ایسے حرکات و سکنات کی طرف توجہہ دلائی ہے جو اُس وقت پیش آتے ہیں جب کردار خواب و خیال کی دنیا میں جیتا ہے اور خوبصورت سپنے دیکھتا ہے لیکن خیالی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں واپس لوٹتا ہے تو اس کے سارے سپنے ریت کے محل کی مانند بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور کرداروں کے محسوسات کے ذریعے المیہ نمایاں ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس وقت ایسے کرداروں کے چہروں کے تاثرات اور بدلتے ہوئے رنگ بھی دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں۔ شکیل الرحمن نے ایسی صورتِ حال کو ’’شیش محل‘‘ کے عنوان کے تحت پیش کیا ہے کیوں کہ سپنے شیش محل کی طرح حسین ہوتے ہیں لیکن جلد ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یہ تیسرا آدمی ہمدردی کا مستحق ہے، اس کا شیش محل اس وقت ٹوٹتا ہے جب پورنما آتی ہے۔ بچپن اور شباب کی شیریں اور پُر مسرت اور پُر شوق یادوں کو دل کے دامن میں سنبھالتا ہوا امرت دوڑتا ہے جیسے کوئی بچہ اپنے ہم جولی کو دیکھ کر اپنے ٹوٹے پھوٹے کھلونے لے کر دوڑے۔ لیکن سفید ساڑی، جھکی کمر، اُبھری ہوئی رگیں اور زرد رخسار دیکھ کر شیش محل کا ایک ایک شیشہ ٹوٹنے لگتا ہے۔‘‘ (فکشن کے فنکار : پریم چند، ص۔ ۴۷)
تیسرے آدمی کی شخصیت کے بعض پہلوؤں سے نسوانی کردار کس طرح متاثر ہو کر اس کی طرف کھینچتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس کا جائزہ بے حد خوبصورت اور موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ مثلاً افسانہ ’’نئی بیوی‘‘ میں ایک سولہ سترہ سال کا اُجڈ اور دہقانی لڑکا تیسرے آدمی کی شکل میں بڈھا لالہ ڈنگا مل کی نئی بیوی آشا جو سادگی پسند ہے، کی زندگی میں آ کر کس طرح اس کی زندگی کا سلیقہ بدل دیتا ہے اور آشا خود نمائی کر نے لگتی ہے۔ اسی طرح افسانہ ’’مالکن‘‘ کی رام پیاری جو ایک بیوہ ہے لیکن اس بیوہ میں جوکھو اپنی ہونے والی بیوی کی پرچھائیں دیکھتا ہے اور موقع پا کر باتوں باتوں میں اپنی پسندیدگی بھی ظاہر کر دیتا ہے جس کی وجہ سے رام پیاری کی زندگی اور سوچ بدل جاتی ہے اور کس طرح اس کی سنسان زندگی میں وہ ایک ہلچل پیدا کر دیتا ہے۔ رام پیاری اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتی ہے ’’تم بڑے دل لگی باز ہو، ہنسی ہنسی میں سب کچھ کہہ گئے‘‘ ۔ شکیل الرحمن نے اس جملے پراس طرح تبصرہ کیا ہے ’’رام پیاری کی جذباتی زندگی، زندگی کے المیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور یہی اس افسانے کا حسن ہے۔ تیسرے آدمی کی پرچھائیں عورت کے بنیادی رجحان پر اثر انداز ہوتی ہے اور نفسیاتی رویے کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔‘‘ ا س تبصرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی نفسیات پر ان کی نظر کتنی گہری ہے اور تیسرے آدمی کے رول کو خاص کر عورتوں کی زندگی اور نفسیات کو بدلنے میں کتنا اہم ہے۔ ان دونوں افسانوں میں عورتوں کی زندگی میں کسی مرد کی پرچھائیں اور دہقانی اور اُجڈ نوجوانوں کی اہمیت کو دکھانے کے لئے ’’اجڈ اور دہقانی‘‘ اور ’’پرچھائیں‘‘ کے عنوان کے تحت اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ایسے ہی چند عنوانات مثلاً ’’جال‘‘ اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ وغیرہ قائم کر کے تیسرے آدمی کے مختلف رول پر روشنی ڈالی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے افسانے کی تنقید میں ایک انفرادیت قائم کی ہے۔ جبکہ عام طور پر افسانے کے نقادوں نے صرف مرکزی کرداروں کی کردار نگاری پر روشنی ڈالی ہے اور ’’تیسرے آدمی‘‘ جیسے کرداروں کو ذیلی کردار کہہ کر نظر انداز کر دیا ہے جس سے فنی اعتبار سے افسانے کی تنقید کا حق ادا نہیں ہو سکا ہے۔ غالباً شکیل الرحمن فکشن کے پہلے نقاد ہیں جنہوں نے افسانے کیMicroscopic اور بصیرت افروز تنقید پیش کی ہے۔
