ڈاکٹر ظل ہما
عام طور پر تنقید نگار مخصوص طرز فکر اپناتے رہے ہیں یعنی کوئی ترقی پسند ہے تو کوئی جدیدیت کا سودا لیے ہوئے اور کوئی مابعد جدیدیت کا نعرہ لگا رہا ہے لیکن ان تمام رجحانات کا وقت گزر گیا اور اردو نقاد ابھی تک ان کے حصار میں جکڑا ہوا ہے البتہ ایک آواز دھیمے لہجے میں جمالیاتی طرز انتقاد کی سب سے الگ سنائی دیتی ہے اور وہ ہے شکیل الرحمن کی آواز…. . گذشتہ چند برسوں میں انہوں نے اردو ادب کا از سر نو جائزہ اسی نقطۂ نظر سے لیا ہے مثلاً امیر خسرو کی جمالیات، مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات، غالب کی جمالیات وغیرہ۔
ظاہر ہے کسی شخصیت یا ادب کا نفسیاتی مطالعہ سکہ بند تنقید کے مقابلے میں کتنا مشکل ہو گا مگر یہ شکیل الرحمن کی فطرت ثانیہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کی ہر تخلیق (واضح ہو کہ میں تنقید کو بھی تخلیق کا ہی درجہ دیتی ہوں ) میں تحلیل نفسی پائی جاتی ہے۔ ’فکشن کے فن کار پریم چند‘ بھی اسی انفرادی شان کی تصنیف ہے جس میں پہلی بار پریم چند کے ذہن کی گہرائیوں میں اتر کر ان کو سمجھنے کی سعی کی گئی ہے۔
مثلاً اب تک نقاد ان کے ناولوں میں خارجی حقائق کی بازیافت پر زور دیتے رہے ہیں اور اس عہد کی معاشرتی وسیاسی زندگی کو پریم چند نے جس طرح پیش کیا یا جو کچھ سمجھا اس کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر کرداروں کے اندرون میں اتر کر جس حد تک جھانکنا چاہئے تھا شاید نہیں جھانکا گیا۔ شکیل الرحمن نے کرداروں کے ذہنی تصادم اور کشمکش کو پڑھا اور اس کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ گویا وہ آج کے دور میں بیٹھ کر تقریباً 90 سال پہلے کے آدمی کا حقیقی مطالعہ کر رہے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کائنات کی بے کراں وسعتوں پر کمند ڈالنے والا آج کا انسان سائنس داں ابھی تک خود انسان کی جسمانی مشینری کے ایک دماغی پرزے کا مطالعہ بھی پورے طور پر نہیں کر پایا ہے جس میں انسانی حسیات کی بے شمار توانائیاں اور جہتیں پوشیدہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم خارجی حقائق میں الجھ کر انسان کے داخلی کرب کو فراموش کر دیتے ہیں۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے داخلی کرب کی تہوں کو چھو لیا ہے۔ وہ ہندوستانی عورت کی مظلومی کو دیکھنے کے ساتھ اس مظلومی کی فن کارانہ پیش کش کو اہمیت دیتے ہیں اور المیہ کے داخلی حسن کی تلاش بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ سالہا سال ازدواجی زندگی گزارتی ہے مگر عورت کی ذہنی کیفیت کو پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا۔ اس کی مضطرب روح پیاسی رہتی ہے۔ حالانکہ انسان کی فطرت میں تلخی یا شیرینی معاشرہ کی دین ہوتی ہے مگر معاشرہ تلخ تند شیریں اثرات ڈال کر اپنے فرض سے سبک دوش ہو جاتا ہے اور اس انسان کی نفسیات جن سے کردار کی تشکیل ہوتی ہے جو حالات سے سمجھوتہ نہ کر سکنے کی وجہ سے زندگی کو طوفان بلا خیر بنا دیتا ہے اس پر ہماری نظر نہیں جاتی اور یہیں نقاد سے چوک ہو جاتی ہے۔
نقاد اپنے اس مطالعہ میں دوہری کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے کیونکہ اسے فن کار اور فن پارہ کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ فن کار کے تخلیق کردہ کرداروں کا ذہنی تجزیہ کر نے کے ساتھ ہی ساتھ خود فن کار کا ذہن جہاں پہنچا ہے وہاں تک اپنے ذہن کی رسائی کی سعی کرتا ہے اور تخلیق کار کے ذہن تک پہونچ کر اس کا محاکمہ کرتے ہوئے اپنے مشاہدات و تاثرات کو بیان کرتا ہے۔ یہ کام شکیل الرحمن نے بخوبی کیا ہے۔
ادیب کو تخلیق کار کا منصب نبھانے کے ساتھ اگر Reformer مصلح کا کام بھی سونپ دیا جاتا ہے تو وہ ادیب کم اور مصلح زیادہ بن جاتا ہے۔ اس سے ادبی اور فنی تقاضے مجروح ہوتے ہیں۔ پریم چند کے ساتھ بھی متعدد جگہ ایسا ہی ہوا ہے۔ شکیل الرحمن ’’بازار حسن‘‘ کے کردار ’ سمن‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’جب پریم چند اسے سیوا دھرم کی راہ دکھاتے ہیں تو ان کی رومانیت اصلاحی مقصد سے دب جاتی ہے اور اس حقیقت کا بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کی معاشرتی الجھنوں اور معاشرتی مسئلوں کو کس طرح سلجھانا چاہتے تھے۔ شعوری طور پر اس اہم کردار کو یہ راستہ دکھایا ہے اس سچائی سے بے خبر کہ فنی قدریں مجروح ہو رہی ہیں۔ اس ناول میں کرشن چندر کا کردار بھی توجہ چاہتا ہے اس کا ایک ہلکا سا نفسیاتی مطالعہ ملتا ہے۔ پریم چند جب بھی ماہر اخلاقیات بنے ہیں، فکشن میں ان کا المیہ سامنے آیا ہے۔‘‘
یہ مسئلہ صرف بازار حسن میں سامنے نہیں آتا۔ ان کے متعدد ناولوں میں نیکی کی بدی پر فتح اور اخلاق و معاشرت کا درس موجود ہے لیکن ناول ’’نرملا‘‘ میں آ کر وہ خالص معاشرتی انداز سے سوچتے ہیں۔ حالانکہ یہ چالیس سالہ طوطا رام کی پندرہ سالہ نرملا سے شادی کا المیہ ہے اور اسی وجہ سے دونوں کردار ذہنی کش مکش کا شکار رہتے ہیں حالانکہ اس ناول کا مقصد بھی اصلاحی تھا۔ مگر اس وقت کے سیاسی حالات کے تحت انہوں نے سیاسی امور کو پس پشت ڈال دیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ نرملا میں کرداروں کی ذہنی کیفیت و کش مکش میں اندر تک اتر نے کا انہیں موقع مل گیا لیکن ہمارے فارمولہ نقادوں کی رائے میں ایسے ناول مکمل نہیں ہوتے۔ بقول شکیل الرحمن شری پریم نرائن ٹنڈن نے اسے محض معاشرتی ناول کہا اور دونوں کرداروں کا رشتہ انہیں بھیانک پاپ نظر آیا۔‘‘ شکیل الرحمن کا یہ جملۂ معترضہ بھی درست ہے کہ ’’کون سا ناول معاشرتی نہیں ہوتا…. …. .. البتہ کرداروں کے آپسی ناجائز رشتہ کو پاپ کہنا غلط نہیں۔ پاپ تو پاپ ہی ہے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سماجی زندگی میں ایسا ہوتا چلا آیا ہے اور حقیقت کی عکاسی ہے لہٰذا فنی بنیادوں پر اس میں کوئی خامی نہیں۔
شکیل الرحمن نے ’’پردۂ مجاز‘‘ پر بھی اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کیا ہے حالانکہ یہ ناول ہندوؤں کے عقیدۂ تناسخ پرمبنی ہے اور جس کا سائنٹفک بیس (Scientific Base) کچھ نہیں بلکہ انہوں نے تناسخ میں رومانیت کے لوازم تلاش کیے ہیں۔ بقول ان کے مادی پیکروں میں پراسرار کیفیتوں کو ابھارا گیا ہے۔ حالانکہ اس سے فنی خامیاں پیدا ہوئی ہیں۔
گوشۂ عافیت ان کی نظر میں کرداروں کے جذبات کی کش مکش کی کہانی ہے کیونکہ اس کے کردار مختلف طبقوں کے نمائندے ہیں۔ اس میں جو خاص بات شکیل الرحمن کو نظر آئی وہ ہے مسائل سے زیادہ رد عمل کی تصاویر کا ابھرنا۔ جذباتی رد عمل کے نقوش حسن میں اضافہ کرتے ہیں البتہ ان کا پریم چند پر اعتراض یہ ہے کہ وہ شخصی اصلاح اور گنا ہوں پرنادم ہونے کی بات کرتے ہیں جو بنیادی کمزوری ہے۔