شکیل الرحمن نے سماج میں موجود تیسری طاقت کو بھی دریافت کیا ہے جس کا رول افسانوں کے کرداروں پر کافی اہم ہوتا ہے اور جس سے کرداروں کی زندگی کافی حد تک اثر انداز ہوتی ہے اور کبھی مختلف کرداروں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے جس سے کہانی میں قاری کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ یہ تیسری طاقت سماج کی وہ منظم طاقت ہے جو اپنے مفاد کے لئے مذہب، ذات پات، سماج اور برادری کے نام پر لوگوں کی زندگی میں انتشار پیدا کرتی ہے۔ شکیل الرحمن نے افسانہ ’’زاد راہ‘‘ میں سیٹھ دھنی رام، کبیر چند، بھیم چند، سنت لال اور افسانہ ’’خون سفید‘‘ میں جگن کو تیسری طاقت کے نمائندے قرار دیا ہے جو کہانیوں میں کشیدگی پیدا کرتے ہیں اور انہیں کرداروں سے کہانی میں المیہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شکیل الرحمن تیسری طاقت کی موجودگی کو اہم قرار دیتے ہیں۔
پریم چند نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے مختلف کرداروں کے ذریعے ان کی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو ابھارا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ عورتوں کے مختلف روپ کس طرح نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کی خلق کی ہوئی ان عورتوں کے مختلف روپ کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے اور ان کرداروں میں نرگسیت کی نشاندہی کی ہے اور اس نرگسیت سے پیدا ہونے والی نفسیاتی کشمکش سے افسانے کے فن میں کیا کیا خوبیاں پیدا ہوتی ہیں، ان کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ مثلاً افسانہ ’’دو بہنیں‘‘ میں روپ کماری اور افسانہ ’’بازیافت‘‘ کی عورت کے کردار کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہوئے ’’نرگسیت‘‘ اور نرگسیت کی وجہ سے پیدا ہونے والے شعور اور لا شعور کے تصادم کی اہمیت پر زور دیا ہے اور یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح پریم چند نے اپنے افسانوں میں نرگسی مزاج یا نرگسی ذہن کے ذریعے پیدا ہونے والی کشمکش سے افسانے کے فن کا جادو جگایا ہے۔ اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
’’پریم چند نے عورتوں کی کردار نگاری میں ذہن کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ شعور اور لا شعور کی کشمکش، مختلف خواہشات کا انوکھا اظہار اور قوتِ نفسی، نرگسیت، جبری اعصابی خلل، ہیجانات کا ابال اور ان کے لیے خارجی علامتوں کی تلاش، ہیرو پسندی، دوسری عورتوں کی زندگی کو نمونہ بنانے کی تمنّا، نفسیاتی دباؤ، محبت، نفرت اور حسد کا اظہار،ذات کو مرکز بنانے کی خواہش نرگسی چھیڑ، فکری اور عقلی الجھاؤ، احساسِ کمتری، واہمے اور خواب، جنسی جبلّت کی دلفریبی، نفسیاتی تعصب، فریبِ نظر Hallucination، تحفظِ ذات، اشاعتِ ذات، Self-Propagation، احساسِ شکست اور شکست کے بعد پہلی حالت میں لوٹنے کی آرزو، مراجعت Regression محبوب علامتوں سے نفرت کے بعد اسے بگاڑ کر پیش کر نے کا عمل، عورتوں کے کردار میں یہ سب ہیں۔‘‘ (فکشن کے فنکار : پریم چند ص۔ ۸۵)
عورتوں کے کردار اور ان کی نفسیات کو فکشن میں شروع سے ہی پیش کیا جاتا رہا ہے جس سے فکشن کا معیار بلند ہوا ہے لیکن کم ہی نقادوں نے اس کی طرف توجہ دی ہے۔ فکشن کے زیادہ تر ناقد ترقی پسند اور غیر ترقی پسند تخلیق کاروں کی فہرست سازی میں مصروف رہے لیکن شکیل الرحمن شاید اس دور کے پہلے نقاد ہیں جنہوں نے پریم چند کے افسانوں پر تنقید کرتے ہوئے نرگسیت اور عورتوں کی نفسیات کا باریک بینی سے تنقیدی جائزہ پیش کیا اور افسانے کے فن کی اصل روح تک رسائی حاصل کی۔ مثلاً ’’زاد راہ کی ایک کردار ’’پدما‘‘ جو پیشے سے وکیل ہے، فرائیڈ کے اصولوں کو پسند کرتی ہے اور اس کے اصولوں پر چلتی ہے۔ شادی کے بندھن میں بندھنا نہیں چاہتی ہے بلکہ آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہے لیکن جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے کوشاں بھی رہتی ہے۔ پدما کے اندر ایسی سوچ اس لئے پیدا ہوئی کہ اس کے والدین کے درمیان رشتے کبھی خوشگوار نہیں تھے اور بڑی بہن ’’رتنا‘‘ اور اس کے شوہر ’’مسٹر جھلّا کے درمیان ہمیشہ کشیدگی رہتی تھی اور دونوں ایک دوسرے سے جدا ہونا چاہتے تھے۔ پدما اپنی بڑی بہن رتنا سے مل کر دونوں کے درمیان کشیدگی کی شدت کا حال معلوم کرتی ہے اور دونوں کو عدالت کے ذریعے الگ کرانے کا فیصلہ کرتی ہے اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے دونوں کو قانونی طور پر الگ کر دیتی ہے لیکن خود مسٹر جھلّا کی قربت کی پیاسی بن جاتی ہے۔ شکیل الرحمن نے مس پدما کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے :
’’نفسیاتی نقطۂ نگاہ سے یہ تنہائی اپنے وجود کی تلاش ہے، ایسے وجود کی تلاش کہ جس میں درد،وفا اور گہرائی ہو، ’’جس پر وہ تکیہ کر سکے‘‘ ۔ یہ تلاش فطری اور نفسیاتی ہے۔ حیاتی تسلسل Vital Continuity کی واحد جبلّت جو دو جبلّتوں یعنی تحفظِ ذات اور اشاعت ذات پر مشتمل ہے یہاں نمایاں ہے۔ اپنی تنہائی میں مسٹر جھلّا کو شریک کر نا چاہتی ہے، یہی اس افسانے کی روح ہے، اسے ’’عقلی الجھاؤ‘‘ Intelligence Complex کا ’’آتش مانیا‘‘ Pyromania ضرور ہے، عقلی الجھاؤ کی صورت بھی ہے اور معکوسی مالخولیا کا رنگ بھی نمایاں ہوتا ہے یعنی ایک نا خوشگوار واقعے کو شعور سے الگ کر نے کی کوشش اور ماحول اور واقعات کی وجہ سے خارجی امتناع کے دباؤ سے گریز لیکن جس طرح ’’آتش مانیا‘‘ Pyromania کا مریض آگ کو دیکھتے ہی اس کے قریب بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور غیر شعوری طور پر اس کے ہاتھ پاؤں آگ کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کم و بیش اسی طرح پدما بھی بے قرار نظر آتی ہے۔ (فکشن کے فنکار : پریم چند، ص (۸۱۔ ۸۰)
شکیل الرحمن نے پدما جیسی آزاد خیال اور تنہائی پسند عورتوں کی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایسی کرداروں کی تنہائی دراصل اس کے وجود کی تلاش ہے اور وجود کی تکمیل ان مردوں کے بغیر نہیں ہے جن کے اندر وفاشعاری اور گہرائی ہو اور وہ قابلِ بھروسہ بھی ہو۔ پدما کے ذریعے اس کی تنہائی میں مسٹر جھلّا کو شریک کئے جانے کی کوشش کو افسانے کی روح اور اس عقلی الجھاؤیعنی Intelligence Complex کو آتش مانیہ قرار دینا قابلِ تعریف ہے۔ شکیل الرحمن نے فکشن کی تنقید میں علم نفسیات اور علم نفسیات کی اصطلاحات سے کام لے کر جس طرح فکشن کی جمالیات کا معیار بلند کیا ہے اور جس طرح مسٹر جھلّا کی ذات میں اپنی (پدما کی)ذات کو ضم کر نے کی کوشش اور بے قراری کو’’آتش مانیا‘‘ کے مریض سے مشابہ قرار دے کر خارجیت کے جادو کو ٹوٹتے ہوئے اور پدما کے لا شعور کے تقاضوں کو پورا ہوتے ہوئے دکھایا ہے اس کا جواب نہیں ہے۔ نیز پدما کی نفسیات سے یہ اخذ کرنا کہ حیاتی تسلسل یعنی Vita Continuity کی واحد جبلّت جو دو جبلّتوں یعنی تحفظِ ذات اور اشاعت ذات پر مشتمل ہے،ان کے وسیع المطالعی اور نفسیاتی تنقید پر غیر معمولی دسترس ہونے کا ثبوت ہے۔ پریم چند کے نقادوں میں شاید ہی کسی نقاد نے پریم چند کے نسوانی کرداروں کی نفسیات کا تجزیہ اس انداز سے کیا ہو گا۔