میدان عمل کے کردار مثالی ہیں جنہیں اپنے عصر کے سیاسی معاشی ماحول میں سمجھنے کی سعی کی ہے۔ داستانی رنگ اور کرداروں کی فطرت میں اچانک تبدیلی سے تاثر کم ہوا ہے۔ حقیقتوں کے شعوری انکشافات سے تکنیکی نزاکتیں گم ہو گئی ہیں۔ ان کا ہر عمل میکانکی ہے۔ خارجی حقیقتوں کا بیان آرٹ نہیں بن جاتا۔
گؤ دان کو پریم چند کا سب سے اچھا اور مکمل ناول تسلیم کیا گیا مگر شکیل الرحمن کی نظر میں چو گان ہستی کے کردار محض مثالی کردار نہ ہونے کی وجہ سے اور کچھ اس لیے کہ ان کے کرداروں میں نفسیاتی ارتقا موجود ہے۔ تجربوں کا انداز بھی فن کارانہ ہے اس لیے اس پر برتری حاصل ہے۔ چو گان ہستی کے کرداروں میں رومانیت بھی شدت کے ساتھ ہے مثلاً سورداس، ایک مثالی کردار ہے پھر صوفیہ کی محبت میں سرشاری اور مذہب سے لاپرواہی رومانیت کی مظہر ہے۔ لیکن اس کے باوجود طوالت اور غیر منطقی و غیر نفسیاتی ارتقا فنی نزاکتوں کو مجروح کرتے ہیں جبکہ گؤ دان میں شکیل الرحمن کو ایک نئی قسم کی رومانیت ملتی ہے وہ ہے ہندوستان کے کسان کا مزدور بن جانے کے المیہ کی رومانیت۔ اس کے علاوہ دیہاتی لوگوں کی مثالی کردار نگاری بھی ہے۔ تنگ دستی، محبت، نفرت، بھوک، جنسی خواہش، حسد و بغض اخلاقی روحانی کش مکش غرض شکیل الرحمن کو گؤ دان میں سماجی زندگی کا ایک المیہ ڈرامہ اسٹیج کیا ہوا ملتا ہے لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گؤ دان کے کرداروں کا ارتقاء فطری ارتقا ہے۔
شکیل الرحمن کے پیش رو نقادوں نے جب پریم چند کے ناولوں کا جائزہ لیا تو ناول کی یہ تعریف ان کے پیش نظر تھی کہ اس میں داستانوی رنگ کم سے کم ہو تاکہ اس کی فضا اور کردار ماورائی نہ ہو جائیں۔ ناول میں موجودہ سماج کی عکاسی ہو، جس میں سیاسی و سماجی اور خصوصاً اقتصادی حالت کا جائزہ ہو، سماج کے پچھڑے طبقوں کو اوپر اٹھانے یا انقلاب برپا کر نے پر ابھار نے کی کوشش ہو تاکہ سماج ترقی کر سکے۔
اس طرح ناول نگار مصلح قوم بن کر ایک نئے ہندوستان کی تعمیر میں اپنا رول ادا کرتا تھا مگر اس سے فنی نزاکتوں کو مجروح کیا جانے لگا تھا اس پر طرہ یہ ہوا کہ ہمارے نقادوں نے بھی پریم چند کے ناولوں پر اسی اصول کے تحت نظر ڈالی اور نتیجے میں یہ کنفیوزن پیدا ہو گیا البتہ شکیل الرحمن سے پہلے ایک اور نقاد قیصر سرمست نے بھی عام روش سے ہٹ کر پریم چند کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔
افسانے کا فن
اس موضوع کے تحت شکیل الرحمن نے پریم چند کے کرداروں کا مطالعہ کیا ہے۔ عام طور پر افسانے میں ہیرو اور ہیروئن کے کردار بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو شروع سے آخر تک افسانے پر چھائے رہتے ہیں لیکن بغور دیکھا جائے تو خاص طور پر رومانوی افسانوں میں ذیلی کرداروں کی اہمیت بھی کم نہیں ہوتی یا یوں سمجھئے کہ دو کے بعد تیسرے کردار کی موجودگی سے افسانہ ایک نیا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ شکیل الرحمن نے اسی تیسرے کردار کے اثرات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فکشن کا اصل ہیرو دراصل یہی تیسرا کردار ہوتا ہے۔ ایپک ناول اور افسانوی کلچر میں اس تیسری شخصیت کے بغیر داخلی اور خارجی اقدار کی نقاب کشائی نہیں ہوتی۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانوی کرداروں کے بیچ میں آنے والے اس تیسرے کردار کی کردار نگاری اور رول Roe کے بارے میں وضاحت کی ہے۔ کہیں یہ تیسرا کردار ذیلی کردار کے روپ میں اپنا رول Roe ادا کرتا ہے تو کہیں کچھ دیر کے لیے ذیلی کردار سے ترقی کر کے اہم کردار بن جاتا ہے یعنی اس کی شخصیت دوہری ہو جاتی ہے مثلاً شکیل الرحمن نے پریم چند کے افسانے ’’گھاس والی‘‘ کے دو کردار مہابیر (شوہر) اور ملیا (بیوی) کی ا ازدواجی زندگی میں ایک تیسرے کردار چین سنگھ کو پیش کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ چین سنگھ کے آنے سے پرامن ازدواجی روز مرہ کی زندگی میں طغیانی اور اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ شکیل الرحمن نے اسی اضطراب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کرداروں کے ذہنی اتار چڑھاؤ اور کیفیات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ تیسرے کردار کی اپنے مقصد میں ناکامی کے باوجود اہمیت کم نہیں ہوتی کیونکہ بھلے ہی وہ ملیا کو اپنی بیوی نہیں بنا سکا مگر ملیا کی محبت کے اثرات بڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ملیا دوسرے لوگوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہے تو چین سنگھ کو تکلیف پہونچتی ہے۔ وہ ملیا کی زندگی کو اپنا المیہ سمجھنے لگتا ہے۔
شکیل الرحمن نے پریم چند کے متعدد افسانوں کے حوالے سے اسی قسم کے تجزیے کیے ہیں۔
عورت
ایک دور تھا جب کوئی بھی افسانہ عورت مرد کے رشتوں کے بغیر نہیں لکھا جاتا تھا۔ پریم چند اس عہد کے سب سے بڑے افسانہ نگار تھے۔ شکیل الرحمن نے ان کے افسانوں میں عورت کے مختلف متحرک پیکر تلاش کر کے نفسیات کی باریکیوں پر نظر ڈالی ہے۔ عورت نفسیاتی طور پر خود پسندی اور نرگسیت Narcissism کی بیماری میں مبتلا رہتی ہے۔ شکیل الرحمن نے پریم چند کے کئی افسانوں کا تجزیہ اسی نقطۂ نظر سے کیا۔ افسانہ (دو بہنیں ) پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ڈرائنگ روم کے قد آدم آئینے میں خود کو چھپ کر دیکھتی ہے۔ شیشے کی روپ کماری کو دیکھ کر اس کی نرگسیت یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ’’خد و خال‘‘ بے عیب ہیں۔‘‘
’’شعوری اور غیر شعوری طور پر روپ کا ذہن رام دلاری کے پیکر سے متاثر ہے۔ چند لمحوں کے لیے اس زنجیر کو توڑ کر اپنے حسن کو دیکھنے آئی ہے۔‘‘
’’پھر محسوس ہوتا ہے آئینے کی روپ کماری میں وہ تازگی، شگفتگی، نظر فریبی نہیں لیکن احساس کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔ اس کا نرگسی ذہن اس تار کو توڑ دینا چاہتا ہے۔ وہ مرد کی نظر کو غلط سمجھتی ہے۔ ’’کسی میں اصلی حسن کی پرکھ نہیں۔‘‘ یہ بھرپور جملہ شخصیت کی نرگسی اٹھان کو اچھی طرح سمجھا دیتا ہے۔‘‘
پریم چند نے روپ کماری کی ذہنی کیفیت کو جس انداز سے پیش کیا تھا شاید وہ خود بھی اس کی اہمیت کو اس حد تک نہیں سمجھ پائے ہوں گے جو شکیل الرحمن نے اس مقالے میں سمجھا دیا ہے۔
نرگسیت کی بیماری میں پریم چند کے خواتین کردار کافی تعداد میں مبتلا ہیں۔ شکیل الرحمن نے ان سبھی کا تجزیہ بہترین انداز میں کیا ہے۔