1884 میں لکھا گیا جارج اور وِل کا مشہور ناول’’Ninteen Hundred and Eighty Four (1984)‘‘ میں ایک سو سال آگے کی باتیں بتائی گئی ہیں۔ اس ناول میں مصنف نے خیال کی بلند پروازی سے جس طرح ایک سو سال بعد ہونے والے واقعات و حادثات کا تصور کر کے قلم بند کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔ جارج اور ول کے نقادوں کا خیال ہے کہ اس ناول میں شعور کی رو کی تکنیک کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ اردو فکشن میں شعور کی رو تکنیک کاقرۃ العین حیدر کے ناول’’آگ کا دریا‘‘ میں ملتی ہے اور اسی ناول کے بعد ناقدوں نے شعور کی رو کے متعلق لکھنا شروع کیا۔ لیکن جس دور میں پریم چند لکھ رہے تھے اس وقت شاید ہی کسی ناقد نے اردو فکشن کے حوالے سے شعور کی رو کی تکنیک پر سوچا ہو گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس دور کے اردو کے قلم کاروں کو بھی اس تکنیک کا علم نہیں تھا۔ لیکن شکیل الرحمن نے پریم چند کی کئی کہانیوں میں شعور کی رو کی تکنیک اپنائے جانے کی غیر شعوری کوشش کو محسوس کیا اور جیمس ولیم اور برگساں جیسے عالموں کے حوالے سے شعور کی رو کے متعلق بحث کرتے ہوئے کہا کہ ’’تجربہ کبھی محدود نہیں ہوتا اور نہ کبھی اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ شعور ایک جھر نے کی طرح بہتا ہے، تیز، بہت تیز اور ذہنی زندگی کے زمان و مکاں کی قدریں قطعی مختلف ہیں لہٰذا نفسی زندگی کے بہاؤ پر غور کرنا چاہئے۔‘‘ اس کی روشنی میں شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانہ ’’بازیافت‘‘ کے ایک نسوانی کردار کا تجزیہ پیش کیا جس کے شوہر کو بخار ہو گیا ہے اور وہ اپنے شوہر کی بد ترین حالت کے متعلق سوچنے لگتی ہے اور سوچتے سوچتے تصور کر نے لگتی ہے کہ اگر اس کا شوہر مر گیا تو اسے ذرا برابر بھی غم نہیں ہو گا اور اگر پڑوسن تعزیت کے لئے آئیں گی تو وہ انہیں دیکھتے ہی آنکھوں میں آنسو بھر لے گی اور یہ کہے گی کہ اس کی دنیا لٹ گئی لیکن آپ میری حالت پر غم کا اظہار نہ کریں اور اس پر جو گزرے گی وہ اس انسان کامل کی نجات کے خیال سے خوشی خوشی سہ لے گی۔ شکیل الرحمن نے اس حصّے کا تجزیہ بے حد خوبصورت طریقے سے کیا ہے اور اپنے تجزیئے سے یہ ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ اس افسانے میں شعور کی رو کی تکنیک کے نقوش ملتے ہیں۔ پریم چند کے افسانوں میں شعور کی رو کی تکنیک براہ راست داخلی خود کلامی اور بالواسطہ خود کلامی اور سولیلوک کی تکنیک کو اپنایا گیا ہے یا یہ تمام تکنیک شعور اور لا شعور کی کشمکش میں خود بخود پیدا ہو گئی ہے، جیسے باریک پہلوؤں پر شکیل الرحمن نے بحث کی ہے اور اپنا تنقیدی نظریہ پیش کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانے کے فن کی جمالیات کے تئیں کس طرح ان کا شعور بیدار ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’پریم چند نے پہلی بار نفسیاتی کرداروں کی تخلیق کرتے ہوئے شعور کے بہاؤ کو نمایاں کیا ہے۔ شعور کے بہاؤ یا چشمۂ شعور کی تکنیک تو اسی صدی میں مرتب ہوئی ہے، براہِ راست داخلی خود کلامی اور بالواسطہ خود کلامی کسی حد تک ماورائی تفصیل اور سو لیلوک Soliloquy کو چار مختلف تکنیک سے تعبیر کیا گیا ہے، پریم چند کے فن میں اس تکنیک کی جھلکیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے انہیں اس تکنیک کی خبر نہیں تھی لیکن ذہن کے مطالعے اور شعور اور لا شعور کی کشمکش میں یہ تکنیک اجاگر ہو گئی ہے۔‘‘ (فکشن کے فنکار : پریم چند، ص۔ ۸۶)
پریم چند نے اپنے متعدد افسانوں میں ننھے منّے معصوم بچّوں کے مختلف کردار خلق کئے ہیں اور ان کے ذہن اور نفسیات کے کئی پہلوؤں کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ شکیل الرحمن نے ان معصوم بچوں کے کرداروں کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے مارک ٹوئین ) Mark Twain) کے ’’ہککل بری فِن‘‘ ، ہنری جیمس کے ’’منیری‘‘ ، ڈی ایچ لارنس کے ’’اُرسولا‘‘ اور رابندر ناتھ ٹیگور کے ’’پھاٹک چکرورتی‘‘ جیسے مشہور و معروف کرداروں سے مشابہ قرار دیا ہے اور اس کے بعد ان کے ذہن اور نفسیات کے مختلف پہلوؤں مثلاً بچّے کی عقیدت، ہیرو پسندی، الجھن،حیرت، صدمہ،معصوم