بچے کا ذہن
شکیل الرحمن نے اس کتاب میں اپنا نقطۂ نظر واضح کر نے کے لیے پہلے عالمی ادب میں نفسیاتی مسائل کا جائزہ لیا ہے اور پھر ان مسائل کی باز گشت کو پریم چند کے یہاں تلاش کر کے اس پر اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ مارک ٹوئین، ہنری جیمس، ڈی ایچ لارنس، رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے افسانوں میں بچوں کے کردار پیش کیے ہیں۔ اس سلسلے میں پریم چند کے افسانے رام لیلا، قزاقی، عیدگاہ، سوتیلی ماں، بوڑھی کاکی، تیور، ماں کا دل، مہاتیرتھ، گلی ڈنڈا، دو بیل، مندر، چوری، بڑے بھائی صاحب، دودھ کی قیمت بھی ان کی نظر سے گزرے ہیں۔
ان میں بچوں کے کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ قابل تعریف ہے۔ مثلاً بچوں کے اذہان پر سب سے بڑا اور پہلا اثر ان کے والدین کا ہوتا ہے۔ خاص طور پر والد کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں یا ناقابل تسخیر شخصیات کی جگہ اپنا تصور کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ آئیڈیل شخصیات توقع پر پوری نہ اتریں تو ان کو گہرا صدمہ ہوتا ہے۔ ذہن الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے اور بچے ذہن کے فطری تصادم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ شکیل الرحمن نے بات یہیں ختم نہیں کی بلکہ آگے چل کر اس فطری تصادم سے نفسیاتی رد عمل کا ہونا بھی بتاتے ہیں۔
اس طرح کے متعدد واقعات کے رد عمل کا تجزیہ انہوں نے بڑی فنی چابک دستی سے کیا ہے لیکن شکیل صاحب کا یہ تجزیہ پریم چند کے افسانے ’’سوتیلی ماں‘‘ میں ایک بالکل نئے انداز سے ظاہر ہوتا ہے۔ گویا ان کی نباض انگلیاں پریم چند کی شہ رگ پر ہی تھیں۔
جب منو کی سوتیلی ماں آئی تو وہ اسے سگی ماں کی طرح پیار کر نے لگی لیکن وہ اس پیار سے اس لیے خوف زدہ ہے کہ کہیں سوتیلی ماں بھی اسے چھوڑ کر چلی نہ جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک قسم کی نفسیاتی الجھن ہے۔ ایسے اندیشے نفسیاتی زندگی میں انتشار پیدا کر سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک دوسری نفسیاتی کیفیت اس وقت رونما ہوتی ہے جب سگی ماں سے زیادہ محبت کر نے والی سوتیلی ماں کا بھی انتقال ہو جاتا ہے اور بچہ یاس میں ڈوب کر خاموش رہتا ہے۔ ممتا کی نعمت کھو کر یہ دوسری کیفیت ہر طرح کے اندیشے سے بری کر دیتی ہے۔ نفسیاتی سکون کا یہ پہلو تلاش کرنا بھی شکیل الرحمن کا ہی کام دکھائی دیتا ہے۔ اتنی باریکی سے مطالعہ کرنا ہی دراصل نقد و تبصرے کا حق ادا کرنا ہے۔
ایک اور افسانے ’’بوڑھی کاکی‘‘ میں ایک بچی کا کردار ہے جو بوڑھی کاکی کے ساتھ کیے گئے خاندان کے غلط رویے سے پریشان ہے۔ لوگ کاکی کو کھانا نہیں دیتے لیکن بچی اپنے حصے کی پوریاں رات کو چھپا بچا کر کاکی کے پاس لے جاتی ہے۔ بظاہر بات صرف اتنی سی ہے مگر شکیل الرحمن نے اس کے پس منظر میں ابھر نے والی بہت سی باتیں اخذ کی ہیں۔
مثلاً کاکی نے پوچھا کہ کیا یہ پوریاں تمہاری ماں نے دی ہیں۔ تو لاڈلی فخر سے کہتی ہے کہ نہیں یہ میرے حصے کی ہیں۔ بچی کا یہ فخر منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ پوریاں کھلا کر وہ سکون پاتی ہے۔ یہی نہیں شکیل الرحمن کہتے ہیں کہ اس کہانی میں لاڈلی کی وجہ سے تحرک پیدا ہوتا ہے۔ بے ہوش کاکی ہوش میں آتی ہے۔ لاڈلی ایک غیر محسوس قوت ہے۔ وہ صرف کاکی کو پوریاں نہیں کھلاتی بلکہ گھر کے اندھیرے ماحول کو روشنی میں لے آتی ہے۔
پریم چند کے افسانے ’’مہاتیرتھ‘‘ میں ایک معصوم بچے کا کردار ہے۔ جس کو اپنی آیا (انّا) سے بے حد محبت ہے۔ اس وقت ماں باپ آیا کو الگ کر کے دوسری آیا رکھ لیتے ہیں۔ مگر بچہ کو اپنی پرانی آیا کی کمی بری طرح محسوس ہوتی ہے۔ شکیل الرحمن نے اس موقع پر بچے کی ذہنی کیفیت کو پڑھنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ آیا (انّا) کے بغیر بچے کو دنیا میں تاریکی دکھائی دیتی ہے۔ ماں باپ، کھلونے، مٹھائی، نئی آیا کسی سے دل نہیں بہلتا۔ اصولِ لذت یا اصول انبساط کی راہ میں الجھن، ناکامی اور مایوسی حائل ہے۔
دراصل شکیل الرحمن نے مختلف بچوں کے جذبات و احساسات اور عمل ورد عمل کا مطالعہ کر کے ان کے ذہنی رشتوں کے سہارے ان کہانیوں اور کرداروں کو پرکھا ہے۔ ویسے یہ تمام باتیں بچوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ سماج میں رہنے والے تمام افراد کو اپنے ماحول افراد اور اشیاء سے محبت ہو جاتی ہے اور پھر جب لوگوں سے روز مرہ کی سہولیات چھین لی جائیں یاآرام میں خلل ڈال دیا جائے تو لازمی طور پر ان کی ذہنی کیفیت پر اثر پڑتا ہے۔ کہیں ہلکا کہیں تیز وتند اور پھر جب سہولیات لوٹا دی جائیں یا ان کی شکلیں بدل دی جائیں تو ان پر اثرات بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ذہن کی کیفیت غصہ سے بدل کر خوشی و انبساط میں بدل جاتی ہے۔
المیہ کردار
پریم چند نے کچھ المیہ کردار بھی پیش کیے ہیں۔ افسانہ کفن کے گھیسو اور مادھو دونوں باپ بیٹے ہیں۔ بدھیا مادھو کی بیوی کھیتوں میں محنت کرتی ہے اور گھیسو مادھو چوری کر کے گزارا کرتے ہیں۔ بھولے بھٹکے کچھ پیسے مل بھی گئے تو دونوں شراب پی لیتے ہیں۔ بدھیا مر جاتی ہے تو گاؤں والے کفن کے لیے ۵ روپے کا چندہ کرتے ہیں۔ گھیسو کہتا ہے کہ جیتے جی تن ڈھانکنے کے چتھڑے نہ ملے مر نے پر نیا کفن کیا کرے گی۔ لاش تو جل ہی جائے گی۔ یہ کہہ کر دونوں شراب پی کر مست ہو جاتے ہیں۔
اس کہانی میں شکیل الرحمن کی نظر میں دونوں کردار طبقاتی زندگی کا المیہ ہیں جن میں نفسیاتی کیفیتوں کا اظہار ہے۔ شراب پی کر مادھو بدھیا کے لیے روتا ہے پھر بھی دونوں ناچتے ہیں۔ پریم چند نے بدھیا کی لاش وکفن کا افسانہ لکھا ہے مگر دراصل یہ مادھو گھیسو کی زندہ لاشیں ہیں۔ شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ جذباتی آسودگی کا یہ انداز اردو فکشن میں غیر معمولی ہے۔
شکیل الرحمن نے یہاں یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ مادھو اور گھیسو کی سائیکی جو اس المیہ کے جوہر کو نمایاں کرتی ہے جتنی گہری ہے اتنی ہی تاریک بھی ہے پھر بھی دونوں کردار اپنے زوال کے مکمل ذمہ دار نہیں۔ ان کی ذمہ داری معاشرہ اور اقدار پر بھی ہے۔
اسلوب