تجربہ، فطری تصادم، ہیرو کی غلطی کا احساس، اذیت ناک صدمہ، نفسیاتی ردِ عمل، نفسیاتی آسودگی، نفسیاتی کشمکش، دوستی، ذہن میں نئی فضا کی تشکیل، صدمہ اور آرزو مندی، اداسی،المیہ، احتجاج، نفسیاتی شعاعیں،آرزو، ذہنی آسودگی اور مسرت، اندیشہ، نفسیاتی سکون، ہمدردی اور غرور غیر محسوس متحرک قوت، ذہن کی چوٹ اور معصوم ارتفاعی اظہار، تاریکی کا احساس،ذہنی چوٹ کا ردِ عمل، یاس آمیز سکون اور غمگین متانت، سکون قلب،جذباتی ردِ عمل،مکالمے، للچائی نظر شک و شبہ،احساس کمتری وغیرہ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پریم چند نے کس طرح ان کرداروں کی معصوم اداؤں اور نفسیات کے اظہار سے اپنے افسانوں میں نئی روح پھوک دی ہے۔ شکیل الرحمن کے علاوہ کسی دوسرے ناقد نے پریم چند کے ان معصوم کرداروں کے ذہن اور نفسیات کا تجزیہ اتنی باریک بینی سے نہیں کیا ہے۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کا افسانہ ’’قزاقی‘‘ کا موازنہ ٹیگور کی کہانی ’کابلی والا‘ سے کراتے ہوئے دونوں کہانیوں کے معصوم کرداروں کو ایک جیسا بتایا ہے۔ افسانے کا کردار وہ معصوم بچہ جو ’’قزاقی‘‘ کے آنے کا ہر روز انتظار کرتا ہے اور اس کے آنے کے بعد بچے کو جو خوشی ملتی ہے اس خوشی میں اس کی نفسیات کے مختلف پہلوؤں پر شکیل الرحمن نے روشنی ڈالی ہے۔ پھر جب قزاقی نہیں آتا ہے تو بچّے کے ذہن پر کیا اثر پڑتا ہے ان تمام پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے بچّے کی ذہنی الجھن اور نفسیاتی کشمکش کو افسانے کی سب سے بڑی خوبی قرار دیا ہے۔
پریم چند نے اپنے بعض افسانوں کے کرداروں کو کھلاڑی کے روپ میں پیش کیا ہے۔ ایک ایسا کھلاڑی جو جدوجہد کرتا ہے، کھیل کے میدان میں کبھی بازی جیت جاتا ہے تو کبھی ہار جاتا ہے لیکن ہمت نہیں ہار تا ہے اور مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے۔ شکیل الرحمن نے ایسے کرداروں کی ادا کاری میں جو کھلاڑی پن ہے اسے پریم چند کا تصورِ حیات قرار دیا ہے یعنی پریم چند نے بعض افسانوں کے کرداروں کی ایسی تخلیق کی ہے کہ وہ اپنے منزل مقصود کو حاصل کر نے کے لئے مسلسل جد و جہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پریم چند کے کچھ ناولوں اور بعض خطوط سے بھی کھلاڑی کے تصور کا اظہار ہوا ہے جس کی روشنی میں شکیل الرحمن نے ان کے افسانوں کا مطالعہ کیا اور ’’کھلاڑی پن‘‘ کے تصوّر کی وضاحت اور اس کی اہمیت پر تنقیدی رائے دی۔ واضح رہے کہ انہوں نے پریم چند کے افسانوں کے موضوعات یا خارجی عوامل کی بنیاد پر کھلاڑی پن کے تصوّر کی تلاش نہیں کی بلکہ افسانے کے فن سے اِس تصوّر کو اخذ کیا ہے جو قابلِ غور ہے۔ شکیل الرحمن نے نیور،پدما،چین سنگھ،بھون موہن داس گپتا، امرت، شاردا چرن، تلیا،منو مہتر، راجہ، بازیافت کی عورت،گھیسو اور مادھو،سوجان بھگت، میر صاحب اور مرزا صاحب جیسے کرداروں کو کھلاڑی کے روپ میں دریافت کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کرداروں کے اعمال کی ترغیب سے کھیل کے تصوّر میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی ہے۔ کیوں کہ کھیل زندگی کو ایک عبادت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پریم چند کے کرداروں پر جنہیں شکیل الرحمن نے کھلاڑی کے روپ میں دریافت کیا ہے، پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’یہ سب کھلاڑی ہیں اور ’کھلاڑی پن‘ کے تصوّر کی مختلف جہتوں کو پیش کرتے ہیں، کھلاڑی بچّے بھی علامتی رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ کھیل کے میدان میں کھلاڑی مختلف انداز سے عمل کرتے ہوئے ملتے ہیں، یہاں کشمکش اور تصادم بھی ہے اور سازش اور نفرت بھی، گھٹن بھی ہے اور آزادی بھی، شخصیتوں کا سادہ عمل بھی ہے اور پیچیدہ عمل بھی،شکست بھی اور فتح بھی، جذبات کے جانے کتنے رنگ ملتے ہیں۔ کئی کھلاڑی کردار ایسے ہیں جو اپنے کھیلوں کو معمولی کھیل رہنے نہیں دیتے غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔‘‘
(فکشن کے فنکار: پریم چند، ص۔ ۱۳۱)
شکیل الرحمن کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے زندگی کے نشیب وفراز،شکست و فتح، کشمکش اور تصادم وغیرہ کو افسانوی ادب میں اہمیت دی ہے اور انہیں طاقت سے تعبیر کیا ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو ہمہ وقت جدوجہد اور مسلسل کوشش کرتے رہنے کے لئے انسان کو آمادہ کرتی رہتی ہے۔ فنی اعتبار سے بھی کھلاڑی پن کا یہ انداز افسانے کے اندر نئی روح پھونک دیتا ہے۔
کھیل کے میدان میں کھلاڑی کی جب ہار ہوتی ہے تو اس سے بھی افسانے میں نئی جان پیدا ہوتی ہے اور قاری کی دلچسپی مزید بڑھ جاتی ہے کیوں کہ کھلاڑی کی شکست سے المیہ پیدا ہوتا ہے جسے ادب کا ’’Sweetest Song‘‘ کہا جاتا ہے۔ شکیل الرحمن کے مطابق پریم چند نے بے شمار ایسے المیہ کرداروں کو خلق کیا ہے جو اپنے پیچیدہ اعمال کی علامت بن گئے ہیں۔ انہوں نے ’’کفن ‘ ‘ کے مشہور کردار گھیسو اور مادھو کو المیہ کردار کی بہترین مثال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قدروں کی کشمکش اور ذہنی تصادم سے ٹریجڈی پیدا ہوئی ہے۔ شکیل الرحمن نے ان دونوں کرداروں کی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پریم چند نے جہاں ان دونوں کرداروں کو شراب کے نشے میں ناچتے گاتے اور شراب خانے میں سو جاتے ہوئے دکھایا ہے وہیں یہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اس عمل سے کس طرح دونوں کردار جذباتی آسودگی حاصل کرتے ہیں۔ جذباتی آسودگی حاصل کر نے کے اس انداز کو شکیل الرحمن نے غیر معمولی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسی المناک عمل کے پس منظر میں المیہ کا جوہر حاصل ہوا ہے۔ شکیل الرحمن نے مزید کہا ہے کہ پریم چند نے ان کرداروں کے اعمال سے جو المیہ پیداکیا ہے اور جس طرح اس کے شدّتِ احساس پر قابو پانے کی کوشش کی ہے اور المیہ کے لہجے میں توازن پیدا کیا ہے وہ ایک بڑے فنکار کا کارنامہ ہے۔ یعنی شکیل الرحمن کے مطابق المیہ میں شدتِ احساس پر قابو پانا اور لہجے میں بھی توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ قدروں کی کشمکش اور ذہنی تصادم سے المیہ پیدا ہونے کے موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے لکھا ہے :
’’مادھو اور گھیسو کی سائیکی کو جو اس المیہ اور اس کے جوہر کو نمایاں کرتی ہے کسی محاورے سے نہیں سمجھایا جا سکتا، یہ جتنی گہری ہے اتنی ہی تاریک بھی ہے، یہ دونوں کردار مجرم نظر تو آتے ہیں لیکن یہ ایسے مجرم نہیں ہیں کہ ان کے ز وال کی تمام تر ذمّہ داری ان کے عوامل پر عاید ہوتی ہو۔ معاشرہ اور اپنی قدروں کے ساتھ ملزم اور مجرم محسوس ہوتا ہے اور المیہ کے زوال کا ذمّہ دار! یہ کردار تو معاشرے کی خرابیوں کے محض حصّہ دار نظر آتے ہیں، ان کے رجحانات کی جڑیں ان کی سائیکی میں تو ہیں لیکن اس سائیکی کا گہرا رشتہ معاشرتی عوامل اور تحرّکات کے متناقص Paradox سے ہے اور اس طرح المیہ کے جوہر کو نمایاں کرتے ہوئے ان کا قد اُونچا نظر آتا ہے۔‘‘ (فکشن کے فنکار: پریم چند، ص۔ ۱۳۴)
شکیل الرحمن نے ان جملوں میں پریم چند کو ایک فنکار قرار دیا ہے جس نے اپنے تخلیقی ہنر سے مادھو اور گھیسو کو مجرم کے طور پر پیش تو کیا لیکن ان کے عوامل ایسے ظاہر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اپنی مجرمانہ ذہنیت کے لئے تنہا ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ معاشرہ بھی ذمّہ دار ہے۔ پریم چند نے ان کرداروں کی سائیکی کا رشتہ معاشرتی عوامل اور تحرکات کے متناقص Paradox سے جوڑ کر المیہ کے جوہر کو جس طرح نمایاں کیا ہے اس ہنر کو شکیل الرحمن نے فنکاری کے اعلیٰ نمونے سے تعبیر کیا ہے۔ اس تنقیدی تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فکشن کی تنقید کرتے وقت انہوں نے کرداروں کے حرکات و سکنات اور نفسیات کا مطالعہ کتنی باریکی سے کیا ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کی تکنیک پر اظہار خیال کرتے ہوئے کئی افسانوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ان میں موضوع کی پیچیدگی اور سادگی دونوں کی مثالیں ملتی ہیں لہٰذا ان کی تکنیک پیچیدہ بھی ہے اور سادہ بھی لیکن ان میں فنی نمائش نہیں ملتی۔ یعنی شکیل الرحمن افسانے کی تکنیک میں فنی نمائش کے خلاف ہیں لیکن سادگی کے ساتھ ساتھ پیچیدگی کے بھی قائل ہیں۔ ان کے مطابق تکنیک میں اگر سادگی ہو تو قاری خود کو کرداروں کے قریب محسوس کرتا ہے اور موضوع سے بھی قربت ہو جاتی ہے۔
شکیل الرحمن نے سادگی کی اس تکنیک کو پرانی کہانیوں کی تکنیک سے مشابہ قرار دیا ہے۔ دراصل پرانی کہانیوں کی تکنیک سے قاری کافی مانوس ہوتا ہے اس لئے اس تکنیک میں کہی گئی کہانیوں میں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ شکیل الرحمن نے سادہ تکنیک والی کہانیوں کے ضمن میں ’’دو بیل‘‘ کی مثال دی ہے۔ ان کا خیال یہ بھی ہے کہ پریم چند نے بعض افسانوں کی شروعات میں سادگی سے کام لیا ہے لیکن وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ کرداروں کے ذہنوں میں تبدیلیاں آتی ہیں اور واقعات پیچیدہ بنتے جاتے ہیں لیکن موضوع کے بطن سے تکنیک کا جنم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یعنی شکیل الرحمن کی نظر میں موقع محل کے مطابق افسانے میں سادگی اور پیچیدگی دونوں ضروری ہے۔ پیچیدگی اس لئے ضروری ہے کہ اس سے تکنیک کے کئی دھارے نکلتے ہیں۔ ’’بازیافت‘‘ میں عورت کی ابتدائی تصویر ابھار نے میں پریم چند نے کسی حد تک سادہ تکنیک کا استعمال کیا لیکن بعد میں پیچیدگی پیدا ہوتی گئی اور تکنیک بھی پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔ شکیل الرحمن نے لکھا ہے :
’’فنکار نے ابتدا میں اس کی سادگی کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اس کردار سے ہمدردی ہوتی ہے لیکن آہستہ آہستہ حالات کی تبدیلی سے اس کردار کے ذہن میں جس طرح تبدیلیاں آتی ہیں، ان سے واقعات پیچیدہ بنتے جاتے ہیں، موضوع کے بطن سے تکنیک کا جنم ہوتا محسوس ہوتا ہے اور یہ بڑی بات ہے۔‘‘ (فکشن کے فنکار: پریم چند، ص۔ ۱۴۵)
شکیل الرحمن افسانے میں فضا آفرینی کے بھی قائل ہیں کیوں کہ قاری اکثر فضا آفرینی میں کھو جاتے ہیں اور افسانے کے تئیں ان کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ افسانوی ادب میں اسلوب افسانہ نگار کے مزاج اور افتادِ طبع کا سانچہ ہوتا ہے کیوں کہ ایسا اسلوب تجربہ اور تاثر کا عمدہ امتزاج پیدا کرتا ہے۔ یعنی شکیل الرحمن تجربہ اور تاثر کے امتزاج کو ضروری سمجھتے ہیں۔
’’فکشن کے فنکار : پریم چند‘‘ کی روشنی میں شکیل الرحمن کے تنقیدی شعور کا مختصر جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پریم چند کے افسانوں اور ناولوں کا جائزہ پیش کرتے وقت فکشن کی جمالیات کو ملحوظِ خاطر رکھا۔ پریم چند کے افسانوں اور ناولوں کے موضوعات کیا ہیں ؟ شکیل الرحمن کے نزدیک یہ اہم نہیں ہے۔ ان کے نزدیک موضوع کی مناسبت سے کرداروں کی اداکاری کیسی ہے، ان کی نفسیات کو ابھار نے میں فنکار نے کیا کمال کیا ہے۔ اور زندگی کی گہما گہمی اور کشمکش پیدا کر نے میں پریم چند کامیاب ہیں یا نہیں، جیسے سوالات اہم ہیں اور انہیں سوالات کی روشنی میں انہوں نے پریم چند کو ایک بڑا فنکار ثابت کر نے کی کوشش کی ہے۔