شکیل الرحمن نے پریم چند کے فن میں اسلوب کی مختلف جہتوں کا سراغ لگایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کچھ افسانوں میں تجربہ اور تکنیک کی ہم آہنگی و جذبی کیفیت سے اسلوب میں تیکھا پن اور بلندی پیدا ہوتی ہے اور کچھ افسانوں میں علامتی سطحوں کے تصادم سے علامتی اسلوب خلق ہوا ہے اور نقطۂ نگاہ کے تصادم سے اشاریت کا اسلوب تخلیق ہوا ہے۔ یہ تمام اسلوبیات اپنی جگہ نہایت اہم ہیں۔ شکیل الرحمن نے متعدد مثالوں سے ان اسلوبیات کا فرق واضح کیا ہے۔ افسانہ ’’بڑے بابو‘‘ میں پریم چند فرماتے ہیں :
’’کرۂ خاکی نے کرۂ آتشیں کا طواف پورا کر لیا۔
’’بڑے بابو‘‘ میں مہر نیم روز کی تابش، تجلی اور حرارت تھی۔‘‘
اسی طرح دوسرے افسانوں سے متعدد مثالیں دی گئی ہیں۔ خانہ داماد کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں :
’’اس کی بچپن کی یاد روشن ستاروں کی طرح جگمگا اٹھی۔‘‘
غرض پریم چند کے افسانوں میں موجود اسالیب بیان پر مکمل تبصرہ اور توضیح کی گئی ہے جن میں مختلف تشبیہیں، استعارے اور لطیف اشارے پائے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان الفاظ میں شکیل الرحمن نے فضا نگاری اور منظر نگاری کا علامتی رنگ محسوس کیا ہے لیکن مجموعی طور پر ان کو محاورات کی کمی معلوم ہوتی ہے حالانکہ محاورات سے خصوصاً ہندی کے برمحل استعمال سے نثر ی اسلوب میں بے ساختگی کا ادراک ہوا ہے۔
شخصیت
اپنی زندگی کے بارے میں پریم چند نے لکھا تھا کہ میری زندگی ہموار میدان کی طرح ہے مگر شکیل الرحمن تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔ چونکہ بچپن میں ماں سے محرومی، غربت اور سوتیلی ماں کی آمد، پہلی ناپسند شادی، گھر کا المیہ تنگ دستی، بیوی کی موجودگی میں کسی سے ناکام محبت، امتحان میں ناکامی، نوکری سے استعفیٰ یہ تمام باتیں تھیں جن کی تشریح کے ذریعہ شکیل الرحمن نے ثابت کیا ہے کہ ان کی زندگی ہموار تو کبھی تھی ہی نہیں۔ چنانچہ تنہائی کا احساس، ہیرو پسندی، گریز، تشنگی وغیرہ کے عنوانات کے تحت انہوں نے اپنے خیال کی تائید کر دی ہے بلکہ پوری زندگی کا تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔
عام طور پر پریم چند کو دیہات کی زندگی کا عکاس بلکہ علم بردار سمجھا جاتا ہے لیکن شکیل الرحمن نے اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کیا ہے کہ ان کی زندگی دوران ملازمت گورکھ پور، کان پور، بنارس، الہ آباد اور واردھا وغیرہ میں گزری۔ ڈپٹی انسپکٹر مدارس مہوبہ (ضلع ہمیر پور) بھی رہے۔ اس وقت دیہات جانے اور وہاں کے غریب کسانوں کے قریب رہنے کا موقع ملا لہٰذا بچپن اور شعور دونوں وقتوں کے اشتراک سے ان کے ذہن کی تخلیق ہوئی۔ اس طرح کی وضاحتوں اور نتائج کے ذریعے شکیل الرحمن نے پریم چند شناسی کی ایک نئی اور منفرد دنیا بسائی ہے۔ ان کے افکار اور نتائج یقیناً نئے اور اہم ہیں۔ ہم انہیں محض تاثراتی تنقید کہہ کر سبک دوش نہیں ہو سکتے بلکہ ایک محقق کی طرح انہوں نے دلائل و براہین سے اپنے نتائج و خیالات کو مستحکم کیا ہے۔ ویسے بھی پریم چند جیسے بڑے فن کار اور ادیب پر جتنی خامہ فرسائی اور تحقیق و تنقید ہونا چاہئے تھی، وہ اردو تو کیا ہندی میں بھی نہیں ہو سکی۔ اس کی وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ پریم چند پر خاطر خواہ کام نہ ہونے سے خود اردو ہندی دونوں زبانوں کا زبردست نقصان ہوا۔ اب شکیل الرحمن کا یہ تنقیدی کارنامہ نئے محققین اور نقادوں اور ادب کے سنجیدہ طالب علموں کے لیے مشعل راہ کا کام دے گا۔