پریم چند کے افسانوں یا ناولوں میں حقیقت نگاری ہے یا نہیں یا پریم چند کے کردار ٹائپ کردار ہیں یا نہیں جیسے سوالات کو بھی شکیل الرحمن اہمیت نہیں دیتے ہیں جبکہ ان کے ہم عصر یا ان کے فوراً بعد کے بیشتر نقادوں نے نہ صرف پریم چند بلکہ اس دور کے تمام فکشن نگاروں کی تخلیقات میں یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے یہاں سماج کی حقیقتوں کو من و عن پیش کیا گیا ہے یا نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے تمام نقاد فکشن نگار کو مہابھارت کے اندھے راجہ، ’دھرت راشٹر‘ کے رتھ کا سارتھی ’’سنجے‘‘ بنا دینا چاہتے ہیں جو دِویہ دِرشٹی مل جانے کے بعد میدانِ جنگ کا سارا حال من و عن سنایا کرتا تھا۔ اسی طرح بعض نقاد جب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کس فکشن نگار نے اپنی کہانیوں میں سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور کس نے نہیں اٹھائی یا کس کے یہاں ٹائپ کردار ہیں اور کس کے یہاں ٹائپ کردار نہیں ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات نقاد نہیں بلکہ سماج سدھارک ہیں۔ ان حضرات کو فکشن کے فن سے کوئی سروکار نہیں ہے، انہیں صرف موضوع سے سروکار ہے۔ شکیل الرحمن نے ان نقادوں کے برعکس فکشن میں فن کو اہمیت دی ہے نہ کہ موضوع، حقیقت نگاری اور ٹائپ کردار کو۔ شکیل الرحمن نے اگر کہیں سماجی حقیقت نگاری کی بات کی بھی ہے تو انہوں نے یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ فنکار نے سماجی حقیقتوں کو پیش کرتے ہوئے فکشن کے فن کو سامنے رکھا ہے یا نہیں یا پھر ان حقیقتوں کو پیش کر نے میں زندگی کی کشمکش کو ابھار نے کی کوشش کی ہے یا نہیں۔ شکیل الرحمن کے مطابق فکشن کو اس نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے کہ اس کا موضوع کیسا ہے ؟بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اس موضوع کے ساتھ فنکار نے انصاف کیا ہے یا نہیں کیوں کہ موضوع اچھا یا برا نہیں ہوتا ہے بلکہ پیش کش اچھی یا بری ہوتی ہے۔
شکیل الرحمن فکشن کے مطالبات و مسائل، مضمرات و ممکنات اور اسرار و رموز سے آگاہ ہیں۔ وہ فکشن کو اس طور پر سمجھنے کے عادی نہیں ہیں جو سہل پسند نقادوں کا طریقہ ہے۔ وہ فکشن کی تنقید میں بھی اپنے مراقباتی عمل کو تحرک میں لاتے ہیں اور اس کے باطن میں اتر کر فکشن کے مد و جزر اور داخلی کیفیات کو تلاش کرتے ہیں۔ پریم چند کی تفہیم اور تنقیدی تعبیر کا ایک رویہ وہ ہے جو بعض کسل مند نقادوں نے اپنا رکھا ہے اور ایک طریقہ کار وہ ہے جسے شکیل الرحمن نے اختیار کیا ہے۔ اول الذکر رویہ کے لئے نہ وسعتِ علمی کی ضرورت ہے اور نہ زیادہ ریاضت کی۔ ثانی الذکر کے لئے ناقد کو فکشن کے بحر بیکراں میں ڈوبنا اور ابھرنا پڑتا ہے تب جا کر فکشن اپنا داخلی زاویہ اور باطنی عکس دکھاتا ہے اور جب مسلسل اس کے درون میں اتر نے کا عمل جاری رہتا ہے تب فکشن اپنا مکمل سراپا سامنے لاتا ہے۔
شکیل الرحمن نے فکشن کا مکمل چہرہ دیکھا ہے اور اس چہرے کے تمام تاثرات کی تفہیم کی کوشش کی ہے جبکہ فکشن کے بیشتر نقادوں نے چہرے کے صرف ایک تاثر پر قناعت کر لی۔ اس طرح چند کلیوں پر قناعت کر نے والوں نے علاج تنگیٔ داماں کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں اور اردو فکشن اور پریم چند کو بھی اپنی تنگیٔ داماں میں سمیٹ لیا۔ مگر شکیل الرحمن نے پریم چند کو ان لوگوں کی تنگنائے تنقید سے نکال کر ایک ایسی صورت میں پیش کیا کہ قارئین کو یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ پریم چند کا وہ تخلیقی چہرہ نہیں ہے جو اب تک بار بار اور مسلسل دیکھتے رہے ہیں بلکہ یہ مختلف نوعیت کا چہرہ ہے جو وہ اپنی آنکھوں سے پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ پریم چند کا یہ نیا چہرہ پیش کر نے والے صرف اور صرف شکیل الرحمن ہیں۔ ان کی تنقید کی روشنی میں پریم چند کا پرانا چہرہ نہایت پژمردہ اور افسردہ نظر آتا ہے جو یقیناً ایک زندہ اور تابندہ تخلیق کار کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